از افادات: حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم
(ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ وصدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)
عزیز طلبہ! یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بڑی نعمت ہے کہ اس نے آپ کو اس کی توفیق دی کہ علم دین سے واقف ہونے کے لیے آپ یہاں آئے، دین کی نعمت ہی دراصل حقیقی نعمت ہے۔ دیکھیے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں بھی اسی کو نعمت کا نام دیا ہے اور اس نعمت سے سرفراز لوگوں کے راستہ پر چلنے کی دعاء مانگنے کی تلقین فرمائی ہے، سورہ فاتحہ میں ارشاد ہے: {صراط الذین أنعمت علیہم} (راستہ ان لوگوں کا جن پر آپ نے انعام فرمایا ہے)۔ یہ نعمت اس وقت نعمت کہلائے گی جب انسان دین کے مطابق زندگی گزارے اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرے۔
دوسری مخلوقات پر انسان کا امتیاز
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بہت سی مخلوقات پیدا کی ہیں اوران سب میں سے انسان کا انتخاب اپنے کام کے لیے کیا، کسی کا جب کسی کام کے لیے انتخاب کیا جاتا ہے تو اس میں ایسا امتیاز ہوتا ہے جیسا کام کے لائق ہو، اس میں ذمہ داری پوری کرنے کی صلاحیت ہو اور وہ اچھے طریقے سے اس ذمہ داری کو انجام دے سکتا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کا انتخاب دوسری مخلوق کے مقابلہ میں کیا ہے اور اس کو مقررہ ذمہ داری پوری کرنے کی طاقت بھی دی ہے۔ اس نے جب دوسری مخلوق پر یہ ذمہ داری نہیں ڈالی؛ کیونکہ وہ اس ذمہ داری کو نہیں اٹھاسکتی تھی تو اس سے یہ صاف ظاہر ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اس کے لائق بنایا۔ یہ ان کے لیے بڑے انعام کی بات ہے۔ مگر انتخاب اس لیے کیاگیا ہے کہ اللہ کی مرضی اور خوشنودی حاصل کرنے والے اعمال کیے جائیں اور اللہ نے انسانوں میں یہ صلاحیت رکھی ہے۔
علم دین کی ضرورت
اس کے لیے ضروری ہوا کہ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے سب سے پہلے وہ دین کا علم حاصل کریں اور اس پر عمل کریں اور دوسروں تک بھی اس بات کو پہونچائیں ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: {کُنتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّہِ} (تم لوگ اچھی جماعت ہو کہ وہ جماعت لوگوں کے لیے ظاہر کی گئی ہے، تم لوگ نیک کاموں کو بتلاتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہو۔ سورہ آل عمران:۱۱۰)۔ لہٰذا یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ یہ کام جب ہی ہوسکتا ہے جب علم دین حاصل کیاجائے، کسی سے سیکھا جائے۔
شکر نعمت ازدیادِ نعمت کا باعث ہے
ہمارے مدارس کا بھی دراصل یہی مقصد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کی باتیں سکھائیں ۔ آپ پر اللہ تعالیٰ کا مزید یہ انعام ہے کہ آپ ایسے مدرسہ میں آئے ہیں ، آپ کو اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے۔ آدمی کو جب کسی خیر کی قدر ہوتی ہے تو اس چیز کے دینے والے کی نظر میں اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے، تو اللہ کی نعمت کی قدر کرنے میں اللہ کی نظر میں اس کی اہمیت بڑھ جائے گی اور اللہ تعالیٰ خوش ہوکر مزید نعمت عطا فرمائے گا؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {لئن شکرتم لأزیدنکم} (اگر تم شکر کروگے تو تم کو زیادہ (نعمت) دوں گا۔ سورہ ابراہیم:۷) اس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوگا اور جب وہ راضی ہوگا تو کوئی آپ کو نقصان نہیں پہونچا سکتا۔
معصیت اللہ کی رحمت سے دور کردیتی ہے
آج دنیا میں ہر ایک پریشان ہے، یہ اسی لیے ہے کہ اللہ کے دین کی قدر نہیں ہے، یہ اللہ سے ایک طرح کی وعدہ خلافی ہے، اس لیے کہ مسلمان نے اپنے کو جب مسلمان سمجھا اور مانا ہے تو اس ماننے کی بنیاد پر اس نے درحقیقت اللہ سے یہ وعدہ کیا ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان ہونے کے تیرے سب حکموں کو مانیں گے اور تو ہی ہمارا خالق ومالک ہے اور ہم تیرے تابع اور حکم ماننے والے ہیں ۔ اب اگر وہ اپنے خالق ومالک کے حکموں کو نہیں مانتا ہے تو یہ کیسا مسلمان ہوا؟ افسوس کی بات ہے کہ دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو مسلمان ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں ؛ مگر ان کا عمل مسلمان کی حیثیت سے جو ہونا چاہیے وہ نہیں ہے، ان کا عمل ان کے نفس کے مطابق ہوتا ہے، جو کہ درحقیقت اللہ کی ناراضگی کا باعث ہے؛ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ان کا یہ عمل اللہ سے وعدہ خلافی ہے۔ کیا اس سے اللہ تعالیٰ ناراض نہ ہوگا؟ اور اپنی رحمت ایسے بندوں سے ہٹا نہ لے گا؟۔
ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت ساری دنیا میں بے چینی اور پریشانی پھیلی ہوئی ہے، جہاں تک کافروں کا تعلق ہے تو وہ جب مسلمان نہیں ہوئے تو گویا انھوں نے اللہ سے وعدہ نہیں کیا، وہ اللہ کے باغی ہیں ، ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ہمیش کی سزا رکھی ہے، وہ اگر توبہ نہیں کرتے تواس کی انھیں سخت سزا ملے گی؛ لیکن وہ آخرت میں ملے گی۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر یہ ذمہ داری رکھی ہے کہ وہ حق کے راستے سے ہٹے ہوئے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کریں ، برائی سے روکیں اور بھلائی کے کام کی ترغیب دیں اوریہ سب تب ہی ہوسکتا ہے جب اس کام کے لیے جو علم ضروری ہے وہ علم حاصل کیا جائے، اگر اس کا علم حاصل نہیں کریں گے تو اس پر عمل آسان نہ ہوگا۔
علم صحیح قرآن وسنت سے حاصل ہوتا ہے
صحیح راستہ پر چلنے کے لیے جو باتیں ضروری ہیں وہ قرآن وحدیث سے حاصل ہوتی ہیں ، ہم ان باتوں سے واقف ہوں تب ہی ہم اللہ کو راضی کرنے کا کام کرسکتے ہیں ، قرآن وحدیث کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ عربی پر قدرت حاصل ہو،اسی لیے یہ مدارس قائم کیے گئے ہیں کہ ان میں پہلے ایسا نصاب پڑھایا جاتا ہے جس کے ذریعہ آپ کو عربی پر اچھی قدرت حاصل کرائی جائے، پھر جو علم ضروری ہے قرآن وحدیث کا وہ پڑھایا جائے۔
دنیا کی ترقی علم کی مرہون منت ہے
ساری دنیا نے علم ہی سے ترقی کی ہے، آج ہم زندگی کی ضرورتوں کے لیے نئی نئی ایجادات دیکھ رہے ہیں یہ سب ان کے لیے جو ضروری علم ہے اس کے حاصل کرنے کا ہی نتیجہ ہے۔ دیکھیے انسان جو کچھ بھی کرتا ہے پہلے وہ اس کو معلوم کرچکا ہوتا ہے اور سیکھ چکا ہوتا ہے، ہم مسلمان ہیں ، ہم کو سب سے پہلے اس علم سے واقف ہونا چاہیے جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے، وہی ہمارا مالک ہے، وہی ہماری سب ضرورتیں پوری کرتا ہے، کبھی قحط سالی ہوتی ہے تو سچ پوچھئے تو یہ اللہ کو ناراض کرنے والے اعمال کی کثرت کا نتیجہ ہوتی ہے؛ اس لیے ان اعمال سے بچنا چاہیے جن سے ہمارا پروردگار ناخوش ہوتا ہے۔
مدارس اسلامیہ کے قیام کا مقصد
ہمارے مدارس اسلامیہ کے قیام کا مقصد قرآن وحدیث کا فہم پیدا کرنا اور علوم قرآنی سے واقفیت حاصل کرنا ہے، تو آپ کو اس کی اہمیت سمجھنی چاہیے کہ جس علم کو آپ حاصل کررہے ہیں وہ کتنا اہم اور ضروری ہے، اس سے دنیا اور آخرت دونوں کا نفع ہے، اس سے آدمی کو دونوں کا فائدہ حاصل ہوتا ہے؛ لیکن یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ علم توجہ اور قربانی دینے، آرام وراحت کو چھوڑنے اور محنت کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ پہلے زمانہ میں ہر استاد اپنی جگہ ایک مدرسہ ہوتا تھا، اس کے پاس طلبہ آتے اور وہ ان کو پڑھادیتا تھا۔ استاد کو طلبہ کے قیام وطعام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا کہ ان کے رہنے اور کھانے کا نظم کیا ہوگا؟ یہ ساری ذمہ داری طلبہ کی تھی۔ ان کومحنت سے ان چیزوں کا انتظام کرنا پڑتا تھا۔
حضرت رائے پوریؒ کا حصول علم کے لیے مجاہدہ
اس کی مثالیں جہاں ماضی بعید میں بھری ہوئی ہیں وہیں ماضی قریب میں بھی ملتی ہیں ، ہمارے حضرت رائے پوریؒ بریلی کے ایک مدرسہ میں تعلیم حاصل کرتے تھے اوراوڑھنے کے لیے کچھ نہیں تھا تو جاڑے کے موسم میں مسجد کی چٹائی کو اپنے اوپر لپیٹ لیتے تھے، جب ان کے والد نے یہ حالت دیکھی تو ان کو بہت دکھ ہوا، معلوم کرنے پر حضرت رائے پوریؒ نے فرمایا کہ ابا جان! علم حاصل کرنے کے لیے مشقت اٹھانی ہی پڑتی ہے۔
ہم نے بڑے بڑے علماء وفضلاء کے بارے میں سناکہ ان کو علم سے ایسا لگاؤ تھا کہ رات رات بھر پڑھتے، چراغ جلانے کے لیے پیسے نہیں ہوتے تو کسی دکان والے کے چراغ کی روشنی میں مطالعہ کرتے اور صاحب دکان سے کہتے کہ اس طرح ہم تمہاری دکان کی حفاظت بھی کریں گے اور اپنا مطالعہ بھی کریں گے۔ تو میرے عزیزو! اس طرح لوگوں نے علم حاصل کیا اور بڑے عالم بنے کہ ساری دنیا نے ان کے علم اور ان کی کتابوں سے فائدہ اٹھایا، اس لیے علم کے حصول کے لیے محنت کرنی پڑے گی۔
مدارس کی سہولیات نے طلبہ میں سستی پیدا کردی
مدرسوں نے آج تعلیم میں بڑی آسانیاں فراہم کردی ہیں ، اس کی وجہ سے طلبہ میں سستی پیداہوگئی، جب مدرسوں کی یہ آسانیاں نہیں تھیں تو طلبہ مشقت اٹھاتے اور قدر کے ساتھ علم حاصل کرتے تھے۔
کام کی باتیں
عزیزو! آخر میں میں چند کام کی باتیں بطور خلاصہ کے تم سے کہتا ہوں ، اگر تم ان پر عمل کروگے تو ان سے فائدہ اٹھاسکتے ہو۔
ایک یہ کہ اس علم کے لیے تمہیں بڑی محنت کرنی پڑے گی، بعض حضرات اپنے گھر سے علم حاصل کرنے کے لیے آئے تو فارغ ہوکر ہی اپنے گھر واپس گئے۔ ایسے طلبہ ہمارے ندوہ میں بھی رہے ہیں ۔
دوسرے یہ کہ علم کی قدر کرو، اس سے اللہ تعالیٰ خوش ہوگا، جو لوگ اس علم دین حاصل نہیں کرتے وہ اکثر بگاڑ اور خرابی میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔
تیسرے یہ کہ کتاب کو خوب سمجھ کر پڑھو اور خوب محنت کرو، جب تم محنت کروگے تو فراغت کے بعد اس کا اچھا نتیجہ دیکھوگے اور لوگ تم کو عزت کی نظر سے دیکھیں گے۔
چوتھے یہ کہ اس علم کی اہمیت کو سمجھو۔
اور آخری بات یہ کہ اپنے اساتذہ سے استفادہ کرو اور ان کا احترام کرو۔ اللہ تعالیٰ تم کو کامیابی عنایت فرمائے، آمین!
—————————————-
دارالعلوم ، شمارہ : 8، جلد:103، ذی الحجہ 1440ھ مطابق اگست 2019ء
٭ ٭ ٭