از: مولاناعبدالرشید طلحہ نعمانیؔ‏، حیدرآباد

            امام ابو عیسی ترمذی علیہ الرحمۃ(المتوفی ۲۷۹ھ )نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’جامع ترمذی‘‘میں صحابیٔ رسول حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل فرمائی ہے :’’ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں حضرت عمررضی اللہ عنہ نے جابیہ کے مقام پر خطبہ دیا ،کہا: اے لوگو! میں تم میں کھڑا ہوا ہوں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہمارے درمیان کھڑے ہوئے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں اپنے صحابہ کے متعلق وصیت کرتا ہوں پھر ان کے بعد والوں کے لیے اور پھر ان سے بعد آنے والوں کے لیے ۔ اس کے بعدجھوٹ پھیل جائے گا؛ یہاں تک کہ آدمی قسم اٹھائے گا؛ حالانکہ اس سے قسم طلب نہیں کی جائے گی۔ آدمی گواہی دے گا؛ حالانکہ اس سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی۔ آگاہ رہو! کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت اختیار نہیں کرتا؛ مگر تیسرا ان کے ساتھ شیطان ہوتا ہے ۔ جماعت کو لازم پکڑو اور فرقوں میں بٹنے سے بچو! یقینا شیطان ایک کے ساتھ ہوتا ہے اور دوسے دور ہوتا ہے ۔ جو جنت کی خوشبو چاہتا ہے وہ جماعت کے ساتھ منسلک رہے ۔ جس کو نیکی اچھی لگے اور برائی بری محسوس ہو وہ مومن ہے ۔‘‘

            مذکورہ روایت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو بیش قیمت نصیحتوں سے نوازا اور خیرالقرون کے بعد احوال کے بدل جانے کی پیشین گوئی سناتے ہوئے ارشادفرمایا : صحابہ کے ساتھ خیر وبھلائی کا معاملہ کرو!اور ان کے حق میں میری وصیت قبول کرو! جب حالات دگر گوں ہوجائیں تو تفرد و شذوذ اختیار کرنے کے بجائے جماعت کو لازم پکڑو! اسی میں عافیت ہے ،یہی کامیابی کی کلیدہے اور یہی راہ نجات ہے ۔

            ایک دوسری روایت میں جماعتِ مسلمین اور جمہور سے الگ راستہ اختیار کرنے پر وعید بھی سنائی اور فرمایا: ’’اللہ تعالی میری امت کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور جماعت پر اللہ ( کی حفاظت) کا ہاتھ ہے اور جو شخص جماعت سے جدا ہوا وہ آگ کی طرف جدا ہوا۔‘‘(ترمذی)

            اسی طرح جلیل القدر صحابیٔ رسول سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ ،جوصحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں اونچا مقام رکھتے ہیں ،حضوراکرمﷺ  نے آپ کے علم وفقہ کا اس طرح اعتراف فرماتے ہیں : صحابہ میں میں حلال وحرام کاسب سے زیادہ علم معاذبن جبل کو ہے اور آپ کو حاکم و گورنر بنا کر یمن کی طرف روانہ فرماتے ہیں اور بھیجنے سے قبل ایک مختصر سے مکالمے کے بعد آپ پرغیرمعمولی اعتماد کا اظہاربھی فرماتے ہیں ۔ان سے منقول ہے کہ ایک زمانے میں قرآن کا پڑھنا اور اس کا علم عام ہوجائے گا،عورت،مرد اور بچے سب اس کو پڑھیں گے ۔ ایسے وقت میں آدمی سوچے گا کہ میں نے قرآن کا علم حاصل کیا؛مگر میں مقتدا نہ بن سکا۔ اچھا لاؤ! میں لوگوں کے درمیان اس کا نماز وغیرہ میں خوب اہتمام کروں ،شاید اس سے لوگ میری مقتدائیت تسلیم کرلیں ، پھر وہ خوب اس کا اہتمام کرے گا؛ مگرتب بھی اس کی پیروی نہ کی جائے گی ،تب وہ کہنے لگے گا کہ میں نے قرآن پڑھا؛ مگر مقتدا نہ بن سکا ، اس کا زبردست اہتمام کیا ، یعنی نمازوں میں پڑھا ، لوگوں میں اس کی اہمیت ظاہر کی ، تب بھی لوگوں نے مجھے نہیں مانا ، اچھا اب گھر میں مسجد بناکر بیٹھ رہتا ہوں ، شاید اس سے لوگوں کے نزدیک میری اہمیت ہو ، پھر وہ گھر میں مسجد بناکر خلوت نشینی اختیار کرے گا ؛ مگر اس کے باوجود بھی اسے کوئی نہیں پوچھے گا ، وہ کہے گا :میں نے قرآن پڑھا ، تب کسی نے نہیں پوچھا ، میں نے قرآن کا اہتمام کیا ، تب بھی لوگ میرے پیچھے نہ چلے ، میں اپنے گھر میں مسجد بناکر بیٹھ گیا ، تب بھی کسی نے توجہ نہیں کی ، اچھااب اﷲ کی قسم ایسی باتیں لاؤں گا جن کا پتہ نہ اﷲ کی کتاب میں ہوگا،اور نہ انھوں نے اﷲ کے رسول سے وہ باتیں سنی ہوں گی ، شاید تب لوگ میری پیروی کریں ۔ حضرت معاذؓ نے فرمایا کہ خبردار جو بات وہ لایا ہے ، اس سے دور ہی رہو؛ کیونکہ وہ سراسر گمراہی ہے ۔(دارمی)

            ان روایات سے معلوم ہوا کہ سلامت روی او ر اعتدال پسندی اسی میں ہے کہ جمہور کی پیروی کی جائے ،ان کے اتباع کو لازم پکڑا جائے ،ان کی تحقیقات پر اعتماد کیاجائے اور اگر اختلاف بھی ہو تو آدابِ اختلاف سے پیشگی واقفیت حاصل کرلی جائے پھر دائرۂ احترام میں رہتے ہوئے بغیر کسی اصرار کے اپنی رائے رکھی جائے۔اگر قبولیت حاصل ہوجائے تو زہے نصیب ورنہ خاموشی میں نجات ، یقین کی جائے ۔

            ماضی قریب کے صاحبِ قلم اور صاحبِ نسبت عالم دین حضرت مولانا اعجاز احمد اعظمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :’’انفرادیت کے اس جذبے اور لوگوں سے اپنی پیروی کرانے کی ہوس نے نہ جانے کتنی قیامتیں برپا کی ہیں ،ہم کسی فرد یا تحریک کے بارے میں قطعیت اور بالکل یقین کے رنگ میں تو اس کا فیصلہ نہیں کرسکتے ، تاہم زمانہ ’’ صیرفی ٔ کائنات‘‘ہے ، ایک عرصہ تک تجربہ کرتے رہنے سے ،سرد وگرم احوال میں دیکھتے اور پرکھتے رہنے سے ، نیز نوائب وحوادث کے الٹ پھیر میں ،دلوں کی نیتیں زبان وعمل میں ظہور کرنے لگتی ہیں ،اور بالآخر زمانہ فیصلہ کردیتا ہے کہ کون سی تحریک اور کون سا فرد کس نیت کو لے کر کھڑا ہوا تھا ۔

            ہمارا دین عقلی اور قیاسی تیر ،تکّوں کی بنیاد پر نہیں ہے ، اس کی بنیاد تعامل وتوارث اور طبقۃً بعد طبقۃٍ نقل وروایات پر ہے ، اور امت کا سوادِ اعظم جس کی تعبیر جمہور علمائِ امت سے کی جاتی ہے ، وہ کبھی کسی مسئلہ پر قطعی ضلالت پر مجتمع نہیں ہوسکتا۔ ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:میری امت گمراہی پر مجتمع نہیں ہوگی ، لہٰذا تم جب باہمی اختلاف دیکھو تو سوادِ اعظم کااتباع کرو۔اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جمہور کے مسلک کی پیروی اور ان کی راہ کو اختیار کرنا فرمانِ رسول کی تعمیل ہے ، جو لوگ اپنی انفرادی رائے پر زور دیتے ہیں یا کسی مختلف فیہ مسئلہ میں کسی ایک رائے کو قطعی طور پر حق وصواب قرار دے کر دوسری جانب کو بالکل غلط اور گمراہی قرار دیدیتے ہیں ،یہ لوگ جمہور کے طریقے سے انحراف کرکے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں ، ان لوگوں کا سب سے پہلا وار جمہور امت پر پڑتا ہے کہ ان کی رگ کاٹ دی جائے توانفرادیت کا راستہ صاف ہوجائے ۔ ’’(حدیث درددل:۳۱)

            ذرا چشم تصور سے دیکھیے !تاریخ اسلام کا وہ دور بھی کیا سنہرا دور تھا جب پہاڑجیسا علم اور عقاب جیسی نظر رکھنے والے علامۂ وقت بھی فتوی دینے اور مسئلہ بتانے میں حد درجہ احتیاط کرتے تھے اور اس بات کو ترجیح دیتے تھے کہ کوئی اور قاضی فیصلہ صادر کردے ، کوئی اور عالم مسئلہ بتادے ، کوئی اور مفتی فتوی جاری کردے ؛ بل کہ اس سے بڑھ کر ان کی تواضع و انکساری کا یہ عالم ہوتا کہ مسائل دریافت کرنے والے دور دراز علاقوں سے بار سفراٹھاتے اور مجلس علم میں حاضر ہوکرباادب مسئلہ دریافت کرتے اورادھر سے بلا کسی تردد کے ’’لاادری‘‘ کہہ دیا جاتا، نہ اس میں کوئی ذلت و سبکی محسوس ہوتی، نہ عزت نفس کی پامالی کا تصور کیا جاتا اور نہ ہی طعنۂ کم علمی کا خیال مانع آتا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ان اکابر و اسلاف کی زندگی خوف خدا سے آرستہ اور بناوٹ و تصنع سے کوسوں دور تھی، خود نمائی و خود سری کا وہاں کوئی گزر نہ تھا،علم وفن کا پندار تھا نہ تحقیق و مہارت کا غرور۔

            ایک شخص امام مالکؒ کی خدمت میں کوئی مسئلہ پوچھنے کے لیے حاضرہوا اور عرض کیا: اس کی قوم نے اسے یہ مسئلہ پوچھنے کے لیے ایسی جگہ سے بھیجا ہے جس کا فاصلہ یہاں سے۶؍ماہ کی مسافت کا ہے۔ امام مالکؒ نے کہا’’جس نے تمہیں بھیجا ہے اس سے جاکر کہہ دو کہ میں یہ مسئلہ نہیں جانتا‘‘۔اس شخص نے کہا’’پھر اسے کون جانتا ہے ؟‘‘ آپ نے فرمایا ’’وہی جسے اللہ نے علم دیا ہے‘‘ ۔ملائکہ نے کہا تھا’’ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تونے ہمیں سکھایا ہے ‘‘۔

            امام مالک ؒ ہی کے متعلق یہ بھی مروی ہے کہ ان سے۴۸مسئلے پوچھے گئے جن میں سے ۳۲کے بارے میں آپ نے کہا ’’لاادری‘‘ یعنی میں نہیں جانتا۔خالد بن خداش کہتے ہیں ’’میں عراق سے ۴۰مسئلے معلوم کرنے کے لیے امام مالکؒ کے ہاں حاضر ہوا، آپ نے صرف ۵کے جواب دیئے اور باقی کے متعلق فرمایا :مجھے معلوم نہیں ‘‘۔

            امام مالک ،یہ کون امام ہیں ؟ خیر القرون سے تعلق رکھنے والے ،تابعین کے صحبت یافتہ،جوامام دارالہجرۃ کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں ،فقیہ مدینہ کہہ کر پکارے جاتے ہیں ،امام نافع کے تلمیذ ارشداور ان کے علوم کے امین وپاسباں سمجھے جاتے ہیں ۔یہ وہ امام مالک ہیں کہ خلیفۂ وقت ہارون رشیددرخواست کرتا ہے کہ ہم آپ کی کتاب مؤطا کو بطور قانون کے اپنی خلافت میں نافذ کرنا چاہتے ہیں اور اسے ایک آئینی حیثیت دے کر تمام علماء وفقہاء کو اس بات کا مکلف کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اسی کے مطابق فتوے دیاکریں ؛ مگر امام محترم جواب دیتے ہیں ،فرماتے ہیں : یہ صرف میرا علم ہے جب کہ عالم اسلام میں بے شمار اہل علم موجود ہیں ان کے علم سے بھی مستفید ہونا چاہیے ۔ایسی حالت میں ایک شخص کی رائے وعقل پر جس سے صحت وغلطی دونوں کا امکان ہے عالم اسلام کومجبور کرنا مناسب نہیں ۔ لہٰذا میرے علم کو حتمی علم کی حیثیت نہ دی جائے ۔(الدیباج)

            تفرد کسی بھی فقیہ یا عالم کی اس رائے کو کہتے ہیں جس میں وہ جمہور امت سے منفرد ہو اور علماء کی اکثریت نے اس رائے کو قبول عام نہ بخشا ہو۔ اس طر ح کے تفردات ہمیں تقریباً ہر فقیہہ کے ہاں مل جاتے ہیں ؛لیکن عموماً تمام قدیم و جدید فقہاء کے تفردات کی تعداد ان کی بقیہ آراء کے مقابلہ میں آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے ۔ یا یوں کہہ لیں کہ کسی عالم یا فقیہ نے اگر ہزار مسائل کا استنباط کیا ہے تو اس میں سے ۵ یا ۶ مسائل میں تفرد کا اظہار کیا ہے ۔یہاں یہ حقیقت بھی اوجھل نہ ہونی چاہیے کہ مسائل میں تفردات کے باوجود سلف صالحین نے کبھی ان پر اصرار نہیں کیا، ان شذوذ کو انتشار کا ذریعہ نہیں بنایا اور عوام الناس کو اسی کا پابند کیا کہ وہ جمہور کی پیروی کریں ؛ مگر جب سے ابلاغ وترسیل کے ذرائع عام ہوئے اور سوشل میڈیا کی شکل میں ہربندر کے ہاتھ ماچس تھما دی گئی تب سے آزادیٔ اظہار خیال کے خوش نما خول میں شذوذ و تفردات کی وہ گرم بازری ہوئی کہ، الامان !

            ایک ایسا شخص،جسے پانچ کلمے بھی پورے نہیں آتے ، ایمانِ مفصل اور مجمل تک ڈھنگ سے یاد نہیں ،قرآن مجید کی آیتیں بھی تجوید کے ساتھ پڑھنے پر قادر نہیں ؛مگرمنہ اٹھا کر کبھی انبیائے کرام علیہم السلام کی مقدس ہستیوں پہ گستاخانہ جرات مندی کا اظہار ہورہاہے اور کبھی ان ذوات قدسیہ پر بیہودہ اور بے سروپا سوالات اٹھائے جارہے ہیں جنہیں بارگاہ خداوندی سے رضا مندی کا پروانہ مل چکاہے ، کبھی کفّار کے لیے جنت کی حلّت و حرمت کو پینترے بدل بدل کرپیش کیا جارہاہے اور کبھی عوام النّاس کو گمراہ کرنے کے لیے مختلف شیطانی ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں ۔ غرض ہر طرف فتنہ وفساد کا خوف ناک ماحول ہے ،اختلاف و انتشار کی مسموم فضا ہے اور ’’ہمچو ما دیگرے نیست‘‘کی صدائے بازگشت ہے ۔

            موجودہ حالات کی مناسبت سے ہم اپنی اس تحریر کا اختتام مفکر اسلام علی میاں ندوی رحمہ اللہ کی تقریر کے اس چشم کشا اقتباس پرکرتے ہیں : ’’تیسری بات جو بہت تجربہ کی ہے وہ یہ ہے کہ میں نے بھی کتابیں پڑھی ہیں ،اسلام کے مذاہبِ اربعہ اور ان سے باہر نکل کر تقابلی مطالعہ کیا ہے ، شاید کم ہی لوگوں نے اس طرح کا مطالعہ کیا ہو۔ان تمام کے مطالعے کے نچوڑ میں ایک گُر کی بات بتاتا ہوں کہ جمہور اہلِ سنت کے مسلک سے کبھی نہ ہٹیے گا۔اس کو لکھ لیجیے ، چاہے آپ کا دماغ آپ کو کچھ بھی بتائے،  آپ کی ذہنیت آپ کو کہیں بھی لے جائے ،کیسی ہی قوی دلیل پائیں جمہور کے مسلک سے نہ ہٹیے۔ اللہ تعالی کی جو تائید اس کے ساتھ رہی ہے ،جس کے شواہد وقرائن ساری تاریخ میں موجود ہیں ۔چونکہ اللہ تعالی کو اس دین کو باقی رکھنا تھا اور باقی رہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی اصل حالت پر قائم رہے ، ورنہ بدھ مذہب کیا باقی ہے، عیسائیت کیا باقی ہے؟عیسائیت کے بارے میں قرآن کا ’’ولاالضالین‘‘ کہنا ایک معجزہ ہی ہے ،یعنی وہ پٹری سے بالکل ہٹ چکی تھی، اور اللہ تعالی نے چونکہ اس دین اسلام کے بارے میں فرما دیا ہے ’’اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکرَ وَانَّا لَہُ لَحَافِظُونَ‘‘  اور اس کے ساتھ جو تائید ہے ، جو قوی دلائل ہیں ، جو سلامتِ فکر اور سلامتِ قلب ہے ،اس کے ساتھ جو ذہین ترین انسانوں کی محنتیں اور غور وخوض کے نتائج ہیں اور ان کا جو اخلاص ہے اور ذہن سوزی ہے ، وہ کسی مذہب کو حاصل نہیں ہے ۔یہ وہ بات ہے جو ہمارے اور آپ کے استاد مولانا سید سلیمان ندویؒ نے اپنے بعض شاگردوں سے کہی، جیسا کہ مولانا اویس صاحب نقل کرتے تھے اورسید صاحب ؒ سے ان کے استاد مولانا شبلیؒ نے کہی تھی۔بعض لوگ چمک دمک والی تحریر پڑھ کر دھوکا کھا جاتے ہیں ۔(’’وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُعْجِبُکَ قَوْلہُ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَیُشْھِدُ اللَّہَ عَلی مَا فِی قَلْبہِ‘‘بعض لوگوں کی باتیں تم کو دنیا میں بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں اور وہ اپنے دل کے حال پر اللہ تعالیٰ کوگواہ بناتا ہے )، اور شہیدوں کا مذاق اڑاتے ہیں اور کہیں علمائے سلف کا مذاق اڑاتے ہیں ، کہیں مفسرین ان کے تیر کا نشانہ بنتے ہیں ، لہٰذا مسلک جمہور سے اپنے کو وابستہ رکھیے ، اس کا بڑا فائدہ ہوگا، اللہ کی خاص عنایت ہوگی، اس کی نصرت وبرکت ہوگی اور حسنِ خاتمہ بھی ہوگا‘‘۔(خطباتِ علی میاں ، ج۱، ص۳۴۸-۳۴۹)

——————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 11-12،  جلد:103‏،  ربیع الاول– ربیع الثانی 1441ھ مطابق نومبر – دسمبر  2019ء

٭           ٭           ٭

Related Posts