از: مفتی محمدمصعب قاسمی

 دارالافتائ، دارالعلوم دیوبند

            اکابر دیوبند میں فقیہ النفس، ابوحنیفہ عصر حضرت اقدس مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت فقہی تصلب ، قوتِ استنباط ، معانی حدیث پر گہری نظر اور تعبیر کی پختگی میں نمایاں ہے ، مضمون ذیل؛ سبیل الرشاد(مولفہ: حضرت گنگوہیؒ) سے ماخوذ ہے، جس میں قیاس کی حقیقت، اس کاصحیح محل اور متعارض ومحتمل نصوص کے تعلق سے صحابۂ کرامؓ اور فقہاء کے محتاط اور قابل اتباع منہج پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے، بالخصوص عللِ نصوص کے ادراک میں فقہائے محدثین کی فہم و بصیرت، طرقِ استدلال اورفقہی جزئیات میں اختلافات کے بنیادی اسباب پر بصیرت افروز کلام کیا گیا ہے،یہ مضمون دین کی تعبیر و تشریح میں ما أنا علیہ وأصحابہ کی اتباع و پیروی پر ایک راہ نما کی حیثیت رکھتا ہے۔ (مصعب)

            قرآن و حدیث کی صریح نص کے مقابلے قیاس کرنا اور اپنی رائے کو ترجیح دینا ناجائز ہے، یہ اہل علم کا متفقہ مسلمہ ہے؛ بلکہ کوئی ادنیٰ مومن بھی اس کو جائز نہیں کہہ سکتا چہ جائے کہ کوئی عالم، فقیہ یا مجتہد ایسا کہے یا کرے (معاذ اللہ)لیکن اس کی حقیقت اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے اور اس کا صحیح مصداق بھی واضح رہنا چاہیے؛ اس لیے کہ ایک طبقہ اپنی ناسمجھی کی وجہ سے اس مسئلے کو بنیاد بناکر فقہائے احناف پر اعتراض کرتا ہے اور امت کے مقبول  بندوں پر طعن و تشنیع کرکے خود گمراہی میں مبتلا ہوجاتا ہے  ۔

نص کے مقابلے قیاس کرنے کی حقیقت

            نص کے مقابلے قیاس کرنے کی حقیقت یہ ہے کہ جو حکم کسی نص(قرآن و حدیث) سے ثابت ہے، اس کے مقابلے اور مخالفت میں اپنی رائے و اجتہاد سے ایسا حکم ثابت کیا جائے جو منصوص حکم کے بالکل خلاف ہو، کوئی نص صریح یا خفی اس کے موافق نہ ہو؛ بلکہ وہ حکم ساری نصوص شرعیہ کے مخالف ہو، یعنی: محض قیاس کے ذریعے امر منصوص کو رد کردیا جائے اور قیاس فاسد سے کوئی امر نکال کر حکم شریعت کا مقابل و معارض بنادیا جائے ، تو ایسا قیاس فاسد اور باطل ہے، جس کا ارتکاب قطعاً حرام ہے۔

قیاس فاسد کی مثال

            قیاس فاسد کی مثال یہ ہے کہ حق تعالی شانہ نے شیطان کو حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کا حکم فرمایا تھا  اور یہ حکم بالکل واضح اور صاف تھا اوراللہ تعالی کے علم میں تھا کہ جن؛ آگ سے بنی ہوئی مخلوق ہے اور ملائکہ؛ نوری ہیں اور آدم؛ مٹی سے بنے ہوئے ہیں ، اس علم کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو سجدہ کا حکم فرمایا؛ مگر اس شیطان پلید نے قیاس  فاسد سے کام لیا اور باطل اجتہاد کرکے کہا کہ آگ اعلیٰ اور افضل ہے، آگ سے بنی ہوئی مخلوق مٹی کے سامنے کیسے سجدہ کرسکتی ہے ؟  اس نے اللہ تعالیٰ کے صریح اور واضح حکم کے مقابلے  قیاس کیا ، اسی طرح کا قیاس؛ فاسد ہے اور ایسا قیاس کرنے والا شیطان کا اتباع کرنے والا ہے، مشہور مقولہ ہے : أول من قاس ابلیس صریح نص کے خلاف قیاس فاسد سب سے پہلے ابلیس نے کیا تھا۔

            اس سے معلوم ہو اکہ مطلق قیاس کو فاسد کہنا صحیح نہیں ہے؛ بلکہ جو قیاس صریح نص کے خلاف ہو،  اس کو فاسد کہا جائے گا؛ مگر ایک طبقہ بزعم خود مطلق قیاس کو اگرچہ وہ صحیح ہو، ابلیس کا فعل قرار دیتا ہے اور حضراتِ صحابۂ کرامؓ سے لے کر آج تک جن مجتہدین امت نے صحیح قیاس کیا، سب کو گمراہ گردانتا ہے اور شیطان کا متبع مانتا ہے۔ (معاذ اللہ )

            اس کی مزید تفصیل یہ ہے کہ اہل علم واقف ہیں کہ مقابل؛ ضد شیء کو کہتے ہیں ، پس نص کا مقابل وہی قیاس کہلائے گا جو کسی نص کے موافق نہ ہو ، چنانچہ اگر کوئی قیاس ایک نص کے مقابل ہو اور دوسرے نص کے موافق ہو، تو اس کو نص کا مقابل قطعا نہیں کہا جاسکتا، بعض نصوص اور احادیث میں تعارض کی وجہ سے ایسا قیاس اور اجتہاد صحابۂ کرامؓ کے دور سے آج تک مجتہدین سے بکثرت ثابت ہے، پس اگر ایک طبقہ مطلق قیاس کو گمراہی قرار دے گا، تو گویا اس کے نزدیک تمام امت گمراہ ہوئی ، حالانکہ فرمان نبوی ہے: لا تجتمع امتی علی الضلالۃ، میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوگی ۔

محل نص میں قیاس درست نہ ہونے کا مطلب

            اگر کسی واقعہ میں شرعی حکم کی ضرورت ہوتی ہے، تو اگر کوئی صریح آیت یا حدیث موجود ہوتی ہے، جس میں دوسرے معنی کا احتمال نہیں ہوتا اور وہ کسی دوسری حدیث کے معارض بھی نہیں ہوتی اور نہ منسوخ ہوتی، توایسے موقع پر کوئی قیاس کا قائل نہیں ہے؛ اس لیے کہ یہاں قیاس کی ضرورت ہی نہیں ہے ، محل نص میں قیاس درست نہ ہونے کا یہی مطلب ہے ،اس لیے کہ جب خود شارع کا حکم موجود ہے، تو اب کسی کے قیاس کی کیا ضرورت ؟ کیونکہ اگر صریح نص کے ہوتے ہوئے قیاس کرکے نص کے مقابل دوسرا حکم ثابت کیا جائے گا، تو یہ حرام مانا جائے گا اور اگر قیاس سے وہی حکم ثابت ہو جو نص سے ثابت ہے، تو یہ لاحاصل ہوگا۔

 علت نص کا ادراک اور قیاس میں فرق

            ہاں اگر کوئی غور و فکر سے یہ ثابت کرے کہ نص کا حکم عقل سلیم کے عین مطابق ہے، تو اس سے شرعی حکم کے تئیں یقین کو تقویت ملے گی اور حکم کو تسلیم کرنے میں خوب معاونت حاصل ہوگی ؛ اس لیے کہ نص کا حکم مشاہدہ کے مانند بالکل بدیہی بن جاتا ہے؛ لیکن اس کو قیاس نہیں کہا جاتا، اس کو علت حکم کے ادراک سے تعبیر کیا جاتا ہے ، جو بالاتفاق درست ہے اور علم کا اعلی درجہ ہے۔

مثال

            بول اور مذی کا نکلنا ناقض وضوء ہے اور منی کا خروج موجب غسل ہے، اب اگر کوئی یہاں اپنے قیاس فاسد سے خروج منی کو موجب غسل نہ کہے؛ بلکہ جو حکم بول اور مذی کا ہے، وہی حکم خروج کا ثابت کرے، تو نص کے خلاف قیاس کرنے کی بناء پر گمراہ ہوگا اور اگر کوئی اپنی قوت ذہنی اور تدبر سے بول اور منی میں فرق کی وجہ دریافت کرے، چاہے عقل سے یا دوسری نص سے، تو یہ گہرے علم کا نتیجہ سمجھا جائے گا، ایسے اجتہاد میں کوئی عیب کی بات نہیں ہے؛ بلکہ باعث مدح ہے؛ مگر خروج منی کی وجہ سے غسل کے حکم کو ثابت کرنے میں کوشش کرنا فضول ہے، یہ حکم تو نص سے بالکل ظاہر اور واضح ہے، اس کو ثابت کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ یہ ایک لاحاصل کام سمجھا جائے گا۔

تنبیہ

            مذکورہ مثال سے محل نص میں قیاس کرنے کا مطلب بخوبی واضح ہوگیا؛ لیکن ادراک علت کا علم ہر کس  و ناکس کو حاصل نہیں ہوتا؛ بلکہ یہ علم علمائے مجتہدین اور اولیاء کاملین کو حاصل ہوتا ہے اور اس کو نص کے مقابلے قیاس کرنے سے تعبیر نہیں کیا جاتا،خوب سمجھ لینا چاہیے کہ دو چیزیں الگ الگ ہیں : ایک ہے حکم کی دلیل عقلی بیان کرنا اور دوسری چیز ہے نص کے مقابلے قیاس کرنا اور محل نص میں قیاس کرنا، اگر تدبر و تامل کو صحیح استعمال کیا جائے، تو دونوں میں بڑا فرق نظر آئے گا۔  

اجتہاد کے مواقع

اگر کسی نص میں دو معنی کا احتمال ہو

            اگر کسی نص میں دو معنی کا احتمال ہو، ایک معنی حقیقی ہوں اور دوسرے مجازی یا ایک لفظ دو معنوں میں مشترک ہو ، یا ظاہر الفاظ کے اعتبار سے ایک معنی کا احتمال ہو اور علت کے اعتبار سے نص دوسرے معنی کی محتمل ہو، الحاصل: اگر نص میں دو معنوں کا احتمال ہو، خواہ اس کا سبب اور بنیاد جو بھی ہو، ایسے مواقع پر مجتہد ایک معنی کو ترجیح دیتا ہے اور دوسری جہت کو متروک العمل قرار دیتا ہے، اس کو نص کے ایک معنی کو ترجیح دینا کہا جائے گا اور نص پر عمل کرنے ہی سے تعبیر کیا جائے گا، جو عین سنت ہے اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور آپ ﷺکی تقریر سے ثابت ہے ، ایک طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ نص کے مقابلے قیاس کرنا ہے؛ حالانکہ یہ نص کے مقابل قیاس نہیں ہے؛ بلکہ عین نص پر عمل کرنا ہے جو سنت اور صحابۂ کرامؓ کے آثار سے ثابت ہے ۔

نص کے ایک معنی کو اجتہاد سے ترجیح دینے کی دلیل

            بخاری و مسلم میں حدیث ہے کہ جب آپ ﷺ بنوقریظہ پر تشریف لے گئے تویہ فرمایا :  لایصلین أحد العصر إلا فی بنی قریظۃ (ترجمہ) ’’کوئی عصر کی نماز ہر گزنہ پڑھے؛ مگر بنی قریظہ میں ‘‘ ، چنانچہ لشکر بنی قریظہ کی طرف روانہ ہوا، جب غروبِ شمس کا وقت قریب آیا تو بعض صحابہ نے کہا کہ ہم کو بنوقریظہ سے پہلے نماز کا حکم نہیں ہوا؛ بلکہ آپ نے منع فرمایا ہے ،لہٰذااگرچہ نماز قضا ہوجائے؛ مگر ہم راستے میں نماز نہیں پڑھیں گے، چنانچہ وہ راستے میں نہ ٹھہرے اور بنوقریضہ پہنچ کر نماز پڑھی اور بعض صحابہؓ نے کہا کہ آپ ﷺکے حکم کی غرض جلدی چلنے اور جلدی پہنچنے کی تھی، اس لیے ہمیں نماز  قضا نہیں کرنی چاہیے، انھوں نے راستے ہی میں نمازادا کی، جب آپ ﷺکو پورے واقعے کی خبر ملی تو دونوں جماعت کو کچھ نہیں فرمایا؛ بلکہ سکوت اختیار فرماکر دونوں کی تقریر فرمائی۔

            اس حدیث میں غور کیا جائے ! ایک نص ہے، جس کے ظاہری اور حقیقی معنی یہ تھے کہ بنو قریظہ پہنچنے سے پہلے نماز نہ پڑھی جائے، صحابۂ کرامؓ کی ایک جماعت نے اسی پر عمل کیا، اس لیے کہ لفظ کے حقیقی اور ظاہری معنی ہی اصل ہوتے ہیں ؛ حالانکہ اس سے پہلے آپ ﷺ جان بوجھ کر نماز میں تاخیر کرنے اور قضاء کرنے سے منع فرما چکے تھے؛ مگر صحابۂ کرامؓ کی ایک جماعت نے اس دن شارع کے خاص حکم پر عمل کیا  اور نماز کو موخر کردیا اور مصیب قرار پائے، انھوں نے یہ سمجھا کہ نماز قضاء کرنے کی ممانعت کے سلسلے میں جو صریح نصوص ہیں ، آج کی عصر اس سے مستثنیٰ ہے۔

            مذکورہ نص کے دوسرے معنی مجازی ہیں ، یعنی راستے میں نماز پڑھنے کی ممانعت سے مقصد بنوقریظہ تک پہنچنے میں جلدی کرنا تھا، نماز کا فوت کرنا مقصد نہیں تھاجو نص کے حقیقی معنی تھے ، صحابۂ کرامؓ کی دوسری جماعت نے ایک دینی ضابطے کی بناء پر اسی مجازی معنی کو ترجیح دی اور وہ ضابطہ یہ ہے کہ قرآن میں نماز کو ’’کتاباً موقوتاً‘‘ کہا گیا ہے اور نماز چھوڑنے کو حرام فرمایا گیا ہے ،یعنی: نماز کو وقت پر ادا کرنے کا حکم ہے، صحابہ کی دوسری جماعت نے اس کلیہ دین کو اصل قرار دے کر مذکورہ نص کو اس کے تابع کیا اور معنی مجازی کو ترجیح دے کر راستے میں نماز ادا فرمائی اور نص کی علت پر عمل کیا کہ آپ ﷺ کے ارشاد عالی کا مقصد جلد پہنچنے کی ترغیب دینا تھا نہ کہ راستے میں نماز پڑھنے سے روکنا ، یہ جماعت بھی مصیب ہوئی۔

اجتہاد فی مراد النص اور قیاس میں فرق

            اس واقعے سے معلوم ہوا کہ فقہائے کرام نے نصوص پر عمل کرنے کے تعلق سے جو طریقہ  اور منہج اختیار فرمایا ہے، یعنی  ظاہر نص پر عمل کرنا اور نص کی علت پر عمل کرنا اور ظاہر کو چھوڑنا؛یہ سنت سے اور صحابۂ کرامؓ کے عمل سے ثابت اور مشروع ہے ، آپ ﷺ اس طرز عمل کی تقریر فرما چکے ہیں ، جو قیامت تک معمول بہ رہے گی اور مجتہدین کے یہاں دونوں طرح کا عمل موجود ہے، فروع اور جزئیات میں اختلاف کی بنیاد بھی یہی ہے ، اس کو قیاس بمقابلہ نص نہیں کہا جائے گا؛ بلکہ ’’اجتہاد فی مراد النص‘‘ سے تعبیر کیا جائے گا، جس کے جواز میں کوئی شبہ نہیں ؛ بلکہ یہ سنت سے ثابت ہے ، اگر کوئی شخص اس پر طعن کرے، تو یہ حضورﷺکی تقریر پر طعن کے مترادف ہوگا۔

نص کے ایک معنی کو اجتہاد سے ترجیح دینے کی دوسری دلیل

            حضورﷺنے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ فلاں کو قتل کردو کہ اس پر زنا کی تہمت تھی، حضرت علیؓ اس کی تلاش میں نکلے ، تو دیکھا کہ وہ کوئیں میں نہا رہا ہے، آپ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر نکالا، تو معلوم ہوا کہ وہ مقطوع الذکر تھا ، لہٰذا آپ نے قتل نہیں کیا اور حضورﷺکی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا ، آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تصویب فرمائی ۔(اس واقعے کی تفصیل کے لیے دیکھیے: صحیح مسلم، رقم:، باب براء ۃ حرم النبی ﷺمن الریبۃ مع تکملۃ فتح الملہم: ۶؍۷۲، ط: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان)

            اِس واقعے میں غور کیا جائے ! حضورﷺنے قتل کا حکم دیا تھا اور نص بھی بالکل صریح اور ظاہر تھی؛  اس کے باوجود جب حضرت علیؓ نے اس شخص میں قتل کی وجہ نہیں پائی جس کے بارے میں قتل کا حکم ملا تھا(کہ جو مقطوع الذکر ہو وہ زنا کیسے کرسکتا ہے؟) تو اس صریح نص پر عمل نہیں کیا اور حکم کی علت نہ پائے جانے کی وجہ سے توقف اختیار کیا اور مصیب ہوئے، یہیں سے شریعت کا یہ ضابطہ طے ہوگیا کہ اگر نص کی علت مرتفع ہوجائے تو اس پر عمل نہیں کرنا چاہیے، مجتہدین نے اس واقعے سے یہی قاعدہ اخذ کرکے اس پر عمل کیا ہے ، تو یہ نص کے مقابلے میں قیاس نہیں تھا؛ بلکہ نص ہی کے حکم پر عمل کرنا تھا کہ نص پر عمل اسی وقت واجب ہوتا ہے جب تک علت موجود ہو، اگر علت رفع ہوجائے، تو پھر نص کے ظاہری الفاظ پر عمل نہیں ہوگا، یہ خود مقتضی نص ہے، کوئی معمولی سمجھ رکھنے والا  اس کو ترک نص اور قیاس بمقابلہ نص نہیں کہہ سکتا۔

            مذکورہ تحقیق میں اگر گہرائی سے غور و فکر کیا جائے تو بہت سے اشکالات حل ہوجائیں گے اور خصوصاً احناف پر مخالفت نصوص کا الزام ہوا ہوجائے گا۔

            خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح حضرت علیؓ نے واجب العمل صریح نص کو اس بناء پر ترک کردیا کہ آپ کو حضورﷺکی زبانی قتل کی علت کا علم تھا  اور پھراس علت کے مرتفع ہونے کا خود مشاہدہ کیا تھا اور ترک نص کی تصویب حضورﷺسے ثابت ہوئی، اسی طرح ایک مجتہد نص کی علت کو دریافت کرتا ہے، کبھی اشارۃ النص سے، کبھی عبارۃ النص سے ، کبھی دلالۃ النص سے اور کبھی شریعت کے کسی ضابطے اور کلیہ سے (جس کی تفصیلات اصول فقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں ) بہرحال علت کی بنیاد جو بھی ہو، جب مجتہدکے سامنے علت کا مرتفع ہونا واضح ہوجاتا ہے، تو وہ  ظاہر نص پر عمل نہیں کرتا ہے، ایسے موقع پربعض ظاہر بیں قسم کے افراد سمجھتے ہیں کہ مجتہد نے اپنی رائے پر عمل کیا اور نص کو چھوڑدیا ، یعنی نص کے مقابلے قیاس کیا ؛ یہ بڑی غلط فہمی ہے، مجتہد نے ایک نص کا ترک دوسری نصوص کلیہ کے حکم سے کیا ہے، اپنے قیاس فاسد سے نہیں ، یہ عین نص پر عمل کرنا ہے، اس کو نص کا ترک کہنا صحیح نہیں ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مذکورہ عمل اور آپﷺکی تصویب حجۃ شرعیہ ہے، اگر کوئی شخص اس پر طعن کرتا ہے ، تو وہ براہ راست شارع علیہ السلام پر طعن کرتا ہے ، مجتہد اور مقلد دونوں عین حکم شرعی پر عمل کرنے والے ہیں ،  اس طرح کے عمل کو نص کا مقابل نہیں سمجھنا چاہیے اور نہ ہی عمل بالرائے سمجھنا چاہیے ؛ بلکہ یہ نص ہی پر عمل کرناہے ۔

اگر دو نص متعارض ہوں

            کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دو نص متعارض ہوجاتی ہیں ، تو ایسے موقع پر پانچ صورتیں سامنے آتی ہیں :

            (۱) مجتہد دونوں نص کو جمع کرتا ہے اور وجوہ جمع کے مقررہ قواعد و اصول اور تفصیلات کتابوں میں مذکور ہیں ۔

            (۲) اگردونوں نصوص میں سے کسی نص کے بارے میں یقینی طور پر یا قرائن کے ذریعے ظن غالب کے درجے میں منسوخ ہونا معلوم ہوتا ہے ، تو مجتہد ناسخ پر عمل کرتا ہے۔

            (۳) اگر ثبوت کے اعتبار سے ایک نص قوی اور دوسری ضعیف ہوتی ہے، تو مجتہد قوی نص پر عمل کرتا ہے ۔

            (۴) اگر ایک نص کا راوی فقیہ ہوتا ہے اور دوسری نص کا غیر فقیہ ، تو مجتہد فقیہ کی روایت کو ترجیح دیتا ہے۔

            (۵) اگر ایک نص قواعد کلیہ شرعیہ کے موافق ہوتی ہے ،تو مجتہد اس کو ترجیح دیتاہے۔

            ان تمام صورتوں میں نص کے مقابل قیاس پر عمل نہیں کیا جاتا ؛ بلکہ دونوں نص پر یا ایک نص پر عمل ہوتا ہے، لہٰذا اس کو بھی عمل بالرائے نہیں کہا جا سکتا  اورنہ نص کے مقابلے قیاس سے تعبیر کیا جاسکتا ، یہ نص ہی پر عمل کرنا ہے ،یہ سب صحابۂ کرامؓ سے ثابت ہے اور مجتہدین فقہاء نے صحابہ ہی سے یہ اصول اخذ فرمائے ہیں ۔

دو متعارض نص کے جمع کرنے کی دلیل

            کسی نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ قرآن میں دو آیت متعارض ہیں : ایک موقع پر ارشاد باری تعالی ہے: أقبل بعضہم علی بعض یتسآء لون اور دوسری جگہ ہے:  فلا أنساب بینہم یومئذ ولایتسآء لون، پہلی آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک دوسرے سے سوال کریں گے اور دوسری آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر گز سوال نہیں ہوگا ، حضرت ابن عباس ؓ نے جواب دیا سوال نہ ہونے کا تعلق نفخۂ اولیٰ سے ہے اور باہم سوال نفخہ ثانیہ کے بعد ہوگا ، اس طرح دونوں آیتوں کو جمع کردیا اور دونوں نص معمول بہ باقی رہیں ، یہ بھی جمع کرنے کے من جملہ طریقوں میں ایک طریقہ ہے ۔

            حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا کہ الوضوء مما مست النار،  یعنی جو کھانا آگ سے پکا ہو، اس کے کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ، نیا وضو کرنا چاہیے ،اس پر حضرت ابن عباس ؓ نے جواب دیا کہ گرم پانی سے وضو نہیں کرنا چاہیے، یعنی: اگر مس نار نقض وضو کا سبب ہے، تو گرم پانی سے وضو درست نہیں ہوگا ، اس لیے کہ وہ بھی آگ سے گرم کیا ہوا پانی ہے ، اگر باوضو شخص گرم پانی کا استعمال کرے گا، تو وضو ٹوٹ جائے گا ، دیکھیے! حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت کو حضرت ابن عباس ؓ نے رد کردیا،  اس وجہ سے نہیں کہ وہ غلط روایت بیان فرمارہے تھے، ورنہ وہ جھوٹی روایت بیان کرنے کی وعید سے ڈراتے؛ بلکہ اس وجہ سے رد کیا کہ حضرت ابوہریرہ ؓ نے روایت کے ظاہری الفاظ سے جو مطلب سمجھا ہے ، وہ رسول اللہ ﷺکی مراد نہیں ہے ، یہاں وضو سے نظافت کے لغوی معنی مراد ہیں نہ کہ اصطلاحی وضو، پس فقہاء صحابہ کی روایت جس سے ترک وضو ثابت ہوتا ہے، معمول ہوئی، اس کے بہت سے نظائر مل سکتے ہیں ۔

            حضرت عمر ؓ نے حضرت فاطمہ بنت قیسؓ کی روایت کو رد کردیا تھا، آپ فرماتی تھیں کہ مطلقہ ثلاثہ کو نفقہ اور سکنی نہیں ملتا ، حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ ہم کتاب و سنت کو ایک عورت کے قول و روایت سے رد نہیں کر سکتے، اس کا کیا اطمینا ن کہ ان کو یاد رہا یا بھول گئیں اور حضرت عائشہؓ نے سکنی نہ دینے کی خاص وجہ بھی بیان فرمادی تھی جس کو حضرت فاطمہ بنت قیسؓ سمجھ نہ سکی تھیں ۔

            اسی طرح حضرت عائشہؓ کو جب خبر ملی کہ حضرت عمر اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما اہل میت کے رونے سے میت کو عذاب ملنا روایت کرتے ہیں ، توحضرت عائشہ نے قرآن پاک کی آیت ولا تزر وازرۃ وزر أخری تلاوت فرمائی اور دونوں کی بات کو رد فرمادیا، یہ آیت قاعدہ کلیہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔

            غور کرنا چاہیے! حضرت عائشہ ؓ نے ایسے بڑے صحابہ کے اقوال کو قاعدہ شرعیہ کی بنیاد پر معتبر نہ رکھا ؛ بلکہ اپنے تفقہ کا استعمال کرکے دونوں کو جمع فرمادیا ، اس طرح کہ سماع کی روایت میں تاویل فرمائی اور معذب ہونے کو دوسری طرح بیان فرمایا، جس کی تفصیل کتابوں میں موجود ہے ۔

            یہ سب صحابۂ کرامؓ کے معمولات ہیں ، جن کو مجتہدین  دین میں جاری کر گئے ہیں اور اسی کا نام تفقہ فی الدین ہے ، حضورﷺکا ارشاد عالی ہے : من یرد اللّٰہ بہ خیرا یفقہ فی الدین، اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مجتہدین فقہاء کی فضیلت کا سبب اُن کا غور و فکر ہے۔

خلاصہ

            فقہائے کرام کے اجتہادات قرآن و سنت سے ماخوذ اور شریعت اسلام کا حصہ ہیں ، محتمل یا متعارض نصوص میں غور و تدبر کے بعد دونوں کو جمع کرنے یا ایک جہت کو راجح قرار دینے کو قیاس بمقابلہ نص سے تعبیر کرنااور فقہائے محدثین کے ایسے اجتہادات کو نصوص کا مقابل بناکر پیش کرنا اورمجتہدین امت کو تارک نص قرار دینا ضلالت اور گمراہی ہے، یہ اجتہادات  فقہائے کرام کے تفقہ فی النصوص اور کمال علم کی دلیل ہیں ۔

—————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 2-3،    جلد:104‏،  جمادى الاول  1441ھ مطابق فروری-مارچ 2020ء

٭           ٭           ٭

Related Posts