از:مولانا رفیع الدین حنیف قاسمی
رفیق تصنیف دار الدعوۃ والارشاد، یوسف گوڑہ ، حیدرآباد
اس وقت ساری دنیا میں ایک ہاہاکار مچا ہوا ہے ، کروناوائرس سے اب تک 500سے زائد لوگوں کی موت ہوچکی ہے ، ہزاروں افراد اس سے متاثر ہیں ، اور لاکھوں لوگ اس وائرس کے دائرہ میں آنے سے مشتبہ ہوچکے ہیں اور بہت سارے لوگوں کی صورتحال بہت تشویناک اور کرب انگیز ہے ، اس وائرس کا منبع اور سرچشمہ چین کا شہر ’’ووہان‘‘ ہے ، یہ وائرس دنیا کے بہت سارے ممالک میں اس وقت اپنے قدم جماچکا ہے ، جن میں جنوبی کوریا، جاپان، تائیوان، ہانگ گانگ ، مکاؤ، ملائشیا، نیپال، ویتنام، تھائی لینڈ ، سری لنکا، کمبوڈیا ، متحدہ عر ب امارات ، آسٹرلیا، جرمن ، فرانس ، کینڈا اور امریکہ قابل ذکر ہیں ، بڑی تعداد میں ہندوستان کے باشندے جو ’’ووہان ‘‘شہر میں بغرض تعلیم گئے ہیں ، وہ ہندوستان لوٹ رہے ہیں ، یہ نہایت مہلک وائرس ہے ، ویسے اگرچہ حکومتیں اس حوالہ سے احتیاطی تدابیر اختیار کر رہی ہیں ۔
یہ وائرس سب سے پہلے 7؍جنوری 2020کو چین میں ظاہر ہوا، عالمی ادارہ صحت نے 31دسمبر کو ہی چین کو اس خطرناک وائرس سے آگاہ کردیا تھا، جس کی کیفیت اور صورتحال یہ ہوتی ہے ، ابتدامیں سردی، زکام ، بخار، کھانسی یا سانس لینے میں تکلیف کا احساس ہوتا ہے ؛ مگر جب یہ بیماری مریض کو پورے طریقے سے اپنی گرفت میں لے لیتی ہے تو وہ شخص نمونیا اور سانس لینے کی شدید تکلیف سے دوچار ہوجاتا ہے اور گردہ فیل ہونے سے اس کی موت واقع ہوتی ہے ۔
ایک عجیب وبا اور بیماری ہے جو ماہرین کے مطابق جانوروں سے منتقل ہو کر انسانوں میں آرہی ہے، اس کی ابتداء ووہان شہر کے گوشت کے بازار سے یہ وائرس انسانوں میں پھیلا ہے ، جب کہ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ یہ وائرس، سانب ، چوہے ، چمگاڈر، لومڑی اور مگرمچھ وغیرہ سے پھیلا ہے اور یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کا علاج ابھی تک دریافت نہیں ہوسکا ہے، صرف اندازے سے کچھ ایچ آئی وی کی ادویہ اس کے لیے تجویز کی جارہی ہیں ،اس سے شفایابی کی مدت بھی صحیح طریقے سے معلوم نہیں ہوپارہی ہے ، ، ابتدائی علامات کے ظاہر ہوئے بغیر ہی آدمی اس بیماری کا اچانک شکار ہوجاتاہے،جس کی وجہ سے اس بیماری کا ابتدائی مرحلہ میں اندازہ لگا کر اس سے بچنا نہایت مشکل اور دشوار گذار ہوچکا ہے ، یہ ایک متعدی بیماری ہے ، جو ہاتھ ملانے ایک دوسرے کے استعمال شدہ رومال تولیہ کے استعمال اور چھینکنے سے منتقل ہورہی ہے ، ویسے تو اس وقت چین کے ساتھ دیگر عالمی ادارہ صحت وغیرہ الرٹ ہوچکے ہیں ، اس کے تدارک کی تدابیر اختیار کی جارہی ہیں ، ان لوگوں کے لیے جہاں یہ بیماری پھیلی ہوئی ہے ، بغیر ماسک کے نکلنے سے روکا جارہا ہے ۔
اسلامی تعلیمات انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہیں ، یہ انسان کے جسم کی ساخت وبناوٹ کے عین مطابق ہیں ، جب تک انسان خواہشات نفس کو چھوڑ کر اللہ کے بنائے ہوئے نظام کے مطابق نہیں چلے گا اس کو زندگی میں ایسے ہی مصائب کاسامنا کرنا پڑے ۔
دنیا میں عمومی طور پر جن آزمائشوں سے انسان دوچار ہوتا ہے، وہ اس قت جب دنیا میں بے حیائی اور بدکاری اور انسانیت سوز ، ناانصافی اور ظلم وجور پر مشتمل کام ہونے لگتے ہیں تو اس قسم کی تباہیاں سامنے آنے لگتی ہیں ، ابن ماجہ کی حدیث ہے وہ اس طرح کی آزمائشوں سے اسی وقت چھٹکارا پاسکتے ہیں ؛ جب کہ کتاب اللہ اور حدیث رسول پر عامل ہوں ۔ : ’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے جماعت مہاجرین پانچ چیزوں میں جب تم مبتلا ہوجا ؤاور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ تم ان چیزوں میں مبتلا ہو۔ اول یہ کہ جس قوم میں فحاشی اعلانیہ ہونے لگے تو اس میں طاعون اور ایسی ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان سے پہلے لوگوں میں نہ تھیں اور جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو وہ قحط، مصائب اور بادشاہوں (حکمرانوں )کے ظلم وستم میں مبتلا کر دی جاتی ہے اور جب کوئی قوم اپنے اموال کی زکوٰۃ نہیں دیتی تو بارش روک دی جاتی ہے اور اگر چوپائے نہ ہوں تو ان پر کبھی بھی بارش نہ برسے اور جو قوم اللہ اور اس کے رسول کے عہد کو توڑتی ہے تو اللہ تعالی غیروں کو ان پر مسلط فرما دیتا ہے جو اس قوم سے عداوت رکھتے ہیں پھر وہ ان کے اموال چھین لیتے ہیں اور جب مسلمان حکمران کتاب اللہ کے مطابق فیصلے نہیں کرتے؛بلکہ اللہ تعالی کے نازل کردہ نظام میں (مرضی کے کچھ احکام)لیتے ہیں (اور باقی کوچھوڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالی اس قوم کو خانہ جنگی اور)باہمی اختلافات میں مبتلا فرما دیتے ہیں ۔ ‘‘(ابن ماجہ، باب العقوبات، حدیث: ۴۰۱۹)
۱- سب سے پہلے اسلام نے یہ ایقان دلایا ہے کہ یہ جسم اللہ کی نعمت ہے ، امانت ہے ، اس کے استعمال کے حوالے سے اللہ عزوجل نے جو احکامات دیئے انھیں کے مطابق یہ جسم صحیح وسالم رہ سکتا ہے، ورنہ تباہی وبربادی اس کے مقدر ہوسکتی ہے ، اگر انسان شتر بے مہار کی طرح ہر جگہ چرتا اور چگتا ہے اور بے قابو جانور کی طرح انسانی حدود وقیود سے نکل کر اپنی خواہشات نفس پر چلنا شروع کرتا ہے ، پھر اللہ کے عذابات کا اس پر ایسا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے کہ عذاب کی وجوہات اور بیماریوں کی ادویات کا بھی اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے ، بڑی بڑی معیشتیں ، دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں اللہ عزوجل کی معمولی طاقت کے سامنے ڈھیر ہوجاتی ہے ، اس لیے جسم کے استعمال کے حوالے شرعی احکامات کا ملحوظ رکھنا نہایت ضروری ہے۔’’فَأَتَاہُمْ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُونَ فَأَذَاقَہُمُ اللَّہُ الْخِزْیَ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَلَعَذَابُ الآخِرَۃِ أَکْبَرُ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ‘‘(الزمر:۲۵) (پس ان کے اوپر غیر شعوری جگہوں سے عذاب آگیا ، تواللہ نے ان کو دنیا میں ذلت چکھایا اور آخرت کا عذاب تواس سے بڑھ کر ہے اگریہ جانتے (تو ایسا نہ کرتے)۔
۲- اسلام نے کھانے کے حوالے سے بھی چند جانوروں کو حلا ل کیا ہے اور باقی دیگر جانوروں کو اللہ عزوجل نے حرام کیا ہے ، یہ وائرس جن جانوروں سے پھیلنے کے اندیشے ظاہر کیے جارہے ہیں ، ان میں چمگاڈر، مگرمچھ، لومڑی، بھیڑیا اور چوہا اور اس طرح کے دیگر مہلک وموذی جانور جن کے کھانے کی وجہ سے یہ مرض انسانوں میں منتقل ہورہا ہے ، یہ تمام جانور شرعاحرام ہیں ، ان کی شریعت نے کھانے کی اجازت نہیں دی ہے ، چائنا قوم ایک ملحد بے مذہب قوم ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہر بڑے چھوٹے سانپ، بچھو، کیڑے ، مکوڑے اور چھپکلی وغیرہ کھاتے ہیں ، یہ فطرت انسانی کے خلاف ہے ، خلاف فطرت امور کی انجام دہی کی وجہ سے یہ موذی مرض انسان میں پھیل رہا ہے ۔اللہ عزوجل نے فرمایا: ’’وَیُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبَاتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبَآئِثَ‘‘ (الاعراف: ۱۵۷) ان کے لیے آپ پاکیزہ چیزوں کو حلال اور خبیث چیزوں کو حرام کرتے ہیں ) حلال وحرام کی تعیین کا پیمانہ ہماری ناقص عقل نہیں ہوسکتی، وہی ذات حلال وحرام کا تعیین کرے گی جس نے ہمیں پیدا کیا، وہی جانتی ہے ہمارے جسم کے مناسب اور لائق حلال کیا اور ہمارے جسم کے لیے نقصاندہ اور ضرر رساں کونسی چیزیں ہیں ؟ سورہ مائدہ میں حلال وحرام جانورں کی ساری تفصیلات، کیا کھائیں کیا نہ کھائیں ، مفید وغیر مفید چیزوں کا تذکرہ ہے ؛ بلکہ یہاں تک کہا گیا ہے بغیر بسم اللہ جو جانور ذبح کیاجائے وہ بھی حلال نہیں ہوتا، اللہ عزوجل نے اپنی شریعت میں جن امور کو جاری کیا ہے ، ان تمام امور کی تاثیر ہوتی ہے جس سے انسانیت کا نفع ونقصان متعلق ہے ۔یہ حلال وحرام کے ضابطے اللہ عزوجل نے ہمارے فائدے کے لیے بنائے ہیں ۔اسی لیے درندہ صفت’’کل ذی ناب من السباع‘‘ جانوروں کو بھی حرام کیا گیا؛ کیوں کہ ان درندگی اوران کے اوصاف ہمارے اندر آجائیں گے ،ان لوگوں نے اللہ کے بیان کردہ حدود اور نفع ونقصان کے ضوابط کو پس پشت ڈال دیا،صفت حیوانیت کو اپناناچاہا جس کے نتائج وہ آج اتنی بڑی سوپر پاور طاقت ہوکر جھیل رہی ہے ، وہ اپنی ساری طاقت وقوت کے سامنے بے بس اور مجبور نظر آرہی ہے ، یہی صورتحال اگر زیادہ دنوں تک قائم رہ جاتی ہے چین کی معیشت کی تباہی یقینی ہے ۔
۳- اب اس مرض سے بچنے کے لیے ابتدائی طبی تدبیر کے طور پر ماسک کے استعمال کی صلاح دی جارہی ہے ، بلکہ اس کے التزام کو چین کے وبازدہ علاقوں میں ضروری قرار دیا چکا ہے، جو لوگ اب تک عورت کے لیے نقاب اور برقع کو قید وبند سمجھتے تھے ، وہ چار ونچار اب اس وقت ان کی عورتیں نقاب نما ماسک استعمال کرنے پر مجبورر ہیں ، فطرت سے بغاوت کا یہ نتیجہ ہے کہ عریانیت اور فحاشیت میں ڈوبی ہوئی قوم جس نے اپنے لباس کو بالکل چست اور مختصر کردیا؛ بلکہ لباس عریاں میں گھومنے لگے ،ان کی صورتحال یہ ہے کہ وہ شہروں میں کور اور پرنیوں سے اپنے جسم کو ڈھکے ہوئے موت سے بھاگتے ہوئے نظر آرہے ، ایرپورٹ میں عوام کا ہجوم امڈ گیا ہے ، جہاز کے انتظار میں عوام کا ایک جم غفیر ایرپورٹ میں موجود ہے ، ایسا لگتا ہے کہ یہ موت سے بھاگنے کی تیاری میں ہیں جو ان کا پیچھا کیے ہوئی ہے ۔
۴- اس کے لیے اس وقت جو طبی احتیاطی تدابیر بتائی جارہی ہیں ، اس حوالے نبی کریم … نے جو تدابیر اب سے چودہ سو سال پہلے بتلائے تھے وہ ہمارے لیے مشعل راہ ہیں ۔ اس وقت میں یہ مرض، کھانسنے ، ہاتھ ملانے اور سانس لینے سے دوسرے انسان میں منتقل ہورہا ہے ، اب تک اس مرض کا علاج دریافت نہیں اور صرف احتیاطی تدابیر اختیار کی جارہی ہیں ، اس لیے یہ متعدی مرض ہے جس کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’فرَّ من المجذوم فرارک من الاسد‘‘ (جذامی شخص سے ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو ) اور یہ بھی نبی کریم … نے فرمایا: ’’لایورد ممرض علی مصح‘‘(جو بیمار جانور ہیں ان کو صحیح جانورو ں میں نہ رکھاجائے ) اور نبی کریم … نے یہ طاعون جیسے وبا اور متعدی بیماری کے سلسلے میں ایک رہنما یانہ ہدایت دی تھی اور آپ … نے فرمایاتھا: ’’فإذا سمعتم بہ بأرض فلا تقدموا علیہ، وإذا وقع بأرض وأنتم بھا فلا تخرجوا فرارا منہ‘‘ (موطا مالک) (جہاں تم طاعون کے سلسلے میں سنو تووہاں نہ جاؤ اور اور اگر تم طاعون زدہ علاقوں میں ہو تو وہاں سے بھاگ کر نہ آؤ ) یعنی جوشخص وبائی علاقے میں ہے وہ وہاں سے نہ آئے کہ ناگاہ وہ وبائی مرض اس کے وہاں سے دوسری جگہ منتقل ہونے سے دوسروں کو لگ جائے، یا وہاں جانے سے تم اس وبا میں مبتلا ہوجاؤ؛ لیکن کسی بھی بیماری میں تعدیہ اور انتقال کی صلاحیت خود بخود نہیں ہوتی، اللہ جس جگہ چاہے اور جس میں چاہے اسے منتقل کرتے ہیں ، جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’لا عدوی‘‘(بخاری مسلم) ہر بیماری متعدی نہیں ہوتی، ویسے بھی ہر بیماری وبائی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے انسان اس مریض سے اس کی عیادت سے دور ہوجائے ؛ لیکن یہ نبی کریم … کی طرف سے احتیاطی تدابیر بتلائی گئی ہیں ۔وہاں کے لوگ وہاں سے دوسری جگہ منتقل نہ ہوں کہ وہاں کے لوگ بغیر عیادت گذاروں کے رہ جائیں ، یہ اگر یہ سمجھ کرکہ مجھے کچھ وائرس نہیں دوسری جگہ جائیں گے تو ہوسکتا ہے وہ وائرس اس کے اندر موجود ہواور وہ دوسروں میں پہنچ جائے اور وہ وہاں کے لوگوں کے لیے بھی وبالِ جان بن جائے ۔بہرحال نبی کریم … نے وہاں کے لوگوں کو دوسری جگہ منتقل ہونے سے اور دوسرے لوگوں کو وبازدہ جگہوں پر جانے سے منع کیا ہے ۔
۵- خصوصا اس وقت ماہر مسلم اطباء بتلارہے ہیں پنچ وقتہ نمازوں کے لیے جو وضو کیا جاتا ہے ، وہ اس وبا کے ازالہ کے لیے نسخہ کیمیا ہے ، اس لیے جسم کے جو اعضاء ہر دم کھلے رہتے ہیں اور ان کے وائرس زدہ ہونے کا اندیشہ او رخدشہ ہوتا ہے ، وہ پنچ وقتہ نمازوں کے لیے سنن ومستحبات کے اہتمام کے ساتھ وضو کرنے سے وہ وائرس جڑ پکڑنے سے پہلے ہی ختم ہوجاتے ہیں اور انسان ان وائرس کے اثر انداز ہونے سے بچ جاتا ہے ، اس لیے کہ کلی کرنے ، ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ اور ہاتھ ، منہ ، پاؤں دھونے اور سر کا مسح کرنے ، کانوں اور گردن کا مسح کرنے سے ان ظاہری اعضاء کو دن میں پانچ وقت دھو لیا جاتا ہے تو ان جراثیم کے جسم کے کھلے ہوئے اعضاء پر جمے رہنے کے اندیشوں میں کمی واقع ہوتی ہے؛ اس لیے وضو کی پرکٹس کو بھی اس وائرس سے بچنے کی بہترین اور فطری تدبیر بتائی جارہی ہے ۔
۶- ماثور ومنقول دعائیں جن میں جسم کی عافیت اور صحت کی دعائیں کی گئی ہیں ، ان کا اہتمام رکھنے اور اللہ کی طرف رجوع کرنے سے بھی ان وباؤں سے محفوظ رکھاجاتا ہے ، اللہ کی پناہ، حفاظت اور حصار سے تمام بیماریوں اور اذیتوں سے حفاظت کی ضمانت دی جاسکتی ہے ، خصوصاً اس طرح کی ماثور دعائیں ’’اللّٰھم عافنی فی بدنی، اللّٰہم عافنی فی سمعی، اللّٰہم عافنی فی بصری، لا إلٰہ إلّا انت‘‘ (اے اللہ میرے پورے جسم میں ، میرے کان میں ، میری آنکھوں میں صحت عطا فرما، تیرے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں )۔
۷- اللہ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے ، ان لوگوں نے اویغور مسلمانوں کے اوپر ظلم وستم کیا، ان کو ان کے گھروں سے نکال کر ڈٹینشن کیمپس میں محصور کیا اور بعض ذرائع کے مطابق اسلام کو ملیامیٹ کرنے کا تہیا کیا اور قرآن کو جلایا، آج اللہ عزوجل نے ان کے آرام دہ گھروں کو ان کے ڈِٹینشن کیمپ بنایا اور ان کے گھر ہی ان کے لیے قید خانے بن گئے، ان کو اپنے گھروں میں محصور ہونا پڑا، جب اللہ کا عذاب آتا ہے تو ایسی جگہ سے آتا ہے جہاں سے کہ انھیں احساس اور وہم گمان بھی نہیں ہوتا، ایک چھوٹے سے موذی ، مہلک متعدی مرض کے ذریعے اللہ عزوجل ان ظالموں سے انتقام لے رہے ہیں ، اللہ عزوجل خود فرماتے ہیں ، حدیث قدسی ہے : ’’میں ظلم کو پسند نہیں کرتا تم کسی پر ظلم نہ کرنا‘‘، ’’مظلوم کی آہیں اللہ کے پاس بادلوں میں اٹھا کر پہنچائی جاتی ہیں اور اللہ عز وجل فرماتے ’’وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْأَرْضِ إِنَّ اللَّہَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِین‘‘( القصص: ۷۷) (زمین میں فساد مت مچاؤ ، اللہ عزوجل فساد کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتے )۔اب چین کے ووہان کے علاوہ آس پاس کے بہت سے شہروں کی صورت حال یہ ہے کہ وہاں کی نقل وحرکت بالکل بند کردی گئی ہے ، لوگ نہایت خوف واندیشے میں زندگی بسر کررہے ہیں ۔جس میں 65ملین لوگ محصور اور بند ہیں اور کھانے کی اشیاء کی قلت ہوگئی ہے۔
——————————————-
دارالعلوم ، شمارہ : 2-3، جلد:104، جمادى الاول 1441ھ مطابق اپریل –مئی 2020ء
* * *