از: مولانا عبدالرزاق سلطانی قاسمی
موجودہ زمانے میں عورتیں اپنے مقام سے ناآشنا ہوکر برانگیختہ حالات کا مظاہرہ کررہی ہیں ؛ حالانکہ اسلام نے عورتوں کو ان کے حقوق سے آراستہ کرتے ہوئے ان کے درجات بھی متعین کیے ہیں ، مسلم خواتین کے سامنے صحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کی زندگی بہ طور نمونہ بالکل عیاں ہے، بہت سی عورتیں دین حق سے ناواقفیت کی بنا پر احساس کمتری کا شکار ہوجاتی ہیں اور پورے عالم میں مسلمان عورتیں غیر معمولی اور نہ محسوس طریقہ پر دنیا کی فریفتہ اور ناشائستہ اعمال سے متاثر ہوکر خوف الٰہی کے بغیر مغربی تہذیب کے گڑھے میں کود رہی ہیں عورتیں گھروں کی زینت ہوتی ہیں نہ کہ بازاروں کی، جیسا کہ تالی دو ہاتھ سے بجائی جاتی ہے تو اس میں آواز بھی آتی ہے ایک ہاتھ سے تالی بجانا ناممکن ہے اسی طرح شریعت مطہرہ نے مردوں کے کام بھی بتائے ہیں اور عورتوں کے کام بھی بیان کیے ہیں مردوں کے ذمہ ذریعہ معاش کا انتظام کرنا ہے اور عورتوں کے ذمہ گھر کے نظام کو سنوارنا ہے اگر مرد اور عورت دونوں ہی ذریعہ معاش اور بازاروں کی زینت بننے لگیں گے تو پھر گھر کے داخلی امور تہس نہس ہو جائیں گے اور بچوں کی تربیت نہیں ہوسکے گی، پھر جب بچے بڑے ہوجائیں گے تو لوگوں سے شکایت کا موقع ملے گا کہ بچے بہت نافرمان ہیں ، اپنے بچوں کو فرمانبردار بنانے کے لیے بچپن میں ماں کی تربیت بچوں کے لیے بڑی اہمیت رکھتی ہے جس کا واضح اندازہ بچوں کی شادی و بیاہ کے بعد ہوتاہے کہ بچہ ماں کے تابع رہتاہے یا پھر اپنی زوجہ کی غلامی کرتا ہے آج کل دور حاضر میں یہی محسوس ہو رہا ہے کہ جوان بچے بوڑھے ماں باپ کی قدر کھو بیٹھتے ہیں ان تمام نوجوانوں کی نافرمانی کا نتیجہ ان کی اپنی مائیں ہیں۔
ماں کا مقام
عالم اسلام میں اپنے خاندان کے اعتبار سے لائقِ خدمت وعظمت ماں ہے، کثرت سے احادیث وواقعات ماں کی عظمتِ شان میں وارد ہوئی ہیں :
عن أبی ھریرۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ قال: قال رجل: یا رسول اللّٰہ من أحق الناس بحسن الصحبۃ؟ قال: أمک۔ ثم أمک۔ ثم أمک ثم أبوک۔ ثم ادناک ادناک (مسلم)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا، یارسول اللہ، لوگوں میں سب سے زیادہ حسن سلوک اختیار کرنے کے حق دار کون ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ آپ کی والدہ ہے، اسی جملہ کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے تین مرتبہ فرمایا ۔
اس روایت سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ ماں کی اس دنیا میں کیا قدر و منزلت ہے، آج ضرورت ہے کہ ہم والدین کی خدمت کرکے ان سے دعائیں لیں ؛ کیونکہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ تین آدمیوں کی دعا ایسی ہے جن کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا، ان میں سے ایک والدین کی دعا بیٹے کے لیے ہے۔
حضرت معاویہ بن جاہمہ السلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگے یارسول اللہ، میں آپ کے ساتھ جہاد میں جانا چاہتا ہوں خالص اللہ کی رضا اور إعلاء کلمۃ اللہ کی نیت سے،، تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ آپ کی والدہ با حیات ہیں ؟ تو انھوں نے عرض کیا: جی ہاں ! تو جناب محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم نے عرض کیا کہ جاؤ اپنی والدہ کی خدمت کرو، الغرض ،اسی طرح وہ صاحب راستہ بدل بدل کر تین مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے یہی سوال کیا تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے تینوں مرتبہ یہی جواب دیا اس میں اخیر میں ارشاد فرمایا کہ اپنی ماں کی خدمت میں لگ جائو، جنت پالوگے‘‘ (ابن ماجہ)
اس روایت میں ماں کی خدمت کو جہاد سے بھی افضل قراردیا گیا ہے، اس دور پر فتن میں نہایت بے غیرتی اور بے شرمی کے ساتھ اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق دنیا کی شیطانی انگڑائیوں میں مست ہوکر ماں باپ کے حکم کو پس پشت ڈالنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے۔
حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ (جو سید التابعین ہیں ) نے صرف اپنی بوڑھی ماں کی خدمت کے لیے دنیا میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے دیدار اور صحابیت کے شرف کو خیر باد کہہ دیا، یہ ادا اللہ تعالیٰ اور محبوب کبریاء سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو اتنی پسند آئی کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی زبان مبارک سے کہہ دیا کہ اے عمر! تمہارے پاس اہل کوفہ کا ایک وفد آئے گا، اس میں ایک یمن کا شخص ہوگا جس کو لوگ مزاق بنارہے ہوں گے اور اس کا نام ہوگا اویس، جب تمہاری اس سے ملاقات ہو تو میرا سلام عرض کردینا (اور صحابہ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ) تم سب اپنی مغفرت کے لیے دعاکی درخواست کرنا۔
بیوی اور بہن کا مقام
مختصراً یہاں یہ بات واضح کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ شریعت نے ہر عورت کا اپنی جگہ ایک مقام و مرتبہ رکھا ہے، بعض لوگ اتنے غلو پسند ہوتے ہیں کہ بیوی کو ماں اور بہن سے بڑھ کر مقام دیتے ہیں اور ان کے نزدیک ماں اور بہن کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور بعض وہ لوگ بھی موجود ہیں کہ ماں کی محبت میں بیوی اور بہن کی پٹائی کردیتے ہیں ، اور عموماً ہوتا یہ ہے کہ اگر والدین میں سے کسی کا انتقال ہوجائے تو مرحوم کی بیٹی کو میراث سے محروم سمجھا جاتا ہے؛ حالانکہ ان کا حصہ شریعت مطہرہ نے متعین کررکھا ہے اس طرح کی بہت سی غلطیاں ،مردوں سے عورتوں کے حقوق کے سلسلے میں ہوتی ہیں ، بعض اوقات میاں بیوی کے درمیان تعلقات اس قدر تلخ ہوجاتے ہیں یا ان کے درمیان اچانک جھگڑا اتنا زیادہ بڑہ جاتا ہے کہ جلدی ختم نہیں ہوتا، کئی مرتبہ نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ آئے دن مسلم معاشرے میں طلاق کے کتنے ہی واقعات رونما ہوتے ہیں جن کو بنیاد بنا کر مسلم مخالفین اسلام پر اعتراضات کی بوچھار کردیتے ہیں اور اسلام کو الزامات کے گھیرے میں لے لیتے ہیں ، گویا بہت سے مسلمانوں کا ذاتی عمل اسلام کی بدنامی کا باعث بنتا ہے؛ جب کہ اسلام کے مطابق اگر مسلمان ازدواجی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کما حقہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں ؛ تاکہ طلاق کے واقعات سامنے نہ آئیں ، نہ ان کے اپنے گھر خراب ہوں اور نہ اسلام بد نام ہو، یہ بھی یاد رہے کہ ازدواجی زندگی میں بد امنی قائم کرکے اچھی زندگی نہیں گزاری جاسکتی۔
شریعت نے ہر عورت کی درجہ بندی کی ہے، کوئی کسی سے کمتر نہیں ہے اور ہم مسلمانوں کو بالکل بھی یہ گوارا نہیں کہ اسلام کے داخلی امور کے ساتھ کوئی چھیڑ خوانی کرے،اور مذہب اسلام کے ایوان کو دھکا لگے یہ گوارا نہیں ہے، ہم مسلمان اپنے داخلی معاملات کو سلجھانے کی مکمل سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔
—————————————–
دارالعلوم ، شمارہ : 5-6، جلد:103، رمضان – شوال 1440ھ مطابق مئی –جون 2019ء
* * *