از:ڈاکٹرمولانا اشتیاق احمد قاسمی

مدرس دارالعلوم دیوبند

            دارالعلوم دیوبند کے مایہ ناز فرزند ارجمند، معروف مفسر، فقیہ اور مصنف حضرت مولانا برہان الدین سنبھلی رحمۃ اللہ علیہ، صدر شعبۂ تفسیر دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کی وفات، حسرت آیات بن کر سامنے آئی،  إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون،  اللہ تعالیٰ مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائیں اور اپنی شایانِ شان رحمتوں سے نوازیں اور جملہ پس ماندگان، عزیز، قریب، رفیق، جلیس، مرید ومستفید کو صبرجمیل عطا فرمائیں ! (آمین) حضرت مولانا سنبھلیؒ سے میری ملاقات قریب دودہائی پہلے جامعہ دارالعلوم حیدرآباد میں ہوئی، جہاں موصوف کو ’’تراجم قرآنی‘‘ پر محاضرات کے لیے مدعو کیاگیا تھا، جامعہ کی وسیع لائبریری کے ایک ہال میں پروگرام رکھا گیا تھا، نہایت سادہ، شگفتہ؛ لیکن دل رُبا انداز میں مقالہ سنا اور سمجھا رہے تھے، ان میں اسلاف کا نمونہ نظر آرہا تھا، حضرت شاہ عبدالقادر، حضرت تھانوی، شیخ الہند اور دیگر اکابر کے تراجم کا تقابل پیش فرمارہے تھے، موضوع کی نزاکت وحساسیت کے باوجود بڑے ہی اعتماد اور وقار سے باتیں رکھ رہے تھے، الفاظِ قرآنی کے لیے اردو زبان میں منتخب الفاظ وتعبیرات کی بالیدگی اور شکوہ سے پردہ ہٹارہے تھے، ہر ایک کا مقام ومعیار بتا رہے تھے، راقم حروف چوں کہ جلالین کا مدرس تھا؛ اس لیے کافی محظوظ ہوا۔ شخصیت کے علوم کی گہرائی وگیرائی کا معترف ہوے بغیر نہ رہا، بعد میں معلوم ہوا کہ موصوف کے اندر علوم قرآنی کے اسی امتیاز کو بہت قریب سے حضرت مولانا سیدابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے دیکھا تھا اور متاثر ہوکر ندوۃ العلماء میں تدریس کے لیے بڑے اعزاز واکرام سے بلایا، جوہری نے قدر جوہر کو خوب پہچانا تھا؛ چنانچہ تفسیری خدمات میں ندوۃ العلماء کی تاریخ سازشخصیت بن کر سامنے آئے۔

            نصف صدی تک ٓسمانِ ندوہ میں خورشید بن کر ضوفشانی کرتے رہے، آیاتِ الٰہی کے اتھاہ سمندر سے موتیاں نکال نکال کرتاجِ ندوہ میں جڑتے رہے، تشنہ کامانِ علوم کو کوثر وتسنیم جام بھر بھر کر پلاتے رہے۔ ’’درس قرآن کریم‘‘ کے نام سے سورئہ اعراف، یونس، ہود اور کہف کے درسی افادات طبع ہوکر منظر عام پر آگئے ہیں ، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مولانا کتنی محنت اور مطالعہ کے بعد درس دیتے تھے۔ مولانا سنبھلی کی زبان وبیان کی مٹھاس سے بھی مخاطب لذت لیتا تھا، تعبیرات نہ تو اتنی بلند ہوتیں کہ سامعین اصل مضمون سے ہٹ کر الفاظ کے پیچ وخم میں گم ہوجائیں اور نہ ہی اتنی عامیانہ کہ موضوع کا وقار کھوجائے، اردو اور عربی دونوں طرح کے مقالوں سے استفادہ کرنے کا موقع ملا، دونوں کی خصوصیات ایک جیسی محسوس ہوئیں ۔

            ایک بار اصول فقہ کی تدریس کے دوران خلجان ہوا کہ بنی اسرائیل پر پچاس نمازیں فرض تھیں یا نہیں ؟ اتفاق سے ’’ترجمان دارالعلوم‘‘ دہلی میں ایک تفصیلی مضمون ملا، اس میں میرے اشکال کا حل تھا، پڑھ کر بڑی خوشی ہوئی، مولانانے نہایت ہی مضبوط دلائل سے ثابت فرمایا تھا کہ بنی اسرائیل پر پچاس نمازوں والی بات کچی ہے، صحیح بات یہ ہے کہ ان پر صرف تین نمازیں فرض تھیں ، صبح، دوپہر اور شام کی نمازیں ؛ لیکن اُن میں بھی بنی اسرائیل کی کوتاہی سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کبیدہ خاطر تھے، اسی لیے معراج میں بار بارتخفیف کرانے کا مشورہ دیا۔ اطمینان ہوگیا، اس سے مولانا کے علم وتحقیق کا سکہ دل پر بیٹھ گیا، پھر تو جہاں بھی کوئی تحریر دیکھتا ضرور پڑھ ڈالتا، ایک مقالہ موصوف نے ’’فقہ حنفی کی اصولی ہمہ گیری‘‘ پر لکھا تھاکہ اس میں ہر زمانے کے چیلنج کے حل کرنے کی صلاحیت ہے، فقہ حنفی کے اصول، قواعد اور ضوابط جو قرآن وسنت، اجماع، آثار خیرالقرون اورتعاملِ امت سے مأخوذ ہیں اُن میں بڑی وسعت اور اتھاہ گہرائی وگیرائی موجود ہے۔ ایسے مقالات ومضامین سو سے زائد ہیں ، اللہ کرے کہ سب کے شائع ہونے کا انتظام ہوجائے۔ جب ’’مجموعہ قوانینِ اسلام متعلق مسلم پرسنل لا‘‘ چھپ کر منظر عام پر آیا تو معلوم ہوا کہ اس کی جمع وتدوین اور ترتیب وتنسیق میں موصوف کا اہم کردار ہے، چند اساطین اصحاب فقہ وافتاء کو مسلم پرسنل لا بورڈ نے منتخب فرمایاتھا، اُن میں آپ کا نام نامی اور اسم گرامی بھی تھا۔ ان سب کو دیکھ کر ہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ حضرت مولانا کتنے بڑے دیدور فقیہ نکتہ داں اور نکتہ سنج تھے۔ بحث ونظر پٹنہ وحیدرآباد، ترجمان دارالعلوم دہلی، تعمیر حیات لکھنؤ، ترجمان اسلام بنارس اور دیگر دستاویزی ماہ ناموں اور سہ ماہی رسالوں میں عموماً آپ کی نگارشات نظر آتی تھیں ۔ کسی کو پڑھے بغیر نہیں رہتا۔

            آج سے پندرہ سال پہلے دارالعلوم حیدرآباد میں ایک گمراہ شخص علماء کی صورت میں آیا، اس کا نام تھا: جہاں گیر مظاہری، عصر بعد اس سے اساتذئہ کرام کی ملاقات ہوئی، اس نے اپنے مشن میں شامل ہونے کی دعوت دی، معلوم کرنے پر بتایا کہ مدتوں سے وہ ایک خاص کام کررہا ہے: ’’وہ ہے عوام کی اصلاح، اس کی بنیاد یہ ہے کہ علمائے کرام اورنیک بزرگان فاسق وفاجر کا بائیکاٹ کریں ، جو لوگ ڈاڑھی نہیں رکھتے، کوٹ پتلون پہنتے؛ نمازیں نہیں پڑھتے؛ گالیاں بکتے، شراب پیتے اور جوا، سٹا کھیلتے ہیں ، ان سب کو جب نیک لوگ اپنے سے دور رکھیں گے، ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا نہیں رکھیں گے، خانقاہوں ، مسجدوں اور مدرسوں میں نہیں آنے دیں گے تو اُن کی اصلاح ہوجائے گی۔‘‘ میں نے کہا: یہ تو حدیث شریف کی روح کے خلاف ہے، حدیث میں ہے: ’’صَلُّوا خَلْفَ کُلٍّ بَرِ و فاجرٍ‘‘ (دارقطنی) (ہر نیک اور بد کے پیچھے نماز پڑھ لو) اس سے تو سمجھ میں آتا ہے کہ اسلام میں اجتماعیت کو اچھا سمجھا گیا ہے، اگر اُن کو دور رکھا جائے تو اس سے معاشرہ اور بھی بگڑے گا، لوگ اپنی اصلاح حال کے طریقے بھی معلوم نہیں کرسکیں گے۔ مزید یہ کہ اس تحریک میں غیروں کی سازش نظر آتی ہے کہ عوام اور خواص کو الگ کرنے کی ترکیبیں پہلے بھی سوچی گئی ہیں ، غرض یہ کہ اس نے بحث شروع کردی، ہم لوگوں نے اس کا بیگ دیکھا تو اس میں سفر کی روداد تھی، اس میں یہ بھی تھا کہ میں دیوبند گیا اور وہاں کے استاذ حدیث مفتی سعید احمد پالن پوری سے ملاتو انھوں نے کہا: ’’تیرا دماغ خراب ہوگیا ہے تو ایک ہفتہ میرے پاس رہ، دماغ صحیح ہوجائے گا؛ شرط یہ ہے کہ تو کچھ نہ بولنا اور سن! حضرت تھانویؒ کے پاس بھی تیرے جیسا ایک آدمی آیا تھا، انھوں نے بھی یہی ارشاد فرمایا تھا‘‘۔ غرض یہ کہ اس میں یہ بھی ملا کہ سہ ماہی ’’بحث ونظر‘‘ پٹنہ میں میرے خلاف ندوۃ العلماء کے شیخ التفسیر نے ایک مضمون لکھا تھا کہ اس آدمی کا مشن خلافِ عقل وشرع ہے، تاریخ میں کبھی بھی ایسا نہیں ہوا ہے کہ دین سے دور لوگوں کو علماء سے دور کردیا جائے۔ پھر اس کو اصل شمارہ میں تلاش کرپڑھا تو بڑی خوشی ہوئی کہ مولانا سنبھلیؒ نے بروقت ایک گمراہی کو اپنی باطنی بصیرت سے تاڑ لیا اور بلاتاخیر شرعی دلائل سے اس کی تردید فرمادی۔

            اسی طرح جب ندوۃ العلماء کے ایک بڑے استاذ نے صحابۂ کرامؓ کے خلاف زبان کھولی تو حضرت نے اپنی شرعی ذمہ داری محسوس کی اور ندوہ کی مجلس انتظامی اور شوریٰ کے نام صاف صاف ایک خط لکھاکہ یہ موقف اہل السنۃ والجماعۃ کے خلاف ہے، یہ اہل تشیع کا نظریہ ہے، اس سلسلے میں آپ حضرات غور فرمائیں ، اگر خاموش رہا جائے تو امت کو ادارے کے سلسلے میں غلط فہمی ہوگی۔

            بارہ تیرہ سال پہلے حجاز سے واپسی پر جہاز ہی میں فالج کا حملہ ہوا؛ لیکن پروردگار عالم نے فضل فرمایا، صحت یابی ہوگئی؛ البتہ چلنا پھرنا دشوار ہوگیا، وہیل چیئر پر ہی خدام کے سہارے چلنے لگے، اُن شاگردوں کو اللہ تعالیٰ بہت بہت نوازیں جنھوں نے اولاد کی طرح اپنی خدمات پیش کیں ۔ اس حالت میں بھی حسب معمول اسباق پڑھاتے رہے، سارے دینی، ملّی اور فقہی پروگراموں میں شریک ہوتے رہے، جسم کمزور تھا؛ مگر دل ودماغ پر کوئی کمزوری نہیں تھی، پڑھنے لکھنے کا معمول اپنی جگہ باقی تھا، حافظہ بھی خوب تھا، کہا جاتا ہے کہ ’’ارذل العمر‘‘ کی خرابی، حافظہ اور دماغی کمزوری وغیرہ علماء کو لاحق نہیں ہوتی ہے، مرحوم اس کی مثال تھے۔ دیوبند فقہی اجتماع میں تشریف لائے، حضرت استاذ محترم مفتی سعید احمد پالن پوری زیدمجدہ سے ملاقات ہوئی، خبر خیریت کے بعد پوچھا کہ آپ کی ہدایت القرآن کی پانچویں جلد میرے پاس پہنچی ہے، دیکھ چکا ہوں ، اس کے بعد کی جلد کا انتظار ہے، حضرت نے تعجب سے پوچھا: اچھا اس معذوری میں بھی آپ پڑھتے ہیں ! میں اگلی جلدیں ابھی منگواتاہوں ، حضرت اپنی ساری تصانیف طباعت کے بعد ضرور بھیجتے تھے، دونوں بزرگوں میں علمی مناسبت تھی، فقہی مسائل میں آراء تقریباً ایک سی رہتی تھیں ، جب حجۃ اللہ البالغہ کی شرح رحمۃ اللہ الواسعہ پہنچی تو مرحوم نے مطالعے کے بعد اپنی تحریری رائے ارسال فرمائی تھی، جو اس کی اگلی جلد میں طبع ہوئی۔ مولانا سنبھلیؒ کی نشست وبرخاست میں حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی بجنوری رحمۃ اللہ علیہ کی مشابہت نظر آتی تھی، کرتا، پاجامہ اور دوپلی ٹوپی میں ایک جیسے لگتے تھے، دونوں غالباً ہم درس تھے، ہم عصر تو ضرور تھے، فکری اعتدال اور تصلب میں ہم آہنگ تھے، توسع کے ماحول میں رہنے کے باوجود ڈھیلے نہیں ہوے، طلبۂ کرام کو پوچھنے کا پورا موقع دیتے، ان کے سوال سے کبیدہ خاطر نہ ہوتے، نماز باجماعت کے پابند تھے۔ ندوۃ العلماء کی مسجد میں جمعہ سے پہلے مختصر سا خطاب بھی فرماتے تھے، معذوری کے بعد یہ سلسلہ باقی نہ رہا۔

            مرحوم کی تدریسی زندگی ترسٹھ چونسٹھ سال کو محیط ہے، فراغت کے بعد اپنے وطن سنبھل کی مادرعلمی مدرسہ سراج العلوم میں تقریباً دوماہ پڑھایا، پھر مدرسہ عالیہ مسجد فتح پوری دہلی تشریف لے گئے اور بارہ یا تیرہ سال وہاں رہے، ابتدائی جماعت سے ہدایہ آخرین تک کی اہم اہم کتابیں پڑھائیں ، پھر حضرت مولانا علی میاں ندویؒ کی دعوت پر ندوہ تشریف لائے اور عیسوی لحاظ سے پچاس اور ہجری لحاظ سے ساڑھے اکاون سال تک درس وتدریس، تصنیف وتالیف اور تحقیق وتدقیق میں اپنی زندگی کے قیمتی لمحات گزارے، علم وعمل اور رضائے الٰہی کے متوالے نے کبھی تنخواہ اور دنیا کو نظر اٹھاکر نہ دیکھا، معلوم ہوا کہ جب عمر پینسٹھ سال کی ہوگئی تو تنخواہ اٹھارہ ہزار پر آکر رک گئی، وفات سے پہلے انتظامیہ نے اس میں کچھ اضافہ کردیا، اسی پر قناعت کرکے راہی ملک عدم ہوے، پوری زندگی احاطۂ ندوہ میں ایک معمولی مکان میں رہ کر گزاردی، دنیا کی کوئی دولت جمع نہیں فرمائی، وطن میں ایک  مکان ترکے میں ملا تھا، اس کو بھی اپنے ایک عزیز کو معمولی قیمت پر دے دیا۔ ۲۰۰۸ء میں عربی زبان میں دینی وعلمی خدمات پر حکومتِ ہند کی طرف سے ’’صدر جمہوریہ ایوارڈ‘‘ ملا تھا، یہ ایوارڈ بھی کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا، اصل صلہ اور بدلہ تو آخرت میں ملے گا اور مل رہا ہوگا۔ مرحوم کا خاندان چار پانچ پشتوں سے علمی رہا ہے، اب فرزندارجمند حضرت مولانامحمدنعمان الدین ندوی سابق شیخ الادب دارالعلوم حیدرآباد اور ان کے دونوں فرزندان: محمد حسان الدین ندوی اور محمد سعدان الدین ندوی سلمہما اللہ کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ لگاتار چھٹی اور ساتویں نسل کو اللہ تعالیٰ نے علم دین کی نعمت عطا فرمائی،  ’’ذلک فضلُ اللّٰہ یؤتیہ من یشائُ‘‘  مرحوم کے پس ماندگان میں دوسرے فرزند مولانا محمد صفوان الدین ندوی اور تین صاحب زادیاں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ سب کو صبر جمیل عطا فرمائیں اور دین ودنیا میں سرخ روئی عطا فرمائیں !

خاکہ

اسم گرامی: مولانا برہان الدین بن مولانا قاری حمیدالدین (تلمیذ علامہ کشمیریؒ)

ولادت باسعادت: ۴؍ذی الحجہ ۱۳۵۶ھ مطابق ۵؍فروری ۱۹۳۸ء محلہ میاں سرائے سنبھل۔

تعلیم:    (۱)        والد بزرگوار سے

                        (۲)       مدرسہ سراج العلوم سنبھل، مرادآباد یوپی

                        (۳)      مدرسۃُ الشرع کٹرہ موسیٰ خاں ، سنبھل

                        (۴)      مدرسہ دارالعلوم محمدیہ سنبھل

                        (۵)      الہ آباد بورڈ (مولوی ۱۹۵۴ء)

                        (۶)       دارالعلوم دیوبند (فضیلت: ۷۷-۱۳۷۶ھ/۵۸-۱۹۵۷ء)

            معروف اساتذئہ کرام: شیخ الاسلام حضرت مولاناحسین احمد مدنی (صحیح بخاری کا ابتدائی حصہ) حضرت مولانا فخرالدین احمد مرادآبادی (بقیہ صحیح بخاری)

            حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ، حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ، حضرت مولانا محمدحسین بہاری رحمہم اللہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریاؒ (خصوصی مسلسلات) حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ، حضرت مولانا معراج الحق دیوبندیؒ۔

            تدریس:          (۱)       مدرسہ سراج العلوم سنبھل مرادآباد     (دوماہ)

                                    (۲)       مدسہ عالیہ مسجد فتح پوری دہلی              (۱۳؍سال)

                                    (۳)      دارالعلوم ندوۃالعلماء لکھنؤ                (۵۱؍سال)

            اہم کتب متعلقہ: ہدایہ، ترجمۂ قرآن کریم، تفسیر کشاف، تفسیر بیضاوی، الفوزالکبیر، صحیح بخاری (منتخب ابواب) حجۃ اللہ البالغہ۔

            بیعت وخلافت: حضرت مولانا محمد طلحہ بن شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدزکریاؒ۔

            مناصب:          (۱)       صدرشعبۂ تفسیر دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ

                                    (۲)       قاضی دارالقضاء (اتر پردیش)

                                    (۳)      مفتی دارالافتاء ندوۃ العلماء لکھنؤ

                                    (۴)      ناظم مجلس تحقیقات شرعیہ ندوۃ العلماء لکھنؤ

                                    (۵)      رکن تاسیسی، ورکنگ کمیٹی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ

                                    (۶)       رکن دینی تعلیمی کونسل اترپردیش

                                    (۷)      نائب صدر فقہ اکیڈمی انڈیا۔ دہلی

                                    (۸)      رکن ادارہ المباحث الفقہیہ جمعیۃ علماء ہند، دہلی

            ایوارڈ: صدرجمہوریۂ ہند ۲۰۰۸ء کی طرف سے عربی زبان کی خدمات پر۔

            اہم تصانیف:    (۱)       قضایا فقہیہ معاصرۃ، (۲) التَوْأم المتلاصق – نکاحہ وجنایتُہٗ وإرثہٗ (۳) مجموعہ قوانین اسلام متعلق مسلم پرسنل لا بورڈ (رکن تالیف)، (۴) بینک انشورینس اور سرکاری قرضے، (۵) یونیفارم سول کوڈ اور عورت کے حقوق، (۶) چند طبی مسائل، (۷) چند اہم دینی مباحث، (۸) موجودہ زمانے کے مسائل کا شرعی حکم، (۹) جہیز، (۱۰) معاشرتی مسائل دین فطرت کی روشنی میں ، (۱۱) رؤیت ہلال کا مسئلہ، (۱۲) اصلاحِ معاشرہ، (۱۳) موجودہ دور میں کارِ نبوت انجام دینے والے، (۱۴) مسلمانوں کی پریشانیوں کے حقیقی اسباب و علاج، (۱۵) دوآب دار موتی، (۱۶) چند اہم کتب تفسیر اور قرآن کریم کے ترجمے، (۱۷) خواتین اسلام کے تحفے، (۱۸) گلدستۂ علم ونظر (مقالات ومضامین)، (۱۹) نفقۂ مطلقہ، (۲۰) درس قرآن کریم (سورئہ اعراف، یونس اورہود)

            وفات: ۲۱؍جمادی الاولیٰ ۱۴۴۱ھ مطابق ۱۷؍جنوری ۲۰۲۰ء بہ روز جمعہ، چار بجے دن۔

            تدفین: قبرستان، ڈالی گنج، لکھنؤ۔

——————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 2-3،    جلد:104‏،  جمادى الاول  1441ھ مطابق فروری-مارچ 2020ء

٭           ٭           ٭

Related Posts