از: مولانا رفیع الدین حنیف قاسمی
استاذ دارالعلوم دیودرگ، کرناٹک
پانی ، یہ اللہ عزوجل کا عظیم عطیہ ہے ، اس کی عمومی ضرو رت کے پیش نظر اللہ عزوجل نے اس کا فیضان بھی بندوں پر بے پایاں فرمایاہے ، یہ نہ صرف انسان کی ضرورت ہے ؛ بلکہ کی ہر شئے کی بقا اور حیات کا راز بھی اسی بیش قیمت نعمت پر موقوف ہے ، پانی کی قدر واہمیت کو بتلانے کے لیے اللہ عزوجل کے اس ارشاد کی جانب رہنمائی اور اس کے پیغام کی جانب اشارہ ہی کافی ہے ۔ارشاد باری عزوجل ہے :’’ اور ہم نے پانی سے ہرچیز کو زندہ کیا تو کیا یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں لاتے‘‘(سورۃ الأنبیاء: ۳۰)پانی کی اسی اہمیت وافادیت اور زندگی اور حیات کے بقا میں اس کے کردار کی وجہ سے اللہ عزوجل نے اس کا تذکرہ قرآن کریم میں ۶۳ مرتبہ فرمایا ہے ، اللہ عزوجل نے پانی کی اسی اہمیت کے پیش نظر قرآن کریم میں مختلف مقامات پر اس کا ذکرکیا ہے ۔
کہیں تو اللہ عزوجل نے پانی کو ’’طہور‘‘ کہا ہے ،یعنی پاک کرنے والا ، پاکی اور طہارت کو شریعت اسلامی جو مقام حاصل ہے یہ کسی سے مخفی اور پوشیدہ نہیں کہ خصوصاً اسلامی عبادات کی ادائیگی کے لیے جو وضو اورغسل کا حکم ہے پاک پانی ہی اس کی اساس اور اصل ہے ارشاد خداوندی ہے ’’ہم نے آسمان سے پاک پانی نازل کیا‘‘ (الفرقان : ۴۸)
کہیں اللہ عزوجل نے پانی کو ’’مبارک ‘‘ کی صفت کے ساتھ متصف کیاہے ، کسی چیز کا باعث برکت ہونا یہ خوبی تو ہزار ہا خوبیوں سے بڑھ کر اور برتر ہے ، اس حوالے سے ارشاد خدوندی ہے: ’’اورہم نے آسمان سے بابرکت پانی برسایا اور اس سے باغات اور کٹنے والے کھیت کے غلے پیدا کیے۔‘‘ (سورہ ق:۹)
اور ایک صفت پانی کی یہ بتلائی کہ پانی زمین کی زندگی اور حیات کا ذریعہ ہے ، کھیتی ، باغات ، غلے ، اناج اور قسم کے پھول پودوں پیڑوں کے وجود کا سبب ہے ،جس سے نہ صرف زمین کو رونق اور تازگی حاصل ہوتی ہے ؛ بلکہ غلوں اور پیڑ پودوں اور پتوں اور سبزیوں کی شکل میں جو اناج انسان کے بشمول ہر ذی روح کو حاصل ہوتا ہے وہ بھی پانی کے ہی رہینِ منت ہیں ؛ چنانچہ اس حوالے سے ارشاد خداوندی ہے :’’اور ہم نے آسمان سے بابرکت پانی برسایا اور اس سے باغات اور کٹنے والے کھیت کے غلے پیدا کیے۔ ‘‘(سورۃ ق : ۹)
پانی کی ایک خوبی یہ بھی اللہ عزوجل نے بیان فرمائی کہ پانی کو ’’فرات‘‘ یعنی پاک وصاف وشفاف قراردیا، جوکہ نہ صرف اس کی شفافیت اور اس کے قابل استعمال اور عظیم القدر اور بیش بہا وبیش قیمت ہونے پر دال ہے ؛بلکہ انسان کو ساتھ ہی ساتھ یہ دعوت دیتا ہے کہ انسان اس پانی کو اور اس کی شفافیت اور صفائی کو ملیامیٹ کرنے اور ختم کرنے والے امور سے بھی مکمل پرہیز کرے ،نہ جانے انسان نے اس وقت اس بیش بہا اور بیش قیمت شئے کو گدلا کرنے والے کتنے ہی ذرائع فیکٹریوں وغیرہ کی شکل میں ایجاد کر لیے جس غلیظ اور خراب مواد کے اخراج اور اس کے پانی میں رل مل جانے سے پانی کی شفافیت میں فرق آجاتا ہے ، اس حوالہ سے ارشاد باری عزوجل ہے ’’ اور تمہیں سیراب کرنے والا میٹھا پانی پلایا‘‘(سورۃ المرسلات : ۲۷)
بہرحال پانی کے اس کوکب ارضی کے بقاء میں اہمیت وافادیت کابالکل انکارنہیں کیا جاسکتا، روئے زمین کی ہر شئے کی بقاء وحیات کا دارومدار پانی پر موقوف ہے، یہاں ہم چند ایک آیتیں پیش کرتے ہیں جن میں اللہ عزوجل نے زمین کو پانی کے بغیر مردہ اوربے جان قرار دیا ہے ، جس میں تازگی شادابی اور ہریالی پانی کے وجود سے آتی ہے ،گویا کہ پانی کا وجود زمین کے بقاء کے لیے جسم کے لیے وجود کے روح کی قیمت رکھتا ہے ، اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں اس سے متعلق بے شمار آیتیں نازل فرما کر انسان کو دعوت فکر دی ہے کہ وہ پانی کی قدر وقیمت کا اندازہ لگائے اور وہ یہ جانے کہ پانی یہ وہ بیش قیمت اور بیش بہا شئے ہے اور وہ قیمتی سوغات اور روئے زمین کا عظیم سرمایہ ہے جس کے بغیر حیات کا تصور ہی نہیں۔
چنانچہ ایک جگہ اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے :
’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالی آسمان سے پانی برساتا ہے، پس زمین سر سبز ہو جاتی ہے، بیشک اللہ تعالی مہربان اور باخبر ہے۔‘‘(سورۃ الحج : ۶۳)اور یہ بھی ارشاد فرمایا:’’اور جو روزی اللہ تعالی آسمان سے نازل فرمایا پھر اس سے زمین کو اس کے مردہ ہوجانے کے بعد زندہ کیا‘‘ (الجاثیۃ:۵)اور یہ بھی ارشاد ہے :’’اور اللہ آسمان سے پانی برسا کر اس سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کر دیتا ہے۔ یقینا اس میں ان لوگوں کے لیے نشانی ہے جو سنیں۔‘‘(النحل : ۶۵)اور یہ بھی فرماتا ہے :’’اور اگر آپ ان سے سوال کریں کہ آسمان سے پانی اتار کر زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کس نے کیا؟ تو یقینا ان کا جواب یہی ہوگا اللہ تعالی نے‘‘(العنکبوت:۶۳) اور مزید فرماتا ہے :’’تو دیکھتا ہے کہ زمین بنجر اور خشک ہے پھر جب ہم اس پر بارش برساتے ہیں تو وہ ابھرتی ہے اور پھولتی ہے اور ہر قسم کی رونق دار نباتات اگاتی ہے‘‘(الحج :۵)اور یہ بھی ارشاد ہے ’’اور اس اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ تو زمین کو دبی دبائی دیکھتا ہے پھر جب ہم اس پر مینہ برساتے ہیں تو وہی ترو تازہ ہو کر ابھرنے لگتی ہے جس نے اسے زندہ کیا وہی یقینی طور پر مردوں کو بھی زندہ کرنے والا ہے‘‘(فصلت :۳۹)پس آپ رحمت الٰہی کے آثار دیکھیں کہ زمین کی موت کے بعد کس طرح اللہ تعالی اسے زندہ کر دیتا ہے؟ کچھ شک نہیں کہ وہی مردوں کو زندہ کرنے والا ہے اور وہ ہر ہرچیز پر قادر ہے۔(الروم: ۵۰)۔
چنانچہ جب پانی کے نزول کی وجہ سے مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے ـتو وہ کھیتوں ، غلات ، درختوں ، پھل ، پھول ،ترکایوں ،کھاس پھوس وغیرہ کی شکل میں اپنے خزانے اگلنا شروع کردیتی ہے جس پر نہ صرف انسانی زندگی کا دارومدار ہے ؛ بلکہ چرند پرند، جانور ، کیڑے مکوڑے اور حشرات الارض؛ بلکہ ہر حیوان کی زندگی اس پر موقوف ہے ، ا س کے ذریعے اندازہ لگایاجاسکتا ہے پانی کس قدر بیش بہا اوربیش قیمت شئے ہے ۔
چنانچہ پانی کے برسنے کے بعد جب زمین میں حیات اور زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے تو اس کے عوض میں خزانے اور غلات وہ اگلتی ہے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا :’’پھر برسات کی وجہ سے مختلف قسم کی پیداوار بھی ہم ہی پیدا کرتے ہیں۔تم خود کھاؤ اور اپنے چوپاؤں کو بھی چراؤ، کچھ شک نہیں کہ اس میں عقلمندوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں ‘‘(طہ : ۵۴)اوریہ بھی ارشاد خداوندی ہے :’’ کس نے آسمان سے بارش برسائی؟ پھر اس سے ہرے بھرے بارونق باغات اگائے؟ ان باغوں کے درختوں کو تم ہرگز نہ اگا سکتے،‘‘(النمل : ۶۰) اور یہ بھی ارشاد خداوندی ہے: ’’اور آسمانوں سے بارش برسا کر اس کے ذریعے تمہاری روزی کے پھل نکالے ہیں ‘‘(سورۃ ابراہیم : ۲۳)اور یہ بھی فرماتا ہے :’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالی آسمان سے پانی اتارتا ہے اور اسے زمین کی سوتوں میں پہنچاتا ہے پھر اسی کے ذریعے مختلف قسم کی کھیتیاں اگاتا ہے پھر وہ خشک ہو جاتی ہیں اور آپ انھیں زرد رنگ میں دیکھتے ہیں پھر انھیں ریزہ ریزہ کر دیتا ہے اس میں عقلمندوں کے لیے بہت زیادہ نصیحت ہے۔‘‘(سورۃ الزمر : ۲۱)اور یہ بھی فرماتا ہے :’’کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم پانی کو بنجر زمین کی طرف بہا کر لے جاتے ہیں پھر اس سے ہم کھیتیاں نکالتے ہیں جسے ان کے چوپائے اور یہ خود کھاتے ہیں ، پھر بھی یہ نہیں دیکھتے ۔‘‘(السجدۃ:۷۲)
خلاصہ یہ کہ پانی اللہ عزوجل کی عظیم اور بیش قیمت نعمت ہے، اس نعمت کی قدر دانی کی جائے ، اس کا تحفظ کیا جائے ، اور اس کو گدلا اور گندہ کرنے والے امور سے پرہیز کیا جائے ، فیکٹریوں کے غلیظ اور گندے مواد پانی میں نہ چھوڑے جائیں ،اس سے نہ صرف ہم اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں ؛ بلکہ فضا اور ماحو ل کوبھی گدلا کررہے اور اس عظیم نعمت خداوندی کی جس پر ساری دنیا کی حیات مبنی ہے، ہم اس کے ضیاع کے محرک بن رہے ہیں۔
—————————————-
دارالعلوم ، شمارہ : 5-6، جلد:103، رمضان – شوال 1440ھ مطابق مئی –جون 2019ء
* * *