از: مفتی توقیر عالم قاسمی

استاذ حدیث مدرسہ اشرف العلوم بردوان، مغربی بنگال

            جتنے انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام اس دنیا میں تشریف لائے سب نے کسبِ حلال کیا، کسی نے مزدوری کی، کسی نے بڑھئی کا کام کیا، کسی نے بکریاں چرائیں ، خود خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اجیاد کے پہاڑوں پر لوگوں کی بکریاں اجرت پر چرائیں ، آپ نے تجارت بھی کی، حضرت خدیجہؓ کا سامان تجارت لے کر دو مرتبہ ملک شام کا سفر کیا، آپ نے زراعت کا کام بھی کیا، اطرافِ مدینہ میں مقام جُرُف تھا، وہاں آپ نے کھیتی کا کام کیا،لہٰذا کسبِ حلال کے مختلف طریقوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ موجود ہے۔

            حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: طَلَبُ کسبِ الحلالِ فریضۃٌ بعدَ الفریضۃِ۔  (السنن الکبری للبیہقی حدیث نمبر: ۱۶۶۹۵)

            ترجمہ:  رزق حلال کو طلب کرنا فرض ہے، فرض کے بعد۔

            یعنی رزق حلال کو طلب کرنا‘ دین کے اولین فرائض کے بعد دوسرے درجے کا فرض ہے ۔ دین کے اولین فرائض تو وہی ہیں جو ارکانِ اسلام کہلاتے ہیں اور جن کے بارے میں ہر مسلمان جانتا ہے کہ یہ چیزیں دین میں فرض ہیں ۔ مثلا نماز پڑھنا، زکاۃ دینا، روزہ رکھنا، حج کرنا وغیرہ، یہ سب دین کے اولین فرائض ہیں ، مذکورہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ ان دینی فرائض کے بعد دوسرے درجے کا فریضہ رزقِ حلا ل کو طلب کرنا اور رزق حلال کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔

             حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  طَلَبُ الحلالِ وَاجِبٌ علی کلِّ مسلمٍ۔  (المعجم الأوسط للطبرانی، حدیث نمبر: ۸۶۱۰)

            ترجمہ: حلال روزی طلب کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔

            اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:  ,,فَإِذَا قُضِیَتِ الصَّلاَۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الأَرْضِ ، وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللَّہِ،،۔ (سورۂ جمعہ: ۱۰)

            ترجمہ: جب نماز تمام ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور روزی تلاش کرو۔

            تفسیر بغوی میں ہے: فَانْتَشِرُوْا فِی  الْأَرْضِ ,,للتجارۃِ والتصرفِ فی حَوائجِکُم،، وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللَّہِ ’’یعنی الرزقَ‘‘، ھذا أمر إباحۃ۔ (۵/۹۳)  یعنی تجارت کے لیے اور اپنی ضروریات میں لگنے کے لیے زمین پر پھیل جاؤ اور رزق تلاش کرو۔

            اور تفسیر ابن کثیر میں ہے:  عراک بن مالکؓ جب جمعہ کی نماز سے فارغ ہوجاتے تو مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوکر فرماتے : ,,اللہمَّ إنِّی أَجَبْتُ دعوتَک، وصَلَّیتُ فریضتَکَ، وَانتشرتُ کما أَمَرْتَنِی، فَارْزُقْنِی ، وَأَنْتَ خیرُ الرّازقینَ،،۔ رواہ ابن حاکم۔ (۸/۱۲۲)

            ترجمہ: اے اللہ! میں نے آپ کی دعوت ,,حَیَّ عَلَی الصَّلاۃِ،، کو قبول کیا، نماز پڑھی،اور زمین پر پھیل گیا جیسا کہ تونے حکم دیا؛ لہٰذا آپ ہمیں رزق عطا فرما اور تو بہترین رزق عطا کرنے والا ہے۔

کسبِ حلال کی فضیلت

             حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ طَلَبَ الدنیا حَلالاً وَاستعفافاً عنِ المسئلۃِ، وَسعیاً علی عیالِہ، وتعطّفاً علی جارِہ لَقِیَ اللَّہَ، وَوَجْہُہ کالقمرِ لیلۃَ البدرِ۔  (شعب الایمان للبیہقی حدیث نمبر:۹۸۸۹۔ مصنف ابن ابی شیبۃ حدیث: ۲۲۱۸۶)

            ترجمہ : جس شخص نے دنیا کو حلال طریقے سے حاصل کیا، سوال سے بچنے کے لیے(یعنی تاکہ فقر وتنگ دستی کی وجہ سے لوگوں سے سوال کرنا نہ پڑے)، اپنے اہل وعیال کی پرورش اور کفالت کے لیے اور اپنے پڑوسی پر احسان کرنے کے لیے تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالی سے اس حال میں ملے گا کہ اس کا چہرا چودہویں رات کے چاند کی طرح چمک رہا ہوگا۔

حرام کمائی سے احتراز لازم ہے

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لا یدخلُ الجنۃَ  لحمٌ نَبَتَ مِنْ سُحْتٍ، النارُ أولَی بِہِ۔ (مسند أحمد حدیث نمبر: ۱۴۴۴۱۔ شعب الایمان للبیھقی حدیث:۸۹۵۲)

            ترجمہ:  وہ آدمی جنت میں نہیں جائے گا جس کی پر ورش حرام غذا اور حرام مال سے ہوئی ہے، جہنم کی آگ اس کی زیادہ مستحق ہے۔

            اور ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یَأتِی عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لایُبَالِی المَرأُ مَاأَخَذَ مِنہ، أَمِنَ الْحلالِ أَمْ مِنَ الحرامِ۔  (بخاری حدیث نمبر: ۲۰۵۹)

            ترجمہ : لوگوں پر ایک زمانہ آئے گاکہ آدمی کو کوئی پرواہ نہ ہوگی کہ وہ مال کس طرح حاصل کر رہا ہے، حلال طریقے سے یا حرام طریقے سے۔

حرام غذا قبولیت دعا کے لیے مانع

            حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے لوگو! اللہ پاک ہے اور پاک اورحلال چیز ہی قبول فرماتا ہے، اور اللہ تعالی نے تمام مومنوں کو اسی چیز کا حکم دیا ہے، جس چیز کا تمام رسولوں کو حکم دیا ہے؛ چناں چہ فرمایا:’’ یَا أَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبَاتِ، وَاعْمَلُوْا صَالِحاً‘‘۔(المؤمنون:۵۱) یعنی اے رسولو! پاک اور حلال میں سے کھاؤ، اور نیک عمل کرو۔  اور اللہ تعالی نے فرمایا: ’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ‘‘۔(البقرۃ: ۱۷۲) اے مومنو!  پاک رزق میں سے کھاؤ ، جو ہم نے تم کو عطا کیا ہے۔ پھر آپ نے ذکر فرمایا کہ آدمی (مقامات مقدسہ جیسے مکہ، مدینہ کے لیے)لمبا سفر کرتا ہے اور آسمان کی طرف ہاتھ بلند کرکے دعائیں کرتا ہے اورکہتا ہے: اے میرے رب! اے میرے رب! جب کہ وہ پراگندہ بال اور پراگندہ لباس ہوتا ہے اور حال یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام، اس کا لباس حرام اور حرام غذا سے اس کی پرورش ہوئی ہے تو کیسے اس کی دعا قبول ہوگی۔  (شرح السنۃ للبغوی، باب اباحۃ التجارۃ، حدیث نمبر: ۲۰۲۸۔ ترمذی حدیث: ۲۹۸۹)

تجارت کی فضیلت

            کسب معاش اور حصول رزق حلال کے اسباب وذرائع مختلف ہیں جیسے تجارت، زراعت، ملازمت،صنعت وحرفت اورمحنت ومزدوری وغیرہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے سلسلے میں شام کے دو سفر کیے، جن میں آپ نے حضرت خدیجۃ الکبریؓ کا سامان تجارت لے کر شام تشریف لے گئے، لہٰذا اگر کوئی آدمی اس نیت سے تجارت کرے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں تجارت کررہا ہوں تو یہ دین کا حصہ بن جائے گا۔اور تجارت عبادت ہے اگر دو نیت سے کی جائے (۱)اس کی آمدنی سے بیوی بچے وغیرہ کے حقوق کو ادا کروں گا (۲) اور اس کے ذریعہ ضرورت مندوں تک ضرورت کی اشیاء پہنچاؤں گا۔ قرآن وحدیث میں تجارت کی فضیلت آئی ہے، ملاحظہ فرمائیں :

            (۱) اللہ تعالی کا فرمان ہے: ’’یَا أّیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَ تَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃٌ عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ‘‘۔(النسائ: ۲۹)

            ترجمہ: اے ایمان والو! اایک دوسرے کے مال کو آپس میں ناحق مت کھاؤ؛ مگر یہ کہ تجارت ہو آپس کی خوشی اور رضامندی سے۔

            حضرت قتادہؒ  اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : التجارۃُ رزقٌ مِن رزقِ اللَّہِ، حلالٌ مِن حلالِ اللَّہ لِمَنْ طَلَبَہا بصدقِہا وبرّھا۔ تجارت اللہ کے رزق میں سے ایک رزق ہے،اللہ کی حلال کردہ اشیاء میں سے ایک حلال چیز ہے اس شخص کے لیے جو اس کو حاصل اور طلب کرے سچائی اور نیکی کے ساتھ۔  (السنن الکبری للبیھقی : ۵/۴۳۲، رقم :۱۰۳۹۹)

            (۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عَلیکم بالتجارۃِ ؛ فَإنَّ فیہا تسعۃَ أعشارِ الرزقِ۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فریا: تم لوگ تجارت کو لازم پکڑو؛ اس لیے کہ اس میں رزق کے دس حصوں میں سے نو حصے ہیں ۔

            ٭فی حاشیۃ إحیاء العلوم: ’’رواہ إبراہیم الحربی فی غریب الحدیث، من حدیث نعیم بن عبد الرحمن، ورجالہ ثقات‘‘۔(إحیاء العلوم: ۲/۶۲)

            (۳) حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کون سی کمائی سب سے اچھی ، طیب اور صاف ستھری ہے؟ یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا: عَمَلُ الرَّجُلِ بِیَدِہِ، وکُلُّ بیعٍ مَبْرُوْرٍ۔  آدمی جو کمائی اپنے ہاتھ سے کرے (جیسے زراعت،تجارت، کتابت اور صناعت، وغیرہ ) اور ہر وہ خرید وفروخت جو دھوکہ اور خیانت سے پاک ہواور ازروئے شرع مقبول ہو۔ (مسند أحمد حدیث: ۱۷۲۶۵۔ مرقاۃ: ۵/۱۹۰۴)

            (۴) امام احمد بن حنبلؒ سے پوچھا گیا کہ چار دراہم ہیں ، ان میں سے ایک تجارت سے حاصل ہوا،  ایک بھائی کی صلہ رحمی اور ہدیہ سے حاصل ہوا، ایک اجرتِ تعلیم سے حاصل ہوا اور ایک سرکاری خزانے سے ملا، تو ان میں سے افضل کونسا ہے؟ تو انھوں جواب دیا:جو درہم کپڑے کی تجارت سے حاصل ہوا ہے۔  (الآداب الشرعیۃ والمنح المرعیۃ: ۳/ ۲۶۹)

            (۵) اور ابراہیم نخعیؒ سے پوچھا گیاکہ ایک آدمی تجارت چھوڑ کرنوافل میں مشغول رہتا ہے اور ایک آدمی تجارت میں مشغول رہتا ہے تو ان میں سے کون افضل ہے؟ انھوں نے فرمایا:امانت دار تاجر۔  (حوالہ سابق: ۳/۲۹۰)

            (۶)اور صاحب الآداب الشرعیۃ نے لکھا ہے : سب سے افضل کسبِ معاش تجارت ہے، اور تجارت میں بھی سب سے افضل کپڑا، عطر، غلہ اور گھوڑے کی تجارت ہے۔ (حوالہ سابق)

            (۷) بخاری کی مشہور شرح عمدۃ القاری میں علامہ عینیؒ رقمطراز ہیں : قَدْ أَبَاحَ اللَّہُ تَعَالَی التِّجارۃَ فی کتابِہ، وأَمَرَ بالابتغائِ مِن فضلِہ، وکان أفضلُ الصحابۃِؓ کانوا یَتَّجِرُوْنَ ، ویَحْتَرِفونَ فِی طَلَبِ المعاشِ۔ (۱۱/۱۶۱)

            ترجمہ: بلاشبہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب قرآن میں تجارت کرنے کو جائز قرار دیا ہے اور اپنے رزق کو تلاش کرنے کا حکم دیا ہے اور اکابر اور اونچے درجے کے صحابہ تجارت کرتے تھے اور کسب معاش کے لیے کاروبار کرتے تھے۔

            (۸)حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا:لاَ یَقْعُدُ أَحَدُکُم عن طلبِ الرزقِ، یقولُ: اللّہمّ ارْزُقْنِی؟ فَقَدْ عَلِمْتُمْ أنَّ السمائَ لاتُمْطِرُ ذھباً ولا فضۃً۔ (احیاء العلوم: ۲/۶۲)

            ترجمہ:  تم میں سے کوئی طلب رزق کو چھوڑ کر بیٹھ نہ جائے اورپھر کہے: اے اللہ! مجھے روزی عطا فرما؟ کیوں کہ تم جانتے ہو کہ آسمان سے سونے اور چاندی نہیں برستے۔

             (۹) جمعہ کے دن نماز جمعہ کے بعد خرید وفروخت کی فضیلت:   بعض سلف سے مروی ہے کہ جو شخص جمعہ کے دن بعد نماز جمعہ خرید وفروخت کرے اللہ تعالی اس میں ستر مرتبہ برکت فرماتا ہے، اللہ تعالیٰ کے اس قول کی وجہ سے: ’’فَإِذَا قُضِیَتِ الصَّلاَۃُ فَانْتَشِرُوا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللَّہِ‘‘۔ (سورۂ جمعہ: ۱۰)یعنی جب نماز تمام ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور روزی تلاش کرو۔

            (۱۰)دن کے شروع حصے میں تجارت کرنے کی فضیلت :  دن کے اول حصے میں تجارت کرنے سے اس میں برکت ہوتی ہے، رسول اللہ ﷺ نے برکت کی دعا دی ہے۔ حضرت صخر غامدیؓ سے روایت ہے، رسول ﷺ نے فرمایا: اَللَّہُمَّ بَارِکْ لأُمَّتِیْ فِی بُکُوْرِہَا، وکانَ إذا بَعَثَ سریّۃً أو جیشاً بََعَثَہُمْ مِن أوّلِ النَّہارِ۔ وکَانَ صخرٌرَجُلاً تاجراً، وکانَ یَبْعَثُ تجارتَہ مِن أوّلِ النَّہارِ، فَأَثْرَی، وَکَثُرَ مَالُہ۔  (أبوداؤد حدیث:۲۶۰۹۔ ترمذی حدیث: ۱۲۱۲۔ ابن ماجہ حدیث:۲۲۳۶)

            ترجمہ:اے اللہ! میری امت کے لیے اس کے دن کے شروع حصے میں برکت عطا فرما، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب فوج کا کوئی دستہ، یالشکر جنگ کے لیے بھیجتے تھے تو دن کے اول حصے میں بھیجتے تھے اور حضرت صخر تاجر آدمی تھے، اپنی تجارت کا سامان ملازمین کی معرفت دن کے اول حصے میں بھیجتے تھے؛ چناں چہ ان کی تجارت میں خوب خوب برکت ہوئی ، نفع ہوا اور وہ مال دار ہوگئے اور ان کا مال بہت ہوگیا۔

سچے، امانت دار اور دین دار تاجر کی فضیلت

            (۱) وہ تجّار جو تجارت اور کاروبار میں مشغول ہونے کے باوجود دین پر سختی سے عمل کرتے ہیں اور کاروبار میں مشغولیت کی وجہ سے ان کی دین داری میں کوئی کمی نہیں آتی ہے، اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ان کی تعریف اور مدح سرائی کی ہے، چناں چہ ارشاد خداوندی ہے :

          ’’رِجَالٌ لاَتُلْہِیْہِِمْ تِجَارَۃٌ وَلاَبَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللَّہِ وِإِقَامِ الصَّلَوۃِ وَإِیْتَائِ الزَّکَوۃِ‘‘۔ (النور: ۳۷)

            ترجمہ: وہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کو تجارت اور خرید و فروخت غافل نہیں کرتے اللہ کے ذکر سے ، نماز سے اورزکاۃ دینے سے۔

            یعنی معاش کے دھندے ان کو اللہ کی یاد اور احکام الٰہیہ کی بجا آوری سے غافل نہیں کرتے، بڑے سے بڑا بیوپار، یا معمولی خرید وفروخت کوئی چیز خدا کے ذکر سے نہیں روکتی۔ صحابہؓ کی یہی شان تھی۔ (فوائد عثمانی)

            حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے اہل بازار میں سے کچھ لوگوں کو دیکھاکہ جب نماز کے لیے اذان ہوئی تو انھوں نے اپنے خرید وفروخت کو چھوڑ دیا اور نماز کے لیے چل پڑے۔عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: یہ لوگ ان لوگوں میں سے ہیں جن کا اللہ تبارک وتعالی نے اپنی کتاب کی اس آیت میں ذکر فرمایا ہے۔رِجَالٌ لاَتُلْہِیْہِمْ تِجَارَۃٌ وَلاَبَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللَّہِ۔  (تفسیر ابن کثیر: ۶/۶۸۔ تفسیر طبری: ۱۹/۱۹۲)

            اور تفسیر قشیری میں لکھا ہے کہ مذکورہ آیت میں جن کا تذکرہ ہے اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو حقوق اللہ کو حظوظ نفس پر ترجیح دیتے ہیں اور جب موذن کی آواز  ,,حَیَّ عَلَی الصَّلاَۃِ،،  سنتے ہیں تو بیع وشراء اور تجارت کی مشغولیت کو چھوڑ، اللہ کے حق کی ادائیگی کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔  (۲/۶۱۴)

            (۲) اورحضرت ابراہیم نخعیؒ سے سچے تاجر کے بارے میں پوچھا گیا کہ وہ آپ کے نزدیک محبوب اور پسندیدہ ہے ،یاوہ شخص جو عبادت کے لیے فارغ ہے اور ہمہ وقت عبادت میں مشغول رہتا ہے؟  انھوں نے جواب دیا: سچا تاجر میرے نزدیک زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہے؛ اس لیے کہ وہ مجاہدہ میں مشغول ہے؛ کیوں کہ شیطان اس کے پاس ناپ تول کے راستے سے آتا ہے( تاکہ اس کو بھٹکائے اور ناپ تول کی کمی بیشی میں اس کو مبتلا کرے)، اور شیطان اس کے پاس لینے اور دینے کے راستے سے آتا ہے (تاکہ اس کو لین دین کی گڑبڑی میں مبتلا کرے) پس وہ شیطان سے مجاہدہ کرتا ہے؛ لہٰذا سچا دین دار تاجر مجھے زیادہ محبوب اور پسند ہے۔  (احیاء العلوم: ۲/۶۲)

تاجر کی دو قسمیں ہیں

            تاجر اگر اپنی تجارت اور کاروبار میں سچ بولے، امانت داری کا پاس ولحاظ رکھے، اللہ سے ڈرے، تقوی اور نیکی اختیار کرے اور نیک اعمال سے غافل نہ ہو تو حدیث میں اس کا بہت بڑا رتبہ اور مقام بیان کیا گیا۔ اس کے بر خلاف جس تاجر اور بیوپاری میں مذکورہ اوصاف نہ ہوں وہ باعتبار آخرت نہایت خائب وخاسر اور نقصان میں ہے۔ درج ذیل تین حدیثیں پڑھیے:

            (۱) حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اَلتَّاجِرُ الصَّدُوْقُ الأمینُ مَع النبیّینَ وَالصِّدیقینَ وَالشھداءِ۔ (ترمذی حدیث نمبر: ۱۲۰۹)

            ترجمہ: سچا امانت دار تاجر قیامت کے دن انبیائ، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔

            (۲)  حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : التُجَّارُ یُحشرونَ یومَ القیامۃَ فُجَّاراً إِلاَّ مَنِ اتَّقَی اللَّہَ، وَبَرَّ، وَصَدَقَ۔ (سنن دارمی حدیث نمبر: ۲۵۸۰، واسنادہ جید)

            ترجمہ: تاجروں کو قیامت کے دن فساق وفجار(گنہگار) بنا کر اٹھایا جائے گا؛ مگر وہ تاجر جو اللہ سے ڈرا، تقوی اختیار کیا، نیکی اختیار کی اور سچ بولا(تو اس کا حشر سابقہ حدیث کے بموجب انبیائ، شہداء اور صدیقین کے ساتھ ہوگا)۔

            (۳)حضرت علیؓ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ : یَا عَلِیُّ !  لاتَکُنْ فَتَّاناً، وَلاَتاجراً إِلاَّ تاجرَ خیرِ، ولاجابیاً، فإِنَّ أولئکَ مُسَوِّفُوْنَ فِی العَمَلِ۔(شرح مشکل الآثار للطحاوی حدیث نمبر: ۲۰۸۶ )

            ترجمہ:  اے علی ! تو فتین نہ بن، اور نہ تاجر بن مگر تاجر خیراور جبرا ٹیکس وصول کرنے والا مت بن ، اس لیے کہ یہ لوگ عملِ شریعت سے ہٹے ہوئے ہوتے ہیں ۔

            امام طحاویؒ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں : ’’فی ہذا الحدیثِ تبیانُ التاجرِ المذمومِ، وأنّہ مُسَوِّفٌ فی العملِ، وھو الذی تشغلہ تجارتُہ عن العملِ‘‘۔ (حوالہ سابق)

            فرماتے ہیں : اس حدیث میں تاجر مذموم کا بیان ہے اور مذموم وناپسندیدہ تاجر وہ ہے جس کی تجارت اس کو دین پر عمل سے غافل کردے۔

مبیع کا عیب چھپانا اور دھوکہ دینا جائز نہیں ہے

             خرید وفروخت میں کسی کو دھوکہ دینا جیسے جس دودھ دینے والی گائے یا بھینس کو فروخت کرنا ہو،کئی دنوں تک اس کو نہ دوہنا اور دودھ اس کے تھن میں چھوڑے رکھنا؛تاکہ خریدار اور گاہک دھوکہ کھا جائے اور یہ سمجھے کہ جانور زیادہ دودھ دینے والا ہے ۔ اور جیسے گھٹیا اور عیب دار مال کو نیچے رکھنا اور عمدہ وفریش مال کو اوپر رکھنا تاکہ خرید دار یہ دھوکہ کھاجائے کہ سب مال عمدہ ہی ہیں ‘ ناجائز، حرام اور گناہ کبیرہ ہے، حدیث میں اس پر سخت وعید آئی ہے۔ حضرت واثلہ بن الأسقع سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناکہ جس نے کسی عیب دار چیز کو فروخت کیااور اس عیب کو بیان نہیں کیاتو وہ مسلسل اللہ کے غضب اور ناراضگی میں رہتا ہے اور فرشتے ہمیشہ اس پر لعنت بھیجتے ہیں ۔ 

          مَنْ بَاعَ عَیْباً لَمْ یُبَیِّنْہُ لَمْ یَزَلْ فِی مَقْتِ اللَّہِ، وَلَمْ تَزَلِ الْمَلاَئِکَۃُ تَلْعَنُہُ۔(ابن ماجہ حدیث نمبر: ۲۲۴۷)

            اور ایک حدیث میں آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: لایحلُ لأحدٍ یبیعُ شیئاً ألاّ یُبَیِّنَ ما فیہ، ولایَحِلُّ لِمَنْ یَعْلَمُ ذلکَ ألاّ یُبَیِّنَہُ۔(مسند أحمد حدیث نمبر: ۱۶۰۱۳)

            یعنی کسی شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ کسی چیز کو بیچے اور اس میں جو عیب ہے اس کو بیان نہ کرے، اور نہ اس آدمی کے لیے جائز ہے جو مبیع کے عیب کو جانتا ہواور اس کو بیان نہ کرے۔

            اور ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ بازار میں غلہ (گیہوں ) کے ایک ڈھیر کے پاس سے گزرے، آپ نے اپنا ہاتھ اس کے اندر ڈالا تو آپ کی انگلیاں تر ہوگئیں (غلہ اندر سے بھیگا ہوا تھا)، آپ نے فرمایا: اے غلہ والے! یہ کیا ہے؟ اس نے عرض کیا : یارسول اللہ! اس پر بارش پڑ گئی تھی(اس وجہ سے یہ بھیگ گیا ہے) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے اس کو غلہ کے اوپر کیوں نہیں رکھا؛تاکہ لوگ(خریدار) اس کو دیکھ لیتے؟ (اور سنو!)  ,, مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنَّا،،۔جو مسلمانوں کو دھوکہ دے وہ مجھ میں سے نہیں ہے۔ (رواہ الترمذی حدیث نمبر: ۱۳۱۵۔  وقالَ الترمذِی:  قالُوا: الغِشُّ حَرَامٌ)

            امام ترمذیؒ نے فرمایا:  علما فرماتے ہیں کہ دھوکہ دینا حرام ہے۔

امام ابو حنیفہؒ کے ورع وتقوی کا بے مثال واقعہ

            علی بن حفص بزازؒ سے روایت ہے کہ میرے والد حفص بن عبد الرحمنؒ ، ابوحنیفہؒ کے شریک تجارت تھے، امام ابو حنیفہؒ ان کے پاس سامان بھیجا کرتے تھے ، ایک مرتبہ سامان بھیجا تو ان کو خبردار کردیا کہ فلاں فلاں کپڑے میں عیب ہے ، جب بیچنا تو بیاں کردینا، حفصؒ نے سامان بیچ دیا؛ لیکن خریدار کو عیب بتلانا بھول گئے اور خریدار کا پتہ بھی معلوم نہ ہو سکا، جب امام ابو حنیفہؒ کو علم ہوا تو کل مال کی قیمت خیرات کردی اور حفصؒ کو شرکت سے الگ کردیا۔یہ رقم تیس ہزار درہم تھی۔ (تذکرۃ النعمان:ص:۲۰۸)

ناپ تول میں کمی کرنا سخت گناہ ہے

            ناپ تول میں کمی کرنا ناجائز اور حرام ہے، قرآن کریم میں مختلف مقامات پر اللہ تعالی نے اس عمل قبیح کی مذمت بیان کی ہے اور اس پر سخت وعید سنائی ہے۔ شعیب علیہ السلام کی قوم پر جو عذاب آیا تھا، اس کا سبب ان میں شرک وکفر کی بیماری کے علاوہ ایک بہت بڑا عیب ناپ تول میں کمی بیشی بھی تھی۔ اللہ تبارک وتعالی نے سورۂ مطففین میں فرمایا:  ’’وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ الَّذِیْنَ إِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ، وَإِذَا کَالُوْھُمْ أَووَّزَنُوْہُمْ یُخْسِرُوْنَ، أَلاَ یَظُنُّ أُوْلَئِکَ أَنَّہُمْ مَبْعُوْثُوْنَ، لِیَوْمٍ عَظِیْمٍ، یَوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَّبِّ الْعلَمِیْنَ‘‘۔  (سورۂ مطففین: ا-۶)

            ترجمہ: خرابی اورعذاب شدید ہے گھٹانے والوں کے لیے، وہ لوگ کہ جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب ان کو ناپ کر ،یا تول کر دیتے ہیں تو گھٹا کر اور کم کرکے دیتے ہیں ۔کیا وہ لوگ خیال نہیں رکھتے کہ ان کو اٹھایا جائے گا۔ اس بڑے دن کے واسطے ۔ جس دن لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے۔

            حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ ناپ میں سب سے بدترین تھے، تو اللہ تبارک وتعالی نے  ’’وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ‘‘ نازل فرمایا: اس کے بعد اچھی طرح ناپ تول کرنے لگے۔ اور ان سے یہ بھی مروی ہے کہ یہ پہلی سورت ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ، جس وقت کہ آپ مدینہ تشریف لائے، وہاں کے لوگوں میں یہ خرابی تھی کہ جب کچھ خریدتے تو زیادہ وصول کرتے اور جب کوئی چیز بیچتے تو ناپ تول کم کرکے اور گھٹا کر دیتے تھے، پھر جب یہ سورت نازل ہوئی تو وہ اس عمل بد سے رک گئے اور پورا پورا دینے لگے،اور ان کا یہ طریقہ آج تک چلا آرہا ہے۔  (تفسیر قرطبی: ۱۹/۲۵۰ ۔ ابن کثیر: ۸/۳۴۶)

            قوم شعیب علیہ السلام کی ہلاکت کا تذکرہ بھی سورۂ ھود میں ملاحظہ کیجیے:

            اللہ تعالی نے فرمایا: اور ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو نبی بناکر بھیجا، انھوں نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اورناپ تول کو نہ گھٹاؤ، میں تم کو آسودہ حال دیکھتا ہوں اور بلاشبہ میں تم پر ایسے دن کے عذاب سے  ڈرتا  ہوں جو گھیر لینے والا ہے۔ اور اے قوم! پورا کروناپ اور تول انصاف سے اور نہ گھٹاؤ لوگوں کو ان کی چیزیں اور زمین پر فساد مت پھیلاؤ  اور آ پکڑا ان ظالموں کو کڑک نے، پھر صبح کو رہ گئے اپنے گھروں میں اوندھے پڑے ہوئے، گویا کبھی وہاں بسے ہی نہ تھے۔سن لو پھٹکار ہے مدین کے لیے جیسے پھٹکار ہوئی تھی ثمودپر۔   (سورۂ ہود: ۸۴، ۸۵، ۹۶)

            فائدہ:  یہاں قوم شعیب کا کڑک (فرشتہ کی چیخ) سے ہلاک ہونا مذکور ہے اور اعراف میں ’’رَجْفَۃٌ‘‘ کا لفظ آیا ہے، یعنی زلزلہ سے ہلاک ہوئے، اور سورۂ شعراء میں ’’عَذَابُ یَوْمِ الظُّلَّۃِ‘‘ آیا ہے،جس کا مطلب یہ ہے کہ عذاب کے بادل سائباں کی طرح ان پر محیط ہوگئے۔ ابن کثیرؒ لکھتے  ہیں کہ یہ تینوں قسم کے عذاب اس قوم پر جمع کر دئے گئے تھے، پھر ہر سورت میں وہاں کے سیاق کے مناسب عذاب کا ذکر کیا گیا۔ اعراف میں تھاکہ ان لوگوں نے شعیب سے کہا:ہم تم کو اور تمہارے ساتھیوں کو اپنی سر زمین سے نکال دیں گے، وہاں بتلا دیا کہ جس زمین سے نکالنا چاہتے تھے اسی کے زلزلہ سے ہلاک ہوئے، یہاں ان کے سخت گستاخانہ مقالات کا ذکر تھا، اس لیے بالمقابل آسمانی ’’صیحہ‘‘ (کڑک) کا ذکر فرمایا، گویا عذاب الٰہی کی ایک کڑک میں ان کی سب آوازیں گم ہو گئیں ۔ سورۂ شعراء میں ان کا یہ قول نقل کیا ہے: ’’فَأَسْقِطْ عَلَیْنَا کِسَفاً مِّنَ السَّمّائِ إِنْ کُنْتَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ‘‘ یعنی اگر تو سچا ہے تو ہم پر آسمان کا ایک ٹکڑا گرا دے؟ اس کے بالمقابلہ میں ’’عَذَابُ یَوْمِ الظُّلَّۃِ‘‘  کا تذکرہ فرمایا۔ (فوائد عثمانی، آیت: ۹۴)

            جب لوگ ناپ تول میں کمی بیشی کرنے لگتے ہیں اور ان میں یہ عادت اور لت پڑ جاتی ہے تو ان پر اللہ کا عذاب قحط سالی اور مہنگائی وگرانی کی شکل میں نازل ہونے اور ظاہر ہونے لگتا ہے ، فرمانِ نبی سنیے:

             نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَا أَظْہَرَ قَوْمٌ البخسَ فی المکیالِ والمیزانِ إِلاّ ابتلاہم اللّہُ بالقحطِ والغَلاء۔ (تفسیر قرطبی : ۹/۸۶۔ سورۂ اعراف، آیت:۵۸ تا ۹۳)

             ترجمہ: کسی بھی قوم نے ناپ تول میں کمی ظاہر نہیں کی اور کمی کرنا شروع نہیں کیا؛ مگر یہ کہ اللہ تعالی نے ان کو قحط اور گرانی ومہنگائی میں مبتلا کردیا۔

            اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرما تے ہیں :  لانقصَ قومٌ المکیالَ والمیزانَ إِلاَّ قُطِعَ عنہم الرزقُ- وفی روایۃٍ عنہ -إِلاّقُطِعَ عنہم القطرُ۔( موطأ امام مالکؒ ، رقم:۱۶۷۰، ۹۲۷)

            کسی قوم نے ناپ تول میں کمی نہیں کی؛ مگر ان کی روزی کم کردی جاتی ہے اور ایک روایت میں ہے کہ ان سے بارش روک دی جاتی ہے ، بارش نہیں ہوتی ہے اور قحط پڑ جاتا ہے۔

            اور حضرت سعید بن مسیبؒ  فرماتے ہیں :  إذا جِئْتَ أرضاً یُوْفُوْنَ المکیالَ والمیزانَ فَأَطِلِ القیامَ بہا، وإذا جئت أرضاً یَنْقُصُوْنَ المکیالَ والمیزانَ فَأَقْلِلِ المُقامَ بہا۔ (موطأ امام مالکؒ، جامع البیوع، رقم: ۲۵۲۴)

            جب تم ایسی سرزمین میں پہنچو، جہاں لوگ ناپ تول پورا پورا کرتے ہیں تو وہاں زیادہ دنوں تک ٹھہرو(اگر تم کو ضرورت ہو)۔ اور اگر تم ایسی سرزمین میں پہنچو ،جہاں لوگ ناپ تول میں کمی کرتے ہیں تو تم وہاں قیام کم کرو (اس لیے کہ کسی منکر اور گناہ کا ظہور اور عموم ان چیزوں میں سے ہے جس کی تعجیلِ عذاب سے ڈرنا چاہیے؛ لہٰذا ایسا نہ ہو کہ وہاں اللہ کا کوئی عذاب نازل ہوجائے اور تم بھی اس میں گرفتار ہوجاؤ)۔

خرید وفروخت میں بکثرت قسم کھانا

            خرید وفروخت میں بکثرت قسم کھانا، یا جھوٹی قسم کھانا؛ تاکہ خریدار اور گاہک کو اس کی بات کا یقین ہوجائے اور اس کی تجارت خوب خوب چلنے لگے‘ یہ بھی نا جائز اور گناہ ہے، شریعت میں اس کی اجازت نہیں ہے، احادیث میں اس پر وعید آئی ہے اور اس کی مذمت بیان کی گئی ، اس سے  برکت ختم ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:  ’’وَلاَتَتَّخِذُوْا أَیْمَانَکُمْ دَخَلاً بَیْنَکُمْ‘‘۔ (النحل: ۹۴)

            قال البغوي فی شرح السنۃ: أي خَدِیعۃً، ودَغَلاً، وَغِشًّا۔ (شرح السنۃ للبغوی: ۸/۳۸)

            ترجمہ: اور اپنی قسموں کو آپس میں دھوکہ دینے کے لیے مت ٹھہراؤ۔ یعنی اپنی قسموں کو آپس میں دھوکہ دینے اور خیانت کرنے کے لیے استعمال مت کرو۔

            حضرت ابو قتادہ انصاریؓ سے روایت ہے ، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہو ئے سنا، آپ نے ارشاد فرمایا:  إیَّاکُم وکثرۃَ الحلفِ فی البیعِ، فإنّہ یُنْفِقُ، ثمّ یَمْحَقُ۔ (مسلم حدیث: ۱۳۲-۱۶۰۷)

             یعنی تم کسی چیز کو فروخت کرنے میں زیادہ قسم مت کھایا کرو؛ اس لیے کہ وہ (قسم کھانا) بیع کو رائج کرتاہے یعنی کاروبار کو فروغ دیتا ہے؛ لیکن پھر اس کو گھٹا دیتا، کم کر دیتا ہے ،مٹا دیتا ہے اور بے برکت کردیتا ہے۔

            اور حضرت ابو ہریرہؓ کی حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الحَلِفُ مُنْفِقَۃٌ للسِلعۃِ، مَمْحَقَۃٌ للرِبحِ- وفی روایۃ-: الیمینُ الکاذبۃُ منفقۃٌ للسلعۃِ، ممحقۃٌ للکسبِ۔ (مستخرج أبی عوانۃ حدیث نمبر: ۵۴۷۸، ۵۴۷۹)

            بیع وشراء میں قسم کھانا سامانِ بیع کو رائج کرتا اور فروغ دیتا ہے اور برکت اور کمائی کو کم کرتا اورگھٹاتا ہے۔

            اور ایک حدیث میں ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  ثلاثًا لاَیُکلّمُہمُ اللَّہُ یومَ القیامۃِ، ولاَیُزَکِّیْہِمْ، وَلَہُمْ عذابٌ ألیمٌ، المنّانُ، والْمُسْبِلُ، والمنفقُ سِلعتَہ بالحلفِ الکاذبِ۔ (مصنف ابن أبی شیبۃ حدیث نمبر: ۲۲۲۰۱)

            یعنی تین آدمی ایسے ہیں جن سے اللہ تعالی قیامت کے دن بات نہیں کرے گا، گناہ سے ان کا تزکیہ نہیں کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔(۱) احسان جتلانے والا (۲)ٹخنے سے نیچے لنگی یا پائجامہ یا جبہ پہننے والا (۳)اور جھوٹی قسم کے ذریعہ اپنی تجارت کو فروغ دینے والا۔

            اور ایک روایت میں ہے:  ثلاثۃٌ لایکلّمہم اللّہُ عَزَّ وَجَلَّ، وَلاَیَنْظُرُ إلیہم یومَ القیامۃِ، ولَہم عذابٌ ألیمٌ۔ (منہم) رجلٌ سَاوَمَ رجلاً علی سلعۃٍبعدَ العصرِ، فَحَلَفَ لَہُ بِاللَّہِ، لَقَدْ أُعْطِيَ بِہَا کَذَا وَکَذَا، فَصَدَّقَہُ الآخرُ۔  (سنن النسائی، باب المنفق سلعتہ بالحلف الکاذب، حدیث نمبر: ۴۴۶۲)

            یعنی تین آدمی ایسے ہیں جن سے اللہ تعالی قیامت کے دن بات نہیں کرے گا(رضامندی سے)، ان کی طرف رحمت کی نظر سے نہیں دیکھے گااور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ ان میں سے ایک وہ آدمی ہے جس نے کسی شخص سے عصر کے بعد کسی سامان کا بھاؤ کیااور اس کے سامنے (جھوٹی) قسم کھائی کہ خدا کی قسم فلاں آدمی مجھے اس کا اتنا دے رہا تھا؛ لیکن میں نے اس کو نہیں دیا ہے، پس اس شخص نے اس کی بات پر اعتماد کرلیا، اور اس کو سچا سمجھ کر وہ سامان (زیادہ قیمت دے کر) اس سے خرید لیا۔

            فائدہ:  اس حدیث میں عصر کے بعد قسم کھانے کا ذکر ہے، ظاہر ہے جھوٹی قسم کھانا ہر وقت ناجائز ،حرام اور گناہ ہے؛ لیکن بعض گناہ کی قباحت مکان یا زمان کے تقدس کی وجہ سے بڑھ جاتی ہے، اس لیے معلوم ہوا کہ عصر کے بعد جھوٹی قسم کھانے کے گناہ میں اور شدت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس حدیث سے عصر کے بعد کے وقت کی فضیلت بھی ظاہر ہوئی۔

            حضرت زادانؒ سے مروی ہے کہ حضرت علی بازار آتے تھے، لوگوں کو سلام کرتے، پھر فرماتے: اے تاجروں کی جماعت! بیع میں زیادہ قسم کھانے سے بچو؛  اس لیے کہ یہ تجارت اور کاروبار کو رائج کرتا اور فرغ دیتا ہے؛ لیکن برکت کو مٹا دیتا اور ختم کر دیتا ہے۔ (مصنف ابن أبی شیبۃ، نمبر:۲۲۱۹۶)

تاجر صدقے کا اہتمام کرے

            حضرت قیس بن غُرْزَہ ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  یَامَعْشَرَ التُّجَّارِ! إنّ ہذا البیعَ یحضُرُہُ اللغوُ والحَلِفُ، فَشُوْبُوْہُ بالصدقۃِ۔ (مصنف ابن أبی شیبۃ حدیث نمبر: ۲۲۱۹۸)

             اے تاجروں کی جماعت!  بے شک بیع وشراء میں لغو باتیں اور قسم آجاتی ہیں (یعنی خرید وفروخت کرتے وقت آدمی لغو اور لایعنی باتیں بھی کرتا ہے ، اور قسم بھی کھاتا ہے ،جو عند الشرع نا پسندیدہ اورگناہ ہے)،  لہٰذا اس کو ملاؤ صدقہ کے ساتھ یعنی تم صدقہ کیا کرو ، یہ اس کے لیے کفارہ ہو جائے گا۔

تجارت میں نرمی اور آسانی کا پہلو ملحوظ رہے

            حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رَحِمَ اللّہُ رجلاً إذا باعَ، وإذا اشترَی، وإذَا اقْتَضَی۔ (بخاری حدیث نمبر:۲۰۷۶)

            ترجمہ: اللہ کی رحمت ہو اس بندے پر جو بیچنے میں ، خریدنے میں اور اپنے حق کا تقاضا کرنے اور وصول کر نے میں نرم اور فراخ دل ہو۔

            اور حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : إنّ اللّہَ یُحِبُّ سَمْحَ الْبَیْعِ، سمحَ الشراءِ، سمحَ القضاء۔ (ترمذی حدیث نمبر: ۱۳۱۹۔ ورواہ الحاکم فی المستدرک حدیث نمبر: ۲۳۳۸۔ وقال: ہذا حدیث صحیح الإسناد)

            یعنی اللہ تعالی نرمی اور آسانی کو پسند فرماتا ہے بیچنے میں ، خریدنے میں ، ادائیگی میں اور حق کے وصول کرنے میں ۔

            اور حضرت عثمان بن عفانؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أَدْخَلَ اللَّہُ رجلاً الجنۃَکانَ سَہْلاًمُشْتَرِیًا، وَبَائِعًا، وقَاضِیًا، ومُقْتَضِیًا۔ (مسند أحمد حدیث نمبر: ۵۰۸)

            ترجمہ: اللہ تبارک وتعالی نے ایک آدمی کو جنت میں داخل کردیا (کیوں کہ ) وہ بیچنے میں ، خریدنے میں ، قیمت یا دین کی ادائیگی میں اور حق کے وصول کرنے میں نرمی کرتا تھا۔

              حدیث میں ہے کہ پچھلی امت میں ایک آدمی تھا، فرشتہ اس کے پاس روح قبض کرنے کے لیے آیا، اس کی روح قبض کرنے کے بعد اس سے پوچھا کہ کیا تم نے کوئی خیر کا کام کیا ہے؟ اس نے کہا: میں نہیں جانتا کہ میں نے کوئی خیر کا کام کیا ہے، اس سے کہا گیا: غور کرو کہ تم نے کوئی عمل کیا ہو؟  اس نے کہا:میں نہیں جانتا سوائے اس کے کہ میں دنیا میں لوگوں سے سامان بیچتا تھا، اور ان کے ساتھ احسان کا معاملہ کرتا تھا، پس میں مال دار کو (قیمت کی وصولی میں ) مہلت دیتا تھا اور تنگ دست اور محتاج کو معاف کردیتا تھا۔ اس عمل کی وجہ سے اللہ تعالی نے اس کو جنت میں داخل کردیا۔ (بخاری ومسلم)  اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ: اللہ تعالی نے اس سے فرمایا کہ میں اس کا تم سے زیادہ حق دار ہوں (کہ معاف کروں )، اے فرشتو! میرے اس بندے سے در گزر کرو اور اس کو معاف کردو۔  (مشکاۃ ، ص:۲۴۳)

تجارت اور طلبِ دنیا، دین وآخرت سے غافل نہ کردے

            بلا شبہ تجارت کسب حلال کا بہترین ذریعہ اور سبب ہے اور اس سے حاصل ہونے والا مال امور آخرت اورحقوق کی ادائیگی میں بھی معاون اور مددگار ہے ، اس معنی کر یہ ممدوح بھی ہے؛ لیکن اس میں اس قدر انہماک اور مشغول و مصروف ہونا کہ آدمی فکرِ آخرت ، یادِ الٰہی ، ذکرِ خداوندی اور اعمالِ رضائے حق سے بالکل غافل ہوجائے ،نہایت ہی نقصان اور خسارے کی بات ہے اور حصولِ دنیا کی کدّو کاوش میں اپنی آخرت کو برباد کرنا ہے۔  اس سلسلے میں علامہ عینیؒ، علامہ ابن حجر عسقلانیؒ اور امام غزالیؒ کا عبرت ونصیحت والا کلام ملاحظہ فرمائیں :

          ’’إن التجارۃَ وَإنْ کانتْ ممدوحۃً باعتبارِ کَوْنِہَا مِنَ المکاسبِ الحلالِ؛ فَإِنَّہَا قَدْ تُذَمُّ إِذَا قُدِّمَتْ علی مَا یَجِبُ إذاً تَقْدِیْمُہُ عَلَیْہَا‘‘۔ (فتح الباری: ۴/۲۹۶۔ عمدۃ القاری: ۱۱/۱۷۳)

            ترجمہ: بے شک تجارت اگرچہ ممدوح ہے، اس اعتبار سے کہ وہ حلال کمائی کا ذریعہ ہے؛ لیکن کبھی وہ قابلِ مذمت اور ناپسندیدہ ہو جاتی ہے، جب اس کو اس چیز پر مقدم کیا جائے جس کو تجارت پر مقدم کرنا واجب اور ضروری ہے (مثلا نماز فرض ہے، لیکن تجارت میں مشغول رہ کر نماز کو ترک کر دیتا ہے، ظاہر ہے کہ اس وقت تجارت قابلِ مذمت اور ناپسندیدہ ہوگی)۔

            اور امام غزالیؒ فرماتے ہیں :

          ’’وَلاَ ینبغِی للتاجرِ أن یشغلُہ معاشُہ عن معادِہ، فیکونُ عمرُہ ضائعًا، وصفقتُہ خاسرۃً من الربحِ في الآخرۃِ، لاَیَفِی بہ مَاینالُ فی الدنیا، فیکونُ اشتری الحیاۃَ الدنیا بالآخرۃِ، بل العاقلُ ینبغِی أن یشفقَ علی نفسِہ، وشفقتُہ علی نفسِہ أن یحفظَ رأسَ مالِہ، ورأسُ مالِہ دینُہ وتجارتُہ فیہ‘‘۔ (إحیاء العلوم، الباب الخامس فی شفقۃ التاجر علی نفسہ: ۲/۸۳)

            ترجمہ: تاجر کے لیے مناسب نہیں ہے کہ اس کا معاش اس کو اس کے معاد(آخرت) سے غافل کردے، اگر ایسا ہوگا تو اس کی عمر ضائع ہوجائے گی،اس کی تجارت آخرت میں نفع کے بجائے خسارہ اور نقصان کا باعث ہوگی۔جو دنیا اس نے حاصل کیا ہے وہ آخرت کے برابر نہیں ہوسکتی۔ پس اس نے آخرت کے بدلے میں دنیا کو خریدا؛ بلکہ عقل مند کے لیے مناسب یہ ہے کہ اپنی ذات پر مہربانی اور احسان کرے اور اس کی اپنے نفس پر مہربانی اور احسان یہ ہے کہ اپنے رأس المال اور پونجی کی حفاظت کرے اور اس کا رأس المال ، پونجی اور سرمایہ اس کا دین ہے اور اسی دین میں اس کی تجارت ہے اور دنیاکے بدلے آخرت کو خریدنا ہے۔

تاجر اپنے دین پر مہربانی اور شفقت کرتے ہوئے سات چیزوں کی رعایت کرے

            امام غزالیؒ نے مسلم تاجر کے لیے سات اصول اور نصائح بیان فرمائے ہیں ، ہم اختصار کے ساتھ ان کو نقل کرتے ہیں ۔ وہ فرماتے ہیں : إنّما تَتِمُّ شفقۃُ التاجرِ علی دینِہ بِمُرَاعَاۃِ سَبْعَۃِ أُمُوْرٍ۔ یعنی تاجر کا اپنی ذات اور نفس پر مہربان ہونا سات چیزوں کی رعایت کرنے سے تام اور مکمل ہوگا۔

            (۱)  تجارت کی ابتدا میں حسنِ نیت اور حسنِ عقیدہ ہو۔ پس تاجر تجارت شروع کرنے کے وقت سوال سے بچنے، لوگوں سے حرص وطمع سے  رکنے،رزق حلال کے ذریعہ لوگوں سے استغنائ، کمائے گئے مال کے ذریعہ دین پر استعانت اور اپنے اہل وعیال کی کفایت وکفالت کے قیام کی نیت کرے۔

            (۲)  تاجر اپنی صنعت اور تجارت میں فروضِ کفایہ میں سے ایک فرض کفایہ کے ادا کرنے کی نیت کرے؛ اس لیے کہ صنعتیں اور تجارتیں اگر بالکلیہ چھوڑ دی جائیں تو معیشتیں باطل ا ور تباہ ہوجائیں گی اور اکثر لوگ ہلاک ہو جائیں گے۔ یعنی تجارت کرنا فرض کفایہ ہے؛ لہٰذا قوم میں ایک طبقہ ایسا ہونا ضروری ہے، جو تجارت میں لگا رہے ، اس لیے کہ اگر سارے ہی لوگ صنعت وتجارت چھوڑدیں گے تو اکثر لوگ ہلاکت کے دہانے پر پہنچ جائیں گے، اس لیے اپنی تجارت کی شروعات میں یہ نیت کرے کہ میں ایک فرض کفایہ کو ادا کررہا ہوں ۔ اس طرح وہ اجر وثواب کا بھی مستحق ہوجائے گا۔

            (۳)  تاجر کو دنیا کا بازار آخرت کے بازار سے نہ روک دے، اور آخرت کے بازار مساجد ہیں ؛ اس لیے مناسب ہے کہ دن کے اول حصہ کو بازار میں داخل ہونے کے وقت تک اپنی آخرت کے لیے صرف کرے، اس وقت کومسجد میں گزارے اور اوراد ووظائف کو لازم پکڑے۔

            (۴)  اوراسی پر اکتفاء نہ کرے ،بلکہ بازار میں بھی اللہ سبحانہ وتعالی کے ذکر کو لازم پکڑے اور تسبیح وتہلیل میں مشغول رہے۔ اس لیے کہ بازار میں غافلوں کے درمیان اللہ کا ذکر کرنا افضل ہے۔

            (۵)  تاجر بازار اور تجارت پر بہت زیادہ حریص نہ ہو،اس کی علامت یہ ہے کہ سب سے پہلے بازار جائے اور سب سے اخیر میں وہاں سے لوٹے۔ یہ کاروبار میں بہت زیادہ حریص ہونے کی دلیل ہے۔

            (۶)  تاجر کے لیے حرام چیزوں کی تجارت سے بچنا لازم اور ضروری؛ لیکن صرف حرام سے اجتناب پر اکتفاء نہ کرے؛ بلکہ مواقعِ شبہات اور شک و تہمت کے مقام سے بھی احتراز کرے اوربچے۔

            (۷)  تاجر کو چاہیے کہ وہ جن لوگوں سے معاملات کر رہا ہے، ان کے بارے میں ہر وقت یہ خیال رکھے اور فکر مند رہے کہ ان میں سے ہر صاحبِ معاملہ اس سے حساب لے گا کہ خرید وفروخت میں اس نے کسی کا حق مار تو نہیں لیا، لہٰذا تاجر کو اپنے ہر قول اور عمل کے بارے میں حساب و عقاب کے دن (روز محشر)کے لیے جواب تیار رکھناچاہیے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ اگر ایک شخص نے ہزاروں آدمیوں سے خرید وفروخت کیا ہے تو ان ہزاروں آدمیوں کا حق اس سے وابستہ ہے، اگر اس نے کسی کے حق میں بھی کچھ کوتاہی اور گڑبڑی کی ہے تو وہ صاحبِ حق اس کی وصولی کے لیے قیامت کے دن اس تاجر خائن کے پاس حاضر ہوجائے گا اور اس سے اپنا حق وصول کرے گا؛ اس لیے ہر تاجر اپنی تجارت میں اس بات کو ملحوظ رکھے کہ اس کو قیامت کے دن ہر حساب لینے والے کا حساب دینا ہوگا۔  (احیاء العلوم:۲/۸۳-۸۷)

            اللہ تعالی آخرت کی تیاری کی توفیق عطا فرمائے اور زندگی کے ہر لمحے میں اتباعِ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نصیب فرمائے۔ آمین

——————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 2-3،    جلد:104‏،  جمادى الاول  1441ھ مطابق فروری-مارچ 2020ء

٭           ٭           ٭

Related Posts