حضرت اقدس مفتی سعیداحمد پالن پوریؒ کے آخری چند ایام:

تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی

بہ قلم: ڈاکٹرمولانااشتیاق احمد قاسمی

مدرس دارالعلوم دیوبند

            گرامی قدر محسن ومربی حضرت الاستاذ مفتی سعیداحمد پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت پر پچیس دن گزر گئے؛ مگر اپنی طبیعت بحال نہیں پارہا ہوں ، وقفے وقفے سے یاد آتی رہتی ہے اور طبیعت بے چین ہوجاتی ہے، کبھی آنسو نکل آتے ہیں ، کبھی بلکتے ہوے سربھاری ہوجاتاہے، کبھی نیندمیں ہی رونے لگتا ہوں اور دل کا بوجھ ہلکانہیں ہوپا رہا ہے، نہیں لگتا تھا کہ ممبئی کا یہ سفر ملکِ عدم کا سفر ہے اور اب کبھی نہیں آئیں گے، میں نے کہا تھا کہ اسباق بند ہوگئے ہیں خدمت کے لیے میں آپ کے ساتھ جانا چاہتاہوں ؛ مگر اس کے لیے راضی نہ ہوے، ’’موت کا ایک دن معین ہے‘‘ اس پرایمان ہے؛ لیکن حضرت الاستاذ کی رحلت عجیب ادا سے ہوئی۔؎

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی   ٭        ایک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا

            ایسی حالت میں کیا لکھوں ، ذہن، حواس اور قلم سب پر بے کیفی طاری ہے، حضرت مدیر محترم مولانا محمد سلمان بجنوری دامت برکاتہم کا حکم ہوا کہ ’’علالت اورآخری ایام کی تفصیلات سپرد قلم کرو‘‘! سوچا کہ شاید اسی طرح غم ہلکا ہوجائے کاغذ قلم لے کر بیٹھ گیا، بیٹھتے ہی دل بیٹھنے لگا، آنسو ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے، وضوکیا، پھر بیٹھا؛ لیکن لکھ نہ سکا تو بیٹی کو سبق پڑھانے لگا، پھر آکر بیٹھا لکھ رہا ہوں ، قارئین سے بے ربطی اور بے ہنگم تعبیرات کے لیے معذرت خواہ ہوں ، بہت سے شاگردوں نے کہا: اپنے عزیز وقریب کی رحلت پر بھی ہمیں اتنا غم نہ ہوا اور نہ ہم اس قدر دل گرفتہ ہوئے جتنا کہ حضرت الاستاذؒ کی رحلت پرہورہے ہیں ۔

            رجب کا مہینہ اسباق میں زیادہ انہماک کا ہوتا ہے، کئی دن سے ملاقات کے لیے خدمت میں حاضر نہ ہوسکا تھا، ۱۶؍رجب المرجب ۱۴۴۱ھ مطابق ۱۲؍مارچ ۲۰۲۰ء روز پنج شنبہ کو’’مسجد رشید‘‘ کے تہہ خانے میں سالانہ انعامی جلسہ تھا، حضرت مولانا محمد سلمان صاحب مدظلہ ناظم جلسہ تھے، بڑے ہی ادب واحترام سے حضرت شیخ الحدیث وصدرالمدرسین کو دعوتِ اسٹیج دی، حسبِ روایت حضرت کرسی پر تشریف فرماہوے، طلبۂ کرام کے لیے تشجیعی بیان شروع فرمایا، پندرہ بیس منٹ کے بعد محسوس ہوا کہ زبان رک رہی ہے، رک کر اپنی عادت کے مطابق ’’اعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم‘‘ پڑھا پھر بولنے لگے، گفتگو کا سلسلہ نہیں ٹوٹا، تھوڑی دیر بعد پھر رکاوٹ ہوئی، پھر اسی طرح رک کر اعوذ باللہ الخ پڑھا پھر بیان شروع کیا اور موضوع کو پھر سے دہرایا، تھوڑی ہی دیر بعد بندش ہوئی ابکی بار سلسلۂ کلام ٹوٹ گیا پھر جب بندش ہوئی تو بات ختم کردی، آدھ پون گھنٹہ بیان ہوپایا تھا کہ کرسی سے اترکر پیچھے زینت آرائے مسند ہوے اور حضرت مہتمم صاحب سے باتیں کرنے لگے، درمیان میں کئی اساتذہ نے میری طرف دیکھا تو میں نے کہا کہ شاید دوسال پہلے کی طرح شوگر زیادہ ہوگئی ہے، اس سے پہلے جب زبان کی بندش ہوئی تھی تو شوگر پانچ سو اٹھارہ تھی اور ایک بار تو مشین میں اِیْرَرْ (شوگر کی حد بتانے سے معذرت کا اشارہ) آگیا تھا، علاج ہوا، شفایاب ہوگئے، گھر سے معلوم کیا تو بتایاگیا کہ گزشتہ کل (بدھ) سے یہ کیفیت ہورہی ہے؛ غرض یہ کہ خلافِ عادت جلسہ میں گیارہ بجے تک موجود رہے، اپنے دستِ مبارک سے انعامات بھی تقسیم فرمائے، پھر گھر تشریف لائے، مولوی محمدطفیل دربھنگوی سلّمہ ساتھ تھے، گھر سے فرزند ارجمند جناب مولانا حسین احمد صاحب ڈاکٹر کے پاس لے گئے، وہاں سے ڈھائی بجے واپس ا ٓئے، ڈاکٹر کا خیال تھاکہ شاید زبان پرلقوے کا اثر ہے، اس کے لیے رپورٹ ضروری تھی، واپس آکر ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد کھانا کھاکر سوگئے، عصر بعد طلبۂ کرام آئے؛ مگر زبان بند ی کی وجہ سے بار بار کوشش کرتے رہے؛ لیکن بات نہ کرسکے، مغرب بعد ماہنامے، رسائل وغیرہ کواٹھا اٹھاکر دیکھتے رہے، عشاء کی نماز پڑھی، تھوڑا کھانا تناول فرمایا، پھر دوا کھاکر سوئے، مگر مدتوں سے نیند بہت دیر سے آتی تھی، کبھی ایک دو بجے اور کبھی چار بجے آتی تھی، رات بھر پیروں کی جلن اور پیروں کے نیچے سے اوپر کو چڑھتے ہوے درد سے پریشان رہتے، ’’یا اللہ، اے اللہ، اے میرے مولیٰ! رحم فرما‘‘ کے جملے زبان پر ہوتے اور غالبؔ کی زبان میں ۔؎

موت کا ایک دن معین ہے    ٭        نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

            کبھی تو آنسوئوں سے رونے لگتے اور فرماتے: ’’اے اللہ! اگر آپ راضی ہیں اور بلانا چاہتے ہیں تو بلالیں اور مجھے اس تکلیف سے بچالیں !‘‘ دعائیں پڑھ پڑھ کر جھاڑتے رہتے، آرام ہوجاتا پھر نیند آتے ہی تکلیف شروع ہوجاتی، جیسے کوئی پیرہلاکر جگا دیتاہو، علامتوں سے آپ کو سحر ہونے کا بھی یقین تھا، کبھی تکیہ کے نیچے، کبھی گدّے اور مسند کے نیچے، کبھی سرہانے، کبھی پائتانے الماری کے پاس تعویذ رکھے ہوئے ملتے، کبھی ٹوپی غائب ہوجاتی، ایک بار نئی صدری اتارکر لٹکائی تھی کہ غائب ہوگئی؛  یہ کرشمے دیکھنے کو ملتے رہتے تھے، اس سے ہم لوگوں کو بھی سحر کا شبہ رہتا تھا غرض یہ کہ یہ رات بھی اسی طرح گزری، فجر کی نماز کے بعد ناشتہ کیا، پھر سوئے اور الحمدللہ نیند آئی، ساڑھے گیارہ بجے تک سوئے، اٹھنے کے بعد غسل کیا اور معمول کے مطابق ساڑھے بارہ بجے جمعہ کی نماز کے لیے امام باڑے کے قریب کی ’’محبوب‘‘ مسجد پہنچے، پھر گھر آکر کھانا کھایااور قیلولہ کے لیے لیٹے، عصر سے پہلے اٹھ کر چائے پی، کوئی کتاب اٹھاکر دیکھنے لگے، پھر نماز پڑھی، اس دن عصر بعد طلبۂ کرام کو مجلس میں بیٹھنے سے منع کردیاگیا، مغرب بعد بھی بیٹھے رہے، عشاء کی نماز کے بعد بخاری شریف پڑھانے کے لیے درس گاہ پہنچے، ساڑھے دس بجے تک سبق ہوا، زبان رکتی رہی؛ لیکن کام چل گیا، معمول سے ایک گھنٹہ پہلے ہی سبق موقوف کردیا، گھر تشریف لے آئے، پھر رات معمول کی پریشانی میں بسر ہوئی۔

            اگلے دن سنیچر کو چوتھے گھنٹے میں پڑھانے آئے، اور سبق ہوتا رہا، زبان کی بندش کبھی کھلتی، کبھی نہیں ، جب ’’باب برکۃ الغازي في مالہٖ حیًا ومیتًا مع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘ (ص۴۴۱ س۵) پر پہنچے اور سمجھانا چاہا تو زبان بالکل بند ہوگئی، بار بار’’اعوذ باللہ‘‘ پڑھنے کے بعد، کھلی تو فرمایا: یہ حدیث بڑی اہم ہے، سمجھانا ضروری ہے؛ مگر کیا کروں ؟ چھوڑو رہنے دو، آج چیک اَپ کے لیے جانا ہے؛ چنانچہ معمول سے ایک گھنٹہ پہلے ہی ساڑھے گیارہ بجے تک سبق ہوا، صاحب زادہ مولاناحسین احمد زیدمجدہ کے ساتھ دارالعلوم زکریا کے قریب ایک ڈاکٹر کے پاس گئے، سیٹی اِسکین ہوا، رپورٹ نارمل آئی کہ دماغ کی ساری رگیں درست ہیں ؛ البتہ خون کی رپورٹ میں نمک کی کمی کی بات آئی؛ مگر اس سے زبان کی بندش سمجھ میں نہیں آرہی تھی، زبان پر فالج کا خیال بھی غلط تھا۔

            عشاء بعد درس گاہ تشریف لائے، میں نے محمد طفیل سلّمہ سے کہا کہ تم میری طرف سے کہو کہ اب جو بچا ہے اُسے اپنی عادت کے مطابق درایتاً (سمجھاکر) نہ پڑھائیں ، روایتاً اور سرداً ہی پڑھا دیں ، موصوف نے عرض کیا، الحمدللہ! عرضی قبول ہوگئی، درس گاہ پہنچے، طالب علم نے عبارت پڑھنی شروع کی، سات آٹھ صفحے کے بعد اسّی فی صد زبان کھل گئی، پھر متعدد بحثوں کو سمجھایا بھی، اس طرح کتاب الجہاد ص۴۵۲ پوری ہوئی، اسی پر بارہواں پارہ بھی پورا ہوا۔ پھر اگلے دن مجھے فون کیا: کہاں ہو؟ نظر نہیں آرہے ہو تو میں نے بتایا، حضرت آسام آیاہوا ہوں ، ختم بخاری شریف کا پروگرام ہے، کل حاضر ہوجائوں گا، فرمایا: میں اِس بدعت کو ختم کررہاہوں اور تم اس میں شریک ہورہے ہو؟ میں نے کہا: حضرت! آئندہ احتیاط کروں گا، فرمایا: اچھا آئو، میں بھی ٹھیک ہوں ۔ اگلے دن شام کو پہنچا اور عشاء بعد سبق میں حاضر ہوگیا، جب ساتھ ساتھ گھر تک پہنچا تو گیارہ بج رہے تھے، مجھے اصرار کے ساتھ آرام کرنے کے لیے واپس کیا، پھرصبح ہی خدمت میں پہنچا اور ممبئی رخصت ہونے تک ساتھ میں رہا غرض یہ کہ اتوار، دوشنبہ اور سہ شنبہ چوتھے گھنٹے اور عشابعد دونوں وقت سرداً سبق ہوتا رہا، اگر زبان کام کرتی تو بولتے ورنہ خاموش سنتے رہتے، اس طرح سہ شنبہ کو دو محسن و مشفق رشتہ دار تشریف لائے ایک عمار بھائی برخوردار مولاناحسین احمد صاحب کے برادرنسبتی اور دوسرے برخوردار مولانا احمدسعید کے بردارنسبتی عبداللہ بھائی (محمد چچا کے لڑکے) تھے، جب اِن دونوں نے مغرب بعد باریابی حاصل کی تو حضرت مفتی صاحب اپنے سمدھی (محمد چچا) کو یاد کرکے رونے لگے کہ وہ بڑے اچھے بھائی تھے، وہ (۱۸؍فروری ۲۰۲۰ء منگل کو) چلے گئے، عمار بھائی نے ڈاکٹری پڑھی ہے اس شعبے کی خدمات کے لیے لوگوں کا خوب تعاون کرتے ہیں ، اگرچہ پیشے سے منسلک نہیں ہیں ، حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت بھی خوب کی، دل کے آپریشن کے بعد سے وفات تک جب بھی طبیعت ناساز ہوتی خدمت میں حاضر ہوجاتے، اس بار بھی ممبئی لے جانے کے لیے آئے تھے، تین اسباق باقی تھے، تینوں میں ساتھ ساتھ رہے، سہ شنبہ کی شام کو چودہواں پارہ پورا ہوا،اب آخری پارہ (۳۰ صفحے) باقی بچا، چوتھے گھنٹے میں دس صفحے ہوے، عشاء بعد پوراکرنے کے ارادے سے بیٹھے، صفحہ ۵۴۲ سطر۹  القسامۃ في الجاہلیۃ  سے عبارت شروع ہوئی، دارالحدیث میں بھیڑ بڑھتی گئی، جب چار یا تین صفحے بچے تو رونے لگے، بار بار رومال سے آنسو پوچھتے، بدن پر بھی رونے کا اثر ظاہر ہورہا تھا، جب آخری حدیث پر قاری پہنچا تو بے اختیار ہوکر روپڑے، طلبہ بھی رونے لگے پوری دارالحدیث سسکیوں سے گونج رہی تھی، اسی درمیان تین بار فرمایا: ’’اللہ جو چاہے گا وہ ہوگا‘‘ میں نے اپنے کو سنبھالا اور کان کے قریب ہوکر کہا: طلبہ بے قابوہورہے ہیں ، آپ اپنے کو سنبھالیں ، تو سنبھالالیا، دستی سے آنسو پوچھا، میں نے کہا: آپ ہاتھ اٹھائیں طلبہ سری دعا کرلیں گے اور میں نے عمار بھائی سے کہا: آپ تھرمس میں سے چائے لے کر پیش کریں ، ہارٹ کمزور ہے (صرف تیس پینتیس فی صد متحرک رہا کرتا تھا) میں طلبہ کو سنبھالتا ہوں ، میں نے مائک لیا، اتنے میں حضرت تخت سے اترنے لگے پھر دایاں ہاتھ ہلاکر طلبہ سے کہا: ’’بھائیو! معاف کرنا‘‘، اس پر طلبہ کے رونے کی آواز اور بلند ہوئی، غالباً: عمار بھائی نے کہا: ابّا آپ نے بہت اچھا پڑھایا (اس لیے کہ درمیان میں دو تین بار مختصر مختصر طور پر مسئلہ سمجھایاتھا، بالکل اخیر میں کچھ نصیحت اور وصیت کرنا چاہتے تھے وہ کرنہ سکے) اس پر فرمایا: ’’کیا خاک پڑھایا‘‘؟ غرض یہ کہ آہستہ آہستہ اترے، پھر چپل پہن کر باہر نکلے، بھیڑ سے بچابچاکر کارتک لایاگیا، کار میں بھی مسلسل روتے ہی رہے، جب گھر پہنچے تو کرسی پر بیٹھے اور کہنے لگے: لگتا ہے کہ ’’میں اگلے سال بخاری شریف نہیں پڑھاپائوں گا!‘‘ (قلندر ہرچہ گوید دیدہ گوید!) میں نے کہا: نہیں ، ایسا نہ سوچیں ، آپ ممبئی جائیں گے، مرض کی تشخیص ہوگی، پھر ٹھیک ہوکر آجائیں گے، ابھی طلبہ امتحانات دیں گے، پھر جائیں گے، آپ کی واپسی کے بعد ایک مجلس رکھی جائے گی، اس میں آپ وہ سب باتیں کہیں گے جو آج نہ کہہ سکے، اس پر فرمایا: ہاں ! مجھے بھی لگتاہے کہ میں جاتے ہی ٹھیک ہوجائوں گا، اس کے بعد طلبہ وغیرہ واپس ہوے، مجھے (حضرت کے قدیم خادم اورمحبوب ترین شاگرد)  ابوبکر بھائی (بنگلہ دیش) نے کہا تھا کہ تم ساتھ میں ہی رہو؛ اس لیے میں رک گیا، لیکن حضرت نے اصرار کے ساتھ واپس کیا، برخوردار خورد: عبید اللہ بھائی کو کہا کہ گاڑی سے پہنچائو، رات زیادہ ہوگئی ہے، بہرحال میں آگیا، مجھے اچھی طرح نیند نہیں آئی پھر صبح کو حاضر ہوا، ممبئی کی تیاری چل رہی تھی، طلبۂ کرام خصوصاً دورہٴ حدیث شریف کے طلبہ کے آنے کا سلسلہ جاری تھا، اکثر طلبہ محبت میں مصافحہ کرنا اور خدمت میں بیٹھنا چاہتے تھے، جگہ کم تھی اس لیے  میں تھوڑی تھوڑی دیر بعد قسط وار ان سب کو ملاقات کے بعد رخصت کرتا رہا، اسی درمیان حضرت نے غسل کیا، کپڑے بدلے، موئے لب تراشے، خوشبو لگائی اور کرسی پر بیٹھے مسکراتے رہے، ’’مصائب میں الجھ کر مسکرانا اُن کی فطرت تھی‘‘ اتنے میں مظفرنگر کے ایک پرانے شاگرد ایک عامل کو لے آئے، وہ سحر کی کاٹ کرنا چاہ رہے تھے، بھائیوں سے مشورہ کیا،تو سب نے کہا: اگر معلوم ہوگا کہ سحر ہے تو شاید سفر ملتوی ہوجائے، اِدھر عامل صاحب بڑے دعوے کررہے تھے، پھر حسین بھائی نے کہا: کس طرح کاٹیں گے؟ تو انھوں نے کاغذ  منگوایا اور اس پر کچھ لکھا اور حضرت کے سرپر پھیرا، پھر جلادیا اور پانی دم کرکے دیا، اسی درمیان کھانے کا دسترخوان بچھا، حضرت نے برائے نام تھوڑا کھایا، پھر اپنی بہوئوں کی طرف گئے، سب کو الوداعی سلام کیا اور کہا میں جلد ہی آجائوں گا، پھر گاڑی میں بیٹھے، میں نے دم کیاہوا پانی فرزندارجمند عبداللہ کو دیااور حضرت سے کہا: راستے میں اسی کو پیتے رہیں ، پھر سلام کیا اور دروازہ بند کرکے رخصت کیا، گاڑی چل پڑی، یہ آپ کی الوداعی تقریب تھی اور آخری دیدار، یہ ۱۹؍مارچ ۲۰۲۰ء مطابق ۲۳؍رجب ۱۴۴۱ھ جمعرات کا دن تھا۔ دن کے بارہ بجے کے قریب کا وقت تھا۔

            اگلے دن ۲۰؍مارچ کو ’’ملت ہاسپیٹل‘‘ جوگیشوری ممبئی میں داخل ہوئے، مرض کی تشخیص ہوئی کہ کولسٹرول (خون میں چربی کی وجہ سے گاڑھا پن) کا اضافہ ہوگیا ہے، جب دماغ کی باریک رگوں میں خون کی گردش رک جاتی ہے تو دماغ کچھ سوچنا چھوڑ دیتاہے، اس کی وجہ سے زبان پر بات نہیں آتی اور قلم سے بھی لکھنا ممکن نہیں رہتا، نہ تو زبان پر کوئی اثر ہے اور نہ ہی ہاتھ پر۔ (بخاری شریف کے سبق کے بعد حضرت نے مجھے اصرار کے ساتھ گھر؛ اس لیے بھیجا تھا کہ بخاری شریف کا پرچہ بنانا چاہ رہے تھے؛ لیکن بتایا کہ رات ڈھائی بجے تک کوشش کرتا رہا؛ مگر لکھ لکھ کر کاٹ رہا تھا بنا نہ سکا، پھر اس کی ذمہ داری حضرت مفتی محمد امین صاحب مدظلہٗ العالی کو دی کہ پہلے مولانا قمرالدین صاحب کے پاس جائیں اگر وہ بنادیں تو بہتر ہے ورنہ آپ بنائیں ؛ چنانچہ حضرت مفتی امین صاحب مدظلہ کے ساتھ میں بھی مولانا قمرالدین صاحب کے گھر گیا؛ ہم دونوں دیرتک کھڑے رہے، دروازہ نہ کھلا تو یہ خیال ہوا کہ شاید آرام فرمارہے ہیں ، اس لیے ہم واپس آگئے، وہ پرچہ حضرت محمدمفتی امین صاحب مدظلہٗ العالی نے ہی بناکر جمع فرمایا۔)

            غرض یہ کہ مرض کی تشخیص کے بعد علاج ہوا اور دھیرے دھیرے چار دن میں ٹھیک ہوگئے پھر ۲۳؍مارچ کو اپنی قیام گاہ (اپنے داماد بلال بھائی کے گھر) پر واپس آگئے، اب اچھی طرح بولنے لگے، دوائیں بھی چلتی رہیں اورمایوسی کی بات باقی نہ رہی، اب دیوبند واپس آنے کے لیے اصرار کرنے لگے، میزبان بیٹی (فاطمہ بہن) اسی بہانے خدمت کرنا چاہتی تھی، اُن سب کی رائے تھی کہ ابھی یہیں رہیں ، دیوبند نہ جائیں ، وہاں اسباق تو ہیں نہیں اور اِدھر ہم لوگوں کی بھی رائے تھی کہ جب تک اطمینان بخش صحت نہ ہوجائے تب تک نہ آئیں ، چوں کہ وہاں لکھنے پڑھنے کے اسباب نہیں تھے؛ اس لیے جی نہیں لگ رہا تھا، اورآخری متوقع تصنیف ’’دیوبندیت کیا ہے؟‘‘ کی تکمیل کے لیے بے چین تھے، جس کا خاکہ آپ نے طے کرلیا تھا اوراس کے مختلف پہلو کو مرتب بھی کرلیا تھا، پھر کسی عزیز کے یہاں کئی دنوں تک مہمان رہنا ان کے لیے بارِ خاطر کا باعث تھا، اصرار وانکار کا سلسلہ چلتا رہا، سنا کہ کسی ایک دن اصرار اتنا بڑھا کہ ناشتہ واپس کردیا، پھر کھانا نہیں کھایا، جب بہت اصرار کیاگیا تو شام کو کھانا تناول فرمایا، اسی درمیان ایک دن جوگیشوری کے امدادی کیمپ میں دس پندرہ منٹ بیان فرمایا: ’’لاعدوی‘‘ (کسی کا مرض دوسرے کو نہیں لگتا) بہت مختصر اور جامع بیان ہے، پھر اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی ترغیب دی۔ اِدھر ’’کرونا وائرس‘‘ کی وجہ سے پورے ملک؛ بلکہ پورے عالم میں ’’لاک ڈائون‘‘ (گھروں میں بندش) شروع ہوگیا، اب سفر کرنا مشکل ہوگیا، اپریل کے دوسرے عشرے کی کسی تاریخ میں فون آیا: کیا حال ہے؟ میں نے کہا: الحمدللہ! ٹھیک ہوں ، بچے کیسے ہیں ؟ بتایا، سب خیریت سے ہیں ، ہم سب آپ کی صحتِ کاملہ کی دعائیں کرتے ہیں ۔ فرمایا: میں بھی الحمدللہ ٹھیک ہوگیاہوں ، بالکل اچھی طرح زبان چلنے لگی ہے، اسی کی اطلاع کے لیے فون کیا، میں نے کہا: ۱۶؍اپریل کو پلین کا ٹکٹ بنا ہوا ہے، اب تو دیوبند آجائیں گے؟ فرمایا: بناہوا تو ہے؛ مگر دیکھو ہمارا تیلی  کیا کرتا ہے؟ وزیراعظم اسی تحصیل کے ہیں جس کے حضرت مفتی صاحب ہیں ؛ چنانچہ ٹکٹ کینسل ہوگیا اور سفر ملتوی، اب کاریا ایمبولینس سے آنے کی بات چلی؛ مگراس میں مصلحت نہ سمجھی گئی، حضرت کو سمجھانے کے لیے شاگردرشید رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند مفتی احمد خان پوری صاحب کے ذریعے کہلوایا گیا: انھوں نے گزارش کی حضرت مان گئے؛اس لیے کہ دیوبند بھی ہاٹ اسپاٹ (کرونا کا حساس علاقہ) اور ممبئی بھی، سب کے کورنٹائین ہونے کا خطرہ؛ لیکن حضرت کا جی نہیں لگ رہا تھا، جب ۲۵؍اپریل کو رمضان شروع ہونے والاتھاتو ممبئی میں رہنا طے کرلیا، ساتھ ہی آن لائن بیان کے اعلانات آنے لگے، بڑی خوشی ہوئی، محبین منتظر پہلی شب دس بجے سے گیارہ بجے تک ہوا، پھر ساڑھے دس سے بارہ بجے تک بیان ہوتا رہا اخیر کا آدھ گھنٹہ سوال وجواب کا تھا، پندرہ رمضان المبارک تک بیانات ہوے ہیں ، بارہ رمضان کو طبیعت پھر ناساز ہوئی، موسمی بخار ہوا، سوئے رہے چار نمازیں قضا ہوگئیں تو تیرہ اور چودہ رمضان کو بیان نہ کرسکے، کل چودہ تقریریں ہوئیں ان کے عناوین درج ذیل ہیں : ’’ثنا میں ائمہ کا اختلاف، حدیثِ ثریا کی تشریح، ’’الائمۃ من قریش‘‘ کا مطلب، قرآن کے پاروں کی نئی تقسیم کی تردید، بنائے کعبہ کی مختصر تاریخ، سورہٴ فاتحہ سے علاج، حدیث الحلال بینٌ والحرام بینٌ کی تشریح، ایمانیات کی تفصیل، تخلیق کے مراحل، دادی حوا کی پیدائش سے متعلق غلط فہمی کا ازالہ، توحیدِ الوہیت اور توحید ربوبیت میں تلازم، آخرت اور رسالت، ایاک نعبد وایاک نستعین کی تشریح، جن بندوں پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا، زمزم کے کنویں سے متعلق غلط فہمی کا ازالہ، تقلید کا اثبات، قراء ت خلف الامام، کرامات میں غلو، متقیوں کی تعریف، الطلاق مرتان کی تشریح، ستر کی تعیین، سونے اور چاندی کا نصاب، آخری بیان ’’ختم نبوت کے اثبات‘‘ پر ہوا، پھر مہر لگ گئی، (امید ہے کہ پیغمبر علیہ السلام کا جوار رحمت نصیب ہوا ہوگا، فرشتوں نے استقبال کیاہوگا، حوروغلمان کی خدمت نصیب ہوئی ہوگی!) بیانات سننے کے لیے آٹھ ہزار سے زیادہ نمبرات مربوط تھے پھر اس کو دوسرے گروپوں میں شیئرکیا جاتا تھا، وہ یورپ، امریکہ اورپورے عالم میں بڑی اہمیت سے سنے جارہے تھے؛ لیکن یہ سلسلہ پندرہ رمضان سے آگے نہ چل سکا۔

زمانہ بڑے غور سے سن رہا تھا  ٭        ’’تمہیں ‘‘ سوگئے داستاں کہتے کہتے

اب ان کو مولوی محمد طفیل دربھنگوی کاغذ پر منتقل کررہے ہیں ، ان شاء اللہ کتابی شکل میں بھی شائع ہوگی، تو اس کی افادیت مزید عام ہوگی۔وباللہ التوفیق!

            رمضان المبارک کی کسی تاریخ میں فون آیا/یا میں نے فون کیا: خبرخیریت کے بعد پوچھا: کیا کررہے ہو؟ تو بتایا کہ آپ نے جو ہدایت القرآن کے لفظی اور بامحاورہ ترجمہ کو سامنے رکھ کر آسان اسلوب میں ’’ترجمۂ قرآن کریم‘‘ کرنے میں لگا رکھا ہے، اسی میں لگا ہوں ، چھ پارے ہوے ہیں ، تو بہت خوش ہوئے اور آسانی کے ساتھ تکمیل کی دعا فرمائی، یہ آخری گفتگو تھی۔ اللہ کرے کہ یہ کام پورا ہو اور خدا اور خلقِ خدا تعالیٰ کے نزدیک قبول حاصل کرے! (آمین)

            ۱۶؍رمضان کی رات کو بخار آیا، سحری کے بعد بخار بڑھ گیا اور سانس میں تکلیف ہونے لگی کھانسی بھی ہونے لگی، گھر پر ہی رہے، رات میں بھی گھر پر ہی تھے، ۱۷؍رمضان کو چوں کہ ’’ملت ہاسپٹل‘‘ بند تھا؛ اس لیے ’’نیوسنجیونی ہاسپٹل ملاڈ‘‘ لے جائے گئے، جنرل وارڈ میں پورے دن رہے، رات کو دست آنے لگے، کمزوری بڑھنے لگی تو دوپہر کو آئی، سی، یو میں منتقل ہوے، رپورٹ آئی تو معلوم ہوا کہ دو دن پہلے ہارٹ کا اٹیک آیا تھا، اسی وجہ سے پھیپھڑے میں پانی آگیا ہے، سانس کی تکلیف بھی اسی وجہ سے ہے، گردہ تو کئی سال سے کمزور تھا، کریٹنن کبھی بڑھتا کبھی گھٹتا تھا،۲۱؍رمضان تک آئی سی، یو میں ہی رہے، دھیرے دھیرے طبیعت ٹھیک ہوگئی، ہسپتال کے کھانے کے بجائے گھر کے کھانے کی فرمائش کی، کھایا بھی، عبداللہ بھائی (فرزند برخوردار) آم لائے اس تھوڑی مقدار کو مزے لے کر کھایا، اسّی فی صد طبیعت ٹھیک ہوگئی، حضرت کے فرزند حافظ عبداللہ سلّمہ اس معنی کر خوش قسمت ہیں کہ آخری ایام علالت میں ان کو والد صاحب مرحوم کی خدمت نصیب ہوئی، اللہ تعالیٰ قبولیت سے نوازیں ! (آمین)۔ میرے پاس اسی دن عمار بھائی نے فون کیا: ابا کی طبیعت بہت اچھی ہے، ماشاء اللہ، اب اصرار کرنے لگے کہ مجھے جنرل وارڈ میں لے چلو، یا گھر لے چلو، ٹھیک ہوگیا ہوں ۔ دیوبند آنے کے لیے بہت ا صرار کرنے لگے، خود سے موئے لب تراشا، کہنے لگے: مجھے نہلائو!

            بہرکیف! ۲۲؍رمضان کو آئی، سی، یو سے جنرل وارڈ میں منتقل ہوے، ۲۳؍رمضان کی رات بہت اچھے رہے، نوبجے اپنی بہو (مولانا احمد سعید کی اہلیہ) کو فون کیا، خبرخیرت پوچھی اور دیوبند آنے کی خواہش کی تو کہا گیا کہ الحمدللہ آپ کی طبیعت ٹھیک ہورہی ہے، ہاسپٹل سے نکلتے ہی آجائیں گے، ان شاء اللہ کوئی انتظام ہوجائے گا، پھر رات ڈیڑھ بجے سے پہلے عمار بھائی سے بھی بات ہوئی، پھر اپنے عزیز القدر بھائی حضرت مفتی محمد امین صاحب کو سلام بھیجوایا پھر سحری کے وقت دو بجے رات کو جامعہ نورالعلوم گٹھامن پالن پور کے صدرمدرس مولانا یوسف قاسمی مدظلہٗ کو فون کیا کہ محمد بھائی مرحوم کے فرزند عبداللہ کو مدرسہ کا مہتمم بنایاجائے، میری یہ رائے سارے اراکین شوریٰ کو پہنچادیں !قضا نماز پڑھنے کے لیے اصرار کیا؛ مگر آئی سولیشن میں نگراں نرس وغیرہ نے توجہ نہ دی، اسی رات نیند کے لیے انجکشن دے دیا، اسی سے سوئے اور ہمیشہ کے لیے سوگئے، بظاہر یہی انجکشن موت کا سبب ثابت ہوا، ورنہ طبیعت تو اسّی فی صد ٹھیک ہوگئی تھی، حضرت نیند کی گولی وغیرہ سے خوف کھاتے تھے، بیمار ہوکر ممبئی جانے سے گھبراتے اور ہسپتال کی موت سے پناہ مانگتے تھے؛ مگر ہوا وہی جس کاڈر تھا۔ اور جو تقدیر میں لکھا تھا۔ غنودگی جیسی کیفیت رہی، جب اٹھایاجاتا تو کہتے: ’’مجھے سونے دو‘‘ جب چوبیس گھنٹے گزرگئے اور کچھ نہ کھایا تو ڈاکٹروں نے ناک سے پائپ کے ذریعہ معدے میں غذا پہنچائی اور ۲۴؍رمضان کو دوبارہ آئی سی یو میں منتقل کیا، کمزوری بڑھتی گئی، بلڈ پریشر گھٹتا گیا، آکسیجن میں کمی آتی گئی، پھیپھڑے میں پانی بڑھتا رہا، بخار تیز ہوتا رہا، رات ڈیڑھ بجے عمار بھائی نے مجھے کہا: سوگئے ہیں ، میں نے خطرہ محسوس کیا، اس لیے کہ وہ تو دو دنوں سے سورہے تھے، ساڑھے تین بجے مسلمان نرس نے ہاشم بھائی کو بتایا کہ کچھ پڑھ رہے ہیں ، عمار بھائی گھر پر تھے، انھوں نے فون پر کہا کہ فون قریب کرو! پھر سناگیا کہ کلمہ پڑھ رہے ہیں ، عمار بھائی سحری کھاکر ساڑھے پانچ بجے ہاسپٹل پہنچے تو بڑی صاف اور قدرے تیز آواز میں پڑھ رہے تھے: ’’أشہد أن لا الٰہ الاَّ اللّٰہ وأشہد أن محمداً عبدہ ورسولہٗ‘‘ کمرے میں موجود مسلمان نرس اور عمار بھائی وغیرہ سب نے سنا۔؎

غم میں بھی ہے سُرور، وہ ہنگام آگیا       ٭        شاید کہ دَورِ بادہٴ گلفام آگیا

اس کے بعد کمزوری بڑھتی چلی گئی، بلڈپریشر گھٹ رہا تھا، آکسیجن بھی کم ہورہاتھا، یہاں تککہ ساڑھے چھ ا ور پونے سات بجے کے درمیان ڈاکٹر نے قفسِ عنصری سے روح کے پرواز ہونے کی تصدیق کردی! إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، للّٰہ ما أعطی وللّٰہ ما أخذ وکل شیئٍ لأجل مسمّیٰ۔ ۱۹؍مئی ۲۰۲۰ء مطابق ۲۵؍رمضان المبارک ۱۴۴۱ھ روز منگل کی طاق رات میں غنودگی کی حالت میں رہے اور صبح سویرے ایک مسافر، محدث کبیر، مفسر عظیم، سنت کے شیدائی ولی اللہ کی روح اس طرح نکلی کہ احساس تک نہ ہوا، جیسے آٹے سے بال نکلتا ہے، بلڈپریشر اور آکسیجن دھیرے دھیرے کم ہوتے چلے گئے اور روح عالم ارواح کو سدھارگئی، اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندے کو سکرات کی تکلیف سے محفوظ رکھا۔ ہائے! ہم میں سے کسی کو یہ احساس نہ تھاکہ صحت یابی کے بعداچانک رخصت ہوجائیں گے، پھیپھڑے میں پانی اس  سے پہلے بھی دوبار آگیاتھا، پھر صحت ہوگئی تھی، کبھی کبھی گہری نیند بھی آتی تھی؛ اس لیے یہ بھی معمول کی بات لگ رہی تھی، بخار اور کھانسی تو معمولی بیماریاں ہیں ، مسلسل بیانات ہورہے تھے، اس سے بھی امید تھی کہ مشکل سے نکل گئے ہیں ؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے موت کا وقت کسی کو نہیں بتایا اور نہ موت کی جگہ اورنہ ہی سبب کسی کو معلوم ہے، اللہ تعالیٰ کی جو مرضی ہوئی اسی میں خیر ہے، اگر اس دنیا میں کسی کو رہنے کا حق تھا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے، انھیں کے لیے یہ دنیا بنائی گئی، وہی خلاصۂ کائنات ہیں ، اگر ان کی رحلت ہوئی اور شدید ترین محبت کرنے والے صحابۂ کرامؓ نے صبر کیاتو ہم سب کو بھی صبر جمیل کرنا چاہیے! انھیں کا اُسوہ ہمارے لیے لائق عمل اور باعث نجات ہے۔

            ہاسپٹل کا بِل ساڑھے گیارہ لاکھ ادا کیاگیا، نماز کے فدیہ کے طور پر احتیاطاً دس ہزار روپے نکالے گئے۔ آٹھ بجے ڈیتھ سرٹیفکیٹ (تصدیق نامہ وفات) تیار ہوا، اور چوں کہ اٹیک کی وجہ سے پھیپھڑے میں پانی اتر آیا تھا، نمونیا بخارتھا، کھانسی تھی اور کافی عرصہ پہلے ٹی بی کا بھی حملہ ہوا تھا، یہ سب ’’کرونا‘‘ کے سمٹم ہیں ؛ اس لیے ہاسپٹل سے اسی پروسیس سے باہر لانے کی اجازت ہوئی؛ مگر کافی رعایت دی گئی، مولانا حارث اور مولانا ہاشم صاحب نے غسل وکفن کی ذمہ داری نبھائی؛ پہلے وضو کرایا؛ پھر روئی بھگا بھگا کر پورے بدن کو صاف کیا، پھر نیاتولیہ بھگا بھگاکر پورے بدن کو آدھی بالٹی پانی سے پوچھا، سجدہ گاہوں پر کافور اور عطر لگایا، پھر سنت کے مطابق کفن پہنایا، زیارت کے لیے ایک ایک آدمی کو اجازت تھی، زیارت کرنے والوں نے پیشانی پر بوسے بھی دیے، عمار بھائی نے وفات کے بعداور کفن پہنانے کے بعد کل تین بار بوسے دیے، ساڑھے دس بجے سے زیارت کا سلسلہ چاربجے تک چلتا رہا، ادھر قبر تیار ہورہی تھی، چار بجے ملاڈ کی ’’محراب مسجد‘‘ کے پاس تقریباً دو سو لوگوں نے نماز جنازہ ادا کی، فرزند ارجمند مولانا حافظ: وحید احمد صاحب نے امامت کی، ساڑھے پانچ بجے تدفین عمل میں آئی، اس علاقے میں پوری قانونی رعایت کے ساتھ تدفین کی اجازت اقبال بھائی نے حاصل کی تھی، قبر میں اتارے جانے کے بعد اقبال بھائی اُترے اورانھوں نے خوب اچھی طرح پورے بدن کو مشرق کی دیوار سے لگاکر قبلہ رخ کیا، پھر ایک پلائی وُوڈ کا بڑا تختہ ترچھا کرکے رکھا گیا جس سے پورا سراپا ڈھک گیا، پھر مٹی دینے والوں نے مٹی دی۔ پھر قبر پر پانی کا چھڑکائو کیاگیا، ساڑھے چھ بجے تدفین سے فراغت ہوئی۔ چوں کہ قبرستان میں قبر کھودنے والا نہیں تھا؛ اس لیے حاضرین عزیز وقریب نے قبر کھودی ان سعادت مندوں میں سے چند کے نام یہ ہیں : (محمد چچا کے لڑکے) حذیفہ، معاذ بن ہارون، انس، اسماعیل، سلیم، سہیل، عمران،  عبدالستار اور مرکز المعارف میں پڑھنے والے چند فضلاء وغیرہ، قبر ساڑھے چھ تا سات فٹ کھودی گئی، جب کوئی اندر کھڑا ہوتا تو سرسے اوپر ڈیڑھ دوبالشت قبر ہورہی تھی، جس کا اندازہ ساڑھے چھ تا سات فٹ ہوتا ہے۔ عبداللہ بن محمد چچا، مولانا حارث قاسمی، عمار بھائی سب نے یہی بتایا۔

            تدفین کے بعد سرہانے ایک پتھر کھڑا کردیاگیا، پھر دونوں صاحب زادے، داماد اور مولانا حارث صاحب اور بہت سے حاضرین نے سورہٴ بقرہ کی شروع اور اخیر کی اور قرآنِ پاک کی دوسری آیتیں پڑھیں اور آب دیدہ واپس ہوے۔

ہوے نامور بے نشاں کیسے کیسے           ٭        زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے

(امیرؔمینائی)

            حضرت کی زندگی کا سب سے ممتاز پہلو یہ ہے کہ انھوں نے اپنے ہرعمل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرامؓ کی طرح کرنے کی کوشش کی، ہر عمل کو اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیے جانے کے لائق بنانے کا تصور ہر لمحہ غالب رکھا، کسی بھی حق کو ظاہر کرنے میں ذرا برابر کسی بندے کی خوشی اور ناراضگی کا ادنیٰ خیال بھی نہیں آنے دیا اور موت کے لیے ہر وقت تیار رہے، ایک مرتبہ ایک بڑے استاذ دارالعلوم عیادت کے لیے تشریف لائے تو فرمایا: مولانا میں اللہ تعالیٰ کے پاس حاضری کے لیے بالکل تیار ہوں ، کسی کا کوئی حق میرے ذمے نہیں ہے، میں نے کتب خانہ بچے بچیوں میں بانٹ دیا ہے، اپنے لیے صرف ہدایت القرآن رکھی ہے، جس سے میرا کھانا خرچہ چلتا ہے، پرانے مکان کو بھی کمرہ کمرہ کرکے تقسیم کردیا ہے، اب اس میں داخل نہیں ہوتا۔ ؎

آسماں کچھ بھی نہیں تیرے کرنے کے لیے

میں نے سب تیاریاں کرلی ہیں مرنے کے لیے

            میں نے اتنا بڑا انسان نہیں دیکھا اورنہ دیکھنے اور برتنے کی امید ہے، جس کے ہر عمل اور ہر قول نے عقیدت کو بڑھایا اور متاثر کیا، علوم شریعہ کے ہرفن کی ہر کتاب کی مشکل ایسے حل ہوتی، جیسے اسی بحث کو ابھی دیکھا ہے! علماء کی وفات کے ساتھ علم کے رخصت ہونے کا کھلی آنکھوں ایسا مشاہدہ پہلی بار ہوا۔ ع

ایساکہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے

          اللّٰہم اغفرلہ وارحمہ وسَکّنہٗ في الفردوسِ الأعلٰی یا ارحمَ الراحمین۔

—————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ :9-8،    جلد:104‏،  ذی الحجہ 1441ھ – محرم الحرام 1442ھ مطابق اگست  – ستمبر 2020ء

٭           ٭           ٭

Related Posts