از: مدثر جمال تونسوی

جامعۃ الصابر، بہاولپور

            علمائے احناف میں ایک قدر آور علمی شخصیت جن کی کتب صدیوں سے مدارس اسلامیہ میں مروج و مقبول ہیں ، امام عبداللہ بن احمد بن محمود نسفی ہیں ، جن کی کنیت ابوالبرکات اور لقب حافظ الدین ہے، ان کی حیات اور  علم عقائد سے متعلق خدمات کا کچھ تذکرہ اس مضمون میں پیش کیا جارہا ہے۔

            امام موصوف کے آباء و اجداد بھی نامور علمی شخصیات تھے، اس کا پتہ اس بات سے چلتا ہے کہ ان کی کتابوں کے مقدمات میں ان کے آباء و اَجداد کو مختلف بلند پایہ اَلقاب سے یاد کیا گیاہے۔ چنانچہ امام موصوف کی کتاب ’’المصفی شرح المنظومۃ النسفیۃ‘‘ کے مقدمے میں لکھا گیا ہے:

          ’’قال عبداللّٰہ ابن الصدر السعید المغفور لہ الشہید حمید الملۃ والدین احمد ابن الصدر السعید حافظ الدین محمود النسفی لازالت آثارہ فی الفضل مشہورۃ و حسبان ایدیہ موفورۃ و خص اللّٰہ تعالیٰ اسلافہ الغر الکرام بالوصول التام…‘‘

            اس عبارت سے صاف پتہ چلتا ہے کہ امام موصوف نے ایسے گھرانے میں جنم لیا جو پہلے سے ہی علم و فضل، شرافت و سیادت، امامت و فضیلت اور علمی صدارت و ریاست کے شرف سے مشرف تھا۔ اس طرح گویا امام موصوف پر یہ لقب صادق آتا ہے: الکریم ابن الکریم ابن الکریم۔

ولادت:

            امام موصوف نے کس شہر میں ولادت پائی؟ اس سلسلے میں کوئی صریح روایت اہل علم کو نہیں مل سکی، اسی طرح امام موصوف کی تاریخ پیدائش کی بھی صراحت دستیاب نہیں ہے؛ البتہ امام موصوف کے شیخ و استاذ شمس الائمۃ محمد بن عبدالستار الکَردری کی وفات سنہ ۶۴۲ھ سے ان کی ولادت کا اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس کے آس پاس اما م موصوف کی پیدائش ہوئی ہوگی۔

            وفات: علامہ عبدالحی لکھنویؒ لکھتے ہیں :

            دخل الامام النسفی بغداد سنۃ ۷۱۰ھ و کانت وفاتہ فی ھذہ السنۃ

            امام نسفی سنہ ۷۱۰ھ میں بغداد شہر میں آئے تھے، اور اسی سال ان کی وفات ہوئی تھی۔

            جب کہ ملا علی القاریؒ نے اما م موصوف کا سنہ وفات ۷۰۱ھ درج کیا ہے۔

            اور علامہ قاسم ابن قطلوبغا اپنے رسالہ ’’الاصل فی بیان الوصل و الفصل‘‘ میں لکھتے ہیں :

            ان موت النسفی کان بعد عشر و سبعمائۃ

            امام نسفی کی وفات ۷۱۰ھ کے بعد ہوئی۔

            اس طرح امام موصوف کی تاریخ وفات کے بارے میں تین قول ہیں ؛ البتہ ان میں سے پہلا قول زیادہ مشہور ہے۔ و اللہ اعلم

            یہ تو تاریخ وفات کا معاملہ ہے۔ جہاں تک ان کے مقام تدفین کا تعلق ہے تو اس پر تقریباً اتفاق ہے کہ امام موصوف ’’ایذج‘‘ نامی شہر میں مدفون ہیں جو کہ خوزستان اور اصبہان کے درمیان ایک علاقے کا نام ہے۔

شیوخ و اَساتذہ:

            سیرت نگاروں نے امام نسفی کے اساتذہ و شیوخ اور ان کے تلامذہ و شاگردوں کا بہت ہی اجمالی ذکر کیا ہے۔ المنھل الصافی میں علامہ ابن تغری بردی نے لکھا ہے:

            تفقہ بجماعۃ من اعیان العلماء حتی برع فی الفقہ و الاصول و العربیۃ و اللغۃ

            ’’امام موصوف نے نامور علماء کی ایک بڑی جماعت سے علم حاصل کیا، یہاں تک کہ فقہ، اصول، عربیت اور لغت میں خوب مہارت حاصل کر لی۔‘‘

            لیکن مقام تفصیل میں امام موصوف کے صرف تین مشایخ کا نام ذکر کیاہے،حالانکہ امام نسفی کے علمی مقام، علمی تصانیف اور طویل عمر دیکھنے سے یہ بات بالکل عیاں ہوتی ہے کہ امام موصوف کے شیوخ کی یہ تعداد بہت ہی کم ہے۔ و اللہ اعلم

            بہر حال سیرت نگاروں نے امام نسفی کے جن اساتذہ کا نام درج کیا ہے، وہ درج ذیل ہیں :

            (۱)       شمس الائمۃ محمد بن عبدالستار الکَردری (متوفیٰ۶۴۲ھ)

            (۲)       امام حُمید الدین الضریر علی بن محمد الرامشی البخاری (متوفیٰ۶۶۶ھ)

            ان کی وفات پر ان کی نماز جنازہ ان کے شاگرد امام نسفی نے ہی پڑھائی، اور انھوں نے ہی اپنے اس استاذ کو قبر میں اُتارا، اور کہا جاتا ہے کہ ان کی نماز جنازہ میں پچاس ہزار کے قریب اَفراد شریک تھے۔

            (۳)      امام بدرالدین خواہر زادہ محمد بن محمود الکَردری(متوفیٰ۶۵۱ھ)۔ یہ امام شمس الائمۃ کردری کے بھانجے تھے۔

تنبیہ:

            بعض کتابوں میں لکھا گیا ہے کہ امام نسفی نے امام محمد بن حسن کی کتاب ’’الزیادات‘‘ ، کو امام احمد بن محمد العتابی سے روایت کیا ہے؛ لیکن علامہ عبدالحئی لکھنویؒ نے اس روایت کو سختی سے رد کیا ہے اور لکھا ہے کہ بھلا ایک شخص جس کی وفات ۷۱۰ھ ہے وہ اُس شخص سے کیوں کر روایت لے سکتا ہے جس کی وفات سنہ۵۸۶ھ میں ہوچکی ہو!

تلامذہ

            شیوخ کی طرح تلامذہ کا معاملہ بھی یہی ہے کہ مقام اجمال میں ان کے شاگردوں کی بڑی تعداد  کا ذکر ہے جب کہ مقام تفصیل میں چار اہل علم کا نام ملتا ہے، جیسا کہ دکتور سائد بکداش نے لکھا ہے۔

            مقامِ اِجمال میں سیرت نگار لکھتے ہیں :

            انہ تصدر للافتاء و التدریس سنین عدیدۃ و انہ انتفع بہ غالب علماء عصرہ

            ’’امام نسفی کئی سالوں تک افتداء اور تدریس کے منصب پر فائز رہے، اور ان کے زمانے کے اکثر اہل علم نے اُن سے استفادہ کیا۔‘‘

            مقام تفصیل میں آپ کے جو شاگرد بتلائے گئے ہیں وہ درج ذیل ہیں :

            امام حسام الدین حسن بن علی الصغناقی (متوفیٰ۷۱۴ھ)۔ فقہ حنفی کی معروف کتاب ھدایہ کی سب سے بڑی شرح النھایۃ ان کی تحریر کردہ ہے۔

            امام مظفر الدین ابن الساعاتی احمد بن علی (متوفیٰ۶۹۴ھ)۔ فقہ حنفی کی معروف کتاب ’’مجمع البحرین‘‘ اور اصول فقہ کی کتاب ’’البدیع‘‘ انہی کی تالیفات ہیں ۔

            محمد بن محمد البجلی۔ ان کی طرف اپنے استاذ امام نسفی کی کتاب المنار کی شرح موسوم بہ جامع الاسرار منسوب ہے۔

            عبدالعزیز بن احمد البخاری (متوفیٰ۷۳۰ھ)۔

            علامہ ابن الہمام نے اپنی ہدایہ کی سند میں ان کا ذکر کیا ہے اور انہیں امام نسفی کا شاگرد بتلایا ہے۔

علمی اَسفار

            چونکہ امام موصوف کے حالات زندگی کی تفصیلات بہت ہی کم دستیاب ہیں ، اس لیے آپ کے علمی اَسفار کی تفصیلات بھی اوجھل ہیں ، البتہ سیرت نگاروں نے اتنا معلوم کیا ہے کہ امام موصوف کی ولادت ’’نسف‘‘ میں ہوئی، پھر انھوں نے جو علمی سفر کیے ان میں ایک بخارا کا سفر ہے جہاں انھوں نے امام شمس الائمۃ الکردری سے استفادہ کیا، دوسرا بغداد کے سفر کا ذکر ملتا ہے جیسا کہ پہلے علامہ عبدالحی لکھنوی کی عبارت میں اس کی صراحت گزر چکی ہے اور تیسرا ’’ایذج‘‘ نامی علاقے کا ذکر ملتا ہے جو اصبھان کے قریب ایک بستی ہے اور وہیں ان کی وفات اور تدفین ہوئی ہے۔

عالمانہ شان

            امام موصوف کو سیرت نگاروں نے جو بلند پایہ القاب دیے ہیں ان سے ان کی علمی شان ہویدا ہوتی ہے۔ امام سخاوی شافعی جو کہ حافظ ابن حجر عسقلانی کے مایہ ناز شاگرد ہیں وہ ’’امام نسفی‘‘ کو ’’علامۃ الدنیا‘‘ کا وقیع ترین لقب دیتے ہیں ۔ جب کہ دیگر القاب کی فہرست کچھ اس طرح ہے:

            ’’الامام العلامۃ، شیخ الاسلام، صاحب التصانیف الجلیلۃ المشہورۃ، کان اماما کاملا فاضلا محررا مدققا، عدیم النظیر فی زمانہ، راسا فی الفقہ و الاصول، بارعا فی الحدیث و معانیہ، اماما فی التفسیر و علومہ، و کان احد الزھاد المتاخرین‘‘

            آپ کے تلمیذ امام حسام الدین السغناقی ، آپ کو درج ذیل اوصاف سے یاد کرتے ہیں :

          ’’ الامام الزاہد، مدرک اللمحۃ، مصیب الرمزۃ، رئیس اھل الطریقۃ، تاج اہل الحقیقۃ، مصنف آخر الزمان، نفاع طلبۃ العلم الذین ھاجروا الاوطان، مولانا حافظ الدین النسفی‘‘ (الوافی شرح الحسامی)

            امام بدر الدین العینی شارح البخاری(متوفیٰ۸۵۵ھ) امام نسفی کی کتاب ’’کنزالدقائق‘‘ پر اپنی شرح کے مقدمے میں لکھتے ہیں :

          ’’و اخترت لذلک کتاب کنزالدقائق المنسوب الی القرم ای السید، الھمام، و الامام المعظم فی الانام، کَشَّاف المشکلات، حَلَّالِ المُعضلات: ابی البرکات عبد اللّٰہ بن احمد بن محمود النسفی…‘‘

            امام ابن تغری بردی (متوفیٰ۸۷۴ھ )اپنی کتاب ’’المنہل الصافی‘‘ میں اما م نسفی کے بارے میں لکھتے ہیں :

            انتھت الیہ رئاسۃ الحنفیۃ علما وعملا وکان احد العلماء الزھاد صاحب التصانیف المفیدۃ ھذا مع الخلق الحسن و التواضع الزائد و فصاحۃ اللفظ و طلاقۃ اللسان و محبتہ للفقراء و الطلبۃ و الاحسان الھیم۔

          وکان اماما عادلا، زاھدا خیرا، کریما متواضعا، مترفعا علی الملوک، متواضعا للفقرائ، لا یتردد لارباب الدولۃ و لا یجتمع بھم الا اذا اتوا الی منزلہ۔

          اثنی علی علمہ و دینہ غیر واحد من العلمائ، و لم یزل علی ما ھوعلیہ من العلم و العمل حتی ادرکہ الاجل۔

            ’’حنفیہ کی علمی اور عملی ریاست و سرداری انھیں پر ختم تھی، موصوف دنیا سے اعراض برتنے والے اصحاب علم میں سے ایک تھے، بہت سی مفید کتابوں کے مصنف تھے، اسی کے ساتھ اچھے اخلاق، قابل ذکر تواضع،عبارت فصیح،شستہ زبان، فقرائ، طلبہ سے محبت اور ان سے اچھا برتاؤالگ سے ان کی عمدہ صفات تھیں ۔

            امام موصوف عادل امام، نیک سیرت،دیندار، زاہد، سخی اور متواضع تھے۔ بادشاہوں کے سامنے خود کو اونچا کرکے رکھتے، اور فقراء کے لیے متواضع بن کر رہتے۔ ارباب حکومت کے پاس آمد و رفت کا مزاج نہیں تھا، اور نہ ہی ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کی عادت تھی، ہاں جب کبھی وہ خود ان کے گھر آتے تو الگ بات تھی۔

            امام موصوف کے علم و دین داری کی کئی علماء نے تعریف کی ہے، اور موصوف موت تک علم وعمل کے اسی عمدہ منہاج پر قائم رہے۔‘‘

تصنیفات

            امام موصوف کی تمام تر تصنیفات علمی و تحقیقی فوائد و نکات سے لبریز ہیں ، اور اسی لیے ان کی بعض کتب اب تک مدارس اسلامیہ میں پڑھی پڑھائی جار ہی ہیں ۔ ان کی تصنیفات کی ایک جامع فہرست درج ذیل ہے:

            (۱)       تفسیر:مدارک التنزیل و حقائق التاویل

            (۲)       العمدۃ فی عقائد اہل السنۃ و الجماعۃ

            (۳)      الاعتماد شرح العمدۃ فی عقائد اہل السنۃ و الجماعۃ

            (۴)      فضائل الاعمال

            (۵)      اللآلی الفاخرۃ فی علوم الآخرۃ

            (۶)       الوافی فی فروع الفقہ الحنفی

            (۷)      الکافی شرح الکافی

            (۸)      کنزالدقائق

            (۹)       المصفی شرح المنظومۃ النسفیۃ لابی حفص النسفی

            (۱۰)     المستصفی شرح الفقہ النافع لناصر الدین السمرقندی

            (۱۱)      المستوفی شرح الفقہ النافع

            (۱۲)     الشافی فی فروع الفقہ

            (۱۳)     منار الانوار۔ مختصر فی اصول الفقہ

            (۱۴)     کشف الاسرار شرح منار الانوار۔ شرح مطول

            (۱۵)     العطف من الکشف۔ شرح مختصر لمنار الانوار

            (۱۶)     شرح مطول للمنتخب فی اصول الفقہ للاخسیکثی

            (۱۷)  شرح مختصر للمنتخب فی اصول الفقہ للاخسیکثی

امام موصوف اور اعتقادی خدمات

            امام موصوف نے علم عقائد کی تین طرح خدمت کی ہے:

            (۱)اپنی تفسیر مدارک التنزیل میں عقائد سے تعلق رکھنے والی آیات کی تفسیر و تشریح میں نہ صرف اہل السنۃ و الجماعۃ کے عقائد کی ترجمانی کی ہے؛ بلکہ معتزلہ اور جہمیہ وغیرہ گمراہ فرقوں کی تردید بھی حسب موقع کرتے چلے گئے ہیں ۔

            دار العلوم دیوبند کے اُستاذ مولانااشتیاق احمدقاسمی اپنے ایک مضمون بنام ’’عربی تفاسیر کے ترجمے۔۔۔۔ تعارف و تجزیہ‘‘ میں اس تفسیر کا جامع تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں :

            ’’یہ تفسیر نہایت عمدہ ہے، جامعیت اور پیرایۂ بیان کی دِل کشی میں منفرد ہے ، اس میں گم راہ فرقوں کے عقائد باطلہ کی بھی بھرپور تردید کی گئی ہے ۔ حافظ ابن کثیرؒکی تفسیر کی طرح اسرائیلیات سے بالکل پاک ہے ، اہلِ علم نے ہمیشہ اسے پذیرائی بخشی ہے ۔ پہلے ہندوپاک کے مدارس میں داخلِ نصاب تھی، اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس میں فقہی مسائل ودَلائل حنفی نقطۂ نظر سے بیان ہوئے ہیں ۔  تفسیر اور علمِ تفسیر سے بے اِعتنائی کے دور میں جس طرح دوسری تفسیریں بے توجہی کا شکار ہوئی ہیں ، اسی طرح یہ تفسیر بھی ہوئی ، فإلی اللّٰہ المشتکیٰ!‘‘

            بعض اہل علم نے اس کی درج ذیل خوبیاں گنوائی ہیں :

            (۱)اَلفاظِ قرآنی کی لغوی اور شرعی تشریح

            (۲)آیات کے ذیل میں اُن سے متعلق ائمۂ قراآت کے اَقوال اور قراآت کا بیان

            (۳)عربی ضرب الامثال کا جابجا ذکر

            (۴)ملحدین اور گمراہ فرقوں کا رد اور ان کے اعتراضات کے مدلل جوابات

            (۵)فقہی مسائل میں فقہ حنفی کا بیان اور وجوہ ترجیح کا بیان

            (۶) اسرائیلی روایات سے حتی الامکان احتراز و اجتناب

            (۷)تفسیر و تشریح میں نہ تو بہت زیادہ توسع اور نہ ہی خلل انداز اِختصار

            (۸)حسب ضرورت مشکل مقامات کا صرفی و نحوی حل

            (۹)سہل انداز، فصیح عبارت اور عام فہم اسلوب

            (۱۰)اہل سنت کی نمائندگی اور ترجمانی کا خصوصی اِہتمام

            یہ اس تفسیر کی جامع خصوصیات کا مختصر سا ذکر ہے۔ عربی نسخوں کے ساتھ ساتھ اب اس کے کچھ اردو تراجم بھی شائع ہوچکے ہیں ۔

            (۲)  العمدۃ فی عقیدۃ اہل السنۃ و الجماعۃ:

            یہ امام موصوف کا علم عقائد پر مختصر سا متن ہے۔ اس کے بارے میں صاحبِ کشف الظنون حاجی  خلیفہ لکھتے ہیں :

            مختصر یحتوی علی اھم قواعد علم الکلام یکفی لتصفیۃ العقائد الایمانیۃ فی قلوب الانام۔ (مقدمۃ کتاب شرح العمدۃ بتحقیق عبداللّٰہ محمد عبد اللّٰہ اسماعیل۔ ناشر المکتبۃ الازھریۃ للتراث، مصر)

            ’’یہ ایک مختصر سا رسالہ ہے جو علم کلام کے اہم قواعد کو حاوی ہے اور لوگوں کے دلوں میں ایمانی عقائد کو صاف ستھرے انداز میں جمانے کے لیے کافی ہے۔‘‘

            یہ رسالہ ایک بار مستشرق کیورٹن کی تحقیق کے ساتھ سنہ ۱۸۴۳ء میں طبع ہوا ، مگر اب اس کے بعد سے پھردستیاب معلومات کی حد تک نایاب ہے۔

            (۳)  الاعتماد شرح عمدۃ العقائد:

            یہ امام موصوف کی اوپر ذکرکردہ کتاب کی مفصل شرح ہے، جو دکتور عبداللہ محمد عبد اللہ اسماعیل کی تحقیق سے’’ المکتبۃ الازھریۃ للتراث، مصر‘‘ سے شائع ہوئی ہے، اور اس وقت اسی کا ایک پی ڈی ایف نسخہ بندہ کے سامنے ہے۔ اسی کتاب میں ایک جگہ امام موصوف نے رئیس اہل سنت امام ابومنصور ماتریدی کے بارے میں یہ تبصرہ لکھا ہے کہ:

            ’’امام ابومنصور ماتریدی، امام ابوحنیفہ کے مذہب کے سب سے بڑے عالم ہیں ‘‘

            اسی لیے امام ابو منصور ماتریدی کے بعد علمائے حنفیہ عقائد کی مباحث میں عام طور سے امام ابوحنیفہ کی بجائے، امام ابومنصور ماتریدی کی طرف منسوب ہوئے، اور یہی علمی نسبت باقی نسبتوں پر غالب رہی۔

            اس کتاب کی ’’وجہ تالیف‘‘ بتاتے ہوئے امام ابوالبرکات النسفی رحمہ اللہ تعالیٰ کتاب کے آغاز میں لکھتے ہیں :

            لما رایت الھمم مائلۃ الی العمدۃ التی صنفتھا فی بیان عقیدۃ أھل السنہ و الجماعۃ و ھی ان کانت مشحونۃ بالروایات غیر خالیۃ عن الدرایات فھی مفتقرۃ الی شرح موضح للمشکلات مبین للمعضلات اردت ان اجمع کتاب فیہ شرح مسائلھا و بسط دلائلھا بتوفیق خالق العباد مسمی بالاعتماد فی الاعتقاد و اللّٰہ کاف من توکل علیہ و معین من فوض امرہ إلیہ و ھو حسبی و نعم المعین (ص۱۰۶-۱۰۷)

            ’’جب میں نے دیکھا کہ طلبہ علم میری کتاب ’’العمدۃ‘‘ کی طرف مائل ہورہے ہیں جسے میں اہل السنۃ و الجماعۃ کے عقائد کے بیان میں تصنیف کیا ہے، اور یہ کتاب اگرچہ روایات سے بھی پُر ہے اور درایات بھی خالی نہیں ہے مگر پھر بھی ضرورت تھی کہ اس کے مشکل مقامات کی توضیح اور پیچیدہ مباحث کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا جائے تو میں نے ارادہ کر لیا کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے جو کہ بندوں کا خالق ہے، ایک ایسی کتاب مرتب کروں جس میں اس کتاب کے مسائل کی تشریح اور دلائل کی تفصیل مذکور ہوجس کا نام ’’الاعتماد فی الاعتقاد‘‘ ہے۔

            اللہ تعالیٰ پر جو بھی توکل کرتا ہے اللہ اس کے لیے کافی ہے اور جو بھی اپنے امور اس کے سپرد کرتا ہے تو وہ اس کے لیے بہترین مددگار بنتا ہے اور وہی میرے لیے کافی ہے اور وہی بہترین مددگارہے۔‘‘

            کتاب کا مجموعی اسلوب وہی ہے جو ہمارے ہاں درس نظامی میں رائج متن عقیدہ نسفیہ کا ہے۔ البتہ تفصیل اور دلائل کی رد و قدح کے اعتبار سے اس میں بہت سی مفصل مباحث میسر ہیں ۔

            اس کتاب کا مجموعی اسلوب ’’تقابلی‘‘ ہے۔ امام نسفی رحمہ اللہ تعالیٰ صرف اپنے مسلک کے بیان پر اکتفاء نہیں کرتے؛ بلکہ جگہ جگہ دیگرمسالک کا موقف اور ان کے دلیل اور اس کا جواب یہ سب چیزیں بھی جامعیت اور اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں ، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف کا مطالعہ انتہائی وسیع تھا، وہ دیگر مسالک کے کبار اہل علم کی تحقیقات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور حسب موقع انہیں کتاب میں ذکر کرتے چلے جاتے ہیں ۔

            اس کتاب کے ایک اقتباس سے یہ بھی واضح ہوتاہے کہ مصنف نے یہ کتاب اصول فقہ پر اپنی معروف کتاب ’’المنار‘‘ اور اس کی شرح کے بعد تحریر کی ہے۔ چنانچہ متواتر اور الہام اور تقلید کے بیان میں لکھتے ہیں :

            و لما کانت المتواتر و الالہام و التقلید مذکورۃ فی اصول الفقہ اقتصرت علی ھذا القدر اتکالا علی ما اودعت فی شرح المنار۔ (ص۱۲۶)

            ’’چونکہ متواتر، الہام اور تقلید کی بحث اصول فقہ میں ذکر کی جاتی ہے؛ اس لیے اس بارے میں جو کچھ میں نے ’’شرح المنار‘‘ میں ذکر کیاہے اس پر اکتفاء کرتے ہوئے یہاں اسی اجمالی بیان پر اکتفاء کررہا ہوں ۔‘‘

            اس کتاب میں کل ۵۴فصول ہیں ، جس کا مطلب یہ ہے کہ عقائد کے متعلق ۵۴اہم مسائل کو ایک جامع عنوان کے ساتھ سمیٹا گیا ہے۔ کتاب کی پہلی فصل کا عنوان : ’’فصل فی حدوث العالَم‘‘، اور آخری فصل کا عنوان: ’’فصل فی ترتیب الصحابۃ فی الفضل‘‘ہے۔ اس میں ربط یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کا ایک بنیادی ذریعہ’’حدوثِ عالَم‘‘ کی معرفت ہے اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی لائی ہوئی شریعت ودین پر بھروسہ کرنے اور اس سے مستفید ہونے کے لیے حضرات صحابۂ کرامؓ کے متعلق صحیح عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ امت کے دیگر افراد اور رسول کے درمیان یہی پاکباز جماعت واسطہ اور ذریعہ ہے کہ اسی کے توسط سے بعدوالوں تک نبی کا لایا ہوا دِین پہنچتاہے۔

            الغرض علمائے حنفیہ کی جس طرح فقہی خدمات کا دامن وسیع ہے اسی طرح کلامی اور اعتقادی مباحث و مسائل میں علمی خدمات کا دائرہ بھی کافی وسیع ہے اور ہر دور میں ان کی خدمات مستقل طور پر جاری رہی ہیں جس کا ایک ثبوت امام ابوالبرکات نسفی کی ذات گرامی ہے کہ جس طرح ان کی فقہی تالیفات نے فقہی ذخیرے کو وسیع کیااسی طرح ان کی کلامی تالیفات نے اعتقادی تالیفات کے ذخیرے میں قابل قدر اضافہ کیا۔ فجزاہ اللّٰہ تعالیٰ خیرا

—————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 2-3،    جلد:104‏،  جمادى الاول  1441ھ مطابق فروری-مارچ 2020ء

٭           ٭           ٭

Related Posts