از: ڈاکٹر کلیم احمد عاجزؔ مرحوم
چند دن سے تھے نہایت ہی پس و پیش میں ہم
چپ ہی رہ جائیں کہ اظہار خیالات کریں
پھر یہ سوچا کہ پس و پیش کا اب وقت نہیں
ہم نشیں آ! ذرا دل کھول کے کچھ بات کریں
==========
ہم نشیں ! یاد ہے تجھ کو کہ ترے یار تھے ہم؟
تیری ہی زلفوں میں صدیوں سے گرفتار تھے ہم
سایۂ گل تھے ترے چاہنے والوں کے لیے
تیرے دشمن کے لیے برہنہ تلوار تھے ہم
تو اگر شمع تھا ہم تیرے لیے تھے فانوس
تو مکیں تھا تو مکان کے درو دیوار تھے ہم
وید وقرآن کا ایک ساتھ نکالا تھا جلوس
تشقہ ما تھے پہ لگانے کو بھی تیار تھے ہم
جب نہ تھا کوئی ترے گھر کو بسانے والا
تیرے غم خوار، تیرے دوست ترے یار تھے ہم
تجھ کو سج دھج کے بڑھا دیتے تھے قیمت تیری
تیرے دستار تھے ہم طرئہ دستار تھے ہم
مجرمِ جرم وفا تم بھی تھے ہم بھی تھے مگر
وقت آیاتو سپرد رسن و دار تھے ہم
معرکہ جب بھی پڑا بڑھ کے علم ہم نے لیا
تم رہے قافلے میں قافلہ سالار تھے ہم
==========
حُسن تھا حسن پرستی کا یہ ماحول نہ تھا
ایسا ماحول تجھے پہلے پہل ہم نے دیا
ایک سے ایک چمن تھا چمن آرائی نہ تھی
تھا عمل پاس ترے حسنِ عمل ہم نے دیا
تجھ میں پیدا کیا ہم نے نیا احساس جمال
تیری زلفوں میں نئے طرز سے بل ہم نے دیا
ہم نے تعمیر کیا تیرے لیے لال قلعہ
تیرے ماتھے کے لیے تاج محل ہم نے دیا
بات کرنے کو دی اردوئے معلی ہم نے
گنگنانے کے لیے سازِ غزل ہم نے دیا
==========
زندگی گذری تجھے خونِ جگر دیتے ہوئے
اور تری زلفوں کو اشکوں کے گہر دیتے ہوئے
تیری محفل میں صراحی کے لیے خُم کے لیے
گردنیں دیتے ہوئے کاسۂ سر دیتے ہوئے
==========
آج جب صاحبِ جام و مئے سر جوش ہے تو
اتنا بدمست ہے؟ سرشار ہے؟ مدہوش ہے تو؟
اپنے محسن کا لہو کرلیا شامل اِس میں ؟
سچ تو یہہ ہے بڑا احسان فراموش ہے تو
==========
خوں سے جب تک نہ لبالب ترا چلو ہوگا
کیا تجھے لطف مئے وجام نہیں آئے گا؟
کیا ہمیں رہ گئے ہیں پیاس بجھانے کے لیے؟
کیا کوئی اور ترے کام نہیں آئے گا؟
پہلوئے دوست میں جب تک نہ چبھوئے خنجر
ہم نشیں ! کیا تجھے آرام نہیں آئے گا؟
==========
ہم بغل گیر تمہارے ہیں غنیمت سمجھو
ہم گر اٹھ جائیں گے پہلو سے تو پچھتائوگے
مِل کے رہنے کا سبق ہم نے دیا ہے تم کو
تم تو بکھرے ہوئے تھے اور بکھر جائوگے
==========
یہ نہیں ہے کہ بغاوت مجھے اکساتی نہیں
یا حمیّت رگِ غیرت مری پھڑکاتی نہیں
یا مجھے چھیننی شمشیرِ جفا آتی نہیں
بات یہ ہے کہ مری خوئے وفا جاتی نہیں
کب سے آئینہ دکھاتی ہے تجھے میری غزل
دیکھنا یہ ہے کہ کب تک تجھے شرم آتی نہیں !
==========
تم عمل پر نظرِ ثانی اگر کرلوگے
ہم بھی کوتاہیوں سے صرفِ نظر کرلیں گے
پیارے ہم دوست تمہارے ہیں نمک خوار نہیں
تم جو منھ پھیروگے رُخ ہم بھی ادھر کرلیں گے
==========
دردمندانِ محبت کا یہی گہنا ہے
ہم نے زخموں کو بھی زیور کی طرح پہنا ہے
رنج و غم تھوڑا بہت سب کو یہاں سہنا ہے
عمر بھر پھولوں کے بستر پہ کسے رہنا ہے؟
اپنے کرتوت کی گٹھری لیے اُٹھ جائیں گے
نہ ہمیں رہنا ہے پیارے نہ تمہیں رہنا ہے
نہ ہماری نہ تمہاری ۔ ہے خدا کی یہ زمیں
آج ہم تم ہیں کل اوروں کو یہاں رہنا ہے
نقش ہے ہر درو دیوار پہ انجامِ غرور
تم بھی مغرور نہ ہو، ہم کو یہی کہنا ہے
==========
ہم نے اِک عمر گذاری کہ بقولِ غالبؔ
’’آہ کو چاہیے اِک عمر اثر ہونے تک‘‘
اور جیتے ہیں تری زلف کے سر ہونے تک
اور سر تک ہی نہیں تا بہ کمر ہونے تک
اوراِس قطرئہ ناچیز پہ سب کچھ گذرا
جو بھی کچھ گذرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
ہم بھی اب جبر پہ آمادہ نہ ہوجائیں کہیں
صبر ہوتا ہے تو ہے اے دوست مگر ہونے تک
==========
دوست بن! دوست نہ بننے میں بہت گھاٹا ہے
آ! کہ پھر دوستی کی آب و ہوا تازہ کریں
آ! کہ پھر پھیل چلے رنگِ چمن بوئے چمن
آ! کہ پھر رسمِ گل وبادِ صبا تازہ کریں
آ! کہ پھر درد کا ٹوٹا ہوا رشتہ جوڑیں
آ! کہ پھر وعدہ و پیمانِ وفا تازہ کریں
دردمندی سے بڑھائے ہوئے پھر ہاتھ ہیں ہم
تو بھی گر ہاتھ بڑھادے تو ترے ساتھ ہیں ہم
==========
—————————————–
دارالعلوم ، شمارہ : 2-3، جلد:104، جمادى الاول 1441ھ مطابق اپریل –مئی 2020ء
* * *