از: مفتی محمد اکمل یزدانی
معاون صدر مجلس تحفظ ختم نبوت بھوپال
شکیل بن حنیف اور اس کے پیروکاروں کی جانب سے دوران گفتگو جو سوالات اور دعوے عام طور پر کیے جاتے ہیں اور عوام الناس کو گمراہ کرنے کی بے جا کوششیں کی جاتی ہیں ، ان کا اجمالی خاکہ حسب ذیل ہے:
(۱) بات صحاح ستہ سے ہوگی اور کسی کتاب سے نہیں ۔
(۲) پیشینگوئیاں غیب کا علم ہے جو وقت پر پَرکھا جاتاہے، اور پرکھنے والا شخص وہ شکیل بن حنیف ہے۔
(۳) حدیث ابن ماجہ میں حضرت عیسیٰ اور حضرت مہدی دونوں ایک ہی شخصیت کے دو نام بتائے گئے ہیں ۔
(۴) بخاری ومسلم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صاف صاف پیدا ہونے کا ذکر ہے۔
(۵) حضرت مہدی کا نام محمد بن عبداللہ ہی ہوگا، حدیث میں ایسی صراحت نہیں ہے۔
(۶) عیسیٰ علیہ السلام جس امام کو نماز کے لیے آگے آنے کے لیے کہیں گے اس میں مہدی کی وضاحت نہیں ہے ۔ وہ امام کوئی بھی ہوسکتاہے۔
(۷) حدیث میں عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے اترنے کا ذکر نہیں ہے؛ بلکہ پیدا ہونے کا ذکر ہے۔ حدیث سے ’’ من السمائ‘‘ کا لفظ پیش کیجیے۔
مذکورہ امور کے علاوہ مختلف قسم کے بے تُکے سوالات اورایک ہی بات کو مختلف پیرائے میں پیش کرکے عوام الناس اور کم پڑھے لکھے لوگوں کو حق سے ہٹانے کی کوششیں کی جاتی ہیں ۔ جیسا کہ آگے آرہے سوالات کو پڑھ کر ہر شخص اس حقیقت کو بخوبی سمجھ سکتاہے۔ ورنہ اس کتاب کے سابقہ اوراق کو پڑھنے کے بعد اس طرح کے سوالات کے جواب دینے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ راقم الحروف نے سوالات کی نزاکت اور سائل کی منشاء کو مد نظر رکھ کر جوابات دینے کی کوشش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کاوش کو شرف قبولیت عطافرمائے اور شکیل بن حنیف اور اس کے پیروکاروں کے لیے ہدایت کا سامان بنائے۔ آمین۔
سوال نمبر-۱۔ بات صحاح ستہ سے ہوگی اور کسی کتاب سے نہیں ۔
جواب:- عام طور پر شکیل بن حنیف اور اس کے پیروکار وں کو یہ دھوکہ رہتاہے کہ احادیث کے باب میں حدیث کی مشہور صرف چھہ کتابیں (صحاح ستہ) ہی معتبر ہیں اور صحاح ستہ کے علاوہ دیگر کتابیں زیادہ قابل لحاظ نہیں ہیں ؛ چنانچہ شکیلی پیروکار جب کسی کم علم والے ساتھی سے بات کرتے ہیں تو پہلے تو علماء کی مذمت کرکے ان کا رشتہ علماء سے کاٹ دیتے ہیں اور ساتھ ہی دھڑلّے سے یہ بھی کہتے ہیں علماء جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ صحاح ستہ سے ثابت نہیں کرسکتے، جس سے کم علم رکھنے والا عام آدمی اس شکیلی داعی کے شکنجے کا شکار ہوجاتاہے اور بے خوف عوام الناس کے سامنے چیلنج کرتاپھرتاہے کہ علماء صحاح ستہ سے مہدی اور مسیح کو الگ الگ اور عیسیٰ ابن مریم کے آسمان سے نزول کوثابت کرکے دیکھائیں ۔ اور جب علماء عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے نزول کو ثابت کردیتے ہیں تو اُس شکیلی یہ کہہ کر صاف انکار کردیتے ہیں کہ یہ صحاح ستہ میں نہیں ہے؛ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دراصل ان شکیلیوں کو صحاح ستہ پربالکل کوئی اعتماد نہیں ہے؛ چنانچہ جب ان کے سامنے صحاح ستہ کی روایت پیش کردی جاتی ہے تواسے ضعیف کہہ کرا نکار کر دیتے ہیں ، بھلے ہی وہ حدیث صحیح کیوں نہ ہو۔
جب کہ کسی بھی روایت کی صحت وضعف اور مقبول ومردود کی بنیاد صحاح ستہ کو ہی بنانا اور حدیث کی دیگر کتابوں سے کنارہ کشی کرنا یہ سب سے بڑی بھول اور شیطانی وسوسہ ہے۔ یہ ایک ایسا وسوسہ ہے جس نے دنیا میں کئی فرقے پیدا کردیے۔ اور آج بھی کئی انصاف پرور لوگ ذہنی الجھنوں کے شکار ہیں ؛ جب کہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ احادیث کی صحت وضعف اور مقبول ومردود کی بنیاد ان کی سند اور راویوں کے حالات پر ہے ، وہ احادیث خواہ صحاح ستہ میں ہو، یا صحاح ستہ سے پہلے کی کتب حدیث میں ہو یا صحاح ستہ کے بعد کی کتب حدیث میں اور یہ اس لیے کہ صحاح ستہ کوئی شرعی اصطلاح نہیں ہے کہ دین کی ہر بات سے متعلق انھیں میں روایات کا موجود ہونا ضروری ہو اور ان کتابوں کے علاوہ کسی حدیث کی کتاب میں موجود روایت پر عمل نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی صحاح ستہ کے کسی بھی مصنف نے یہ دعویٰ کیا کہ میری کتاب صحاح ستہ میں شامل ہونا چاہیے؛ بلکہ ان کتابوں کی جودت ترتیب اور حسن ابواب کی بناء پر صحاح ستہ کے مصنّفین کے اس دنیا سے تشریف لے جانے کے مدتوں بعد صحاح ستہ کی اصطلاح برصغیر میں وجود میں آئی اور بعد میں پڑھنے پڑھانے کے اعتبار سے محدثین کا تعامل بن گیا۔
کیا شکیل بن حنیف یا اس کا پیروکار صحاح ستہ کی کوئی شرعی حیثیت قرآن وحدیث کی روشنی میں بتاسکتے ہیں ؟ کیا صحاح ستہ کی اصطلاح کو متفق علیہ ثابت کرسکتے ہیں ؟ کیا صحاح ستہ کی ہر حدیث صحیح ہے اور صحاح ستہ کے علاوہ ہر حدیث غیر صحیح اور ضعیف یا موضوع ہے ؟ کیا صحاح ستہ کے مصنّفین میں سے کسی نے اپنے ماقبل کی کسی بھی حدیث کی کتاب کو ماننے سے انکار کیا ہے ؟ کیا صحاح ستہ کے مصنّفین میں سے کسی ایک نے بھی اپنی اپنی کتاب کو حدیث کی بنیاد اور اساس کے طور پر پیش کیا ہے ؟ کیا اللہ کے رسول ﷺ سے منقول ساری حدیثیں صحاح ستہ میں جمع کردی گئی ہیں ؟ کیا صحاح ستہ اور ان سے ماقبل کی ساری کتابوں میں اللہ کے رسول کی ساری حدیثیں جمع ہوگئی تھیں کہ ان کتابوں کے بعد حدیث کی کسی کتاب کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی تھی ؟ کیا صحاح ستہ کے مصنّفین نے اپنے سے پہلے محدثین کی کتابوں سے ہی احادیث اخذکی ہیں یا کچھ روایتیں ایسی بھی تھیں جو سند کے اتصال وغیرہ کا لحاظ رکھ کر اپنی کتابوں میں جمع کی ہیں خواہ وہ پہلے کی کتب حدیث میں ہوں یا نہ ہوں ، چونکہ صحاح ستہ کے مصنّفین کا دور تیسری صدی کا دور ہے۔ تو ظاہر ہے یہ حضرات مصنّفین اپنی اپنی صحیح میں جن روایتوں کو لے کر آئے ہیں وہ روایتیں یاتو ان سے پہلے کی کتابوں میں ہوں گی، یا پھر راویوں سے براہ راست ملاقات کرکے اور ہر راوی نے اپنے سے پہلے کے راوی کے حوالہ سے روایتیں جمع کی ہونگی۔ اگر یہ صورت حال ٹھیک ہے اور ایسا ہی ہے تو پھر صحاح ستہ کے بعد کی کتابوں میں یہ صورت حال ٹھیک کیوں نہیں ہے۔ بیہقی وغیرہ کو صحاح ستہ کے بعد کی کتاب مان کر انکار کیوں کردیا جاتاہے ؟ اس طرح کے بے شمار سوالات پیدا ہوں گے جن کا شکیل بن حنیف اوراس کے پیروکار کے پاس یقینا کوئی جواب نہیں ہے۔ لہٰذا حدیث کے مقبول ومردود ہونے کی بنیاد واساس صحاح ستہ کو ہی ٹھہرانا سرے سے ہی غلط ہے؛ کیوں کہ صحاح ستہ کی ہر حدیث صحیح ومقبول نہیں ہے اور غیر صحاح ستہ کی ہر حدیث ضعیف وموضوع اور غیر مقبول نہیں ہے؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ صحاح ستہ میں اکثر روایتیں صحیح اور بعض روایتیں ضعیف یہاں تک کہ موضوع و من گھڑت بھی ہیں اور غیر صحاح ستہ کتب میں بھی اکثر روایتیں صحیح وحسن ہیں ؛ کیوں کہ صحاح ستہ کے مصنّفین نے تمام ہی صحیح روایتوں کے استحصار کے دعوے نہیں کیے کہ غیر صحاح ستہ کتب حدیث کو نظر انداز کردیا جائے۔
ظہور مہدی اور نزول عیسیٰ ابن مریم اور خروج دجال سے متعلق خیرالقرون سے لے کر ہر دور میں امت کا اجماعی عقیدہ رہا ہے کہ حضرت محمد بن عبداللہ مہدی مدینہ منورہ میں پیدا ہوں گے، حضرت عیسی ابن مریم آسمان سے دمشق میں اتریں گے اور دجال جو عجیب الخلقت انسان ہے اسے قتل کریں گے تو اسے ماننے سے انکارکیوں کیا جارہاہے ؟ بہرکیف صحاح ستہ کا نام لے کر عوام کو دھوکہ دینا یہ کہیں سے بھی روا نہیں ہے۔
اچھا ایک بات اور بتاؤ جب ظہور مہدی ،نزول عیسی ابن مریم اور خروج دجال سے متعلق صحاح ستہ کی روایتیں ہی تمہاری نظر میں اساس وبنیاد ہیں ، جیسا کہ تم عوام الناس کو صحاح ستہ کے نام سے دھوکہ دینے کی ناپاک کوششیں کرتے ہو تو کیا تم نے کبھی اپنے(حضرت جی شکیل بن حنیف) کی کتاب ـ’’حضرت مہدی علیہ السلام کی آمد کی پیشینگوئیاں ‘‘ نہیں پڑھیں ، جس میں صحاح ستہ کی روایتیں کم، دیگر حدیث کی کتابوں سے روایتیں زیادہ لی گئی ہیں اور من چاہی تشریح سے اپنے ناپاک دعویٰ کو ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔ اگر نہیں تو ایک بار ضرور پڑھیے؛ تاکہ حقیقت تمہارے سامنے واضح ہوجائے۔
صحاح ستہ اصطلاح کی حقیقت
محدثین کے یہاں صحاح ستہ کی اصطلاح کو بہ تدریج فروغ ملا ہے، سعید بن سکن متوفی ۳۵۳ھ نے چار کتب حدیث، بخاری، مسلم، سنن ابی داؤد اور نسائی شریف ہی صحاح کتب حدیث قرار دیاہے : ہذہ قواعد الاسلام، کتاب مسلم وکتاب البخاری وکتاب ابی داؤد وکتاب النسائی(شروط الائمہ الستہ ص۱۶) گویا یہ صحاح اربعہ کے قائل تھے ، یہی نظریہ حافظ ابوعبداللہ بن مندہ نے اپنی مخرجین صحاح میں پیش کیا ہے۔ ترمذی شریف کو کافی بعد میں حافظ احمد بن محمد ابوالطاہر السلفی متوفی ۵۷۶ھ نے صحاح اربعہ میں شامل کرتے ہوئے صحاح خمسہ کی اصطلاح ایجاد فرمائی؛ چنانچہ علماء اور حفاظ حدیث بالخصوص حافظ ابن الصلاح اور امام نووی بھی انھیں پانچ کتابوں کے کتب اصول ہونے کے قائل رہے اور اسی پس منظر میں امام ابوبکر حازمی نے ’’شروط الائمۃ الخمسۃ‘‘ تالیف فرمائی۔
جہاں تک ابن ماجہ کی شمولیت کا سوال ہے تو اس کتاب کی جودت ترتیب اور مسائل کے باب میں کثیر النفع ہونے کی وجہ سے اسے صحاح ستہ میں شامل کرنے والے سب سے پہلے محمد بن طاہر بن علی المقدسی متوفی ۵۰۷ھ ہیں ۔ جب کہ آپ ہی کے معاصر محدث رزین بن معاویہ عبدری مالکی متوفی ۵۲۵ھ نے صحاح ستہ کی چھٹی کتاب ابن ماجہ کی بجائے موطأ امام مالک کو قرار دیاہے۔ ابن الاثیر الجزری متوفی ۶۰۶ھ نے اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ (تدریب الراوی ص ۵۶) بقول محدث ابوالحسن سندھیؒ اکثر متاخرین کتب ستہ میں چھٹی کتاب کی حیثیت سے ابن ماجہ ہی کو مانتے ہیں ۔ اور بقول علامہ کتانیؒ بعض حضرات صحاح ستہ کی بجائے صحاح سبعہ کے قائل ہیں ۔ پھر بعض حضرات موطا کی جگہ مسند دارمی کو صحاح سبعہ میں شامل مانتے ہیں ۔
صحاح ستہ کی اصطلاح کی حقیقت اس طرح ہے کہ :
٭ پہلا دور : صحاح اربعہ ( بخاری، مسلم، ابوداؤد اور نسائی)
٭ دوسرا دور : صحاح خمسہ (بخاری، مسلم، ابوداؤد، نسائی اور ترمذی)
٭ تیسرا دور : صحاح ستہ (بخاری، مسلم، ابوداؤد، نسائی، ترمذی اور ابن ماجہ)
٭ چوتھا دور : صحاح سبعہ (بخاری، مسلم، ابوداؤد، نسائی، ترمذی،ا بن ماجہ اور موطا امام مالک ، بعض نے مؤطاامام مالک کی جگہ مسند دارمی کو جگہ دی ہے)
خلاصہ یہ کہ صحاح ستہ کوئی شرعی اصطلاح نہیں ہے؛ بلکہ صحاح ستہ کے مصنّفین کے وصال کے بعد یہ اصطلاح بہ تدریج رائج ہوئی، ا س پر بھی ائمہ محدثین کا اختلاف موجود ہے، لہٰذا دین کے کسی مسئلہ کے ثبوت کا انحصار صحاح ستہ پر ہی رکھنا کہیں سے روا نہیں ہے۔ لہٰذا شکیل بن حنیف اور اس کے پیروکاروں کے اس طرح کے دعوے کہ ’’بات صرف صحاح ستہ سے ہی ہوگی‘‘ یہ ان کی کم علمی اور کم عقلی کی بات ہے۔ اس سلسلہ میں مولانا اشرف عباس قاسمی استاذ دارالعلوم دیوبند کا مضمون بعنوان ’’ صحاح ستہ تعارف وخصوصیات‘‘ بہت ہی قیمتی ہے۔ تفصیلات وہاں پڑھی جاسکتی ہیں (ماہنامہ دارالعلوم: شمارہ 3، جلد98، جمادی الاولیٰ 1435 ہجری مطابق مارچ 2014ئ)
یہ اور بھی واضح کرنا مناسب سمجھتاہوں کہ صحاح ستہ کے مصنّفین نے اللہ کے رسول ﷺ کی تمام روایتوں کو اپنی اپنی کتابوں میں نہ تو جمع فرمایا ہے اور نہ ہی ان حضرات مصنّفین نے تمام روایتوں کے استیعاب کے دعوے کیے ہیں ؛ بلکہ امام بخاری نے یہاں تک لکھا ہے کہ ما ادخلت فی کتاب الجامع الا ما صح وترکت من الصحاح لحال الطول(میں نے جامع بخاری میں صحیح روایتوں کولیاہے اور صحاح میں سے بہت ساری روایتوں کو طوالت کی وجہ سے چھوڑ دیا ہے)(حضرت خلیفہ مہدی ص: ۶۷ بحوالہ مقدمہ ابن الصلاح ص : ۲۶)
بہرکیف شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ کے مطابق چھہ کتابیں جو کہ اسلام میں مشہور ہیں ، محدثین کے مطابق وہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ ہیں ۔ ان کتابوں میں حدیث کی جتنی قسمیں ہیں صحیح، حسن اور ضعیف ، سب موجود ہیں اور ان کو صحاح کہنا تغلیب کے طورپر ہے۔ (ماہنامہ دارالعلوم بحوالہ اشعۃ المعات)
اور بقول مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب ” صحاح ستہ کے نام سے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان میں ہر حدیث صحیح ہے اور بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے علاوہ کوئی حدیث صحیح نہیں ؛ لیکن یہ دونوں باتیں غلط ہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ نہ صحاح ستہ کی ہر حدیث صحیح ہے اور نہ اُن سے باہر کی ہر حدیث ضعیف ہے؛ بلکہ صحاح ستہ کی اصطلاح کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص ان چھہ کتابوں کو پڑھ لے اس کے سامنے اصولِ دین سے متعلق صحیح روایات کا ایک بڑا ذخیرہ آجاتاہے، جو دین کے معاملات میں کافی ہے۔ (ماہنامہ دارالعلوم بحوالہ درس ترمذی ، مقدمہ ۱۲۶/۱)۔ صحاح ستہ سے متعلق مزید اور تشفی بخش تحقیق کے لیے مطالعہ کریں ماہنامہ دارالعلوم شمار نمبر 1 اور 3 جلد 98)
الحاصل صحاح ستہ کا نام لے کر محض کم فہم مسلمانوں کو گمراہ کرنا ہے ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ شکیل نے خود اپنی کتاب ’’ امام مہدی علیہ السلام کی آمد کی پیشین گوئیاں ‘‘ میں صحاح ستہ کے علاوہ بہت بعدکی کئی کتابوں سے روایتیں نقل کی ہیں اور من گھڑت معنی کرکے اپنی شیطانی جال میں پھنسا نے کی پوری کوشش کی ہے۔
مگر افسوس صد افسوس کہ شکیلی پیروکاروں کا دعویٰ کہ ـ’’بات صرف صحاح ستہ سے ہوگی اور مطلب وترجمہ ہمارے حضرت جی شکیل بن حنیف کا ہوگا‘‘ یہ پہلے سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ بخاری کی روایت کیف انتم اذا نزل عیسیٰ ابن مریم فیکم وامامکم منکم اور ابن ماجہ کی روایت لاالمہدی الا عیسی ابن مریم کا ترجمہ ومفہوم جو شکیل بن حنیف یا اس کے پیروکار سمجھ رہے ہیں ، یہ ترجمہ ومفہوم خیرالقرون سے لے کر آج تک امت کے کسی بھی اہل السنۃ والجماعۃ کے فرد نے نہیں کیا اور نہ سمجھا؛ بلکہ صاف لفظوں میں یہی تشریح فرمائی ہے کہ جب عیسی ابن مریم دمشق میں آسمان سے اتریں گے تو نماز فجر (پہلی نماز) میں امام حضرت محمد بن عبداللہ المہدی ہوں گے اس کے بعد بقیہ ساری نمازوں میں حضرت عیسی ابن مریم امام ہوں گے اور حضرت مہدی اُن کی اقتدا فرمائیں گے؛ جب کہ حدیث ابن ماجہ کو صحیح مان لینے کی شرط پر ائمہ حدیث علامہ ابن حجر عسقلانی ؒنے یہی سمجھا کہ کامل مہدی اور گناہوں سے معصوم اپنے دور میں صرف حضرت عیسیٰ ابن مریم ہوں گے۔ اس میں کہیں نہیں کہاگیا کہ حضرت مہدی اورحضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام الگ الگ دو شخصیتیں نہیں ہیں ۔ صحاح ستہ کے بارے میں یہ مختصر وضاحت پڑھنے کے بعد کسی بھی فرد کو اس بات کا حق نہیں ہے کہ کسی مسئلہ کی تحقیق کے لیے صحاح ستہ کی قید لگائے۔
سوال-۲۔ مہدی کا نام محمد بن عبداللہ ہوگا ، یہ کس حدیث میں ہے ؟
جواب۔ حدیث : یواطی اسمہٗ اسمی وا سم ابیہ اسم ابی(ابوداود)ترجمہ: مہدی کا نام ہوبہو میرے نام ’’محمد‘‘ اور مہدی کے باپ کا نام ہو بہو میرے باپ کا نام ہوگا ’’ عبداللہ‘‘۔ سے صاف واضح ہوتا ہے کہ حضرت مہدی کا نام ’’محمد بن عبداللہ ‘‘ ہوگا۔ اسی حدیث سے شکیل بن حنیف نے بھی اپنے آپ کومحمد بن عبداللہ ہی مانا ہے۔ یہ بات اور ہے کہ اس نے نام میں یہ تحریف کی ہے کہ نام میں صرف لفظ ’’محمد‘‘ ہونا ہی کافی بتایا ہے اور باپ کے نام میں عبداللہ ضروری نہیں ’’حنیف‘‘ ہونا ہی کافی ہے،اور دلیل یہ دی کہ حضورؐ نے حضرت ابراہیم ؑکوا پنا باپ کہا ہے اور ابراہیم علیہ السلام کا اصل نام بھی مراد نہیں ؛بلکہ ان کا صفاتی نام حنیف مراد ہے۔ ( مہدی علیہ السلام کی آمد کی پیشینگوئیاں ص:43)۔ کتنی بھونڈی تاویل ہے کہ اس صورت میں تو دنیا کے سبھی لوگ مہدی بن جائیں گے۔ کیونکہ لفظ ’’محمد‘‘ تو نسبتاًزیادہ تر مسلمانوں کے نام کے شروع میں لگتاہی ہے اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی ملت پر ہو۔ ( انتم علی ملۃ ابیکم) اس میں ابراہیم علیہ السلام کو پوری امت کا باپ قرار دیاگیاہے۔ لہٰذا سارے مسلمانوں کے نام کے شروع میں لفظ ’’محمد‘‘ اور سبھوں کے روحانی باپ حضرت ’’ابراہیم‘‘ ہونے کی وجہ سے محمد کے والد ابراہیم ؑ یعنی عبداللہ ہوگئے۔ تو گویا پوری امت کے مسلمان محمد بن عبداللہ بن گئے۔ لہٰذا پوری امت مہدی کہلانے کی مستحق ہے، اس میں شکیل بن حنیف کی کیا تخصیص ہے۔
جب کہ کتاب الفتن لنعیم ابن حماد متوفی ۲۲۸ھ کی حدیث نمبر ۱۰۷۸ میں مہدی کے نام کی تشریح موجود ہے۔ عن کعبٍ قال اسم المہدی محمد او قال اسم نبی۔ترجمہ: حضرت کعب ؓ سے منقول ہے، انھوں نے کہا کہ مہدی کا نام محمد ہوگا یا کہا کہ نبی کے نام پریعنی محمد ہوگا۔) اور حقیقت یہ ہے کہ شکیل خاں کے نام کے شروع میں نہ لفظ ’’محمد‘‘ ہے اور نہ احمد؛ بلکہ اس کے نام کے اخیر میں احمد ہے اور اگر لفظ ’’ محمد ‘‘ ہے بھی تو وہ اپنے نام کے شروع میں صرف "Md” لکھتاہے جیسا کہ اس کے سرکاری ووٹر آئی ڈی نمبرIML043621 میں موجود ہے۔(تفصیل کے لیے دیکھیے لاالمہدی الا عیسی ابن مریم مولفہ مولانا شاہ عالم گورکھپوری )
شکیلیوں سے مطالبہ
جس طرح شکیلی پیروکار علماء حق سے حضرت مہدی کے نام کے بارے میں محمدبن عبداللہ ہونے کی صراحت حدیث سے مانگ رہے ہیں تو کیا کوئی شکیلی پیروکار اپنے حضرت جی کے نام وکنیت شکیل بن حنیف کی صراحت کسی حدیث یا کسی امام ہی کے قول سے پیش کرسکتے ہیں ؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں کرسکتے! تو ایسی بے تُکی مانگ کا حق انھیں کس نے دیا ہے ؟ جب کہ حدیث میں مہدی کے نام کی صراحت بھی موجود ہے جیسا کہ اوپر گذرا۔
سوال-۳۔ جب مہدی دنیا میں آئیں گے نبیوں والے طریقے سے دین کا کام کریں گے یا کوئی مدرسہ کھولیں گے یا کوئی خانقاہ کھولیں گے، یا جماعت اسلامی میں ہونگے یا اہل حدیث میں ہونگے، یا بریلوی ہونگے یا کس مسلک سے ہونگے۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں بتلائیں ؟
جواب۔ جب حضرت مہدی دنیا میں تشریف لائیں گے، وہ دوراُس وقت کا سب سے برُا دورہوگا۔ پوری دنیا ظلم وستم اور ناانصافی سے بھر چکی ہوگی۔ حضرت مہدی اپنی ایمانی فراست اور غیر معمولی صلاحیت کے ذریعہ دنیا سے ظلم وستم کو مٹائیں گے اور پھر دنیا عدل وانصاف سے اسی طرح بھر جائیگی جس طرح وہ ظلم وستم سے پہلے بھری ہوئی تھی۔ حدیث میں ہے: عن علیؓ عن النبی ﷺ قال لولم یبق من الدھر الا یومٌ لبعث اللّٰہ رجلاً من اھل بیتی یملأھا قسطاً وعدلاً کما ملئت جوراً۔ رواہ ابوداؤد۔ حضرت مہدی خلیفہ راشد کے طور پردنیا میں عدل وانصاف قائم کرنے کے لیے جس طرح کام کرنے کی ضرورت محسوس کریں گے، قرآن وحدیث کی روشنی میں کریں گے۔ احادیث میں ایسی کوئی صراحت نہیں ہے جس کے بارے میں سائل نے بغرض عناد دریافت کیاہے، اور نہ ہی اہل السنۃ والجماعۃ کا کوئی فرد سوال میں پوچھی گئی باتوں کا دعویدار ہے۔ نبی علیہ الصلوٰۃ ووالسلام کی سنت جس طریق سے بھی آگے امت تک پہونچی ہے وہ سب نہج نبوت ہے۔ اسلام جب تیزی سے دنیا کی چاروں سمت میں پھیلا تو صحابہؓ ، تابعینؒ اور تبع تابعینؒ اور سلف صالحینؒ نے حضورؐ کی منشاء کے مطابق دین کی ترویج واشاعت کے اقدامات کیے۔ صحابہؓ میں علماء صحابہ بھی تھے جن سے حضور علیہ السلام کی موجودگی ہی میں مسائل دریافت کیے جاتے تھے اور دور خیر القرون میں تو تحریر وتقریر اور اصلاحی نظام کے لیے مستقل کام کیے جاتے رہے۔ بعض نے درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا، بعض نے میدان تحریر کو اپنا کام بنایا۔ بعثت رسول ؐکے چاروں مقاصد، تلاوت قرآن، تعلیم قرآن، تعلیم حکمت(حضورؐ کی سنت) اور تزکیہ نفس پر مستقل طورپر رجال کار تیار ہوئے، جنہوں نے احادیث کی تخریج وتصحیح، قرآن وحدیث سے فقہی مسائل کے استخراج واستنباط کے کام کیے۔اگر یہ کا م نہج نبوت سے ہٹ کر ہوتے تو ہمارے پاس دین وشریعت کا جو بھی مأخذ موجود ہے اُس سے محرومی ہوجاتی۔ لہٰذا مدارس اسلامیہ، یا خانقاہی نظام کو نہج نبوت سے ہٹ کرماننا کھلی گمراہی ہے۔ دراصل حضرت مہدی کو امت محمدیہ کی خلافت کے لیے جو امور درکار ہوں گے وہ قرآن وسنت سے حاصل کریں گے۔اور شکیل خاں بن حنیف خاں کے پاس تو امت کی رہبر ی کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ سوائے یہودی سازش کے شکار ہونے کے۔لہٰذا شکیل بن حنیف ’’ خود تو ڈوبے ہیں صنم ، تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘ کا مصداق ہے۔
سوال-۴: کیا مسلمان مہدی کی مخالفت کریں گے، اگر ہاں تو کون سے مسلمان ہوں گے جو مہدی کی مخالفت کریں گے۔ اس کو تکلیف دیں گے، جلاوطن کریں گے اور اس کے خلاف لشکر لے کر چلیں گے۔
جواب۔ مسلمان حضرت مہدی کی مخالفت بالکل نہیں کریں گے۔ میری نظر سے کوئی ایسی حدیث نہیں گذری جس میں یہ آیا ہو کہ مسلمان حضرت مہدی کی مخالفت کریں گے اور ان کوتکلیف دیں گے۔ شکیل بن حنیف نے بھی اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ۶۰ پر لکھا ہیـ: ’’ اس طرح حدیث نمبر ۲۸ اور ۲۹ کو پڑھنے سے پتہ چلتاہے کہ شروع میں مہدی علیہ السلام کے دشمن اکثر وہی لوگ ہونگے جو خود کو مسلمان کہلاتے ہوں گے‘‘۔
گویا جناب کو بھی اس بات میں تذبذ ب ہے؛ جب کہ مذکورہ دونوں حدیثوں میں کہیں ایسا ذکر نہیں ہے کہ مہدی کی مخالفت مسلمان کریں گے۔ ان کایہ دعویٰ سراپا جھوٹ ہے۔ مہدی کی مخالفت میں وہ لوگ بھی شامل ہوں گے جو ظاہر میں مسلمان نظرا ٓرہے ہوں گے؛ جب کہ باطن میں وہ فکری ارتداد کے شکار ہونے کی وجہ سے اسلام سے خارج ہونگے۔ جیسا کہ آج کے موجودہ دور میں شکیلی پیروکار ظاہر میں اسلامی لباس میں اور ظاہری اسلامی وضع قطع کے باوجود فکری ارتداد کا شکار ہونے کی وجہ سے اہل السنۃ والجماعۃ کے نزدیک بالاتفاق خارج از اسلام ہیں ۔
سوال-۵ مہدی اپنے مہدی ہونے کا دعویٰ نہیں کریں گے۔ یہ کس حدیث میں ہے؟
جواب۔ حدیث میں ہے: یکون اختلاف عند موت خلیفۃ فیخرج رجلٌ من اھل المدینۃ ھارباً الیٰ مکۃ فیاْتیہ ناسٌ من اھل مکۃ فیخرجونہ وھو کارہٌ فیبایعونہ بین الرکن والمقام الخ (ابوداؤد) الخ ترجمہ: ایک خلیفہ کی وفات کے وقت (نئے خلیفہ کے انتخاب پر مدینہ کے مسلمانوں میں ) اختلاف ہوگا، ایک شخص(مہدی) اس خیال سے کہ کہیں لوگ مجھے نہ خلیفہ بنادیں ) مدینہ سے مکہ چلے جائیں گے، مکہ کے کچھ لوگ(جو انھیں علامتوں سے بحیثیت مہدی کے پہچان لیں گے)، اُن کے پاس آئیں گے اور لوگ اُن کو نکلنے پر آمادہ کریں گے اور اُن سے رکن یمانی ا ورمقام ابراہیم کے درمیان بیعت (خلافت) لیں گے۔ اسی حدیث میں وھو کارہٌ کا لفظ بتارہاہے کہ حضرت مہدی اس عمل سے خوش نہیں ہوں گے؛ بلکہ بادل ناخواستہ اسے قبول فرمائیں گے یہ حضرت مہدی کے اپنی مہدویت کا دعوی نہ کرنے کا بیّن ثبوت ہے۔
سوال-۶ کیا مہدی مدینہ منورہ میں پیدا ہونگے؟
جواب۔ جی ہاں ! حضرت مہدی حضور ﷺ کی ہجرت گاہ مدینہ منورہ ہی میں پیدا ہوں گے۔ حضور ﷺ نے حضرت مہدی کی جائے پیدا ئش کے بارے میں فرمایا : "مولدہ المدینۃ” (کتاب الفتن) چنانچہ حدیث میں "المدینہ” لفظ آیا ہے اور مدینہ سے خاص مدینہ منورہ ہی مراد ہے چونکہ مدینہ کے شروع میں ” ال ” لگاہوا ہے جو تخصیص کے لیے آتاہے جیسے Cow کا مطلب کوئی بھی گائے لیکن جب The Cow کہا جائے تو اس سے مخصوص گائے ہی مراد ہوتی ہے۔ ورنہ حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ حضرت مہدی کسی گاؤں میں نہیں ؛ بلکہ شہر میں پیدا ہوں گے خواہ وہ شہر دہلی ہو یا پنجاب یا دربھنگہ یا بھوپال وغیرہ کوئی بھی شہر ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ المدینۃ سے شہر دہلی مراد لینا یہ شکیل اور شکیلی پیروکاروں کے علوم نبویہ سے ناواقف اور نابلد ہونے کا کھلاثبوت ہے۔اور حقیقت بھی یہی ہے کہ شکیل بن حنیف اور اس کے پیروکار علوم نبویہ سے بالکل ہی واقف نہیں ہیں یہ قادیانیوں اور دیگر فرق باطلہ اور گمراہ عقائد کے لوگوں کی کتابوں سے چرائے ہوئے اور ان کے ایجنٹ کے طورپر کام کرنے والے ظاہر میں سیدھے سادے؛ مگر مکار اور پرفریب اور دھوکہ باز لوگ ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن وحدیث اور دیگر آثار صحابہ میں جہاں کہیں بھی لفظ ” المدینہ” الف لام کے ساتھ آئے اور اس کے بعد لفظ ” مکہ” بھی تو وہاں لفظ ” المدینہ” سے حضور ﷺ کی ہجرت گاہ مدینہ منورہ ہی مراد ہوتاہے۔ اس کے خلاف ان شاء اللہ قیامت کی صبح تک شکیل بن حنیف اور دیگر فرق باطلہ کے پیروکارثابت نہیں کر سکتے۔
سوال-۷قیامت کی دس بڑی نشانیوں میں مہدی کا ذکر کیوں نہیں ہے؛ جب کہ زمین کے تین مقامات پر دھنسنے کا الگ الگ ذکر ہے؟
جواب۔ یہ سوال کوئی نیا نہیں ہے، ہر دور میں فرق باطلہ نے اس طرح کے سوالات اٹھائے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ پیارے آقا ﷺ نے مختلف مواقع پر مختلف صحابہؓ کے سامنے ان کے احوال وکوائف کو مد نظر رکھ کر مختلف باتیں اپنے رب کے حکم سے بیان فرمائی ہیں ۔ بعض مرتبہ آپ ﷺ نے بعض صحابہؓ کے سامنے اجمالاً بیان فرمائیں اور بعض صحابہؓ کے سامنے تفصیلی طور پر۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی مضمون سے متعلق بعض صحابہ سے روایت ذرا مختصر ہے اور بعض صحابہ سے ذرا طویل، جیسا کہ حدیث نزول عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں امام بخاری نے جو روایت بیان فرمائی ، اس میں ذرا اجمال ہے اور” من السمائ” کا لفظ اس میں نہیں ہے جب کہ امام بیہقی کی روایت میں ذرا تفصیل ہے جس میں "من السماء ـ”کی تصریح موجود ہے۔ جس میں امام بیہقی نے تصریح بھی کردی ہے کہ امام بخاری کے ذریعہ منقول روایت میں نزول سے مراد آسمان میں اٹھائے جانے کے بعد آسمان سے ہی اترنا ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے قیامت کی بڑی علامتیں کبھی دس بتائیں ہیں تو کہیں دس سے کم اورکہیں دس سے بھی زیادہ۔ لہٰذا یہ کہنا کہ ظہور مہدی کی اتنی بڑی علامت کو مذکورہ دس علامتوں میں شامل کیوں نہیں کیاگیا، یہ ایک بچکانہ حرکت ہے۔ دراصل ظہور مہدی کی علامت ، علامت متوسطہ میں سے ہے جو علامت کبریٰ سے پہلے وجود میں آئیگی جب کہ ظہور مہدی کا ثبوت حسن اور ضعیف روایتوں کو چھوڑ کر تقریباً پچاس احادیث صحیحہ سے ثابت ہے جن کو شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند نے ’’الخلیفۃ المہدی فی الاحادیث الصحیحہ‘‘ میں جمع فرمادیاہے،تو محض اس وجہ سے کہ قیامت کی دس علامتوں میں علامتِ ظہور مہدی کو کیوں نہیں بیان کیاگیا اور اس کو وجہ مان کر ظہور مہدی کا انکار کردینا بڑی کم علمی اور بددیانتی کی بات ہے؛ چوں کہ اللہ کے رسول ﷺ ہماری منشاء کے مطابق کسی بات کو بیان کرنے کے لیے پابند نہیں ہیں ؛ بلکہ قرآن کی زبانی ’’ما آتاکم الرسول فخذوہ ومانہاکم عنہ فانتہوا‘‘ کہ نبی تمہیں جو دیں اسے لے لو اور جس چیز منع کریں اسے چھوڑ دو، لہٰذا اگر حدیث حذیفہ میں ظہور مہدی کا بیان نہیں ہے تو اس مسئلہ میں شک کرنے کی قطعاً گنجائش نہیں ہے؛ کیوں کہ ظہور مہدی کا ثبوت سیکڑوں احادیث صحیحہ سے ہے۔ اسی وجہ سے ظہور مہدی کا عقیدہ اہل السنۃ والجماعۃ کے یہاں تواتر معنوی کی بنیاد پر ایک اجماعی عقیدہ ہے، جس کا منکر گمراہ ہے۔
چلو! تھوڑی دیر کے لیے(بالفرض) آپ کی بات مان لیتے ہیں کہ ظہور مہدی کی خاص اہمیت نہیں ہونے کی وجہ سے قیامت کی دس بڑی علامتوں میں اس کو شامل نہیں کیا گیاہے؛ مگر یہ تو آپ کے ہی خلاف جاتاہے؛ چوں کہ شکیل بن حنیف کو عیسی ابن مریم منوانے کے لیے حدیث مہدی کو ہی بنیاد بنایاگیاہے۔ ورنہ قرآن وحدیث سے کوئی ایک حوالہ عیسیٰ علیہ السلام کے باپ کے بارے میں پیش کر دیجیے اور ایسا آپ ہر گز نہیں کرسکتے۔ آپ کو شکیل بن حنیف کو عیسی مہدی منوانے کے لیے ہر صورت میں عیسیٰ ابن مریم کو حدیث مہدی پر محمول کرکے عیسیٰ علیہ السلام کے باپ کو ثابت کرنا پڑے گا جیسا کہ شکیل بن حنیف نے اپنی کتاب "سنبھلی کے اعتراضات کے جوابات (ص: 29) میں یہ بات کہی ہے۔ لہٰذا ظہور مہدی کو قیامت کی دس بڑی علامتوں میں شامل نہیں کیے جانے سے حدیث مہدی سے اعتماد ہٹالینا بہت بڑی بھول ہے۔
سوال -۸ کیا حضرت مہدی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کہیں گے آئیے ؟ آپ نماز پڑھائیے۔ یا نزول عیسیٰ علیہ السلام کے وقت امیر یا امام” مہدی” ہوں گے، یہ کس حدیث میں آیاہے؟
جواب۔ حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام فجر کے وقت جب کہ نماز کے لیے اقامت کہی جارہی ہوگی آسمان سے نزول فرمائیں گے اور حضرت مہدی کی اقتداء میں نماز فجر ادا کریں گے۔(مسلم) حدیث میں امام اور امیر سے مراد حضرت مہدی ہی ہیں ؛ چنانچہ مصنف ابن عبدالرزاق میں فیقولون لہ تقدم فیقول بل یصلی بکم امامکم الخ والی روایت کے بعد دوسری روایت میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں ’’اخبرنا عبد الرزاق عن معمر قال کان ابن سیرین یری انہ المہدی الذی یصلی وراہ عیسیٰ (ص ۳۹۹ ج ۱۱ بحوالہ عقیدہ ظہور مہدی صف ۵۹-۶۰) یعنی عیسیٰ علیہ السلام جس امام کے پیچھے نماز پڑھیں گے وہ امام مہدی ہوں گے۔
حدیث جابر میں ہے کہ قال رسول اللہ ﷺ ینزل عیسی ابن مریم فیقول امیرھم المہدی تعــال صلِّ لنا فیقول ان بعضکم علیٰ بعض اُمراء تکرمۃَ اللہ لھذہ الامۃ (الحاوی للسیوطی : ۲/۶۴ عن بی نعیم) اس حدیث میں پیارے آقا ﷺ نے صاف لفظوں میں فرمایا کہ جب حضرت عیسیٰ ابن مریم دمشق میں آسمان سے اتریں گے تو مسجد میں موجود لوگوں کے امیر حضرت مہدی، حضرت عیسی ٰ علیہ السلام سے فرمائیں گے کہ آئیں آپ نماز پڑھائیں ۔ چنانچہ حدیث جابر میں یہ الفاظ بھی موجود ہیں ’’ینزل (عیسی ابن مریم) علی المہدی فیقال: تقدم یا نبی اللّٰہ فصلِّ لنا الخ کہ حضرت عیسی ابن مریم حضرت مہدی کے سامنے اتریں گے پھر عیسیٰ ابن مریم سے کہا جائے گا اے اللہ کے نبی آگے آئیں اور ہماری نماز پڑھائیں ۔ (العرف الوردی للسیوطی: ۲:۸۳) بحوالہ التصریح بما تواتر فی نزول المسیح ص : 284)
اسی طرح کتاب الفن لنعیم ابن حماد کی حدیث نمبر ۱۱۰۳ میں الفاظ اس طرح مذکور ہیں : قال: المھدی الــذی ینزل علیــہ عیسیٰ ابن مـریم، ویصلی خلفہٗ عیسیٰ، علیھما السلام۔ اس حدیث میں مہدی اور عیسیٰ علیہ السلام دونوں کو صاف صاف الگ الگ بیان کیاگیا ہے کہ مہدی امام ہوں گے اور عیسیٰ ابن مریم ان کی اقتداء میں (نماز فجر) میں اقتداء فرمائیں گے۔ ظاہر ہے امام اور مقتدی دو الگ الگ شخصیت ہوتے ہیں نہ کہ ایک۔لہٰذا حضرت مہدی الگ شخصیت ہیں اور حضرت عیسیٰ ابن مریم بالکل الگ شخصیت؛ چنانچہ حضرت سدی ؒ سے منقول ہے کہ حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نماز کے وقت میں جمع ہوں گے؛ چنانچہ حضرت مہدی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے عرض کریں گے(نماز کے لیے) آگے بڑھیں ، تو عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے کہ آپ ہی آگے بڑھیں اس لیے کہ امامت کے آپ زیادہ مستحق ہے(چوں کہ تکبیر آپ کے لیے ہی کہی گئی ہے) چنانچہ حضرت عیسیٰ حضرت مہدی کے پیچھے مقتدی بن کر نماز ادا کریں گے۔ وروی عن السـدی انہ قال: یجتمـع المہـدیُ، وعیسی ابن مریم فی وقت الصلاۃ، فیقول المہدیُ لعیسیٰ: تقدم فیقــول عیسیٰ: انت اولیٰ بالصلاۃ فیصلی عیسیٰ ورائہٗ مامـومـاً۔(عقدالدرر فی اخبار المنتظر۔ مؤلفہ یوسف بن یحی متوفی 658 ھ)
چنانچہ اہل السنۃ الجماعۃ کا عقیدہ ہے کہ ایک وقت کی نماز حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام آسمان سے نزول کے بعد حضرت امام مہدی کے پیچھے ادا فرمائیں گے، اس کے بعد بقیہ نمازوں میں امامت حضرت عیسیٰ ابن مریم ہی فرمائیں گے۔ کعب احبارؓ کی روایت میں ہے: قال: وتقـام الصلاۃ فیرجع امام المسلمین المھدیُ، فیقـول عیسیٰ: تقـــدم فلک اقیمت الصلاۃ۔ فیصلی بہم ذٰلک الرجل تلک الصلاۃ، ثم یکون عیسی اماماً بعد۔ اخرجہ الحافظ ابو عبد اللّٰہ نعیم بن حمـــاد، فی کتاب الفتن۔ (عقدالدرر فی اخبار المنتظر۔ مؤلفہ یوسف بن یحی متوفی 658 ھ)
حدیث مسلم میں ہے’’قال امیرھم تعال صلِّ لنا‘‘ اور مسند حافظ ابن ابی اسامہ تمیمی بغدادی جو صحاح ستہ کی طرح تیسری صدی کے محدث ہیں ، میں ’’قال امیرھم المہدی تعال صل لنا‘‘ کی تصریح موجود ہے۔ اور محدثین کے اصول کے مطابق بعض روایت بعض دوسری روایت کی تصریح وتفسیر ہوا کرتی ہے؛ چنانچہ شکیل بن حنیف نے بھی اپنی کتاب ’’امام مہدی علیہ السلام کی آمد کی پیشینگوئیاں ‘‘ میں مختلف مقامات پر رجل، امام، خلیفہ سے امام مہدی ہی مراد لیا ہے۔ جیسے :
۱- کتاب کے صفحہ نمبر ۱۴، حدیث نمبر ۲ (ب) کے تحت لآل محمد سے (مہدی) مراد لیا ہے۔
۲- صفحہ نمبر۱۸ (ص) میں لرجل من امتی کے تحت رجل سے مہدی مراد لیاہے۔
۳- صفحہ ۲۰ حدیث نمبر ۱۰ کے تحت برجل من قریش سے (مہدی) مراد لیا ہے۔
۴- صفحہ ۳۵ حدیث نمبر ۱۸ کے تحت فیخرج رجل من بنی ہاشم میں رجل سے مراد (مہدی) لیا ہے۔
۵- صفحہ ۷۰، حدیث نمبر ۴۰کے تحت فیفتح الکنوز کا ترجمہ کیا ہے کہ ’’پس وہ (مہدیؑ) خزانوں کا منہ کھولے گا‘‘۔
مذکورہ حوالہ جات کے تحت کوئی شکیل بن حنیف سے پوچھے کہ قوسین میں ’’مہدی‘‘ کس لفظ کا ترجمہ ہے؟ توظاہر ہے کہ جواب یہی ہوگا کہ سیاق وسباق سے مہدی مراد لیا گیاہے۔ یہی جواب علماء حق اہل السنۃ والجماعۃ کا بھی ہے؛ جب کہ دوسری روایت میں لفظ مہدی کی صراحت بھی موجود ہے۔ لہٰذا جس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے دمشق میں اتریں گے اُس وقت امام حضرت محمد بن عبداللہ المہدی ہی ہوں گے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت مہدی کی اقتداء میں نماز ادا فرمائیں گے۔ اس سے حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ ابن مریم کاالگ الگ دو شخصیتیں ہونا بھی صاف ظاہر ہوتاہے۔
سوال-۹ کیا مہدی کے کندھے پر عیسیٰ ہاتھ رکھیں گے؟
جواب۔ جی ہاں ! ابن ماجہ ، کتاب الفتن ، حدیث نمبر ۴۰۷۷ کی طویل روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں : فیضع عیسیٰ یدہٗ علی کتفیہ کہ عیسیٰ علیہ السلام اپنا ہاتھ ان کے ( امام مہدی کے) دونوں کندھے پر رکھیں گے۔(حدیث ۱۳، ابوداؤد، ابن ماجہ، ابن حبان، ابن خزیمہ)
سوال-۱۰ کیا حضرت مہدی قسطنطنیہ فتح کریں گے؟
جواب۔ جی ہاں ! حدیث معاذ بن جبل میں ہے کہ ’’الملحمۃ الکبریٰ، وفتح القسطنطنیۃ، وخروج دجال فی سبعۃ اشہر‘‘۔ جنگ عظیم، قسطنطنیہ کی فتح اور دجال کا خروج تینوں چیزیں سات مہینے کے اندر ہوں گی۔(ابن ماجہ حدیث نمبر ۴۰۹۲-المکتبۃ الشاملہ) اورامام ابن ماجہ نے اس حدیث کو باب خروج المہدی کے ذیل میں ذکر کیاہے۔ اور حدیث نمبر۴۰۹۴ میں یہ بھی مذکور ہے کہ اہل روم اور مسلمانوں کے درمیان صلح ہوگی۔ اہل روم عہدشکنی کریں گے اور مسلمان فوج کے خلاف اسی(80) جھنڈوں کے ساتھ فوج لے کر آئیں گے اور ہر جھنڈے کے نیجے بارہ ہزار فوج ہوگی۔ابن ماجہ کی روایت نمبر 4093 میں ہے کہ مسلمانوں کے محض تسبیح وتکبیر کے ذریعہ قسطنطنیہ فتح ہوجائے گا۔(ای فیفتتحون القسطنطینۃ باالتسبیح والتکبیر) ۔
مسند احمد میں ہے ’’عمران بیت المقدس خراب یثرب، وخراب یثرب خروج الملحمۃ، وخـروج الملحمـۃ فتح القسطنطینیۃ، وفتح القسطنطینیۃ خـروج الدجال) کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیت المقدس کی آبادی، یثرب کی ویرانی کا، یثرب کی ویرانی، خون ریزی کا، اور خون ریزی ، قسطنطنیہ کی فتح کا اور فتح قسطنطنیہ، دجال کے خروج کا پیش خیمہ ہوگا۔ (مسنداحمد روایت : 12417)
مسلم شریف کی روایت نمبر 5421 میں ہے ’’فیفتتحون قسطنطینیۃ‘‘ کہ حضرت مہدی اپنے لشکر کے ساتھ قسطنطنیہ فتح کریں گے۔ اسی روایت میں ہے ’’ولکن یقتلہ اللّٰہ بیدہ فیریہم دمہ فی حربتہٖ‘‘کہ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں دجال کو قتل کرائے گا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے نیزے پر اس کا لگاہوا خون دکھائیں گے۔
ترمذی شریف کے حوالہ سے مشکوٰۃ المصابیح روایت نمبر 5436 میں ہے : عن انس قال: فتح القسطنطینۃ مع قیام الساعۃ، رواہ الترمذی ۔ حضرت انس سے مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا: قسطنطنیہ کی فتح ، قیامت کے ساتھ (یعنی قریب) ہوگی۔
مذکورہ روایتیں اس بات کو صاف واضح کرتی ہیں کہ قسطنطنیہ کو دوبارہ حضرت مہدی کے زمانہ میں محض تکبیر وتسبیح سے فتح کرلیا جائے گاجس کے چند ہی دن کے بعد دجال اکبر کا خروج ہو جائے گا۔ (تلک عشرۃ کاملۃ)
(ملخص ازعقیدۂ ظہور مہدی٭نزول عیسیٰؑ اور شکیلیوں کے سوالات کے جوابات)
—————————————–
دارالعلوم ، شمارہ : 2-3، جلد:104، جمادى الاول 1441ھ مطابق فروری-مارچ 2020ء
٭ ٭ ٭