از: مولانا مدثر جمال تونسوی
استاذ جامعۃ الصابر، بھاول پور
ہمارے دینی مدارس میں ’’اسلامی عقائد‘‘ کے موضوع پر پہلے تو متعدد چھوٹی بڑی کتابیں داخل نصاب تھیں ؛ مگر اب اس موضوع پرصرف دو مستقل کتابیں ہی داخلِ نصاب ہیں :
(۱) العقیدۃ الطحاویۃ: یہ معروف حنفی محدث و فقیہ امام ابوجعفر الطحاوی المصری الحنفی کا مرتب کردہ مختصر سا رسالہ ہے، جو دلائل اور اعتراضات و جوابات جیسی پیچیدہ مباحث سے خالی ہے۔
(۲) شرح العقائد النسفیۃ: اس کتاب کا متن مفتی الثقلین امام ابو حفص عمر النسفی الحنفی کا تحریر کردہ ہے ، جو کہ امام ابو منصور ماتریدی رحمہ اللہ تعالیٰ کے اسلوب پر مرتب کیا گیا ہے، جب کہ شرح علامہ شیخ سعد الدین التفتازانی کے قلم کا شاہکار ہے جس میں ماتریدی اور اشعری طرز و اسلوب اور تحقیقات کو ساتھ ساتھ سمودیا گیا ہے اور یوں یہ کتاب ’’مجمع البحرین‘‘ کا حسین سنگم بن گئی ہے اور شاید اسی لیے یہ کتاب کئی صدیوں سے عرب و عجم کے کبار دینی اداروں میں داخل نصاب یا معاون نصاب کے طور پر مقبول چلی آ رہی ہے۔
درج ذیل تحریر میں اس کتاب کی اہمیت کے چند پہلو اجاگر کرنا مقصود ہے۔ و اللّٰہ الموفق و ھو الہادی۔
علوم دینیہ میں ’’عقائد‘‘ کی اہمیت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے اور اسی بات سے اُن علوم ومعارف اور مباحث وتالیفات کی اہمیت بھی عیاں ہو جاتی ہے جو علمائے اَہل السنۃ والجماعۃ نے ’’عقائدِ اسلامیہ‘‘ کے اِثبات اور دِفاع کے سلسلے میں رقم فرمائی ہیں ، اس موضوع پر کام کرنے والے علمائے اسلام کو ’’متکلمین‘‘ کہا جاتا ہے۔
چنانچہ مُسنِدُ الہند ، حجۃ الاسلام حضرت الامام شاہ ولی اللہ الدہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے علوم القرآن پر اپنی مثالی کتاب ’’الفوز الکبیر‘‘ کے آغاز میں اس حقیقت کو صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔
قرآن کریم کی مکی سورتوں پر نظر رکھنے والے کو بخوبی اس حقیقت کا اِدراک ہوسکتا ہے کہ کس طرح ان سورتوں اور آیات میں نہایت جامعیت اور وضاحت کے ساتھ ’’عقائدِ اسلام‘‘ کو مختلف اَسالیت اور متنوع بیانات سے قرآن کے مخاطَب اِنسان کے ذہن میں جاگزیں کرنے کا سامان کیا گیا ہے۔
پھر قرآن کریم میں مختلف مقامات پر اللہ تعالیٰ کے وجود، قدرت، علم، اِرادہ، اَزلیت، ابدیت، سمع، بصر، کلام اور دیگر صفاتِ کمال کو بیان کرکے ان کا اِثبات کیا گیا ہے اور اسی کے ساتھ مخلوقات کا بھی تکرار کے ساتھ ذکر کرکے یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ مخلوقات بھی جہاں ایک طرف تمہاری ضروریات دنیوی کی تکمیل میں مفید ہیں ، اسی طرح یہ مخلوقات بلکہ ان مخلوقات کا ہر ہر ذرہ اللہ جل شانہ کی صفات کاملہ پر بھی پورا پورا گواہ ہے، اور یوں ان مصنوعات سے ان کے خالق جل شانہ کی معرفت تک رسائی کا سامان کیا گیا ہے۔ چنانچہ اس شعر میں اسی بات کو خوبی کے ساتھ سمیٹ دیا گیا ہے:
و فی کل شیء لہ آیۃ
تدل علی انہ واحد
ہر مخلوق اور مخلوق کا ہر ہر ذرہ اس کی گواہی دے رہا کہ ان کا خالق یکتا و لا شریک ہے ۔
اور پھر انہی مخلوقات میں غور کرنے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ چونکہ یہ مخلوقات عیوب و نقائص پر مشتمل ہیں اور یہی ان کا عجز و نیاز ، یہ خبر بھی باحسن انداز دے رہا ہے کہ ان کا خالق جل شانہ ہمہ قسم کے عیوب سے ازلاً وابداًپاک ہے؛ چنانچہ سورۃ اخلاص میں ھو اللّٰہ احد کے بعد اللّٰہ الصمد کہا گیا کہ وہی یکتا ہے اور وہی ہر احتیاج سے پاک ہے، اور اسی کو دوسری جگہ یوں کہا گیا: اَفَمَن یَّخْلُقُ کَمَن لَّایَخْلُقُ! بھلا جو خالق ہے تو کیا وہ غیر خالق کی مانند ہو سکتا ہے!! ہرگز نہیں ہو سکتا۔
آیت کریمہ : لیس کمثلہ شیء وھوالسمیع البصیر
اس نفی اور اِثبات کی جامعیت کو ساتھ ساتھ لیے ہوئے ہے اور پھر نفی کو مقدم کرنے میں یہ اشارہ بھی پنہاں ہے کہ اِنسان کے لیے بلکہ ہر مخلوق کے لیے اس ذاتِ عالی کی معرفت تک رَسائی میں نفی مقدم ہے اور اِثبات موخر؛ کیونکہ اس ذات عالی کے بارے میں انسان کی اصل حالت جہل ہے اور جو علم ہے وہ اس کا اپنا نہیں ہے بلکہ خود اللہ جل شانہ کا ہی عطا کردہ ہے، اسی لیے انسان کی اصل حالت جہل کے لحاظ سے نفی مماثلت کو مقدم رکھا گیا ہے اور اثبات کو موخر۔ و اللہ اعلم
الغرض عقائد اسلام کا باب تمام دینی علوم میں ایک اَساس اور بنیاد کی حیثیت سے بے حد اہمیت کا مقام رکھتا ہے۔ ہمارے دینی مدارس میں ایک طویل عرصے سے بلکہ کئی صدیوں سے عرب وعجم کے چھوٹے بڑے تمام اداروں میں اس موضوع پر جو کتاب نصاب میں شامل رکھی گئی ہے وہ شرح عقائد نسفی ہے۔
یہ کتاب دو تالیفات کا مجموعہ ہے۔
متن کا نام: العقیدۃ النسفیہ ہے جس کے مولف امام ابوحفص عمر بن محمد النسفی (متوفی ۵۳۷ھ) ہیں جنھیں طبقاتِ حنفیہ میں ’’مفتی الثقلین‘‘ کے جلیل الشان لقب سے سرفراز کیا گیا ہے۔
جب کہ شرح جسے عام طور پر ’’شرح عقائد‘‘ کے مختصر نام سے جانا جاتا ہے اس کے مولف عرب وعجم میں معروف بلند پایہ محقق ومدقق عالم، علامہ سعد الدین مسعود بن عمر التفتارانی (متوفی ۷۹۲ھ) ہیں ۔
کتاب کے مضامین کی نوعیت:
متن میں شامل موضوعات کو درج ذیل عناوین میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
(۱) عقائد اسلام کے اثبات اور دفاع کے لیے جامع تمہید
(۲) مباحثِ اِلٰہِیَّات: یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات وٖصفات اور اَفعال کے بارے میں دینی عقائد کا بیان
(۳) مباحثِ نُبُوَّات: یعنی اَنبیاء ورُسُل علیہم السلام کی بعثت ،نبوت ورسالت اور ان کے معجزات ودَلائل کا بیان۔
(۴) مباحثِ مَعاد: یعنی موت اور موت کے بعد کی زندگی، قبر، حشر، قیامت اور جنت وجہنم وغیرہ سے متعلق عقائد کا بیان
(۵) عقائد اور مسائل کی بعض وہ جزئیات جو باطل وگمراہ فرقوں کے مقابلے میں ’’اَہل السنۃ والجماعت‘‘ کے لیے باعثِ اِمتیاز ہیں ۔ مثلاً مسئلہ اِمامت، مسئلہِ عدالتِ صحابہ، مسئلۂ کرامتِ اَولیاء وغیرہ۔
چنانچہ جب متن ان پانچ مباحث پر مشتمل ہے تو یقینا شرح بھی ان ہی پانچ مباحث پر، مزید توضیحات و تفصیلات کے ساتھ مشتمل ہے۔
فرق یہ ہے کہ متن میں فقط ان مباحث کا اجمالی بیان ہے، اور دلائل اور اعتراضات کے جوابات سے اس میں کوئی تعرض نہیں کیا گیا، جب کہ شرح میں ان پانچ مباحث پر عقلی ونقلی دلائل بھی فراہم کیے گئے ہیں اور اہم اہم اِعتراضات اور ان کے جوابات کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔
ایک اہم وضاحت
یہ کتاب : اِسلامی عقائد کے بیان میں اس طرح نہیں ہے جس طرح کہ فقہ میں قدوری اور تعلیم الاسلام وغیرہ بلکہ یہ کتاب عقائد میں ویسا ہی درجہ رکھتی ہے جیسا کہ فقہ میں ہدایہ اور اس کی شرح فتح القدیر وغیرہ۔
جس طرح عام مسلمان جو صرف ونحو ، منطق اور اُصول فقہ سے واقف نہ ہو تو اس کے لیے ہدایہ، فتح القدیر وغیرہ مفید نہیں ہوسکتیں ، اس طرح جو طالب علم صرف ونحو، علم منطق اور علم الفلسفہ کی اَساسیات سے بالکل واقف نہ ہوتو اس کے لیے بھی یہ کتاب مفید نہیں ہوسکتی، اور یہی وجہ ہے کہ یہ کتاب دینی مدارس میں درجہ ششم یا ہفتم میں پڑھائی جاتی ہے جب کہ وہ درج بالا ضروری علوم سے آگاہ ہو چکا ہوتا ہے۔
دوسری وضاحت
جس طرح فقہی مسائل کے اِستخراج کے لیے اُصول فقہ کا ’’فن‘‘ مُدوَّن کیا گیا ہے، اسی طرح اسلامی عقائد کے اثبات اور دفاع کے لیے جو علم و فن مدون کیا گیا ہے اسے اصطلاح میں ’’ علم کلام‘‘ کہا جاتا ہے۔
جس طرح اصول فقہ کی اصطلاحات اور دیگر بے شمار مباحث کا وجود صدر اول میں نہیں ملتا، اسی طرح اگر علم کلام کی اصطلاحات اور بہت سے مباحث کا وجود صدرِ اول میں نہیں ملتا تو یہ کوئی اعتراض والی بات نہیں ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ فلسفیانہ مباحث کا آغاز ملحدین اور گُم راہ فرقوں کی طرف سے ہوا تھا اور وہ اس مقصد کے لیے فلسفیانہ مباحث کو ’’کلام‘‘ بنا کر استعمال میں لاتے تھے اور اسی زمانے میں بہت سے اہل علم اہل سنت و جماعت نے ’’کلام‘‘ اور متکلمین کی مذمت بھی کی ہے؛ مگر بعد میں اسی علم و فن کی اصطلاحات کو تہذیب و تدوین کے بعد اہل السنۃ و الجماعت کے عقائد کے اثبات اور دفاع کے لیے بروئے کار لانا شروع کیا ، اور ان کی کاوشوں سے ’’کلام‘‘ کی وجہ سے ملحدین اور گُم راہ فرقوں کا جو زور تھا، وہ ٹوٹ گیا تو پھر یہی علم کلام اہل السنۃ و الجماعت کا ہی مضبوط ہتھیار بن گیا، اور انھوں نے اسے مزید مدون و مرتب کردیا اور اس طرح اب ’’متکلمین‘‘ کا لقب علمائے اہل السنۃ و الجماعت کے لیے ہونے لگا، اور کبھی کبھار توضیحِ مزید کے لیے اس کے ساتھ اہل سنت کا لفظ بڑھا کر ’’متکلمینِ اہل سنت‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
تیسری وضاحت
عقائد میں اہل السنۃ والجماعت سے اختلاف رکھنے والے گروہ بنیادی طور پر دو ہیں :
(۱) غیر مسلم فلاسفہ
(۲) غیر مسلم فلاسفہ کے نقش قدم پر چلنے والے گمراہ فرقے
چونکہ یہ دونوں گروہ دینی عقائد کے اِنکار یا غلط تاویلات کے لیے عقلی دلائل پر ہی زیادہ انحصار کرتے رہے ہیں ؛ اس لیے علمائے اہل السنۃ والجماعت کے ایک بہت بڑے طبقے نے مِثْلًا بِمِثْلٍ عقلی دلائل اور علم فلسفہ ومنطق ہی کی اصطلاحات کو ان کی تردید کے لیے بروئے کار لانا شروع کیا۔ یوں متاخرین میں عقائد کی مفصل کتابیں دو چیزوں سے بھرگئیں ۔
۱- کلامی مباحث یعنی فلسفیانہ ومنطقیانہ مباحث
۲- عقائد کی مباحث
پھر چونکہ فلاسفہ اور گمراہ فرقوں ، دونوں نے زیادہ تر اِلٰہیات میں اِنکار، یا کج روی اختیار کی تھی، اس لیے علمائے اہل سنت کے ہاں بھی اِلٰہیات کی مباحث میں یہ فلسفیانہ مباحث زیادہ مقدار میں شامل ہو گئیں ، جیسا کہ شرح عقائد اور شرح المواقف و شرح المقاصد جیسی کتابوں کو دیکھنے سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے۔
شرح عقائد کی خوبیاں
اس کتاب ’’شرح عقائد‘‘ کی خوبیاں درج ذیل نکات میں الگ الگ بیان کی جاتی ہیں :
۱- یہ کتاب دو جلیل القدر اہل علم کی کاوشوں پر مشتمل ہے۔
۲- متن اپنے اختصار کے باوجود جامعیت کی بہترین شان لیے ہوئے ہے۔
۳- متن میں اہل السنۃ والجماعت کی نمائندگی کی گئی ہے۔
۴- عقائد کی تمام اہم مباحث کا نچوڑ سادہ لفظوں میں بیان کیا گیا ہے۔
۵- شرح میں علم کلام کی تاریخ پر اِختصار اور جامعیت کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے۔
۶- علم عقائد کی اہمیت اُجاگر کی گئی ہے۔
۷- اِلٰہیات میں فلسفیانہ مباحث میں توسع سے گریز کیا گیا ہے۔
۸- تمام اہم مباحث میں حسبِ ضرورت فلاسفہ اور مسلمانوں میں موجود گُم راہ فرقوں کی تردید پر بھی توجہ دی گئی ہے۔
۹- تمام اہم مباحث میں دلائلِ عقلیہ اور نقلیہ دونوں کے بیان کا اہتمام کیا گیا ہے۔
۱۰- اِلٰہیات، نبوات، معاد، عدالتِ صحابہ، کرامت اولیاء اور مبحث امامت وخلافت میں اہل السنۃ والجماعت کے مسلک کی نمائندگی کی گئی ہے۔
۱۱- ایمانیات کی بحث میں راہِ اعتدال کو مدلل کیا گیا ہے جس سے بے وجہ تکفیر وخارجیت کے ساتھ ساتھ اباحت پسندی کا بھی سدِّباب ہوجاتا ہے۔
۱۲- امامت کی بحث میں کامل خلافت، ناقص خلافت اور جبری خلافت کا بیان کرکے بہت سی سیاسی موشگافیوں کا عُقدہ حل گیا ہے۔
الغرض یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کی درست اور موثر تعلیم وتدریس ایک عالم کو صحیح معنیٰ میں ’’داعی اسلام‘‘ اور ’’متکلمِ اہل سنت‘‘ بناسکتی ہے۔ بشرطے کہ یہ کتاب کسی صحیح العقیدہ ، اور اکابر کی تحقیقات کے بارے میں باادب رویہ رکھنے والے ’’شیخ‘‘ اور ’’استاذ‘‘ سے پڑھی جائے، تو یقینادرج بالا فوائد سے بھی بڑھ کر فوائد حاصل ہونے کی توقع ہے۔ و اللّٰہ الموفق و ھو الہادی۔
اللہ کرے کہ ہمارے دینی مدارس سداآباد رہیں او وہاں سے دینی علوم کی آبیاری ہمہ وقت جاری رہے، آمین!
—————————————-
دارالعلوم ، شمارہ : 7، جلد:103، ذی القعدہ 1440ھ مطابق جولائی 2019ء
٭ ٭ ٭