عظیم اور مثالی محدث، استاذالاساتذہ
حضرت اقدس مولانا وسیم احمد صاحب مظاہری سنسارپوری نوراﷲ مرقدہٗ
شیخ الحدیث جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ
از:مفتی ریاست علی قاسمی رام پوری
استاذ حدیث و مفتی جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد، امروہہ
اس کائنات ہست و بود میں ہر چیز فانی ہے، روزانہ ہی بے شمار انسانوں کی موت ہوتی ہے اور زیر زمین دفن ہوجاتے ہیں اور زمین ان کو اپنا پیوند بنا لیتی ہے، خالق ارض و سماء کے نظام کے تحت موت و حیات کا سلسلہ ابتداء آفرینش سے قائم ہے اور قیامت تک جاری و ساری رہے گا، بعض انسانوں کے مرنے پرکوئی بھی سوگ کرنے والا نہیں ہوتا؛ البتہ بعض عظیم انسانوں کی وفات پر ایک عالم سوگوار ہوتا ہے اور ان کی وفات سے عالم ارضی میں ایسا خلاء پیدا ہوجاتا ہے جس کا ملاء دشوار ہوتا ہے اور صدیوں تک اس عظیم ہستی کو یاد کیا جاتا ہے، انہی عظیم اور نامور شخصیات میں ہمارے مشفق و مہربان استاذ، عظیم مربی و محدث، استاذالاساتذہ حضرت مولانا وسیم احمد صاحب سنسارپوری،مظاہری نوراﷲ مرقدہٗ شیخ الحدیث جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ کی ذات گرامی بھی تھی جن کا مختصر ذکر جمیل درج ذیل سطور میں کیا جاتا ہے۔
ولادت اور خاندان
آپ کا اسم گرامی وسیم احمد اور والد محترم کا اسم گرامی مولانا بشیر احمد صاحب مرحوم ہے۔ ضلع سہارن پور کی مردم خیز بستی سنسارپور کو آپ کے وطن ہونے کا شرف حاصل ہے، اسی سرزمین میں ۱۹۵۲ء میں آپ کی ولادت ہوئی۔
ابتدائی تعلیم
اپنی ہی بستی کے بافیض ادارہ مدرسہ فیض سبحانی سنسارپور میں آپ کی ابتدائی تعلیم ہوئی، نورانی قاعدہ، ناظرہ قرآن، اوردینیات، ریاضی و حساب اور حفظ قرآن کریم کی تعلیم اسی ادارہ میں ہوئی۔ گاؤں کے سرکاری پرائمری اسکول میں درجۂ چہارم تک ہندی وعلوم عصریہ کی تعلیم بھی حاصل کی۔
والدگرامی قدر
حضرت الاستاذ کے والدمحترم مولانا بشیر احمد صاحبؒشہر سہارن پور میں ایک مسجد کے امام و خطیب تھے اور مختلف مساجد میں قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر بھی عوام الناس کے روبرو بیان فرماتے تھے۔ اس کے ساتھ مسجد سے وابستہ مکتب میں پڑھایا بھی کرتے تھے اور کثیر مصروفیات کی حامل شخصیت تھے؛ اس لیے گاؤں میں رہ کر اپنے لخت جگر کی تربیت کی جانب خاطرخواہ توجہ دینا ان کے لیے دشوار تھا؛ اس لیے گاؤں سے دور کسی معروف درس گاہ میں پڑھانے کا فیصلہ فرمایا۔
جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ میں داخلہ
ابتدائی تعلیم کی تکمیل کے بعد اپنے والد محترم کے مشورہ اور حکم سے آپ نے گنگوہ کا راستہ اختیار کیا اورشوال ۱۳۸۳ھ مطابق ۱۹۶۲ء مرکز تعلیم و تربیت جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ میں داخلہ لیا۔ اس دور میں بانی جامعہ مولانا قاری شریف احمد صاحب نوراﷲ مرقدہٗ (متوفیٰ: ۲۴؍ربیع الاول ۱۴۲۶ھ مطابق ۴؍مئی ۲۰۰۵ء) کا نداز تربیت مثالی اور لائقِ تقلید تھا۔ عوام و خواص کو آپ کی تربیت پر مکمل اعتماد حاصل تھا۔ جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ میں آپ کا قیام دو سال رہا اور ابتدائی فارسی سے لے کر شرح جامی بحث فعل تک تمام کتابیں مکمل محنت اور توجہ و جانفشانی سے آپ نے پڑھیں ۔ اس دور میں جامعہ اشرف العلوم رشیدی میں نصاب تعلیم کی معراج شرح جامی بحث فعل ہی تھی، گنگوہ میں بانی جامعہ مولانا قاری شریف احمد نوراﷲ مرقدہٗ کے علاوہ آپ کے نامور اساتذہ میں حضرت مولانا نسیم احمد صاحب غازی مظاہری بجنوری نوراﷲ مرقدہٗ (متوفیٰ: ۱۰؍شوال ۱۴۳۸ھ) سابق شیخ الحدیث دارالعلوم جامع الہدیٰ مرادآباد کا اسم گرامی بھی شامل ہے۔ (اس دور میں غازی صاحب مرحوم جامعہ اشرف العلوم رشیدی ہی میں تدریسی فرائض انجام دیا کرتے تھے)
مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور میں داخلہ اور فراغت
شوال ۱۳۸۵ھ مطابق ۱۹۶۴ء کو آپ نے جامعہ مظاہر علوم سہارن پور میں داخلہ لیا اور شرح جامی بحث اسم، کنزالدقائق، شرح تہذیب، شرح وقایہ وغیرہ کتابوں سے اپنی تعلیم کا آغاز فرمایا پھر درجہ بدرجہ تعلیمی مراحل طے کرتے رہے اور کتب درس نظامی کی تکمیل فرمائی۔۱۳۹۰ھ مطابق ۱۹۷۰ء میں اساطین علم و فضل کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرکے کتب احادیث پڑھ کر فراغت حاصل کی۔
جامعہ مظاہر علوم سہارن پور کے نامور اساتذہ کرام
جامعہ مظاہر علوم سہارن پور میں علوم نبوت کے جن درخشندہ ستاروں سے آپ نے کسبِ فیض کیا اور علمی تشنگی بجھائی۔ ان کے اسماء گرامی اس طرح ہیں :
اسعدالملت حضرت مولانا اسعداﷲ صاحبؒ رام پوری سابق ناظم اعلیٰ مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور و خلیفۂ اجل حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نوراﷲ مرقدہٗ : ممدوح نے آپ سے طحاوی شریف پڑھی پھر آپ کی علالت کی وجہ سے اس کی تکمیل مفتی مظفر حسین صاحبؒ نے کرائی۔ فقیہ الاسلام مولانا مفتی قاری مظفر حسین صاحب مظاہری سابق ناظم اعلیٰ مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور: ممدوح نے آپ سے ترمذی شریف مکمل اور طحاوی شریف کا آخری حصہ پڑھا۔شیخ الحدیث مولانا محمد یونس صاحب جونپوریؒ سے آپ نے بخاری شریف مکمل اور مسلم شریف مکمل پرھی۔ حضرت مولانا محمد عاقل صاحب مدظلہ شیخ الحدیث و صدرالمدرسین مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور: آپ سے ممدوح نے ابوداؤد شریف، نسائی شریف اور ابن ماجہ شریف پڑھی۔ درج بالا شخصیات کے علاوہ امام النحو حضرت علامہ صدیق احمد صاحب جمویؒ، امام الفرائض حضرت مولانا وقار علی صاحب بجنوریؒ، حضرت علامہ مولانا محمد یامین صاحبؒ، حضرت مولانا محمد سلمان صاحب مظاہری موجودہ ناظم مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور ، حضرت مولانا اطہر حسین صاحب اجراڑوی، حضرت مولانا مفتی محمد یحییٰ صاحبؒ، حضرت مولانا محمد اﷲ صاحب رام پوری وغیرہ حضرات بھی آپ کے اساتذۂ کرام کی فہرست میں شامل ہیں ۔
نامور رفقاء درس
آپ کے رفقاء درس میں حضرت مولانا زبیرالحسن صاحب صابزادہ محترم رئیس التبلیغ حضرت مولانا انعام الحسن صاحب کاندھلویؒ، حضرت مولانا ظہیرانوار صاحب بستوی ناظم دارالعلوم اسلامیہ بستی، حضرت مولانا حبیب اﷲ چمپارنیؒخادم خاص حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلویؒ، مولانا قاری احمد گورا صاحب خادم خاص و مجاز بیعت حضرت مولانا اسعداﷲ صاحب رام پوریؒ، حضرت مولانا سید محمد شاہد مدظلہ سکریٹری جامعہ مظاہر علوم سہارن پور، مولانا عبدالقادر صاحب احمدآبادی، مولانا ثناء اﷲ ہزاری باغوی جیسے عظیم لوگ شامل ہیں ۔
جامعہ اشرف العلوم رشیدی سے تدریسی زندگی کا آغاز
شوال ۱۳۹۰ھ مطابق ۱۹۷۰ء کے اواخر میں اکابرین مظاہر علوم کے مشورہ اور حضرت مولانا قاری شریف احمد صاحبؒ کی حسن طلب پر جامعہ اشرف العلوم رشیدی میں آپ کا تقرر عمل میں آیا اور اس طرح جامعہ اشرف العلوم رشیدی کے حلقۂ خدام اور زمرئہ اساتذہ میں آپ کی شمولیت سے حسین اضافہ ہوا۔ خدمت تدریس پر فائز ہونے کے بعد ابتدائی فارسی عربی سے درجات نہائیہ دورۂ حدیث و افتاء تک درس نظامی کی بیشتر کتابیں انتہائی کامیابی اور نیک نامی کے ساتھ آپ نے باربار پڑھائیں ۔ رب ذوالجلال نے تمام ہی علوم و فنون میں کامل درک اور مہارت تامہ کے امتیازی وصف سے آپ کو حصہ وافر عطا فرمایا تھا۔ ہدایہ اولین، ہدایہ آخرین، جلالین شریف، بیضاوی شریف، مشکوۃ شریف کا آپ کا درس اعلیٰ پیمانہ پر ہوتا ہے، حتی کہ دوسرے قرب و جوار کے مدارس کے طلبہ بھی اپنے خارجی اوقات میں آپ کے درس سے استفادہ کے لیے گنگوہ آتے رہتے تھے کیونکہ آغاز مدرسہ کے وقت سے پچا س ساٹھ سال تک اکابرین کے مشورہ اور گنگوہ کے خاص حالات کے پیش نظر مدرسہ اشرف العلوم میں جمعہ کے دن تعلیم ہوتی تھی اور ہفتہ کے دن ہفتہ واری تعطیل رہتی تھی، اس لیے دیگر مدارس اسلامیہ کے طلبہ حضرت والا کے درس سے استفادہ کے لیے جمعرات کی شام گنگوہ پہنچ جاتے تھے اور جمعہ کے اسباق میں شریک ہوکر شام کو اپنے مدرسہ میں تشریف لے جاتے تھے۔ اس طرح فنون کی کتابیں کافیہ، شرح جامی، مختصرالمعانی، مقامات حریری، سلم العلوم، قطبی، میبذی، شرح عقائد نسفی، اصول الشاشی، نورالانوار وغیرہ بھی آپ نے باربار پڑھائیں ۔ راقم السطور از شوال ۱۴۰۲ھ تا شعبان ۱۴۰۴ھ دو سال مدرسہ اشرف العلوم رشیدی میں طالب علمانہ حیثیت سے مقیم رہا اور اس دور کے مشاہیر اساتذئہ کرام سے تلمذ کی سعادت حاصل رہی۔ حضرت والا سے راقم السطور نے شرح جامی بحث اسم، مختصر المعانی، مقامات حریری تین کتابیں مدرسہ کے نصاب کے مطابق پڑھیں ۔ حضرت والا کا انداز تدریس انتہائی مثالی اور نرالا تھا۔ پورے سال کتاب کے مضامین کو سمجھانے کے لیے حضرت والا نے کبھی کتاب اپنے سامنے تپائی پر نہیں رکھی، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کتاب کے مضامین بالاستیعاب آپ کو ازبر ہیں ۔ صرف ترجمہ کے لیے مضامین کتاب مکمل ہونے کے بعد کتاب سامنے رکھتے تھے اور بیان کردہ مضامین کو کتاب کی عبارت پر منطبق فرماتے تھے۔مذکورہ تین کتابوں کے علاوہ احقر کو خارج میں سراجی پڑھنے کی سعادت بھی حاصل رہی ۔ سراجی پڑھنے کی سعادت کے حصول کا واقعہ اس طرح پیش آیا کہ حضرت والا سال کے آخر میں موقوف علیہ کے طلبہ کو صبح کے آخری گھنٹہ کے بعد چھٹی کے وقت سراجی پڑھایا کرتے تھے اور حضرت والا کی درس گاہ اس وقت کی ترتیب کے اعتبار سے کمرہ نمبر ۵ دارجدید کے برآمدہ میں لگتی تھی، بندہ کا قیام کمرہ نمبر ۱ دارجدید میں رہتا تھا۔ آپ ایک روز درس سراجی میں باپ کے احوال پڑھا کر فارغ ہوئے تھے اور باپ کے تینوں حالات کو تختہ سیاہ پر سمجھایا تھا، بندہ کا آپ کے سامنے سے جب گزر ہوا تو بندہ تختہ سیاہ کو پڑھنے لگا ، اس کے بعد حضرت والا نے فرمایا کہ کیا دیکھ رہا ہے کچھ سمجھ میں آیا ، بندہ نے کہا جی سمجھ میں آرہا ہے، پھر حضرت کی فرمائش پر میں نے باپ کے تینوں حالات مع امثلہ بتلا دئیے پھر حضرت والا نے فرمایا کہ تجھے کیسے معلوم ہوا تو بندہ نے عرض کیا کہ میں نے سابق مدرسہ میں کافیہ کے سال سراجی پڑھ لی ہے تو حضرت والا نے پابندی سے درس سراجی میں شرکت کا حکم فرمایا اور پھر مستقل طور پر سراجی پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔
الحاصل رسوخ فی العلوم کی دولت جو رب ذوالجلال اپنے خاص بندوں کو عطا فرماتے ہیں ۔ یقینا مبدأ فیاض کی طرف سے آپ کو حاصل تھی، حضرت مولانا محمد سلمان گنگوہی مدظلہ استاذ حدیث جامعہ اشرف العلوم رشیدی کی روایت کے مطابق حضرت والا ہر فن کی کتاب پوری تیاری اور محنت سے پڑھاتے ہی نہیں تھے بلکہ طلبہ کو گھول گھول کر پلانے کی کوشش کرتے تھے؛ کیونکہ حضرت الاستاذ مولانا محمد سلمان صاحب مدظلہ کو حضرت والا مرحوم سے فارسی سے لے کر مشکوۃ شریف تک متعدد کتابیں پڑھنے کی سعادت حاصل رہی ہے۔ اس لیے حضرت والا کے حق میں آنجناب کی شہادت بلاشبہ انتہائی وقیع اور مضبوط شہادت ہے۔
گنگوہ کا حلقۂ درس حدیث
فقیہ النفس، قطب الارشاد، امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نوراﷲ مرقدہٗ کا درس حدیث اپنے دور میں بے انتہاء مقبول و معروف تھا۔ امام ربانیؒ نے حضرت شاہ عبدالغنی دہلوی، مولانا مملوک علی نانوتویؒ سے دہلی جاکر علوم شرعیہ اور فن حدیث کو پڑھ کر اجازت حاصل کی پھر شیخ المشائخ سیدالطائفہ حضرت حاجی امداداﷲ مہاجر مکیؒ کے دست حق پرست پر بیعت ہوکر سلوک و تصوف میں کمال پیدا کیا اور حاجی صاحبؒ کی جانب سے اجازتِ بیعت و خرقۂ خلافت حاصل کرنے کے بعد گنگوہ واپس ہوکر حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہیؒ کے حجرہ کو اپنی قیام گاہ بنایا اور وہیں بیٹھ کر درس حدیث اور بیعت و ارشاد کا سلسلہ شروع فرمایا اور یہ درس حدیث کا مشغلہ سالہاسال تک جاری رہا اور تمام ہی کتب حدیث بشمول صحاح ستہ کو آپ تنہا پڑھاتے تھے۔ اس زمانہ میں طلبہ کی محدود تعداد ہوتی تھی۔ ۱۳۱۴ھ تک آپ کا درس حدیث کا مشغلہ جاری رہا۔ آپ کے درس حدیث کے آخری شاگرد شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلویؒ کے والد گرامی قدر مولانا محمد یحییٰ صاحب کاندھلویؒ تھے۔ ۱۳۱۴ھ کے بعد نزول الماء کی وجہ سے آپ کا درس حدیث کا سلسلہ بند ہوگیا؛ لیکن بیعت و ارشاد اور فتاویٰ کا سلسلہ حیات مستعار کی آخری سانس تک جاری رہا اور جمادی الثانیہ ۱۳۲۳ھ آپ کی وفات پر منقطع ہوا۔ اس کے بعد گنگوہ کا حلقۂ درس تقریباً ۹۲ سال تک قائم نہ ہو سکا۔ اﷲ تعالیٰ جزائے خیر دے حضرت مولانا قاری شریف احمد صاحبؒ بانی جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ کو کہ موصوف کی انتھک کوششوں کے بعد امام ربانیؒ کی وفات کے تقریباً بیاسی سال بعد اور انقطاع حدیث کے تقریباً ۹۲ سال کے بعد گنگوہ میں درس حدیث کا سلسلہ ۵؍ذیقعدہ ۱۴۰۴ھ مطابق ۳؍اگست ۱۹۸۴ء بروز جمعہ بعد نمازِ جمعہ دوبارہ شروع ہوا اور شہرۂ آفاق محدث استاذِ گرامی حضرت مولانا عبدالحق صاحب اعظمی نوراﷲ مرقدہٗ شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند نے صحیح بخاری کی پہلی حدیث پڑھ کر اس کا آغاز فرمایا۔
عہدۂ شیخ الحدیث کے لیے مبارک انتخاب
جب جامعہ اشرف العلوم گنگوہ میں دورۂ حدیث شریف کا افتتاح عمل میں آیا تو بانیٔ جامعہ حضرت مولانا قاری شریف احمد صاحبؒ نے اس وقت موجود نامور اساتذہ کرام کے درمیان دورۂ حدیث کی کتابوں کو اپنے قلم سے تقسیم فرمایا اور بخاری شریف اصح الکتب بعد کتاب اﷲ تعالیٰ کا درس حضرت ممدوح مولانا وسیم احمد صاحبؒ کے لیے تجویز فرمایا اور آپ اس ادارہ کے اولین شیخ الحدیث قرار دئے گئے اور تاحیات تقریباً ۳۶؍سال تک درس بخاری اور عہدۂ شیخ الحدیث آپ کی ذات کے ساتھ خاص رہا اور گنگوہ کی نسبت سے لفظ شیخ الحدیث آپ کے اسم گرامی کا جزء لازم اور آپ کا عرفی نام بن گیا۔ صحیح بخاری کے علاوہ صحیح مسلم بھی ابتدائی چند سالوں کے علاوہ تاحیات آپ ہی سے متعلق رہی۔ اس کے علاوہ مختلف اوقات میں ترمذی شریف، نسائی شریف، ابن ماجہ، مؤطا امام مالک اور مؤطا امام محمدوغیرہ کتب حدیث کا درس بھی آپ پڑھاتے رہے۔آپ کا درس حدیث بے انتہاء مقبول اور مدلل ہوتا تھا، وقت کے مایہ ناز محدثین نے اپنے اپنے حلقۂ درس میں آپ کے درس حدیث کی تعریف وتحسین اعلیٰ اور وقیع الفاظ میں فرمائی تھی، محدث کبیر حضرت مولانا محمد یونس صاحب شیخ الحدیث مظاہر علوم سہارن پور، فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسین صاحب ناظم مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور، مولانا محمد عاقل صاحب مدظلہ صدرالمدرسین و شیخ الحدیث مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور اسی طرح صوبۂ گجرات سے متعلق بعض اساتذہ حدیث نے آپ کے درس حدیث کی جامعیت کی متعدد مرتبہ اپنے اپنے حلقہ ہائے درس میں تعریف و تحسین فرمائی، مظاہر علوم کے قضیہ نامرضیہ کے بعد جب مظاہر علوم دو حصوں میں تقسیم ہوگیا تو حضرت مولانا مفتی مظفر حسین صاحبؒ نے متعددمرتبہ آپ کو مظاہر علوم کا شیخ الحدیث بنانے کی کوشش فرمائی؛ مگر آپ نے گنگوہ چھوڑنا پسند نہیں فرمایا۔ شوال ۱۴۰۲ھ تا شعبان ۱۴۴۱ھ تقریباً ۳۶ سال کے عرصہ میں آپ سے حدیث شریف پڑھ کر اجازت حدیث حاصل کرنے والے فضلاء کی تعداد تقریباً ساڑھے تین ہزار ہے۔ ان فضلاء نے صحیحین (بخاری و مسلم) کی اجازت کے ساتھ مسلسلات کی بھی اجازت حاصل کی۔ دورۂ حدیث کے قیام کے چند سالوں کے بعد جب جامعہ اشرف العلوم رشیدی میں دارالافتاء کا شعبہ قائم ہوا اور اس میں تمرین فتاویٰ کے لیے طلبہ کا داخلہ شروع ہوا تو دارالافتاء کی نصابی کتابوں میں در مختار کتاب النکاح والطلاق کا آپ نے تاحیات درس دیا اور درمختار پڑھنے والے آپ کے تلامذہ کی تعداد بھی سیکڑوں ہے۔ مدرسہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ میں آپ کی مدت تدریس عیسوی کے حساب سے پچاس سال کے طویل عرصہ پر محیط ہے اور قمری سال کے حساب سے اکیاون سال سے زائد عرصہ کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
بیعت و سلوک
سلوک و احسان کے حصول کے لیے غالباً آپ نے اولاً شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلویؒ کے دست حق پرست پر بیعت فرمائی اور اس کے بعد مشہور شیخ طریقت حضرت مولانا سید مکرم حسین سنسارپوری دامت برکاتہم العالیہ (خلیفہ و مجاز بیعت حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری نوراﷲ مرقدہٗ) سے اصلاحی تعلق قائم فرمایا اور حضرت سنسارپوری مدظلہ کی جانب سے ہی آ پ کو اجازت بیعت اور خرقۂ خلافت کا تمغہ حاصل ہوا پھر حضرت والا نے اس سلسلہ کو اپنے دائرہ میں جاری و ساری رکھا۔ اصلاح نفس اور اصلاح قلب کے لیے آپ سے بیعت ہونے والوں کی تعداد بھی بے شمار ہے۔ ہر سال ماہ رمضان میں جس مسجد کے آپ امام تھے، آپ کی خانقاہ قائم ہوتی تھی اور شہر و قرب و جوار سے لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنے اوراد و وظائف پورے کرتے تھے اور آپ سے سلوک و احسان کا درس حاصل کرتے تھے۔ قرب و جوار اور شہر کے لوگوں کے علاوہ فضلاء مدارس، خاص طور سے فضلاء جامعہ اشرف العلوم رشیدی بھی بڑی تعداد میں آپ سے بیعت تھے۔ آپ کے خلفاء و مجازین بیعت کی بھی یقینا بڑی تعداد ہوگی جو ہمارے علم میں نہیں ہے۔ ہمارے علم کے مطابق ہمارے دوست مولانا بدرالاسلام صاحب مدظلہ امام و خطیب جامع مسجد کوٹ دوار اتراکھنڈ کو حضرت والا سے اجازت بیعت حاصل ہے۔ ان شاء اﷲ کوئی صاحب قلم اس مخفی گوشہ کو بھی ضرور واضح کرے گا۔
اخلاق و عادات اور اوصافِ جمیلہ
رب ذوالجلال نے رسوخ فی العلم اور کمال استحضار کے وصف خاص سے آپ کو نوازا تھا، سادگی و فروتنی، تواضع و خاکساری آپ کی طبیعت ثانیہ تھی۔ ایک عظیم ادارہ کے شیخ الحدیث اور علوم نبوت کی جامع ترین شخصیت ہونے کے باوجود اپنی سادگی اور سادہ لباس میں ملبوس ہونے کی وجہ سے عام آدمی آپ کو پہچان نہیں سکتا تھا۔ اساتذہ کی صف میں آپ کو اولیت کا مقام حاصل تھا، اس کے باوجود فرائضِ تدریس کے علاوہ مدرسہ کے دوسرے امور انجام دینے میں کبھی آپ کو تکلیف نہیں ہوتی۔ مدرسہ کے سابق ناظم و مہتمم بانیٔ مدرسہ مولانا قاری شریف احمد صاحبؒ اور موجودہ ناظم مولانا مفتی خالد سیف اﷲ صاحب مدظلہ آپ پر مکمل اعتماد فرماتے ہیں ۔ ماہ رمضان میں دونوں حضرات مدرسہ کی ضروریات کے لیے بیرون ملک کا طویل سفر فرماتے تھے اور مدرسہ کے جملہ امور کا ذمہ دار آپ ہی کو بناکر جاتے تھے۔ اندرون ملک فراہمی مالیات کے لیے جانے والے سفراء اور اساتذہ کرام سفر سے واپسی پر وصول شدہ رقوم آپ کی خدمت میں لاکر جمع کرتے تھے اور مالیہ کا مکمل حساب ماہ شعبان، رمضان اور اوائل شوال میں آپ ہی کے پاس رہتا تھا اور ذمہ داران کے سفر سے واپس آنے پر ان کے سپرد فرمایا کرتے تھے اور آخری زندگی تک سالہا سال یہ نظام قائم رہا۔ اپنے اساتذہ اکابر کی خدمت اور ان کا بے حداحترام کرتے تھے اور مرحومین اکابر و مشائخ کا بڑے احترام و عقیدت سے تذکرہ فرماتے تھے۔ اسباق کی پابندی ہر کتاب کو مکمل تیاری اور مطالعہ کے بعد پڑھانا آپ کا معمول تھا۔ مطالعہ اور تدریس کے علاوہ تلاوت قرآن کریم کے آپ رسیا تھے۔ کثرت تلاوت اور اوراد و وظائف کی پابندی آپ کا امتیازی وصف تھا، طلبہ کی تربیت کا خاص خیال رکھتے تھے، شریعت اور سنت کے اتباع کا التزام ہر حالت میں کرتے تھے۔ الغرض آپ مجمع الحسنات اور جامع الکمالات تھے۔
اصلاحی اور دعوتی اسفار
آپ کو سفر سے وحشت ہوتی تھی؛ لیکن اہل تعلق اور تلامذہ کے اصرار پر گاہے گاہے اصلاحی و دعوتی سفر بھی فرماتے تھے۔ یہ اسفار مختلف نوعیتوں کے ہوتے تھے، سال کے آخر میں عام طور پر ختم بخاری شریف یا مدارس اسلامیہ کے سالانہ جلسوں میں خصوصی خطاب کے لیے اسفار ہوتے تھے۔ اس مقصد سے آپ نے ہندوستان کے علاوہ بیرون ملک میں بنگلہ دیش، افریقہ وغیرہ کے بھی اسفار فرمائے ہیں ؛ نیز اترپردیش کے دوسرے صوبہ جات آندھرا پردیش، تلنگانہ، کرناٹک، مدراس، بہار، بنگال، آسام، مہاراشٹر اور گجرات وغیرہ کے بھی اسفار فرمائے ہیں ۔ ایک سفر میں راقم السطور کو بھی رفاقت کی سعادت حاصل رہی جو نظام آباد اور حیدرآباد کا تھا اور دونوں ہی مدارس میں ختم بخاری شریف کا پروگرام تھا۔ زمانہ طالب علمی میں ایک مرتبہ راقم السطور کی دعوت پر بندہ کے گاؤں بھی تشریف لائے اور وہاں آپ نے عوام کے مختصر مجمع سے خطاب بھی فرمایا۔ اس کے علاوہ حج و عمرہ کے ارادہ سے متعدد مرتبہ آپ نے حجاز مقدس کا سفر بھی فرمایا اور زیارت حرمین شریفین کی سعادت عظمیٰ سے مشرف اور فیض یاب ہوئے۔ مرض الوفات سے قبل ششماہی امتحان کے موقع پر بھی آپ کو رب ذوالجلال نے عمرہ کی سعادت عطا فرمائی تھی۔ ع
خدا بخشے بڑی ہی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
تصنیفات و تالیفات
علمی استحضار اور اعلیٰ درجہ کی قابلیت اور صلاحیت کے باوجود آپ نے تصنیف و تالیف کو اپنا علمی مشغلہ نہیں بنایا، اس کے باوجود آپ کے گوہر بار قلم سے بعض اہم تالیفات وجود پذیر ہوئیں ، جن کی مختصر تفصیل اس طرح ہے: (۱) بذل السعایہ فی مقدمۃالہدایہ، فقہ حنفی میں علامہ مرغینانیؒ کی مشہور و معروف کتاب ہدایہ کا مبسوط و قیع مقدمہ آنجناب نے عربی زبان میں ترتیب دیا تھا، پھر اپنے والد محترم مولانا بشیر احمد صاحبؒ کی تعمیل ارشاد میں اس کو اردو زبان میں منتقل فرمایا، یہ مقدمہ دوباب اور سات فصول پر مشتمل ہے۔ ذی قعدہ ۱۳۹۶ھ میں لکھا گیا اور شائع بھی ہوا؛ مگر اس وقت نایاب ہے۔ کتاب کے آغاز میں فقیہ الاسلام مولانا مفتی مظفر حسین اور مولانا اطہر حسین صاحبؒ کی وقیع تقریظات ہیں ۔ (۲) تبذیر البنان فی تذکرۃ النعمان یہ موصوف کے قلم سے امام ابو حنیفہؒ کے تذکرہ پر مشتمل اہم کتاب ہے۔ اس کتاب میں امام اعظمؒ کے محدثانہ اور فقیہانہ مقام کی بہترین وضاحت اور معاندین و مخالفین کی طرف سے ہونے والے اعتراضات کا محققانہ اور عالمانہ جواب دیا گیا ہے، کتاب ہنوز غیر مطبوعہ ہے۔ اس کے علاوہ مقدمۂ تفسیر، مقدمۂ حدیث آپ کی بہترین تالفات ہیں جو ابھی تک شائع ہونے کا انتظار کررہی ہیں ؛ نیز حضرت الاستاذ مولانا محمد سلمان صاحب گنگوہی دامت برکاتہم استاذِ حدیث جامعہ اشرف العلوم رشیدی نے اپنے زمانہ طالب علمی میں آپ کے درس جلالین کی تقریر انتہائی اہتمام سے مرتب فرمائی، فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود حسن صاحب گنگوہیؒ نے اس کا نام ملاحظہ کے بعد’’نفحات وسیم‘‘ تجویز فرمایا۔ اسی طرح حضرت الاستاذ مدظلہ نے آپ کے درس مشکوۃ کی تقریر کو بھی ضبط فرماکر مرتب فرمایا۔ یہ دونوں علمی ذخائر بھی ابھی تک غیرمطبوعہ ہیں ۔ رب ذوالجلال ان کے شائع ہونے کا نظم فرمائے۔(آمین)
تلامذہ
حضرت اقدس ممدوح شیخ الحدیث نوراﷲ مرقدہٗ کے ملک و بیرون ملک تلامذہ اور شاگردان کی تعداد کا احصاء اور احاطہ کرنا دشوار ہے۔ ہندوستان کے بیشتر مدارس میں آپ کے شاگرد ماشاء اﷲ مدارس اسلامیہ کے ذمہ داریا کلیدی عہدوں پر فائز ہیں ، جامعہ اشرف العلوم رشیدی کے موجودہ ناظم و مہتمم حضرت مولانا مفتی خالد سیف اﷲؒ اور حضرت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب قدیم ترین استاذِ حدیث دونوں ہی آپ کے شاگرد میں اول الذکر دیگر متعدد کتابوں کے ساتھ بخاری شریف کے اولین شاگرد ہیں اور ثانی الذکر بھی دیگر متعدد درسی کتابوں کے ساتھ مشکوۃ شریف کے اولین شاگرد ہیں ؛ نیز مدرسہ اشرف العلوم گنگوہ اور گنگوہ و اطراف گنگوہ کے دوسرے مدارس کے بیشتر اساتذہ کرام بھی آپ کے شاگرد ہیں ۔ ازہرہند ام المدارس دارالعلوم دیوبند میں حضرت مولانا محمد سلمان صاحب بجنوری نقشبندی استاذ حدیث و مدیر ماہنامہ دارالعلوم دیوبند، مولاناقاری عبدالرؤف بلندشہری، شیخ القراء دارالعلوم دیوبند، سہارن پورمیں حضرت مولانا مفتی مقصود احمد صاحب صدر مفتی و استاذ حدیث مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور، حضرت مولانا نثار احمد صاحب استاذ حدیث مظاہر علوم وقف سہارن پور آپ کے تلامذہ کی فہرست میں شامل ہیں ، ان کے علاوہ مولانا محمد سفیان سہنسپور ضلع بجنور، مولانا بدرالاسلام صاحب کوٹ دوار مولانا محمد اسلم جاوید قاسمی صاحب صدر جمعیۃ علماء ضلع رام پورو مہتمم مدرسہ فیض العلوم تھانہ ٹین رام پور، مولانا محمد قسیم صاحب قاضی شہر سلطان پور، مولانا انیس آزاد بلگرامی نقشبندی ناظم مدرسہ سید المدارس دہلی، حضرت مولانا محمد انور صاحب شیخ الحدیث دارالعلوم رشیدیہ گنگوہ، مولانا مفتی حبیب اﷲ چمپارن مہتمم دارالعلوم مہذب پور اعظم گڑھ، مولانا مفتی شعیب اﷲ مفتاحی مہتمم و بانی مدرسہ مسیح العلوم بنگلور، مولانا مفتی شفقت اﷲ صاحب قاضی شہر ہردوئی، مولانا مفتی علی حسن صاحب نہٹوری مفتی مدرسہ مظاہر علوم وقف سہارن پور وغیرہ آپ کے مشہور تلامذہ ہیں ۔ بیرون ملک سعودی عرب، انگلینڈ، ویسٹ انڈیز، افریقہ، امریکہ، برما، بنگلہ دیش، پاکستان، پنامہ، کناڈا وغیرہ میں آپ کے تلامذہ و شاگردان باصفاماشاء اﷲ دینی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔
علالت ، وفات اور تدفین
آپ کافی عرصہ سے بیمار تھے، علاج و معالجہ بھی چل رہا تھا، اس کے ساتھ تمام معمولات اور فرائض تدریس بھی پورے اہتمام کے ساتھ جاری تھے۔ مدرسہ کے روح روان مولانا مفتی خالد سیف اﷲ صاحب مدظلہ نے آپ کے اعذار و امراض کی وجہ سے آپ کے اسباق کی ترتیب صبح کے اوقات ہی میں قائم فرما دی تھی تاکہ شام کے وقت دوبارہ مدرسہ تشریف لانے کی زحمت نہ رہے اور آپ کو مکمل راحت کا موقع حاصل رہے، امراض کے باوجود اسباق کی پابندی قابل رشک اور لائق تقلید تھی۔ ادھر چند ماہ پہلے آپ کی بیماری میں اچانک اضافہ ہوا علاج کے لیے دہلی ہسپتال داخل کرنا پڑا۔چند روز ہسپتال میں علاج کرانے کے بعد جب قدرے افاقہ ہوا تو گنگوہ واپس تشریف لے آئے؛ لیکن ضعف و نقاہت کی وجہ سے آپ مدرسہ تشریف لے جانے کے قابل نہ رہے مگر طلبہ دورۂ حدیث اور دوسرے طلبہ آپ کے دولت کدہ پر جاکر پڑھنے لگے اور آپ اس طرح اختتام سال تک صحیح بخار ی و صحیح مسلم اور دوسری کتابوں کا درس دیتے رہے اور تعلیمی سال مکمل ہوگیا۔ بالآخر وقت موعود آگیا اور ۱۶؍شعبان المعظم ۱۴۴۱ھ کا دن مکمل کرکے غروب کے بعد شب یکشنبہ مؤرخہ ۱۷؍شعبان المعظم ۱۴۴۱ھ مطابق۱۱؍اپریل ۲۰۲۰ء تقریباً سوا آٹھ بجے علوم نبوت کا یہ آفتاب عالم تاب اپنے اہل خانہ، متعلقین، اعزہ و اقرباء اور ہزارہا تلامذہ و مسترشدین کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا اور علوم شریعت کی ضیاء پاشی کرنے والا یکتائے روزگار عالم دین اپنے مالک حقیقی سے ملاقات کے لیے ہم سے رخصت ہوگیا۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔ ملک میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے آمد ورفت بالکل ناممکن اور دشوار تھی؛ اس لیے کسی کو اطلاع کرنا خلاف مصلحت سمجھا گیا پھر بھی آندھی کی طرح ملک و بیرون ملک آپ کی وفات حسرت آیات کی اندوہناک خبر تیزی کے ساتھ پھیل گئی۔ اگر عام حالات میں حضرت والا کا وصال ہوتا تو یقینا ہزارہا ہزار عوام وخواص کا جم غفیر نمازجنازہ میں شرکت اور آخری دیدار کی سعادت حاصل کرتا؛ لیکن ملک کے ناموافق حالات کی وجہ سے تجہیز و تکفین میں عجلت سے کام لیا گیا اور دفعہ ۱۴۴؍کی وجہ سے شہر کے لوگوں کی آمد ورفت کو بھی انتظامیہ نے روک دیا اور جلدی غسل دلاکر رات کے دو بجے گنگوہ کے مقامی و علاقائی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ نماز جنازہ مختصر اور محدود مجمع کے ساتھ مولانا مفتی خالد سیف اﷲ صاحب مدظلہ مہتمم جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ کی اقتداء میں ادا کی گئی۔ع
خدا رحمت کند این عاشقان پاک طینت را
آپ کے پسماندگاہ میں اہلیہ محترمہ کے علاوہ چار صاحب زادگان: مولانا مفتی کلیم احمد صاحب، قاری فہیم احمد صاحب، مولانا قسیم احمد صاحب، مولانا علیم احمد صاحب اور پوتے پوتیاں ہیں ۔ اول الذکر فرزند کرتپور کی جامع مسجد کے خطیب و امام اور مدرسہ ضیاء العلوم کرتپور میں استاذِ حدیث ہیں ، قاری فہیم احمد اور مولانا علیم احمد گنگوہ ہی ہیں قرآن کریم کی خدمت انجام دے رہے ہیں اور مولانا قسیم احمد شہر سہارنپور کی کسی مسجد میں امامت کا فریضہ انجام دیتے ہیں ۔ مذکورہ نرینہ اولاد کے علاوہ آپ کے پسماندگان میں ہزارہاہزار تلامذہ اور مسترشدین ہیں جو آپ کی جدائی کے غم کو عرصہ دراز تک یاد رکھیں گے۔ اﷲ تعالیٰ حضرت والا کی بال بال مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور تمام ہی پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ (آمین)
آسمان تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزئہ نورُستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
——————————————
دارالعلوم ، شمارہ : 2-3، جلد:104، جمادى الاول 1441ھ مطابق اپریل –مئی 2020ء
* * *