سوال: (۱) مدینہ طیبہ میں چالیس نمازیں پڑھنے کی کیا فضیلت ہے اور کیا یہ فضیلت حج کے سفر میں جو نمازیں مدینہ طیبہ میں ادا کی جاتی ہیں اُنہی نمازوں کے ساتھ خاص ہے؟
(۲) کیا حج کے سفر میں چالیس نمازیں مدینہ طیبہ میں ادا کرنا ضروری ہے؟ اور عمرہ کے سفر میں بھی کیا ضروری ہے؟
(۳) کیا عمرہ کے سفر میں بھی چالیس نمازوں کی ادائیگی پر وہی فضیلت ہے جو حج کے سفر میں ہے؟
(۴) اگر کوئی شخص حج اور عمرہ کے علاوہ کسی اور غرض سے مدینہ طیبہ کا سفر کرتا ہے اور وہاں وہ اتنے دن قیام کرتا ہے کہ جس میں وہ چالیس یا چالیس سے زائد نمازیں ادا کرتاہے تو کیا اُس کو بھی یہ فضیلت حاصل ہوگی؟
(۵) کیااس فضیلت کے حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ نمازیں مسجد نبوی میں ادا کی ہوں یا مدینہ طیبہ میں کہیں بھی ادا کرلے کافی ہے اس فضیلت کے حصول کے لیے؟
(۶) کیا اِس فضیلت کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ یہ نمازیں آٹھ دن تک لگاتار ادا کی ہوں بغیر فصل کے؟
(۷) اگر کوئی عمرہ کے ارادہ سے گیا تھا اوراس نے مدینہ میں چار دن قیام کیا اور بیس نمازیں اُس نے وہاں ادا کیں پھر اگلے سال عمرہ کرنے گیا اور پھر اس نے مدینہ میں بیس نمازیں ادا کیں اس طرح اس کی کل چالیس نمازیں ہوگئیں تو کیا اس کو بھی یہ فضیلت حاصل ہوگی؟
ان مذکورہ سوالات کا جواب قرآن وحدیث کی روشنی میں مرحمت فرماکر ثواب دارین حاصل کریں ۔
مستفتی: احمد خان خورجوی
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
حامدًا ومصلیًا مسلمًا، الجواب وباللّٰہ التوفیق والعصمۃ:
(۱) بخاری اور مسلم کی روایت کے مطابق مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب ایک ہزار نمازوں سے زیادہ ہے اور ابن ماجہ کی روایت میں مذکور ہے کہ ایک نماز کا ثواب پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے، امام احمد نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ جو شخص میری مسجد میں چالیس نمازیں اداکرے اور کوئی نماز اس کی فوت نہ ہو تو اس کے لیے آگ اور نفاق سے براء ت لکھی جائے گی۔ یہ ثواب ایام حج کے ساتھ خاص نہیں ہے؛ بلکہ سال بھر میں جب کبھی نماز پڑھے گا یہ ثواب ملے گا۔
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ: أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: صلاۃ في مسجدي ہذا خیر من ألف صلاۃ فیما سواہ، إلا المسجد الحرام [صحیح البخاری، رقم: ۱۱۹۰] عن أبي ہریرۃ، یبلغ بہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: صلاۃ في مسجدي ہذا أفضل من ألف صلاۃ فیما سواہ، إلا المسجد الحرام۔ [صحیح مسلم، رقم:۱۳۹۴]
عن أنس بن مالک، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’صلاۃ الرجل في بیتہ بصلاۃ، وصلاتہ في مسجد القبائل بخمس وعشرین صلاۃ، وصلاتہ في المسجد الذي یجمع فیہ بخمس مائۃ ألف صلاۃ۔ [سنن ابن ماجہ، رقم: ۱۴۱۳] عن أنس بن مالک، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال: ’’من صلی في مسجدي أربعین صلاۃ، لا یفوتہ صلاۃ، کتبت لہ برائۃ من النار، ونجاۃ من العذاب، وبریٔ من النفاق‘‘ [مسند أحمد، رقم:۱۲۵۸۳)
(۲) ضروری تو نہیں ہے؛ لیکن مدینہ منورہ میں ہوتے ہوئے مسجد نبوی میں نماز نہ پڑھنا بڑی محرومی کی بات ہے۔
(۳) جی ہاں ۔
(۴) جی ہاں ۔
(۵) اس قدر ثواب مسجد نبوی میں پڑھی گئی نمازوں کے ساتھ خاص ہے۔
(۶) چالیس نمازیں مسجد نبوی میں پڑھنے پر جہنم، عذاب اور نفاق سے بری ہونے کی جو فضیلت آئی ہے، یہ پے درپے نماز پڑھنے کے ساتھ خاص ہے، جیساکہ حدیث کے الفاظ ’’لایفوتہ صلاۃ‘‘ سے معلوم ہوتا ہے۔ (نیز دیکھیں : احسن الفتاوی ۳/۳۵، ط:زکریا)
(۷) چالیس نمازوں والی فضیلت صورت مسئولہ میں حاصل نہ ہوگی؛ ہاں تضعیفِ اجر والی فضیلت حاصل ہوگی۔
الجواب صحیح: فخر الاسلام عفی عنہ، زین الاسلام قاسمی مفتیانِ دارالافتائ، دارالعلوم دیوبند | فقط واللّٰہ تعالیٰ أعلم بالصواب محمد اسداللہ غفرلہٗ ۲۸؍۳؍۱۴۴۱ھ=۲۶؍۱۱؍۲۰۱۹ء دارالافتاء دارالعلوم دیوبند |
==============================
سوال: علماء دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کیا فرماتے ہیں :
(۱) ہمارے گائوں میں ایک جامع مسجد ہے جس کے احاطے میں مختلف قسم کے پیشہ ور لوگ بستے ہیں مثلاً: تاجر، سرکاری آفس واسکول میں نوکری کرنے والے، کھیتی باڑی کرنے والے وغیرہ جن میں سے اکثر لوگ اپنے کام چھوڑ کر نماز جمعہ میں شریک ہوجاتے ہیں جب کہ مذکورہ مسجد میں نماز جمعہ کے لیے زمانۂ دراز سے ایک وقت متعین ہے لوگ اسی اعتبار سے سنن و نوافل سے فارغ ہوکر نماز جمعہ ادا کرتے ہیں اور پھر دوبارہ اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوجاتے ہیں ؛ لیکن گذشتہ کئی مہینے سے مسجد ہذا کے امام صاحب کبھی بنفس نفیس اور کبھی دیگر علماء کرام یا تو تبلیغی ذمہ داران کے ذریعہ مصلیوں کو وعظ ونصیت کراتے ہوئے پہلی اذان کے تھوڑی دیر بعد سے لے کر خطبہ کے لیے مقرر شدہ وقت سے دس منٹ تک تجاوز کرجاتے ہیں پھر سنت اداکی جاتی ہے پھر خطبہ جمعہ شروع ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں نماز جمعہ تاخیر سے ختم ہوتی ہے؛ لہٰذا بعض لوگ اپنے ضروری کام انجام دینے سے محصور ہوجاتے ہیں اور بعض کو بڑا خلل ہوتا ہے، اب سوال یہ ہے کہ مذکورہ موصوفین کو اس طرح مسجد میں جمع کرکے خطاب کرتے رہنا شریعت کے نقطئہ نظر سے کہاں تک درست ہے؟
واضح رہے کہ مذکورہ گائوں میں صرف ایک ہی جامع مسجد ہے۔
(۲) چونکہ مذکورہ مسجد تبلیغی مرکز بھی ہے؛ لہٰذا اس میں تبلیغی جماعتیں بھی وقتاً فوقتاً آتی رہتی ہیں ، فرض نماز باجماعت ختم ہوتے ہی یہ لوگ اپنے حسب معمول امور کو انجام دینے کے لیے زور شور سے اعلان کرتے ہیں جب کہ مسبوقین ابھی اپنی نماز کی تکمیل کررہے ہوتے ہیں اور بھی جماعت کے کام کرنے والے مقامی مصلی ابھی اپنی نماز ادا کررہے ہوتے ہیں کچھ کہنے پر سنن ونوافل مسجد کے برآمدہ میں ادا کرنے کا حکم دیتے ہیں ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا مسجد کے اندر اس وقت کتابی تعلیم دی جائے گی یا سنن ونوافل کی ادائیگی کو ترجیح ملے گی؟
المستفتی: محمد حفیظ الرحمن چودھری
شالمارا، ضلع نوگائوں (آسام)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
حامدًا ومصلیًا ومسلمًا، الجواب وباللّٰہ التوفیق والعصمۃ:
(۱) نماز جمعہ سے قبل کسی متبع سنت عالم دین کے ذریعے دینی بیان کرادینے میں تو کوئی حرج نہیں ہے، یہ ایک مفید سلسلہ ہے؛ لیکن اس کا طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ خطبہ شروع ہونے کا جووقت مقرر ہے، اس سے سات آٹھ منٹ پہلے بیان ختم کردیا جائے؛ تاکہ حاضرین چار گانہ سنت ادا کرسکیں ، سنت کے بعد وقت مقررہ پر خطبہ شروع ہوجائے، سوال میں ذکر کیاگیا طریقہ قطعاً مناسب نہیں ہے، اس کی اصلاح مذکورہ بالا طریقے پر ضروری ہے۔
(۲) بعد دعا مختصر لفظوں میں اعلان کردینے میں تو کوئی حرج نہیں ، گنجائش ہے؛ لیکن اگر طویل اعلان کرنا ہوتو اتنا انتظار کرنا چاہیے کہ مسبوقین نماز سے فارغ ہوجائیں ؛ اس طور پر اعلان کرنا کہ مسبوقین کی نمازوں میں خلل ہو درست نہیں ہے، اسی طرح جن نمازوں کے بعد سنن ونوافل ہیں یعنی ظہر، عشاء اور مغرب کی نمازوں میں ، بعد جماعت بیان شروع کرنے میں اتنا توقف کرنا چاہیے کہ مصلیان سنن ونوافل سے فارغ ہوجائیں ، سنن ونوافل سے فارغ ہونے سے پہلے ہی بیان یا تعلیم شروع کردینا جس کی وجہ سے ان کے لیے نماز مکمل کرنا دشوار ہوجائے درست نہیں ہے، اس کی اصلاح ضروری ہے، اگر پہلے بیان کرنا ناگزیر ہوتو مسجد کے برآمدے میں کسی جگہ، جہاں لوگ سنن ونوافل میں مشغول نہ ہوں بیان کیاجائے۔ بہرحال مصلیوں کی رعایت مقدم ہے۔
وفي حاشیۃ الحموي عن الإمام الشعراني: أجمع العلماء سلفا وخلفا علی استحباب ذکر الجماعۃ في المساجد وغیرہا إلا أن یشوش جہرہم علی نائم أو مصل أو قاریٔ إلخ [الدرالمختار وحاشیۃ ابن عابدین (رد المحتار) ۱/۴۳۴۔ مطلب في رفع الصوت بالذکر، ط: زکریا]
۔۔۔۔ أن المساجد إنما بني للمکتوبۃ، وتوابعہا کنافلۃ وذکر وتدریس علم، وہو الموافق لإطلاق إلخ [الدرالمختار وحاشیۃ ابن عابدین (رد المحتار) ۳/۱۳۹، کتاب الجنائز، ط: زکریا، دیوبند]
الجواب صحیح: فخر الاسلام عفی عنہ، زین الاسلام قاسمی مفتیانِ دارالافتائ، دارالعلوم دیوبند | فقط واللّٰہ تعالیٰ أعلم بالصواب محمد اسداللہ غفرلہٗ ۱۸؍۴؍۱۴۴۱ھ=۱۶؍۱۲؍۲۰۱۹ء دارالافتاء دارالعلوم دیوبند |
==============================
سوال: کیا رات کو کھانا کھانے کے بعد ۴۰ قدم چلنا کسی حدیث سے ثابت ہے؟
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون ملہم الصواب:کسی حدیث میں اس کی صراحت نہیں مل سکی، البتہ علامہ بن القیمؒ نے زاد المعاد میں حارث بن کلدہ کے وصایا کے تحت یہ بات نقل کی ہے، حوالے کی عبارت اس طرح ہے: ’’ولما احتضر الحارث اجتمع إلیہ الناس، فقالوا مرنا بأمر ننتہی إلیہ من بعدک، فقال: لا تزوجوا النساء إلا شابۃ۔۔۔ وإذا تغدی أحدکم فلینم علی إثر غدائہ، وإذا تعشّی فلیمش أربعین خطوۃ۔ (زاد المعاد: ۲؍۲۳۸، ط: شرکۃ القدس للنشر والتوزیع)
الجواب صحیح: حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ، محمد اسد اللہ غفرلہ مفتیانِ دارالافتائ، دارالعلوم دیوبند | فقط واللّٰہ اعلم وقار علی غفرلہ ۱۰؍۳؍۱۴۴۱ھ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند |
==============================
سوال: یوٹیوب پر عورتیں بیان کرتی ہیں ، کیا ان کا بیان دینا درست ہے؟شریعت میں عورت کی آواز کے پردے کا کیا حکم ہے؟میں اپنا یوٹیوب چینل بنانا چاہتی ہوں کیا یہ درست ہے؟
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون ملہم الصواب: عورتوں کے لئے باتصویر یوٹیوب چینل بنانا مفاسد پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے اس میں جاندار کی تصویر کشی کا گناہ پایا جاتا ہے، اور نامحرم مردوں تک آواز کا پہونچانا بھی پایا جاتا ہے، اس لیے اس سے احتراز چاہیے، عورتوں کو اپنے مقام پر رہ کر حدود شرع کا خیال کرتے ہوئے بیان و نصیحت کا کام کرنا چاہئے۔
أشد الناس عذاباً یوم القیامۃ المصوّرون (الحدیث) قال الجصاص: تحت قولہ ولا یضربن بأرجلہن لیعلم ما یخفین من زینتہن، الآیۃ۔ وفیہ دلالۃ علی أن المرأۃ منہیۃ عن رفع صوتہا بالکلام بحیث یسمع ذلک الأجانب، إذ کان صوتہا أقرب إلی الفتنۃ عن صوت خلخالہا (أحکام القرآن)
الجواب صحیح: حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ، محمد اسد اللہ غفرلہ مفتیانِ دارالافتائ، دارالعلوم دیوبند | فقط واللّٰہ اعلم وقار علی غفرلہ ۲؍۴؍۱۴۴۱ھ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند |
==============================
سوال: مجھے قبض رہتاہے جس کی وجہ سے مجھے گیس بنا رہتا ہے اور جب میں نماز ادا کرتا ہوں تو گیس بنتا ہے جس کی وجہ سے نماز اداکرنا مشکل رہتا ہے میں کیا کروں ؟
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون ہلم الصواب:گیس اور قبض کی شکایت ہے تو اس کا علاج کرائیں ، جہاں تک نماز پڑھنے کا مسئلہ ہے تو اس کے متعلق عرض ہے کہ اگر گیس بننے اور ریاح خارج ہونے کی کثرت ہے اور بلا اختیار ریح خارج ہو جاتی ہے اور کسی ایک نماز کا پورا وقت ایسا گذر چکا ہے کہ اس عذر (گیس) کی وجہ سے وقتیہ فرض نماز ادا کرنے کا موقع نہ ملا ہو تو ایسی صورت میں ایک نماز کے وقت میں ایک وضو آپ کو کافی ہوگا۔ اور جب تک وقت باقی رہے گا خروج ریاح کی وجہ سے آپ کا وضو نہیں ٹوٹے گا آپ اسی حال میں نماز پڑھ سکتے ہیں ، دوسرے وقت کی نماز کے لیے دوسرا وضو کرنا ہوگا اور اگر گیس نکلنے کی یہ صورت نہیں ہے یعنی ریاح کا خارج ہونا اختیاری ہے اور اتنا وقت خالی مل جاتا ہے کہ وضو کرکے فرض نماز ادا کر سکتے ہیں اور ریاح کا خروج نہیں ہوتا تو ایسی صورت میں جب جب بھی ریح کا خروج ہوگا وضو ٹوٹ جائے گا اور ہر مرتبہ وضو کرنا ہوگا اور ریح خارج نہ ہو تو محض گیس بننے کی وجہ سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔
الجواب صحیح: حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ، محمد اسد اللہ غفرلہ مفتیانِ دارالافتائ، دارالعلوم دیوبند | فقط واللّٰہ اعلم وقار علی غفرلہ ۲۶؍۳؍۱۴۴۱ھ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند |
==============================
———————————————-
دارالعلوم ، شمارہ : 2-3، جلد:104، جمادى الاول 1441ھ مطابق فروری-مارچ 2020ء
٭ ٭ ٭