تنقیدی دبستان میں سائنٹفک تنقید تعارف اور معنویت

از: مولانا اشتیاق احمدقاسمی

مدرس دارالعلوم دیوبند

            تنقید سے کھرے کھوٹے میں تمیز ہوتی ہے، ادبی فن پارے میں تنقید سے اس کا معیار بلندہوتا ہے، جب کوئی فن پارہ مکمل ہوتا ہے تو لوگ اُسے پڑھتے ہیں ، اپنی استعداد کے مطابق اسے پسند یا ناپسند کرتے ہیں ، ہر ایک کے پسند و ناپسند کا اس کے نزدیک معیار ہوتا ہے، اس کو کوئی نام نہیں دیا جاتا؛ لیکن جب یہی کام ادیب اورنقاد کرتا ہے تو پھر اس کے زاویۂ نگاہ کا مستقل نام ہوجاتا ہے،اردو ادب میں تنقید کے درج ذیل دبستان معروف ہیں : تأثراتی، جمالیاتی، رومانی، نفسیاتی، مارکسی، سماجیاتی، ہیئتی، اسلوبیاتی، ساختیاتی، قاری اساس اور سائنٹفک تنقید وغیرہ۔ ان سب میں آخرالذکر سائنٹفک تنقید ایک جامع تنقیدی دبستان ہے، اس میں کسی رجحان اور دبستان سے وابستگی کے بغیر تنقید کا عمل جاری ہوتا ہے۔

سائنٹفک تنقید

            ’’سائنٹفک تنقید‘‘ کو سائنسی اور علمی تنقید سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔

            تنقید کا یہ دبستان مغربی ہے؛ مگر مشرقی تنقید میں اس کے خدوخال ملتے ہیں ، سائنٹفک تنقید میں کسی واضح رجحان یا تحریک سے وابستہ ہوے بغیر خالص کسی علمی، ادبی اور فنی زاویے سے فن پارے کا جائزہ لیا جاتا ہے، اس تنقید میں کسی فرد یا نظریہ پر اصرار نہیں کیا جاتا؛ بلکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ چوں کہ مادی اسباب شعور کو متعین کرتے ہیں اور مادہ تغیر پذیر ہے؛ اس لیے مادہ اور شعور کے باہمی عمل اور ردعمل سے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں ، اُن کی اہمیت ہے؛ چناں چہ مادی اسباب ومحرکات پر بھی ناقد کی نظر ہوتی ہے۔ ’’سائنٹفک تنقید‘‘ میں جمالیاتی پہلو بھی پیشِ نظر رہتا ہے، نقاد متن اور اقدار کو معروضی زاویہ سے جانچتا ہے، تاریخی اور معاشرتی عوامل سے صرفِ نظر نہیں کرتا، جس طرح سائنس میں اشیاء کی حقیقتوں کو دیکھنے سمجھنے اور غور وفکر کے بعد نتائج اخذ کیے جاتے ہیں ، مشاہدے، تجربے اور تجزیے کے بغیر حقائق تک پہنچنا ممکن نہیں ، اسی طرح سائنٹفک تنقید کا حامل اپنی پسند، اپنے ذوق اور اپنی نظر سے کام کم لیتا ہے، معروضی اور دوٹوک رویہ اختیار کرتے ہوے ادب پارے کا مطالعہ کرتا ہے،اسی طرح مطالعے میں فن پارے  جمالیاتی پہلو، فنی جہات، لسانی خصوصیات اور انفرادی ذوق پر بھی بحث ہوتی ہے۔ سائنٹفک تنقید کے سلسلے میں خاطر غزنوی لکھتے ہیں :

            ’’کسی ادب پارے میں زندگی کی اقدار کا پتہ لگانے کے لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس تصنیف کے کیا محرکات ہیں ؟ اور ادیب نے اس موضوع کو کیوں منتخب کیا ہے؟ آیا سماجی طور پر اس موضوع کی کوئی اہمیت اور قدر وقیمت ہے؟ ادیب ان مسائل کو نبھانے میں کامیاب ہوا ہے؟ آیا وہ کسی خاص طبقہ یا نقطئہ نظر کی ترجمانی کررہا ہے؟ نقاد کا ان تمام امور پر غور کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اُسے معاشرے کے مختلف پہلوئوں یعنی تمدنی حالات، معاشیات، سیاسیات، تاریخ، فلسفہ اور نفسیات سے واقف ہونا چاہیے، سوانحی اور تاریخی تنقید بھی حقیقت میں سائنٹفک تنقید کے اجزاء ہیں ۔‘‘ (جدید اردو ادب، ص:۸۲، ۸۳ سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور ۱۹۷۵ء)

            سائنٹفک تنقید کے سلسلے میں سید احتشام حسین لکھتے ہیں :

            ’’سائنٹفک نقطئہ نظر وہ ہے جو ادب کو زندگی کے معاشی، معاشرتی اور طبقاتی روابط کے ساتھ متحرک اور تغیر پذیر دیکھتا ہے، یہ ایک ہمہ گیر نقطئہ نظر ہے اور ادبی مطالعے کے کسی پہلو کو نظر انداز نہیں کرتا۔‘‘ (تنقید- نظریہ اور عمل، ص:۵۴۱)

            ڈاکٹر سلیم اختر نے سائنٹفک تنقید کو ان الفاظ میں سمجھایا ہے:

            ’’ہر وہ طریقہ  جس میں نقاد علمی اندازِ نظر اپناکر کسی سائنس داں جیسی غیر جانب داری سے کام لیتے ہوے، ذاتی پسند وناپسند اورنجی تعصبات سے ماورا ہوکر تخلیق کی چھان پھٹک کرتا ہو وہی ’’سائنٹفک تنقید‘‘ کہلاتی ہے۔‘‘ (تنقیدی دبستان، ص:۲۶۹، ۲۷۰۔ سنگ میل پبلی کیشنز لاہور ۱۹۹۷ء)

            ڈاکٹر آغا سہیل سائنٹفک تنقید کے سلسلے میں رقم طراز ہیں :

            ’’سائنٹفک تنقید کے تمام منہاج اور خطوط متعین ہیں اور باہم مربوط بھی، جو ریاضی کے ہندسوں کی طرح قطعی اور ناگزیر ہیں ، ایسے علوم جو حقائق محققہ کے ذیل میں آتے ہیں وہ انسانی اور کائنات کے باہمی ارتقائی ربط کو ظاہر کرتے ہیں اورانھیں سے کائنات کی ترقی اور انسان کا ارتقا وابستہ ہے؛ اس لیے وہ تمام معاشرتی علوم جوانسان کے معاشرتی ارتقا میں بالواسطہ یا بلاواسطہ مددگار ہوتے ہیں ۔‘‘ (ادب اور عصری حسیّت، ص۱۷، مکتبہ عالیہ لاہو ۱۹۹۱ء)

            صحیح بات یہ ہے کہ صرف وہ تنقید سائنٹفک تنقید کہلانے کی مستحق ہے جو کسی ایسے وسیلے کو نظر انداز نہ کرے جس سے فن یا فن کار پر روشنی پڑسکتی ہو، وہ حسب ضرورت تاریخی، استقرائی، جمالیاتی، عمرانی، نفسیاتی گویا تنقید کے تمام دبستانوں سے مدد لیتی ہے، وہ نہ فن کو نظر انداز کرتی ہے نہ فن کار کو  اور دونوں کو ہرزاویے سے دیکھنے اور پرکھنے کی کوشش کرتی ہے۔

            سائنٹفک تنقید کی زبان علمی اور واضح ہوتی ہے، صراحت اور قطعیت اس کے لیے بہت ضروری ہے، اردو میں یہ تنقید کس طرح آئی؟ اس کا صاف جواب یہ ہے کہ سرسیّد کی سرپرستی میں اردو کو یہ دبستان نصیب ہوا، ان کا ذہن منطقی اور سائنسی تھا، وہ ہر چیز کو عقل اور سائنس کی کسوٹی پر کسنے کے عادی تھے، ان کے مختلف مضامین میں یہ تنقید منتشر ہے، انھوں نے اپنے رفقاء کو اس  طرف متوجہ کیا، ان میں بھی سرفہرست مولانا الطاف حسین حالیؔ ہیں ، انھوں نے اردو تنقید کو ایک جامع نظام کے تحت مرتب کیا، ادب اور زندگی کے محکم تعلق کی وضاحت کی، مقصدیت کو ادب کی روح قرار دیا، شعر کی ماہیت پر روشنی ڈالی، اچھی شاعری کی خصوصیات متعین کیں ، اردو تنقید میں سائنٹفک دبستان حالیؔ کے احسانات سے گراں بار ہے۔

چند اہم سائنٹفک نقاد:

            ۱-         ’’ڈاکٹرسید عبداللہ‘‘ اردو ادب کی اہم شخصیت ہیں ، سائنٹفک نقادوں میں شمارہوتے ہیں ، موصوف نے تنقید کے اس دبستان کو مضبوط کیا ہے، بنیادی طور پر ان کا تعلق فارسی ادب سے ہے، فارسی خدمات میں لگے رہے، فارسی کے نامور محققین میں شامل ہوئے؛ لیکن جب پنجاب یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر کی حیثیت سے برسرروزگار ہوئے تو اپنی توجہ اردو کی طرف مبذول فرمائی، موصوف کے مضامین میں عملی تنقید کے نمونے خوب ملتے ہیں ۔ فارسی اور اردو کے علاوہ انگریزی شعر وادب سے بھی دلچسپی رکھتے تھے، انگریزی زبان میں بھی مضامین اور کتابیں تصنیف کیں ، تاریخ کے دبے اوراق سے فارسی زبان کے ہندو ادیبوں اور شاعروں کو تلاش کیا، ان کی اچھی خاصی تعداد کو گم نامی کے غار سے نکالا، ان کے اندر تلاش و جستجو اور تحقیق ودریافت کی صفت راسخ تھی، ان کی زبان ہلکی پھلکی؛ لیکن شگفتہ اور دلکش ہوتی ہے۔ موصوف تیس کتابوں کے مصنف ہیں ، ان میں سے چند یہ ہیں : اطراف غالبؔ، اردو ادب کی ایک صدی، سرسید احمد خاں اور ان کے نامور رفقا، شعرائے اردو کے تذکرے اور نقد میرؔ وغیرہ۔

            ۲-        ’’سید اعجاز حسین‘‘ کے یہاں ترقی پسند اور سائنٹفک دونوں تنقیدوں کے میلانات ملتے ہیں ، جرأت وبے باکی کی صفت بہت زیادہ تھی، ادب میں تاریخی اور عمرانی پہلوئوں پر زور دیتے ہیں ، مولانا الطاف حسین حالیؔ اور مولوی محمد حسین آزادؔ کی روایات سے بھی مناسبت رکھتے ہیں ۔ ’’نئے ادبی رجحانات، مذہب اور شاعری، اردو ادب آزادی کے بعد اور اردو شاعری کا سماجی پس منظر‘‘؛ موصوف کی کتابیں ہیں ، ان کے مطالعے سے موصوف کے رجحانات ومیلانات کو سمجھنا مشکل نہیں ، ادبی نظریات میں آزاد منش؛ مگر نرم طبیعت کے مالک ہیں ، تنقید سے زیادہ تحقیق پر کام کیا؛ مگر ناقد کی کی حیثیت سے ان کا مقام ومرتبہ مسلّم ہے۔

            ۳-        ’’اخترحسین رائے پوری‘‘ مارکسی نظریات کے حامل ہیں ؛ مگر ان کی تحریروں میں سائنٹفک انداز بھی واضح ہے، موصوف کا مطالعہ وسیع اور نظر گہری ہے، ان کے نزیک ادب زندگی کا ترجمان ہے، اس کا مقصد صرف تفریح طبع اور جمالیاتی حس کی تسکین نہیں ؛ بلکہ ان کے نزدیک ادب اورانسانیت کے مقاصد ایک ہیں ، ادب ہی زندگی کی رہنمائی کرتا ہے، ان کے نزدیک ادب میں زندگی کے حقائق اور آس پاس کی عکاسی ہونی چاہیے۔ ان کے مضامین کا مجموعہ ’’سنگ میل‘‘ کے نام سے طبع ہوا ہے، اس میں عملی تنقید کے اچھوتے نمونے ملتے ہیں ، ہندوستان کی متعدد زبانوں میں موصوف کے مضامین اور افسانوں کے ترجمے ہوے ہیں ۔ کتابوں پر تبصرے ’’ناخدا‘‘ کے قلمی نام سے کیا کرتے تھے، مزاج میں شدت اور جذباتیت تھی۔

            ۴-        ’’سیداحتشام حسین‘‘ کا اردو ادب میں بڑا مقام ہے، ادبی تنقید میں موصوف کی شخصیت مسلم ہے، سائنٹفک تنقید کی بنیاد کو مضبوط کرنے میں بڑی محنت کی ہے، غور وفکر کے عادی تھے، خیالات میں سلجھاپن اور پختگی تھی، اندازِ تحریر دلچسپ باوزن اور باوقار ہے، ہیئت اور مواد دونوں کو اہمیت دیتے ہیں ، مارکسی اور مغربی نظریات سے متاثر تھے؛ لیکن مشرقی تنقیدی زاویوں کو بھی نظر انداز نہیں کرتے تھے، حالیؔ، شبلیؔ اور آزادؔ کے قدر داں تھے، ان کے کھینچے ہوے خاکوں میں رنگ بھرنے کے قائل تھے، ان کے تنقیدی رجحانات و میلانات درج ذیل کتابوں سے سمجھے جاسکتے ہیں : تنقیدی جائزے، تنقیدی اور عملی تنقید، اردو کی تنقیدی تاریخ، ادب اور سماج، ذوق ادب اور شعور وغیرہ۔

            ۵-        ’’عبادت بریلوی‘‘ اردو ادب کے علاوہ فارسی اور انگریزی ادب سے بھی دلچسپی رکھتے تھے، ان کی تحریروں میں کلاسیکیت ہے، سائنٹفک تنقید کے حقائق بھی ملتے ہیں ، ان کا مطالعہ وسیع تھا، ادب اور زندگی کے رشتے پر یہ بھی زور دیتے ہیں ، ان کے یہاں موضوعات کا تنوع ملتا ہے، ماضی کی روایات کے احترام کے ساتھ ادبی تنقید کی باریکیوں ، نئے رجحانات اور عصری تقاضوں پر نظر رکھتے ہیں ، ان کے نزدیک تنقید میں فن، علم، سائنس، فلسفہ، تہذیب، ثقافت، جمالیات، نفسیات، عمرانیات اور معاشیات سب شامل ہیں ؛ سائنٹفک سے مکمل طور پر قریب ہیں ، تنقید میں تجزیاتی عمل کے ساتھ پس منظر کے حقائق پر بھی نظر رکھتے ہیں ، ان کی کتابوں میں ’’اردو تنقید کا ارتقا، غزل اور مطالعۂ غزل، غالب اورمطالعۂ، غالب، تنقیدی زاویے، روایت اور تجربے، جدید شاعری اور شاعری کی تنقید، معروف ہیں ۔

            ۶-        ’’آل احمد سُرور‘‘ اردو ادب کے ناقدین میں اہم شخصیت کے حامل ہیں ، ادب میں سماجی اہمیت کے قائل ہیں ، مغربی اور مشرقی دونوں ادبیات پر نظر رکھتے ہیں ، ’’ترقی پسند تحریک‘‘ سے وابستہ تھے، ’’جدیدیت‘‘ کے آغاز میں ہی اس سے وابستہ ہوگئے۔ سائنٹفک تنقید کے استحکام میں ان کا حصہ وافرہے، یہ دبستان ان کی وجہ سے معروف ہوا، تنقید کے تخلیقی پہلو پر زور دیتے ہیں ، ادب میں فلسفیانہ موشگافیاں ان کے یہاں نہیں ملتی ہیں ، ’’تنقیدی اشارے، نظر اور نظریے، نئے اور پرانے چراغ‘‘؛ ان کی کتابیں ہیں ، جن میں تنقیدی رجحانات ملتے ہیں ۔

            ۷-        ’’مسعود حسین خاں ‘‘ لسانیات کے ماہر مانے جاتے ہیں ، شعر و ادب کے جمالیاتی پہلوئوں پر زور دیتے ہیں ، سائنٹفک تنقید کی اہم شخصیت ہیں ، نقد میں سنجیدگی اور توازن برقرار رکھتے ہیں ، معاشرتی اور تاریخی عوامل کو بروئے کار لاتے ہیں ، معرضیت کی وجہ سے ان کی تنقید کو تفوق حاصل ہے، مخطوطات پر بھی کام کیا ہے، ’’اردو زبان وادب‘‘، شعرو زبان اور اقبال کی نظری وعملی شعریات، ان کی کتابیں ہیں جن سے ان کی خدمات اور رجحانات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

            ۸-        ’’عبدالعلیم‘‘ کے یہاں بھی سائنٹفک تنقید کا طرز ملتا ہے، موصوف کمیونسٹ فکر کے حامل تھے، ادب اور جمالیات کے تعلق پر بھی ان کی تحریریں ملتی ہیں ، وہ ادبی اور تنقیدی رجحانات کو سماجی اور معاشرتی پس منظر میں دیکھنے پر زور دیتے ہیں ۔ ادب میں مادی اور خارجی عناصر سے پیدا شدہ کیفیات کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ادب کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے زمانے کی ترجمانی کرے، ان کی باتوں میں حکیمانہ شعور اور توازن ملتا ہے۔ سائنٹفک نقاد میں یہ اوصاف ضروری ہیں ۔ ’’اردو ادب کے رجحانات‘‘ اور’’ ادبی تنقید کے بنیادی اصول‘‘ موصوف کی تصانیف ہیں ، جن سے ادبی رجحانات کو سمجھنا آسان ہے۔

            ۹-        ’’محمد محسن‘‘ کو سید احتشام حسین کی شاگردی نصیب ہوئی، فکر ونظر میں استاذ کی گہری چھاپ نظر آتی ہے، معروضیت اور غیر جانب داری کا وصف ان میں پایا جاتا ہے، تنقید میں تکلف  برطرف کا انداز نظر آتا ہے، دوٹوک فیصلہ کرتے ہیں ، موضوع اور مواد پر زور دیتے ہیں ، تنقید مدلل ہوتی ہے، بیدار مغزی ہر جگہ نظرآتی ہے، اس طرح کے سائنٹفک نقاد بہت کم ہیں ، اردو کے علاوہ ہندی اور انگریزی میں بھی ان کی نگارشات ملتی ہیں ، تقریباً پچاس کتابوں کے مصنف ہیں ۔ ’’اردو ادب میں رومانی تحریک، دہلی میں اردو شاعری کا تہذیبی اور فکری پس منظر،ادبیات شناسی، نیا ادب‘‘؛ وغیرہ ان کی تصانیف ہیں جن سے ادبی رجحان آسانی سے سمجھ میں آتا ہے۔

            سائنٹفک طریقۂ تنقید میں مواد کو ہیأت پر ترجیح دی جاتی ہے، مواد میں لکھنے والے کی فکر موجود ہوتی ہے، فن اور فن کار کو مواد سے ہی سمجھا جاسکتا ہے، اس تنقید میں ماضی سے رشتہ منقطع نہیں ہوتا، عقلی بنیادوں پر غور وفکر کی تشکیل ہوتی ہے، ناقد فنی خوبیوں کو بہ نظر استحسان دیکھتا ہے اور اس کو نمایاں کرکے خوشی محسوس کرتا ہے، اس تنقید کی جامعیت کی وجہ سے ہی اس میں قاری کو مختلف دبستانوں کی خوبو نظر آتی ہے؛ اس لیے اس دبستان کو جمہوری مزاج سے زیادہ قریب دبستان کہا جاسکتا ہے۔

————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 7،  جلد:103‏،  ذی القعدہ 1440ھ مطابق جولائی 2019ء

٭           ٭           ٭

Related Posts