از: مفتی محمد مصعب

معین مفتی دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

            ۲۹؍ذی قعدہ ۱۳۱۴ھ تا ۲۹؍محرم ۱۳۱۵ھ میں امام ربانی، فقیہ النفس حضرت اقدس مولانا رشیداحمد گنگوہی اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہما اللہ کے درمیان تقریباً دو ماہ پر محیط ایک مسئلے میں علمی مکاتبت ہوئی تھی، جو سوانح اور مکاتبت میں مذکور ہے اور اہل علم کے حلقے میں مشہور ومعروف بھی ہے، مکاتبت کی اہمیت کے لیے دونوں حضرات کا نام نامی ہی کافی ہے۔

            جامعِ مکاتیبِ گنگوہی حضرت مولانا عاشق الٰہی میرٹھی قدس سرہ کے الفاظ میں : ’’جہاں حضرت تھانویؒ کا وہ طبعی خداداد جوہر قابل لحاظ ہے، جس کو سلامتی قلب، اطاعتِ حق، فروتنی و ہیچمدانی اور سچا اسلام یعنی گردن نہادن بطاعت کہا جاتا ہے‘‘، وہیں اس مکاتبت میں حضرت گنگوہیؒ کا تفقہ اور مسلک میں مثالی تصلب وتعمق کا امتیازی وصف بھی خوب جھلکتا ہے، حضرت تھانوی کی تحریر کے لفظ لفظ سے حسن ادب کے ساتھ آپ کی دیانت داری اور تلاش حق کا مخلصانہ جذبہ ظاہر ہوتاہے اور حضرت گنگوہیؒ کے جوابات کے حرف حرف سے فکر ونظر کی غیر متزلزل پختگی اور رسوخ فی العقیدہ کی صفت نمایاں ہوتی ہے۔

            حضرت گنگوہیؒ علم وفضل اور مسلک دیوبند میں مرجع کی حیثیت رکھتے تھے، خود حضرت تھانویؒ کی نظر میں آپ کا کوئی مماثل نہیں تھا، علمائے وقت اپنی علمی مشکلات میں آپ ہی کی طرف رجوع کیا کرتے تھے، مشہور محدث وفقیہ اور تبصرہ نگار حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کی تعبیر میں حضرت گنگوہیؒ دقیق اور طولانی بحثوں کو چند جملوں میں پانی کردیا کرتے تھے، حضرت علامہ سید انور شاہ کشمیریؒ جیسے متبحرعالم جو علامہ شامیؒ کو ان کی جلالت قدر کے باوجود فقیہ النفس کا درجہ دینے پر آمادہ نہیں تھے، وہ بھی حضرت گنگوہی قدس سرہ کو فقیہ النفس فرمایا کرتے تھے۔

            حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور دوسرے ممتاز اہل علم کی طرف سے حضرت گنگوہیؒ کے ابوحنیفۂ عصر ہونے کا اعتراف اسی طرح کیاگیا جس طرح شمس الائمہ بکر بن محمدبن علی زرنجریؒ (بفتح زا وراء ہردوسکون نون وفتح جیم) کو اپنے دیار میں ابوحنیفہ اصغر کے لقب سے نوازا گیا تھا، جن کے بارے میں آپ کے شاگرد حافظ سمعانیؒ نے لکھا ہے کہ فقہاء کو جب کسی مسئلہ میں اشکال ہوتا تو وہ آپ کی طرف رجوع کرتے اورآپ کے فیصلے کو بے چون و چرا تسلیم کرلیتے تھے۔

            ادھر حضرت تھانویؒ کے شبہات بھی بجائے خود آپ کے تبحرعلمی کی دلیل ہیں ، جن شبہات کو آپ نے پیش فرمایاہے، اس کی باریکی اور گہرائی تک رسائی اور ان شبہات کے ازالے کی فکر حکیم الامت جیسی مخلص شخصیت ہی کا خاصہ ہوسکتا تھا۔

            اسی گہرے فہم وفقہی بصیرت کا نتیجہ ہے کہ دین وشریعت کی مجموعی ترجمانی میں آپ کی تحریرات ہر طبقہ کے لیے انشراح وبصیرت کا سبب بنیں اور آج بھی بن رہی ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ سے دین کے تقریباً ہر شعبے کے جزء جزء میں مبنی براعتدال تعلیمات کو ظاہر فرمایا حتیٰ کہ آپ یکے از مجددین زمانہ گردانے گئے۔

            پیش نظر مکاتبت میں ایسے علمی جواہرات اور قیمتی نکات ہیں کہ جن کے استحضار سے متعدد مغلق اور پیچیدہ مباحث میں صحیح نتیجے تک بہ سہولت رہنمائی ہوجاتی ہے، کتنے ہی مشکل شکوک حل ہوجاتے ہیں ، نیز اس میں بہت سے ایسے فقہی اصول کی تنقیح بھی کی گئی ہے جو اہل علم کے لیے بغایت مفید ہیں ، علمی دنیا میں شکوک و شبہات اور علمی بحثیں ایک معمول کی چیز ہیں ؛ لیکن اس مکاتبت سے علمی نکات کے ساتھ ساتھ عرض ومعروض کے آداب، نیز شیخ ومرید کے درمیان تعلق کے حدود اور دوسرے بہت کچھ امور سیکھے جاسکتے ہیں ۔

            مکاتبت سے خوب عیاں ہے کہ اکابر دیوبند کے پیش نظر صرف اور صرف دینِ حق تھا، سارے تعلقات اس نسبت پر قربان تھے، ان کی زندگی حب فی اللہ اور بغض فی اللہ کا مظہر تھی، وہ سنت صافیہ کے پابند اور اس کے داعی تھے، بدعت سے متنفر اوراس بارے میں حددرجہ حساس تھے، ان حضرات نے دین کو اصل کسوٹی بنایا تھا اور ہر چیز ان کے نزدیک اس کے تابع تھی۔

            بہرحال! یہ مضمون ان ہی فوائد اور علمی جواہرات کو سامنے لانے کے مقصد سے مرتب کیاگیا ہے، پہلے پوری مکاتبت کا پس منظر اور خلاصہ خود حضرت تھانوی قدس سرہ کے دلچسپ پیرایۂ بیان میں ملاحظہ فرمائیں :

مکاتبت کا خلاصہ حضرت تھانویؒ کی تحریر میں

            ’’یوں تو (حضرت گنگوہیؒ کی) ہر صحبت اور ہر مخاطبت میں کچھ نہ کچھ فیض و احسان فائض رہتا تھا؛ لیکن خصوصیت کے ساتھ دو احسان زیادہ قابلِ ذکر ہیں :

            ایک علمِ ظاہری کے متعلق۔ دُوسرا باطن کے متعلق۔

اوّل کا مختصر بیان یہ ہے کہ میں مدّت تک مسائل اختلافیہ میں اہل الحق واہل البدعۃ کے متعلق باوجود صحتِ عقیدہ کے (والحمدللہ) ایک غلطی میں مبتلا رہا اور اُس غلطی پر بہت سے خیالات اور بہت سے اعمال متفرع رہے، یعنی بعض اعمالِ رسمیہ مثل مجلس متعارف میلاد شریف وامثالہٗ سے جو محققین بعض مفاسد کی وجہ سے عوام الناس کو مطلقاً اور اُن عوام الناس کے ساتھ خواص کو بھی روکتے ہیں ۔ اُن مفاسد کو تو میں ہمیشہ مذموم اور اُن کے مباشِرکو ہمیشہ ملوم سمجھتا تھا اور یہ صحت عقیدے کی تھی اور عوام الناس کو ہمیشہ اُن مفاسد پر متنبہ اور مطلع کرتا رہتا تھا؛ لیکن یہ بات میرے خیال میں جم رہی تھی کہ علت نہی کی وہ مفاسد ہیں ، جہاں علت نہ ہوگی معلول بھی نہ ہوگا، پس خواص جو کہ اُن مفاسد سے مبرّا ہیں اُن کو روکنے کی ضرورت نہیں اور اسی طرح عوام کو بھی علی الاطلاق روکنے کی حاجت نہیں ؛ بلکہ اُن کو نفسِ اعمال کی اجازت دے کر اُن کے اُن مفاسد کی اصلاح کردینا چاہیے؛ بلکہ اِس اجازت دینے میں یہ ترجیح اور مصلحت سمجھتا تھا کہ اس طریق سے تو عقیدے کی بھی اصلاح ہوجائے گی، جس کا فساد مدارِ نہی ہے اور بالکل منع کردینے میں عوام مخالف سمجھیں گے اور عقیدے کی اصلاح بھی نہ ہوگی۔ ایک مدّت اس حالت میں گزرگئی اور باوجود دائمی درس وتدریس، فقہ وحدیث وغیرہما کے کبھی ذہن کو اس کے خلاف کی طرف انتقال واِلتفات نہیں ہوا۔

            حضرت قدس اللہ سرہٗ کا شکریہ کس زبان سے ادا کروں کہ خود ہی غایت رافت و شفقت سے مولوی منوّر علی صاحب دربھنگوی مرحوم سے اس امر میں میری نسبت تأسف ظاہر فرمایا۔

            اور اُسی غلطی کے شعبوں میں سے ایک شعبہ یہ بھی واقع ہوا تھا کہ بعضے درویشوں سے جن کی حالت کا انطباق شریعت پر تکلف سے خالی نہ تھا، میں نے بخیال  خُذْ مَا صَفَا وَدَعْ مَا کَدَرَ  بعض اَذکار واَشغال کی تلقین بھی حاصل کرلی تھی اور آمد ورفت اور صحبت کا بھی اتفاق ہوتا تھا اور لزومِ مفاسد کی نسبت وہی خیال تھا کہ خواص کے عقائد خود دُرست ہوتے ہیں ، وہاں مفسدہ لازم نہیں اور عوام کو حق وباطل پر تقریراً متنبہ کرتے رہنا دفعِ مفسدہ کے لیے کافی ہے، سو حضرتؒ نے خصوصیت کے ساتھ اس پر بھی تأسف ظاہر فرمایا اور غایت کرم یہ قابلِ ملاحظہ ہے کہ جیسا حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم غایت کرم وحیا سے بالمشافہ کسی پر عتاب نہ فرماتے تھے، اسی طرح حضرت قدس سرہٗ نے باوجود حاضری کرّۃ بعد مرّۃ کے بالمشافہ کبھی اس سے تعرض نہیں فرمایا اوراس سے زیادہ لطف و کرم یہ کہ اگر کبھی کسی نے اعتراض کیاتو میرے فعل کی تأویل اوراُس کو محملِ حسن پر محمول فرمایا۔

            اور اُسی غلطی کی ایک فرع یہ تھی کہ حضرت پیر ومرشد قبلہ وکعبہ حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک تقریر درباب ممانعت تنازع واختلاف مسائل معہودہ میں اِجمالاً اِرشاد فرمائی اور مجھ کو اُس کی تفصیل کا حکم دیا؛ چوں کہ میرے ذہن میں وہی خیال جما ہوا تھا، اُس کی تفصیل بھی اُسی کے موافق عنوان سے حیز تحریر میں لایا اور حضرت حاجی صاحبؒ کے حضور میں اُس کو سنایا؛ چوں کہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو بہ وجہ لزوم خلوت وقلّتِ اِختلاط مع العوام وبنابرغلبۂ حسنِ ظن عوام کی حالت اور جہالت اور ضلالت پر پورا اِلتفات نہ تھا، لامحالہ اُس مفصل تقریر کو پسند فرمایا اور کہیں کہیں اُس میں اصلاح اور کمی بیشی بھی فرمائی اور ہرچند کہ وہ عنوان میرا تھا؛ مگر چوں کہ اصل معنون میں حضرتؒ نے اَزخود اِرشاد فرماکر قلم بند کرنے کا حکم دیا تھا، لہٰذا حضرتؒ نے اُس تقریر کو اپنی ہی طرف سے لکھوایا اور خود اپنے دستخط ومہر سے مزین فرمایا اور اپنی ہی طرف سے اشاعت کی اجازت دی، جو بہ عنوان ’’فیصلۂ ہفت مسئلہ‘‘ شائع کردیا گیا۔ جس کو بعض کم سمجھوں نے اپنی بدعات کا موید سمجھا۔ وَاَنّٰی لَہُمْ ذٰلِکَ!

            کیوں کہ اُن مفاسد کا اُس میں صراحتاً رَدّ ہے، صرف خوش عقیدہ، خوش فہم لوگوں کو البتہ رُخصت ووسعت اُس میں مذکور ہے، جس کا مبنیٰ وہی خیالِ مذکور ہے کہ عوام کے مفاسد کا خواص پر کیوں اثر پڑے؟

            غرض حضرت قدس اللہ سرہٗ نے اس سب کے متعلق مولوی منوّر علی صاحب سے تذکرہ فرمایا، مولوی صاحب نے احقر سے ذکر کیا تو حضرتؒ کے قوّتِ فیضان سے اِجمالا تو مجھ کو فوراً اپنی غلطی پر تنبہ ہوگیا؛ لیکن زیادہ بصیرت کے لیے میں نے اس بارے میں مکاتبت کی بھی ضرورت سمجھی؛ چناں چہ چند بار جانبین سے تحریرات ہوئیں اور وہ تحریرات سوانح (تذکرۃ الرشید) میں چھپ چکی ہیں ، بالجملہ نتیجہ یہ ہوا کہ مجھ کو بصیرت وتحقیق کے ساتھ اپنی غلطی پر بفضلہ تعالیٰ اطلاع ہوگئی اور اُس پر اِطلاع ہونے سے ایک بابِ عظیم علم کا جو کہ مدّت تک مغلق تھا، مفتوح ہوگیا، جس کا ملخص یہ ہے کہ مدارِ نہی فی الواقع فسادِ عقیدہ ہی ہے؛ لیکن فسادِ عقیدہ عام ہے، خواہ فاعل اُس کا مباشر ہو خواہ اُس کا سبب ہو۔ پس فاعل اگر جاہل عامی ہے تو خود اُسی کا عقیدہ فاسد ہوگا اور اگر وہ خواص میں سے ہے تو گو وہ خود صحیح العقیدہ ہو؛ مگر اُس کے سبب سے دُوسرے عوام کا عقیدہ فاسد ہوگا اور فساد کا سبب بننا بھی ممنوع ہے اورگوتقریر سے اُس فساد پر تنبیہ عوام کی ممکن ہے؛ مگر کل عوام کی اس سے اصلاح نہیں ہوتی اور نہ سب تک اس کی تقریر پہنچتی ہے، پس اگر کسی عامی نے اس خاص کا فاعل ہونا تو سنا اور اصلاح کا مضمون اُس تک نہ پہنچا تو یہ شخص اُس عامی کے ضلال کا سبب بن گیا اور ظاہر ہے کہ اگر ایک کی ضلالت کا بھی کوئی شخص سبب بن جائے تو بُرا ہے اور ہر چند کہ بعض مصلحتیں بھی فعل میں ہوں ؛ لیکن قاعدہ یہ ہے کہ جس فعل میں مصلحت اور مفسدہ دونوں مجتمع ہوں اور وہ فعل شرعاً مطلوب بالذات نہ ہو، وہاں اُس فعل ہی کو ترک کردیا جائے گا، پس اِس قاعدے کی بنا پر اُن مصلحتوں کی تحصیل کا اہتمام نہ کریں گے؛ بلکہ اُن مفاسد سے اِحتراز کے لیے اُس فعل کو ترک کردیں گے؛ البتہ جو فعل ضروری ہے اور اُس میں مفاسد پیش آئیں ، وہاں اُس فعل کو ترک نہ کریں گے؛ بلکہ حتی الامکان اُن مفاسد کی اصلاح کی جائے گی؛ چناں چہ احادیثِ نبویہ ومسائلِ فقہیہ سے یہ سب اَحکام وقواعد ظاہر ہیں ۔ ماہر پر مخفی نہیں ۔ اُن میں سے کسی قدر رسالہ ’’اِصلاح الرسوم‘‘ میں بندے نے لکھ بھی دیا ہے۔

            جب میرے اُس خیال کی اصلاح ہوگئی تو اس کے سب فروع وآثار کی اصلاح بفضلہ تعالیٰ ہوگئی؛ چناں چہ خلافِ شریعت درویشوں کی صحبت وتلقّی سے بھی نجات ہوئی اور’’فیصلۂ ہفت مسئلہ‘‘ کے متعلق بھی ایک ضروری ضمیمہ لکھ کر شائع کردیاگیا، جس سے اُس کے متعلق اہلِ افراط و تفریط کے سب اوہام کو رَفع کردیاگیا۔ اھ (یادیاراں ، ص:۸ تا۱۰، مطبوعہ کتب خانہ یحیوی، سہارنپور ۱۳۴۶ھ)

مکاتبت سے کشید کردہ فوائد

(۱)      حضرت تھانویؒ کی نظر میں حضرت گنگوہیؒ کا مقام

            ’’میں ہندوستان میں بہ جزء حضور والا کے کسی عالم یا درویش پر اطمینان کامل نہیں رکھتا، نہ کسی کو اپنا خیرخواہ سمجھتا ہوں نہ کسی سے اس قدر عقیدت ومحبت ہے، حضور کی سختی کو اوروں کے لطف پر ترجیح دیتا ہوں ۔‘‘

            ’’احقر اپنی نسبت حضور سے ایسی سمجھتا ہے جیسے مقلد کی نسبت مجتہد سے۔‘‘ (۱/۱۲۹) (افادات تھانویؒ)

(۲)     شبہات پیش کرنے کا قابل توجہ اسلوب

            ’’خدا کی قسم! میں جو کچھ لکھتا ہوں محض استشارۃ واسترشاداً لکھتا ہوں ۔ نعوذباللہ طالبِ علمانہ قیل وقال مقصود نہیں اور میں سچے دل سے پکا وعدہ کرتاہوں کہ بعد حصول شفائے قلب جس طرح حکم ہوگا اس میں ہرگز حیلہ وعذر نہ ہوگا‘‘۔ (۱/۱۱۶)

            ’’احقر نے بلاتکلف اپنا مافی الضمیر پورا پورا حضور میں عرض کردیا، اب حضور ان مضامین میں اور میرے مصالح دنیویہ واخرویہ میں خوب غور فرماکر ارشاد فرمائیں ‘‘۔ (۱/۱۲۰)

            ’’توبہ توبہ! میں کیا؟ میرا شرح صدر کیا؟۔۔۔ آپ کے ارشاد کی بہ دل وجان تصدیق کرتا ہوں ؛ مگر بہ مقتضائے حدیث:  إنما شفاء العی السوال۔۔۔۔  کچھ عرض کرتا ہوں ‘‘۔ (۱/۱۳۰) (افادات تھانویؒ)

(۳)     تحصیل نسبت کا شرعی درجہ

            ’’تحصیل نسبت اور توجہ الی اللہ مامور من اللہ تعالیٰ ہے، اگرچہ یہ کلی مشکک ہے کہ ادنا اس کا فرض اور اعلیٰ اس کا مندوب اور صدہا آیات واحادیث سے مامور ہونا اس کا ثابت ہے اور طرح طرح کے طرق واوضاع سے اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے؛ بلکہ خاص حق تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے، گویا ساری شریعت اجمالاً وہی ہے کہ جس کا بسط بہ وجہ طول ناممکن ہے۔ اگر آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ ہر آیت وہرحدیث سے وہی ثابت ہوتا ہے، پس جس چیز کا ماموربہ ہونا اس درجے کو ثابت ہے اس کی تحصیل کے واسطے جو طریقہ مشخص کیا جائے گا، وہ بھی مامور بہ ہوگا اور ہر زمانے اور ہر وقت میں بعض موکّدہوجائے گا اور بعض غیرموکّد‘‘۔ (۱/۱۲۱) (افادات گنگوہی)

(۴)     حضرت گنگوہیؒ اور بیعت کے شرعی حدود

            ’’بندہ (رشید احمد) جو حضرت شیخ (حاجی امداد اللہؒ) سے بیعت ہوا ہے اور جتنے اہلِ علم ذی فہم قدیم سے بیعت ہوتے رہتے تھے اور ہوتے رہے ہیں تو باوجود علم؛ غیرعالم سے جو بیعت ہوئے تو اس خیال سے بیعت ہوئے اور ہوتے ہیں کہ جو کچھ استادوں سے کتب دینیہ میں انھوں نے پڑھا اور علم حاصل کیا، کسی شیخ عارف سے اس علم کو علم الیقین بنالیں ؛ تاکہ عمل کرنا نفس کو اس علم پر سہل ہوجائے اور معلوم مشہود بن جائے علیٰ حسب استعداد۔

            اس واسطے کوئی بیعت نہیں ہوا اور ہوتا کہ جو کچھ ہم نے پڑھا ہے اس کے صحت وسقم کو کسی شیخ غیرعالم سے پڑتال لیں اوراحکام محققہ قرآن وحدیث کو اس کے قول سے مطابق کرلیں کہ جس کو وہ غلط فرمائیں اس کو آپ غلط مان لیں اور جس کو صحیح کہیں اس کو صحیح رکھیں کہ یہ خیال سراسر باطل ہے، پس اگر کسی کا شیخ کوئی امر، خلاف امر شرع کے فرمائے گا تو اس کا تسلیم کرنا جائز نہ ہوگا؛ بلکہ خود شیخ کو ہدایت کرنا مرید پر واجب ہوگا؛ کیوں کہ ہر دو کا حق ہردو پر ہے اور شیوخ معصوم نہیں ہوتے اور جب تک شیخ کسی مسئلے کو جو بہ ظاہر خلافِ شرع ہو بہ دلائلِ شرعیہ قطعیہ ذہن نشین نہ کردے مرید کو اس کا قبول کرنا ہرگز روا نہیں ، اس کی نظیریں احادیث سے بہ کثرت ملتی ہیں ‘‘۔ (ص:۱/۱۲۱)

            ’’ایسا بہ دست شیخ ہوجانا کہ مامور ومنہی کی کچھ تمیز نہ رہے، یہ اہلِ علم کا کام نہیں ، لاطاعۃ للمخلوق فی معصیۃ الخالق یہ امر بھی عام ہے، اس سے کوئی مخصوص نہیں اور اگر کسی عالم نے اس کے خلاف کیا ہے تو بہ سبب فرطِ محبت کے اور جنون عشقیہ کے کیا ہے، سو وہ قابل اعتبار کے نہیں اور ہم لوگ اپنے آپ کو اس درجے کا نہیں سمجھتے‘‘۔ (ص:۱/۱۲۳) (افادات گنگوہی)

(۵)     قوت استنباط

            ’’جب واقعہ مسیلمہ میں قراء بہت سے شہید ہوگئے اور حضرت عمررضی اللہ عنہ کو اندیشہ ذہاب کثیر من القرآن کا ہوا، انھوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جمع قرآن کا مشورہ دیا، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بعد مباحثۂ بسیار؛ قول حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو قبول فرمایا اور اس کا استحسان ان کے ذہن نشین ہوگیا اور دونوں کی رائے متفق ہوگئی اور سنیت؛ بلکہ وجوب مقرر ہوگیا اور پھر زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو اس امر کے واسطے فرمایا تو باوجود اس بات کے کہ شیخین رضی اللہ عنہما زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے علم وفضل میں بہت زیادہ تھے اور صحبت ان کی بہ نسبت زیدؓ کے طویل تھی اور ان کے باب میں حکم عام شارع علیہ السلام سے ہوچکا تھا کہ:

          اقتدوا بالذَین من بعدي أبي بکر وعمر۔ (رواہ البخاري)

            ترجمہ: ’’اقتدا کیجیوان کا جو میرے بعد (جانشین)ہوں گے یعنی ابوبکرؓ اور عمرؓ کا‘‘۔

            مع ہذا زیدؓ نے چوں کہ اس امر کو محدث سمجھا تو یہی فرمایا:

          کیف تفعلون شیئا لم یفعلہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم؟

            ترجمہ: ’’کیوں کرکروگے ایسا کام جو کہ نہیں کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے؟‘‘

            اور ان کے کہنے کو ہرگز تسلیم نہ کیا؛ کیوں کہ ایجادِ بدعت ان کے نزدیک سخت معیوب تھا اور شیخین کو معصوم نہ جانتے تھے، لہٰذا مناظرہ شروع کردیا؛ مگر جس وقت حضرات شیخینؓ نے ان کو سمجھادیا اور سنیت اس فعل کی زیدؓ کو ثابت ہوگئی تو اس وقت بہ دل وجان قبول کرکے اس کی تعمیل میں مصروف ہوگئے‘‘۔ (ص:۱/۱۲۲،۱۲۳) (افادات گنگوہی)

(۶)     اعتقادی مسئلے میں حق ایک ہوتا ہے

            ’’مسئلہ اعتقادیہ میں حق ایک ہی ہوتا ہے، ظاہر میں بھی مثل باطن کے، اسی واسطے اہل اہوا اگرچہ صدہا علما ہیں ، ان کی کثرت پر نظر نہیں ہوتی اور مسئلہ مختلف فیہا نہیں کہا جاتا‘‘۔ (ص:۱/۱۲۸) (افادات گنگوہی)

(۷)    مختلف فیہ مسئلہ کی حقیقت

            ’’وہ مسئلہ مختلف فیہا بہ ظاہر دونوں طرف صواب ہوتا ہے کہ مجتہد مطلق یا مقید یا علمائے راسخین ملحق بہم میں مختلف فیہ ہو اور عوام کا علما کا اختلاف مسئلے کو مجتہد فیہ نہیں بناتا؛ بلکہ اس میں ایک ہی جانب حق ہوتی ہے کہ جو موافق قانونِ شریعت کے ہو اور دوسری رائے باطل ہوتی ہے‘‘۔ (ص:۱/۱۲۹) (افادات گنگوہی)

(۸)     تلاش حق میں حضرت تھانویؒ کا عمل

            ’’متعصبین کو تو دل سے طلب حق مقصود نہیں ہوتی؛ اس لیے ان کو عمر بھر حق کا پتہ نہیں لگتا، میں تو ہر نماز کے بعد دل سے دعا مانگتا ہوں :

          اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ إلخ۔ رَبَّنَا لَاتُزِغْ قُلُوْبَنَا إلخ۔ اَللّٰہُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا إلخ۔

            تنہائی میں بیٹھ کر سوچا کرتا ہوں کہ حق کیا ہے؟ میرے اختیار میں بہ جزء طلب وتوجہ الی اللہ وسوال علمائے محققین اور کیا ہے؟ آئندہ اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے‘‘۔ (ص:۱/۱۳۰) (افادات تھانویؒ)

(۹)     مقیدبامرمباح کا حکم

            ’’مقید بامرمباح میں اگر مباح اپنی حد سے نہ گزرے یا عوام کو خرابی میں نہ ڈالے تو جائز ہے اور اگر ان دونوں سے کوئی امر واقع ہوجائے تو ناجائز ہوگا‘‘۔ (۱/۱۳۲) (افادات گنگوہی)

(۱۰)   ایک اہم اصول

            ’’جوچیز کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض ہو اگر اس میں کچھ مفاسد پیداہوں اور اس کا حصول بدوں اس ایک فرد کے ناممکن ہو تو وہ فردحرام نہ ہوگا؛ بلکہ ازالہ ان مفاسد کا اس سے واجب ہوگا اور اگر کسی مامور کی ایک نوع میں نقصان ہو اور دوسری نوع سالم، اس نقصان سے ہو تو وہی فرد خاصہ مامور بہ بن جاتا ہے اوراس کے عوارض میں اگر کوئی نقصان ہوتو اس نقصان کا ترک کرنا لازم ہوگا نہ اس فردکا‘‘۔(۱/۱۳۳) (افادات گنگوہی)

(۱۱)    مسئلہ اعتقادیہ کی وضاحت

            ’’جو امور مبتدع اورمحدَث ہیں اُن سب کو ناجائز اور موجبِ ظلمت عقیدہ کرنا واجب ہے، پس یہ اعتقاد کلیات میں داخل ہے، اگرچہ عمل اُن کا عملیات سے ہے، یہی وجہ ہے کُتب کلام میں جواز مسح خف وجواز اقتدا فاسق وجواز صلوٰۃ علی الفاسق وغیرہ بھی لکھتے ہیں ؛ کیونکہ گویہ اعمال ہیں ؛ مگر اعتقاد جواز وعدمِ جواز اعتقادیات میں داخل ہیں ‘‘۔ (۱/۱۳۳) (افادات گنگوہی)

(۱۲)   تشبہ کی شرعی حیثیت

            ’’تشبہ امر مذموم میں مطلقاً حرام ہے اور جوامر غیرمذموم مباح ہے، وہ اگر خاصہ کسی قوم کا ہو تو بھی ناجائز اور اگر بہ قصد تشبہ کوئی فعل کیا جائے تو وہ مطلقاً نادرست ہے، سوائے اس کے اور سب درست ہے‘‘۔ (۱/۱۳۳) (افادات گنگوہی)

(۱۳)   التزام مالا یلزم کا شرعی حکم

            ’’التزام مالایلزم بدوں اعتقادِ وجوب بھی ممنوع ہے اگر بہ اصرار ہو اور اگر امر مندوب پر دوام ہو بلا اصرار؛ وہ جائز ہے اور مستحب ہے بہ شرطے کہ عوام کو ضرر نہ کرے اور اگر عوام کے اعتقاد میں نقصان ڈالے تو وہ بھی مکروہ ہے؛ چناں چہ کتب فقہ میں سُوَرِ مستحبہ کا التزام مکروہ لکھا ہے‘‘۔ (۱/۱۳۴) (افادات گنگوہی)

(۱۴)   کتاب براہین قاطعہ کی اہمیت

            حضرت گنگوہیؒ لکھتے ہیں : ’’میں اُمید کرتا ہوں کہ اگر کوئی شخص ’’براہین‘‘ کو اوّل سے آخر تک بہ تدبر دیکھے تو باب بدعات میں اس کو کوئی شبہ نہ ہو؛ کیوں کہ اس کے مؤلف نے اس باب میں سعی بلیغ کی ہے۔ جزاہ اللہ خیرالجزاء‘‘ (۱/۱۳۵) (افادات گنگوہی)

(ماخوذ از: تذکرۃ الرشید:۱/۱۱۴ تا ۱۳۶، مطبوعہ کتب خانہ اشاعت العلوم، محلہ مفتی، سہارنپور، ۱۹۷۷ء)

——————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ : 2-3،    جلد:104‏،  جمادى الاول  1441ھ مطابق اپریل –مئی  2020ء

*      *      *

Related Posts