از: مولانا نجم الحسن صاحب
ناظم خانقاہ امدادیہ تھانہ بھون
سلوک وتصوف ہمارے اکابر کی سرگرمیوں اورمحنتوں کا نہایت اہم حصہ رہا ہے؛ لیکن اس لائن سے درآنے والی خرابیوں کی اصلاح پر بھی حضرات اکابر نے بڑی توجہ دی ہے، اس وقت افسوس ناک صورتِ حال یہ ہے کہ جن چیزوں کی اصلاح پر ہمارے اکابر نے عمریں کھپادیں انھیں کے نام لیوا اپنی سادہ لوحی یا ذاتی وقتی مفاد کی خاطر پھر انھیں چیزوں کو ہوا دے کر نئے فتنوں کو جنم دے رہے ہیں ۔
شاعر مشرق نے اس کی منظر کشی اس طرح کی ہے:
مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت
کرلے کہیں منزل تو گذرتا ہے بہت جلد
تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مریدی کا تو ہَرتا ہے بہت جلد
تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگادے
یہ شاخ نشیمن سے اُترتا ہے بہت جلد
والد صاحب سے کئی مرتبہ سنا کہ جس وقت حضرت گنگوہیؒ پہلی مرتبہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ کے مزار پر فاتحہ کے لیے تشریف لے گئے تو دیکھا کہ مزار سے متصل کچھ اینٹیں رکھی ہوئی تھیں آپ احاطہ سے باہر رک گئے اور دریافت فرمایا کہ یہ اینٹیں کیسی رکھی ہوئی ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ ان کو فاتحہ پڑھنے والوں کی راحت وسہولت کے لیے مزار سے متصل بچھا دیں گے۔ فوراً تغیر ہوگیا اور فرمایا کہ جب تک ایک ایک اینٹ احاطہ سے باہر نہیں ہوجائے گی میں اندر نہیں آئوں گا، چنانچہ چند لمحوں میں خدام نے اینٹیں احاطہ سے باہر کردیں تب حضرت اندر تشریف لے گئے اور فاتحہ پڑھی، اس کے بعد فرمایا کہ بھائی یہ جو کلیر اوراجمیر میں تم دیکھ رہے ہو یہ سب ایک دم سے ایسا نہیں ہوگیا اس کی ابتداء اسی طرح ہوئی ہے: آج اینٹیں بچھائیں گے، کل چہاردیواری ہوگی، پھر قُبّہ بنے گا، چادریں چڑھیں گی؛ بدعات اسی طرح شروع ہوتی ہیں ۔
خود حضرت حکیم الامتؒ نے اپنی خانقاہ کو جانشینی کی رسم سے پاک رکھنے کی ہدایت فرمائی کہ جگہ کو اصل نہ بنایا جائے ع
نشہ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے
اس سلسلہ میں حضرت حکیم الامت نے مستقل رسالہ ’’تحفۃ الشیوخ‘‘ تحریر فرمایا، آپ فرماتے تھے کہ ایک خانقاہ کے باقی نہ رہنے کا افسوس نہ کیا جائے۔ ۷۰ خانقاہیں آبادہوں گی جن لوگوں کو میں نے اجازت دی ہے وہ اپنی اپنی جگہ رہ کر کام کریں جہاں گڑ ہوگا مکھی خود بخود آئے گی۔
یہ تھی دوراندیشی اور بے نفسی تواضع اور للہیت خود اپنے عمل سے مثال قائم فرماگئے، کیسی احتیاط تھی؟ اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے، سب کو معلوم ہے کہ اس وقت کی تقریباً تمام مرکزی شخصیات حضرت حکیم الامتؒ کے دامنِ عقیدت سے وابستہ تھیں حضرت چاہتے تو تھانہ بھون مرکز بن جاتا؛ لیکن ہدایت فرمادی کہ یہاں کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جس سے دارالعلوم اور مظاہرالعلوم کی مرکزیت کو ٹھیس پہنچے، بڑی کتابیں بڑے چندے بڑے مدرسوں کا حق ہیں ، ان مراکز دینیہ کی مرکزیت حضرت کو بے حد عزیز تھی وہ مسلمانوں کے انتشار کا ایک بڑا سبب ان کی مرکزیت کا فقدان گردانتے تھے اس لیے جس درجہ میں جہاں مرکزیت تھی وہ اس کو غنیمت سمجھتے تھے۔
دیکھنے میں آرہاہے کہ دیکھا دیکھی دن تاریخ اور وقت کی تعیین کے ساتھ مجالس ذکر، مجالس درود اور مجالس دعائے جہری کا اہتمام اور تداعی کا التزام دن بدن زور پکڑرہا ہے، جب کہ مستحب عبادات کے لیے اجتماع اور تداعی کو فقہائے کرام نے منع فرمایا ہے، خانقاہوں کا اصل مقصد تزکیۂ باطن اور تہذیب اخلاق تو فوت ہوگیارسمی اعمال کی بھرمار ہورہی ہے، کچھ وظائف اور ذکر واذکار بتادیے، خوابوں کی تعبیر بتادی اور مذکورہ بالا مجالس منعقد کرلیں ، سارا زور کیفیات، مکاشفات، منامات اور کرامات پر رہتا ہے اعمال واخلاق کی درستگی کی کوئی فکر نہیں ؛ بلکہ سچی بات یہ ہے کہ ان میں مصلح بننے کی صلاحیت ہی نہیں ، الا ماشاء اللہ۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کو حق تعالیٰ نے بہت سی خوبیوں اور اوصاف وکمالات کے ساتھ احوال الناس کا امتیازی علم عطا فرمایاتھا دین کے ہر رخنہ پر نظر اور اس کے تدارک اوراصلاح کی حکیمانہ تدبیریں ودیعت فرمائی تھیں جن سے آپ نے خوب خوب کام لیا اور ہر موقع پر امت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا، آپ نے جس طرح شریعت ظاہرہ کو جہالت و ضلالت کی تاریکیوں سے نکالنے کاکام انجام دیا اسی طرح طریقت باطنہ کو افراط وتفریط کی بھول بھلیوں سے نجات دلائی، طریقت کہ جو ایک زمانے سے محض چند رسوم کا مجموعہ ہوکر رہ گئی تھی اور جس کی اصل حقیقت مستور ہوچکی تھی حشو وزوائد سے پاک کرکے سلف صالحین کے رنگ پر لاکھڑا کیا جاہل پیروں اور دوکاندار صوفیوں کی پیدا کردہ غلط فہمیوں اور من گھڑت عقیدوں کی اصلاح فرمائی جو شریعت اور طریقت کو دو چیزیں سمجھتے اور سمجھاتے رہے آپ نے اپنے مواعظ وملفوظات اور عام مجالس میں عقائد عبادات کی اہمیت کے ساتھ ساتھ اخلاق ومعاملات اور عملی زندگی کے کاروبار کی صحت پر بے حد زور دیا ہے آپ نے تمام عمر یہی تلقین فرمائی کہ طریقت عین شریعت ہے، احکام الٰہی کی باخلاص تمام تعمیل وتکمیل کا ہی نام طریقت ہے باقی سب ہیچ ہے۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے یہاں اجتماعی معمولات تھے ہی نہیں ہر شخص کے لیے اس کے حسب حال نسخہ تجویز ہوتا تھا اور وہ اپنے معمولات اپنے اپنے حجروں میں پورا کرتا، سالکین کے لیے خانقاہ میں تقریباً ۵۰ حجرے تھے، تہجد کے وقت خانقاہ کی ایسی کیفیت ہوتی تھی جیسے شہد کے چھتے پر شہد کی مکھیوں کی بھن بھناہٹ ہوتی ہے، کسی قسم کا شور وغل نہ ہوتا، ظہر وعصر کے درمیان اصلاحی مجلس عام منعقد ہوتی، اس میں نووارد ملاقات کرتے ہر شخص کو کوئی بات دریافت کرنے یا حاجت وضرورت پیش کرنے کی اجازت ہوتی، اسی وقت حضرت والا خطوط کے جوابات تحریر فرماتے، اہل حاجت کے لیے تعویذ لکھتے، ساتھ ساتھ تربیتی ملفوظات ہوتے رہتے۔
————————————————–
دارالعلوم ، شمارہ :10-11، جلد:104، صفر- ربیع الثانی 1442ھ مطابق اكتوبر – نومبر2020ء
٭ ٭ ٭