نئی کتابیں
از: مولانا محمد اللہ قاسمی
شعبۂ انٹرنیٹ، دارالعلوم دیوبند
نام کتاب : آسان بیان القرآن (۵جلدیں)
مفسر علام : حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ
تسہیل نگار : جناب مولانا عقیدت اللہ قاسمی
تدقیق اورنظرثانی : حضرت مفتی سعیداحمد صاحب پالن پوری مدظلہ
صدرالمدرسین وشیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند
ناشر : مکتبہ حجاز دیوبند
تعارف نگار : مولانا اشتیاق احمد قاسمی مدرس دارالعلوم دیوبند
====================
حضرت تھانویؒ کی تفسیر بیان القرآن علوم کا خزانہ ہے، مؤرخین اس کو زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ قرار دیتے ہیں، بڑے بڑے عبقری علماء نے اس کی شان عظمت کا اعتراف کیا ہے، علامہ کشمیری نے دیکھ کر فرمایا: ’’میرا خیال تھا کہ علوم عربی میں ہیں اب اندازہ ہوا کہ اردو میں بھی ہیں‘‘ (آسان بیان القرآن ۱/۲۴) تفسیر کی بیس خصوصیات خود حضرت تھانویؒ نے بیان فرمائی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے : بیان القرآن کا ترجمہ نہایت رواں دواں، عام فہم اور کلاسیکی ادب کا شاہ کار ہے، اس میں نحوی ترکیب کی پوری رعایت ملحوظ رکھی گئی ہے، تفسیر نہایت ہی جامع مانع انداز میں لکھی گئی ہے، سلف کی تفاسیر کا عطر نچوڑ کر جمع کیاگیا ہے، سورۃ المائدہ کے بعد قدرے تدقیق و تفصیل کا اسلوب اپنایاگیا ہے، اہم نکات کے ساتھ راجح قول کی تعیین میں مضبوط روایات کو بنیاد بنایا گیا ہے، اس تفسیر کو ربط آیات کی وضاحت میں بھی بڑا امتیاز حاصل ہے اکثر جگہ آیات سے ہی ربط نکال کر سمجھایا ہے۔ جا بجا شبہات واعتراضات کو کھول کر ان کے جواب درج کیے ہیں، آیات سے نکلنے والے فقہی اور کلامی مسائل کو ضرورت بھر لکھا گیا ہے، اس میں منطق وفلسفہ کی اصطلاحات و استدلالات کچھ کم نہیں ہیں، حاشیہ میں سلوک وتصوف کے مسائل کو مستقل انداز میں پہلے عربی میں پھر اردو میںلکھا ہے، جس نے مستقل تصنیف کی شکل اختیار کرلی ہے، وجوہ مثالی کے ساتھ ’’ملحقات ترجمہ‘‘ کا عنوان ان سب میں دقیق تر ہے، اردو ترجمہ میں استعمال ہونے والے الفاظ کی وجوہات کو اہل علم کے لیے لکھا ہے، اس سے عام علماء بھی استفادہ نہیں کرپاتے؛ اس لیے حضرت تھانوی علیہ الرحمہ نے خود صراحت فرمائی ہے کہ یہ اہل علم کے لیے خاص ہیں، کم استعداد افراد کو سبقاً سبقاً کسی بااستعداد عالم سے پڑھنے کا مشورہ دیا ہے۔
مذکورہ بالا خصوصیات کی وجہ سے حضرت تھانویؒ کی یہ تفسیر گنجینۂ علوم بن گئی، اہلِ علم اور صاحب تحقیق نے تو خوب استفادہ کیا، عوام محروم رہے اور وہ علماء جن کی علمی استعداد کمزور رہی انھوں نے بھی مرعوبیت کی وجہ سے ہاتھ نہیں لگایا۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس کو آسان کیا جائے، اس کے مشکل مضامین کو عرش سے فرش پر لایا جائے، کمزور دانت والوں کے لیے سخت لقموں کو چباکر پیش کیا جائے؛ تاکہ وہ بھی مشام جان وتن کو محظوظ کرسکیں، تھانوی خوان یغما سے قسم قسم کی نعمتیں کھاسکیں، مریضِ ذہن وفکرحکیم الامت کے مطب سے دوا لے سکیں اور درد کا درماں لے کر اپنے قلب وجسد کو سکون وطمانیت کی کیفیت سے لبریز کرسکیں۔ بیمار روح شفایاب ہوکر اطاعت ربانی میں سربسجود ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک موفق شخصیت سے یہ کام لے لیا، جناب مولانا عقیدت اللہ قاسمی زیدمجدہٗ نے یہ بیڑا اٹھایا، موصوف اس کے لیے بڑے موزوں تھے، زبان وبیان کے شہسوار؛ رواں دواں تعبیرات کے عادی؛ (۱۳۲۵) کی سوسال پرانی زبان کو آج کی رائج ٹکسالی زبان میں بدلنے کے ماہر؛ انھوں نے مدتوں صحافت کے ویرانوں کو آباد کیا، ادب کی سنگلاخ وادیوں کو دھوپ کی تمازت میں طے کیا، انھوں نے حضرت تھانویؒ کے دائرئہ افادہ کو کشادہ کرنے کے لیے اہم اور مفید ترین تصنیف بیان القرآن سے اپنے کام کا آغاز کیا، حضرت تھانویؒ کو خواص سے عوام میں لانے کے لیے انھوں نے کچھ خطوط طے کیے، مثلاً انھوں نے ’’ملحقات ترجمہ‘‘ کو تسہیل میں شامل نہیں کیا، عوام کو اس کی ضرورت نہیں اور خواص اصل تفسیر سے رجوع کرسکتے ہیں۔ ’’مسائل السلوک‘‘ (عربی مع اردو ترجمہ) مستقل تصنیف کا انداز پاچکے ہیں۔ اس لیے اس کو بھی چھوڑ دیا ہے، فارسی عناوین کو اردو کا جامہ پہنایا، بہت سی باتیں بلا عنوان ضمنی طور پر لکھی گئی تھیں، ان کو آسان کرکے باضابطہ عنوان قائم کیا، قدیم طرز نویس میں پیراگراف کی تبدیلی کا خیال نہیں ہوتا تھا؛ اس لیے ہر نئی بات کو نئے پیراگراف کے ساتھ لکھا۔ غرض یہ کہ تسہیل نگار نے اصل کو باقی رکھ عوامی بنانے کی پوری کوشش کی، پھر حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری مدظلہٗ العالی کو پیش کیا، آپ کو اللہ تعالیٰ نے مشکل مضمون کو آسان سے آسان انداز میں بولنے اور لکھنے کی بے پناہ قدرت عطا فرمائی ہے، آپ کا یہ وصف معاصرین میں آپ کو ممتاز کرتا ہے، چالیس پچاس سال سے طلبۂ کرام اور اہلِ علم وقلم کو آپ کا یہ جادو مسحور کیے ہوے ہے، اس وصف میں آپ کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا؛ غرض یہ کہ حضرت تھانوی کے مشکل مضامین کو آسان کرنے میں آپ نے تسہیل نگار کی مدد کی اور یہ ضروری بھی تھی کہ تسہیل نگار نے بہت سی جگہوں پر اپنی بے بسی کی نشاندہی کررکھی تھی، منطق وفلسفہ کی اصطلاحات کا بھی عوامی ترجمہ کررکھا تھا جو مناسب نہیں تھا، موصوف نے ہزار عوارض کے باوجود اس مہم کو سرکیا، ایک ایک جملہ کو اصل سے ملایا؛ تاکہ تسہیل تحریف وتبدیل نہ ہوجائے، سیکڑوں صفحات کو ازسرنو لکھا اور اپنی آخری درجہ کی کوشش کرڈالی، اب یہ قارئین کی بارگاہ میں پیش ہے، وہ اصل سے ملاکر فیصلہ کریں اور داد دیں، راقم حروف چوںکہ پنجم عربی میں ترجمہ پڑھاتا ہے؛ اس لیے بڑی دقت نظر سے دیکھتا ہے اور دونوں بزرگوں کے لیے دعائیں کرنے لگتا ہے، غرض یہ کہ ’’آسان بیان القرآن‘‘ ظاہری ومعنوی خوبیوں سے لبریز ہے، نہایت ہی عمدہ انداز میں اچھے کاغذ اور دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ مکتبہ حجاز نے چھاپا ہے، اللہ تعالیٰ جلیل القدر مفسر، تسہیل نگار اور تحقیقی نظر ڈال کر قابل اطمینان بنانے والی شخصیت اور ناشر سب کو جزائے خیر عطا فرمائیں، اللہ کرے کہ اکابر واسلاف کی کتابوں کی تسہیل کا کام نئے فضلاء کریں؛ تاکہ افادیت کا دائرہ وسیع ہو اور لوگ مسلک ومشرب دیوبند کو سمجھیں، آج اس کی بڑی ضرورت ہے۔ وباللہ التوفیق۔
————————————–
دارالعلوم ، شمارہ : 10، جلد:103، صفر المظفر 1441ھ مطابق اكتوبر 2019ء
* * *