از:مولانا شاہ عالم گورکھپوری

نائب ناظم کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت دار العلوم دیوبند

            دار العلوم دیوبند عقیدے کے اعتبار سے اہل السنت والجماعت اور مسلک کے لحاظ سے حنفی ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے دینی اور مسلکی رخ کو نہایت ہی بلیغ اور جامع انداز میں دارالعلوم  دیوبند کے سابق مہتمم حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب نور اﷲ مرقدہ نے ان الفاظ میں واضح کیا ہے۔حضرت موصوف لکھتے ہیں :

             ’’علمی حیثیت سے یہ ولی اللہی جماعت مسلکاً اہل سنت والجماعت ہے جس کی بنیاد کتاب وسنت اور اجماع وقیاس پر قائم ہے ، اس کے نزدیک تمام مسائل میں اولین درجہ نقل روایت اور آثارِسلف کو حاصل ہے ، جس پر پورے دین کی عمارت کھڑی ہوئی ہے ، اس کے یہاں کتاب وسنت کی مرادات محض قوتِ مطالعہ سے نہیں ؛ بلکہ اقوالِ سلف اور ان کے متوارث مذاق کی حدود میں محدود رہ کر نیز اساتذہ اور شیوخ کی صحبت وملازمت اور تعلیم وتربیت ہی سے متعین ہوسکتی ہیں ، اسی کے ساتھ عقل ودرایت اور تفقہ فی الدین بھی اس کے نزدیک فہم کتاب وسنت کا ایک بڑا اہم جزو ہے ، وہ روایات کے مجموعہ سے شارع علیہ السلام کی غرض وغایت کو سامنے رکھ کر تمام روایات کو اُسی کے ساتھ وابستہ کرتا ہے اور سب کو درجہ بدرجہ اپنے اپنے محل پر جمع بین الروایات اور تعارض کے وقت تطبیق ِاحادیث اس کا خاص اصول ہے ، جس کا منشاء یہ ہے کہ وہ کسی ضعیف سے ضعیف روایت کو بھی چھوڑنا اور ترک کردینا نہیں چاہتا؛ جب تک کہ وہ قابل احتجاج ہو،۔۔۔۔۔

            تزکیۂ نفس اور اصلاح باطن بھی اس کے مسلک میں ضروری ہے ، اس نے اپنے منتسبین کو علم کی رفعتوں سے بھی نوازا اور عبدیت وتواضع جیسے انسانی اخلاق سے بھی مزین کیا ،۔۔۔۔۔۔

            بنا بریں دینی شعبوں کے تمام اربابِ فضل وکمال اور راسخین فی العلم خواہ محدثین ہوں یا فقہاء صوفیاء ہوں یا عُرَفاء ،متکلمین ہوں یا اصولین ، امرائِ اسلام ہوں یا خلفاء ان کے نزدیک سب واجب الاحترام اور واجب العقیدت ہیں ، جذباتی رنگ سے کسی طبقے کو بڑھانا اور کسی کو گرانا یا مدح وذم میں حدود شرعیہ سے بے پروا ہوجانا اس جماعت کا مسلک نہیں ، اس جامع طریق سے دارالعلوم نے اپنی علمی خدمات سے شمال میں سائبیریا سے لے کر ، جنوب میں سماٹرا اور جاوا تک اور مشرق میں برما سے لے کر مغربی سمتوں میں عرب اور افریقہ تک علوم نبویہ کی روشنی پھیلادی جس سے پاکیزہ اخلاق کی شاہراہیں صاف نظر آنے لگیں ۔

            ۔۔۔۔۔مختصر یہ کہ علم واخلاق کی جامعیت اس جماعت کا طرۂ امتیاز رہا اور وسعتِ نظری ، روشن ضمیری اور رواداری کے ساتھ دین وملت اور قوم ووطن کی خدمت اس کا مخصوص شعار؛ لیکن ان تمام شعبہ ہائے زندگی میں سے زیادہ اہمیت اس جماعت میں مسئلۂ تعلیم علوم نبوت کو حاصل رہی ہے؛ جب کہ یہ تمام شعبے علم ہی کی روشنی میں صحیح طریق پر بروئے کار آسکتے تھے اور اسی پہلو کو اس نے نمایاں رکھا؛ اس لیے اس مسلک کی جامعیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ جامع علم ومعرفت ، جامع عقل وعشق ، جامع عمل واخلاق، جامع مجاہدۂ وجہاد ، جامع دیانت وسیاست، جامع روایت ودرایت، جامع خلوت وجلوت،  جامع عبادت ومدنیت ، جامع حکم وحکمت ، جامع ظاہر وباطن اور جامع حال وقال ہے ، اس مسلک کو جو سلف وخلف کی نسبتوں سے حاصل شدہ ہے اگر اصطلاحی الفاظ میں لایا جائے تو اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دارالعلوم دیناً مسلم ، فرقۃً اہل السنۃ والجماعۃ، مذہباً حنفی ، مشرباً صوفی ، کلاماً ماتریدی اشعری، سلوکاً چشتی؛ بلکہ جامع السلاسل ، فکراً ولی اللّٰہی، اصولاً قاسمی، فروعاً رشیدی، اور نسبتاً دیوبندی ہے ۔‘‘

            اسلام کے خلاف جب بھی کسی فتنے نے سراٹھایا تو اس کی سرکوبی بغیر کسی لیت و لعل کے دارالعلوم اور ابنائے دار العلوم دیوبند نے اپنا دینی اور اخلاقی فریضہ سمجھا اور اس فریضہ کو اس خلوص وللہیت کے ساتھ نبھایا کہ آج دنیائے اسلام میں یہی ان کا طرۂ امتیاز بن گیا؛ چنانچہ رفض و تشیع ہو یا نصرانیت و عیسائیت ، بابیت اور بہائیت ہو یا قادیانیت ہو یا دور حاضر میں جدت و جدیدیت کے نام سے جنم لینے والے دیگر فتنے ہوں ، کسی بھی فتنے کے مقابلہ میں علماء دیوبند نے کبھی سمجھوتے سے کام نہلیا ۔

            نصرانیت ، عیسائیت اور شیعیت کے خلاف دار العلوم دیوبند کے اکابر بالخصوص حضرت مولانا رحمت اﷲ کیرانوی ، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہم اﷲ وغیرہم کی خدمات جگ ظاہر ہیں ۔۱۹۲۳ء میں آگرہ کے قرب و جوار میں جب فتنۂ ارتداد نے سر اٹھایا تو دارالعلوم نے اپنی حیثیت سے کہیں آگے بڑھ چڑھ کر بڑی بے جگری کے ساتھ اس فتنہ کا مقابلہ کرنے کیے لیے حصہ لیا؛ چنانچہ اس مقصد کے لیے آگرہ میں مستقل ایک دفتر قائم کیاگیا جس کے تحت پچاسوں مبَلغین شب و روز فتنۂ ارتداد کے علاقوں میں خدمات میں مصروف رہے ، دو سو سے زائد مکاتب قائم کیے گئے جن  میں وہاں کے باشندے ملکانو ں اور ان کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو دینی تعلیم دینے کا نظم کیاگیا ۔ اعتراف حقیقت کے طور پر اُن دنوں ملک کے مشہور اخبار ’’سیاست لاہور ‘‘ نے اپنے اداریہ مورخہ ۲۷ جون ۱۹۲۳ء کی اشاعت میں لکھا :

            ’’ دار العلوم دیوبند کے مبلغین کو فتنۂ ارتداد میں جو جو نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئیں وہ اظہر من الشمس ہیں ۔ جہاں تک تحفظ دین و تردید مخالفین اور اصلاح مسلمین کا تعلق ہے وہ دار العلوم دیوبند کے مدرسین و مبلغین اور منتظمین کا حصہ سارے ہندوستان میں بڑھ چڑھ کر ہے ، مثال کے طور پر اگر ان غیر محدود کوششوں کو ملاحظہ کرلیا جائے جو آریہ سماج نے اسلام کے خلاف کیں تو آپ کو روز روشن کی طرح نظرآئے گا کہ ان مساعی کے مقابلے میں سب سے زیادہ نمایاں طریق پر جو سینہ سپر ہوا وہ ’’مدرسہ عالیہ عربی دیوبند‘‘ ہی ہے جو ہندوستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ملی سرمایہ کے تحفظ اور بقاء کا ذریعہ بناہے ‘‘

             انیسویں صدی کے اخیر میں جب قادیانیت نے سر اٹھایا تو علماء دیوبند ہی ہیں جنھوں نے قادیانی فتنہ کا ایسا کامیاب تعاقب کیا کہ باوجود انگریزی حکومت کی سرپرستی اور کھلے عام تعاون کے قادیانیت اپنی تمام تر منصوبہ بندیوں میں پوری طرح ناکام رہی، جو لوگ اس فتنے کے خطرناک عزائم سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ صہیونیت کی تحریک سے کئی گنا خطرناک منصبوبے مرزا قادیانی کے تھے اور ان منصوبوں کی تکمیل کے لیے انگریزی حکومت نے مرزا قادیانی کو مذہبی چولہ اور الہامی زبان کا مالک بھی بنادیا تھا ،یہ قوت نہ بابیوں اور بہائیوں کو حاصل تھی اور نہ صہیونی دانشوروں کو؛ لیکن علماء دیوبند کی مخلصانہ جد جہد نے اسے سیاسی ،سماجی اور علمی تمام میدانوں میں ناکام بنادیا ۔

            قادیانی سرگرمیوں کے اعتبار سے اگر تحفظ ختم نبوت کی خدمات کاجائزہ لیاجائے تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ پہلے دور میں یعنی قادیانی فتنہ کے منظر عام پر آنے سے لے کر مرزا قادیانی کے مرنے تک قادیانیت اور اسلام کے مابین میدانِ کارزارصرف زبان اورکاغذ و قلم رہا ہے؛چنانچہ انفرادی طور پر یا کسی قدر اجتماعی طورپر اُس دور کے علماء اسلام نے اور بالخصوص علماء دیوبند نے کاغذ و قلم اور زبان کے ہی میدان میں اس کو منطقی انجام تک پہنچایااور قادیانیت اس طرح شکست و ریخت سے دوچار ہوئی کہ انگریزی حکومت کی ہزارسرپرستی کے باوجودخود اپنے بل بوتے اس میں زندہ رہنے کی قوت نہ رہی۔حضرت مفتی کفایت اﷲ شاہجہاں پوری ثم دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ نے’’ البرہان ‘‘نامی مستقل ایک رسالہ ۱۹۰۳ء میں مدرسہ عین العلم شاہجہاں پور سے جاری کیا اور اپنے شاگردوں کی ایک کھیپ اس میدان میں کام کرنے کے لیے تیار کردی ۔حضرت مولانا عبد السمیع انصاریؒ دیوبندی ،حضرت مولانااعزاز علیؒ ناظم تعلیمات دار العلوم دیوبند اورحضرت مولانا محمد مسلمؒ دیوبندی ، حضرت مولانا مرتضی حسنؒ چاندپوری ،فاضل دار العلوم حضرت مولانا ثناء اﷲ امرتسری ، حضرت مولانا عبد الغنیؒ شاہجہاں پوری ، حضرت مولانا مفتی مہدی حسن شاہجہاں پوری ؒوغیرہم کی تحریری اور عوامی خدمات آج بھی پوری دنیا کے لیے مشعلِ راہ ہیں ۔

             قادیانیت کے خلاف تحفظ ختم نبوت کی تاریخ میں ایسا پہلی بار دکھائی دیتا ہے کہ حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ صدر المدرسین دار العلوم دیوبند نے اس تحریک کو علمی استدلال کے ساتھ مستقل طور پر اہل علم سے بھی جوڑا جس کے نتیجے میں اہلِ علم کا ایک قدآور طبقہ مستقل بالذات تحریر و تقریر کے میدان میں تحریک سے وابستہ دکھائی دیتا ہے، نیز پورے طور پر عوامی جذبات کی وابستگی بھی تحریک سے دکھائی دینے لگتی ہے ۔ تحریک تحفظ ختم نبوت سے اہلِ علم کے وابستہ ہونے کی یا عوامی جذبات کے تحریک کے ساتھ وابستہ ہونے کی یہ نوعیت ہمیں پہلے دور سے بدیہی طورپر مختلف دکھائی دیتی ہے؛ بلکہ دو سر ے دور میں پہلے دور کی بہ نسبت کام میں استحکام و جامعیت بھی دکھائی دیتا ہے ۔

             اہلِ علم کا یہی وہ مقدس گروہ ہے جو آزادیِ ہند و تقسیم ہند کے بعد تحریک تحفظ ختم نبوت کے تیسرے دور میں بھی زبان وقلم کے ساتھ سیاسی اور سماجی میدان میں ہمہ جہت سرگرم عمل دکھائی دیتاہے۔حضرت مولانا احمد علی لاہوری ،رئیس الاحرارحضرت  مولاناحبیب الرحمن لدھیانوی، حضرت  مفتی محمد شفیع دیوبندی ،حضرت  مولانا بدرعالم میرٹھی ،حضرت  مولانا محمد ادریس کاندھلوی، حضرت  مولانا محمد علی جالندھری ،فاتح قادیان حضرت مولانا محمد حیات رحمہم اﷲ اجمعین کا نام فخر سے لیا جاسکتا ہے۔ تقسیمِ ہند سے پہلے یا تقسیمِ ہند کے بعد حضرت مولانا عطاء اﷲ شاہ بخاری و حضرت علامہ کشمیریؒ کے تلامذہ رحمہم اﷲ کی علمی و استدلالی محنتوں کا ہی ثمرہ ہے کہ قادیانی فتنہ کومکہ مکرمہ میں بین الاقوامی سطح پر بھی اور قادیانیت کے مرکز ثانی پاکستان میں پارلیمانی و سیاسی سطح پر بھی شکست و ریخت سے دوچار ہونا پڑا اوریہ ماناجاتا ہے کہ بجاطور پر اُن اکابر نے اپنے دور کے تقاضوں کے لحاظ سے تحریک تحفظ ختم نبوت کا حق ادا کردیاکہ قادیانی ناسور کو جسد ملی سے کاٹ کر دور پھینک دیاگیا۔

             اس کے بعد تحفظ ختم نبوت کی تاریخ کاوہ دور شروع ہوتا ہے جس میں اس تحریک کو تنظیمی خطوط پر استوار کرکے دینی اور ملّی تقاضوں کی تکمیل کی طرف توجہ دی جانے لگی ، کثرت سے مستقل طور پر ’’تحفظ ختم نبوت ‘‘کے نام سے مجالس اورتنظیموں کا قیام عمل میں آیا پھر جغرافیائی تقسیم کے سبب دارالعلوم اور مسلک دار العلوم دیوبند سے وابستہ بعض تنظیموں نے بین الاقوامی سطح پر اس خدمت کا بیڑا اٹھایا تو بعض نے اپنی خدمات کو ملکی حدود میں محدود رکھا بعضوں نے اپنی بساط کے مطابق صرف علاقائی سطح پر اپنی خدمات کو جاری رکھا ۔الحمد ﷲہند ستان میں اس عظیم خدمت کا واحد مرکز دار العلوم دیوبند اپنے سابقہ روایات کی طرح آج بھی پورے طور پر سرگرم عمل ہے؛ چنانچہ امیر الہند مولانا سید اسعد مدنی نوراﷲ مرقدہ کی فکر و نظر اور مجلس شوری کے اراکین کی توجہ سے کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند کی زیر نگرانی پورے ملک میں سماج میں بیداری کے لیے اجلاسہائے عام اور میٹنگوں کی شکل میں جو خدمات جاری و ساری ہیں وہ محتاج تعارف نہیں ، علاوہ ازیں لیٹریچر اور کتابوں کے میدان میں بھی کل مجلس اورہندستان کے مختلف صوبوں میں قائم اس سے ملحقہ مجالس کی مطبوعات سکیڑوں سے متجاوز ہیں جو اردو زبان کے ساتھ ہندی ، انگلش اور علاقائی زبانوں میں تقاضوں کی تکمیل کرتی ہیں ۔

            اس سے بھی آگے بڑھ کر دار العلوم دیوبند کا یہ کارنامہ ہے کہ اس نے تعلیمی میدانوں میں افراد سازی کے لیے مستقل طور پر اس کا نصاب بنایا اور باضابطہ سہ ماہی اور سالانہ کورس میں داخلے لے کر پورے ملک میں اس موضوع پر خدمات انجام دینے کے لیے افراد تیار کیے جو جگہ جگہ قادیانی فتنہ کے سدباب کے لیے اپنے آپ کو وقف کرتے رہے ۔دار العلوم دیوبند نے علمی سطح پر افراد سازی کے لیے تربیتی کیمپوں کا ایک مفید سلسلہ پورے ملک میں متعارف کرایا جس سے علاقائی علماء اور دینی مدارس کے فضلاء کے علاوہ بلا تفریق مسلک و مشرب عصری تعلیم گاہوں سے وابستہ تمام مکاتب فکر کے مسلمان بھی خوب خوب مستفید ہوتے ہیں ، اندرون دار العلوم ہر سال ماہ شعبان میں پانچ روزہ تربیتی کیمپ لگایاجاتا ہے جس میں ہرسال شرکاء کی تعداد چار سو سے متجاوز ہوتی ہے ۔

            کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت دار العلوم دیوبندکی زیر نگرانی ، دہلی ، حیدرآباد ، نظام آباد تلنگانہ ،لور آسام ،اپر آسام، راجستھان ، پنجاب ، ہریانہ ، بہار ، جھارکھنڈ ، اڑیسہ ، بنگال ، چنئی ، وغیرہ صوبوں میں علاقائی طور پر خدمات انجام دینے کے لیے جو مجالس قائم ہیں اور ان کے تحت افراد سازی کے لیے خدمات کا جو سلسلہ جاری ہے بحمد ﷲ اس کا بھی ایک طویل باب ہے ۔ سکیڑوں صفحات میں ان کی سالانہ رپوٹیں منظر عام پر آکر نہ صرف یہ کہ منتسبین دار العلوم دیوبند میں عوام و خواص سے؛ بلکہ جن حلقوں میں دار العلوم دیوبند کی شدت سے مخالفت کی جاتی ہے اُن میں بھی دادِ تحسین حاصل کرتی رہی ہیں ۔

            تحفظ ختم نبوت کے عنوان سے بہت سے لوگ دھوکہ میں مبتلا رہتے ہیں کہ یہ عنوان خاص ہے رد قادیانیت کے لیے یا اس عنوان کے تحت صرف اور صرف رد قادیانیت ہی کی خدمات انجام دی جانی چاہیے۔اگر کسی کے ذہن میں ایسا ہے تو یہ صد فی صد غلط فہمی پر مبنی ہے ۔ تحفظ ختم نبوت کا واضح مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی فتنہ جو نبی آخر الزماں صلی اﷲ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کے عقائد و اعمال پر حملہ آور ہوتا ہو جیسے کہ شکیلیت ہو یا عیسائیت ہو یااور نئے نئے فرقے ہوں جو مہدویت یا مسیحیت کے عنوان سے عوام میں آتے ہیں تواُن سب کے دست و برد سے ختم نبوت کا تحفظ مقصود ہے ۔ لہٰذا شکیلیت کے خلاف اگر کوئی خدمت انجام دینی ہے تو وہ بھی اسی عنوان کے تحت انجام دی جائے گی؛ کیوں کہ کوئی بھی فتنہ پہلے نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر حملہ آور ہوتاہے اس کے بعد ہی وہ اپنا نام الگ تجویز کرتا ہے ۔حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد پالن پوری مدظلہ شیخ الحدیث دار العلوم دیوبند ہمیشہ یہی فرماتے ہیں کہ اس عنوان کے تحت تمام ہی باطل فرقوں اور فتنوں کا تعاقب جاری رکھنے کے لیے اکابر نے اس عنوان کا انتخاب کیا ہے، خدا معلوم کیسے کچھ لوگوں نے اس کو رد قادیانیت کے لیے خاص کردیا ہے ۔

—————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 1،    جلد:104‏،  جمادى الاول  1441ھ مطابق جنوری 2020ء

٭           ٭           ٭

Related Posts