از: مولانا محمد خالد حسین نیموی قاسمی
ناظم تعلیمات مدرسہ بدر الاسلام بیگوسرائے
ضلع سہارنپور ومظفرنگرسول نافرمانی تحریک کے ڈکٹیٹر مولانا رحمانیؒ
مولانا منت اللہ رحمانیؒ، حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی، اورحضرت مولاناابوالمحاسن محمد سجادؒ کے عزیز تر شاگرداور ان کے افکار وآراء کے امین تھے، اپنے استاذ حضرت شیخ مدنیؒ کی صحبت نے ان کے دل میں دبی ہوئی آزادی کی چنگاری کو شعلہ جوالہ بنادیا تھا۔ مزید برآں طلبہ کے جلوس کی قیادت، گرفتاری اور جیل کے مصائب نے آپ کو تپاکر کندن بنادیاتھا۔ حضرت شیخ مدنیؒ کو اپنے شاگرد حضرت رحمانی کی قائدانہ صلاحیتوں کابخوبی ادراک ہوچکا تھا۔ لہٰذا حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد اور حضرت شیخ مدنی کے مشورے سے انھیں تحریک سول نافرمانی کا ذمہ دار (اس وقت کی اصطلاح کے مطابق ڈکٹیٹر )بناکر سہارنپور اور مظفر نگر میں کام کرنے کے لیے بھیجا جہاں آپ نے تین ماہ تک تحریک کا کام بخوبی انجام دیا۔
ادارہ حربیہ کے لیے ڈکٹیٹر کی اصطلاح
موجودہ زمانے میں ڈکٹیٹر کے لفظ سے وحشت ہوتی ہے؛لیکن آزمائش کے زمانے کے ضابطے الگ ہوجاتے ہیں ۔ سول نافرمانی کی تحریک کے زمانے میں جمعیۃ علماء ہند اور گانگریس دونوں نے اس ادارہ کے صدر، سکریٹری خازن اور دیگر عہدوں کو ایک سر کلر کے ذریعہ ختم کردیا تھا؛ اس لیے کہ صدر اور سکریٹری کا انتخاب عام طور پر جنرل باڈی کی میٹنگ یا عاملہ کے ذریعہ ہوا کرتا تھا؛ لیکن یہاں صورت حال یہ تھی کہ نہ تو میٹنگ کی فرصت نہ اجلاس کا موقع! کب کس کو کہاں سے گرفتار کرلیا جائے گا؟ اس کا کچھ اتہ پتہ قائدین کو نہیں ہوتا تھا۔ ایسے میں صدر یا سکریٹری کے انتخاب کا کوئی موقع نہیں ہوتا تھا؛ اس لیے صدر سکریٹری کے عہدوں کو ختم کرکے جمعیۃ علماء نے ڈکٹیٹر شپ قائم کردی تھی، ڈکٹیٹر ہی نظام چلاتا تھا اور جب وہ گرفتار ہوجاتا تھا، تو اپنی گرفتاری کے وقت اپنے جانشیں ڈکٹیٹر کا اعلان کردیتا تھا ؛ایسے حضرات کی فہرست خفیہ طور پر پہلے تیار کرلی جاتی تھی؛ جو ڈکٹیٹر بنائے جائیں اور ان کی ترتیب بھی مقرر کردی گئی تھی، اس زمانے کا ریکارڈ پولیس کے چھاپوں اور بقیہ دیمک کی نذر ہوچکا۔ اس وقت بہت سی چیزیں لکھی نہیں جاتی تھیں ؛ بلکہ ذہن نشیں کی جاتی تھیں ؛ تاکہ خبر لیک نہ ہوجائے۔ سی آئی ڈی کے لوگ سایے کی طرح ساتھ لگے رہتے تھے۔ اسی طرح ریاست اور اضلاع میں بھی سول نافرمانی تحریک کے ڈکٹیٹر مقرر کیے جاتے؛ چنانچہ حضرت مولانامنت اللہ رحمانیؒ کو ضلع سہارنپور اور مظفر نگر اضلاع کا ڈکٹیٹرمقرر کیاگیا۔
امیر شریعتؒ کی دوسری گرفتاری
اس زمانہ میں حکومت کی طرف سے بڑی سختی اور نگرانی ہوا کرتی تھی اس طرح کے کام کرنے والوں کو فورا گرفتار کر لیا جا تا، جس کی وجہ سے کام کرنا کافی دشوار تھا۔ مولانا منت اللہ رحمانیؒ بچتے بچاتے اور چھپتے چھپاتے لوگوں سے ملتے اور ہر صبح الگ الگ مسجد میں نماز پڑھتے اور نماز کے بعد لوگوں کو روک کر تحریک آزادی کا مقصد اور اس کی ضرورت پر روشنی ڈالتے اور تحریک میں شرکت پر آمادہ کرتے اور نوجوانوں کو جمعیت کا رضا کار بناتے۔ جامع مسجد میں بعد نماز جمعہ جلسہ ہوتا اور جو رضاکار تحریک کے کام کے لیے تیار ہوتے انھیں ہار پہنایا جاتا، وہ لوگ شراب پینے اور خرید وفرخت کرنے سے روکتے اور جب پولیس کے ہتھے یہ لوگ چڑھتے تو پولیس انھیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیتی۔ اس طرح یہ تحریک آپ کی نگرانی میں ان اضلاع میں چل رہی تھی کہ چوتھے مہینے میں آپ خود گرفتار کرلیے گئے۔ جس میں آپ کو سزا بھی ہوئی۔
حضرت مفتی محمد ظفیر الدین مفتاحی تحریر فرماتے ہیں :
’’حکومت اس تحریک سے پریشان تھی تحریک مسلسل جاری تھی چوتھے مہینے تحریک کے قائد مولانا منت اللہ رحمانی خود گرفتار کرلیے گئے اور جیل بھیج دیئے گئے۔ آپ کو چار ماہ کی قید کی سزا سنائی گئی؛ چنانچہ آپ کو جیل میں چار مہینے گزارنے پڑے۔ یہ انگریزی دور حکومت کا جیل تھا، سخت اذیتیں برداشت کرنی پڑیں ؛ کیوں کہ آپ سیاسی قیدی تھے اور دار العلوم سے آپ کا تعلق تھا۔ ناز ونعم میں پلے ہوئے اس نوجوان کو جیل کا کھانا کھانا پڑا۔ ‘‘(نقیب، امیر شریعت رابع نمبر )
انگریزی عہد کے جیل کا تصور
انگریزی دور میں جیل کا تصور کیا تھا ؟ آج اس کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ آپ کو جیل میں سخت اذیتیں دی گئیں ۔ کھانے میں بھنے ہوئے چنے اور گیہوں اور جو کی ملی ہوئی کچی پکی روٹیاں ، جلی ہوئی دال اور نمک وبے مصالحہ کی ترکاری، آپ نے دال وترکاری کا استعمال بند کردیا اور صرف نمک روٹی پر گذارہ کیا۔موسم سرماکی شدت بھی اپنے انتہا پر تھی اور وہ بھی سہار نپور کی سردی اور قید خانہ کی زندگی جہاں دیواریں کم اور لوہے کی سلاخیں زیادہ تھیں اور برفیلی ہوا کی رکاوٹ کا کوئی انتظام نہ تھا۔ آپ کو بھیڑی کے اون کے تین کمبل ملے ہوئے تھے، جس میں ایک تو کافی پرانا اور بدبودار تھا آپ نے اس کو علیحدہ کردیا ۔ باقی دونوں میں ایک کچھ زیادہ صاف ستھرا تھا جس کو اوڑھنے کے لیے استعمال کرتے اور دوسرے کو بچھانے کے لیے شدید سردی میں یہ کمبل بہر حال ناکافی تھے، جس کی بنا پر آپ بمشکل گھنٹہ سوا گھنٹہ ہی سو پاتے تھے اور پوری رات یوں ہی آپ ذکر واذکار کرتے ہوئے گذار دیتے تھے۔ (امیر شریعت رابع کے مختصر حالات زندگی ص ۱۲۔۱۴۔ از مولانا ابو ظفر رحمانی )
حضرت امیر شریعت کو جو جیل میں کپڑے ملے تھے اس کے بارے میں مولانا ابو ظفر رحمانی یوں رقم طراز ہیں :
’’آدھے آستین کی دو گنجی جس کی لمبائی کمر تک تھی دو ہاف پینٹ نیکر گھٹنے سے اوپر دو رومال دوہاتھ لمبے اور بالشت بھر چوڑے کانوں میں لپیٹنے اور ہاتھ منہہ پوچھنے کے لیے بھیڑی والے کمبل کا ایک کوٹ آدھی آستینوں اور بند گلے کا اس کی لمبائی بھی کمر ہی تک تھی، کمبل کے کوٹ کا اون اس قدر موٹا اور سخت تھا کہ اس کی خراش سے آپ کے دونوں ہاتھ اور گلے پر زخم پڑ گئے۔ مجبورا وہ کوٹ بھی آپ کو چھوڑنا پڑا۔ ‘‘ (حوالہ بالا )
جیل میں شاہ لطف اللہ رحمانی ؒکی آمد
مولانا منت اللہ رحمانی کے جیل جانے کی خبر جب خانقاہ رحمانی پہنچی، تو اس وقت آپ کی صرف والدہ اور بڑے بھائی تھے۔ والد بزرگوار حضرت مونگیری ؒکا پہلے ہی وصال ہوچکا تھا۔ آپ کی گرفتاری کی خبر سن کر آپ کے بڑے بھائی حضرت مولانا لطف اللہ حاحب رحمانی مونگیر سے چل کر دیوبند پہنچے۔ حضرت شیخ الاسلام مدنی ؒسے ملے اور انھیں شامل کرکے سہارنپور جیل پہنچے ۔ آپ نے جیل ہی کے لباس میں ان دونوں بزرگوں سے ملاقات کی۔ آپ کی حالت دیکھ کر دونوں بزرگ آبدیدہ ہوگئے۔ حلیہ دیکھا نہیں گیا۔ گلے لگایا اور ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازا۔ اس وقت جناب حبیب اللہ خاں صاحب ڈپٹی جیلر تھے اور شیخ الاسلام سے عقیدت مندانہ تعلق رکھتے تھے اور صوم وصلوۃ کے بڑے پابند تھے۔ حضرت مدنی نے فرمایا کہ یہ حضرت مونگیری کے صاحبزادے ہیں اور یہ ان کے بڑے بھائی ہیں ، جو ملنے تشریف لائے ہیں ۔ جب جیلرنے دیکھا کہ یہ شیخ الاسلام کے خاص آدمی ہیں ، تو جیل میں رعایت دینے کی پیش کش کی حتی کہ اپنے گھر سے کھانا اور ناشتہ بھی بھجوانا چاہا؛ مگر حضرت امیر شریعت کی خود داری اور جفا کشی نے اس کو بالکل پسند نہیں کیا اور آپ نے فرمایا :
’’ مجھے جناب کی یہ رعایت نہیں چاہیے۔ چوں کہ میں تنہا نہیں ہوں ۔ پچیسیوں رضا کار جو میرے ہی تیار کردہ ہیں آج وہ سب کے سب میرے ساتھی ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ان سبھوں کو رعایت ملنے سے رہی اور اب میں رعایت لے کر آرام سے رہوں اور میرے ساتھی مصیبت جھیلیں ۔ یہ مجھ کو گوارہ نہیں ۔ جیل خانہ اور اس کی تکلیفوں کا جو تصور میرے ذہن میں تھا اور جس کے لیے میں تیار ہوکر آیا تھا۔ الحمد للہ یہاں کے مصائب میرے تصور سے کم ہیں ؛ اس لیے مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوئی؛ البتہ آپ نے جیل میں ایک رعایت اپنے لیے اور اپنے ساتھیوں کے لیے ضرور چاہی کہ ہاف پینٹ پیوند لگا کر اتنے نیچے کردیئے جائیں کہ گھٹنے چھپ جائیں اور نماز درست ہوسکے۔ جیل والوں نے فوری طور پر اس کو منظور کیا اور اگلے ہی دن پیوند لگانے کا کام مکمل کرلیا گیا‘‘۔ (حوالہ بالاو۔نقیب، امیر شریعت رابع نمبر ص ۴۸ )
امیر شریعتؒ کا جیل میں مشغلہ
رمضان کا مہینہ آیا تو جیل ہی میں تراویح کی نمازیں شروع کردی گئیں ۔ حافظ رحمت اللہ شاہ جہانپوری نے پورے ماہ کی تراویح میں ایک ختم قرآن سنایا اور دوسرا ختم تہجد میں سنایا۔ حضرت مولانا رحمانی جیل میں مشکوۃ شریف اور ہدایہ اولین کا ان طلبہ کو درس دیا کرتے تھے۔ جو جیل میں ساتھ تھے اور پڑھنا چاہتے تھے۔ ،جیل میں سردی کی وجہ سے پاؤں سوج گئے تھے۔ جب جیل سے باہر آئے تو جاکر یہ سوجن ختم ہوئی۔ (نقیب، امیر شریعت رابع نمبر ص ۴۸مقالہ مفتی ظفیر الدین مفتاحی)
امیر شریعتؒ جیل میں چکی پیستے رہے
مذکورہ مشکلات وشدائد کے ساتھ ساتھ جیل کے ضابطہ کے مطابق مولانا منت اللہ رحمانی کو روزانہ چکی چلانی پڑتی تھی اور اس میں چار پانچ سیر گیہوں پیسنا پڑتا تھا۔ لیکن چکی چلانے کی اس مصیبت نے بھی آپ کے پائے ثبات میں لرزش پیدا نہیں ہونے دیا۔ بقول کلیم عاجز ۔؎
رسن ودار نہیں اہل جنوں کی منزل ہم مسافر ہیں بہت دور کے جانے والے
حضرت امیر شریعت کے خاص فیض یافتہ جناب مولانا صغیر احمد رحمانی فرماتے ہیں :
’’امیر شریعت حضرت مولانا منت اللہ رحمانی قدس سرہ حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے اور ان کی وابستگی حضرت شیخ سے ذہنی وفکری تھی حضرت امیر شریعت حضرت شیخ کے ارشد تلامذہ اور محبوب شاگردوں میں تھے۔ جو حضرت شیخ کی رضا وخوشنودی کے لیے سب کچھ نثار کردینے پر فرحت محسوس کرتے تھے۔ ملک کی آزادی کی جد وجہد میں حضرت شیخ گرفتار کرلیے گئے اور سہار ن پورکی جیل میں رکھے گئے۔ حضرت امیر شریعت نے استاذ کی محبت اور ملک کی آزادی کی خاطر گرفتاری دی اور قید وبند کی صعوبتوں کو خوشی سے قبول کیا۔ اسی زمانہ قید وبند میں آپ کے بڑے بھائی حضرت مولانا شاہ لطف اللہ صاحب علیہ الرحمۃ سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی آپ کی ملاقات کو گئے۔ چھوٹے بھائی کو ہاف پینٹ اور آدھے آستین کی قمیص میں قیدی کی حیثیت سے دیکھا، بتلایا گیا کہ روزانہ پانچ سیر گیہوں پیسنے کے لیے چکی چلانی پڑتی ہے تو بڑے بھائی کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں ۔ (امیر شریعت ، نقوش وتاثرات )
ایک دانشورمشاہد کا بیان
امیر شریعت حضرت مولانا منت اللہ رحمانی کی گرفتاری کی تفصیل ایک مشاہد کی حیثیت سے بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر ہاشم قدوائی سابق ممبر راجیہ سبھا تحریر فرماتے ہیں :
’’راقم السطور کے والد مرحوم مولوی عبد المجید جو مولانا عبد الماجد دریابادی مرحوم کے بڑے بھائی تھے اور سہارنپور میں تقریباً پونے چھ برس تک بحیثیت ڈپٹی کلکٹر ان کی تعیناتی رہی۔ یہ زمانہ تھا جب ۱۹۳۰ء اور ۱۹۳۲ء کی سول نافرمانی کی عوامی تحریکیں ، جو جنگ آزادی میں نہ صرف بہت بڑی اہمیت کی حامل تھیں ؛بلکہ سنگ میل کی حیثیت رکھتی تھیں ؛راقم السطور اس زمانے میں اسکول کے چھوٹے درجے کا طالب علم تھا؛ لیکن بڑے بھائی حکیم عبد القوی صاحب مرحوم جو طبیہ کالج دہلی میں زیرتعلیم تھے، کے اثر سے ان تحریکوں سے بہت زیادہ دلچسپی تھی۔ جمعیۃ علماء ہند نے کا نگریس کا پورا پورا ساتھ ان تحریکوں میں دیا، جامع مسجد سہارن پور میں ہر نماز جمعہ کے بعد عظیم الشان جلسے ہوتے تھے، اور ان جلسوں میں یہ نو دس سال کا طالب علم بڑی پابندی شریک ہوا کرتا تھا۔ اور جلسے کے بعد جمعیۃ علماء کے رضا کاران، ان کے جتھے نعرۂ تکبیر کی گونج میں بڑے مجمع کے ساتھ شراب کی دکان پر پکٹنگ کرنے جایا کرتا تھا۔ اس طرح ایک جلسے میں سب سے پہلے امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کی نہ صرف زیارت ہوئی؛بلکہ ان کی تقریر سننے کا بھی اتفاق ہوا۔ حضرت مرحوم اس وقت دارالعلوم دیوبند کے منتہی طالب علم تھے۔ ان کی تقریر نے حاضرین کو بہت متاثر کیا اور ان سطور کے لکھنے والے کو بھی۔ اس کے بعد مولانا کی گرفتا ری اس جتھے کی قیادت کرتے ہوئے عمل میں آئی۔ چھ دہائیوں سے زیادہ کی مدت گذر چکی ہے؛ مگر واقعہ اب تک نظروں کے سامنے ہے۔
اس کے کئی سالوں کے بعد جب فروری ۱۹۳۷ء میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ ء کے تحت صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے تو اردو اخبارو خاص کر الجمعیۃ اور سہ روزہ مدینہ بجنور سے حضرت مولانا کے بہار اسمبلی کا ممبر منتخب ہونے کا حال معلوم ہوا۔ جمعیۃ علماء ہند کے چوٹی کے رہنما حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد صاحب نائب امیر شریعت بہار واڑیسہ جو نہ صرف زہد واتقاء میں بہت ممتاز تھے بلکہ سیاست حاضرہ کے بھی بڑے ماہر تھے۔ ان کی سرکردگی میں مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی نے انتخابات میں حصہ لے کر معتد بہ نشستیں حاصل کی تھیں مولانا اس پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے اور پھر تقریبا تین مہینے تک اس پارٹی کی وزارت مسٹر محمد یونس چیف منسٹر کی لیڈر شپ میں قائم ہوئی تھی۔ حضرت مولانا جمعیۃ العلماء ہند اور امارت شرعیہ بہار کی سرگرمیوں میں نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے بلکہ وہ اس کے صف اول کے قائدین میں سے تھے وہ آزادی ہند کے نہ صرف عظیم مجاہد آزادی تھے بلکہ اس کے سورما قائدین میں تھے‘‘۔ (ڈاکٹر ہاشم قدوائی۔ ممبر راجیہ سبھا، نقوش وتأثرات ۴۲۲)
آپ کے رفیق درس اور دار العلوم دیوبند کے سابق مہتمم مولانا مرغوب الرحمن بجنوریؒ تحریر فرماتے ہیں :
’’ہمارا دور طالب علمی سیاسی نظریات کی گر ما گرمی کا دور تھا۔ مولانا موصوف اپنے استاذ محترم شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒکے نظریات سے متفق تھے۔ مجھے یاد ہے کہ وہ اپنے نظریات کی حمایت میں طالب علمانہ دور ہی میں جیل بھی گئے تھے اور اس طرح ان کی سیاسی زندگی کا آغاز دار ورسن کی پیغمبرانہ سنت سے ہوا تھا‘‘(مولانا مرغوب الرحمن مہتمم، نقوش ص ۴۰)
ڈاکٹر محمد طیب صاحب سابق صدر شعبہ متھلا یونیورسٹی لکھتے ہیں : ’’مولانا عہد طالب علمی میں ہی تحریک آزادی میں شامل ہوگئے۔ حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کی گرفتاری پر چاندنی چوک دہلی سے ایک عظیم الشان جلوس کی قیادت فرمائی، پولیس لاٹھی چارج میں مولانا رحمانی زخمی ہوئے۔ آپ کی گرفتاری بھی ہوئی اور ایک ہفتہ تک دہلی کوتوالی میں رہے۔ جمعیۃ العلماء ضلع سہارنپور نے سول نافرمانی تحریک کا مولانا کو ذمہ دار بنایا آپ کی سیاسی سرگرمی حکومت کو پسند نہیں آئی اور آپ گرفتار کرلیے گئے چار ماہ قید وبند کی سزا ہوئی اور جیل کی سلاخوں میں وطن کی آزادی کی خاطر نت نئے قسم کے مصائب جھیلتے رہے۔ جیل سے رہائی کے بعد آپ نے پھر تعلیمی سلسلہ شروع کیا اور دورۂ حدیث کی تکمیل فرمائی۔ (ڈاکٹر محمد طیب۔ صدر شعبہ اردو متھلا یونیورسٹی۔ نقوش ۴۳۲)
مولانا صدر الدین انصاری تحریر فرماتے ہیں : جمعیۃ علماء ہند کے ایک عرصہ تک وہ معزز رکن رہے۔ جد وجہد آزادی میں وہ جمعیۃ علماء کے پلیٹ فارم سے دومرتبہ جیل گئے۔ اور کم وبیش ایک سال اس زمانے میں جیل میں رہے جب جیل آرام گاہ نہیں ؛واقعتا جیل تھا، انھیں جمعیۃ علماء سے قلبی تعلق تھا ۱۹۳۶ء میں جمعیۃ علماء کے صوبائی ناظم اعلی تھے اور جمعیۃ کی تنظیم کو بڑے مشکل حالات میں منظم فرمایا تھا۔ کھگڑیا میں جمعیت علماء کا تاریخی اجلاس منعقد کرایا اور حاضرین کی بہت بڑی تعداد نے عملاً بتا دیا کہ جمعیۃ علماء کو بھی عوامی اعتماد حاصل ہے۔ ۳۲ء سے ۶۴تک وہ مسلسل جمعیۃ علماء کے کاموں میں شریک رہے۔ اور ہم سبھوں کے مرکز نگاہ رہے۔ مشاہیر کی حیثیت سے وہ مرکزی رکن رکین بھی تھے مگر ۱۹۶۴ء کی صوبائی جمعیۃ کی میٹنگ میں یہ بحث لائی گئی کہ انھیں مشاہیر بہار کی حیثیت سے جمعیۃ کا رکن بنایا جائے یا نہیں ۔ یہ افسوسناک گفتگو ہوئی اور بد قسمتی سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ مشاہیر بہار کی حیثیت سے انھیں رکن نہیں بنایا جاسکتا، اس طرح عملاانھیں جمعیۃ علماء کی سرگرمیوں اور میٹنگوں میں شرکت سے الگ کیا گیا۔ (مولانا صدر الدین انصاری، نقوش ۲۳۵)
امارت شرعیہ جس کے وہ امیر تھے گویا کہ جمعیۃ علماء کا ایک شعبہ سمجھی جاتی تھی اور دونوں جماعتوں میں پوری پوری فکری مطابقت اور ہم آہنگی پائی جاتی تھی۔ تقسیم کار کے طور پر دونوں جماعتیں کام کیا کرتی تھیں ۔ دونوں میں کوئی ٹکراؤ یا مخاصمت نہیں تھی ؛بلکہ ایک کو دوسرے سے تقویت حاصل ہوتی تھی؛ مگر شیخ الاسلام اور مجاہد ملتؒ کے وصال کے بعد یہ روایت ٹوٹ گئی اور جماعتی زندگی میں جو خلا اور بکھراؤ پیدا ہوا اس کو پوری جماعت کو جھیلنا پڑا۔ ۱۹۴۷ء کے پر آشوب زمانے میں ہمارے دوسرے سر فروش علماء کی طرح انھوں نے بھی اپنے صوبہ بہار میں مظلوموں کی امداد واعانت کا فریضہ انجام دیا۔ اور مسلمانوں کو یقین دلایا کہ مسلم لیگ کے رہنماؤں کی طرح ہم ان کو چھوڑ کر کہیں جانے والے نہیں ہیں ؛ بلکہ ان کے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائے ہوئے ہیں ۔ (عزیزالرحمن صدیقی، نقوش ۳۶۰)
سول نافرمانی کے بعد کے خدمات
حضر ت امیر شریعت نے ۱۹۳۳ء میں دار العلوم دیوبند سے فراغت حاصل کی پھر چند ماہ آپ نے اپنے استاذ حضرت شیخ الاسلام کی سر پرستی میں گذارا اور یہیں آپ نے اپنی سب سے پہلی تصنیف ’’تعلیمی ہند ‘‘جس کی تیاری آپ زمانہ طالب علمی ہی سے کر رہے تھے، مکمل فرمائی۔ پھر اپنے وطن مونگیر تشریف لے آئے جہاں حضرت شیخ مدنی کی تربیت میں رہ کر جو کچھ اخذ کیا تھا اسی کو استعمال کرتے ہوئے آزادی کی جنگ میں شریک ہوگئے اور شیخ الاسلام کے مشورہ اور مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد کی سر پرستی ونگرانی میں تحریک آزادی میں پورے زور وشور کے ساتھ حصہ لیا۔ ۱۸جنوری ۱۹۳۴ء کو بہار خاص طور پر مونگیر میں شدید زلزلہ آیا۔ وقتی طور پر آپ زلزلہ زدگان کی باز آباد کاری میں مشغول ہوگئے۔ دیوبند میں حضرت شیخ مدنی کی خدمت میں چار سال تک رہنے کا طویل موقع ملا تھا۔جس کی وجہ سے جمعیۃ علماء کی طرف آپ کا میلان ایک فطری بات تھی۔ آپ نے وطن واپسی کے بعد ریاستی جمعیۃ علماء کے ایک فعال رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دینے لگے۔ ۱۹۳۵ء میں جمعیۃ علماء ہند نے آپ کی تنظیمی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے، محض تیئس سال کی عمر میں آپ کو ریاستی جمعیۃ علماء کا ناظم اعلی بنادیا۔ آپ نے اپنی نظامت میں مفکر اسلام مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد کی سر پرستی میں جمعیۃ علماء کے کاموں کو بہت دورر تک پھیلا دیا۔ آپ ہی کی نظامت میں ۱۹۳۶ء میں دربھنگہ میں جمعیۃ علماء ہند کا عظیم الشان تاریخی اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت خود حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نے کی۔ (سوانح حضرت امیر شریعت از ڈاکٹر وقار الدین لطیفی۔ ص ۱۸۰)
اسی طرح ۱۹۳۸ء میں چھپرہ میں جب جمعیۃ علماء کی ریاستی کانفرنس منعقد ہوئی تو آپ ہی ریاستی جنرل سکریٹری تھے اور حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد ریاستی صدر۔ اس صوبائی کانفرنس کی صدارت سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی نے کی یہ تین روزہ کانفرنس خوب کامیاب ہوئی مگر مسلم لیگ نے مخالفت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھا۔ جمعیۃ علماء کا اس اجلاس سے قبل کوئی خاص جھنڈا نہیں تھا۔ اسی اجلاس کے موقع سے یہ سیاہ وسفید دھاری کا جھنڈا تیا ر کیا گیا۔ اور اجلاس میں لہرایا گیا۔ (نقیب، امیر شریعت نمبر۔ مقالہ مفتی محمد ظفیر الدین مفتاحی، شریک کانفرنس )
جمعیۃ علماء کی کانفرنسوں کا تذکرہ اس لیے کیا گیا کہ جمعیۃ علماء کا سب سے بڑا مقصد اس زمانے میں اس ملک کی آزادی کا حصول تھا۔ اور اس کے لیے ابناء وطن کو ذہنی وفکری اورعملی طور پر تیار کرنا تھا؛ چنانچہ مولانا منت اللہ رحمانی جمعیۃ علماء کے ریاستی ناظم کے طور پر حصول آزادی کی جد وجہد کے لیے سرگرم عمل رہے اور اس تحریک کو دار الحکومت سے لے کر شہر اور گاؤں تک پہنچانے میں نمایاں رول اداکیا۔
اسمبلی کے ایوان سے جد وجہد
اسی درمیان آپ کے سر پرست اور جمعیۃ علماء کے مرکزی قائد حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد نے امارت شرعیہ کے پلیٹ فارم سے ۱۹۳۵ء میں ایک سیاسی پارٹی ’’مسلم انڈی پینڈنٹ پارٹی‘‘ قائم کی۔ تو انھوں نے آپ کو اس پارٹی کی مجلس عاملہ اور پارلیمنٹری بورڈ کا ممبر بنایا اور ۱۹۳۶ء میں اسی پارٹی کے ٹکٹ پر حضرت مولانا منت اللہ رحمانی سوپول ضلع سہرسہ اسمبلی حلقہ سے ااسمبلی کاالیکشن لڑے اور ریکارڈ ووٹوں سے کامیاب ہوکر ممبر اسمبلی بنے اور مسٹر یونس کی وزارت میں شامل ہوئے۔ آپ کے مخالف امید وار کی ضمانت بھی ضبط ہوگئی اور اس وقت تک بہار کے سب سے کم عمر ممبر اسمبلی آپ ہی تھے۔ ممبر اسمبلی رہتے ہوئے ملت کے بہت سے مسائل کو اپنی زور دار مدلل ترجمانی سے حل کرایا۔ ایوان کے اندر آپ نے تمام اہم مسائل پر تفصیلی اور مدلل تقریریں کیں ۔جن میں اوقاف کی پراپرٹی پر ٹیکس، اور ذبیحہ گاؤ کا مسئلہ سر فہرست ہے۔ صدر نشیں اسپیکر اور ایڈووکیٹ جنرل سے آنکھ میں آنکھ ڈال کر بحث کی اور اپنے پیش کر دہ موقف کا قائل کروا لیا۔ آپ عملی طور پر کم مدت سیاسی میدان میں رہے۔ ۱۹۴۰ء میں باضابطہ اعلان کرکے اسمبلی وپارلیمانی سیاست سے علیحدگی اختیار کرلی۔
اسمبلی اور پارلیامانی سیاست سے علیحدگی کے اعلان کا یہ مطلب نہیں کہ حضرت امیر شریعت نے اپنے کو جنگ آزادی کی تحریک سے الگ کرلیا تھا؛ بلکہ سیاست سے علیحدگی کے بعد آپ مزید مستعدی اور سرگرمی کے ساتھ آزادی ہند کی تحریک میں جٹ گئے۔ آپ نے ملک وملت کے وسیع تر مفاد میں پوری قوت کے ساتھ آزادی ہند کے لیے اپنی سر گرمی نہ صرف جاری رکھی؛ بلکہ تحریک آزادی سے متعلق جو خفیہ سر کلر، پوسٹر اور پمفلٹ شائع ہوکر بہار کے بڑے حصے میں تقسیم کیے جاتے تھے، اس کی طباعت اور ترویج واشاعت اور تقسیم کا سب سے بڑا مرکز خانقاہ رحمانی مونگیر تھا۔ جس میں آپ کے کئی مخلص اور وفا شعار کار کنان بھی شامل تھے۔ (سوانح امیر شریعت۔ ص ۲۵۹)
خانقاہ رحمانی مجاہدین آزادی کا مرکز
خانقاہ رحمانی میں قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیری ؒکے زمانے ہی سے مجاہدین آزادی اور قائدین حریت کا آنا جانا تھا۔ بابائے قوم مہاتماتما گاندھی نے دو مرتبہ خانقاہ رحمانی میں حاضری دی۔ اور اس طور پر انھوں نے اپنی عقیدت کا اظہار کیا کہ خانقاہ رحمانی کے گیٹ پر ہی اپنی چپل اتار دی اور وہیں سے دونوں ہاتھ جوڑ کر حضرت رحمانی کے حجرہ تک پہنچے۔ مونگیر شہر میں ہی تحریک خلافت اور نان کوپریشن مومنٹ کے رہنما عظیم مجاہد آزادی شاہ زبیر کا قیام تھا۔ ان کے تعلق سے جو بھی مجاہد آزادی مونگیر پہنچتے وہ خانقاہ رحمانی میں ضرور حاضری دیتے۔ اس طرح مختلف رہنما اور قائدین کا خانقاہ رحمانی آنا جانا لگا رہتا تھا۔ حضرت رحمانی کی آزادی کے لیے جد وجہد کے نتیجے میں خانقاہ رحمانی میں تحریک آزادی ہند کے رہنماؤں کی آمد ورفت بڑھتی چلی گئی اور یہ خانقاہ ان کی آماجگاہ بن گئی، جو مشکل وقتوں میں ان کی پناگاہ بھی ہوتی تھی۔ ۳۴ ء میں مونگیر میں تاریخی زلزلہ آیا تو گاندھی جی، خاں عبد الغفار خاں اور پنڈت جواہر لال نہر و وغیرہ مونگیر آئے اور سبھوں نے خانقاہ میں قیام کیا۔ خاں صاحب پندرہ دن یہاں مقیم رہے۔
تحریک آزادی سے تعلق رکھنے والے بہار کے تمام قابل ذکر رہنما امیر شریعت مولانا رحمانی سے ملنے کے لیے خانقاہ رحمانی تشریف لاتے رہے۔ حضرت مولانا منت اللہ رحمانی اگرچہ ۱۹۴۰ء میں ہی باضابطہ اعلان کرکے سیاست سے الگ ہوگئے ؛لیکن ملک وملت کے وسیع تر مفاد میں آپ کا تعلق تحریک آزادی سے وابستہ امور سے حسبِ سابق برقرار رہا۔ اور تحریک آزادی کے جد وجہد میں جو خفیہ سرکولر، پمفلٹ شائع ہوکر بہار کے بڑے حصے میں تقسیم ہوتے تھے، اس کی طباعت کا سب سے بڑا مرکز خانقاہ رحمانی تھا۔ اس کام میں حکیم معین الدین، شری اُگر موہن جھا اور شری چندر شیکھر سنگھ (سابق وزیر اعلی بہار ) خاص طور پر حضرت کے معاون اور زیر زمین تحریک آزادی کے سر گرم کارکنوں میں سے تھے۔ اسی لیے ’’انگریزو ہندوستان چھوڑدو‘‘ کی سر گرم تحریک کے زمانے میں دو مرتبہ خانقاہ رحمانی کی تلاشی لی گئی؛ مگر تیرہ تیرہ گھنٹہ کی تلاشی کے باوجود پولیس اور انٹیلی جنس کو نہ کوئی اشتہار ہاتھ لگا نہ پمفلٹ؛جب کہ ساری چیزیں کراماتی طور پر وہیں موجود ہوتی تھیں ۔ پولیس نے حتی الامکان مکانات سے لے کر کھیتوں تک کا چپہ چپہ چھان مارا اور مطمئن ہوکر پولیس تحریر ی سر ٹیفکیٹ دے کر چلی گئی کہ یہاں آزادی سے متعلق کوئی مواد ہاتھ نہیں لگا۔ یہ بھی واقعہ ہے کہ ۱۹۴۲ء کی تحریک میں انگیزوں نے تحریک آزادی کے رہنماؤں کو سختی کے ساتھ گرفتار کرنا شروع کیا، تو اس موقع پر ایک پالیسی کے تحت بہار کے سابق وزیر اعلی شری کرشن سنہا نے گرفتاری پر روپوشی کو ترجیح دی۔ اور رو پوشی کی جگہ کے طور پر خانقاہ رحمانی کا انتخاب کیا اور پندرہ دنوں تک امیر شریعت کے حجرہ سے ملحق گدام میں روپوش رہے۔ (امیر شریعت نقوش وتاثرات۔ ص۵۱۴ مقالہ حافظ امتیاز رحمانی)
دیوبند میں قیام کے دوران جس طرح آپ نے سول نافرمانی تحریک میں قائدانہ شرکت کرکے جیل کی کالی کوٹھریوں کو آباد کرکے سنت یوسفی کو زندہ کیا اسی طرح بہار مونگیر میں قیام پذیر ہونے کے بعد بھی آپ تحریک آزادی کے لیے سر گرم عمل رہے اور خانقاہ رحمانی کا تہ خانہ تمام حریت پسندوں کے لیے ’’جائے پناہ ‘‘ بنا رہا۔ جہاد آزادی میں آپ کفن بردوش علماء کے شانہ بشانہ رہے اور اسلاف صدق کی تحریک کو اپنی قربانی اور جد وجہد سے تکمیل کو پہنچایا ۔اس خار زار راہ میں مصائب وآلام کے طوفانوں سے ٹکرائے قید وبند کی صعوبتوں کی پروا نہ کی اور حسب موقع ومصلحت قوت دست وبازو کو اور زبان وقلم کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر عزیمت کا اعلی معیار حاصل کیا ۔(مفتی جمیل الرحمن، نقوش ۳۵۵)
اپنوں کی ایذا رسانی اور حضرت رحمانیؒ کی ثابت قدمی
حضرت مولانا منت اللہ رحمانیؒ جمعیۃ علماء کے سر گرم قائد تھے اور جمعیۃ علماء متحدہ ہندوستان کی داعی،تحریک آزادی کا محرک اور تقسیم ہند کا مخالف تھی۔ جب کہ مسلم لیگ تقسیم وطن کا داعی تھی۔ اس پس منظر میں جمعیۃ علماء سے وابستہ علماء کو لیگی مسلمانوں کی طرف سے سخت ترین مخالت اور اذیت رسانی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ایسے حالات سے حضرت رحمانی کو بھی دو چار ہونا پڑا۔ اس سلسلہ میں آپ کے خاص فیض یافتہ مولانا صغیر رحمانی تحریر فرماتے ہیں :
’’مسلم لیگ ایک جماعت کی حیثیت کا فی ابھر چکی تھی اور مسلمانوں کا تعلیم یافتہ طبقہ ان سے بے حد متاثر تھا۔ لیگ نے علماء کے خلاف ایسا صور پھونکا کہ علماء کے لیے زندگی گذارنا دوبھر ہوگیا۔ حضرت امیر شریعت جمعیۃ علماء کے ناظم تھے؛ اس لیے مونگیر کاا نگریزی داں طبقہ ان کو ہدف لعن وطعن بناتا۔ ایک مرتبہ ان کے بڑے بھائی صاحب علیہ الرحمہ کو مونگیر کی عید گاہ میں امامت سے نکال دیا گیا اور عید کی نماز دوسری جگہ ادا کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اس دور میں ان حضرات پر کوئی ظلم وستم ایسا نہیں تھا، جو نہ ڈھایا ہو اور نہ کوئی بہتان اور افتراء ایسا ہے جو ان بزرگوں پر نہ باندھا ہو؛ لیکن حضرت ان تمام ظلم وستم کو برداشت کرتے رہے اور برائی کا بدلہ بھلائی سے اور گالی کا جواب دعا سے دیتے رہے۔
ایک مرتبہ حضرت امیر شریعت نے طے کیا کہ مونگیر ٹاؤن ہال میں جلسہ کیا جائے اور مشہور علماء کی تقاریر کرائی جائے۔ اشتہار چھپا،لوگوں میں اس کی واقفیت ہوئی، جس دن جلسہ ہوتا اس کی صبح ۸؍بجے شہر کے چند معزز وکلاء اور دانشورخانقاہ پہنچے اور امیر شریعت سے کہا کہ ہم لوگ حکم دیتے ہیں کہ آپ جلسہ نہ کریں ورنہ اس کی ساری ذمہ داری آپ کی ہوگی۔ حضرت نے فرمایا جلسہ ہوگا اور انشاء اللہ کامیاب جلسہ ہوگا۔ حضرت مولانا احمد سعید دہلوی، مولانا امین احسن اصلاحی تشریف لاچکے ہیں اور ہال میں آرام فرمارہے ہیں ۔ وہ لوگ ناراض ہوکر چلے گئے اور جلسہ کو ناکام کرنے کی مہم تیز کردی۔حضرت امیر شریعت نے بھی پوری تیاری کی۔ غلط اور گم راہ پروپگنڈہ کی وجہ سے عوام کو خیال ہوا کہ اب ضرور جلسہ میں شریک ہوکر علماء کی تقریر سننی چاہیے۔ بعد مغرب جلسہ شروع ہوا۔ مسلم لیگ کے ورکرس مردہ باد کے نعرے لگاتے رہے۔ حضرت مولاناامین احسن اصلاحی ( صاحب تدبر قرآن) خطاب فرمارہے تھے۔ موصوف کی آواز پست تھی اور نعرے لگائے جارہے تھے۔ لہسن کی بو عطر کی خوشبو پر غالب آرہی تھی کہ سحبان الہند حضرت مولانا احمد سعید دہلوی کو جوش آگیا اور انھوں نے مولانا امین احسن اصلاحی کو بٹھلایا اور خود تقریر کے لیے کھڑے ہوگئے۔ حضرت سحبان الہند خطابت وتقریر کے شہنشاہ تھے اور ان کے بیان وخطاب کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی آواز بلند تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں نعرہ بازوں کی آواز پست ہونے لگی اور حضرت کی آواز ہال سے باہر گونجنے لگی چند ہی منٹوں میں سارے بادل چھٹ گئے اور نوجوان ورکرس اپنے اپنے بینر کو بغل میں دباکر جلسہ گاہ ہی پہنچ گئے اور رہنمایا ن لیگ اجلاس کی غیرمعمولی کامیابی دیکھ کر مایوس گھر کو روانہ ہوگئے۔ ‘‘(امیر شریعت نقوش وتاثرات ۳۴۴)
جمعیۃ علماء ہند کے جلسوں میں شرکت کے حوالے سے مولانا امین احسن اصلاحیؒ تحریر فرماتے ہیں :
’’جمعیۃ علماء کے جو جلسے گذشتہ چند سالوں کے اندر ہوئے ہیں ۔ ان میں سے بعض میں مولانا (مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد)ہی کی دعوت پر شریک ہوا جن جلسوں کی مخالفت میں ہنگامے اٹھے ان کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں ۔ بعض مرتبہ تو مخالفین کی خوش تمیزیاں ایسی ہولناک شکل اختیار کرلیتی تھیں کہ آدمی کے ہاتھ سے دامن صبر چھوٹ جائے یا، دامن امید۔ اور ظاہر ہے کہ ان تمام یورشوں کا اصلی نشانہ کم از کم صوبۂ بہار میں مولانا کی ذات تھی ؛مگر میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ مولانا ان ہنگاموں سے ایک لمحہ کے لیے بھی بے حوصلہ یا بے صبر ہوئے ہوں ۔ ان کا دماغ ہمیشہ پر سکون اور دل ہر حالت میں مطمئن رہتا تھا۔ اگر وہ پسند کرتے تو اپنے مخالفوں کے اوچھے ہتھیار روں کا مقابلہ اوچھے ہتھیاروں سے کرکے ان کو زک دے سکتے تھے ؛مگر اپنے طرز ِعمل کی کامیابی کا یقین کسی حالت میں ان کا ساتھ نہیں چھوڑتا تھا اور ان کی او العزمی ہمیشہ اچھے ہتھیاروں کے استعمال سے جواب دیا کرتی تھی۔ مولانا کی یہ عزیمت اگر بے مثال نہیں ہو کم از کم تو اپنی نوعیت میں غیر معمولی ضرور تھی۔ (محاسن سجاد )
یہ جملے اگرچہ حضرت کے استاذ مفکر اسلام مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ کے بارے میں مولانا اصلاحی نے تحریر فرمائے؛ لیکن حقیقت یہ کہ یہی جملے امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی ؒپر بھی صادق آتے ہیں ۔
قلمی جہاد
حضرت شیخ الاسلام قدس سرہ کے اسلامی ہند کی تعلیمی تاریخ سے متعلق جواہر پارے ملک کی چاروں طرف فضاؤں میں بکھرے ہوئے تھے، ضرورت تھی کہ انھیں یکجا کیا جائے اور اسلامی ہند کے مؤرخ حقیقت پسند کے کام میں سہولت پیدا کی جائے اس لیے کہ وہ بڑے قیمتی ہیں ، سالہا سال کی محنت عرق ریزی سے مل پاتے ہیں ، انھیں اس کا خیال آیا اور سب سے پہلے انھیں مرتب کرکے ’’تعلیمی ہند کے نام سے شائع کیا، ۱۹۳۵ء کی یہ کتاب ’’اسلامی ہند ‘‘کے تعلیمی مزاج اور ترتیب وار اس کے نشو ونما کو سمجھنے کے لیے بے حد مبار ک کوشش ہے۔
انگریزوں نے ہندوستان میں سب سے زیادہ اسلامی ہند کے جسد ملی کو اپنی مکروہ ریشہ دوانیوں کا مرکز بنایا ماضی سے اس کا رشتہ کا ٹنا، اس کی علمی میراث پر یلغار اور اس کے تعلیمی اقتصادی اور تاریخی ورثہ کی صورت اس کو بگاڑنا کہ اس کی شناخت ناممکن اورمحال ہوجائے، یہ تھا خاص مقصد اور عین سامراجی منشا؛ چنانچہ تہذیب وتمدن کی تشکیل نو میں اسلامی تہذیب کے درخشاں اصولوں کو پائمال کیا گیا، کیا یہ محض اتفاقی حادثہ تھا ؟ ممکن ہے کچھ لوگ ایسا ہی سمجھتے ہوں ؛ مگر واقعات اس کی واضح طور پر تردید کرتے ہیں ۔ اس کتاب میں اسلامی ہند کے دور آخر کی تعلیمی سر گذشت انھیں غارت گروں کی زبان بیان کی گئی ہے جنھوں نے اسے تاراج کیا تھا۔ یہ مدلل کا م حضرت مولانا رحمانی نے جوانی میں انجام دیا اور یہ کتاب ۱۹۳۵ء میں چھپی۔ یہ کتاب نہ صرف اسلامیاں ہند کے لیے مفید تصنیف کی حیثیت رکھتی ہے؛ بلکہ تمام حریت پسندوں کے لیے کار آمد اور انگریزوں کی زیادتیوں اور پالیسیوں کی واضح نشاندہی کرتی ہے۔ (حبیب الرحمن ندوی، نقوش ۴۴۲)یہ کتاب انگریز حاکموں کے لیے ایک چیلنج تھی اس لیے اس کی اشاعت پر پابندی لگا دی گئی۔ اور کتاب ضبط کرلی گئی۔ (نقوش ص ۴۹۱)
اس کے علاوہ ایک کتاب ’’ہندوستان کی صنعت وتجارت ‘‘کے نام سے مرتب فرمائی؛اس لیے کہ تعلیم کے میدان کے علاوہ انگریزوں اور انگریزی حکومت نے بڑے منظم طور پر مسلمانوں کی صنعت اور اقتصادی مراکز کو ختم کیا، مقصد تھا کہ مسلمانوں کو عملی اعتبار سے اتنا پسماندہ بنادیا جائے کہ آنے والی نسلیں سوائے در یوزہ گری کے اور کچھ نہ کرسکیں ۔ اس کتاب نے انگریز کے ناپاک عزائم کو طشت ازبام کردیا۔ یہ کتاب بھی برطانوی حکومت کے لیے چیلنج سے کم نہیں تھی۔ یہ کتاب ۱۹۳۸ ء میں لکھی گئی تھی ۱۹۳۹ء میں گورنر راج میں اس کے بہت سے مطبوعہ نسخوں کو حکومت نے ضبط کرلیا۔
حضرت مولانا منت اللہ رحمانیؒ قلم کے دھنی تھے، اور زبانی جہاد کے ساتھ قلمی جہاد میں بھی سر گرم عمل تھے۔ بالکل نوجوانی میں دو کتابیں مسلم امت کی تعلیمی وصنعتی استحکام کے لیے تصنیف کی تھیں ؛ جنھیں انگریز حکام نے اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھ کر اس پر پابندی عائد کردی اور اس کے زیادہ تر نسخوں کو ضبط کرلیا؛ لیکن حضرت کے عزائم تو اس شعر کا مصداق تھے۔
میں کہاں رکتا ہوں عرش وفرش کی آواز سے مجھے جانا ہے بہت اونچا حد پرواز سے
چنانچہ انھوں نے اپنے قلم کو رواں دواں رکھا۔ جب آپ کے مربی وسر پرست حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد نے مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی قائم کیا تو اس کے لیے ایک اخبار کی بھی شروعات بھی کی گئی۔ جس کا نام ’’الہلال ‘‘تھا۔ اس کی ادارت کے لیے اپنے نوجوان شاگرد مولانا منت اللہ رحمانی پر آپ کی نظر پڑی اور انھیں اس اخبار کا آپ نے ایڈیٹر بنادیا۔ جب تک پارٹی قائم رہی اور اس کا اخبار نکلتا رہا، مولانا منت اللہ رحمانی ہی اس کی ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ اس کے ایڈیٹر کے طور پر رسمی نام تو کسی اور کا ہوا کرتا تھا مگر زیادہ تر مضامین ومقالات اور ایڈوٹوریل حضرت رحمانی ہی لکھتے تھے، مولانا نے اسی زمانے میں انگریزی سیکھی اور انگریزی اخبار پڑھنے اور ترجمہ کرنے لگے تھے۔ ۔الہلال کافی دنوں تک نکلتا رہا اور بڑی آن بان سے نکلا۔ اسی طرح جامعہ رحمانی کی طرف سے اس وقت ایک علمی ادبی پرچہ نکلتا تھا جس کا نام ’’الجامعہ ‘‘ تجویز ہوا تھا ۔ اور اس رسالے کا ایڈیٹرحضرت رحمانی ہی کو بنایا گیا تھا مگر پورے نام کے بجائے ٹایٹل پیج پر صرف آپ کی کنیت ابوالفضل ہوا کرتی تھی۔ آپ کے مضامین علمی اور تحقیقی ہوا کرتے تھے جس کی وجہ سے اہل علم اسے شوق سے پڑھتے تھے دوسال تک اس رسالے میں آپ کی قلم کی جولانی قائم رہی۔
اس تعلق سے ڈاکٹر محمد طیب سابق صڈر شعبہ اردو متھلا یونیورسٹی تحریر فرماتے ہیں :
’’حضرت مولانا منت اللہ رحمانی نے علیہ الرحمہ نے خانقاہ رحمانی مونگیر سے نکلنے والے معیاری اور مشہور ماہنامہ ’’الجامعہ ‘‘کی ادارت کی ذمہ داری سنبھالی اور اس طرح پہلی بار حضرت رحمانی صاحب قلم ادیب اورانشاء پردازکی حیثیت سے اہل علم ودانش کے درمیان متعارف ہوئے۔ مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کے ترجمان ہفت روزہ الہلال پٹنہ کے ادارتی فرائض ادا کیے اور صحافتی تقاضوں کے پیش نظر انگریزی زبان وادب کا گہرا مطالعہ کیا۔‘‘ (ڈاکٹر محمد طیب۔ صدر شعبہ اردو متھلا یونیورسٹی۔ نقوش ۴۳۲)
ظاہر ہے کہ اس زمانے میں جب کہ آزادی وطن کی تحریک ہر چہار جانب جاری وساری تھی۔ ایسے وقت میں کوئی بھی اخبار یا رسالہ تحریک آزادی کی عکاسی کرنے والے اور اسے فروغ دینے والے مضامین سے خالی نہیں ہوسکتا تھا۔ اور انگریزوں کے خلاف مضامین لکھنا حوصلہ اور جرأت کی بات تھی۔ اور اپنے کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف تھا ؛لیکن حضرت امیر شریعت کو اللہ تعالی نے جس حوصلہ وجرأت سے مالا مال کیا تھا۔ اس میں ایسے خطروں کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی اور ان خطرات کو ایک چیلنج سمجھ کر قبول کیا اور آخری دم تک قلمی جہاد میں مصروف رہے۔ آزادی سے قبل انگریزوں کے خلاف اور آزادی کے وقت آزاد ہندوستان کے حکم رانوں کے خلاف۔
اِن اَجرِ یَ اِلاّ علی اللّٰہ
انبیاء کرام کی سنت مستمرہ یہ رہی ہے کہ وہ دین کی راہ میں ہر قسم کے شدائد ومشکلات کو اللہ کی رضاکے لیے برداشت کرتے تھے اور اپنی امت کے سامنے یہ اعلان بھی فرماتے تھے کہ إنْ أجْرِیَ إلَّا عَلی اللّٰہ (الشعراء ) کہ مجھے تو ان سارے اعمال کا اجر اللہ تعالی عطا فرمائیں گے۔ یہی حال وارثیں انبیا کا بھی رہا ہے۔ حضرت رحمانی نے بھی اسی سنت کی پیروی کی۔ ان کی جیل کی زندگی بڑی صبر آزما تھی؛ مگر حضرت نے اسے ہنسی خوشی گذار دی اور صبر وثابت قدمی کے دامن کو کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا،۔آزادی کے بعدایک موقع پر اس وقت کے وزیر اعلی ڈاکٹر شری کرشن سنہا نے پنڈت جواہر لعل نہر کی اس خواہش کا اظہار کیا کہ حضرت راجیہ سبھا کی ممبری قبول فرمالیں تو حضرت نے جواب میں فرمایا کہ میں اسمبلی اور پارلیمنٹ سے دور رہنے کا فیصلہ ۱۹۴۰ء میں ہی کرچکا ہوں ۔
قبول عہدہ سے بیزاری کے تعلق سے مشہور دانشور اور ساہتیہ اکیڈمی کے سابق صدر مالک رام کی شہادت ہے :
’’ایک مرحلہ میں مولانا رحمانی مرحوم کو ’’پدم وبھوشن‘‘ سے نوازنے کی بات آئی، یہ تجویز کس کی طرف سے آئی تھی اس کا مجھے علم نہیں ہوسکا؛ مگر میری پختہ رائے تھی کہ ان سے استمزاج کرلیا جائے۔ جب اعزاز یافتگان کی فہرست چھپی تو مولانا کا نام نہیں تھا۔ معلوم ہوا کہ مولانا نے معذرت کردی تھی۔‘‘ (امیر شریعت نقوش وتاثرات۔ ص ۲۷)
اسی طرح جب یہ اعلان ہوا کہ غلامی کے دور میں جو لوگ جیل گئے تھے انھیں حکومت وظیفہ دے گی ؛تو حضرت رحمانی نے اس پر ذرا بھی توجہ نہیں دی اور اس رعایت سے فائدہ اٹھانے کا کوئی ادنی وسوسہ بھی آپ کے دل میں پیدا نہیں ہوا۔ اور نہ ہی اس زندگی کا تذکرہ کرکے آزاد ہندوستان کی حکومت سے کوئی رعایت چاہی۔ حضرت امیر شریعت نے انگریزوں کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک چلانے، پولیس کے ڈنڈے کھانے، متعدد بار جیل جانے، وہاں کی دشواریوں اور سختیوں کو برداشت کرنے سے لے کر اپنوں کی گالیاں اور جھڑکیاں سننے تک جو کچھ بھی قربانیاں دی تھیں وہ صرف اور صرف اللہ تبارک وتعالی کی خوشنودی کے لیے اور اسی سے اجر کے طالب رہے۔ کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالی نے اپنے فضل وکرم سے آپ کو بہت نوازا تھا اور ان کے چھوڑے ہوئے نقوش کا اجر تا قیامت انہیں ملتا رہے گا۔ اللہ رب العزت آپ کی خدمات کا بہترین بدلہ عطا فرمائے۔
خدا رحمت کند این عاشقان پاک طینت را
—————————————
دارالعلوم ، شمارہ : 1، جلد:104، جمادى الاول 1441ھ مطابق جنوری 2020ء
٭ ٭ ٭