از:   مولانا ابودانیال محمد رضی الرحمن

مدینہ منورہ

            ہندوستان کی موجودہ صورت حال کو سمجھنے کے لیے صاحب بصیرت یا بہت ہی زیادہ عقل مند ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ معمولی سمجھ بوجھ والا انسان بھی اس کو کسی نہ کسی حد تک سمجھ رہا ہے اور اسے یہ اندازہ ہو رہا ہے کے ایک منظم سازش کے تحت ملک کو ایک خاص رخ اور جہت پر لے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے،  ایسی حالت میں مسلمانوں کے ملی قائدین کی ذمہ داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں۔

            ذیل کی سطروں میں قرآن کریم، جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی، خلفائے راشدین کے احوال اور  علمائے امت کی تابندہ تاریخ کی روشنی میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ ملی قائدین کے اوصاف کیا ہونے چاہیے ؟اور ان کے اندر کون کون سی خصوصیات ہونی چاہیے،؟ جس سے جہاں ایک طرف ملی قائدین کو اپنے سلسلے میں غور و فکر کی دعوت دینا مقصود ہے، وہیں دوسری طرف اس سے عوام کو یہ سمجھنے میں سہولت ہوگی کہ حقیقی معنوں میں ہمارے قائد کون ہیں ، جن کے مشورے پر اوران کے زیر قیادت انفرادی و اجتماعی معاملات میں ہمیں چلنا چاہیے۔

            ۱- اخلاص:سب سے پہلی اور بنیادی صفت جو ملی قائد کے اندر ہونی چاہیے وہ مخلص ہونا ہے کہ ملی قیادت کا مقصد نہ تو نام و نمود ہو اور نہ ہی دوسری حقیر دنیوی منفعت، بلکہ اس کے پیچھے مقصد صرف اور صرف اللہ کی رضا اور انسانیت کو نفع پہنچانا ہو۔ حدیث پاک میں ہے کہ اعمال کا مدار نیتوں پر ہے (صحیح بخاری، حدیث نمبر:۱)کہ نیت کی بہتری معمولی عمل کو بھی خاص بنا دیتی ہے اور نیت کی خرابی بڑے سے بڑے عمل کو ضائع کردیتی ہے، چنانچہ حدیث پاک میں ایک مجاہد، ایک عالم اور اللہ کے راستے میں خرچ کرنے والے ایک مالدار کا تذکرہ آیا ہے کہ تینوں کا مقصد اللہ کی رضا نہیں تھی؛ بلکہ دنیوی عزت اور نام و نمود ان کا مقصد تھا، ایسے تینوں لوگوں کو کھینچ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر:۱۹۰۵) ان دونوں احادیث پاک سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی اور سچاقائد وہ ہے، جس کی نیت محض اللہ کی رضا اورانسانیت کو نفع پہنچانا ہو۔

            ۲- ادب اختلاف کو ملحوظ رکھنا:اللہ تبارک وتعالی نے انسانوں کے ذہن کو اور ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو مختلف بنایا ہے، چنانچہ باہمی رائے کا مختلف ہونا اور ایک ہی  معاملہ میں دو یا اس سے زیادہ نقطہٴ نظر کا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی قابل مذمت بات ہے،لیکن قابل مذمت چیز یہ ہے کہ رائے کے اختلاف کو نئی جہتوں سے سوچنے سمجھنے کی کوشش  کے بجائے مخالفت اور دلوں کے بیچ دوری کا ذریعہ بنا لیا جائے۔ کیوں کہ جہاں رائے کا مختلف ہونا رحمت ہے،  وہیں اس کی وجہ سے مخالفت اور باہمی نا اتفاقی کی فضا کا پیدا ہونا  امت  کے لیے بد ترین قسم کی مصیبت ہے۔ (سورہ انفال:۴۶)

            چنانچہ ملی قائدین کے لیے خصوصیت سے یہ بات ضروری ہے کہ وہ ادب اختلاف کو جانیں اور سمجھیں۔ اور اختلاف کی صورت میں ہمیشہ ادب اختلاف کو ملحوظ رکھیں کہ اس صورت میں اس سے فکر کے نئے دروازے وا ہوتے ہیں ، اوراس کے ساتھ ساتھ انتشار کی مصیبت سے بھی امت محفوظ رہتی ہے۔

            ۳- فروعی مسائل  کے اختلاف سے بلند ہوکر متفق ہونا اور رکھنا:امت کی ایک بڑی جماعت ایسی ہے کہ اعتقاد اور اخلاقیات کے باب میں ان کے درمیان اتفاق ہے، لیکن بعض فروعی اور روزمرہ کے بعض جزوی مسائل میں ان کے بیچ اختلاف ہے اور یہ جزوی مسائل میں اختلاف کا ہونا درحقیقت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے منشا کے مطابق ہے، کیونکہ جس طرح اعتقاد اور اخلاقیات کے مسائل کو قرآن و سنت میں واضح طور پر بیان کر دیا گیا ہے، اسی طرح اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان جزوی مسائل کو بھی ایسی وضاحت اور تفصیل کے ساتھ بیان کرسکتے تھے کہ اس میں دوسری رائے کی کوئی گنجائش ہی نہ رہے، لیکن ایسا نہیں کیا، جو اس بات کا صاف پتہ دیتا ہے کہ ان فروعی مسائل میں اختلاف کا ہونا اور اس سے امت کے لیے مختلف راہوں اور آسانیوں کا پیدا ہونا منشائے خداوندی ہے۔

            ملی قائدین کے لیے یہ ضروری ہے کے وہ ان جزوی مسائل میں چاہے جو بھی رائے رکھتے ہوں اور جس رائے پر بھی ان کا عمل ہو، لیکن وہ ان جزوی مسائل کے اختلاف میں نہ الجھیں ؛ بلکہ امت کے وسیع تر مفاد میں اتفاقی بنیادوں پر تمام لوگوں کو جوڑ کر رکھنے کی کوشش کریں اور المسلمون کجسد واحد کی تعبیر بناکر امت کو رکھنے کی کوشش کریں۔

            ۴- دوسرے مذاہب کے لوگوں سے تعلقات استوار رکھنا:اسلامی نقطہ نظر سے اس روئے زمین پر جتنے بھی لوگ ہیں ، ان کی دو قسمیں ہیں :ایک امت اجابت، دوسری امت دعوت ۔ امت اجابت ان لوگوں کو کہتے ہیں جنہوں نے بطور دین  ’’اسلام‘‘کو قبول کر رکھا ہے اور وہ مسلمان ہیں۔  امت دعوت ایسے لوگوں کو کہتے ہیں جو مسلمان نہیں ہیں ، وہ یا تو اسلام کے علاوہ کسی اور دین کے پیروکار ہیں ،یا مطلق کسی دین کو مانتے ہی نہیں ہیں۔ پہلی قسم کو امت اجابت اس لیے کہتے ہیں کہ انھوں نے اسلام کو قبول کیا اور دوسری قسم کو امت دعوت اس لیے کہا جاتا ہے کے مسلمانوں کے لیے وہ دعوت دین کا محل ہیں اور مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ ان تک اسلام  کے عقائد و نظریات کو بہتر اسلوب میں پہنچائیں۔

            کسی بھی قوم تک اسلام کی دعوت پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ان کو اپنے آپ سے مانوس کیاجائے، چنانچہ ملی قائدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ مسلمانوں اور اپنے ملک اور سماج میں موجود دوسرے مذاہب کے پیرو کاروں کے درمیان انسانیت کی بنیاد پر بہتر تعلقات اور رشتہ استوار کریں اور اسے باقی رکھنے کی کوشش بھی کرتے رہیں۔ یہ جہاں دعوت کے لیے ضروری ہے وہیں پرامن سماج کی تشکیل کے لیے بھی ضروری ہے ۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں موجود کافروں اور یہودیوں سے پہلے دن سے بہتر تعلقات رکھنے کی کوشش کی تھی۔ (زادالمعاد:۳/۵۸-۵۹)

            البتہ یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے ہمارے تعلقات کی بنیاد انسانیت، امن و امان اور سماجی فلاح وبہبودی پر ہو،  ان کے ایسے  مذہبی  معاملات میں شرکت پر نہ ہو جو کفریہ اعتقاد پر مشتمل ہوں ، کیونکہ تعلقات کے استوار رکھنے کا مفہوم ہرگز یہ نہیں کہ کہ اپنے ملی تشخص اور دینی شعار کو نظر انداز کردیا جائے یا اس سے غفلت برتی جائے۔

            ۵- ملی قائدین کی پرسنل اور پبلک (شخصی اور سماجی) زندگی:ملی قائدین کی بھی دوسرے لوگوں کی طرح شخصی اور سماجی دونوں طرح کی زندگی ہوتی ہے،لیکن یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ عام لوگوں کی شخصی زندگی کا دائرہ بہت وسیع ہوتا ہے اور سماجی زندگی کا دائرہ اس کے مقابلے میں تنگ ہوتا ہے؛ لیکن ملی قائدین کی صورت حال بالکل اس کے برعکس ہوتی ہے کہ ان کی شخصی زندگی کا دائرہ بہت تنگ ہوتا ہے اور سماجی زندگی کا دائرہ بہت وسیع ہوتا ہے۔ چنانچہ اختصار کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملی قائدین کے لیے شخصی زندگی کا دائرہ، بس اندرون خانہ کے معاملات ہیں اور ان میں سے بھی کوئی اچھی یا بری بات باہر آجائے، تووہ بھی شخصی نہیں رہتی ہے،  چنانچہ اس پہلو سے ملی قائدین کے لیے دو باتیں بہت ہی اہم ہیں :ایک یہ کہ اندرون خانہ کے معاملات بھی اس قدر بہتر رکھیں کہ اگر وہاں کی بھی کوئی بات باہر لوگوں کے درمیان آئے تو وہ ان کی نیک نامی ہی کا سبب بنے،دوسرے یہ کہ سماجی سطح پر کچھ کرکے یا کچھ کہہ کے ان کا یہ کہنا کہ یہ ان کا شخصی عمل یا شخصی رائے ہے نامناسب اور نا قابل قبول بات ہے، کیوں کہ وہ اسے خواہ شخصی عمل یا شخصی رائے قرار دیں ، لیکن اسے ان کے موافقین اور مخالفین  ان کے ملی قائد ہونے کے اعتبار سے لیں گے، اور اسی اعتبار سے سماج پر مثبت یا منفی اثر پڑے گا اور ملت اسلامیہ کے بارے میں دوسرے لوگ رائے قائم کریں گے اور تبصرہ اور تجزیہ کریں گے۔

            ۶- شخصی زندگی کا نمونہ ہونا:گناہوں کی آلائش سے پاک  انبیاء کرام علیہم الصلاۃ و السلام کی مبارک زندگی تھی اور مکمل آئیڈیل اور نمونہ ہمارے آقا  محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مسعود ہے،  ملی قائدین نہ تو انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی طرح معصوم ہو سکتے ہیں اور نہ ہی سید الاولین و الآخرین صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح مکمل نمونہ اور آئیڈیل؛ لیکن اتنا ضرور ہے کہ ملی قائدین کی زندگی عام لوگوں کی زندگی کے مقابلہ میں تین اعتبار سے بہت بہتر ہونی چاہیے:ایک دینی اعتبار سے کہ ظاہری طور پر فرائض و واجبات کا اہتمام کرنے والے ہوں اور عمومی دینی صورت حال عام مسلمانوں سے بہت بہتر ہو، دوسرے کردار کے اعتبار سے کہ ان کا کیرکٹر بیداغ ہو، تہمت کی جگہوں سے بچتے ہوں اور ان کے بارے میں کوئی مبینہ کردار کی کمزوری ثابت بھی نہ ہو۔ تیسرے مالی معاملات میں صاف وشفاف حساب وکتاب رکھنے والے ہوں کہ پیسوں اور زمین وجائداد کے معاملے میں کوئی خردبرد،  ان کے بارے میں ثابت نہ ہو۔

            یہ ایک عمومی انسانی مزاج ہے کہ وہ خود خواہ  بے دین ہو یا کیرکٹر لیس اور بے ایمان، لیکن وہ ملی قیادت کے لیے اپنے جیسے کسی بھی آدمی کو قبول نہیں کر سکتا ہے، وہ قائد کے اندر اوپر مذکور تینوں باتوں میں عام لوگوں کے مقابلہ بہتری کا خواہاں ہوتا ہے، کیوں کہ ملی قیادت کا مطلب ہوتا ہے دلوں پر حکمرانی، جس کی اجازت لوگ کسی کو ان اوصاف کے بغیر نہیں دیتے ہیں۔

            ۷- وسعت ظرفی : اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا (سورہ عنکبوت:۶۹) یہ فرمان واضح طورپر ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی تک پہنچنے اور اس کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے مختلف طریقے اور راستے ہیں ، جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک ذات صرف اور صرف ایسی تھی کہ جس نے اللہ کی رضا مندی کے حصول کے ہر طریقے کو عملی اور تعلیمی طور پر ہمیں بتایا، باقی جو لوگ ہیں ، وہ فطرت کے عمومی ’’تقسیم کار‘‘کے نظام پر کام کرتے ہیں۔

            چنانچہ ملی قائدین کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ وہ دین اور امت مسلمہ کی ایک یا چندپہلوؤں سے خدمت کر رہے ہیں ، ان کے علاوہ دنیا میں بلکہ خود ان کے اردگرد سیکڑوں ایسے لوگ اور قائدین ہیں ، جو اسلام اور مسلمانوں کی دوسرے پہلوؤں سے خدمت کر رہے ہیں۔ تمام قائدین کے دل میں تعصب کے بجائے باہم ایک دوسرے کے حق میں وسعت ظرفی ہونا چاہیے کہ اللہ کے دوسرے بندے بھی مختلف پہلوؤں سے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت میں جڑے ہیں ، ان کی وجہ سے ہماری ذمہ داری بہت حد تک ہلکی ہو گئی ہے، اور کام آسان ہو گیا ہے۔

            اپنے ہی کام کو اسلام اور مسلمانوں کا کام سمجھنا اور اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں دوسرے مفید کاموں کو دین کی خدمت اور اللہ کی رضا جوئی کا سبب نہ سمجھنا ذہنی تنگی اور تنگ ظرفی کی دلیل ہے، اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ بعض دوسرے کام کرنے والوں کے کام کے طریقے سے اختلاف ہو سکتا ہے یا بعض بنیادی امور میں بھی اختلاف ممکن ہے، لیکن اس اختلاف کے با وجود قائدین کو دوسروں کے صحیح کاموں کا اعتراف کرنا چاہیے اورتنگ نظری سے گریز کرنا چاہیے۔ (سورہ مائدہ:۸)

            ۸- سوجھ بوجھ:اللہ تبارک وتعالی نے انسانوں کو سمجھ بوجھ کے اعتبار سے مختلف بنایا ہے، بعض ناسمجھ ہوتے ہیں کہ سامنے کی بات بھی انہیں سمجھ میں نہیں آتی رہتی ہے، بعض معمولی سمجھ بوجھ کے ہوتے ہیں کہ سامنے کی باتوں کو سمجھ سکتے ہیں ؛ لیکن ان کا ذہن تیزی کے ساتھ معاملے کو سمجھنے اور نتیجے تک پہنچنے سے قاصر رہتا ہے، بعض لوگوں کو اللہ تبارک وتعالی نے خوب سمجھ بوجھ اور فہم و فراست ودیعت کیا ہوتا ہے اور ان کا ذہن رسا ہوتا ہے۔

            ملی قائدین کی یہ بنیادی صفت ہونی چاہیے کہ ان کا ذہن رسا ہو اور ان کی سمجھ بوجھ عام لوگوں سے بہت بڑھ کر اور بہتر ہو، وہ بہت ہی تیزی کے ساتھ حالات کو سمجھ سکیں ، اس کا تجزیہ کرسکیں اور نتیجے تک پہنچ سکیں ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنگ کے موقع پر بظاہر غیر متعلق سوالات پوچھ کر مخالف فوج کی تعداد کا اندازہ کرلیا تھا، (مسند بزار، حدیث نمبر:۶۵۰) حدیث اور سیرت کی کتابوں میں اس جیسے بہت سے واقعات ملتے ہیں اور تاریخ کی کتابیں بھی علماء اور ملی قائدین کے فہم و فراست کے قصوں سے بھری ہیں۔ غرض کہ صحیح ملی قائد وہی شخص ہوسکتا ہے، جسے اللہ عزوجل نے خصوصی فہم و فراست اور سمجھ بوجھ سے نوازا ہو۔ 

            آج کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جہاں بولنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے، وہاں بھی بولنے اور بیان بازی سے گریز نہیں کیا  جاتا ہے، یہ سراسر نا سمجھی اور لغو کام  میں پڑنا ہے، جس کا فائدہ تو ملت کو کچھ بھی نہیں ہوتا ہے، ہاں ! وہ اکثر نقصان کا سبب ضرور بن جاتا ہے۔

            ۹- درد مندی:ایک باپ دن و رات اپنے بچوں اور اپنی اولاد کے لیے فکر مند رہتا ہے اور تگ و دو کرتا ہے، محنت و مشقت کے کام کرتا ہے اور ان سب کے پیچھے دردمندی کا جذبہ ہوتا ہے کہ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد بہتر سے بہتر طور پر رہے اور اسے کسی قسم کی مشقت چھو کر بھی نہ گزرے۔

            ملی قائدین کے اندر امت مسلمہ کے لیے بلکہ انسانیت کے لیے اسی جیسی فکر مندی اور دردمندی کا ہونا ضروری ہے، تب ہی ملت کے فائدے کے لیے بے لوث خدمت کرسکتے ہیں ، قربانی دے سکتے ہیں ہم سب کے آقا سید الاولین والآخرین محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی فکر مندی اور دردمندی تو اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ اللہ تبارک وتعالی کو آپ کی اس بے چینی پر رحم آ جاتا تھا چنانچہ اس کا اظہار اللہ تبارک وتعالی نے قرآن کریم کی مختلف آیتوں میں کیا ہے،  جیسے سورہ کہف کی یہ آیت: فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلَیٰ آثَارِہِمْ إِن لَّمْ یُؤْمِنُوا بِہَٰذَا الْحَدِیثِ أَسَفًا(۶)

            ۱۰- کام کے لیے مفید افراد کو جمع کرنا:کوئی بھی ملی قائد تن تنہااس  کاز کو کو انجام نہیں دے سکتا ہے، جس کو اس نے اپنا مقصد بنایا ہے، اس کے لیے اسے مختلف صلاحیتوں کے لوگوں کو جمع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، ایسے میں ملی قائد کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے کازکے لیے ہر ایسے مفید آدمی کو اپنے ساتھ جوڑنے اور جمع کرنے کی کوشش کرے، جواس مقصد کے لیے مفید اور نفع بخش ہو اور افراد کے انتخاب میں معیار صلاحیتوں کو رکھے۔ اور ایسا مضبوط نیٹ ورک بنائے کہ اسباب کی دنیا میں متعینہ مقصد کے حصول میں کوئی رکاوٹ نہ رہ جائے۔

            ۱۱- افرادی قوت کو مالی قوت پر ترجیح دینا:قرآنِ کریم نے مال کے بارے میں قیاماً کا لفظ اِستعمال کیا ہے، اور قیام اور قوام ایسی چیز کو کہتے ہیں جس سے کسی دُوسری چیز کا وجود قائم ہو، گویا اِنسانی زِندگی کے قائم رہنے کے لیے مال و دولت ایک اَہم ذریعہ ہے۔ چنانچہ ملی قائدین کو بھی اپنے کاموں کے حصول کے لیے مال کی ضرورت ہوتی ہے۔ 

            مال کی ضرورت اپنی جگہ مسلّم؛ لیکن اس سے زیادہ اہم افرادی قوت ہوا کرتی ہے، لہٰذا ملی قائدین کو اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لیے روپیوں پیسوں کی فکر ضرور کرنی چاہیے، لیکن اس سے بڑھ کر افرادی قوت کو جمع کرنے اور اس کو جوڑے رکھنے کی طرف توجہ رکھنی چاہیے اور تھوڑے سے مالی منفعت کے لیے افرادی وسائل کو ہرگز ہرگز کمزور نہیں کرنا چاہیے کہ بہت ساری جگہوں پر مال کی قلت کی تلافی کی جا سکتی ہے،لیکن افرادی وسائل کی کمی کی تلافی مشکل ہوتی ہے؛ بلکہ بسا اوقات مقصد کے حصول میں مانع ہوجاتی ہے۔

            ۱۲- اقربا ء پروری سے گریز کرنا :ملی قیادت قائدین کے ذمہ عام مسلمانوں کی امانت ہوا کرتی ہے اور امانت کے بارے میں عمومی اسلامی اصول یہ ہے کہ اس کو اس کے مستحق تک پہنچانا لازم اور ضروری ہوا کرتا ہے، یہ خاندانی ورثہ نہیں ہوتا ہے،  جو بطور میراث نسل در نسل منتقل ہوتی جائے۔

            چنانچہ ملی قائدین کا یہ دینی فریضہ ہے اور اللہ کی بارگاہ میں جواب د ہی کی بات ہے کہ وہ ملی قیادت کو خاندانی ورثہ نہ بنائیں ، بلکہ ایسا نظام اور سسٹم بنائیں کہ ان کے بعد مشورے سے مناسب اور لائق آدمی قیادت کی باگ ڈور سنبھالے، اس سلسلے میں اقرباء پروری کی شریعت نے کسی بھی طرح گنجائش نہیں رکھی ہے، ملت اسلامیہ کی امانت ملت اسلامیہ کے لائق سپوتوں تک پہنچانے کا نظام اور سسٹم رکھنا شرعی نقطہء نظر سے ملی قائدین پر لازم اور ضروری ہے۔

            اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور آپ کے عمل سے نیز صحابہ کرام کے تعاملات اور ان کے اقوال کی روشنی میں یہ بات اس قدر واضح ہے کہ اس کے ثبوت کے لیے دلیل وحجت کی چنداں ضرورت نہیں۔

            ۱۳- تول کر گفتگو کرنا:الفاظ خواہ زبان سے نکلیں یا قلم سے،  مثبت رخ پر ہوں تو قوموں کی تعمیر میں ان کا بڑا رول ہوتا ہے اور اگر منفی انداز کے ہوں تو قوموں کی تخریب میں بھی نمایاں کردار ادا کرتے ہیں ، یہی وجہ کہ اللہ عز وجل نے بہت سنبھل کر بولنے اور الفاظ منہ سے نکالنے کا حکم دیا ہے: (ق:۱۸) اور دنیا کے سب سے بڑے دانا صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی لفظوں کے زہریلے تیر سے انسانیت کو بچانے کے لیے اچھے مسلمان ہونے کا معیار ہی یہ قرار دیا ہے کہ جس کی زبان سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں (صحیح بخاری، حدیث نمبر:۱۰)۔

            ملی قائدین پر اپنوں اور غیروں سب کی نظر رہتی ہے اور ان کی باتیں اپنوں میں مثبت یامنفی اثر چھوڑتی ہیں ، اسی طرح غیروں میں ان کے چند جملے بسا اوقات پوری ملت کے لیے باعث فخربنتے ہیں ، توکبھی باعث ننگ و عار، کبھی ان کی زبان کی معمولی سی لغزش امت مسلمہ اوراسلامی تعلیمات  کے لیے استہزاء کا سبب بن جاتی ہے۔

            موجودہ عہد تیز رفتار ذرائع ابلاغ کا دور ہے، منٹوں میں نہیں ؛ بلکہ ادھر بات زبان سے نکلی اور ادھر لوگوں تک پہنچ گئی، اور یہ بھی نہیں کہ مخصوص خطہ اور علاقے تک پہنچی، بلکہ مشرق و مغرب کی سرحدوں کو عبور کر کے سارے عالم تک  پہنچ جاتی ہے، ایسے میں ملی قائدین کی یہ شرعی اور سماجی ذمہ داری ہے کہ جو کچھ بولیں بہت تول کر بولیں ، ذہن کے افق کو وسیع کر کے بولیں ، جغرافیائی حدوں سے ذہن کو بلند کر کے بولیں کہ ان کا ایک غلط جملہ بسااوقات ملت اسلامیہ کے لیے باعث ننگ و عار ہوسکتا ہے اور اس کی دھمک جس قدر دورتک پہونچے گی، اللہ کے یہاں پکڑ اتنی ہی سخت ہوتی چلی جائے گی۔

            ملی قائدین کو مشرق سے لے کر مغرب تک اور شمال سے لے کر جنوب تک دنیا کے ہر معلوم خطے کو ذہن میں رکھ کر کوئی بات کہنی چاہیے یا کوئی بیان دینا چاہیے، کیوں کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک مخصوص ماحول میں کوئی بات کوئی خاص معنی نہیں رکھتی ہے، لیکن دوسری جگہ وہی بات الیکٹرانک میڈیا پر مباحثہ اور مذاکرہ کا سبب بن جاتی ہے اور معاندین اسلام کو یہ موقع دے دیتی ہے کہ اس کو دوسری جگہوں میں مسلمانوں کی ایذا رسانی کا سبب بنائیں۔

            ۱۴- ترجیحات کا تعین:ملی قائدین کے لیے ایک نہایت ہی اہم معاملہ ترجیحات کے تعین کا ہے، جہاں اس میں غلطی اللہ رب العزت کی بارگاہ میں ان کو جواب دہ بناتی ہے، وہیں بسا اوقات ترجیحات کے تعین میں لغزش ملت کے لیے بڑے نقصان کا سبب بن جاتی ہے، ملی قائدین کے سامنے ترجیحات کے معاملے میں صورت حال بالکل واضح ہونی چاہیے کہ ہمارا بنیادی مقصد کیا ہے؟ اور اس کے حصول کے لیے ہمیں کن کن وسائل کو اختیار کرنا ہے؟ ان وسائل میں سے کون زیادہ اہم ہیں ؟ اور کون کم؟ اسی طرح ان میں کون ایسے وسائل ہیں ، جو اہم تو ہیں ، لیکن ان کی ضرورت گاہے گاہے ہوتی ہے اور ان میں کون ایسے وسائل ہیں ؟ جن کی ضرورت مستقل طور پر ہوتی ہے اور جس کا اثر پوری قوم کے مستقبل پر پڑتا ہے۔

            مثال کے طور پر وقتی ضرورت اور فوری اصلاح کے لیے اسی طرح فوری کسی بات کی طرف متوجہ کرنے کے لیے جلسے جلوس کی اہمیت ہے، لیکن لٹریچر اور کتابیں ایسی چیز ہوتی ہیں کہ ان کا اثر دیر پا ہوتا ہے اور قوموں کے فکری دھارے اور سوچ کو بدل دیتی ہیں ، اسی طرح کسی بھی قوم کے لیے تعلیم کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی سی ہوتی ہے کہ اچھی تعلیم اور تربیت کے بغیر کوئی قوم نہ تو اپنا تشخص برقرار رکھ سکتی ہے اور نہ ہی  دنیا میں بڑا کام اور بڑا رول ادا کرسکتی ہے۔

            لہٰذا ملی قائدین کو مالی اور افرادی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے یہ ضرور ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ہم جلسہ جلوس پر جو کہ وقتی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے ہوا کرتا ہے اپنے کتنے وسائل کو استعمال کرتے ہیں ؟  لٹریچر اور کتابوں کی تیاری پر اور ان کی نشرواشاعت پر ہم کس قدر وسائل استعمال کرتے ہیں ؟ اسی طرح پوری ملت کی صحیح خطوط پر تعمیر و ترقی کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز یعنی بہتر تربیت کے ساتھ اچھی تعلیم کے فروغ پر کس قدر وسائل استعمال کرتے ہیں ؟  باطل قوتوں کی طرف سے پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے کئے جانے والے پروپیگنڈوں کا مقابلہ کر نے کے لیے ہم میڈیا  ہاؤس وغیرہ کے قیام پر اپنے کس قدروسائل استعمال کرتے ہیں ؟

            یہ وہ سوالات ہیں ، جو ملی قائدین کو مالی اور افرادی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے اپنے ذہن میں ضرور رکھنے چاہئیں۔

——————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 5-6،  جلد:103‏،  رمضان – شوال 1440ھ مطابق مئی –جون 2019ء

*    *    *

Related Posts