از:تاج الدین اشعرؔ رام نگری

گولا گھاٹ، رام نگر، بنارس

 

اے پاک اور حسین نظاروں کی سرزمیں

اے مسجدوں کے شہر مناروں کی سرزمیں

اے شرعِ مصطفی کی بہاروں کی سرزمیں

علم وعمل کے چاند ستاروں کی سرزمیں

گل ہائے علم سے ہے معطر فضا تری!

میرِ عرب کو پہنچی تھی ٹھنڈی ہوا تری

اے ہم وقارِ کوفہ و بغداد و تاشقند

دامن ترا علوم نبوت سے بہرہ مند

ازہر کے بعد سب سے ہے رتبہ ترا بلند

ہم تجھ پہ ناز کرتے ہیں اے ارضِ دیوبند

یاں رازی و غزالی کے ہم پایہ دفن ہیں

مٹی میں کتنے گنج گراں مایہ دفن ہیں

یہ شہر ہے کہ جلوہ گہِ علم وآگہی

اک داستاں سناتی ہے اس کی ہر اک گلی

شاداب ہے وہ ’شجرئہ رُمّان‘ آج بھی

ہے جو گواہِ برکت و فیضانِ قاسمی

وصف اس کا اختصار میں یوں کیجیے بیاں

’’پاکیزہ شہر اور خداوندِ مہرباں ‘‘

ارضِ وطن میں دیں کا نگینہ کہیں اسے

بحرِ فتن میں حق کا سفینہ کہیں اسے

اسرارِ معرفت کا خزینہ کہیں اسے

اعجازِ تاجدارِ مدینہ کہیں اسے

کرنیں یہاں کی دہر میں پہنچیں جو دور سے

آفاق جگمگا اٹھے سنت کے نور سے

مضبوط تجھ سے دینِ متیں کی اساس ہے

ہر درس گاہ میں تری صفہ کی باس ہے

ہر شیخ اپنے فن میں معارف شناس ہے

روحِ ابو حنیفہ یہیں آس پاس ہے

گونجی ہوئی صدائیں ہیں قال الرسول کی

ہوتی ہے شرح دیں کے فروع واصول کی

لے آئی ہے مجھے نگہِ جستجو کہاں

بیٹھا ہوں کن بزرگوں کی قبروں کے درمیاں

اللہ رے یہ صاحب اسرار ہستیاں

زیر زمیں ہیں دفن یہاں کتنے آسماں

مٹی کو اس حظیرے کی اکسیر جاں کہوں

ظلّ بقیعِ پاک بہ ہندوستاں کہوں

گم سم کھڑا ہوں تربتِ قاسم کے روبرو

وہ دیں کا ترجمان، وہ ملت کی آبرو

تھا شاملی میں لشکرِ باطل سے روبرو

ٹپکا تھا جس کی تیغ سے طاغوت کا لہو

تاریخ ہند کرتی ہے جھک کر اسے سلام

دیتا ہے انقلاب کا وہ آج بھی پیام

درگاہوں کا شِکوہ، نہ روضے، نہ مقبرے

عرسوں کی دھوم دھام، نہ لنگر نہ فاتحے

چادر نہ رسمِ قُل، نہ چراغاں ، نہ قمقمے

قوالیوں کی تان نہ سازوں کے طنطنے

اسلام کا جدید اڈیشن نہیں یہاں

ہے جلوہ بار عہدِ صحابہ کا دیں یہاں

کیا کیجیے بیاں صفتِ جامعِ رشید

مر مر میں ڈھل گیا ہے شکوہِ شہِ شہید

ہے آگرہ کے تاج کے نقشے کی باز دید

جمہورِ مسلمین کی ہے کوششِ سعید

منت کشِ خزانۂ شاہی نہیں ہے یہ

گاڑھی کمائیوں کا ہی نقشِ نگیں ہے یہ

دوگھاٹ ہوگئے ہیں مگر آب جو ہے ایک

شاخیں ہیں دو پھولوں میں مگر رنگ وبو ہے ایک

ساقی الگ ہیں ، بادہ ہے اک اور سبو ہے ایک

اعضا ہیں ایک جسم کے، ان میں لہو ہے ایک

اک روشنی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی

جلووں کی اس سے اور بھی تعمیم ہوگئی

————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 2-3،    جلد:104‏،  جمادى الاول  1441ھ مطابق اپریل –مئی  2020ء

*      *      *

Related Posts