حرف آغاز

محمد سلمان بجنوری

            ۲۶؍جنوری ۲۰۲۰ء مطابق ۳۰؍جمادی الاولیٰ ۱۴۴۱ھ بروز اتوار دارالعلوم دیوبند میں یوم جمہوریہ کی تقریب منعقد ہوئی، جس کی صدارت حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم نے کی، نظامت کے فرائض جناب مولانا اشرف عباس صاحب قاسمی زیدمجدہم نے انجام دیے، اس موقع پر حسب حکم حضرت مہتمم صاحب، احقر نے کچھ عرض کیا، اس کا خلاصہ اس وقت پیش خدمت ہے۔

            بیان کا آغاز ڈاکٹر کلیم عاجز مرحوم کی نظم ’’ہم نشیں !‘‘ سے کیاگیا، جس کا آغاز اس طرح ہوتا ہے:

چند دن سے تھے نہایت ہی پس پیش میں ہم

 چپ ہی رہ جائیں کہ اظہار خیالات کریں

پھر یہ سوچا کہ پس وپیش کا اب وقت نہیں

 ہم نشیں ! آذرا دل کھول کے کچھ بات کریں

            بیالیس اشعار پر مشتمل یہ نظم، کلیم عاجزؔ کی؛ بلکہ اردو کی شاہ کار نظموں میں شمار کیے جانے کے لائق ہے جس میں برادران وطن کو ہم نشیں کے بامعنی لفظ سے مخاطب کرکے وہ سب کچھ کہا گیا ہے جو اُن سے کہنے کی ضرورت ہے۔ اس میں ہندوستان کے لیے مسلمانوں کی قربانیوں کا تذکرہ کرنے کے بعد برادران وطن کے برتائو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسلمانوں کی اس ملک کے لیے اہمیت اور ان کے دلی جذبات کے عکاسی کے ساتھ ساتھ یک جہتی اور باہمی رواداری کی ضرورت کو واضح کیاگیا ہے۔ اس لیے راقم نے اس موقع پر اپنے جذبات وخیالات کی ترجمانی کے لیے اس نظم کا انتخاب کیا۔

            اس کے بعد احقر نے آئین ہند کی تمہید پڑھ کر سنائی اور ابتدائی صفحات سے بنیادی حقوق کی دفعات بھی پیش کیں جن سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آئین سازوں نے اس ملک کی یک جہتی کے لیے مساوات، سماجی انصاف اور تمام شہریوں کی یکساں حیثیت اور مذہب یا رنگ ونسل کی بنیاد پر کسی کے ساتھ نا انصافی کے سدباب کو کس قدر ضروری سمجھا تھا اور آج جو کچھ بے چینی یا انتشار کی صورت حال ہے وہ آئین کی اسی روح ومزاج کو نظر انداز کرنے کی بناء پر پیدا ہوئی ہے اور اس کو ختم کرنے اور تمام شہریوں کو مطمئن رکھنے کے لیے بغیر کسی تحفظ کے آئین ہند کو اس کی پوری روح کے ساتھ نافذ کرنا حد درجہ ضروری ہے۔

            اس بنیادی تمہید کے بعد احقر نے دو باتیں عرض کیں :

            پہلی بات برادران وطن اور حکومت کو مخاطب کرکے کہی گئی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ’’ہم تمام ہندوستانی مسلمانوں کی طرف سے آپ پر یہ بات واضح کرتے ہیں کہ اگر آپ اس ملک کو اپنا ملک سمجھتے ہیں اور اس سے محبت رکھتے ہیں تو سوفی صد اسی طرح ہم بھی اس ملک کو اپناملک سمجھتے اور اس سے محبت رکھتے ہیں ۔ نیز ہمیں یہ منظور نہیں کہ ملک کو ذرا بھی نقصان پہنچے یا اس کی بدنامی ہو؛ بلکہ موجودہ وقت میں ہمارے بھائی بہن جو احتجاج کررہے ہیں اس کی روح بھی یہی ہے کہ آپ کے حالیہ فیصلہ سے دنیا میں ملک بدنام ہوا ہے، ہم جس طرح اپنے ملک کا نقصان نہیں چاہتے اسی طرح ملک کی بدنامی بھی ہمیں کسی قیمت پر منظور نہیں ہے۔ ہم ملک کو نقصان پہنچانے والے کسی بھی شخص کے مخالف ہیں اور ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف ہیں خواہ اس کا ذمہ دار کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ آپ بھی اپنے عمل سے یہ ثابت کریں کہ آپ ملک کو نقصان پہنچانے والے ہر شخص کے یکساں مخالف ہیں خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا محرک مذہب نہیں لالچ ہوتا ہے، اسی لیے آزادی کے بعد پڑوسی ملکوں کے مفاد میں ہندوستان کے خلاف کام کرنے کے ملزمین کی فہرست میں اکثریت آپ کے مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی ہے مسلمانوں کی نہیں ہے۔

            پھر مسلمان کو تو اس ملک کی آزادی اور سلامتی یوں بھی عزیز ہے کہ مسلمانوں نے گزشتہ ہزار برس سے زیادہ مدت میں اس ملک کی تعمیر وترقی میں اپنی بہترین صلاحیتیں صرف کی ہیں اور پھر باہر سے حملہ آور استعماری طاقت نے اقتدار ہم سے ہی چھینا اس لیے قدرتی طور پر اس سے ملک کو آزاد کرانے کی جنگ میں سوبرس سے زائد (۱۷۵۴ء تا ۱۸۵۷ء) تنہا ہم ہی میدان جنگ میں رہے۔ علی وردی خاں ، سراج الدولہ، ٹیپوسلطان، شاہ عبدالعزیز، سیداحمد شہید کے کارنامے اس کے جلی عنوان ہیں ، اس کے بعد ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی اگرچہ مشترک طور پر شروع ہوئی؛ لیکن قیادت ہمارے بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے کی اور اسی وقت میں ہمارے روحانی بادشاہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی قیادت میں ان کے قریبی رفقاء ومنتسبین، حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، حافظ ضامن شہیدؒ وغیرہ اور اسی دور میں علماء صادق پور وعظیم آباد، پھر شیخ الہند حضرت مولانا محمودحسن دیوبندی اور ان کے تربیت یافتہ حضرات مولانا عبیداللہ سندھیؒ، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ اور دیگر بے شمار خواص وعوام کی قربانیاں اس ملک کی تاریخ کا حصہ ہیں ، جن کے نقوش یہاں کے چپہ چپہ پر ثبت ہیں ، ایسی روشن تاریخ رکھنے والی قوم کے بارے میں اگر آپ شکوک وشبہات کا شکار ہوں یا اس کو ملک بدر کرنے کے خواب دیکھیں تو یہ آپ کی ناانصافی اور خام خیالی ہے۔

            دوسری بات احقر نے اپنے کلمہ گو بھائیوں کو مخاطب کرکے عرض کی کہ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت جس چیز کی ہے وہ اپنے کردار واخلاق کو صحیح کرنا ہے، اس لیے کہ موجودہ حالات درحقیقت ہمارے اعمال کی خرابی اور اخلاقی پستی کا ہی نتیجہ ہیں ، ہمیں اپنے خالق اور اس کی مخلوق کے ساتھ اپنے کردار کو ایسے معیار پر لے آنا چاہیے کہ ہمارے ساتھ کچھ وقت گزارنے والا آدمی ہم سے اور ہمارے مذہب سے قریب ہوجائے۔ اس کے بعد ہی ہم دعوت کی ذمہ داری ادا کرنے کے لائق بھی ہوسکیں گے۔ اسی کے ساتھ مسلمانوں کو مایوسی اور خوف سے دور رہنے کی بھی تلقین کی گئی۔

            ضمناً گفتگو میں اور بھی کچھ ضروری باتیں آئیں اور اختتام ان کلمات پر ہوا :

            ’’آج سے سترسال پہلے ہمارے قائدمجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رحمۃ اللہ علیہ نے پارلیمنٹ میں کہا تھا: ’’آج اگر اس سرزمین پر گاندھی جی، جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل کو کوئی حق حاصل ہے تو وہی حق حسین احمد، کفایت اللہ اور حفظ الرحمن کو بھی حاصل ہے اور ان کے اس حق کو کوئی چھین نہیں سکتا‘‘ اسی کا اتباع کرتے ہوئے یہ کمزور وناتواں بندہ دارالعلوم دیوبند کے طاقت ور اسٹیج سے یہ کہتا ہے کہ  ’’آج اگر اس ملک میں ہمارے وزیراعظم نریندرمودی، ہمارے وزیرداخلہ امت شاہ اور ا ٓرایس ایس چیف موہن بھاگوت جی کو کوئی حق حاصل ہے تو وہی حق مولانا ارشدمدنی، مولانا محمودمدنی، مولانا ابوالقاسم نعمانی، مولانا عبدالخالق مدراسی، مولانا رابع حسنی اور مولانا ولی رحمانی یہاں تک کہ اس عبد ضعیف کو بھی اور کشمیر سے کنیا کماری تک ہر گائوں میں رہنے والے ہر عبداللہ اور عبدالرحمن کو بھی حاصل ہے اور اس حق کو کوئی چھین نہیں سکتا، اللہ رب العزت ہمارے اس ملک کی حفاظت فرمائے۔

            ۲۶؍جنوری کو ہونے والے اس بیان کا خلاصہ پیش کرنے کے بعد آخرمیں نہایت اختصار کے ساتھ پوری ملت اور خاص طور پرقائدین ملت کی خدمت میں یہ عرض ہے کہ آنے والے ایام ہماری تاریخ میں نہایت اہمیت کے حامل؛ بلکہ ایک نازک موڑ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ پھر دہلی اور دیوبند سمیت پورے ملک میں جاری احتجاج نے آپ کی ذمہ داری مزید بڑھادی ہے، ان قربانیوں کو مفید نتائج تک پہنچانے اور آنے والے خطرات سے ملک وملت کو محفوظ رکھنے کے لیے حددرجہ ضروری ہوگیا ہے کہ آپ حضرات مکمل دیانت واخلاص کے ساتھ پوری فعالیت کا ثبوت دیتے ہوئے مشترکہ اور متفقہ فیصلے لینے کی کوشش کریں اور اس اتفاق وارتباط میں کسی بھی چیز کو آڑ نہ بننے دیں ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ لمحوں کی خطا کی سزا صدیوں بھگتنے کا محاورہ اسی دور پر صادق آجائے، خدانخواستہ اگر ایسا ہوا تو ہر شخص دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اپنی اپنی حیثیت وکردار کے مطابق نتائج کا ذمہ دار ہوگا۔

            اللہ رب العزت اس امت کے ہر ہر فرد کو اس ملک میں پوری عزت واستحکام کے ساتھ اور اپنے مکمل دین پر استقامت کے ساتھ محفوظ رکھے۔

——————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ : 2-3،    جلد:104‏،  جمادى الاول  1441ھ مطابق فروری-مارچ 2020ء

٭           ٭           ٭

Related Posts