از:مولاناعبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

حیدرآباد

            بابری مسجد کی شہادت ،ہندوستان کی تاریخ کا نہایت الم ناک سانحہ تھا،جسے ملک کا کوئی مسلمان کبھی فراموش نہیں کرسکتا ؛مگرافسوس کہ طویل ترین عدالتی کارروائی اور مختلف مراحل کی گفت و شنید کے بعدبھی مضبوط دلائل وشواہد کے ہوتے ہوئے سپریم کورٹ کے آئینی بنچ کے ذریعہ جو فیصلہ سامنے آیا وہ خلاف توقع ہونے کے ساتھ ساتھ شہادت سے بڑا سانحہ اور ملک کی عدلیہ کے وقار پر سوالیہ نشان ثابت ہوا۔

            بہ حیثیت مسلمان مذکورہ بالا مسئلے سے ہماری دل چسپی دینی غیرت اور ایمانی حرارت کا واضح ثبوت ہے ؛لیکن اس فیصلے کے بعد ہماری ساری فکریں ،مجلس بازی اور زبانی جمع خرچ کے حوالے ہوجائے ،یہ کسی طور مناسب نہیں ۔ نیز اگر ہم اس حوالے سے مکمل طور پر مایوسی و قنوطی کا شکار ہوجائیں تو اس کا بھی صاف مطلب یہ ہے کہ دشمن اپنی سازش میں سونہیں ایک سو ایک فیصد کامیاب ہے ۔ حالات کے مد وجزر سے یقینا پریشانی ہوتی ہے ؛لیکن یہ اتار چڑھاؤ تاریخ کا اہم حصہ ہے اور حامیانِ حق کی سرخروئی و کامیابی کا تصور مسائل و مشکلات اور مصائب و آلام کے بغیر نہیں کیاجاسکتا؛ اس لیے حالات سے گھبرانے اور مایوس ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ؛بل کہ منظم حکمت عملی اختیار کرنے اور زمینی سطح پر محنت کرنے کی ضرورت ہے ۔ موقع کی مناسبت سے ضروری محسوس ہوا کہ تحفظ مساجد کے سلسلہ میں چند معروضات قارئین کی خدمت میں پیش کیے جائیں ؛تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ فقط مسجدبنادینایا تعمیر و تزئین میں حصہ لے لیناحصول مقصد کے لیے کافی نہیں ہے ؛بل کہ اسے آباد رکھنے کی کوشش کرنا بھی لازم و ضروری ہے ۔قرآن مجید میں حق تعالی شانہ فرماتے ہیں : اللہ کی مسجدیں وہی آباد کرتا ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور نماز قائم کی اور زکوٰۃ دی اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرا۔(التوبہ)یعنی مسجدیں آباد کرنا، ان کی تعمیر کرنا،ضروریات کا بندوبست کرنا،آباد کاری کی فکر کرنا، ان کی دیکھ بھال رکھنا، یہ سب ایمان کی علامتیں ہیں اور ایسے شخص کے لیے اللہ کی طرف سے ایمان کی گواہی ہے ۔

            ۱- اس وقت مسلمانوں کی دین بیزاری اور غفلت شعاری کا یہ عالم ہے کہ پروردگار عالم سے تعلق کو استوار رکھنے ، اس کی بارگاہ عالی میں جبین نیاز خم کرنے جیسی اہم ترین عبادت’’نماز‘‘ بھی کاروبار،تجارت اور مختلف دنیوی مشاغل کی نذر ہوگئی؛ حالانکہ قرآن و حدیث میں اس کی غیرمعمولی تاکید وارد ہوئی ہے ،سرکارِ دوعالم…نے تو جان بوجھ کر نماز کے ترک کو کفر کے مرادف قرار دیا ہے۔

            قوم مسلم کے لیے یہ بات کسی المیے سے کم نہیں کہ انہی کی کسل مندی و لاپرواہی کی وجہ سے آج محتاط اندازے کے مطابق ساٹھ تا ستر فیصد مساجد غیرآباد اور پندرہ تا بیس فیصد مساجد قفل بند ہیں ۔ بعض قریوں اور دیہاتوں کی حالت زار یہ ہے کہ ایک ہی شخص موذن ہے ، وہی امام ہے اور وہی مصلّی و مقتدی۔ آج کتنے ایسے مسلمان ہیں جوہفتہ میں ایک مرتبہ صرف جمعہ کی سعادت حاصل کرنے مسجدجاتے ہیں اور پورا ہفتہ مطمئن بیٹھے رہتے ہیں ۔ کتنے ایسے چہرے ہیں جو عیدوں اور جنازوں کے موقع پر نظر آتے ہیں اور پھر طویل مدت کے لیے غائب ہو جاتے ہیں ۔

            ایک طرف مساجد کی یہ قابل فکر صورت حال ہے اور دوسری طرف اہل خیر متمول حضرات کا یہ اصرار ہے کہ’’ہم صرف تعمیر مسجد کو کارِخیر سمجھتے ہیں ، ہمارے نزدیک سب سے بڑی نیکی مسجد بناناہے ، خواہ وہ کسی اور مسجد کے پہلو میں بنائی جائے یا دور کسی ویرانے میں ‘‘۔

            نوٹ:واقعی ضرورت کے پیش نظراُس جگہ مسجد بنانا کار ثواب ہے جہاں کوئی اور مسجد نہ ہو یا مسجد تو ہو؛مگر آبادی کے لحاظ سے ناکافی ہو۔اشکال صرف اس بات پر ہے کہ بلاتحقیق کہیں بھی مسجد بنادی جائے اور اس کی آباد کاری کا خاطر خواہ انتظام نہ کیاجائے ۔یقینا یہ چیزعنداللہ مواخذے سے خالی نہیں ۔

            موجودہ حالات میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ مستقل ایک تحریک بناکر ویران مساجد کی باز آبادکاری کا سلسلہ شروع کیا جائے ، مقامی مسلمانوں کو ترغیب و فہمائش کے ذریعہ اس جانب متوجہ کیا جائے ،بالخصوص شہر کے کناروں پر واقع غیر آباد مسجدوں کی خبر گیری کی جائے ، مقفل مسجدوں کی ضروری کارروائی کے بعد کشادگی عمل میں لائی جائے ۔ اس سلسلہ میں زعماء قوم اور مسلم لیڈران آگے آئیں اور شہرت و ناموری کے بجائے نجاتِ اخروی کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے اثر ورسوخ کا استعمال کریں ۔ ان شاء اللہ اس کے دور رس نتائج بر آمد ہوں گے اور دشمنان اسلام کو اپنی سازشوں اور ریشہ دوانیوں میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

            ۲- تحفظ مساجد کے سلسلہ میں ایک اہم کام تو یہ ہوا۔ دوسرا ضروری کام یہ ہے کہ وہ مسجدیں جو پنج وقتہ نمازوں کے لیے پہلے سے آباد ہیں انہیں دن بھر دینی وملی سرگرمیوں (مکتبِ اطفال وبالغان، حلقہ درس قرآن و حدیث،امداد بیوگان و یتامی وغیرہ)سے معمور رکھنے کی پوری کوشش کی جائے ؛اس لیے کہ مسجد مسلمانوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ اور مضبوط حصارہے ۔

            حدیث میں آتا ہے ، جب آندھی چلتی تو حضور اکرم …فوراً مسجد تشریف لے جاتے تھے اور جب تک آندھی بند نہ ہوتی مسجد سے باہر تشریف نہ لاتے ۔ مسجد میں آنے والے شخص سے اللہ تعالیٰ اسی طرح خوش ہوتے ہیں جیسے ایک گم شدہ شخص واپس اپنے گھر لوٹ آئے ۔ مسجد جانے والے اللہ کے ضمان و امان میں آ جاتے ہیں ۔نیز ارشاد نبوی…ہے : جو شخص مسجد کی طرف جائے گا اس کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ ہے اگر اسے موت آئے گی تو اللہ تعالیٰ جنت میں داخل کر دیں گے ورنہ وہ اجرو ثواب اور عبادت کے فوائد لے کر لوٹ آئے گا۔(ابو داؤد)ایک اور روایت میں ہے کہ جو لوگ کثرت سے مسجد میں جمع رہتے ہیں وہ مسجد کے کھونٹے ہیں ، فرشتے ان کے ہم نشین ہوتے ہیں اگر وہ بیمار ہوجائیں تو فرشتے ان کی عیادت کرتے ہیں اور اگر وہ کسی کام کو جائیں تو فرشتے ان کی اعانت کرتے ہیں ۔ (مستدرک حاکم)

            تعلیم و تربیت اور اصلاح معاشرہ میں مساجد کے روشن کردار کو اجاگر کرتے ہوئے مولانا نثار احمد حصیر القاسمی لکھتے ہیں : ’’پہلے باضابطہ مدارس نہیں تھے، یہی مسجدیں درس گاہوں کے طور پر بھی استعمال ہوتی تھیں اور اب بھی ہو رہی ہیں ۔ علماء مختلف مساجد کے اندر جگہ کا انتخاب کرتے اور حلقہ درس لگایا کرتے تھے ۔تاریخ شاہد ہے کہ ایک زمانہ میں بغداد، قاہرہ، قیروان، قرطبہ، دمشق ، موصل اور دوسرے اسلامی ملکوں کے مختلف شہروں کی مسجدیں تعلیم وتعلّم اور علم ومعرفت کے گہوارے بنتی گئیں ، جہاں 24 گھنٹے تعلیم وتعلّم اور بحث وتحقیق کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔پوری اسلامی تاریخ پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ علم ومعرفت اور تہذیب وثقافت کو پھیلانے اور عام کرنے میں مساجد ہی کا اہم کردار رہا ہے اور جب تک مساجد کو مرکزیت حاصل رہی اسلام کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا اور جب تک مسلمان مساجد سے جڑے رہے ان کا بول بالا اور دبدبہ رہا ہے ۔ مساجد جس طرح علم ومعرفت اور بحث وتحقیق کے مراکز رہے ہیں ، اسی طرح یہاں حلم وبردبار، نرمی ورواداری اور اُخوت وبھائی چارگی سکھائی جاتی اور شدت پسندی وسختی سے محفوظ رہنے کی تلقین کی جاتی ہے ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے مسجد نبوی ؐکے صحن کے ایک گوشہ میں پیشاب کر دیا، تو لو گ سختی کے ساتھ اسے روکنے کے لیے آگے بڑھے ؛مگر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اسے چھوڑ دو ،اس پیشاب پر ایک ڈول پانی بہا دو! تمہیں آسانی پیدا کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہے ، دشواری پیدا کرنے والا بنا کر نہیں ‘‘۔(بخاری)۔

            ۳- تیسرا کام یہ کہ مسجد کو مرکز عبادت بنانے کے ساتھ ساتھ مرکز دعوت بھی بنایاجائے یعنی غیرمسلم برادران وطن میں اسلام کے تئیں شعور اجاگر کیاجائے ،اسلام کا تعارفی لٹریچر ان کے حوالے کیاجائے،ان کے ذہن و دماغ میں اسلام کے حوالے سے جو کچھ شکوک و شبہات ہیں ان کا بہ طریق احسن ازالہ کیاجائے اور ان سب سے بڑھ کر اپنے اچھے اخلاق اور اعلی کردار کے ذریعہ انھیں اپنے سے قریب کرنے کی کوشش کی جائے؛تاکہ وہ سنجیدگی کے ساتھ اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کریں اور آزادی کے ساتھ راہ حق کا انتخاب کرسکیں ۔اس سلسلہ میں عہد نبوی کے صرف ایک واقعہ پر اکتفا کرتے ہوئے اپنی بات ختم کرنا چاہوں گاجودور حاضر میں نصیحت وموعظت کے لیے کافی اور وافی ہے۔سن 6 ہجری میں رسول اکرم … نے دعوت الی اللہ کا دائرہ وسیع کرنے کا عزم فرمایا تو عرب و عجم کے بادشاہوں کی طرف آٹھ خطوط لکھے اور انھیں حلقہ بگوش اسلام ہونے کی دعوت دی۔جن سربراہوں کو خطوط لکھے ان میں ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کا نام بھی آتا ہے ۔ بلاشبہ ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کا شمار زمانۂ جاہلیت کے بارعب سرداروں میں ہوتا ہے۔آپ قبیلہ بنو حنیفہ کے قابل رشک سربراہ اور یمامہ کے ہردل عزیز شخصیت تھے ۔

            زمانۂ جاہلیت میں جب ثمامہ رضی اللہ عنہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خط ملا تو اسے بڑی حقارت سے دیکھا، وہ اسلام دشمنی میں اس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ مسلمانوں کے قتل کے درپے رہتے تھے حتی کہ ایک بار خود آنحضور… کے قتل کا ارادہ بھی کرلیا تھا۔

            اسی زمانے میں آنحضور… نے نجد کے علاقہ میں ایک دستہ بھجوایا جس نے واپسی پر ثمامہ کو شک کی بنیاد پر قید کر لیا اور اپنے ہمراہ مدینہ لے آئے ۔ ثمامہ نے بھی راستہ میں اپنی حقیقت ظاہر ہونے نہیں دی۔ مدینہ پہنچ کر جب انھیں نبی اکرم… کے حضور پیش کیا گیا تو آنحضور… نے فوری پہچان لیا اور صحابہؓ کو بتایا کہ وہ کسے قید کرکے لائے ہیں ۔ پھر ثمامہ کے ساتھ نیک سلوک کرنے اور انھیں مسجد کے صحن میں ہی ایک ستون سے باندھنے کا حکم فرمایا۔کچھ دیر تک تو انھیں وحشت محسوس ہوئی؛ لیکن تھوڑی ہی دیر بعد ساری وحشت کافورہوگئی اور تجسس و مشاہدہ اور بغور مطالعہ کرنے کا جذبہ غالب آگیا،انھوں نے محسوس کیا کہ ایک بے بس قیدی کی حیثیت سے کسی نے ان کا مذاق اڑانے، لاچار سمجھ کر طعنے دینے اور فقرے چست کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، نہ انھیں حقارت آمیز نظروں سے دیکھا اور نہ اس کی عزتِ نفس مجروح کرنے کی کوشش کی ۔ اس کے برعکس ان کی شفقت بھری نظروں میں پیار کے ڈورے ہیں ، باتوں میں شیرینی اور مٹھاس ہے ، ہمدردی اور پیار کے امرت میں گندھی ہوئی باتیں روح کے لیے پیغام حیات ہیں جو کانوں میں رس گھولتی ہوئی دل میں اترتی چلی جا تی ہیں ۔ان لوگوں میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آتی جو کھردری اور دل کو چبھنے والی ہو، کوئی ایسی حرکت دکھائی نہیں دیتی جو قابل گرفت اور تہذیب و شائستگی سے گری ہوئی ہو، ہر فرد اعلیٰ اخلاق اور سچی تعلیمات کا عمدہ اور کامل نمونہ ہے جس کی حرکات و سکنات، رفتار و گفتار اور اعمال و اطوار سے انسانیت کا درس لیا جاسکتا ہے ، وہ یہ رنگ ڈھنگ دیکھ کر دنگ رہ گئے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس نو وارد قیدی کی طرف متوجہ ہوئے؛ تا کہ اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں آپ نے بڑے مشفقانہ انداز میں دریافت کیا:’’ثمامہ کیا رائے ہے ؟‘‘

            انہوں نے جواب دیا۔’’بہتر ہے اگر آپ مجھے قتل کر دیں تو یقینا ایک ایسے شخص کو قتل کر دیں گے جس نے آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کا خون بہایا۔اگر معاف فرمادیں توایک قدردان پر مہربانی ہوگی اور اگر مال چاہیے تو جس قدر فرمائیں مال آپ کی خدمت میں پیش کر دیا جائے گا۔‘‘

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے اور انھیں دو دن تک اسی حالت میں رہنے دیا؛لیکن کھانا،پانی اور دودھ باقاعدگی سے انھیں ملتا رہا۔پھر آپ نے دریافت فرمایا: ’’ثمامہ کیارائے ہے؟‘‘ انھوں نے کہا ’’بات وہی ہے جو میں پہلے عرض کر چکا ہوں ۔‘‘

            اگر آپ معاف فرما دیں تو ایک قدر دان پر مہربانی کریں گے ۔اگر آپ مجھے قتل کردیں توایک ایسے شخص کو قتل کریں گے جس نے آپ کے ساتھیوں کا خون بہایا ہے اور اگر مال چاہیے تو آپ کی منشا کے مطابق مال آپ کی خدمت میں پیش کر دیا جائے گا۔‘‘

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اب بھی اسے اسی حالت میں رہنے دیا اور تیسرے دن تشریف لائے اور دریافت فرمایا۔’’ثمامہ اب تمھاری کیا رائے ہے ؟‘‘

            انہوں نے کہا کہ میری تو اب بھی وہی رائے ہے ۔پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ’’اسے آزاد کر دو ۔‘‘

            حضرت ثمامہ آزاد ہونے کے بعد مسجد نبوی سے نکل کر ایک طرف چل دئے ،مدینہ منورہ کی ایک جانب بقیع کے نزدیک ایک نخلستان تھا۔وہاں ایک مقام پر پانی بھی جمع تھا۔اپنی اونٹنی وہاں بٹھا کر خوب اچھی طرح غسل کیا اور واپس مسجد نبوی میں آکرسب لوگوں کے سامنے بآواز بلند کہا: اشہد ان لا الہ الا اللّٰہ وان محمد رسول اللّٰہ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں ۔

            بعد ازاں محبت بھرے اندز میں یوں گویا ہوئے ’’میرے پیارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی قسم ! اسلام قبول کرنے سے پہلے روئے زمیں پر مجھے آپ کے چہرے سے زیادہ کوئی چہرہ برا نہ لگتا تھا؛لیکن آج میرے لیے کائنات میں تمام چہروں سے محبوب ترین چہرہ آپ ہی کا ہے ۔اللہ کی قسم! آج سے پہلے آپ کا یہ شہر دنیا کے تمام شہروں سے زیادہ برا معلوم ہوتا تھا اور آج یہ مجھے تمام شہروں سے زیادہ محبوب دکھائی دیتا ہے ۔‘‘ پھر اس کے بعد درد بھرے لہجے میں عرض کیا:’’یا رسول اللہ ! مجھے انتہائی افسوس ہے کہ میں نے آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کا بے دریغ خون بہایا ہے ،بھلا میرے اس جرم کا مداوا کیسے ہوگا۔؟‘‘

            یہ سن کر نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:’’ثمامہ آپ گھبرائیے نہیں ! اسلام پہلے کے سب گناہوں کو مٹادیتا ہے‘‘  اور آپ نے اس خیرو برکت کی بشارت دی جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اسلام قبول کرنے کی بدولت ان کے نصیب میں لکھ دی،یہ سن کر ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا۔

——————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ : 2-3،    جلد:104‏،  جمادى الاول  1441ھ مطابق اپریل –مئی  2020ء

*      *      *

Related Posts