حضرت مولانا معزالدین گونڈوی نوراﷲ مرقدہٗ 

مخلص دوست اور ملت اسلامیہ کا قیمتی سرمایہ

از:حضرت مولانا مفتی ریاست علی قاسمی رام پوری

 استاذ حدیث و مفتی جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد، امروہہ

            ’’کروناوائرس‘‘ کی عام وباء کی زد میں امت کا قیمتی سرمایہ کا فی مقدار میں ضائع ہوچکا ہے جن میں کبار علماء، محدثین عظام، مشائخ طریقت، اصحاف افتاء، عظیم مصنّفین اور ملت کے لیے کثیر المنفعت لوگ شامل ہیں اور یہ سلسلہ کب تک چلے گا، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ خدائے علام الغیوب ہی اس راز اور حقیقت سے واقف ہے، اﷲ تعالیٰ سبھی رخصت پذیر  اکابر علماء اور مشائخ طریقت کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے سرفراز فرمائے اور امت مسلمہ کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔(آمین)

            انہی قیمتی اور نفع بخش لوگوں میں ہمارے مخلص و معاون دوست، ملت اسلامیہ کی فعال و مفید شخصیت اور امت کا قیمتی سرمایہ حضرت مولانا معزالدین صاحب قاسمی گونڈوی نوراﷲ مرقدہٗ کی ذاتِ گرامی بھی ہے جو بروز اتوار صبح تقریباً گیارہ بجے، بے شمار لوگوں کو سوگوار چھوڑ کر اپنے مالک حقیقی کی بارگاہ میں پہنچ گئے۔ انا ﷲ و اناالیہ راجعون۔ موصوف کا مختصر تذکرہ درج ذیل سطور میں کیا جارہا ہے۔

نام و نسب، وطن اور ولادت

            آپ کا اسم گرامی: معزالدین اور والد محترم کا نام: حضرت مولانا عبدالحمید صاحب قاسمی مدظلہ العالی اور دادا کا نام: ضیاء اﷲ مرحوم ہے۔ موضع دتلوپور ڈاکخانہ سرائے خاص، تھانہ سعداﷲ نگر، تحصیل اترولہ، سابق ضلع گونڈہ اور موجودہ ضلع بلرامپور، صوبہ اتر پردیش آپ کا وطن اصلی، جائے پیدائش اور جائے سکونت ہے۔ اسی موضع دتلوپور میں ۳؍مارچ ۱۹۶۳ء (آپ کے والد محترم کے بیان اور آدھار کارڈ کے مطابق)کو آپ کی پیدائش ہوئی۔

تعلیم و تربیت

            تعلیم کی ابتداء اپنے وطن دتلوپور سے ہوئی، کچھ عرصہ اترولہ اور ایٹا تھوک میں بھی قیام رہا۔ اس کے بعد مدرسہ فرقانیہ گونڈہ میں داخل ہوکر حفظ قرآن کی تکمیل فرمائی۔ آپ کے تحفیظ القرآن کے استاذ مشہور صاحب نسبت بزرگ حافظ محمد اقبال صاحب نوراﷲمرقدہٗ ہیں ۔ ابتدائی عربی تعلیم کے لیے مدرسہ امدادیہ مرادآباد، مدرسہ نورالعلوم ہرہرپور پرتاپ گڑھ میں مختصر قیام رہا۔ اس کے بعد مدرسہ جامع العلوم کانپور میں داخلہ لے کر چار سال قیام فرمایا اور فارسی و عربی کے اتبدائی چار سالہ نصاب کی تکمیل فرمائی۔

دارالعلوم دیوبند میں داخلہ

            شوال ۱۴۰۱ھ مطابق ۱۹۸۱ء میں سال پنجم عربی میں آپ نے دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور اپنی محنت و جفاکشی، لیاقت و استعداد، ذہانت و فطانت اور اسباق میں پابندی، تعلیمی سرگرمیوں میں انہماک، اطاعت شعاری اور دیگر متعدد اوصاف کی وجہ سے اپنے اساتذہ کرام کی نگاہوں میں محبوبیت کا مقام بنا لیا تھا جو رفتہ رفتہ مضاعف ہوتا چلا گیا۔ شوال ۱۴۰۵ھ تا شعبان ۱۴۰۶ھ مطابق ۸۶-۱۹۸۵ء آپ کا دورۂ حدیث شریف کا سال ہے، گویا شعبان ۱۴۰۶ھ دورۂ حدیث شریف کی کتابیں پڑھ کر آپ دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل قرار دئے گئے۔ اپنی محنت و اعلیٰ استعداد کی وجہ سے ہمیشہ ہی اعلیٰ نمبرات سے تمام امتحانات میں کامیاب ہوتے رہے۔ دورۂ حدیث شریف کے سالانہ امتحان میں آپ دوسری پوزیشن سے کامیاب قرار دئے گئے۔ جو طلبہ دارالعلوم دیوبند کے لیے بلاشبہ ایک امتیازی تمغہ ہے۔ دارالعلوم دیوبند قیام کے دوران آپ کا محبوب مشغلہ مطالعہ و کتب بینی، نادر و نایاب کتب کی خریداری اور اپنے احباب کو اس کی جانب توجہ دلانا، مدنی دارالمطالعہ کی مکمل نگرانی، عصر کے بعد دارالمطالعہ کی لائبریری کھولنا اور طلبہ سے ہر ہفتہ کتابیں واپس لینا اور نئی مطلوبہ کتاب ان کے نام پر درج کرکے دینا اور تمام کتابوں کا سلیقہ سے رکھنا، ہفتہ میں جمعہ کے دن مدنی دارالمطالعہ سے وابستہ طلبہ کے تقریری پروگراموں کو مرتب کرنا اور ان کی مکمل دلچسپی سے نگرانی کرنا، سالانہ خصوصی اجتماعات کا اہتمام کرنا اور ان اجتماعات میں احاطہ دارالعلوم سے باہر کی کسی مشہور علمی و عرفانی شخصیت کو مدعو کرکے ان کے بیانات سے طلبہ دارالعلوم دیوبند کو استفادہ کا موقع فراہم کرنا وغیرہ شامل ہے۔

اساتذہ دارالعلوم

            موصوف نے دارالعلوم دیوبند میں جن نابغہ روزگار و عبقری شخصیات سے اکتساب فیض کیا ان میں دورۂ حدیث شریف کے اساتذہ کرام میں حضرت مولانا نصیر احمد خاں صاحب نوراﷲ مرقدہٗ، حضرت مولانا عبدالحق صاحب اعظمی نوراﷲ مرقدہٗ، دونوں حضرات سے موصوف نے علی الترتیب بخاری شریف جلد اول و جلد ثانی پڑھی۔ حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوریؒ سے ترمذی شریف جلد اول اور طحاوی شریف پڑھی۔ حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ سے مشکوٰۃ شریف جلد ثانی اور ترمذی شریف جلد ثانی پڑھی۔ حضرت مولانا نعمت اﷲ صاحب اعظمیؒ سے مسلم شریف جلد اول، مؤطا امام محمد اور شمائل ترمذی کا آخری حصہ پڑھا۔ حضرت مولانا قمرالدین گورکھ پوری مدظلہ سے مسلم شریف جلد ثانی پڑھی۔ حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوریؒ سے ابن ماجہ شریف ، مشکوٰۃ شریف جلد اول پڑھی اور حضرت مولانا محمد حسین صاحب عرف ملا بہاریؒ سے ابوداؤد شریف کی دونوں جلدیں پڑھیں ۔ حضرت مولانا زبیر احمد صاحب دیوبندی سے نسائی شریف اور حضرت مولانا عبدالخالق صاحب مدارسی مدظلہ سے شمائل ترمذی کا ابتدائی حصہ پڑھا ۔سالِ ہفتم میں حضرت مولانا سید ارشد مدنی دامت برکاتہم کی علالت کی وجہ سے مشکوٰۃ شریف جلد ثانی کا کچھ حصہ حضرت مولانا مفتی حبیب الرحمن صاحب خیرآبادی مفتی دارالعلوم دیوبند سے پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ دیگر اساتذئہ کرام میں حضرت مولانا قاری محمد عثمان صاحب منصورپوری مدظلہ، حضرت مولانا عبدالخالق صاحب سنبھلی مدظلہ، حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب سنبھلیؒ، حضرت مولانا مجیب اﷲ صاحب گونڈوی، حضرت مولانا لقمان الحق صاحب بجنوریؒ وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ دارالعلوم دیوبند کے سبھی اساتذہ کرام آپ کی اعلیٰ استعداد، ذہانت و فطانت اور حصول علم میں محنت و جفاکشی، مطالعہ کتب بینی اور اسباق کی پابندی کی وجہ سے بے حد محبت کرتے تھے اور سبھی کی عظمت و احترام آپ کے قلب میں تھی مگر سب سے زیادہ تعلق آپ کو حضرت الاستاذ مولانا قاری محمد عثمان صاحب منصورپوری مدظلہ سے تھا اور تادم حیات وہ تعلق قائم رہا۔ حضرت قاری صاحب مدظلہ کے گھر کے ایک فرد کی طرح آپ کی وابستگی زندگی کی آخری سانس تک باقی رہی۔ حضرت قاری صاحب کے دونوں فرزندان مولانا مفتی محمدسلمان صاحب منصورپوری، مولانا مفتی محمد عفان صاحب منصورپوری آپ کو اپنا بڑا بھائی تصور کرتے تھے اور مرحوم بھی دونوں کے ساتھ بڑے بھائی ہی کا کردار ادا کرتے تھے۔ بلاشبہ حضرت قاری صاحب مدظلہ کے لیے مرحوم کی وفات ایک بڑا حادثہ ہے۔ اﷲتعالیٰ حضرت قاری صاحب مدظلہ اور ان کے خانوادہ کو بھی صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین

دارالعلوم دیوبند میں معین مدرسی

            دورۂ حدیث شریف سے فراغت کے بعد ارباب دارالعلوم نے شوال ۱۴۰۶ھ میں آپ کو معین مدرسی کے لیے منتخب کر لیا جو ان کا استحقاق تھا کیونکہ اس دور میں دورۂ حدیث شریف میں اول و دوم پوزیشن لانے والے طلبہ کو ہی یہ سعادت حاصل ہوتی تھی اور ان کو اپنے مادر علمی میں دو سال کے لیے معین مدرسی کا موقع دیا جاتا تھا، چنانچہ رب العالمین نے آپ کو یہ سعادت عطا فرمائی اور آپ کو اپنے مادر علمی میں تدریسی خدمات کا موقع میسر آیا مگر یہ سلسلہ ایک سال سے زیادہ نہ چل سکا جس کی وجوہات آئندہ سطور میں بیان کی جائے گی۔

عالمی اجلاس تحفظ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند میں مولانا کی محنت

            جس سال آپ معین مدرس کی حیثیت سے دارالعلوم دیوبند میں تدریسی خدمات کی انجام دہی میں مصروف تھے، اس سال مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم دیوبند کی انتظامیہ نے مرزائیت اور قادیانیت کے سدباب اور اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے دارالعلوم دیوبند میں عالمی اجلاس تحفظ ختم نبوت منعقد کرنے کا فیصلہ کیا اور حضرت الاستاذ حضرت مولانا قاری محمد عثمان صاحب منصورپوری دامت برکاتہم صدر جمعیۃ علماء ہند و استاذ دارالعلوم دیوبند کو اس اجلاس کا کنوینر بنایا گیا اور حضرت الاستاذ دامت برکاتہم نے اس اجلاس کو کامیاب بنانے کے لیے شب و روز محنت فرمائی تو حضرت الاستاذ کے معاون کے طور پر آپ نے اپنی خدمات پیش فرمائیں ، اجلاس سے قبل اجلاس کی تیاری کے سلسلہ میں تمام انتظامات اور دوران اجلاس کے انتظامات اور اجلاس کے بعد دفتر تحفظ ختم نبوت کی دیکھ ریکھ کے سلسلہ میں آپ نے حضرت الاستاذ کو بھرپور تعاون پیش کیا اور دفتر کو مکمل نظم و نسق کے ساتھ چلایا۔

            جس سال موصوف معین مدرس تھے، اس سال احقر راقم السطور دارالعلوم دیوبند کے شعبۂ افتاء میں داخل تھا۔ موصوف سے تعارف اگرچہ دورۂ حدیث شریف کے سال ہی مدنی دارالمطالعہ سے الحاق کی وجہ سے ہوگیا، مشکوۃ شریف کے سال کوئی خاص تعارف نہیں تھا کیونکہ اس وقت احقر نیا طالب علم تھا اور ترتیب بھی علیحدہ تھی، بندہ ہفتم ثالثہ میں پڑھتا تھا اور موصوف ہفتم اولیٰ کے طالب علم تھے۔ اس سال صرف نام اور شکل کی حد تک ہی تعارف تھا؛ لیکن افتاء کے سال موصوف سے اچھی طرح تعارف ہوگیا اور اس کی وجہ عالمی اجلاس تحفظ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند بنا۔ موصوف حضرت الاستاذ حضرت مولانا قاری محمد عثمان صاحب منصورپوری دامت برکاتہم کے عالمی اجلاس کے نظم ونسق میں خصوصی معاون تھے اور حضرت الاستاذ مدظلہ نے ہمارے بعض رفقاء دارالافتاء کو بھی عالمی اجلاس کے دفتر میں کام سے لگا رکھا تھا۔ اس لیے اس زمانہ میں دفتر عالمی اجلاس میں دیر تک ساتھ رہنے اور کام کرنے کا موقع ملتا تھا؛ نیز اس سال عالمی اجلاس میں طلبہ دارالعلوم دیوبند کو ایک نشست میں تقریر اور مقالات پیش کرنے کی شکل میں شرکت کا موقع دیا گیا تھا اور بندہ نے اس اجلاس میں مقالہ نگار کی حیثیت سے شرکت کی تھی۔ اس بناء پر موصوف سے مزید تعلق قائم ہوگیا تو تادم حیات باقی رہا۔

دفتر امارت شرعیہ ہند میں تقرر

            موصوف معین مدرسی کا ایک ہی سال مکمل کر پائے تھے کہ حضرت فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنیؒ صدر جمعیۃ علماء ہند کی تحریک و تجویز اور اپنے والد محترم مولانا عبدالحمید صاحب مدظلہ کے حکم پر آپ کا تقرر دفتر امارت شرعیہ کے منتظم کی حیثیت سے عمل میں آگیا اور شوال ۱۴۰۰۷ھ میں آپ دفتر جمعیۃ علماء ہند بہادر شاہ ظفر مارگ نئی دہلی تشریف لے آئے اور تادم حیات دفتر ہی میں رہ کر مختلف عہدوں پر رہ کر کام کیا۔ اولاً عارضی طور سے ناظم امارت شرعیہ ہند کے طور پر کام کیا پھر ۱۹۹۲ء مطابق ۱۴۱۲ھ مستقل ناظم امارت شرعیہ ہند آپ کو تجویز کیا گیا، آپ کا قیام دفتر امارت شرعیہ ہند میں تقریباً ۳۵؍سال کے طویل عرصہ کو محیط ہے۔ اس طویل عرصہ میں آپ تنہا دفتر امارت شرعیہ ہند کے ذمہ دار تھے۔ محرر، ناظم، عام کارکن سب خدمات آپ ہی کے سپرد تھیں ۔ اور امارت شرعیہ ہند کے جملہ دفتری امور آپ ہی انجام دیتے تھے۔آپ نے علی الترتیب چار امراء کا زمانہ پایا۔ ابوالمآثر محدث کبیر حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمیؒ، فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنیؒ صاحب صدر جمعیۃ علماء ہند، حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحبؒ مہتمم دارالعلوم دیوبند، حضرت الاستاذ حضرت مولانا قاری محمد عثمان صاحب منصورپوری دامت برکاتہم استاذحدیث و صدر جمعیۃ علماء ہند چاروں امیر شریعت الحمدﷲ آپ کے نظم و نسق سے مطمئن اور خوش رہے اور سبھی کا اعتماد و اعتبار آپ کو حاصل رہا جو آپ کے کامیاب منتظم ہونے کی بین دلیل ہے۔ آپ نے ذمہ داران کی ہدایت پر ملک کے متعدد بڑے بڑے شہروں میں محکمۂ شرعیہ کے تربیتی کیمپ منعقد کرائے اور ابتدائی زمانہ میں حضرت مولانا شاہ عون احمد قادریؒ اور اس کے بعد ملک کے مشاہر علماء کو مدعو کرکے نوجوان علماء و فضلاء کو محکمۂ شرعیہ کے طریقہ کار کو سمجھنے اور اس کو شرعی خطوط پر چلانے کا طریقہ سیکھنے کے لیے مواقع فراہم کئے اور ملک بھر میں محاکم شرعیہ کا پھیلاہوا جال آج امارت شرعیہ ہند کے نظام کے تحت چل رہا ہے۔ آپ ملک بھر کے تمام محاکم شرعیہ کی کارکردگی پر گہری نگاہ رکھتے تھے اور اُن کی سالانہ رپورٹیں حاصل کرنے کا اہتمام کرتے تھے۔ محکمہ شرعیہ کا ضابطہ عمل اور دستور مرتب کرکے شائع فرمایا۔

مرکزی رویت ہلال کمیٹی

            امارت شرعیہ ہند کے نظام کے تحت مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی ذمہ داری بھی ذمہ داران اور ارباب حل و عقد نے آپ کو تفویض فرمائی تھی۔ آپ پوری ذمہ داری کے ساتھ ہر مہینہ کی ۲۹؍تاریخ کو رویت ہلال کمیٹی کی میٹنگ کا اہتمام کرتے تھے، اس سے ایک روز پہلے اخبارات اورسوشل میڈیا کے ذریعہ ملک کے مسلمانوں سے چاند دیکھنے کی اپیل جاری کرتے تھے اور پھر ۲۹؍تاریخ کی شام کو پورے ملک کے رویت ہلاک کمیٹیوں کے ذمہ داران سے رابطہ قائم کرکے شہادت حاصل کرتے۔ اس کے بعد مکمل شرح صدر ہونے پر رویت یا عدم رویت کا فیصلہ کرتے تھے۔ ملک کے عوام و خواص کو مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلوں کا انتظار رہتا تھا اور آپ کی جانب سے جاری کردہ فیصلہ کے بعد عموماً اختلاف رائے ختم ہوجاتا تھا۔ اگرکسی وجہ سے آپ عمرہ یا حج کے سفر پر ہوتے تھے تو کسی ذمہ دار شخص کو اپنا قائم بناکر جاتے تھے۔ بعض دفعہ یہ سعادت راقم السطور کو بھی حاصل ہوئی کہ موصوف اپنے قائم مقام کے طور پر رویت ہلال کمیٹی میں شرکت کا حکم فرماتے تھے اور احقر ہاپوڑ یا امروہہ سے پہنچ کر شرکت کی سعادت حاصل کرتا تھا۔

ادارۃالمباحث الفقہیہ کی ذمہ داری

            جمعیۃ علماء ہند نے ۱۹۶۳ء میں سید الملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب نوراﷲمرقدہٗ کی زیر نگرانی جدید فقہی مسائل پر غور و خوض اور تحقیق و تفتیش کے لیے ادارۃالمباحث الفقہیہ کے نام سے مستقل شعبہ قائم کیا تھا۔ حضرت مرحوم و مغفور کی حیات میں رویت ہلال اور بعض دیگر مسائل پر مفتیان کرام اور فقہاء کرام کے درمیان اجتماعی غور و خوض بھی ہوا پھر حضرت سید الملت کے انتقال کے بعد مذکورہ شعبہ کی کارکردگی تقریباً معدوم تھی۔ اس کے بعد ۱۹۹۰ء میں جمعیۃ علماء ہند نے اس شعبہ کو دوبارہ احیاء کرنے کا فیصلہ فرمایا اورموصوف مولانا معزالدین صاحب گونڈوی علیہ الرحمہ کو اس کا ذمہ دار اور ناظم بنایا۔ موصوف کی سرکردگی اور ارباب جمعیۃ علماء ہند کی دلچسپی کی وجہ سے اس شعبہ سے حیرت انگیز فعالیت اور نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ ہوا اور اب تک پندرہ فقہی اجتماعات ’’ادارۃ المباحث الفقہیہ‘‘ کے زیر اہتمام ملک کے مختلف حصوں میں منعقد ہوچکے ہیں جن میں ملک بھر سے ارباب فقہ و فتاویٰ اور مرکزی دارلافتاء کے ذمہ داران جدید پیش آمدہ مسائل پر غور و خوض کرکے اجتماعی فیصلہ کرتے ہیں ، اجتماعات کے انعقاد سے پہلے ایک سوالنامہ مرتب کرکے تمام فقہاء اور مفتیان کرام کی خدمت میں ارسال کیا جاتا ہے اور پھر جوابات حاصل کرکے ان کی تلخیص تیار کرائی جاتی ہے۔ اس کے بعد فقہاء کرام و مفتیان عظام کے نام دعوت نامہ مقررہ تاریخ پر حاضری کے لیے جاری کیا جاتا تھا پھر مقررہ تاریخ پر تمام حضرات جمع ہوتے تھے اور مسائل پر بحث و تمحیص ہوتی تھی۔ عموماً تین دن تک فقہی اجتماعات کی کارروائی چلتی تھی۔

            ان تمام تین روزہ قیام میں تمام مہمانوں کی ضیافت و میزبانی حسب حیثیت جمعیۃ علماء یا میزبان داعی کی طرف سے ہوتی تھی اور تمام مہمانوں کی رہائش اور سہولت کا بھرپور نظم رہتا تھا۔ ان تمام امور میں مولانا معزالدین صاحبؒ کی ذات تنہا فعال نظر آتی تھی اور مکمل ادارہ آپ ہی کی زیر نگرانی کام کرتا تھا گویا ایک عظیم ادارہ جو ایک ذمہ دار عملہ کا متقاضی تھااس کو صرف ایک فرد انجام دیتا تھا۔ کسی صاحب قلم نے بالکل صحیح اور برمحل لکھا ہے کہ موصوف اس دور کے جمعیۃ علماء ہند مولانا سید محمدمیاں تھے اور عجیب حسن اتفاق کہ موصوف کی آخری آرام گاہ بھی دہلی کا وہی قبرستان بنا جہاں سیدالملت مولانا سید محمد میاں دیوبندی نوراﷲ مرقدہ آرام فرما ہیں یعنی جمعیۃ علماء ہند کے مرکزی دفتر سے متصل انڈیا گیٹ کے قبرستان میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔

جمعیۃ علماء ہند سے متعلق آپ کی سرگرمیاں

            اس کے علاوہ جمعیۃ علماء ہند کا موجودہ دور میں آپ دماغ تھے۔ جمعیۃ علماء ہند کی تاریخ اور اس کی تمام کارروائیوں پر آپ کی نگاہ تھی، انہوں نے جمعیۃ علماء ہند کی تاریخ اور اس کی تمام سرگرمیوں کو باربار باریک بینی کے ساتھ پڑھا تھا اور جمعیۃ علماء ہند سے متعلق ان کی گفتگو سند ہوتی تھی۔ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے منعقد ہونے والے تمام پروگراموں اور اجلاس عام میں ان کا اہم کردار ہوتا تھا اور ان کا ایک دماغ تمام ہی گوشوں کا احاطہ کرتا تھا۔ صدسالہ تقریبات کے سلسلہ میں جمعیۃ علماء ہند کی ابتدائی بنیادی مرکزی شخصیات پر سیمیناروں کا انعقاد و موصوف کی فکر صالح کا نتیجہ تھا جس کو جمعیۃ علماء ہند کے مرکزی قائدین اور اراکین عاملہ نے منظوری دی او ربعض اہم شخصیات مثلاً ابوالمحاسن حضرت مولانا محمد سجاد صاحب بہاری نوراﷲ مرقدہٗ، سید الملت مولانا سید محمد میاں صاحب دیوبندیؒ، حضرت مولانا قیام الدین عبدالباری صاحب فرنگی محلیؒ، سحبان الہند حضرت مولانا احمد سعید صاحب دہلویؒ، ابوالماثر حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب محدث اعظمیؒ کی شخصیت پر سیمیناروں کا انعقاد بھی ہوچکا ہے جبکہ بعض مرکزی شخصیات پر سیمیناروں کا انعقاد باقی ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کے مرکزی قائدین امیرالہند حضرت مولانا قاری محمد عثمان صاحب منصورپوری دامت برکاتہم، صدر جمعیۃ علماء ہند اور قائد ملت حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی دامت برکاتہم ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند کو موصوف کی ذات پر بھرپور اعتماد تھا بلکہ جمعیۃ علماء ہند کی پوری قیادت اور اراکین مجلس عاملہ آپ کو جمعیۃ علماء ہند کا دماغ اور جمعیۃ علماء ہند کے لیے انتہائی مفید اور ضروری سمجھتے تھے۔ آج موصوف جوار رحمت الٰہی میں پہنچ گئے اور جمعیۃ علماء ہند عرصہ دراز تک موصوف کی خدمات کو یاد کرے گی اور موصوف کا بدل تلاش کرنا انتہائی دشوار اور مشکل ہوگا۔ اﷲ تعالیٰ امارت شرعیہ ہند اور جمعیۃ علماء ہند دونوں کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائے۔

            مذکورہ تمام اوصاف و کمالات کے ساتھ آپ عصر حاضر کے علماء و فقہاء اور اصحاب قلم کے لیے بھی مرجع شخصیت تھے۔ بے شمار لوگوں کی رہنمائی کرنا موصوف کا روزمرہ کامشغلہ تھا۔ آپ کی قیام گاہ کا کمرہ صرف قیام گاہ ہی نہیں تھا بلکہ انتہائی مفید اور قیمتی کتابوں کا بحرذخّار تھا۔ ہر موضوع سے متعلق انتہائی اہم کتابیں آپ نے اپنے ذاتی کتب خانہ میں جمع کررکھی تھیں جو بوقت ضرورت اہل علم کے کام آتی تھیں ۔ علمی کاموں میں مصروف اپنے رفقاء درس اور معاصرین کی بھرپور رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ ان کو کام کے لیے موضوع کا انتخاب کرتے تھے پھر مآخذ کی جانب رہنمائی کرتے تھے پھر کوئی ساتھی کام کرکے لاتا تھا تو اس کی طباعت و اشاعت میں بھی بھرپور دلچسپی لیتے تھے۔ اسی طرح ہندوستان بھر کے اکابرین اور علماء کرام اپنی مصنفات و مؤلفات کی طباعت کے لیے آپ سے رابطہ کرتے تھے اور ان کی خدمت اور ضرورت کی تکمیل کو آپ اپنا ملی فریضہ تصور کرتے تھے۔ انتہائی سستے داموں پر عمدہ طباعت کرکے ان کی کتابوں کو ان کی خدمت میں روانہ فرماتے تھے۔ آج ملک بھر کے اصحاب قلم اور ارباب تصنیف علماء کرام آپ کی رحلت پر سوگوار ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ موصوف و مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے۔ آمین

علالت اور وفات

            آپ کافی عرصہ سے شوگر جیسے مہلک مرض میں گرفتار تھے، کافی حد تک علاج اور پرہیز بھی کرتے تھے۔ صحت کافی گر چکی تھی۔ اس کے باوجود تمام ذمہ داریاں اور کارہائے مفوضہ پوری ذمہ داری کے ساتھ انجام دیتے رہے۔ لاک ڈاؤن میں باربار فون پر گفتگو ہوتی تھی، ماہ رمضان المبارک میں کئی بار تفصیل سے گفتگو ہوئی، میرے بے تکلف دوست اور ساتھی تھے۔ اس لیے لمبی باتیں کرتے تھے، ضروری امور میں مشورہ بھی دیتے تھے اور مشورہ کرتے بھی تھے۔ ماہ رمضان المبارک کے بعد بھی کئی مرتبہ گفتگو ہوئی۔ عیدالاضحی کے موقع پر وطن جانے سے پہلے بھی کافی دیر تک گفتگو ہوئی اور اپنے اکلوتے معصوم فرزند کی تعلیم کی طرف سے انتہائی فکرمند تھے۔ آخری مرتبہ ۲۹؍ذی الحجہ ۱۴۴۱ھ کو ماہ محرم الحرام کے چاند کی رویت کے بارے میں ہوئی اور ہر مرتبہ گفتگو سے ضعف و نقاہت کا احساس ہوتا تھا ۔ ملاقات پر کہتے بھی تھے کہ اب زندگی زیادہ نہیں معلوم ہورہی ہے۔ شاید اب وقت آخر قریب ہے۔ بالآخر وقت موعود آپہنچا۔ ایک ہفتہ قبل آپ کی شوگر میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا۔  میکس ہسپتال دہلی میں داخل کرایا گیا اور دس روز کی علالت کے بعد ۲۴؍محرم الحرام ۱۴۴۲ھ بروز اتوار مطابق ۱۳؍ستمبر ۲۰۲۰ء تقریباً گیارہ بجے صبح آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی اور آپ اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔

نماز جنازہ اور تدفین

            جنازہ ۲۵؍محرم ۱۴۴۲ھ مطابق ۱۴؍اکتوبر ۲۰۲۰ء بروز پیر صبح آٹھ بجے ہسپتال سے لایا گیا پھر غسل اور تجہیز و تکفین کے بعد مسجد عبدالنبی دفتر جمعیۃ علماء ہند بہادر شاہ ظفر مارگ نئی دہلی کے احاطہ میں امیرالہند حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصورپوری دامت برکاتہم صدر جمعیۃ علماء ہند و استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند نے نماز جنازہ پڑھائی۔ نماز جنازہ میں دفتر کے کارکنان مرحوم کے والد محترم اور برادران کے علاوہ دہلی اور مغربی یوپی کے جماعتی احباب نے کثیر تعداد میں شرکت فرمائی۔ نماز جنازہ کے بعد مسجد عبدالنبی سے متصل انڈیا گیٹ قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ وبائی امراض کی وجہ سے بے شمار لوگوں کو نماز جنازہ میں شرکت سے روک دیا گیا تھا ورنہ کثیر تعداد میں عوام و خواص نمازہ جنازہ اور تدفین میں شرکت کے متمنی تھے۔

پسماندگان

            مرحوم کے پسماندگان میں اہلیہ محترمہ، ایک دختر، ایک فرزند ابوبکر کے علاوہ والدین محترمین، برادران گرامی قدر اور ہمشیرہ ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ سبھی پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے! آمین

————————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ :10-11،    جلد:104‏،  صفر- ربیع الثانی 1442ھ مطابق اكتوبر – نومبر2020ء

٭           ٭           ٭

Related Posts