شیخ الحدیث مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری ؒ

ایک مردم ساز شخصیت —– لاثانی مدرّس —–یکتا مصنف

ازقلم: مفتی عبد الرؤف غزنوی

استاذ جامعہ علوم اسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن کراچی

دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اولیٰ

ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللّٰہی

(اقبالؒ)

            بروز منگل ۲۵؍ رمضان المبارک ۱۴۴۱ھ مطابق ۱۹؍مئی ۲۰۲۰ء صبح ساڑھے چھ بجے (بہ وقتِ ہندوستان)، محدّثِ جلیل، مفسّرِ نبیل، فقیہِ ممتاز، عالِمِ ربانی، مسند الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے علوم کا مستند شارح اور مسلکِ دارالعلوم دیوبند کا صحیح ترجمان، حضرت الاستاذ مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوریؒ شیخ الحدیث وصدر المدرّسین دارالعلوم دیوبند نے ممبئی شہر کے ایک ہسپتال میں تقریباً اسی سال کی عمر میں داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ آپ کی وفات کی خبر نے صرف برِّصغیر ہی میں نہیں ؛بلکہ پوری دنیا میں آپ کے پھیلے ہوئے بے شمار شاگردوں ، متعلقین، محبین اور آپ سے براہِ راست یا بالواسطہ استفادہ کرنے والوں کو تڑپادیا، جنہوں نے اپنے غمگین اور ٹوٹے ہوئے دلوں کے ساتھ تقدیرِ الٰہی کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے ماہِ مبارک کے آخری بابرکت عشرے میں حضرت مفتی صاحب قُدّس سرُّہ کے لیے خوب ایصالِ ثواب کیا اور مغفرت ورفعِ درجات کی دعائیں کیں ، اور ساتھ ساتھ انھوں نے حضرت قُدّس سرُّہ کے پسماندگان اور دارالعلوم دیوبند کے ذمہ داران کی خدمت میں تعزیتِ مسنونہ پیش کی۔

حضرت مفتی صاحبؒ کی زندگی کا ایک اجمالی خاکہ

            حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوریؒ کی پیدائش خود اُن کے اندازے کے مطابق ۱۹۴۰ء مطابق ۱۳۶۰ھ کو ہوئی ہے، جس کی صراحت انھوں نے ’’ہدایت القرآن‘‘ جلد ششم کی ابتداء میں ’’احوالِ واقعی‘‘ کے عنوان کے تحت فرمائی ہے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے میں اور متوسط درجات کی تعلیم ’’مظاہرِ علوم‘‘ سہارنپور میں حاصل کی، اور اعلیٰ تعلیم کے لیے ۱۳۸۰ھ کو ’’دارالعلوم دیوبند‘‘ میں داخلہ لیا، جہاں ۱۳۸۲ھ مطابق ۱۹۶۲ء کو آپ نے دورۂ حدیث سے فراغت حاصل کرتے ہوئے سالانہ امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ دورانِ تعلیم آپ کو اپنے تمام اساتذۂ کرام اور بالخصوص حضرت علّامہ محمد ابراہیم بلیاوی صاحب قُدّس سرُّہ صدر المدرّسین دارالعلوم دیوبند کی خصوصی توجہ وشفقت حاصل رہی۔

            دورۂ حدیث سے فراغت کے بعد تکمیلِ افتاء میں داخلہ لیا اور فتویٰ نویسی میں اتنی مہارت حاصل کرلی کہ دارالافتاء کے ذمہ داران نے تحریری طور پر آپ کی تقرّری کی سفارش کی۔ اُدھر آپ کے محترم استاذ ومربی حضرت علّامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ صدر المدرّسین دارالعلوم دیوبند کی بھی یہی خواہش تھی کہ آپ کا تقرّر دارالعلوم دیوبند ہی میں ہو، لیکن تقدیرِ خداوندی کچھ اور تھی اور آپ کا تقرُّر دارالعلوم میں اس وقت نہ ہوسکا۔ اس موقع پر آپ کے محترم استاذ حضرت علّامہ بلیاویؒ نے آپ کو تسلّی دیتے ہوئے ایک مختصر اور پُراثر جملہ ارشاد فرمایاکہ: ’’مولوی صاحب! گھبراؤ نہیں ، اس سے اچھے آؤگے!‘‘ اور آپ کو اپنی دعاؤں اور نصیحتوں سے نوازتے ہوئے ’’دارالعلوم اشرفیہ راندیر- سورت‘‘ جانے کا مشورہ دیا، جہاں درجۂ عُلیا کے مدرّس کی حیثیت سے ۱۳۸۴ھ کو آپ کا تقرّر عمل میں آیا۔

            ’’دارالعلوم اشرفیہ‘‘ میں آپ نے نو سال تک خدمت کی۔ ان نو سالوں میں اپنی خداداد ذہانت، عزم وہمّت، مسلسل محنت اور اللہ تعالیٰ کی خصوصی توفیق سے ایک طرف تو نہایت کامیابی کے ساتھ مختلف فنون اور حدیث کی کتابیں پڑھاتے رہے اور دوسری طرف اردو، عربی اور گجراتی زبان میں تصنیف وتالیف اور مضمون نویسی کا مشغلہ بھی جاری رکھا اور ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوالیا، علمی حلقوں میں آپ کی شہرت اور طلبہ میں آپ کی مقبولیت بڑھتی چلی گئی۔

            آپ کی مقبولیت و مختلف صلاحیتوں کے پیشِ نظر حضرت مولانا محمد منظور نعمانی ؒسابق رکنِ مجلسِ شوریٰ دارالعلوم دیوبند کی تحریک پر ۱۳۹۳ھ کو آپ کا تقرّر اپنی مادرِ علمی دارالعلوم دیوبند میں ہوگیا، جہاں آپ کی صلاحیتوں کو پروان چڑھنے کا بھرپور موقع ملا اور آپ کے استاذِ محترم و مربی حضرت مولانا علّامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ (متوفّٰی: ۱۳۸۷ھ) کا اگرچہ اس وقت انتقال ہوگیا تھا؛ تاہم ان کا مذکورہ بالا جملہ ’’مولوی صاحب! گھبراؤ نہیں ، اس سے اچھے آؤ گے!‘‘ پورے نوسال کے بعد ہوبہو ثابت ہوگیا۔ حضرت مفتی صاحبؒ اُس وقت سے اپنی زندگی کے آخری لمحے تک جو اَڑتالیس سال کا عرصہ ہے، اپنی مادرِ علمی دارالعلوم دیوبند سے منسلک رہے، جہاں آپ نے نصاب کے اندر شامل‘ فقہ، اُصولِ فقہ، منطق، فلسفہ، عقائد، مناظرہ، ادب، میراث، تفسیر، اُصولِ تفسیر، حدیث اور اُصولِ حدیث کی مختلف کتابیں نہایت کامیابی کے ساتھ پڑھائیں اور طلبہ میں آپ کی مقبولیت اس حد تک بڑھ گئی کہ جس کتاب کا سبق آپ سے متعلق ہوجاتا، اس کتاب کے طلبہ بے حد مطمئن ہوکر اپنے آپ کو سعادت مند تصوُّر کرتے۔

            آپ نے دارالعلوم دیوبند میں بھی تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف وتالیف کا مشغلہ جاری رکھا۔ دارالعلوم دیوبند جیسے ادارے میں بنیادی اور محنت طلب کتابوں کی تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف وتالیف کا مشغلہ جاری رکھنا اگرچہ کوئی آسان کام نہیں تھا، لیکن عزم وہمت کے اس پیکرِ مجسَّم نے مختصر عرصے میں تدریس کے ساتھ ساتھ اسلامی کتب خانے کو اپنی ایسی ضخیم اور تحقیقی تصانیف سے معمور کردیا جن سے علم وتحقیق کے میدان سے وابستہ حضرات حیرت زدہ ہوکر رہ گئے؛ چنانچہ مسند الہند حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدّث دہلویؒکی عدیم المثال تصنیف ’’حجۃ اللّٰہ البالغۃ‘‘ کی ایک محقّق ومفصّل شرح کی ضرورت ہمارے اکابرین کے دور سے محسوس کی جارہی تھی؛ تاہم اس اہم تحقیقی کام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت مفتی صاحبؒ ہی کو منتخب فرمایا اور آپ نے پانچ ضخیم جلدوں میں ’’رحمۃ اللّٰہ الواسعۃ‘‘ کے نام سے اس کی شرح لکھی، جسے علمی حلقوں میں بڑی پذیرائی ملی۔

            ’’رحمۃ اللّٰہ الواسعۃ شرح حجۃ اللّٰہ البالغۃ‘‘ کی اہمیت کو دیکھ کر دارالعلوم دیوبند کی مؤقّر مجلسِ شوریٰ منعقدہ ۱۳؍۱۴؍ صفر ۱۴۲۵ھ نے ایک تحریری تجویز پاس کی، جس میں حضرت مفتی صاحبؒ کے اس علمی کارنامے کو پوری جماعت کی طرف سے فرضِ کفایہ ادا کرنے کے مرادف قرار دیتے ہوئے آپ کو مبارکباد پیش کی گئی ہے۔ احقر کے ناقص علم کے مطابق اس سے قبل کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ مجلسِ شوریٰ دارالعلوم دیوبند نے کسی کتاب سے متعلق تحریری تجویز پاس کی ہو، جس میں مصنف کو ان کی تصنیف پر مبارکباد پیش کی گئی ہو، واللہ اعلم۔

            ’’رحمۃ اللّٰہ الواسعۃ‘‘ کے علاوہ آپ نے آٹھ ضخیم جلدوں پر مشتمل ترمذی شریف کی شرح ’’تحفۃ الألمعي شرح سنن الترمذي‘‘ کے نام سے، بارہ ضخیم جلدوں پر مشتمل بخاری شریف کی شرح ’’تحفۃ القاري شرح صحیح البخاري‘‘ کے نام سے اور آٹھ ضخیم جلدوں پر مشتمل قرآن کریم کی تفسیر ’’ہدایت القرآن‘‘ کے نام سے تحریر فرماکر یہ ثابت کردیا کہ آج کے پُرآشوب وپُرفتن دور میں بھی حافظ ابن حجر عسقلانی  ؒ، علّامہ جلال الدین سیوطیؒ اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ جیسے مصنّفین کے نقشِ قدم پر چلنے والے اور اپنے آپ کو علمی وتحقیقی کاموں کے لیے وقف کرنے والے افراد موجود ہیں ۔

            متعدّد ضخیم جلدوں پر مشتمل مذکورہ بالا تصانیف کے علاوہ آپ نے اپنی زندگی کے آخری حصے میں ایک کارنامہ یہ بھی انجام دیا کہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی مایۂ ناز تفسیر ’’بیان القرآن‘‘ کے تسہیل نگار حضرت مولانا عقیدت اللہ قاسمی صاحب زیدمجدہم کی خواہش اور حضرت مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب مدظلُّہم مہتمم دارالعلوم دیوبند کے مشورے سے تسہیل کا مسوّدہ آپ ہی کے حوالے کیاگیا ،جس پر آپ نے شروع سے آخر تک نظرثانی فرماکر اس میں مفید ترمیمات، تسہیلات اور اضافے کردیئے اور پانچ جلدوں میں ’’آسان بیان القرآن‘‘ کے نام سے شائع فرمادیا، جس سے ’’بیان القرآن‘‘ کا سمجھنا آسان ہوگیا۔

            حضرت مفتی صاحبؒ نے مذکورہ بالا تصانیف کے ساتھ ساتھ مختلف علمی موضوعات سے متعلق دیگر تصانیف بھی تحریر فرمائی ہیں جن کی مجموعی تعداد مذکورہ بالا تصانیف کے ساتھ ملاکر چھیالیس بنتی ہے اور ہرایک کتاب اپنی جگہ پر اہمیّت رکھتی ہے، یہاں تک کہ ان میں سے بعض کتابیں تو دارالعلوم دیوبند اور ہندوستان کے بعض دیگر مدارس اور اسی طرح ’’وفاق المدارس العربیہ پاکستان‘‘ کے نصابِ تعلیم میں بھی شامل ہوگئی ہیں ۔ آپ کے ہونہار صاحبزادے جناب مولانا احمد سعیدپالن پوری فاضل دارالعلوم دیوبند (استاذحدیث جامعۃ الشیخ حسین احمد المدنی دیوبند) زیدمجدہم کے ایک مراسلہ کے مطابق حضرت مفتی صاحبؒ کی کل تصانیف کے مجموعی صفحات کی تعداد تینتیس ہزار چھ سو چوراسی (۳۳۶۸۴) تک جا پہنچتی ہے۔

            حضرت الاستاذ مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوریؒ کی مختلف صلاحیتوں ، طلبہ میں بے پناہ مقبولیت، علمی حلقوں میں محبوبیت اور آپ کی تقویٰ وطہارت کے پیشِ نظر دارالعلوم دیوبند کی مؤقر وبااختیار مجلسِ شوریٰ نے ۱۴۲۹ھ کو جب حضرت الاستاذ مولانا نصیر احمد خان صاحب قُدّس سرُّہ سابق شیخ الحدیث وصدر المدرّسین دارالعلوم دیوبند نے بوجہ علالت وپیرانہ سالی دارالعلوم کی خدمت سے ازخود سبکدوشی کی درخواست کی، شیخ الحدیث وصدر المدرّسین کے اعلیٰ علمی منصب کے لیے آپ ہی کا انتخاب فرمایا، جس پر آپ اپنی وفات ۱۴۴۱ھ تک فائز رہے:

ایں سعادت بزورِ بازو نیست

تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

حضرت مفتی صاحبؒ کی چند خصوصیات

            حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری قُدّس سرُّہ سے احقر کا تعلق رواں صدی ہجری کے پہلے سال ۱۴۰۱ھ سے لے کر آپ کے وصال ۱۴۴۱ھ تک پورے چالیس سال پر محیط رہاہے، شروع کے گیارہ سال کا عرصہ تو وہ ہے جس میں احقر طالب علم اور پھر مدرس اور مسجدِ قدیم دارالعلوم دیوبند کے امام وخطیب کی حیثیت سے دارالعلوم ہی میں مقیم رہا اور حضرت مفتی صاحبؒ سے قدم قدم پر بالمشافہہ استفادہ کرتارہا۔ اس کے بعد آپ کے وصال تک جو مزید انتیس سال کا عرصہ بنتاہے، اس میں احقر کی دیوبند سے کراچی منتقلی کی وجہ سے بالمشافہہ استفادہ کرنے کا موقع تو ہاتھ سے نکل گیا، إلّا یہ کہ وقفے وقفے سے چند دفعہ آپ کی خدمت میں حاضری اور براہِ راست استفادہ کرنے کی سعادت پھر بھی میسر رہی، تاہم! باقی عرصے میں خط وکتابت اور فون کے ذریعے آپ سے استفادہ کرنے اور موقع بموقع راہنمائی حاصل کرنے کا سلسلہ آپ کے وصال تک اللہ کی توفیق سے قائم رہا اور آپ نے احقر کو کبھی بھی اپنے علمی افادات اور مفید مشوروں سے محروم نہیں فرمایا۔

            اس طویل عرصے کے اندر حضرت الاستاذؒ کو قریب سے دیکھنے اور آپ کی خصوصیات سے واقف ہونے کا ایک بھر پور موقع اللہ تعالیٰ نے نصیب فرمایا۔ مذکورہ طویل واقفیت وتعلق کی روشنی میں احقر پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہے کہ آپ کی زندگی کے ہر پہلو میں اہلِ علم وفضل کے لیے مفید سبق اور آپ کے متعلقین کے لیے نشانِ راہ اور قابلِ تقلید؛ بلکہ قابلِ رشک عملی کردار کے نمونے ہیں ۔ آپ کی خصوصیات میں سے چند ہی خصوصیات قارئینِ کرام کے فائدے کے لیے قلمبند کی جارہی ہیں :

۱- تدریس وتالیف کے لیے مکمل یکسوئی کا اہتمام

            حضرت الاستاذؒ کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ انھوں نے مطالعہ وتدریس اور تحقیق وتالیف کے لیے مکمل یکسوئی اختیار فرماتے ہوئے اپنے آپ کو وقف کردیا تھا۔ وہ غیر ضروری ملاقاتوں ، عام اجتماعات میں شرکت کرنے اور تعلیمی ایام میں سفر کرنے سے؛ اس لیے اکثر معذرت ہی فرماتے تھے، تاکہ درس وتدریس اور تصنیف وتالیف کے مشغلے میں خلل واقع نہ ہو۔ فرماتے تھے کہ ایک سبق کا ناغہ چالیس دن کی برکت کو ختم کردیتاہے؛ تاہم سالانہ چھٹیوں میں بیرونِ ملک مقیم ان مسلمانوں کے اصرار پر جو حضرت والاؒ کے اصلاحی وعلمی بیانات کو اپنی اور اپنی نئی نسل کی اصلاح کے لیے نہایت مفید اور ضروری سمجھتے تھے، برابر سفر فرماتے رہے اور ان کے عقائد واعمال کی اصلاح کے لیے نہایت عام فہم اور مدلّل انداز میں بیانات فرماتے رہے، جن سے ان کو دیارِ غیر میں رہتے ہوئے اپنے لیے لائحۂ عمل طے کرلینے اور اپنے عقائد واعمال کی حفاظت کرنے میں مدد ملتی رہی۔ آپ کے بیانات عام خطیبوں کی طرح جو شیلے نہیں ہوتے تھے؛ بلکہ تدریس کے انداز میں قرآن وسنت کی تعلیمات پر مبنی اور فقہاء ومحدّثین واکابرِ دیوبند کی تشریحات کے مطابق ہواکرتے تھے۔

            احقر نے اپنی زندگی میں دو ایسی شخصیات دیکھی ہیں جو عالمی شہرت ومقبولیت کی بلندیوں تک پہنچنے کے باوجود اُن کے علمی وتحقیقی مشاغل میں کوئی فرق نہیں آیا اورانھوں نے ہمیشہ اپنے آپ کو غیرعلمی مشاغل سے دور رکھا۔ ایک شخصیّت ممتاز عالِمِ دین ومحدّثِ کبیر حضرت الاستاذ الشیخ عبد الفتاح ابو غُدّہ حَلَبی شامی قُدّس سرُّہ کی تھی جن سے ’’جامعۃ الملک سعود ریاض سعودی عرب‘‘ میں احقر نے پڑھا اور دوسری شخصیت حضرت الاستاذ مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری برَّد اللّٰہ مضجعَہٗ کی تھی جن سے احقر نے دارالعلوم دیوبند میں پڑھا اور پھر طویل عرصے تک استفادہ بھی کرتا رہا۔

            عصرِ حاضر میں ایک عام مشاہدہ یہ رہا ہے کہ جب بعض علمی شخصیات کو شہرت و مقبولیت حاصل ہوجاتی ہے اور اندرونِ ملک وبیرونِ ملک بے شمار لوگ ان کے معتقد بن جاتے ہیں ، تو پھر ان کے لیے اپنے معتقدین کی تقریبات و اجتماعات میں شرکت سے معذرت کرنا، یا ان کی دعوت پر سفر سے اجتناب کرنا، یا اسی طرح دینی و علمی اداروں میں انتظامی مناصب کی پیشکش کو ردّ کرنا، ان کے لیے امتحان بن جاتاہے اور بالآخر ان میں سے اکثر حضرات مذکورہ غیر تعلیمی سرگرمیوں میں ایک حد تک مشغول ہوہی جاتے ہیں ، جس کی وجہ سے ان کے علمی وتحقیقی کاموں کی رفتار میں ترقی کے بجائے سستی پیدا ہوجاتی ہے؛ لیکن کچھ حضرات اتنے باہمت وپر عزم اور اپنی علمی وتحقیقی مصروفیات میں اتنے مگن ہوتے ہیں کہ اپنی علمی مصروفیات کے مقابلہ میں کسی بھی ترغیب ومصلحت کا شکار نہیں ہوتے ہیں ، ان ہی حضرات میں سے احقر کی نظر میں ایک حضرت الاستاذ الشیخ عبد الفتاح ابو غُدّہؒ اور دوسرے حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوریؒ بھی تھے۔

۲- عزم وہمّت اور مسلسل محنت

            حضرت والا قُدّس سرُّہ کی دوسری خصوصیت ان کی مسلسل محنت اور غیر معمولی عزم و ہمّت تھی۔ آپ ایک طرف تو دارالعلوم دیوبند میں ایک کامیاب ومقبول ترین مدرس کی حیثیت سے مختلف کتابیں پڑھاتے رہے، یہاں تک کہ شیخ الحدیث وصدر المدرّسین کے اعلیٰ علمی منصب پر آپ کو فائز کردیا گیا،  اُدھر آپ اپنے بچوں کو جن کی تعداد بحمد اللہ ایک درجن سے زائد تھی، خود ہی حفظِ قرآن اور ابتدائی کتابوں کی تعلیم اور خوشخطی کی مشق کراتے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے مجموعی طور پر تینتیس ہزار چھ سو چوراسی (۳۳۶۸۴) صفحات پر مشتمل ایسی علمی وتحقیقی چھیالیس کتابیں بھی تصنیف فرمائیں جن کی تفصیل اوپر عرض کی جاچکی ہے۔ مذکورہ تمام علمی مشاغل کے باوجود عام مسلمانوں کی اصلاح کا جذبہ دل میں لیے ہوئے ایامِ تعطیل میں اندرونِ ملک وبیرونِ ملک آپ کے اصلاحی بیانات بھی ہوتے رہے، جن سے بے شمار خواص وعوام فیض حاصل کرتے رہے۔

            حضرت مفتی صاحبؒ قُدّس سرُّہ کے یہ تمام علمی کارنامے درحقیقت علومِ دینیہ سے ان کی اس سچی محبت کے کرشمے ہیں جو اُن کے دل میں موجزن تھی۔ وہ ایسی محبت تھی جو منزلِ مقصود کی طرف گامزن ہوکر راستے کی مشقتوں کو صرف یہ نہیں کہ برداشت کرلیتی تھی؛ بلکہ ان مشقتوں کو بھی اپنی منزلِ مقصود کا حصہ سمجھتی تھی۔ ایسی ہی محبت کے بارے میں کسی شاعر نے کہا ہے:

رہ رواں را خستگی راہ نیست                  عشق خود راہ است ہم خود منزل است

            ترجمہ ومفہوم: ’’منزلِ مقصود کی طرف جانے والا مسافر راستے کی مشقتوں سے پریشان نہیں ہوتا، کیونکہ سچی محبت کی نظر میں منزلِ مقصود کا راستہ بھی منزلِ مقصود ہی کی طرح دلچسپ ہوتا ہے۔‘‘

            حضرت مفتی صاحبؒ کی تمام تصانیف اگر شائع شدہ نہ ہوتیں اور ان کی مذکورہ دیگر علمی مصروفیات کے لاتعداد چشم دید گواہ آج (ماہِ شوال ۱۴۴۱ھ) تک موجود نہ ہوتے تو شاید قارئین کرام کو یہ شبہ ہوجاتا کہ مضمون نگار اپنی عقیدت مندی میں حدِّاعتدال سے آگے نکل چکا ہے؛ اس لیے کہ سہولت پسندی اور راحت طلبی کے موجودہ عصر میں کسی ایک ہی فرد کا بیک وقت اتنا ہی زیادہ علمی کام کرنا بظاہر ناممکن ہے۔

            راقم الحروف جب بھی حضرت الاستاذ قُدّس سرُّہ کی علمی مصروفیات ومحنتوں پر غور کرتاہے تو یہ محسوس کرلیتاہے کہ انھوں نے صحیح معنوں میں مندرجہ ذیل مشہور مقولے کا تقاضا پورا کیا ہے:

            ’’العلمُ لایُعطیکَ بعضَہٗ حتی تُعطیَہٗ کلَّکَ‘‘ یعنی ’’علم اپنی ذات میں سے کچھ بھی اس وقت تک تمہیں نہیں دے گا جب تک تم اپنی پوری ذات اُسے نہیں دوگے۔‘‘

            عام طور پر لوگ مذکورہ بالا مقولے کا مخاطَب طالبِ علم ہی کو قرار دیتے ہیں ، جب کہ حضرت الاستاذؒ نے اپنے عمل سے یہ ثابت کردیا تھا کہ اس کا مخاطَب خود مدرّس بھی ہے۔

طلبِ علم کے لیے آپ کی قربانی کا ایک واقعہ

            حضرت مفتی صاحبؒ کے عزم وہمت اور طلبِ علم کے لیے ان کی قربانی کا ایک واقعہ یاد آیا: ایک دفعہ احقر اُن کی اجازت سے ان کے ذاتی کتب خانہ میں مطالعہ کررہا تھا، اس دوران ایک پرانی سی کتاب نکالی، جس کے سرورق پر حضرت الاستاذؒ کے قلم سے ان کے زمانہ ٔ طالب علمی کا ایک فقرہ لکھا ہوا تھا، جس کا مفہوم یہ تھا کہ: ’’والدہ محترمہ نے گاؤں سے کسی کے ساتھ میرے لیے گھی بھجوایا تھا، اُسے بیچ کر میں نے یہ کتاب خریدلی۔‘‘

            اللہ اکبر! غور کیا جائے، آج کل کے طالب علم کے پاس اگر کتاب خریدنے کے لیے گھر والے پیسے بھیجتے ہیں ، تو وہ اُسے کھانے پینے پر خرچ کردیتاہے؛ لیکن حضرت مفتی صاحبؒ نے بہ زمانۂ طالب علمی جو خالص کھانے کی چیز تھی اور وہ بھی والدہ محترمہ کے ہاتھ کی بھیجی ہوئی اُسے بیچ کر کتاب پر خرچ کیا:

ببیں تفاوتِ راہ از کجا است تا بہ کجا

۳- افہام وتفہیم کا منفرد سلیقہ

            راقم الحروف کو اپنی بے بضاعتی اور تہی دامنی کا پورا احساس واعتراف ہے؛ لیکن یہ ایک تقدیری بات ہے کہ اُس نے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے طلبِ علم کی غرض سے چار مختلف ملکوں (افغانستان، پاکستان، ہندوستان اور سعودی عرب) کے بعض ایسے مایۂ ناز اہلِ علم سے استفادہ کیا ہے اور ان کے پاس پڑھاہے، جن کی نسبت اُس کے لیے موجبِ سعادت وباعثِ افتخار ہے۔ میں اس وسیع واقفیت کی بنا پر (جو میرا ذاتی کمال نہیں ) شرح صدر کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ حضرت والا کے افہام وتفہیم کا انداز ان سب سے منفرد اور ممتاز تھا۔ مشکل سے مشکل بحث ایسی ترتیب وعمدہ انداز سے بیان فرماتے تھے کہ اعلیٰ تو درکنار ادنیٰ سے ادنیٰ طالبِ علم کے لیے بھی سمجھنا آسان ہوجاتا، اور مجھے یاد ہے کہ کبھی آپ دوسرے اساتذۂ کرام کے اسفار کی وجہ سے دو تین گھنٹے مسلسل پڑھاتے اور تمام طلبہ ہمہ تن گوش ہوکر سنتے اور ’’کأنَّ علٰی رؤوسہم الطیرَ‘‘ کا مصداق بن کر آپ کی علمی تحقیقات سے مسلسل کئی گھنٹوں تک انہماک کے ساتھ استفادہ کرتے رہتے۔

۴- تربیت ومردم سازی

            حضرت الاستاذؒکی تربیت اور مردم سازی کا انداز بھی نرالاتھا۔ وہ خود بھی ہمیشہ اپنے علمی، تصنیفی اور اصلاحی کاموں میں مصروف اور غیر ضروری ملاقاتوں اور ملنے جلنے سے دور نظر آتے تھے اور اپنے شاگردوں اور متعلقین کو بھی اِسی بات کی تلقین کرتے تھے:

گرت ہوا است کہ با خضر ہم نشیں باشی

نہاں ز چشمِ سکندر چو آب حیوان باش

ترجمہ ومفہوم: ’’اگر تمہیں خضرؑ (حق اور اہلِ حق) کے ہم نشیں ہونے کا شوق ہے، تو سکندر (دنیا اور اہلِ دنیا) کی نگاہوں سے آبِ حیات کی طرح پوشیدہ رہو۔‘‘

            راقم نے دارالعلوم دیوبند کے زمانۂ قیام میں اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ جن اساتذہ یا طلبہ کو حضرت والاؒ سے قرب وتعلق کی سعادت نصیب ہوئی، اللہ تعالیٰ نے ان کو ترقیوں سے نوازا اور انہیں استغنائ، علمی انہماک، اعلیٰ ہمتی اور دنیوی زندگی کی پرخار وادیوں کو عبور کرنے کی صلاحیت عطا فرمائی۔ حضرت الاستاذؒ کی مردم سازی کے چند واقعات نمونے کے طور پر پیش کیے جارہے ہیں :

آپ کی مردم سازی کا پہلا واقعہ

            تعلیمی سال ۱۴۰۲ھ-۱۴۰۳ھ کے درمیان میں جب احقر کا دارالعلوم دیوبند میں مدرس کی حیثیت سے تقرّر ہوا، تو اس وقت کے ناظمِ تعلیمات حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی صاحب بجنوریؒ نے دفترِ تعلیمات بلاکر مجھے دیئے جانے والے اسباق سے متعلق میری رائے معلوم کی! میں چونکہ نیا نیا فارغ التحصیل تھا اور تدریس کے میدان میں پیش آنے والی مشکلات کا کوئی اندازہ یا تجربہ نہیں تھا، عمر بھی صرف بیس سال کے لگ بھگ تھی، اُدھر شاید دماغ اس زعم میں بھی مبتلا تھا کہ ایک طرف میں نے دورۂ حدیث میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے اوردوسری طرف درسِ نظامی کے موجودہ نصاب میں شامل مروَّجہ کتابوں کے علاوہ منطق وفلسفہ اور دیگر فنون کی کچھ ایسی کتابیں بھی اپنے علاقے کے جیّد الاستعداد علماء کے پاس پڑھی ہیں جو آج کل کم ہی پڑھائی جاتی ہیں ، لہٰذا درسِ نظامی کی کوئی بھی کتاب ان شاء اللہ! میرے لیے مشکل نہیں ہوگی۔ بہرصورت! ناتجربہ کاری؛ بلکہ نادانی پر مبنی مذکورہ بالا زعم کے تحت میں نے حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی صاحب بجنوریؒسے جواباً عرض کیا: حضرت! آپ جو بھی اسباق سپرد فرمائیں گے، میں ان شاء اللہ! پڑھاؤں گا۔ نہ تو ابتدائی درجات کے اسباق سے مجھے کوئی دل شکنی ہوگی اور نہ ہی کچھ اوپر کے درجات کے اسباق سے گھبراہٹ ہوگی۔

            میرا جواب سن کر حضرت مولانا ریاست علی صاحبؒنے ’’ملاّ حسن‘‘، ’’میبذی‘‘ اور دوکتابیں ان کے علاوہ جن کے نام یاد نہیں رہے‘ مجھ سے متعلق کرکے اپنے پاس نوٹ کرلیں ؛ تاکہ آگے ان کا اعلان آویزاں کیا جائے۔ میں دل دل میں خوش ہورہا تھا کہ مجھے تو ابتداء ہی سے ترقی ملنے لگی۔ اتفاق سے اُسی وقت اچانک حضرت الاستاذ مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوریؒ دفتر تعلیمات تشریف لائے اور مجھے ناظمِ تعلیمات حضرت مولانا ریاست علی صاحبؒ کے پاس دیکھ کر اندازہ لگایا کہ انھوں نے مجھے اسباق کے سلسلے میں بلایا ہوگا، تو ناظمِ تعلیمات صاحبؒ سے دریافت فرمانے لگے کہ اس کو کون سے اسباق دے دیئے؟ حضرت ناظم صاحبؒ فرمانے لگے کہ اس کی رائے دریافت کرنے کے بعد میں نے مذکورہ بالا اسباق اس کے نام لکھ دیئے ہیں ۔ مفتی صاحبؒ نے شدّت کے ساتھ اختلاف کرتے ہوئے فرمایا کہ ابھی سے یہ کتابیں اس کو ہرگز نہ دیں ، ورنہ آگے چل کر یہ کامیاب مدرّس نہیں بن سکے گا، مناسب یہ ہوگا کہ سالِ اول میں ’’نحو میر‘‘، سالِ دوم میں ’’علم الصیغہ‘‘، سالِ سوم میں ’’شرح تہذیب‘‘ اور سالِ چہارم میں ’’اصول الشاشی‘‘ یا ’’سلم العلوم‘‘ کے اسباق اس کو دے دیئے جائیں ۔ پھر مجھے مخاطَب بناکر فرمایا:

            ’’مولوی صاحب! دوباتیں سمجھ لو! ایک بات تو ہے کتاب کو سمجھنا اور دوسری بات ہے کتاب کو سمجھانا۔ کتاب سمجھانے کے لیے صرف اس کا سمجھنا کافی نہیں ہوتا؛ بلکہ مدرّس کو سخت محنت اور ابتدائی درجات سے پڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے، تب جاکر وہ کامیاب مدرّس بن سکتا ہے، تمہارا یہ خیال کہ جو کتاب میں خود سمجھ رہاہوں وہ طالبِ علم کو بھی بہ آسانی سمجھا سکوں گا‘ غلط ہے۔‘‘

            حضرت ناظمِ تعلیمات صاحب ؒ چونکہ حضرت مفتی صاحبؒ کی رائے کو بہت اہمیت دیتے تھے، اس لیے ان سے اتفاق کرلیا اور ان ہی کے بتائے ہوئے اسباق میرے نام کردیئے۔ مجھے بھی اپنی ناتجربہ کاری کا اندازہ ہوگیا اور دونوں کے اتفاق سے جو اسباق طے ہوگئے تھے اپنے لیے سعادت سمجھ کر شروع کرادیئے۔ اسباق شروع کرادینے کے بعد بہت جلد اندازہ ہونے لگا کہ حضرت مفتی صاحبؒ کا مشورہ میرے حق میں بے حد مفید رہا اور یقینا خالی الذہن طلبہ کو سمجھانے کے لیے بڑی محنت اور تیاری کی ضرورت ہوتی ہے، اور اس بات کا بھی یقین ہوگیا کہ اگر میں ابتداء ہی سے اوپر کی کتابیں لے لیتا توبڑی مشکل میں پھنس جاتا۔

            مردم سازی کے جذبات پر مبنی حضرت مفتی صاحبؒ کی مندرجہ بالا نصیحت ومشورے کا فائدہ آج تک محسوس کرتا رہتا ہوں اور فارغ ہونے والے طلبہ کو بھی ہرسال کے آخر میں اسی کی روشنی میں یہ مشورہ دیتا رہتا ہوں کہ کامیاب مدرّس بننے کے لیے ابتدائی کتابوں سے تدریس کا آغاز کیجیے اور پھر بتدریج اوپر جانے کی کوشش کیجیے۔ اگر کوئی شخص شروع ہی سے اوپر کی کتابیں لینے کی کوشش کرتاہے تو وہ مقبول مدرّس نہیں بن سکتا، مولانا جلال الدین رومیؒ نے خوب کہا ہے:

مرغِ پَر نارُستہ چوں پرّاں شود             طعمۂ ہر گربۂ درّاں شود

            ترجمہ ومفہوم: ’’پر نکلنے سے پہلے جو چوزہ اُڑنے کی کوشش کرتاہے، وہ پھاڑنے والی بِلّی کا لقمہ بن جاتاہے۔‘‘

حضرت مفتی صاحبؒ کی مردم سازی کا دوسرا واقعہ

            دارالعلوم دیوبند میں مدرّس کی حیثیت سے احقر کی تقرّری کے بعد کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ امتحان ہال (دار الحدیث تحتانی) میں تحریری امتحان ہورہا تھا اور مدرّسین حضرات نگرانی فرما رہے تھے، میں بھی ایک حلقے کی نگرانی پر مامور تھا، اس دوران مجھے اپنے حلقے کے اندر یہ محسوس ہوا کہ امتحان میں شریک دو طالب علم آپس میں گفتگو کررہے ہیں ، میں نے اپنی ناتجربہ کاری اور فطری تیز مزاجی کے تحت کچھ سخت لہجے میں ان کی سرزنش کی، مجھے یہ اندازہ بھی نہیں ہوا کہ حضرت الاستاذؒ نے مجھے ان طلبہ کی سرزنش کرتے ہوئے دیکھا ہے؛ کیونکہ وہ ایک دوسرے حلقے میں گشت فرمارہے تھے؛لیکن آپ نے اپنی دوربین نگاہوں سے مجھے دیکھ لیا تھا؛ چنانچہ آہستہ آہستہ گشت کرتے ہوئے میرے حلقے کی طرف تشریف لائے اور مجھے ایک طرف کرکے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مندرجہ ذیل حدیث جو امام مسلمؒنے اپنی سند کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی روایت سے نقل کی ہے، سنائی:

          ’’إن الرفقَ لایکون في شیئ إلا زانَہ ولایُنزَع من شیئ إلا شانَہ۔‘‘

’’بے شک نرمی ایک ایسی چیز ہے کہ جب وہ کسی معاملے میں شامل ہوجاتی ہے تو اس کو خوبصورت بنادیتی ہے، اور اگر اُسے کسی معاملے سے الگ کردیا گیا ہو تو وہ معاملہ بگڑ جاتاہے۔‘‘

            حدیث سنانے کے بعد حضرت الاستاذؒ نے فرمایا کہ: ’’دیکھو! یہ بات تو اپنی جگہ پر درست ہے کہ استاذ کا رعب ووقار طلبہ کے ذہنوں میں قائم رہنا چاہیے اور وہ طلبہ کے ساتھ اتنا بے تکلف نہ ہو جس سے اس کا رعب ووقار جاتا رہے؛ لیکن یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ بلا ضرورت سخت لہجہ یا سخت رویہ اختیار کرنا، استاذ وشاگرد کے درمیان قائم شفقت وعقیدت کے اس رشتے کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے جس کا برقرار رہنا ضروری ہوتا ہے، جب کہ نرمی ورحم دلی اس رشتے کو مزید مضبوط بنادیتی ہے۔‘‘

            راقم الحروف کا مزاج فطری طور پر کچھ تیز واقع ہوا ہے؛ البتہ حضرت الاستاذؒ کی مذکورہ بالا نصیحت کا یہ اثر اس وقت سے آج تک محسوس کرتا ہوں کہ جب بھی کسی معاملے میں تیز مزاجی کا غلبہ ہونے لگتاہے تو حضرت والا کی نصیحت یاد آتی ہے اور نرمی اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہوں ، اور اگر بروقت نرمی اختیار نہ کرسکا تو پھر ندامت وشرمندگی ضرور ہوتی ہے جو آئندہ کے لیے نرمی اختیار کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔

حضرت الاستاذؒ کی مردم سازی کا تیسرا واقعہ

            دارالعلوم دیوبند کے اسلاف واکابر کی طرح حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری قُدِّس سرُّہٗ کی تربیت ورجال سازی کا یہ عالَم تھا کہ وہ اپنے شاگردوں کی پوشیدہ صلاحیتوں کو تلاش کرتے ہوئے اُبھارنے اور بروئے کار لانے کی کوشش فرماتے تھے، اس سلسلے کا ایک واقعہ سپردِقلم کیا جارہاہے:

            دارالعلوم دیوبند میں مدرّس کی حیثیت سے جب احقر کا تقرّر عمل میں آیا، تو دارالعلوم کے نظام کے مطابق تدریس کے ساتھ ساتھ دارالاقامہ کے ایک حلقے کی نظامت بھی مجھ سے متعلق کردی گئی۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اپنے حلقے کے بعض انتظامی اُمور سے متعلق ایک مفصل تحریر میں نے حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحبؒمہتمم دارالعلوم دیوبند کے نام لکھی۔ میری اردو زباں چونکہ کافی کمزور تھی؛ اس لیے مجھے اپنی اس ٹوٹی پھوٹی تحریر پر دل میں شرم بھی محسوس ہورہی تھی کہ پتا نہیں میری تحریر کامقصد حضرت مہتمم صاحب کے سامنے واضح بھی ہوسکے گا یا نہیں ؟ بہرصورت! اسی تردُّد کے ساتھ ہی میں نے اپنی تحریر پیش کار صاحب کے پاس جمع کرادی؛ تاکہ وہ مناسب وقت میں اُسے حضرت مہتمم صاحب کی خدمت میں پیش کردے۔

            اتفاق سے جس وقت میری مذکورہ تحریر پیش کار صاحب کے ذریعے حضرت مہتمم صاحبؒ کے سامنے پیش ہورہی تھی اس وقت حضرت مفتی صاحبؒ بھی وہاں موجود تھے اورانھوں نے بھی اُسے ملاحظہ فرمایا تھا، جس کا مجھے کوئی پتہ نہیں چل سکا تھا۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد حضرت مفتی صاحبؒ نے ایک مناسب موقع پر مجھ سے فرمایا کہ: تمہارے اندر لکھنے کی صلاحیت موجود ہے، تم اپنی اس صلاحیت سے کام لیتے ہوئے کچھ نہ کچھ لکھنے کا سلسلہ شروع کرو۔ میں حیران ہوگیا کہ میں نے آج تک نہ تو کوئی رسالہ لکھا ہے اور نہ ہی کسی مقالہ نویسی یا مضمون نگاری میں کوئی دلچسپی لی ہے، اور نہ ہی اپنے اندر لکھنے کی ہمت محسوس کرتا ہوں ! پتہ نہیں حضرت الاستاذ کس بنیاد پر میرے اندر لکھنے کی صلاحیت کا تذکرہ فرمارہے ہیں ؟ میں اسی سوچ میں تھا کہ حضرت نے اگلا جملہ یہ ارشاد فرمایا کہ: کچھ عرصہ قبل تم نے مہتمم صاحب کے نام دارالاقامہ کے انتظامی امور سے متعلق جو ایک تحریر لکھی تھی وہ مہتمم صاحب نے مجھے بھی دکھائی تھی، جس سے مجھے یہ اندازہ ہوا کہ تمہارے اندر لکھنے کی صلاحیت موجود ہے، لہٰذا تم اس صلاحیت کو ضائع مت کرنا۔

            حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری قُدِّس سرُّہ کی مذکورہ بالا قیمتی نصیحت پر اگرچہ اپنی غفلت کی وجہ سے میں مکمل طور پر عمل پیرا نہ ہوسکا، تاہم اس کی برکت سے میں نے اپنے اندر اتنی ہمّت ضرور محسوس کی ہے کہ اس وقت سے آج تک اللہ کی توفیق سے کچھ نہ کچھ کبھی تو عربی زباں میں اور کبھی اردو زباں میں لکھنے کی نوبت پیش آتی رہتی ہے۔

۵- دینی حمیّت وحق گوئی

            مصلحت پسندی کے موجودہ دور میں حضرت الاستاذؒ کی ایک خصوصیّت‘ ان کی دینی حمیّت وحق گوئی تھی۔ وہ خلافِ شریعت کسی عمل پر خاموشی اختیار کرنے کے قائل نہیں تھے۔ اپنے اکابر کے مسلک سے ہٹ کر عصرِ حاضر کے تقاضوں کے بہانے سے اگر کسی کی کوئی رائے سامنے آتی توآپ مدلّل اور پُرزور انداز میں اس کی تردید فرماتے۔ دینی یا سیاسی جلسوں میں تصویر کشی کا مسئلہ ہو یا جاندار کی تصویر کے ساتھ سوشل میڈیا اور ٹی وی پر تبلیغِ دین کا موضوع ہو، مزارات پر کتبے لگانے کا سلسلہ ہو یا مدارسِ دینیہ کے اندر مروَّجہ حیلۂ تملیک کا مسئلہ ہو، یا ان سے ملتے جلتے کچھ دیگر ایسے مسائل ہوں جن میں قرآن وسنت کی تعلیمات اور اپنے اکابر کے مسلک سے ہٹ کر تساہل سے کام لیا جارہا ہو، آپ مضبوط دلائل کی روشنی میں ہر مصلحت کو بالائے طاق رکھ کر ان امور کی مخالفت فرماتے۔ آپ کی بعض آراء سے کچھ اہلِ علم حضرات اگر اتفاق نہ بھی کرتے، تب بھی اس بات کا اعتراف وہ ضرور کرتے کہ آپ ایک حق گو اور صاف گو عالمِ دین ہیں ، جو کچھ فرماتے ہیں دینی حمیت کے تحت فرماتے ہیں ۔ خلاصہ یہ ہے کہ آپ حق گوئی میں شاعرِ مشرق علّامہ اقبالؒ کے مندرجہ ذیل شعر کے مصداق تھے:

آئینِ جوانمرداں حق گوئی و بے باکی

اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

احقر کے اوپر حضرت الاستاذؒ کے بے شمار احسانات

            رواں پندرھویں صدی ہجری کے پہلے سال ۱۴۰۱ھ کو احقر بے سروسامانی کی حالت میں دارالعلوم دیوبند میں دورۂ حدیث کے طالبِ علم کی حیثیت سے داخل ہوا۔ ظاہری بے سروسامانی، غریب الوطنی اور مقامی زبان سے ناواقفیت کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اتنے انعامات سے نوازا جن کا تصور بھی مجھ جیسا تہی دامن وبے حیثیت طالبِ علم نہیں کرسکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے انعامات میں سے ایک اہم انعام یہ تھا کہ اس نے میرے اساتذۂ کرام اور بالخصوص حضرت مفتی صاحبؒ کی خصوصی شفقتیں میری طرف متوجہ کرادیں ۔

            حضرت مفتی صاحبؒ نے جہاں دارالحدیث میں اپنے دوسرے شاگردوں کے ساتھ ساتھ احقر کو بھی حدیث کی متعدد کتابیں پڑھائیں ، وہاں اپنے خارجی اوقات میں نظام الاوقات کی رعایت کے ساتھ حاضرِ خدمت ہونے اور استفادہ کرنے کی خصوصی اجازت سے بھی نوازا۔ احقر کو دورانِ مطالعہ جو اشکالات درپیش ہوتے، ان کو خدمت میں جاکر پیش کرتا اور آپ نہایت توجہ کے ساتھ سماعت فرماتے اور اطمینان بخش جوابات سے نوازتے۔

اشارہ بالسبّابہ کے مسئلے میں راہنمائی

            احقر نے فقہ کی کتابیں اپنے علاقے کے علمائے کرام سے پڑھی تھیں ، وہ علمائے کرام تشہُّد کے وقت اشارہ بالسبّابہ کے قائل نہیں تھے، اور دلیل میں بعض فقہائے احناف کی عبارتیں اور بالخصوص حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒکے ایک مفصّل مکتوب کو پیش کرتے تھے، جس میں اشارہ بالسبّابہ کی حدیث میں تاویل کرتے ہوئے فقہ حنفی کی مختلف کتابوں کے حوالوں کے ساتھ اس اشارے کو منع کیاگیاہے۔ (مکتوباتِ امام ربانی، دفتر اول، مکتوب نمبر: ۳۱۲)

            دارالعلوم دیوبند جانے سے قبل جہاں احقر نے درجہ موقوف علیہ پڑھتے ہوئے مشکوٰۃ شریف میں اپنے استاذ کے پاس اشارہ بالسبّابہ والی حدیث پڑھی اور استاذ محترم نے اس حدیث کی روشنی میں اشارہ بالسبّابہ کو سنت قرار دیا، تو میں نے طالب علمانہ اشکال پیش کرتے ہوئے حضرت مجدد الف ثانیؒ کے مذکورہ مکتوب اور اس میں درج شدہ تحقیق کا حوالہ دیا اور اس کا جواب اپنے استاذ محترم سے چاہا! استاذ محترم نے جواب دینے اور مجھے سمجھانے کی کوشش فرمائی؛ لیکن میرے ذہن میں اس جواب سے متعلق مزید اشکالات پیدا ہوتے رہے، اور یاد پڑتا ہے کہ سوال وجواب کا سلسلہ چند دنوں تک جاری رہا؛ لیکن میری محرومی تھی کہ میں پھر بھی مطمئن نہ ہوسکا۔

            اگلے سال جب دارالعلوم دیوبند میں دورۂ حدیث کے طالبِ علم کی حیثیت سے احقر کو داخلہ ملا اور وہاں کے مایۂ ناز محدّثین حضرات کے پاس حدیث پڑھنے کا موقع میسر ہوا، تو حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوریؒ نے حدیث کی متعدد کتابیں پڑھائیں ۔ حضرت مفتی صاحبؒ کے پاس پہلی بار جب اشارہ بالسبّابہ والی حدیث پڑھنے کا موقع ملا تو احقر نے یہاں بھی حضرت مجدد الف ثانیؒ کے مذکورہ مکتوب کے حوالے سے اشکال پیش کیا، حضرت الاستاذؒ نے اس مسئلے کو تفصیل طلب قرار دیتے ہوئے سبق کے بعد اپنی رہائش گاہ پر مجھے ملنے کا حکم دے دیا۔

            جب مقررہ وقت پر احقر اُن کی خدمت میں حاضر ہوا توانھوں نے اطمینان کے ساتھ میرا اشکال سنا اور پھر اپنی خداداد صلاحیت اور بے نظیر اندازِ تفہیم کے ذریعے محققینِ احناف اور اکابرِ دیوبند کا مسلک بیان کرتے ہوئے مذکورہ مکتوب کا ایسا محققانہ جواب پیش فرمایا جس سے میرا ذہن بالکل مطمئن ہوگیا اور صرف یہ نہیں کہ میں نے اگلی ہی نماز میں اشارہ بالسبّابہ کی سنت پر عمل شروع کیا؛ بلکہ آگے چل کر اللہ کی توفیق سے اپنے علاقے کے دوسرے بے شمار لوگوں کو بھی اس سنت پر عمل کرنے کے لیے آمادہ کرتا رہا اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔

امامت وتدریس میں ان کی راہنمائی

            احقر کو دورۂ حدیث کے سال دارالعلوم دیوبند کی مسجد میں امامت وخطابت کی ذمہ داری اور فراغت کے بعد تدریس کی ذمہ داری بھی سپرد کردی گئی۔ ان دونوں میدانوں میں اپنے تمام اساتذۂ کرام اور بالخصوص حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوریؒ کی راہنمائی قدم قدم پر شاملِ حال رہی۔ ان کی خصوصی توجہات وشفقتوں کی برکت سے مجھ جیسا مغفّل وتہی دامن شخص بھی ایک طرف تو نحومیر سے تدریس کا آغاز کرتا ہوا آگے بڑھتا رہا اور آج دورۂ حدیث کی کتابیں پڑھا رہا ہے،اور دوسری طرف ایک بڑی مسجد میں امامت وخطابت کی ذمہ داری بھی انجام دے رہا ہے۔ اگر ان کی خصوصی عنایات وتوجہات اور مبارک دعائیں شاملِ حال نہ ہوتیں تو بظاہر ایسا نہیں ہوسکتا تھا۔

حفظِ قرآن میں احقر کے اوپر حضرت مفتی صاحبؒ کا عظیم احسان

            اوپر عرض کیا جاچکا ہے کہ فراغت کے بعد دارالعلوم دیوبند ہی میں مدرّس کی حیثیت سے احقر کا تقرّر ہوا۔ تدریس کے دوران میں نے محسوس کیا کہ مدرّس اگر حافظِ قرآن نہ ہو تو تدریس میں اُسے دقّت پیش آتی ہے، اس کے علاوہ دارالعلوم دیوبند کے ماحول میں حفّاظِ قرآن کی کثرت کو دیکھ کر بھی حفظِ قرآن کا ایک ولولہ دل میں پیدا ہوچکا تھا، لہٰذا دل نے چاہا کہ تدریس اور مسجد دارالعلوم کی امامت اور دارالاقامہ کے ایک حلقہ کی نظامت کے ساتھ ساتھ خارجی وقت میں حفظِ قرآن شروع کروں ۔ البتہ مذکورہ بالا مصروفیات کے باوجود حفظِ قرآن میں لگنا کوئی آسان کام نہیں تھا؛ اس لیے حسبِ معمول حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری قُدِّس سرُّہ کی خدمت میں مشورہ کرنے کے لیے ان کی رہائش گاہ پر حاضر ہوا اور حفظِ قرآن کے لیے اپنی رغبت وارادے کا اظہار کیا۔

            حضرت الاستاذؒ نے ہمّت افزائی فرماتے ہوئے میرے ارادے کی تائید فرمائی اور یہ بھی فرمایا کہ تم نے بہت عمدہ سوچا ہے؛ لیکن اس عمر میں مذکورہ بالا مصروفیات کے باوجود حفظِ قرآن کے لیے ایک پختہ نظام الاوقات بنانے، مسلسل محنت اور وقت کی پابندی کی سخت ضرورت ہوگی۔ اگر تم مذکورہ تین شرائط کو بجالانے کے لیے تیار ہو تو میں خود ہی روزانہ تمہارا سبق اور آموختہ متعیَّن اوقات میں سن لیا کروں گا اور تجھے اللہ کی توفیق سے حافظِ قرآن بنادوں گا۔

            میں چونکہ صرف مشورہ کرنے کے لیے حضرت والاؒ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا، حاشیۂ خیال میں بھی یہ نہیں تھا کہ دارالعلوم کے مایۂ ناز استاذِ حدیث اپنی گوناگوں علمی مصروفیات کے باوجود اس حقیر کو اپنی اولاد کا درجہ دے کر اس کے لیے روزانہ  وقت نکالیں گے! اس لیے میں نے عرض کیا کہ: حضرت والا! میں تو صرف مشورہ کے لیے حاضر ہوا تھا؛ لیکن آپ نے میرے ساتھ اتنا بڑا احسان کا معاملہ فرمایا جو میرے تصور میں بھی نہ تھا، لہٰذا میں آپ کو اطمینان دلاتاہوں کہ آپ نے جن تین شرائط کی نشاندہی فرمائی ہے، میں اللہ کی توفیق سے تینوں کی مکمل پابندی کروں گا۔ حضرتؒ نے فرمایا کہ: جاؤ، اور آج ہی سے قرآن کی آخری منزل سورۂ ’’ق‘‘ سے حفظ کرنا شروع کرو اور کل فلاں وقت کو ایک منٹ کی تقدیم وتاخیر کے بغیر میرے پاس آنا، میں سن لوں گا۔

            حضرت الاستاذؒ کی ہدایت کے مطابق بروز یکشنبہ بتاریخ ۲۸؍صفر ۱۴۰۴ھ مطابق ۴؍دسمبر ۱۹۸۳ء سورۂ ’’ق‘‘ سے احقر حفظِ قرآن میں مصروف ہوگیا اور اللہ تعالیٰ کی توفیق اور حضرت الاستاذ کی خصوصی توجہ وعنایت سے ایک سال تین مہینے کے اندر مذکورہ بالا مصروفیات کے باوجود بروز دو شنبہ بتاریخ ۱۱؍ جمادی الثانیہ ۱۴۰۵ھ مطابق ۴؍مارچ ۱۹۸۵ء حفظِ قرآن مکمل ہوگیا۔اس پورے عرصے میں روزانہ فجر کے بعد سبق اور شام کو آموختہ حضرت الاستاذؒ کو سناتا رہا اور وہ سنتے رہے، جمعہ کو بھی ناغہ نہیں ہوتا تھا؛ بلکہ جب قرآن کریم کی ایک منزل کا حفظ مکمل ہوگیا تو پھر جمعہ والے دن سبق کے علاوہ ایک پوری منزل بھی سنتے تھے۔

            اس طویل عرصے کے اندر احقر نے یہ کبھی محسوس نہیں کیا کہ حضرت الاستاذؒ اپنی عدیم الفرصتی کی وجہ سے کوئی گرانی محسوس فرما رہے ہیں ؛ بلکہ حفظ مکمل ہونے کے بعد بھی روزانہ شروع میں ڈیڑھ پارہ اور پھر دو پارے مجھ ناچیز سے سنتے رہے اور ماہِ رمضان ۱۴۰۵ھ تک تین دور کراتے ہوئے مجھے اس قابل بنادیا کہ ماہِ رمضان ۱۴۰۵ھ کو پہلی محراب ان ہی کے مشورے سے دارالعلوم کی مسجد میں سنادوں ۔ رمضان کے بعد بھی شروع میں روزانہ ڈیڑھ پارہ اور بعد میں روزانہ تین پارے احقر سے سنتے رہے: یہاں تک کہ بروز یکشنبہ ۴؍ صفر ۱۴۰۶ھ مطابق ۲۰؍اکتوبر ۱۹۸۵ء آپ نے فرمایا کہ اب ان شاء اللہ! تمہیں مجھ کو قرآن سنانے کی ضرورت نہیں رہے گی، تم خود پابندی کے ساتھ روزانہ کا ایک معمول بناکر اپنی پوری زندگی میں قرآن پاک کی تلاوت سے وابستہ رہو اور ہر ماہ رمضان میں محراب سنانے کی پابندی بھی کرو۔

پاکستان واپسی کے بعد بھی قدم قدم پر آپ کی راہنمائی

            دارالعلوم دیوبند سے پاکستان واپسی کے بعد بھی تدریس کا معاملہ ہو یا امامت کا، اپنی زندگی کے لیے مناسب طریقۂ کار کی تلاش ہو یا کوئی علمی اشکال در پیش ہو، حالاتِ حاضرہ کے تحت کسی اُلجھن کا سامنا ہو یا زندگی کے نشیب وفراز میں کسی مشکل کا احساس دامن گیر ہو، پڑھنے لکھنے کا طرزِ عمل ہو یا اشاعتِ کتب کا ارادہ، غرض یہ کہ ہرہر موقع پر حضرت الاستاذؒ سے احقر رابطہ کرتا رہا اور حضرت راہنمائی فرماتے رہے، اور مجھے یاد نہیں کہ حضرت والا کا کوئی بھی مشورہ ایسا رہا ہو جس پر مجھے اطمینان نصیب نہ ہوا ہو یا اس کا نتیجہ مثبت نہ رہا ہو۔

            آپ کے وصال کے بعد جہاں احقر سمیت بے شمار بہی خواہانِ دارالعلوم دیوبند فکرمند ہیں کہ اب مادرِ علمی کو ایسا جامع المعقول والمنقول شیخ الحدیث اور ایسا متقی وباہمت صدر المدرّسین کیسے میسر ہوگا؟ وہاں احقر ذاتی طور پر پریشان ہے کہ وہ اپنے علمی اشکالات کس سے حل کرائے گا؟ اور زندگی کے نشیب وفراز میں پیش آنے والے غور طلب امور سے متعلق مشورہ کس سے کرے گا؟ حافظ شیرازیؒ نے شاید ایسے ہی کسی موقع پر کہا ہے:

مرادِ دل زکہ جویم کہ نیست دلدارے

کہ جلوۂ نظر و شیوۂ کرم دارد

            ترجمہ ومفہوم: ’’میں اپنا مقصد کہاں تلاش کروں ؟ اس لیے کہ کوئی ایسا تسلی دینے والا تو رہا ہی نہیں ، جس کی نگاہ میں جلوہ گری اور اس کی عادت میں ہمدردی ہو۔‘‘

            تاہم! ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں اللہ کی رحمتوں سے نا امید نہیں ہونا چاہیے، اللہ تعالیٰ دارالعلوم دیوبند کی بھی حفاظت فرمائیں گے اور حضرت الاستاذ کی اولاد واقارب اور متعلقین ومحبین کو بھی صبرِ جمیل عطا فرمائیں گے، وماذٰلک علی اللّٰہ بعزیز۔

آپ کی ترقی ومقبولیت کا راز

            راقم الحروف کی نظر میں حضرت الاستاذ مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری قُدِّس سرُّہ کی ترقیوں اور غیر معمولی مقبولیت کے دو اہم اسباب ہیں ، جنہیں اختصار کے ساتھ قلمبند کیا جارہا ہے:

۱- رزقِ حلال کی برکت

            احقر جس زمانے میں حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوریؒ کے پاس حفظِ قرآن کر رہا تھا، اس زمانے میں ان کے والدِ ماجد جناب یوسف پالن پوری (متوفّٰی ۱۹؍ذیقعدہ ۱۴۱۲ھ) جو اپنے گاؤں میں قیام پذیر تھے، چند دن کے لیے دیوبند تشریف لائے تھے اور اپنے صاحبزادے حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوریؒ کے ہاں مقیم تھے۔ احقر چونکہ روزانہ ان کے مکان پر قرآن سنانے کے لیے حاضری دیتا تھا؛ اس لیے ان کے والد ماجدؒسے جب تک وہ حضرت الاستاذ کے پاس مقیم رہے چند ملاقاتیں میسر ہوئیں اور ان سے واقفیت کا موقع نصیب ہوا۔ وہ باضابطہ عالمِ دین اگرچہ نہیں تھے؛ لیکن ایک صاف دل، متقی پرہیزگار اور سنتوں کے پابند ضرور تھے۔انھوں نے نامساعد حالات کے باوجود اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت پر اتنی توجہ دی تھی کہ صرف ایک بیٹے کے علاوہ سب کو حافظ وعالم بنادیا تھا۔

            ایک ملاقات کے دوران میں نے جناب یوسف صاحب پالن پوریؒ سے عرض کیا کہ: آپ کتنے خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حضرت الاستاذ مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری استاذِ حدیث دارالعلوم دیوبند اور حضرت مولانا مفتی محمد امین صاحب مدرّسِ دارالعلوم دیوبند جیسے صاحبزادوں کی نعمت سے نوازا ہے، جب کہ آپ خود باضابطہ عالم بھی نہیں ہیں ! آپ یہ تو بتا دیجئے کہ آپ کے صاحبزادوں کی کامیابی کا اصل راز کیاہے؟انھوں نے فرمایا کہ: یہ تو اللہ تعالیٰ ہی کا فضل وکرم ہے اور اللہ ہی اصل راز کو جانتا ہے، میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ الحمد للہ میں نے اپنے علم کے مطابق اپنے بچوں کو ایک لقمہ بھی حرام یا مشکوک روزی کا نہیں کھلایا ہے اور پھر اپنا ایک قصہ سنایا جس کا خلاصہ یہ تھا:

            ’’جس زمانے میں شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی  ؒ، حضرت مولانا بدرِ عالم صاحب میرٹھیؒ اور حضرت علامہ سید محمد یوسف صاحب بنوریؒ جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل (گجرات) میں پڑھاتے تھے، اس وقت میں وہاں پڑھتا تھا اور حضرت مولانا بدر عالم میرٹھیؒ کی خدمت کرتا تھا۔ ایک دفعہ مجھ سے حضرت مولانا بدرعالم صاحبؒ نے فرمایا کہ: یوسف! تمہاری برادری کے لوگ بہت اچھے لوگ ہیں ؛ لیکن ان میں ایک خامی ایسی ہے جس کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکتاہوں کہ ان میں کوئی اچھا عالم پیدا نہیں ہوگا، وہ سب کے سب بنیوں کے سود میں پھنسے ہوئے ہیں ، جس کی وجہ سے ان کی آمدنی حرام ہے، حرام اور ناجائز غذا کھا کر اچھا عالم پیدا نہیں ہوسکتا، لہٰذا اگر تم چاہتے ہو کہ آگے چل کر تمہارے بیٹے اچھے عالم بنیں تو حرام اور ناجائز مال سے خود بھی پرہیز کرنا اور اولاد کو بھی بچانا۔ میرے والد (حضرت مفتی صاحبؒ کے دادا) نے بھی چونکہ بنیوں سے سودی قرضہ لیا تھا؛ اس لیے حضرت مولانا بدر عالم صاحبؒ کی بات سن کر میں نے ان سے اس سودی قرضے سے جان چھڑانے کا تقاضا کیا؛ لیکن وہ اپنی مجبوری بتاکر میری بات نہ مان سکے اور مجھے الگ کردیا، میں نے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر یہ تہیّہ کرلیا کہ چاہے بھوکا رہوں ؛ مگر حرام یا مشکوک مال کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا، تاکہ میں نہیں پڑھ سکا، میری اولاد تو ان شاء اللہ تعالیٰ پڑھ کر اچھا عالم بن سکے گی؛ چنانچہ میں نے اپنی ہی محنت سے کمانا شروع کیا، خود بھی حرام ومشکوک آمدنی سے بچنے کی کوشش کی اور اولاد کو بھی اس سے بچایا اور ان کی تعلیم پر توجہ دی، جس کے نتیجے میں ایک بیٹے کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے سب کو حافظ وعالم بنادیا۔‘‘

            راقم الحروف کہتا ہے کہ حضرت مفتی صاحبؒ کے والدِ ماجد کی تربیت ونیک جذبات کا یہ اثر تھا کہ آپ نے بھی ہمیشہ قناعت واستغناء کے ساتھ زندگی گزارتے ہوئے اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو مشکوک آمدنی سے دور رکھا۔ اوپر عرض کیا جا چکا ہے کہ آپ نے فارغ ہونے کے بعد نو سال تک ’’دارالعلوم اشرفیہ، راندیر‘‘ میں پڑھایا اور ۱۳۹۳ھ کو دارالعلوم دیوبند میں آپ کا تقرّر ہوا، آپ اس دوران ایک معمولی مشاہرے پر اکتفا کرتے ہوئے شب وروز مطالعہ، تدریس اور تصنیف وتالیف میں مصروف رہے۔ تدریس کے ابتدائی دور میں فاقوں کی نوبت بھی پیش آئی؛ لیکن آپ نے ہمیشہ صبر وتوکل سے کام لیا۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے آپ کی تصانیف کو خوب مقبولیت عطا کی اور اپنے ذاتی کتب خانہ ’’مکتبۂ حجاز‘‘ سے بقدرِ ضرورت ایک آمدنی کا سلسلہ بن گیا تو آپ نے ۱۴۲۳ھ کو حجِ بیت اللہ سے واپسی کے بعد دارالعلوم دیوبند سے تنخواہ لینے کا سلسلہ موقوف کردیا اور جو تنخواہ ۱۳۹۳ھ سے ۱۴۲۳ھ تک وصول فرما چکے تھے، وہ بھی واپس لوٹا دی، اور دارالعلوم دیوبند میں تقرّری سے قبل ’’دارالعلوم اشرفیہ ، راندیر‘‘میں جو نو سال تک تنخواہ وصول فرمائی تھی وہ بھی دارالعلوم اشرفیہ کو لوٹا دی اور پھر اپنے وصال تک لِلّٰہ فی اللہ دین کی خدمت میں مصروف رہے۔

            ایک دفعہ حضرت الاستاذؒ نے خود مجھ سے فرمایا کہ: میرے والد ماجد کا منشا تویہ تھا کہ میں ابتداہی سے بلا مشاہرہ پڑھاتا؛ لیکن میں نے یہ سوچا کہ میری طالب علمی کے دور میں تو والد صاحب ہی اپنی محنت کی معمولی آمدنی سے مجھ پر خرچ کرتے رہے، اب تدریس کے دوران بھی وہ ہی مجھ پر اور میری اولاد پر خرچ کرتے رہیں ، یہ مناسب نہیں ، لہٰذا میں مشاہرہ لینے کے لیے آمادہ ہوگیا تھا؛ لیکن یہ نیت کی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو اپنے والد کے منشا کا خیال رکھتے ہوئے سارا وصول کیا ہوا مشاہرہ واپس لوٹا دوں گا۔

۲- قرآن کریم سے والہانہ تعلق ومحبت کا کرشمہ

            حضرت الاستاذؒ کی مقبولیتِ عامہ اور کامیابیوں کا ایک اہم سبب احقر کی نظر میں قرآنِ پاک سے ان کی والہانہ محبت ووابستگی تھی، دارالعلوم دیوبند کے زمانۂ قیام میں احقر نے بارہا یہ مشاہدہ کیا ہے کہ جب کوئی شخص حضرت والا کے سامنے تلاوت شروع کرتا یا وہ خود تلاوت میں مصروف ہوجاتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ آپ کا ظاہری وباطنی تعلق سب سے کٹ کر صرف اللہ تعالیٰ اور اس کی کتاب سے جُڑ گیا ہے، آنسو رواں دواں اور چہرے کا رنگ بدلا ہوا نظر آتا۔ حضرت والاؒ کی مذکورہ کیفیت کو یاد کرکے آج تک میں سوچتا رہتا ہوں کہ اگر زندگی میں صرف ایک دفعہ بھی ہمیں ایسی کیفیت نصیب ہوجائے تو شاید ہمارا بیڑا پار ہوجائے؛ لیکن بات یہ ہے کہ ’’ذٰلک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشاء۔‘‘

            احقر جب حضرت الاستاذؒ کے قرآنِ پاک سے تعلق کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مندرجہ ذیل جیسی حدیثوں کی روشنی میں دیکھتا ہے تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ حضرت الاستاذؒ کی ترقیوں اور بے مثال محبوبیت ومقبولیت کا ایک اہم راز قرآن پاک سے ان کی والہانہ محبت تھی؛ کیونکہ ان حدیثوں کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن سے تعلق ومحبت‘ اللہ تعالیٰ کے قرب کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔

            امام بخاریؒ نے بروایت حضرت ابوہریرہؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے:

          ’’لَمْ یَأْذَنِ اللّٰہُ لِشییٍٔ ما أذِن لِنَبِیٍّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یتغنّٰی بالقرآن۔‘‘

            یعنی ’’اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز نہیں سنی جیسی اس نبی کی سنی جو قرآن پاک ترنم سے پڑھتا ہے۔‘‘ (بخاری شریف،ج:۲، ص:۷۵۱)

             اور امام ترمذیؒ نے بروایت حضرت ابو امامہؓآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے:

          ’’—- وما تقرَّب العباد إلی اللّٰہ بمثل ما خرج منہ یعنی القرآن‘‘

یعنی ’’اور بندوں نے اللہ تعالیٰ کی نزدیکی اس قدر کسی چیز کے ذریعے حاصل نہیں کی جس قدر اس چیز کے ذریعے جو اللہ سے صادر ہوئی ہے، یعنی قرآن پاک‘‘ ۔ (ترمذی شریف، ج:۲، ص:۱۱۹)

آپ کی ایک آخری خاموش تمنا جو پوری ہوگئی

            حضرت الاستاذؒ نے اپنی زندگی اتنی کار آمد بنالی کہ موجودہ دور میں اس کی مثال مشکل سے ملے گی، آپ نے دین کی مسلسل خدمت کرتے ہوئے اپنی صحت کی بھی کوئی پروا نہیں کی۔ غالباً آپ یہ چاہتے تھے کہ جب اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جسم کے بارے میں مجھ سے سوال کرے کہ: ’’فیم أبلیتَہ؟‘‘ یعنی ’’اپنے جسم کو کن کاموں میں لگا کر آپ نے ناتواں کردیا؟‘‘ تو میں جواب دے سکوں کہ: ’’في خدمۃ کتابک وسنۃ نبیک‘‘ یعنی ’’ تیری کتاب اور تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی خدمت میں لگاکر ناتواں کردیا۔‘‘

            آپ زیادہ محنت اور پیرانہ سالی کی وجہ سے اپنی عمر کے آخری سالوں میں شوگر اور دل کی مختلف بیماریوں کا شکار ہوگئے تھے، عمر کے اس حصے میں بظاہر ان بیماریوں سے صحت یاب ہونے کی اُمیدکم اور ان کے مزید بڑھ جانے کا اندیشہ زیادہ ہوجاتاہے۔ ایسی صورتِ حال میں یقینا حضرت والاؒ کی یہ خاموش تمنا رہی ہوگی کہ وہ ارذلِ عمر سے پہلے ہی قرآن وسنت کی خدمت کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور میں حاضری دیں ، اور اپنے عزیز طلبہ کو بھی تعلیمی سال کے درمیان میں الوداع نہ کہیں جس سے ان کی کتاب بخاری شریف نامکمل رہ جائے، اور نہ ہی دارالعلوم کو سال کے درمیان میں خیر باد کہہ کر اس کی مؤقّر مجلسِ شوریٰ کو شیخ الحدیث و صدر المدرّسین کی تعیین کے لیے غور کرنے کا موقع نہ دیں ۔

            اللہ تعالیٰ نے اپنے اس نیک اور مخلص بندے کی مذکورہ خاموش تمنا اس طرح پوری فرمالی کہ آپ نے بخاری شریف کو اختتام تک پہنچاتے ہوئے اس جملے کے ساتھ اپنے طلبہ سے رخصت لی کہ: ’’اللہ جو چاہے گا وہ ہوگا‘‘ اور پھر رمضان المبارک میں سفر کے دوران نہایت کمزوری کی حالت میں آرام کرنے کے بجائے روزانہ تراویح کے بعد درسِ قرآن کا سلسلہ شروع فرما کر علمی اور اصلاحی گراں قدر نکتے بکھیرتے رہے، کمزوری اتنی کہ متعلقین نے (بشمول احقر کے بذریعہ فون) چند دن تک درس موقوف رکھنے اور آرام کرنے کی درخواست کی؛ لیکن آپ نے انکار فرماتے ہوئے ۱۵؍رمضان تک درس کا سلسلہ جاری رکھا، آپ کی کیفیت پر حافظ شیرازیؒ کا مندرجہ ذیل شعر منطبق ہورہا تھا:

دست از طلب ندارم تاکامِ من برآید

یا تن رسد بہ جاناں یا جان زِ تن برآید

            ترجمہ و مفہوم: ’’میں اپنے مقصد کے حصول تک جد وجہد جاری رکھوں گا؛ تاکہ یا تو محبوبِ حقیقی کا وصال نصیب ہو یا پھر میں اپنی جان اس کے سپرد کروں ۔‘‘

            ۱۵؍ رمضان المبارک کے بعد زبان میں بولنے کی طاقت باقی نہیں رہی اور سفرِ آخرت شروع ہوگیا اور چند ہی دن کے اندر آخری عشرے میں ۲۵؍رمضان المبارک ۱۴۴۱ھ کو داغِ مفارقت دے گئے۔ راقم الحروف جب حضرت الاستاذؒ کی پوری زندگی اور خاص کر زندگی کے آخری قابلِ رشک ایام پر غور کرتا ہے، تو بے اختیار زباں پر یہ الفاظ جاری ہوتے ہیں : ’’عاش سعیداً ومات سعیداً وسیُبعث یوم القیامۃ إن شاء اللّٰہ سعیداً۔‘‘ (آپ نے سعادت مندی کی زندگی بسر کی اور سعادت مندی کی موت نصیب ہوئی اور قیامت میں بھی ان شاء اللہ تعالیٰ سعادت مندی کی حالت میں اللہ کے حضور پیش ہوں گے) اور اسی سوچ وغور وفکر سے اللہ تعالیٰ مجھے اپنے عظیم مربی واستاذ حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری قُدِّس سرُّہ العزیز کے فراق پر صبر کی توفیق عطا فرماتاہے، اور اُمید کرتاہوں کہ ان بے ربط؛ لیکن دل کی گہرائیوں سے نکلے ہوئے ٹوٹے پھوٹے کلمات سے قارئین کرام اور حضرت الاستاذؒ کی اولاد واقارب اور مخلصین ومتعلقین کو بھی صبر کی توفیق نصیب ہوگی۔

            احقر نے اپنے مضمون کو باربار سمیٹنے کی کوشش کی، لیکن قلم اپنی زبانِ حال سے مندرجہ ذیل مشہور شعر کو معمولی ترمیم کے ساتھ دہراتاہوا آگے بڑھتا رہا:

أَعِدْ ذکرَ ’’سعید‘‘ لنا إن ذکرَہٗ

ہو المسکُ ما کرَّرتَہٗ یتضوَّع

            ترجمہ ومفہوم: ’’شیخ سعید کا تذکرہ دہراتے رہنا؛ کیونکہ ان کا تذکرہ جتنا دہراتے رہوگے اتنا ہی مشک کی طرح مہکتا رہے گا۔‘‘

            حضرت الاستاذؒ نے اپنے پیچھے نو صاحبزادہ گان اور دو صاحبزادیوں کو سوگوار چھوڑا، جو سب کے سب حافظِ قرآن اور دینی تعلیم سے آراستہ اور دین کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں ۔ دو صاحبزادوں کا آپ کی حیات میں انتقال ہوگیا تھا، وہ بھی حافظِ قرآن اور دینی تعلیم سے آراستہ تھے۔ اللہ تعالیٰ حضرت الاستاذؒ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے اور آپ کی اولاد، اقارب ورشتہ دار، دارالعلوم دیوبند کے اربابِ انتظام اور اساتذۂ کرام وطلبہ اور حضرتؒ کے تمام تلامذہ ومتعلّقین ومحبیّن کو صبرِ جمیل عطا فرمائے، آمین!

———————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ :9-8،    جلد:104‏،  ذی الحجہ 1441ھ – محرم الحرام 1442ھ مطابق اگست  – ستمبر 2020ء

٭           ٭           ٭

Related Posts