ازقلم: مولانا مصلح الدین قاسمی

استاذِ تفسیر وادب دارالعلوم  دیوبند

            نصف صدی سے زائد عرصے تک ’’دارالعلوم اشرفیہ راندیر، سورت صوبہ گجرات‘‘ اور ’’ازہرہند دارالعلوم/دیوبند‘‘ کی مسندِ تدریس پر جلوہ افروز ہوکر تشنگانِ علومِ نبوت کو اپنے علمی بحرِ زخّار سے سیراب کرتے ہوئے بالآخر۲۵؍رمضان المبارک ۱۴۴۱ھ مطابق ۱۹؍مئی ۲۰۲۰ء بروز منگل بہ وقتِ چاشت ملت اسلامیہ کے سالارِ کاررواں ، قافلۂ علماء کے حُدی خواں ، محدثِ جلیل، استاذ الاساتذہ حضرت اقدس مفتی سعیداحمد صاحب پالن پوری صدرالمدرسین وشیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند اپنے ہزارہا ہزارشاگردوں ، متعلقین، محبّین اور منتسبین کو روتا بلکتا چھوڑ کر ممبئی کے ایک ہاسپٹل میں مالکِ حقیقی سے جاملے۔  إنّا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، اللّٰہم اغفرلہ وراحمہ وأسکنہ فی فسیح جناتک۔

تیرے اعمال ابد تک نہ مریں گے ہرگز

رہنما ہے ترا نقشِ کفِ پا تیرے بعد

            باقی رہنے والی ذات صرف اللہ کی ہے، دنیائے فانی کے ہر فرد؛ بلکہ ہر شخصیت کو خواہ کتنی ہی دلکش اور کرداروعمل کی بنیاد پر کتنی ہی عزیز کیوں نہ ہو بالآخر اُسے ایک نہ ایک دن رخصت ہونا ہے؛ کیوں کہ ہر ایک جانے ہی کے لیے آیا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ کوئی جاتا ہے تو صرف چند لوگ آنسو بہاتے ہیں اور کوئی اس انداز سے جاتا ہے کہ پوری دنیا میں اس کے چاہنے والے اور اس سے انتساب پر فخرکرنے والے آنسوبہاتے اور غم میں ڈوب جاتے ہیں ، ایسے لوگ بہ ظاہر روپوش تو ضرور ہوجاتے ہیں ؛ مگر ان کی روشنی باقی رہتی ہے، پوری کائنات اس روشنی سے فائدہ اٹھاتی ہے اوراس کے اُجالے میں اپنی متاعِ گم شدہ کو ڈھونڈھتی ہے۔

            بلاشبہ استاذِ گرامی مرتبت، محدّثِ جلیل، فقیہ بے نظیرحضرت اقدس مفتی سعیداحمد پالن پوری نوّراللہ مرقدہٗ کی ذاتِ گرامی ایسی ہی تھی، آپ کی رحلت نے علمی حلقے میں جو خلا پیداکیا ہے، اس کا پُرہونا بہ ظاہر مشکل نظر آتا ہے، آپ بیک وقت ایک عظیم محدّث، ممتاز فقیہ، باکمال مصنف، بے مثال مربّی، بافیض استاذ، علومِ اسلامیہ کے شارح اور علماء کے مرجع تھے، فقہی سیمیناروں ، علمی حلقوں ، قابلِ ذکر علمی مجالس کے بادشاہ تھے، ملک وبیرونِ ملک کے صفِ اوّل کے علماء میں نہ صرف یہ کہ آپ کا شمار تھا؛ بلکہ اکابر علماء کی نگاہیں کسی بھی لاینحل مسئلے کے حل کے لیے آپ کو ڈھونڈھتی تھیں اور آپ بہت ہی آسان الفاظ اور سہل انداز سے چٹکیوں میں وہ مسائل حل کردیا کرتے تھے،قدرت نے آپ کو علمی بصیرت، فراستِ ایمانی اور ایسی علمی جلالتِ شان سے نوازا تھا کہ آپ سے ملنے؛ بلکہ آپ کو دیکھنے والا مرعوب ہوجاتا اور آپ کے حلقہ ہائے درس میں شرکت کرنے والوں اور خوشہ چینوں کا تو کیا کہنا؟ وہ تو آپ کے گرویدہ اور آپ پر نچھاور ہونے کے لیے تیار رہتے تھے، کہنے کو تو طلبۂ دورہٴ حدیث کے لیے آپ کا سبق ’’حدیث شریف‘‘ کا ہوتا تھا؛ مگر آپ کے حلقۂ درس سے اٹھنے کے بعدطلبہ یہ محسوس کرتے کہ وہ ایک سبق نہیں ؛ بلکہ بہت سے فنون اور اسباق پڑھ کر اٹھ رہے ہیں ، ہر سبق میں احادیثِ مبارکہ کی تشریح، موقع بہ موقع اسماء الرجال کی بحث، ائمۂ کرام کے اقوال، فقہی مسائل اور ترجیح الراجح کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ نحو وصرف نیز موقعے کی مناسبت سے ایک طرح کے مضمون میں وارد احادیثِ مبارکہ میں پائے جانے والے مختلف الفاظ کے مابین فرق اورنکات پر بھی سیرحاصل بحث کرتے اور دیکھتے دیکھتے پورا گھنٹہ ختم ہوجاتا؛ بلکہ بسااوقات حضرت الاستاذ علیہ الرحمہ اپنے مخصوص لب ولہجے میں دو دو گھنٹے پڑھاتے رہتے اور یوں محسوس ہوتا جیسے ابھی سبق شروع ہوا ہو۔ آہ

دید کی پیاسی نگاہیں تجھ کو پائیں گی کہاں

زیارت وملاقات

            دارالعلوم الاسلامیہ بستی سے سالِ ششم (جلالین) کی تعلیم مکمل کرکے ۱۴۱۴ھ میں احقر ام المدارس دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوا، حضرت الاستاذ نوراللہ مرقدہ کے علمی جلالتِ شان کی گونج تو سابق مدرسے ہی میں احقر کے کان میں پڑچکی تھی، داخلے کی کارروائی کی تکمیل کے بعد پہلی بار زیارت کا شرف اس وقت ہوا جب آپ ترمذی شریف کا درس دینے کے لیے دارالحدیث تحتانی میں تشریف لائے، دوسرے سال ۱۴۱۴ھ و۱۴۱۵ھ مطابق ۱۹۹۴-۱۹۹۵ء میں باضابطہ شرفِ تلمذ حاصل ہوا۔ آپ معتدل رفتار سے پیادہ پا تیسرے گھٹے اور بعد نماز مغرب تشریف لاتے، آپ کے آنے سے پہلے ہی پوری دارالحدیث کھچا کھچ بھرجاتی، آپ کے آتے ہی سنّاٹا چھاجاتا، آتے ہی سلام اور لاالٰہ الا اللہ کے ورد کے بعد سبق شروع فرمادیتے اور پھر تسلسل کے ساتھ خاص انداز اور لب ولہجے میں پورے گھنٹے اور عشاء کی اذان کی سبق جاری رہتا، اکثر طلبہ آپ کا سبق نوٹ کرتے، احقر بھی پورے سال نوٹ کرتا رہا اور ایک ضخیم مجلد کاپی اس کی برکت سے تیار ہوگئی۔ دورہٴ حدیث کے سال گاہ بہ گاہ رفقاء کے ہمراہ عصر کے بعد کی عمومی مجلس میں حاضر ہوتا؛ مگر قریب ہوکر چاہت کے باوجود اپنا تعارف کرانے کی ہمت نہ ہوئی، دورہٴ حدیث شریف کے بعد تکمیلِ ادب اور تخصص فی الادب کے سالوں میں کچھ تعارف ہوا اور قریب جانے کی ہمت ہوئی؛ مگر کئی ملاقاتوں میں نام اور سکونت دریافت فرماتے رہے۔

شفقت جو ہمیشہ یاد رہے گی

            ماہ شوال ۱۴۱۷ھ میں احقر نے دارالعلوم دیوبند معاونتِ تدریس کی درخواست پیش کی، دعا کے لیے حاضرِخدمت ہوا، اپنا ارادہ ظاہر کیا اور دعا کی درخواست کی، دوسرے دن حضرت والا نوراللہ مرقدہٗ نے برادرگرامی مرتبت جناب ڈاکٹر مولانا اشتیاق احمد صاحب زیدمجدہٗ استاذ دارالعلوم دیوبند – جن کا زمانۂ طالب علمی سے آخر تک حضرت والا سے والہانہ تعلق رہا- کی زبانی پیغام بھیجا کہ وہ لڑکا جو تخصص فی الادب پڑھ رہا تھا اور کل شام آیا تھا اُسے کہو کہ ’’کل صبح مجھ سے ملے‘‘۔

            صبح کو حاضرِخدمت ہوا، عزیز محترم ’’مولوی احمد سعید سلّمہ‘‘ (استاذ حدیث جامعۃ الشیخ حسین احمد المدنی دیوبند) ناشتہ لے کر آئے، ساتھ میں ناشتہ کیا، پھر فرمایا: ’’میں سفر پر جارہاہوں ایک ہفتے بعد واپسی ہوگی، یہ میرا بچہ ہے (بھائی احمد کی طرف اشارہ کرکے فرمایا) میں اِسے قصص النّبیین اور کچھ کتابیں خود پڑھاتا ہوں ، آپ انھیں میرے سفر سے واپسی تک پڑھائیں ‘‘ حکمِ عالی کے مطابق میں سفر کی واپسی تک سعادت سمجھ کر پڑھاتا رہا، اِس طرح حضرت الاستاذ نوراللہ مرقدہ سے تعلق بہت پختہ ہوگیا، اس واقعے کے بعد سے جب بھی خدمت میں حاضری ہوتی تو خیریت اورمصروفیت ضروردریافت فرماتے۔

            دارالعلوم دیوبند میں معاونتِ تدریس کی مدّت کی تکمیل کے بعد احقر کی تقرری ’’جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد‘‘ میں ہوگئی جہاں دس سال تک خدمتِ تدریس انجام دیتا رہا، اس دوران ایک مرتبہ حضرت الاستاذ نوراللہ مرقدہ جامعہ قاسمیہ شاہی تشریف لائے، خدمت کے لیے احقر مہمان خانے میں حاضر ہوا، سرپر تیل کی مالش کررہا تھا، فرمایا: ’’ہاں بھائی! اور کیاحال ہے؟‘‘ پھر زیردرس کتابوں کے متعلق دریافت کیا، بعدازاں فرمایا: ’’ندائے شاہی میں تمہارا مضمون پڑھتا رہتا ہوں ، ٹھیک لکھتے ہو!‘‘

            دارالعلوم میں تقرر کے بعد شروع کے سالوں میں عموماً جمعہ کو صبح دس بجے ملاقات کے لیے حاضر ہوتا، ہوا یہ کہ ایک جمعہ کو صبح فون کیا، بات نہ ہوسکی، پھر دس بجے فون کیا اور کہا کہ حضرت! صبح بھی فون کیا تھا، حاضرِخدمت ہونا چاہ رہا تھا، فرمایا: ’’جمعہ کوفجر کی نماز کے بعد سوتا ہوں ، سنو! جمعہ کو مولوی کی صبح نوبجے ہوتی ہے، آنا ہوتو نوبجے کے بعد فون کرکے آیا کرو‘‘۔ ایک مرتبہ دورانِ ملاقات معلوم کیا کہ مکان کہاں ملا ہے؟ میں نے بتلایاکہ حضرت! اُس دارالمدرسین میں جو شیخ الاسلام منزل کے پاس ہے جہاں حضرت مولانا عبدالخالق صاحب سنبھلی زیدمجدہم رہتے ہیں ، تو فرمایا: ’’وہ جگہ اچھی ہے، مگر یاد رکھو وہ مکان اپنا نہیں پرایا ہے، اپنے مکان کی فکر کرو‘‘ کس قدر اپنائیت اور شفقت کے ساتھ آپ پیش آتے تھے۔ آہ! اب ایسی عنایتیں اور شفقتیں کہاں ملیں گی؟

ڈوب سا جاتا ہے دل رہ رہ کے ان کی یاد میں

کوئی کیا سمجھے کہ وجہِ بے خودی ہوتی ہے کیا

پیکرِ علم وعمل

            طالب علمی اور مدرسی کے زمانے میں بہت سے اکابر علمائے دیوبند کو پڑھنے اور اپنے اساتذہٴ عظام کی زبانی سننے کا موقع ملا جو یقینا مجموعۂ کمالاتِ ظاہریہ وباطنیہ تھے، جنھوں نے اپنے اپنے دور میں کارہائے نمایاں انجام دئیے، اللہ رب العزّت ان کی خدماتِ جلیلہ قبول فرمائے۔ مگر احقر کی آنکھوں نے جن اساتذہٴ کرام اورمشایخ عظام کو دیکھا ان میں حضرت الاستاذ حضرت اقدس مفتی سعیداحمد صاحب نوراللہ مرقدہ کو بھی علم وعمل کے اعتبار سے اکابردارالعلوم کا پروتو اور عکس جمیل پایا، آپ علم وعمل، تصنیف وتالیف اورتحقیق وتشریح کے رسیا تھے، آپ کا بیشتر وقت، تدریس وتصنیف اور مطالعہ وتحقیق ہی میں گذرتھا تھا، یہی آپ کا اوڑھنا بچھونا تھا، جب بھی آپ کسی موقعے پر خطاب فرماتے، ہمیشہ طلبہ کو جدوجہد، محنت اور تضییعِ اوقات سے بچنے کی تاکید فرماتے، عصر بعد کی عمومی مجلس میں بارہا یہ دیکھنے کو ملا کہ حضرت والا کسی کتاب کی تصحیح اور پروف ریڈنگ میں مصروف ہیں ، درمیان میں کسی نے کوئی سوال کیا، آپ نے قلم روک کر جواب دیا اور پھر اپنے کام میں مصروف ہوگئے، اکثر ملاقاتوں میں ہم جیسے شاگردوں کو محنت کرتے رہنے کی یہ کہتے ہوئے تاکید فرماتے ’’ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ دارالعلوم پہنچ گئے تو محنت کا سلسلہ ختم کردیا‘‘ سچ ہے:

سمجھا کے پستیاں مرے اوجِ کمال کی

اپنی بلندیاں وہ دکھا کر چلے گئے

عزم واستقلال

            علمی وعملی میدان میں آپ کا عزم واستقلال بھی مثالی رہا ہے، کوئی بھی اہم ترین اور ضخیم کتاب ہو اور آپ نے اس کی تحقیق وتشریح کا ارادہ کرلیا تو صفحات کی ضخامت اور کتاب کی طوالت آپ کی راہ میں کبھی حائل نہ ہوئی، یہی وجہ ہے کہ ربّ کریم کے فضل وکرم سے آپ نے تن تنہا وہ علمی خدمات اور کارہائے نمایاں انجام دیے جن کے لیے اکیڈمیاں درکار ہیں ؛ چناں چہ ’’رحمۃ اللہ الواسعہ شرح حجۃ اللہ البالغہ، تحفۃ الالمعی شرحِ سنن ترمذی، تحفۃ القاری شرحِ بخاری، فیض المنعم شرحِ مقدمہ مسلم، تحفۃ الدرر شرحِ نخبۃ الفکر، مبادیٔ الفلسفہ‘‘ جیسی چالیس سے زیادہ معرکۃ الآرا، اپنے نوکِ قلم سے لکھی ہوئی تصنیفات آپ کے عزم واستقلال اور وقت کی قدر وقیمت پر شاہدعل ہیں ، جن سے امت رہتی دنیا تک فیضیاب ہوتی رہے گی اور آپ کے درجات بلند ہوتے رہیں گے۔ ان شاء اللہ!

صبرا ورتسلیم ورضا

            یوں تو کئی سالوں سے حضرت والا نوراللہ مرقدَہ مختلف اعذار وامراض سے دوچار تھے؛ مگر کبھی بھی بیماری کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیا، ہمیشہ آپ کا انداز بس یہی نظر ا ٓیا۔ ع

سرِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے

حتیٰ کہ بعض بیماریوں میں آپ کا آپریشن بھی ہو؛ا مگر بحالی صحت سے پہلے ہی آپ اپنے تدریسی وتصنیفی عمل میں منہمک ہوجاتے، ایسا عزم وحوصلہ، صبر ورضا اور اشتغال وانہماک کم از کم احقر نے حضرت الاستاذ نوراللہ مرقدہ کے علاوہ کسی اورمیں نہیں دیکھا۔

            زبان بندش کی یہی بیماری جس کے علاج کے لیے آپ ’’لاک ڈائون‘‘ سے پہلے ممبئی تشریف لے گئے تھے ایک سال پہلے بھی آپ کو لاحق ہوئی تھی، عصر کی نماز کے بعد عیادت کے لیے حاضرِ خدمت ہوا، طلبہ کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ متعدد اساتذہٴ دارالعلوم بھی عیادت کے لیے گئے ہوئے تھے، آپ بولنے کی کوشش کرتے؛ مگر زبان بند ہوجاتی اور آپ مسکرانے لگتے، پھر کچھ آواز کھلتی اور بولنا شروع کردیتے، متعدد مرتبہ ایسا ہی ہوا، جب بھی زبان بند ہوتی آپ مسکراتے اور ذرا راحت ملتی تو ’’لاالٰہ الا اللہ‘‘ کے ورد کے ساتھ گفتگو شروع فرمادیتے، یہ صورتِ حال دیکھ کر احقر حیرت زدہ رہ گیا کہ ایسا عارضہ اگر کسی اور کو لاحق ہوتا تو وہ بے چارہ گھبراجاتا؛ مگر آپ پورے صبر وضبط کے ساتھ بیٹھے رہے۔ ’’مصائب میں الجھ کر مسکرانا اُن کی فطرت تھی‘‘۔

            ایسے ہی ایک مرتبہ آپ کی آنکھ کا آپریشن ہوا، خبرملی کی حضرت تشریف لاچکے ہیں ، عیادت کے لیے حاضرِ خدمت ہوا خیال تھا کہ ابھی آپ آرام کررہے ہوں گے؛ مگر پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت کسی کتاب کی تصحیح میں مصروف ہیں ، عرض کیاکہ: حضرت! آپ نے ابھی سے کام شروع کردیا، فرمایا: ابھی سے، میں نے تو آنے کے بعد ہی کام شروع کردیا ہے، پھر فرمایا: ’’بیماری تو اصل میں وہ ہے جو عمل میں حارج اور رکاوٹ ہو!‘‘

            عزم و استقلال اور صبر وضبط کے بہت سے واقعات آپ کی زندگی سے جڑے ہوئے ہیں جن کو ذکر کرنے اور دہرانے کا یہ موقع نہیں ہے؛ مگر آنکھوں دیکھے یہ چند واقعات ومشاہدات ہم جیسے شاگردوں اور وفاکیشوں کو یہ سبق ضرور دیتے ہیں کہ کامیابی محنت اور جدوجہد ہی میں ہے۔

ہزاروں رحمتیں ہوں اے امیر کارواں تجھ پر

فنا کے بعد بھی باقی ہے شانِ رہبری تیری

            رب کریم بال بال مغفرت فرمائے، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور آپ کی خدمات کو قبول فرماکر بہترین صلہ عطا فرمائے، آمین!۔؎

خدا کی رحمتیں تیری لحد پہ سایہ فرمائیں

ہمیشہ تیری تُربت پر فرشتے پھول برسائیں

———————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ :9-8،    جلد:104‏،  ذی الحجہ 1441ھ – محرم الحرام 1442ھ مطابق اگست  – ستمبر 2020ء

٭           ٭           ٭

Related Posts