حرف آغاز
محمد سلمان بجنوری
۱۰؍ذوالحجہ ۱۴۴۰ھ (عیدالاضحی) کے دن، شیخ المشائخ پیر طریقت حضرت مولانا محمد طلحہ کاندھلوی صاحبؒ بھی رہ گزار آخرت ہوگئے إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ گویا ایک عظیم مے خانۂ معرفت کاساقی رخصت ہوگیا اور شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی نوراللہ مرقدہ کے نسبی وروحانی جانشین سے اہل محبت محروم ہوگئے۔
حضرت مولانا، موجودہ دور میں اسلاف واکابر کی ایک یادگار اور نمونہ کی حیثیت رکھتے تھے اور اُن کے جانے سے بلاشبہ ایک خلا پیدا ہوا ہے جو شدت سے محسوس کیا جائے گا۔ یہ بات بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی نوراللہ مرقدہ کے صاحبزادے تھے۔ اس بلندمایہ نسبت کے علاوہ اُن کو اور بھی مبارک نسبتیں حاصل تھیں ، مثلاً یہ کہ وہ حضرت مولانا محمدالیاس کاندھلوی نوراللہ مرقدہ کے نواسے تھے اور حضرت مولانا محمدیوسف کاندھلوی نوراللہ مرقدہ کے بھانجے تھے۔ اس خاندانی شرف کے ساتھ ساتھ ان کو اپنے والد گرامی نوراللہ مرقدہ کی برکت سے شیخ الاسلام حضرت مولانا سیدحسین احمد مدنی نوراللہ مرقدہ اور امام الاولیاء حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری نوراللہ مرقدہ جیسی عالی مقام شخصیات کی شفقتیں حاصل رہیں اور نوعمری میں ان حضرات کی بابرکت صحبت میں رہنے کا موقع ملا۔ ان گوناگوں نسبتوں کی برکات ان کی شخصیت میں محسوس ہوتی تھیں ۔
اُن کے والد گرامی حضرت شیخ الحدیث نوراللہ مرقدہ بلاشبہ اُن شخصیات میں سے تھے جن پر بیسویں صدی فخر کرسکتی ہے، وہ اپنے کمالات وخدمات اور جامعیت کی بناء پر اکابر علماء دیوبند کی صف میں نہایت ممتاز مقام رکھتے ہیں ۔ ان کی سی جامعیت منتخب افراد ہی کو عطاء ہوتی ہے۔ حضرت شیخ نوراللہ مرقدہ کی علمی جانشینی تو قدرت کی تقسیم کے مطابق دیگر حضرات کی طرف منتقل ہوئی؛ لیکن تزکیہ واحسان اور سلوک کے میدان میں یقینا حضرت مولانا محمد طلحہ صاحب رحمہ اللہ اُن کے معتبر جانشین قرار پائے اور اُن کو فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمودحسن گنگوہی نوراللہ مرقدہ سمیت، حضرت شیخؒ کے تمام اکابر خلفاء کا اعتماد حاصل رہا، جس کی وجہ سے علماء اور عوام کی ایک بڑی تعداد اُن سے وابستہ ہوئی اور متعدد ممتاز علماء کرام اُن کے دست گرفتہ ہوکر اجازت یافتہ ہوئے۔
حضرت مولانا نوراللہ مرقدہ نہایت سادہ اور صاف گو انسان تھے اور اس سادگی اور صاف گوئی کی وجہ سے بہت سے لوگوں پر اُن کی دانائی پوشیدہ رہ جاتی تھی؛ لیکن درحقیقت وہ نہایت باہوش، دانا اور باخبر انسان تھے اور دینی وملی معاملات میں صاحب رائے تھے؛ البتہ اس کا اظہار سادگی کے پیرائے میں ہوتا تھا۔ حضرت مولاناؒ کی چند ممتاز صفات جو ہم جیسے کوتاہ بینوں کو بھی واضح طور پر محسوس ہوجاتی تھیں ، کچھ اس طرح ہیں :
(۱) ان کی سب سے نمایاں صفت یا کمال تو یہی تھا کہ انھوں نے اپنے والد گرامیؒ کی اس تربیت گاہ کی رونق کو باقی رکھا جو مرجع خواص و عوام تھی، اسی انداز پر مجلس ذکر اور اصلاحی محنت جاری رکھی جس سے ہزاروں بندگانِ خدا نے فائدہ اٹھایا، صبح سے شام ہوجاتی تھی اور وہاں ملک وبیرون ملک سے اہل محبت یا طالبین اصلاح کی آمد ورفت کا سلسلہ جاری رہتا تھا، حضرتؒ کی جانب سے تلقین ذکر اور تفقد احوال ہوتا رہتا اور ہر طرح سے رہنمائی کی جاتی، اسی انداز پر اعتکاف بھی کرتے رہے اور اس میں کثرت رجوع کے مناظر دیکھنے میں آتے رہے۔ یہاں تک کہ بہت سے مشاہیر علماء نے بھی اُن سے وابستہ ہوکر نسبت کی برکات حاصل کیں ۔
(۲) ان کی ذاتی صفات میں سب سے نمایاں اُن کا شوق مہمان نوازی تھا، اُن کے یہاں یوں بھی کثرت سے مہمانوں کی آمد ورفت رہتی تھی؛ لیکن اُن کے ذوق ضیافت کی تسکین کے لیے شاید وہ بھی کافی نہیں تھی، اسی لیے وہ دوسرے حضرات کے مہمانوں کو بھی اپنے یہاں کھانے پر بلالیتے تھے۔ ایسے متعدد واقعات ہمارے علم میں ہیں کہ آدمی سہارنپور کسی اور بزرگ سے ملاقات کے لیے پہنچا؛ لیکن اتفاق سے ملاقات حضرت مولانا محمد طلحہ صاحبؒ سے ہوگئی تو فوراً اپنے ساتھ کھانے کا حکم دے دیا۔ ایک بار ہم چند اساتذئہ دارالعلوم دیوبند، کسی اجلاس کا دعوت نامہ لے کر بعد عصر حاضر ہوئے تو اولاً اُسی وقت پرتکلف ناشتہ کرایا، پھر تاکیدی حکم فرمایا کہ مغرب کے بعد کھانا کھاکر جانا ہے۔
(۳) اُن کی ایک نمایاں صفت امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام تھا، خاص طور سے داڑھی کے سلسلے میں تو کہا جاسکتا ہے کہ وہ صاحب حال تھے۔ اُن کے یہاں بغیرداڑھی والے شخص کو کم از کم ڈانٹ کاسامنا تو کرنا ہی پڑتا تھا، بسااوقات ماربھی کھانی پڑجاتی تھی اور اس عمل میں اُن کو کسی ملامت یا نقصان کی پروا نہیں ہوتی تھی، نہ وہ کسی سے مرعوب ہوتے تھے، ہر ایک کو بلاجھجک نصیحت فرماتے یا ڈانٹ پلادیتے تھے۔
(۴) حضرت مولاناؒ کے فکر واہتمام کا ایک موضوع مکاتب کا قیام تھا جس کے بارے میں گفتگو کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ خواہ نجی ملاقات ہو، مجلس ہو یا جلسۂ عام ہو ہر جگہ مکاتب کے قیام کی ترغیب کے لیے وہ مستعد رہتے تھے؛ چنانچہ بڑی تعداد میں ان کی زیرسرپرستی مکاتب چلتے تھے۔
(۵) ایک خاص بات جو اُن کی ہر ملاقات میں آنے والوں کے سامنے آتی تھی وہ تمام دینی کاموں کا آپسی تعاون کے ساتھ چلنا اور اخلاص کے ساتھ چلانا تھا، وہ نہایت اہمیت کے ساتھ اس بات پر توجہ دلاتے تھے کہ مدارس، خانقاہیں اور دعوت وتبلیغ کا کام یہ سب دینی کاموں کے راستے ہیں ان کو ایک دوسرے کا رفیق ومعاون ہونا چاہیے۔ اس موضوع پر وہ تقریباً ہر مجلس میں گفتگو فرماتے تھے اور اپنی حد تک ان کاموں کے ذمہ داران کے درمیان ربط واتحاد پیدا کرنے کے لیے کوشاں رہتے تھے۔
(۶) اُن کی ایک نمایاں صفت اُن کی دعاء تھی، کسی بھی مجلس کے اختتام پر اگر وہ موجود ہیں تو دعاء کی درخواست انہی سے کی جاتی اور وہ بڑے والہانہ انداز اور سادہ لہجہ میں خوب دعاء کراتے دعاء میں اُن کی کیفیت الگ ہوتی تھی، بسا اوقات وہ دعاء کرتے کرتے نصیحت شروع کردیتے، پھر دعاء کی طرف لوٹ جاتے۔
انھوں نے ذریعۂ معاش کے طور پر اپنے والد گرامی کے تجارتی کتب خانہ (مکتبہ یحیویہ) کو جاری رکھا اور اس سے متعدد کتابیں شائع کیں ۔ اسی طرح انھوں نے مختلف موضوعات پر لکھنے کے لیے بعض علماء کو توجہ دلائی جس کے نتیجہ میں بہت سی مفید کتابیں وجود میں آئیں ۔
جامعہ مظاہرعلوم کے بحرانی دور میں ان کی ذات سے مدرسہ کو تقویت حاصل ہوئی اور انھوں نے ضابطہ کا ایک منصب (امین عام) بھی قبول کیا، جسے بعد میں اپنی افتاد طبع کے مطابق چھوڑ دیا؛ لیکن مدرسہ کی سرپرستی مسلسل جاری رکھی، اب کچھ عرصہ سے وہ دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے رکن بھی تھے اور صحت کے زمانے میں پابندی سے اجلاس شوریٰ میں تشریف لاتے تھے۔
ان کی صحت چندسالوں سے متاثر تھی؛ لیکن ایک ڈیڑھ سال قبل اپنی اہلیہ مرحومہ کی وفات کے بعد سے صحت کی صورت حال زیادہ دگرگوں رہی، اِدھر رمضان کے عشرئہ اخیرہ میں ان کے خسر محترم شیخ طریقت حضرت مولانا افتخارالحسن کاندھلویؒ رہ گزار آخرت ہوئے اور اب عین عیدالاضحی کے دن حضرت مولاناؒ نے بھی جان، جاں آفریں کو سپرد کردی۔ اسی دن ایک جم غفیر نے استاذ گرامی مرتبت حضرت مولانا سیدارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم کی اقتداء میں نماز جنازہ ادا کی اور سہارنپور کے مشہور قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔
اللہ رب العزت مغفرت فرمائے اور درجات عالیہ سے نوازے، آمین!
—————————————–
دارالعلوم ، شمارہ : 9، جلد:103، محرم الحرام 1441ھ مطابق ستمبر 2019ء
* * *