از: مولانا توحید عالم قاسمی بجنوری
استاذ دارالعلوم دیوبند
سلطان العلماء، استاذ الاساتذہ، حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری رحمہ اللہ تعالیٰ رحمۃً واسعۃً صدرالمدرسین وشیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کی وفات کا عظیم سانحہ ملت اسلامی کے لیے ایک ایسا عظیم خسارہ اور نقصان ہے جس کی تلافی بڑی مشکل ہے، بالخصوص مادرعلمی دارالعلوم دیوبند اور ابناء دارالعلوم دیوبند کے لیے ایسا گہرا زخم ہے جس کے علاج ومعالجہ کے لیے ایک مدتِ دراز درکار ہے اور اس زخم کے بھرنے میں ایک لمبا عرصہ لگ جائے گا۔
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
الغرض حضرت الاستاذ قدس سرہٗ کی وفات حسرت آیات خود حضرت الاستاذ قدس سرہ کے لیے تو باعث صدافتخار و سعادت ہے کیوں کہ مہینہ بھی ایسا مبارک جس میں دوزخ کے دروازے بند اور بہشت کے دروازے وا ہوجاتے ہیں اور اس مبارک ماہ میں وصال نصیب وروں کو میسر ہوتا ہے، حالت بھی سفر اور غُربت کی جس میں انتقال کرنا شہادت کا درجہ رکھتا ہے، بیماری بھی وہ جس سے شہادت کا رُتبہ نصیب ہوتاہے اور سب سے فائق اور بڑھی ہوئی جو چیز راقم کو متاثر کرتی ہے وہ ہے آخری ایام اور اوقات تک قرآن وسنت اور دین ومذہب کی ترویج واشاعت میں مصروف رہنا جو تمام اللہ والوں کی آرزو اور تمنا رہتی ہے۔
ان سب کے باوصف گرامی قدر حضرت اقدس استاذ محترم قدس سرہٗ کا وصال حضرت الاستاذ کے خوشہ چینوں ، روحانی ونسبی اولاد اور اہلِ تعلق وارادت کے لیے بڑا المناک اور دردناک حادثۂ فاجعہ ثابت ہوا ہے، ہر ایک اپنے کو ایسا محسوس کررہا ہے جیسے بس یتیم وبے سہارا ہوگیاہے، اب علمی وفکری سرپرستی کون کرے گا؟ ہرمیدان میں اہل السنۃ والجماعۃ کے مسلک ومنہج کی بے لاگ اور بلا خوف وخطر ترجمانی کون کرے گا؟ باطل کے سامنے مردِ میدان بن کر کون کھڑا ہوگا؟ وغیرہ۔
خیر دین ومذہب اور قرآن وسنت کی حفاظت خود خالقِ کائنات کرتے ہیں اور خود انھوں نے اس کا ذمہ لیاہے۔ اس لیے افراد و شخصیات کو کھڑا کرنا اللہ کا کام ہے اور ان شاء اللہ تاقیامت ایسی شخصیات آتی رہیں گی۔ بس ہم جیسے کم ہمت انسانوں کو ایسا لگتا ہے جیسے یہ خلا اب پُرہونا ناممکن ہے؛ جب کہ خود حضرت الاستاذ قدس سرہٗ ایسا جملہ کہنے اور ایسی بات زبان سے نکالنے پر ناراض ہوتے تھے اور اپنی عادت کے عین مطابق برملا ٹوکتے تھے کہ ایسامت کہو! اللہ تعالیٰ اہلِ علم وفضل کو وفات دیتے رہتے ہیں اور دنیا کا کام بھی چلتا ہی رہتا ہے۔
قلم کے شہسوار اور اس میدان کے تجربہ کار حضرات اس موقع پر بہت کچھ لکھ رہے ہیں اور لکھیں گے اور ہر ہر پہلو پر ارباب بصیرت کی نگاہ ہے، وہ حق ادا فرمائیں گے، حضرت الاستاذ قدس سرہٗ کی ہمہ جہت ا ور جامع کمالات ذات کے لیے ضخیم کتابیں وجود میں آنے کی توقع ہے؛ لیکن میرے جیسے کم لکھنے والوں کو بھی دشواری پیش آرہی ہے اور بڑی دقّت درپیش ہے کہ کیا لکھا جائے؟ اور کیا نہ لکھا جائے؟ کیوں کہ ارباب قلم نے تمام گوشوں اور شوشوں کا حق کردیا ہوگا؛ لیکن پھر بھی حقِ شاگردی اور ادنیٰ تعلق بھی کچھ نہ کچھ لکھنے پر مجبور کررہا ہے اور راقم السطور حضرت الاستاذ قدس سرہٗ کی حیات وزندگی کے قابلِ تقلید پہلوئوں اور روشن اوصاف وکمالات جیسے درس وتدریس اور افہام و تفہیم کا نرالا انداز، وعظ ونصیحت اور بیان و تقریر کا دل چسپ اسلوب، تصنیف وتالیف کی گراں قدر خدمات، اہلِ حق اور اہلِ السنۃ والجماعۃ کی سب سے معتبر تعبیر علماء دیوبند کے مسلک ومنہج کی بلاخوف وخطر ترجمانی اور بلاکسی رورعایت کے حق گوئی وغیرہ کو بہ نظر غائر دیکھتا ہے تو ان تمام میں وہ پہلو جو سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے وہ ہے وقت کی قدر و منزلت، اس کی حفاظت اور پھر اس کا صحیح استعمال اوریہ وصف وخوبی حضرت مفتی صاحب قدس سرہ کی زندگی کے ہر دور میں نمایاں رہی ہے، ایسا نہیں ہے کہ حضرت الاستاذ رحمۃ اللہ علیہ نے بالغ النظر، کامل العقل ہونے کے بعد متاعِ وقت کی اہمیت کو سمجھا ہو؛ بلکہ آپ کی زندگی کا ہر دور خواہ بچپن ہو یا جوانی، کہولت ہو یا بڑھاپا ہر دور میں آپ اس وصف سے متصف نظر آتے ہیں ۔ لہٰذا آپ قدس سرہ کے طالب علمی ہی کے دور سے یہ وصفِ محمود آپ کی زندگی کا جزء لاینفک بن چکا تھا۔
واقف کار حضرات اور حضرت الاستاذ قدس سرہ کی ادنیٰ معرفت رکھنے والے بھی اتنا تو جانتے ہی ہیں کہ حضرت نے اپنی جوانی سے اخیر وقت تک وقت کو ضائع کرنے اور ہونے سے حد درجہ گریز فرمایا ہے، اسی لیے درس وتدریس کی مشغولیت کے باوصف دورِ حاضر میں تصنیف وتالیف میں آپ اپنے معاصرین میں نمایاں ہیں ، چھوٹی بڑی پچاس سے متجاوز کتابیں آپ کے قلم گہر بار کا نتیجہ ہیں جن میں چند بڑی ضخیم ونمایاں ہیں مثلاً (۱) رحمۃ اللہ الواسعہ شرح اردو حجۃ اللہ البالغہ پانچ جلدیں ، (۲) ہدایت القرآن اردو زبان میں قرآن کریم کی تفسیر آٹھ جلدیں ، (۳)تحفۃ الالمعی شرح اردو سنن ترمذی شریف چھ جلدیں ، (۴) تحفۃ القاری شرح اردو بخاری شریف بارہ جلدیں ، (۵) امداد الفتاویٰ کی چھ جلدوں پر حاشیہ، (۶) فتاویٰ دارالعلوم کی ترتیب جدید پر آخری عمیق نظر اور حواشی، (۷) تسہیل بیان القرآن پر نظر ثانی وغیرہ۔
یہ تو آپ کی جوانی اور بڑھاپے کی خدمات ہیں جن سے اخیر اور وسط زندگی میں ضیاعِ وقت سے پرہیز واضح ہوتا ہے اور طالب علمی میں وقت کی حفاظت حضرت کیسے فرماتے تھے اس کا اندازہ دو واقعات سے ہوتاہے جو نہایت باوثوق اور معتبر شخصیات کے واسطے سے پہنچے ہیں ۔
(۱) مخدوم گرامی، میر کارواں حضرت اقدس مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی دامت برکاتہم مہتمم دارالعلوم دیوبند بیان فرماتے ہیں (راقم نے حضرت سے کئی دفعہ یہ واقعہ سنا ہے) کہ مفتی سعید احمد صاحب کا کمرہ صدر دروازہ کے باہر والا تھا جو آج کل شعبۂ صفائی کا دفتر ہے اور میرا کمرہ اس کے اوپر تھا مفتی صاحب کا افتا تھا اور میں ابتدائی جماعت میں تھا، سہ ماہی یا ششماہی امتحان سے فراغت کے بعد مفتی سعیداحمد صاحب نے فرمایاکہ ابوالقاسم آئو آج دارِ جدید کی طرف چلتے ہیں شوال سے ادھر جانا نہیں ہوا۔
واضح رہے کہ تکمیل افتا کے اسباق دارالافتا میں ہوا کرتے تھے، لہٰذا مولسری پار کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی درس گاہ، مسجد اور مطبخ سب ضرورتیں صدردروازے کی طرف ہی تھیں اب اندازہ لگائیں دارالعلوم میں رہتے ہوئے دارجدید دیکھے ہوئے کئی ماہ گزرگئے یہ وقت کی کس قدر حفاظت ہے۔
(۲) استاذ گرامی حضرت اقدس مفتی محمدامین صاحب پالن پوری دامت برکاتہم استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند بیان فرماتے ہیں کہ بھائی صاحب دارالافتاء کے سال مجھے حفظ قرآن کریم کے لیے دیوبند لے آئے تھے اورمیرا سبق، سبق کا پارہ اور آموختہ پارہ خود سنا کرتے تھے اسی میں محسوس فرمایا کہ حفظ سننے کے لیے سننے والے کا بھی حافظ ہونا ضروری ہے لہٰذا خود حفظِ قرآن کریم شروع فرمادیا اور ایک بھائی اور ساتھ تھے ان کو ابتدائی نحو وصرف وغیرہ کی کتابیں پڑھاتے تھے، نیز تین اساتذہ کرام حضرت علامہ محمد ابراہیم صاحب بلیاوی قدس سرہ صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند، حضرت مفتی مہدی حسن صاحب قدس سرہ مفتی دارالعلوم دیوبند اور حضرت مولانا محمودعبدالوہاب محمود مصری قدس سرہ استاذ دارالعلوم دیوبند کی مستقل خدمات کرنا بھی بھائی صاحب کا عمل تھا۔ اب اندازہ لگائیں افتاء کے اسباق کا مطالعہ، تمرین فتاوی، میرا سبق، سبق کا پارہ اور آموختہ پارہ سننا اپنا حفظ قرآن کرنا، دوسرے بھائی کو کتابیں پڑھانا اور سننا اور تین تین اساتذہ کرام کی خدمات بجالانا یہ سب وقت ضائع کرنے کے ساتھ ممکن ہی نہیں ہے؛ بلکہ وقت کی قدر اور اہمیت کا ادراک کرکے اس کی حفاظت اور صحیح استعمال کے ساتھ ہی ممکن ہے۔
اس لیے یہ تمام خُردوں اور خوشہ چینوں کو حضرت اقدس استاذ محترم قدس اللہ سرہٗ کے تمام اوصاف کو اور بالخصوص اس اہم خوبی اور وصف کو اپنانے کی ضرورت ہے اور یہ بھی حضرت والا قدس سرہٗ کو سچا خراج تحسین ہے۔
اللہ تعالیٰ استاذ گرامی قدس سرہٗ کی بال بال مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے، تمام پس ماندگان کو صبرجمیل عطا فرمائے اور ہم تمام شاگردوں اور ارادت مندوں کو آپ کے اوصاف اختیار کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین!
—————————————————
دارالعلوم ، شمارہ :9-8، جلد:104، ذی الحجہ 1441ھ – محرم الحرام 1442ھ مطابق اگست – ستمبر 2020ء
٭ ٭ ٭