از: مولانا اشتیاق احمد قاسمی

استاذ دارالعلوم دیوبند

            دارالعلوم دیوبند کے شعبۂ دینیات وفارسی کے قدیم ترین موقر استاذ جناب مولانا سُرور احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وفات حسرت آیات بن کر سامنے آئی۔ ۲۰۱۹ء کے نومبر کی چوتھی تاریخ تھی، دوشنبہ کو ساڑھے گیارہ بجے حسبِ معمول چوتھا گھنٹہ پڑھاکر گھر گئے، پہلے طہارت خانہ گئے، فراغت کے بعد نقاہت محسوس ہوئی، اپنے فرزند ارجمند مفتی محمد نوید قاسمی سلّمہ کے سہارے اپنے حجرے میں آکر لیٹ گئے، بلڈپریشر زیادہ ہورہا تھا، اگلے ہی لمحہ کم ہوگیا اور جان جانِ آفریں کے سپرد ہوگئی، یہ سب کل دس منٹ میں ہوا-  إنا للّٰہ و إنا إلیہ راجعون- مرحوم کی ولادت: تین مارچ ۱۹۵۱ء بتائی جاتی ہے، اس طرح عیسوی کے لحاظ سے اڑسٹھ اور ہجری کے لحاظ سے ستر سال کی عمر نصیب ہوئی۔ مولانا مرحوم دیوبند کے معروف ترین خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں ، ان کے پردادا مولانا منظور احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ کے والد مولانا محمد یاسین صاحبؒ کے حقیقی بھائی ہیں ، دونوں بھائی دارالعلوم دیوبند کے شعبہ فارسی کے استاذ تھے، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب رحمۃ اللہ علیہ ان کے شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں اور مولانا مرحوم کے دادا مولانا ظہور احمد صاحب دارالعلوم دیوبند کے علیا کے استاذ حدیث تھے اور والد مولانا شکور احمد صاحب شعبۂ کتابت کے استاذ تھے، اس طرح دارالعلوم دیوبند میں شعبۂ فارسی کی ابتداء کے بعد سے تسلسل کے ساتھ چار پشتوں کو خدمت نصیب رہی۔؎

ایں سعادت بزور بازو نیست

تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

            مولانا سروراحمد صاحبؒ کی فراغت: ۱۹۷۳ء میں ہوئی، اتفاق سے اگلے ہی سال والدِ محترم کی وفات ہوگئی، دارالعلوم دیوبند کے سراپائے کرم مہتمم حضرت حکیم الاسلامؒ نے موصوف کی صلاحیت، نجابت، شرافت اور سلامتی طبع کو دیکھتے ہوئے شعبۂ فارسی کا مدرس بنادیا، مرحوم کے تین بھائی اور تین بہنیں تھیں اُن کی پرورش کرنے والا کوئی نہ تھا، ملازمت کے بعد مرحوم نے سب کی پرورش کی، تعلیم وتربیت کا انتظام کیا اور سب کی شادیاں کیں ، بھائی بہنوں کی دیکھ بھال، ان کی پرورش و پرداخت موصوف کا بہت بڑا کارنامہ ہے، اس میں اپنی اہلیہ محترمہ کے تعاون کا وہ بار بار ذکر کرتے تھے کہ اگر ان کی توجہ، نیک نیتی اور خوش خلقی شامل نہ ہوتی تو میں ان سب کی ذمہ داری اچھی طرح نہیں نبھاسکتا تھا۔

            معاش کے لیے انھوں نے ایک مطب کھول رکھا تھا، ’’ریکس کمپنی‘‘ کی دوائیں لاتے اور فروخت کرتے تھے؛ مگر یہ سلسلہ بہت دنوں تک چل نہ سکا، اس لیے کہ کمپنی کی شرائط سخت تھیں ، پہلے پیسے لیتی پھر دوائیں بھیجتی تھی، پھر وہ دوائیں مدتوں بعد بکتی تھیں ، اس کا تحمل نہ ہوپاتا تھا، بالآخردوکان بند کرنی پڑی، دوکان بندہونے کے بعد کچھ مشکلیں آئیں ، مگر صبر اورپامردی کے ساتھ اس کو جھیلتے رہے، ایک ملاقات کے لیے اُن کے گھر پہنچا تو بتانے لگے کہ بہت سے امراض نے ساتھ پکڑلیا ہیں ، دل کی حرکت کمزور ہوکر صرف پندرہ فی صد رہ گئی ہے، گھٹنے کا درد ناقابلِ برداشت رہتا ہے، چند قدم چلنا بھی مشکل ہے، ایسی صورت میں ملازمت سے سبکدوش ہوجانے کا جی چاہتا ہے، مگر کیا کروں ؟ میرے اور اہلیہ کے دوا علاج اور گھر کے معمولی اخراجات میں بڑی رقم صرف ہوتی ہے؛ اس لیے کسی طرح درس گاہ پہنچ جاتا ہوں ۔

            دو طلبۂ کرام نہایت ہی پابندی اور احتیاط سے روزانہ گھر (بڑے بھائیاں ) سے دارالعلوم موٹرسائیکل سے لاتے، گاڑی سے اتار کر وہیل چیئر کی مدد سے درس گاہ تک لے جاتے، کبھی تفریحاً اِن باتوفیق شاگردوں کو اپنا ’’فرشتہ‘‘ کہتے کہ یہ دونوں میرے دائیں بائیں کے فرشتے ہیں ، جب تک یہ لاتے رہیں گے میں آتا رہوں گا، ایک کا نام سلطان فاروقی دیوبندی اور دوسرے کا نام محمد شاداب (جھبیرن) ہے، یہ دونوں فارسی پنجم کے طلبہ ہیں ۔

            موصوف مربیانہ مزاج کے حامل تھے، طبیعت میں شفقت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، طلبہ کو دین داری کی تلقین کرتے رہتے، بزرگان دین اور اسلافِ صالحین کے قصے سناتے، اگر کوئی مزدور کا بچہ پڑھتا تو نہایت ہمدردی سے فرماتے: پڑھ لو، عزت ملے گی، دیکھو تمہارے والد صاحب کتنی مشقتوں سے روزی کماتے ہیں ، اگر نہیں پڑھوگے تو یہ مشقت تمہیں جھیلنی پڑے گی، پڑھے لکھے لوگوں کی معاشرے میں عزت ہوتی ہے، معاش آسانی سے حاصل ہوجاتا ہے۔ وغیرہ

            اگر طلبہ زیادہ غیرحاضری کرتے اور سبق نہ سناتے تو ضابطے کے مطابق اُن کا طعام ٹکٹ بند کراتے پھر کھلوابھی دیتے؛ تاکہ تعلیم کی طرف متوجہ رہیں ، آخری دن اُن سارے بچوں کے کھانے کھلوادیے جن کے بند تھے۔ طلبہ بتاتے ہیں کہ مولانا آخری دن بہت خوش تھے، ساری کتابیں پڑھائیں ، مختلف پیرائے میں بہجت ومسرت کا اظہار فرماتے رہے۔ اس دن اپنے ہم عمر، ہم منصب، ہمدم وہمساز جناب مولانا سہیل عزیز عثمانی دیوبندی استاذ شعبۂ دینیات کو نوبجے بلایا اور خوب باتیں کیں ، دونوں حضرات بچپن کے ساتھی تھے، ساتھ ہی فارسی اور دینیات کی تعلیم حاصل کی، عربی میں آنے کے بعد مرحوم ایک سال آگے ہوگئے، ایک ہی سال کے فرق کے ساتھ دونوں ایک ہی شعبے میں ملازم ہوے اور پینتالیس چھیالیس سال ایک ساتھ ہی درس و تدریس کا سلسلہ چلتا رہا، مولانا سہیل فرماتے ہیں کہ میں نے بچپن سے ان میں کوئی خرابی نہیں دیکھی، حتی کہ بچپنے کی معروف شرارتیں بھی انھوں نے کبھی نہیں کیں ۔ میں ان کو پیدائشی ولی کہتا اور سمجھتا ہوں ، والد کی وفات اور گھر کی ذمہ داریوں کے بعد تو اور بھی سنجیدہ ہوگئے، موصوف میں اخفائے حال کی صفت تھی کبھی اپنی مالی کمزوری اور مفلوک الحالی کا کسی کو احساس نہیں ہونے دیا، شکوہ اُن کی زبان پر کبھی نہیں آتا، ایک دن فرمانے لگے اس رب کریم کا شکر کس زبان سے بجالائوں کہ جب معذور ہوا تو اُس نے خدام عطا کیے، فرزند بھی خدمت کرتے ہیں اور شاگردان بھی جان نچھاور کرتے ہیں ، بیماری کی حالت میں اللہ کی نعمتوں کو خوب یاد کرتے، دوسروں کو بھی حوصلہ دیتے، صبر وشکر کی تلقین کرتے، مرحوم میں صاف گوئی کی صفت تھی؛ مگر کسی پر اعتراض نہیں کرتے اگر کوئی کسی کے خلاف ان کے سامنے بولتا تواس کو مثبت رخ دے دیتے۔ عُزلت نشینی بھی موصوف میں خوب تھی، بس اپنے کام سے کام رکھتے، گوشہ نشینی کو ترجیح دیتے، جب تک دوکان تھی، دارالعلوم کی ڈیوٹی سے بچا ہوا سارا وقت اس میں صرف کرتے۔ دوسرے کی تکلیف کو اپنی تکلیف محسوس کرنے کا جذبہ بھی خوب تھا، ایک بار میری طبیعت ناساز ہوئی، کئی ڈاکٹر، حکیم سے دوالی، مگر افاقہ نہ ہوا، ’’مدرسہ ثانویہ‘‘ کی درس گاہ میں جاڑے کی دھوپ میں کھڑے کھڑے میں نے ان سے اپنی تکلیف بتائی وہ بڑے متفکر ہوے، میرے لیے دعا کی اور کہا کہ میرے علم میں ایک ڈاکٹر بڑے اچھے ہیں اُن سے آپ کے لیے دوا پوچھوں گا، یا ملاقات کرادوں گا، بات ختم ہوگئی، عصر بعد میں جامع مسجد کے پاس سے گزرا وہ دوکان پر بیٹھے تھے، مجھے آواز دی، میں پہنچا، انھوں نے ایک دوا دی اور کہا: آپ اس کا استعمال کیجیے ہوسکتا ہے کہ فائدہ ہوجائے، میں نے اس کو استعمال کیا، دو خوراک میں ہی شفا ہوگئی مزید ایک خوراک میں نے احتیاطاً کھالی اور سات سال سے اب تک الحمدللہ ٹھیک ہوں ۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو غریقِ رحمت فرمائیں !

            اخیر کے دو سالوں سے جب بھی ملاقات ہوتی، کہتے کہ اب تو میرا کوئی ٹھیک نہیں ، کب بلاوا آجائے، آب دیدہ ہوکر کہتے: دعائے مغفرت ضرور کیجیے گا، ایصالِ ثواب کی بھی درخواست  ہے۔ مرحوم بڑے با اخلاق، ملنسار، خوش مزاج، نفیس طبیعت، اوقات کے پابند اور ذمہ داریوں کو بحسن وخوبی انجام دینے والے تھے۔

            تصانیف: موصوف کا قلم پختہ اور رواں دواں تھا، عربی کی استعداد بھی فارسی کی طرح اعلیٰ تھی، مضامین ومقالات کے علاوہ دو تصانیف اس کی شاہد عدل ہیں : (۱) ترجمہ سنن ابودائود مطبوعہ کتب خانہ نعیمیہ دیوبند (۲) نماز میں سہو اور مسائل سجدئہ سہو، مطبوعہ مکتبہ ہدایت دیوبند۔

            تدریس: ۱۹۷۴ء سے ۲۰۱۹ء تک مرحوم نے مادر علمی کے شعبۂ فارسی ودینیات میں تدریسی خدمات انجام دی ہیں ، پینتالیس چھیالیس سال کی مدت میں اس شعبے کی ساری کتابیں زیردرس آئیں ، فارسی میں گلستاں ، بوستاں ، گلزار دبستاں ، فارسی کی پہلی، رہبر فارسی، کریما، فارسی کا معلم، آمدنامہ اور تیسیرالمبتدی پڑھائیں ، اس درمیان نصاب میں تبدیلیاں بھی عمل میں آئیں موصوف اس کے مطابق تدریس میں لگے رہے، فارسی کے ساتھ ناظرئہ قرآنِ کریم، مولوی اسماعیل میرٹھی کی اردو زبان کی پہلی، دوسری، تیسری، چوتھی اورپانچویں کتاب، تعلیم الاسلام، ہندی میں کَلْ رَوْ، سماجک اَدھین اور انگریزی میں ابتدائی انگلش گرامر وغیرہ پڑھائیں ، ساری کتابوں کو نہایت ہی آسان انداز میں پڑھاتے تھے، ناظرئہ قرآن مجید والے طلبہ کو صحت کے ساتھ پڑھنے کی مشق کراتے، چھوٹی چھوٹی سورتیں یاد کراتے، تاکہ نماز میں پڑھ سکیں ، بعض مشہور سورتوں کو زبانی بھی یاد کرادیتے مثلاً: سورئہ یاسین، ملک وغیرہ اس میں ان طلبہ سے مدد لیتے جو حافظ ہوکر دینیات میں داخل ہوتے ہیں ، نماز کی تربیت بڑے اچھے انداز میں کرتے، ان کے یہاں کے پڑھے ہوئے ہر طالب علم کو نماز کی ساری دعائیں اور عملی ترکیب ازبر ہوتی تھی، مولوی اسماعیل میرٹھی کی اردو کتابوں میں الفاظ ومعانی خوب یاد کراتے، نظمیں زبانیں کراتے، تعلیم الاسلام سے خلاصۂ سبق زبانی یاد کراتے اور زبانی سبق کھڑا کرکے تقریر کی شکل میں سنتے اس سے طلبہ میں ہچکچاہٹ ختم ہوتی اور قوتِ بیانیہ کی مخفی استعداد کھلتی تھی، طلبہ کو تنبیہ بھی کرتے، پھر ہنسی کی باتیں کہہ کر اُن کی دل داری بھی کردیتے اور اپنے سے مانوس رکھتے متنفرنہ ہونے دیتے، جب طلبہ کو سبق یاد کرتے کرتے بوریت ہوجاتی تو تھوڑی دیر کے لیے کھیلنے کا موقع بھی دیتے اور قمچی چلانے سے زیادہ زبانی تنبیہ اور آنکھ وانکھ دکھاکر اُن کو علم کی طرف متوجہ کرتے، قمچی کے نام بھی رکھتے، چھوٹے بچے موصوف کے اس انداز سے محظوظ ہوتے، ایک گورکن کا بچہ آصف مرحوم کے پاس پڑھتا تھا، اب وہ دارالعلوم سے فارغ ہوچکا ہے، اس کو تنبیہ کرتے ہوے از راہِ مزاح کہتے: ’’توتو قبر ہی کھودے گا‘‘ اتفاق ایسا ہوا کہ مذکورہ طالب علم نے ہی اپنے استاذ محترم کی قبر کھودی!

          اللّٰہم اغفر لہٗ وارحمہ وسَکِّنْہُ في فسیح جناتک یا أرحم الراحمین۔

——————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ : 11-12،  جلد:103‏،  ربیع الاول– ربیع الثانی 1441ھ مطابق نومبر – دسمبر  2019ء

٭           ٭           ٭

Related Posts