از:مولانا محمد انوار خان قاسمی بستوی
قرآن تمام سابقہ کتابوں کا نچوڑ، تکملہ اور تتمہ ہے اور تا روزِ قیامت پیدا ہونے والے تمام انسانوں کے لیے آخری مصدرِ رشد وہدایت ہے؛ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے انتہائی جامع اور مکمل ترین شکل میں آخری وحی کے طور پر بھیجا اور یہی کتاب مسلمانوں کا سب سے بڑا فقہی اور تشریعی مصدر ہے ۔ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحابؓ کے اقوال وافعال، ارشادات وہدایات گویا کلام اللہ ہی کی شرح وتوضیح ہیں ۔
دورِ نبوی میں خود رسول اللہ ﷺ تمام فقہی، سیاسی، علمی، اور اعتقادی مسائل کا حل اپنے اصحابؓ کے سامنے بقدرِ ضرورت پیش فرمایا کرتے تھے ۔ صحابۂ کرامؓ کو جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو یہ حضرات بارگاہِ رسالت کی جانب رجوع فرماتے اور اپنے سوالات کے جوابات حاصل کرلیتے؛ لیکن آپ ﷺ کی وفات کے بعد اسلام دوردراز ممالک میں پھیل گیا اور امت کے سامنے نئے نئے مسائل پیدا ہونے لگے ۔ عالمِ اسلام میں بسنے والے مسلمانوں نے مسائل اور استفتاء کے لیے فطری طور پر مستند علماء وفقہاء کی جانب رجوع کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ صحابہؓ میں ایک تعداد ایسی تھی جو مسائل وفتاوی میں شہرت رکھتی تھی جنھیں فقہاءِ صحابہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ حافظ ابن حزم ظاہریؒ نے النبذ فی أصول الفقہ میں اور امام ابن القیمؒ نے ’’إعلام الموقعین‘‘میں ان مجتہدین صحابہؓ کی تفصیل پیش کی ہے جن کی خدمت میں حاضر ہوکر صحابۂ کرامؓ اور تابعینِ عظامؒ اپنے دینی مسائل کا حل طلب کیا کرتے تھے ۔
یقینا صحابہؓ میں ایک جماعت اجتہاد وفتاوی کی ذمہ داری انجام دیتی تھی؛ لیکن عام طور پر ان کا یہ کام انفرادی ہوا کرتا تھا۔ ان کا کوئی مکتبِ فکر اور منظم مدرسہ نہیں تھا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ منظم طور پر فقہ واجتہاد کا سلسلہ کہاں سے شروع ہوتا ہے؛ اس سوال کا جواب دینے کے لیے مورخین لکھتے ہیں کہ سب سے پہلے صحابی جن کو منظم اور اجتماعی انداز سے فقہ وفتاوی کے موضوع پر کام کرنے کا شرف حاصل ہے وہ ہیں ، منبع فقہ، خادمِ رسول، صحابی جلیل سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ۔ امام ابن جریرؒ فرماتے ہیں :
’’لم یکن أحد لہ أصحاب معروفون حرروا فتیاہ ومذاہبہ فی الفقہ غیر ابن مسعود‘‘ (ابن مسعودؓکے علاوہ (صحابہ میں ) کوئی ایسا نہیں گذرا ہے جس کے معروف تلامذہ ہوئے ہوں اور جس کے فقہی مسائل کو منضبط اور مرتب کیا گیا ہو۔)(إعلام الموقعین ج۲ ص۳۶-۳۷)
فقہِ حنفی، فقہ عمری وفقہِ مسعودی کا ارتقاء ہے
مورخ ابن جریرؒ کی مذکورہ عبارت کی بنیاد پر ہم بآسانی اس بات کا دعوی کرسکتے ہیں کہ سب سے پہلا اور سب سے مستند فقہی مدرسہ منظم طور پر عالمِ اسلام میں ظہور پذیر ہونے والا عبد اللہ بن مسعودؓ کا قائم کردہ مدرسہ ہے جو سیدنا عمر بن الخطابؓ کی زیر نگرانی سرزمین کوفہ میں وجود میں آیا۔ دراصل فقہِ حنفی اسی متوارث عمری ومسعودی فقہ کا ارتقاء وتوسیع ہے ۔ امام ابوحنیفہؒ کے دور میں یہ فقہ آپ کے عبقری تلامذۃ کی بدولت اپنے عروج کو پہونچ گیا اور چار دانگِ عالم میں پھیل گیا اور اسلامی قانون کی شکل اختیار کرلیا۔ اس کے بعد کوفہ میں فقہ واجتہاد کا جو سلسلہ جاری ہوا، اس کی نظیر تاریخ اسلام میں نہیں ملتی۔ سرزمین کوفہ کے فقہاء نے اپنے حیرت انگیز علمی اور فقہی اجتہادات، استنباطات اور استخراجات، اور قانونی تاصیل وتفریع، اور تحقیق وتدقیق کے ذریعہ فقہِ اسلامی کی جو خدمت کی ہے وہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا قانونی ذخیرہ ہے ۔
فقہِ حنفی کا شیوع
خلافتِ عباسیہ میں امام ابویوسفؓ کو جب قاضی القضاۃ کے عہدہ پر سرفراز کیا گیا، اسی وقت سے فقہِ حنفی آسمان کی بلندیوں کو پہونچ گیا۔ گویا مذہبِِ حنفی اسلام کا سرکاری مذہب بن گیا اور پورے عالم اسلام میں قضاء کے عہدے سے اسی کو سرفراز کیا جاتا تھا جو مذہبِ حنفی کا ماہر اور متخصص ہوتا۔
خلافتِ عباسیہ کے بعد خلافتِ عثمانیہ میں طویل صدیوں تک مذہبِ حنفی ہی سرکاری مذہب رہا ہے۔ اس کے علاوہ مغلیہ سلاطین سارے کے سارے مذہبِ حنفی کے مقلد تھے اور سلطنت کے تمام احکام وفرامین مذہبِ حنفی ہی کی روشنی میں صادر فرمائے جاتے تھے ۔ فتاوی ہندیہ سے آج کون ناواقف ہے ؟ اس حیرت انگیز فقہی ذخیرہ کو بعد کی مغلیہ سلطنت کا قانونی دستاویز اور آئین مملکت مانا جاتا تھا۔
خلافت عباسیہ، خلافت عثمانیہ، اور سلطنت مغلیہ اسلامی تاریخ کے تین ربع سے زیادہ عرصہ کو محیط ہیں اور اس بات سے ہر کوئی واقف ہے کہ یہ تینوں ہی حنفی مذہب پر کاربند رہے ہیں ۔ اس مذہب کے شیوع کا سب سے اہم سبب ظاہر ہے اس کے بانیان کا اخلاص، ان کی للہیت، ان کا فقہی تعمق اور قانونِ شریعت کا غیر معمولی احاطہ ہے؛ لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ اس مذہب کے اصولِ استنباط میں وہ طاقت اور لچک ہے جو کسی بھی دور میں فقہِ اسلامی کو درپیش چلنج کا بھرپور جواب دینے کے لیے کافی ہے اور اس تغیر پذیر دنیا میں کسی بھی وقت ان اصولوں کی روشنی میں نت نئے مسائل وحوادث ووقائع ونوازل کا کافی وشافی حل تلاش کیا جا سکتا ہے ۔ امام ابن حزم ظاہریؒ کا یہ دعوی بالکل بے بنیاد ہے کہ اگر مذہب حنفی کے پیچھے حکومت کارفرما نہ ہوتی تو یہ مذہب نہ پھیلتا؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومتیں اس مذہب کو اختیار کرنے پر ایک طرح سے مجبور تھیں ۔ کسی بھی حکومت کو چلانے کے لیے ایسا قانونی ڈھانچہ چاہیے جو تمام انسانی شعبوں اور دینی ودنیاوی گوشوں کا کامل احاطہ کرتا ہو اور ظاہر ہے یہ خوبی مذہبِ حنفی سے زیادہ کسی اور مذہب میں نہیں پائی جاتی۔
مذہبِ حنفی کی حیرت انگیز وسعت وجامعیت
جو فقیہ بھی امورِ قضائیہ اور مسائل اجتہادیہ کا بغور مطالعہ کرے گا اور پھر مختلف مذاہب ومسالک کا اصولی وفروعی جائزہ لے گا وہ اس حقیقت کو قبول کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ مذہبِ حنفی کے اندر واقعی ایسی حیرت انگیز جامعیت وہمہ گیری ہے جس نے اس مذہب کی مقبولیت کو اوجِ ثریا پر پہونچا دیا اور آج تک تاریخ انسانیت میں اتنا عظیم اور منظم قانونی مذہب اور مسلک کوئی پیش نہ کرسکا۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر مذاہب کے مقلدین بھی نکاح وطلاق، بیوع ومعاملات کے بے شمار مسائل میں فقہِ حنفی کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔
مذہبِ حنفی کی اسی حیرت انگیز وسعت وجامعیت کا ذکرکرتے ہوئے فقیہ الادبائ، ادیب فقہائ، علامہ علی طنطاویؒ ’’رجال من التاریخ‘‘ (ص۲۵۳-۲۵۴) میں فرماتے ہیں :
’’والمذہب الحنفی الیوم أوسع المذاہب انتشارا، وأوسعہا فروعا وأقوالا، وہو أنفع المذاہب فی استنباط القوانین الجدیدۃ، والأجتہادات القضائیۃ، یلیہ فی کثر الفروع المذہب المالکی، وقد عرفت ذلک فی السنین التی اشتغلت فیہا بوضع مشروع قانون الأحوال الشخصیۃ، وسبب ذلک أن المذہب الحنفی صار مذہب دولۃ مدۃ العباسیین والعثمانیین، وہی ثلاثۃ أرباع التاریخ الأسلامی، والمالکی مذہب المغرب طول ہذہ المدۃ، فکثرت فیہما الفروع والمناقشات، أما المذہب الشافعی فلم یکن مذہبا رسمیا إلا حقبۃ قصیرۃ أیام الأیوبیین، بینما اقتصر المذہب الحنبلی علی نجد والحجاز الیوم‘‘
ترجمہ: مذہبِ حنفی آج پوری دنیا میں تمام مذاہب میں سب سے زیادہ متداول اور شائع مذہب ہے اور اسی طرح سے فقہی جزئیات واقوال کے اعتبار سے یہ مذہب سب سے زیادہ مالامال ہے ۔ نت نئے قوانین وضوابط کے استنباط، اور قضاء سے متعلق اجتہادات میں اس سے زیادہ نافع مذہب کوئی بھی نہیں ہے ۔ مذہبِ حنفی کے بعد کثرتِ فروع وجزئیات میں دوسرا مذہب مالکی ہے ۔ مجھے اس کا اندازہ ان سالوں میں ہوا جب میں پرسنل لاء کی منصوبہ سازی پر کام کر رہا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عباسی اور عثمانی خلافتوں کے دوران مذہبِِ حنفی سرکاری مذہب تھا اور یہ دونوں ہی خلافتیں تاریخِ اسلام کے تین ربع کو محیط ہیں ؛ جب کہ اس پوری مدت میں مالکی مذہب اندلس کا سرکاری مذہب رہا ہے ؛ اسی لیے ان دونوں ہی مذاہب میں فروعی مسائل اور فقہی مناقشات کثرت سے پائے جاتے ہیں ۔ اس کے برعکس مذہبِِ شافعی ایوبی سلطنت کے دوران ہی مختصر مدت کے لیے سرکاری مذہب کی حیثیت رکھتا تھا؛ جب کہ حنبلی مذہب اس وقت نجد اور حجازمیں محدود ہو کر رہ گیا ہے ۔
انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کی شہادت
انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا مستشرقین اور مغربی مصنّفین کا عظیم ترین علمی اور ادبی کارنامہ ہے اور اسے انگریزی زبان کا سب سے اہم موسوعہ مانا جاتا ہے۔ اس انسائیکلوپیڈیا کے مقالہ نگار نے فقہِ حنفی کی ہم آہنگی، لچک اور وسعت کا اعتراف مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا ہے :
The school of Ab anfah acquired such prestige that its doctrines were applied by a majority of Muslim dynasties.
His legal acumen and juristic strictness were such that Ab anfah reached the highest level of legal thought achieved up to his time. Compared with his contemporaries, the Kufan Ibn Ab Layl (d.765) the Syrian Awz (d.774) and the Medinese Mlik (d.795) his doctrines are more carefully formulated and consistent and his technical legal thought more highly developed and refined.
(انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکاج۱ص۱۹)
(یعنی ابوحنیفہؒ کے مذہب کو اتنا اثر ورسوخ حاصل تھا کہ اکثر اسلامی خلافتیں اور بادشاہتیں اسی مذہب کی پیروکار تھیں ۔ ابوحنیفہؒ کی قانونی اور فقہی بصیرت وذکاوت اس زمانہ تک حاصل کی گئی قانونی فکر کے سب سے اعلی معیار تک پہونچی ہوئی تھی۔ اپنے معاصرین ابن ابی لیلیؒ کوفی متوفی ۷۶۵ئ، اوزاعیؒ شامی متوفی ۷۷۴ئ، اور مالک مدنیؒ متوفی ۷۹۵ء کے مقابلہ میں آپ کے اصول کی تشکیل زیادہ محتاط انداز سے کی گئی ہے اور اس میں استقلال اور ہم آہنگی زیادہ ہے اور آپ کے علمی اور قانونی افکار کے مقابلہ میں زیادہ معیاری انداز سے مرتب اور منقح کیے گئے ہیں ۔)
مذہبِ حنفی اور علماءِ دیوبند
فقہ حنفی کی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ اس مذہب کو فروغ دینے میں علماءِ عراق کا ہاتھ رہا ہے ۔ ظاہر ہے اس مذہب کی تاسیس، ترتیب اورتدوین کا حیرت انگیز کارنامہ اسی سرزمین کے ایک عظیم اور تاریخی شہر کوفہ کے حصے میں آیا۔ اس کے بعد خلافتِ عباسیہ میں صدیوں تک اس مذہب کے پیروکاروں اور فقہاء ومحدثین نے اس مذہب کی تائید اور تقویت کے لیے متعدد تصانیف لکھیں ۔ عباسی دور کے بعد خلافتِ عثمانیہ کا زریں دور شروع ہوتا ہے جس میں فقہِ حنفی پر ہزاروں اہم کتابیں تصنیف کی گئیں اور اس مذہب کو اصولی اور فروعی طور پر نہایت مدلل اور منقح کیا گیا۔
آخری دور میں سر زمینِ ہند کو اللہ نے گوناگوں نعمتوں سے نوازا اور اس ملک میں ایسے عباقرہ اور حیرت انگیز رجالِ کار پیدا کیے جنھوں نے زہد وتصوف میں شبلی وجنید بغدای، اور فکر وفلسفہ میں رازی وغزالی، حدیث ورجال میں ذہبی وابن حجر، فقہ واصول میں مرغینانی وسرخسی، تفسیر میں زمخشری اور جرجانی، اور اسراروحقائق میں حارث محاسبی اور ابن عربی کی یادیں تازہ کردیں اور ایشیاءِ کوچک ان عہد ساز شخصیتوں کے علوم وفنون، مجاہدانہ کارناموں اور حق کی صداوں سے گونجنے لگا۔ اسی دور میں علماءِ ربانیین کی ایک جماعت نے مجددِ اسلام امام المتکلمین حضرت نانوتویؒ متوفی ۱۲۹۷ھ کی زیرقیادت ایشیاء کی عظیم ترین یونیورسٹی دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ڈالی گئی۔ اس ادارے سے منسلک اور یہاں کے فارغ التحصیل علماء وفقہائ، محدثین ومفسرین، فلاسفہ ومتکلمین، عباد وزہاد، خطباء وواعظین، سیاسی ماہرین ومجاہدین نے برِ صغیر میں ایک علمی اور فکری انقلاب برپا کردیا۔ اسی کاروانِ علم ودانش اور مرکزِ فکر وآگہی سے تعلق رکھنے والی شخصیتوں نے جہاں دین کے تمام شعبوں میں تجدیدی کارنامہ انجام دیا، وہیں ان حضرات نے مذہبِ حنفی کی عظیم خدمت کی اور اس مذہب پر ہونے والے اعتراضات کے جوابات دیے اور فقہِ حنفی کی تائید وتقویت میں ان حضرات نے عربی اور اردو زبان میں سیکڑوں ایسی تصانیف کیں جو اس وقت علمی اور فکری تاریخ کا ایک لازوال حصہ بن چکی ہیں اور بر صغیر میں اسلامی علوم وفنون کے بقاء کی ضامن بن چکی ہیں ۔ امام المتکلمین مولانا محمد قاسم نانوتویؒ ،سید الطائفہ، فقیہ ومجتہد مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، محدثِ کبیر مولانا فخر الحسن گنگوہیؒ، امامِ حریت، بطلِ جلیل، شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ، محدثِ ناقد، علامہ ظہیر احسن نیمویؒ، محدثِ عدیم النظیر، امام العصر محمد انور شاہ کشمیری، حکیم الامت المحمدیہ، مجدد الملۃ الاسلامیہ، مولانا اشرف علی تھانویؒ، محقِّق العصر، امام جلیل، محدث کبیر، شارح ابو داود حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری، متکلمِ اسلام، شارح صحیح مسلم، مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، شیخ الاسلام، مجاہدِ آزادی مولانا حسین احمد مدنیؒ، مفتیِ اعظم، شیخ الحدیث، محققِ ماہر، شیخ کفایت اللہ دہلویؒ، محدثِ کبیر، مولانا عبد العزیز پنجابیؒ، محدثِ جلیل، شیخ مہدی حسن شاہجہاں پوریؒ، محدثِ عظیم، متکلمِ دوراں ، مفسر ِبے مثال، شارحِ مشکوۃ، مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ، مفسرِ دوراں ، علامہ مفتی محمد شفیع عثمانیؒ، شیخ الحدیث،مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ، داعیِ اسلام، امامِ ربانی، عالمِ ملہم شیخ محمد یوسف کاندھلویؒ، محدثِ وقت، علامہ بدرِ عالم میرٹھی، محدثِ ناقد، فقیہِ جلیل، شیخ ظفر احمد عثمانیؒ، محدث العصر علامہ محمد یوسف بنوریؒ، محدثِ جلیل، شیخ حبیب الرحمن اعظمیؒ، محدثِ ناقد، شیخِ ماہر، علامہ محمد عبد الرشید نعمانیؒ وغیرہ حضرات نے مذہبِ حنفی کی خدمت اور تائید میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں جن کی نظیر تاریخ میں مشکل سے ملتی ہے ۔ ان ائمہ کی تصانیف اور کتابوں میں تقریباً تمام مباحث میں کچھ ایسے علمی نکات ولطائف ملتے ہیں جن کا ذکر قدیم مصنّفین وشارحین تک کی کتابوں میں نہیں ملتا؛ چنانچہ فقہِ حنفی کی تائید میں ان بلند پایہ دیوبندی علماء کی جو عربی اور اردو شروحات وحواشی اور تعلیقات وامالی ہیں ، ان میں جا بجا ایسی تاویلات وتفسیرات، تشریحات وتوضیحات، جمع وتطبیق، اور توفیق وترجیح کے کچھ ایسے علمی نمونے بیان کیے گئے ہیں جو متقدمین کی کتابوں تک میں دستیاب نہیں ہیں اور یہ ان اکابر وعظماء کی عبقریت وتبحرِ علمی کابیّن ثبوت ہیں ۔
دیوبند حنفیت کا سب سے عظیم مرکز
اس میں کوئی شک نہیں کہ تقریباً پچھلی دو صدی سے اللہ رب العزت نے اہلِ ہند کو اپنی خاص عنایات وتوجہات سے بہرہ مند کیا ہے اور اس پورے عرصے میں جہاں دیوبند نے پوری دنیا میں اپنے لازوال علمی اور اصلاحی نقوش چھوڑے ہیں ، وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اللہ نے اس سرزمین کو مذہبِِ حنفی کا سب سے بڑا مرکز بنادیا ہے ۔ دیوبند کے جہاں بہت سارے امتیازات ہیں ، وہیں اس مکتب فکر کا ایک اہم امتیاز دفاع عن المذہب الحنفی ہے ۔ حنفیت دیوبندیت کا اہم ترین عنصر ہے ۔ مفکرِ اسلام مولانا ابو الحسن علی ندوی نور اللہ مرقدہ دیوبندیت کی تعریف کرتے ہوئے اپنی کتاب المسلمون فی الہند‘‘ ص ۱۱۴ -۱۱۶ میں بجا طور پر فرماتے ہیں :
’’وشعارُ دار العلوم دیوبند: التمسّکُ بالدِّین، والتصلُّب فی المذہب الحنفی، والمحافظۃ علی القدیم، والدّفاعُ عن السُنّۃ‘‘
(یعنی دار العلوم دیوبند کا شعار دین کو مضبوطی سے تھامنا، مذہبِ حنفی پر سختی سے کاربند رہنا، اور قدیم روایات کو زندہ رکھنا، اور دفاع عن السنہ ہے ۔)
مفکر اسلام مولانا ابوالحسن ندویؒ نے اپنے مورخانہ اور مفکرانہ اسلوب میں چند لفظوں میں دیوبند کی جو نہایت جامع تعریف پیش کی ہے، وہ ایک ناقابلِ انکارحقیقت ہے اور تصلب فی المذہب الحنفی واقعی اس مکتب فکر کا نہایت اہم عنصر ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے بانیان نے روزِ اول ہی سے اس مذہب کی خدمت کی اور سیدنا عمر بن الخطابؓ، سیدنا علی ابن ابی طالبؓ اور خاص کر سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ کی اس متوارث فقہ کی ہر طرح سے حفاظت اور آبیاری کی ہے ۔
دیوبند کے ذریعہ مذہبِ حنفی کی اشاعت اور حضرت نانوتویؒ کا خواب
روزِ اول ہی سے کچھ ایسے منامات اور بشارتیں ہمارے علماء نے ذکر کیے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنی خاص حکمت کی بنا پر حضرت نانوتویؒ کے ذریعہ قائم کردہ اس عظیم یونیورسٹی کو حنفیت کا سب سے عظیم قلعہ بنایا۔ اس سلسلے میں ایک خواب ہمارے علماء بکثرت اپنی کتابوں میں بیان فرماتے ہیں ۔ ارواحِ ثلاثہ ص۲۲۱ کی روایت ہے کہ: امیر خاں صاحب نے فرمایا کہ مولانا نانوتویؒ نے خواب میں دیکھا تھا کہ میں خانہ کعبہ کی چھت پر کسی اونچی شیء پر بیٹھا ہوں اور کوفہ کی طرف میرا منہ ہے اور ادھر سے ایک نہر آتی ہے جو میرے پاوں سے ٹکرا کر جاتی ہے ۔ اس خواب کو انھوں نے مولوی محمد یعقوب صاحبؒ برادر شاہ محمد اسحاق صاحبؒ سے اس عنوان سے بیان فرمایا کہ حضرت ایک شخص نے اس قسم کا خواب دیکھا ہے تو انھوں نے یہ تعبیر دی کہ اس شخص سے مذہبِ حنفی کو بہت تقویت ہوگی اور وہ پکا حنفی ہوگا اور اس کی خوب شہرت ہوگی؛ لیکن شہرت کے بعد اس کا جلدی انتقال ہوجائے گا اور میں نے یہ خواب اور اس کی تعبیر خود مولانا نانوتویؒ سے سنی ہے ۔ مولانا کا قاعدہ تھا کہ جب عام لوگوں میں اس خواب کو بیان فرماتے ، تو فرماتے ایک شخص نے ایسا خواب دیکھا تھا؛ لیکن خاص لوگوں سے فرمادیتے تھے کہ یہ خواب میرا ہے ۔ جب مولانا نے مجھ سے یہ خواب بیان فرمایا، اس وقت میں اکیلا تھا اور پاؤں دبارہا تھا اور مولاناؒ نے بے تکلف مجھ سے اپنا نام لیا تھا۔
اگرچہ خواب شریعت میں حجت نہیں ہے؛ لیکن استیناس کے لیے خواب کا ذکر کرنا متقدمین ومتاخرین کے یہاں مستحسن مانا گیا ہے اور اگر کوئی خواب کسی عظیم عالم یا امام کا ہو اور اس خواب کی تعبیر بھی کسی عظیم ہستی کی جانب سے بیان کی جائے ، تو پھر خواب کافی با معنی اور اہم ہوجاتا ہے ۔ ٍصحیحین کی مشہور حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (الرُّؤْیَا الصَّالِحَۃ جُزْئٌ مِنْ سِتَّۃٍ وَأَرْبَعِینَ جُزْئًا مِنْ النُّبُوَّۃِ) یعنی نیک خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے ۔ امام ابوحنیفہؒ کا وہ خواب تواریخ وطبقات کی کتابوں میں موجود ہے جس کی تعبیر ابن سیرینؒ نے بیان فرمائی تھی۔ حافظ ذہبی ؒ ’’مناقب أبی حنیفۃ وصاحبیہ‘‘ ص۳۶میں فرماتے ہیں :
’’عَنْ أَبِی یُوسُفَ، قَالَ: رَأَی أَبُو حَنِیفَۃَ کَأَنَّہُ یَنْبُشُ قَبْرَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ یَأْخُذُ عِظَامَہُ یَجْمَعُہَا، وَیُؤَلِّفُہَا، فَہَالَہُ ذَلِکَ، فَأَوْصَی صَدِیقًا لَہُ إِذَا قَدِمَ الْبَصْرَۃَ أَنْ یَسْأَلَ ابْنَ سِیرَینَ، فَسَأَلَہُ، فَقَالَ: ہَذَا رَجُلٌ یَجْمَعُ سُنَّۃَ النَّبِیِّ وَیُحْیِیہَا‘‘
(یعنی ابو یوسفؒ بیان فرماتے ہیں کہ ابوحنیفہؒ نے خواب دیکھا کہ وہ نبی ﷺ کی قبر کھود رہے ہیں اور جسم اطہر کی ہڈیاں جمع کر رہے ہیں اور انھیں جوڑ رہے ہیں ۔ اس خواب سے آپ بڑے خائف ہوئے اور اپنے ایک دوست سے یہ کہا کہ جب وہ بصرہ جائیں تو ابن سیرینؒ سے اس خواب کی تعبیر دریافت فرمالیں ؛ چنانچہ انھوں نے جب ابن سیرینؒ سے سوال کیا، تو ابن سیرینؒ نے جواب دیا: یہ شخص رسول اللہ ﷺ کی سنت کو جمع کرے گا اور اس کا احیاء کرے گا۔)
امام ذہبیؒ اسی کتاب میں علی ابن عاصمؒ کی روایت سے نقل کرتے ہیں کہ ابو حنیفہؒ نے فرمایا:
’’رَأَیْتُ کَأَنِّی نَبَشْتُ قَبْرَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَجَزِعْتُ وَخِفْتُ أَنْ یَکُونَ رِدَّۃً عَنِ الإِسْلامِ، فَجَہَّزْتُ رَجُلًا إِلَی الْبَصْرَۃِ، فَقَصَّ عَلَی ابْنِ سِیرِینَ الرُّؤْیَا، فَقَالَ: إِنْ صَدَقَتْ رُؤْیَا ہَذَا الرَّجُلِ فَإِنَّہُ یَرِثُ عِلْمَ نَبِیٍّ‘‘
(میں نے خواب دیکھا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی قبر کھود رہا ہوں ، جس کی وجہ سے میں سہم گیا اور مجھے اس بات کا اندیشہ ہونے لگا کہ یہ کہیں میرے مرتد ہونے کی جانب اشارہ تو نہیں ہے؛ چنانچہ میں نے ایک شخص کو بصرہ بھیجا اور اس نے ابن سیرین ؒ کے سامنے سارا واقعہ سنایا۔ ابن سیرینؒ نے تعبیر دیتے ہوئے فرمایا: اگر اس شخص کا خواب سچا ہے ، تو یہ علومِ نبوت کا وارث ہوگا۔)
خلاصہ یہ ہے کہ پچھلی دو صدی سے دیوبندی مکتب فکر کو عالمی طور پر مذہبِ حنفی کے سب سے بڑے ترجمان کی حیثیت حاصل ہے ۔ آج پوری دنیا میں علماءِ دیوبند کی علمی، فکری اور فقہی خدمات سے اہلِ ایمان سیراب ہورے ہیں اور اپنی دینی ضرورتیں پوری کر رہے ہیں ۔
————————————-
دارالعلوم ، شمارہ : 8، جلد:103، ذی الحجہ 1440ھ مطابق اگست 2019ء
٭ ٭ ٭