محمد سلمان بجنوری
پندرہ اگست کی آمد آمد ہے، یعنی تمام اہل وطن، ظالم انگریزوں سے ملک کی آزادی کا جشن منانے کے لیے تیار ہیں ، ہندوستانیوں کے دل تحریک آزادی میں اپنے بزرگوں کی قربانیوں کی یاد سے معمور ہیں ۔ خاص طورسے مسلمانوں کے دلوں میں ۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک علماء اور دیگر اہل اسلام کی قربانیوں کی یادیں تازہ ہورہی ہیں ، کالاپانی اور مالٹا کی جیل سے لے کر، کراچی کی عدالت اور پشاور کے قصہ خوانی بازار تک کے مناظر نگاہوں میں پھر رہے ہیں اور نوے برس کی اس مدت میں ملک کی زمین کے ہر خطے پر بہنے والے خون کے قطرے اور ہر قابل ذکر جیل کی کال کوٹھری کی گھٹن میں لی گئیں سانسیں اور بلند ہونے والی آہیں یاد آکر قلب ودماغ کو عجیب کیفیت سے دوچار کررہی ہیں اور اس سارے پس منظر کو سامنے رکھ کر ایک سادہ دل ہندوستانی مسلمان بجا طور پر یہ امید کرتا ہے یا اپنے دل کو تسلی دینے کی کوشش کرتا ہے کہ شاید اب کی بار آنے والا یوم آزادی، اس کے لیے کوئی خوشی کا پیغام لے کر آئے؛ لیکن اچانک اس کو پتہ چلتا ہے کہ یوم آزادی سے صرف دو ہفتے پہلے مرکزی حکومت نے طلاق ثلاثہ سے متعلق بل پاس کرکے مسلم پرسنل لا میں مداخلت کا باضابطہ آغاز کردیا ہے اور یہی اس پورے معاملے میں تشویش کا پہلو ہے۔
جہاں تک تین طلاق ایک ساتھ دینے کی بات ہے تو وہ خود شریعت اسلامیہ کی نظر میں ایک مذموم اور ناجائز عمل ہے، جس سے ہر مسلمان کو پرہیز کرنا چاہیے؛ لیکن کسی عمل کا مذموم ہونا ایک الگ چیز ہے اور اس کا مؤثر ہونا الگ چیز ہے۔ ایسی بے شمار مثالیں ہیں جہاں ایک عمل کا ارتکاب غلط ہوتا ہے؛ لیکن وہ اپنا اثر چھوڑ جاتا ہے اور اس کا حکم نافذ ہوجاتا ہے۔ اس لیے مسلمانوں کی اکثریت (جو ائمہ اربعہ کا اتباع کرتی ہے) تین طلاق کو مؤثر مانتی ہے، اگرچہ ایک طبقہ جو تعداد میں بہت کم ہے، تین طلاق کو ایک مانتا ہے۔ اسی لیے اس طبقہ کے بعض افراد نے اس بل پر خوشی کا اظہار کیا ہے؛ لیکن ان کو سوچنا چاہیے کہ اس بل میں تو تین طلاق کو قطعاً غیرمؤثر مانا گیا ہے اس طرح یہ مسلمانوں کے کسی بھی طبقے کی رائے کے مطابق نہیں ہے؛ لیکن اس سے بڑھ کر تشویش کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی معاملہ مسلمانوں کے متفقہ موقف سے بھی تعلق رکھتا ہو تب بھی اس کے نفاذ کے لیے حکومت کی قانون سازی بہرحال معاملات کی آزادی کے آئینی حق کو متاثر کرتی ہے۔
ان تمام حقائق کے باوجود اب یہ بل قانون بننے کے آخری مرحلے تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا ہے، تو ہمیں اس معاملے میں بہت گہری بصیرت سے کام لے کر اگلا قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔
جہاں تک ہمارے قائدین اور ملی تنظیموں کا معاملہ ہے تو ان کو باہمی مشاورت سے یہ طے کرنا ہے کہ اس قانون کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کیاجاسکتا ہے یا نہیں اوراس کام میں کس سلیقہ سے پیروی کی ضرورت ہے؟
لیکن عام مسلمانوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اب گویا یہ قانون بن چکا ہے کہ اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاق دے گا تو قانونی طور پر یہ طلاق واقع بھی نہیں ہوگی اور شوہر کو جیل کی ہوا بھی کھانی ہوگی؛ لہٰذا بہت سوچ سمجھ کر زندگی گزارنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں یہ چند باتیں ملحوظ رہنی چاہئیں :
(۱) طلاق اسلام میں ایک ناپسندیدہ عمل ہے جو بدرجۂ مجبوری اختیار کیا جاسکتا ہے، لہٰذا طلاقکا لفظ بولنے میں جلدی نہ کریں ۔
(۲) طلاق کوئی گالی یا اظہار ناراضی کا لفظ نہیں ہے جسے غصہ کی حالت میں زبان سے نکال دیا جائے؛ بلکہ یہ نکاح جیسے اہم رشتے کو ختم کرنے کا فیصلہ ہے اور کسی اہم کام کا فیصلہ جلد بازی یا غصے کی حالت میں نہیں کیاجاتا۔ جس طرح نکاح کا فیصلہ تفصیلی مشورے اور طویل غور وفکر کے بعد ہوتا ہے اسی طرح اس کو ختم کرنے کے فیصلے میں مشورہ اور غور وفکر کی ضرورت ہوگی۔ اس لیے نکاح کے وقت ہی یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ طلاق کا لفظ کبھی اپنے ارادے سے اچانک استعمال نہیں کرنا ہے۔
(۳) شوہر بیوی کو اپنی زندگی اس طرح نہیں گزارنی چاہیے جیسے وہ ایک دوسرے کے مدمقابل دوطاقتیں ہوں جن کو ہر وقت ایک دوسرے کو تنقیدی نظر سے دیکھنا اور اپنے مفادات کو محفوظ رکھنا ہے؛ بلکہ نکاح کے بعد مرد وعورت ایک گاڑی کے دو پہئے ہیں جن کو ایک ساتھ اور ایک دوسرے کی مدد سے چلنا ہے جن کی ضرورتیں ایک ہیں ،مفادات ایک ہیں ، نقصانات ایک ہیں اور جن میں سے ہر ایک دوسرے کی تکمیل کرتا ہے؛ لہٰذا اگر مزاج کے اختلاف کی وجہ سے آپس میں کوئی ناگواری بھی پیش آئے تو اس کو بڑھنے نہ دیں اور دونوں آپس ہی کے سمجھوتے سے اسے حل کرلیں ۔ خاص طور سے جذباتی رشتہ داروں کو اس کی بھنک بھی نہ لگنے دیں ورنہ وہ اس کو بڑھادیتے ہیں ۔
(۴) اگر خدانخواستہ کوئی ایسا معاملہ پیش آجائے جس کو حل کرنے سے دونوں عاجز آجائیں تو اب دوسروں سے مشورہ کریں اور مشورہ حتی الامکان اہل علم اور دین دار لوگوں سے کریں ، پھر بھی حل نہ ہو تو بات اپنے خاندانوں تک پہنچائیں اور اُن کے مشورے سے حل کریں ۔
(۵) اب اگر اہل علم اور خیرخواہ رشتہ داروں کے مشورے سے یہ بات طے ہوجائے کہ علاحدگی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے تو اب طلاق تک آئیں ؛ لیکن اس میں شریعت کی ہدایت پر عمل کریں ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ علاحدگی کے لیے ایک طلاق کافی ہے، اگر ایک رجعی طلاق دے کر شوہر خاموش ہوجائے اور بیوی عدت گزارلے تو اب اُن کا نکاح ختم ہوگیا اور بیوی کسی دوسرے سے نکاح کرسکتی ہے اور اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اگر اسی مرحلہ پر یا بعد میں ان دونوں کی رائے بدل جائے اور وہ دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو بے تکلف نکاح کرسکتے ہیں اور اگر عدت کے دوران ہی رائے بدل جائے تو بغیر نکاح کے صرف رجعت کا اظہار کرکے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں ۔
(۶) عام طور پر یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ علاحدگی کے لیے تین طلاق ضروری ہے، یہاں تک کہ مسلم وکلاء کی ایک بڑی تعداد بھی اسی غلط تصور میں مبتلا ہے۔ اس کے ازالے کے لیے علماء کرام کو محنت کرنی چاہیے اور واضح طور سے یہ بتانا چاہیے کہ علاحدگی کے لیے ایک طلاق کافی ہے۔ دو تک بھی جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جہاں تک تین طلاق کی بات ہے وہ تو شریعت کی نظر میں ایک مجبوری کی بات ہے کہ حالات کسی وجہ سے ایسا رُخ اختیار کرلیں کہ دوبارہ اُن کا یک جاہونا، کسی بھی طرح مناسب نہ ہو تو تین طلاق اختیار کرکے اُس کا راستہ بند کردیا جائے۔
(۷) علماء وقائدین کو چاہیے کہ اس طرح کے معاملات میں مسلمانوں کو جذباتیت سے گریز کرنے کی تلقین کریں اور اُن کو سمجھائیں کہ اگر مسلمان خود شریعت کے مطابق اپنے ازدواجی مسائل حل کرنے کے عادی ہوجائیں تو اس طرح کے قوانین خود بخود غیرمؤثر ہوجائیں گے۔ اگر کوئی شوہر تین طلاق نہ دے صرف ایک طلاق پر اکتفاء کرے تو اس کے خلاف قانون کچھ بھی نہیں کرے گا اور خود اس کو بھی اپنے عمل کے نتائج پر غور کرنے اور اپنے فیصلے پر نظر ثانی کا موقع حاصل رہے گا اور اگر خدانخواستہ کوئی ناسمجھ شخص ایسی غلطی کربیٹھے تو اس کی بیوی جذبات میں آکر کیس کرنے کے بجائے، رشتہ داروں اور اہل علم کے ذریعہ اس مسئلہ کو حل کرانے کی کوشش کرے تاکہ اس قانون کے منفی اثرات سے وہ خود بھی محفوظ رہ سکے، اس لیے کہ شوہر کے جیل جانے کے بعد بیوی کے مسائل کا کوئی حل اس قانون میں نہیں ہے۔
(۸) سب سے ضروری بات یہ ہے کہ موجودہ حالات سے مسلمان سبق لیں اور اپنی زندگی کے تمام معاملات کو شریعت کی روشنی میں استوار کرنے کی کوشش کریں ۔ اس لیے کہ ہمارے شرعی معاملات میں مداخلت کی یہ کوششیں درحقیقت ہماری بداعمالی کا نتیجہ ہیں ، اللہ کی شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کی آسانی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے، جس کی بقاء اس بات پر موقوف ہے کہ ہم دل سے شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کے خواہش مند ہوں اور اپنے عمل سے اس کا ثبوت دیں ۔
————————————
دارالعلوم ، شمارہ : 8، جلد:103، ذی الحجہ 1440ھ مطابق اگست 2019ء
٭ ٭ ٭