سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان عظام مسئلہ ہائے ذیل کے متعلق:
(۱) ہجری مہینے کی ۲۹؍تاریخ کو ہندوستان کے اگر کسی بھی شہر میں چاند نظر آجائے، چاہے رویت ہلال کمیٹی کے ذمہ داروں نے خود دیکھا ہو یا اسی شہر میں جن حضرات نے چاند یکھا ہو وہ کمیٹی کو عینی شہادتیں دے دیں ، تو کیا اس بنیاد پر دوسرے شہروں کی رویت ہلال کمیٹیاں چاند ہونے کا اعلان کرسکتی ہیں ؟
(۲) جس شہر میں بھی چاند کی تصدیق ہوگئی ہو وہاں کی رویت ہلال کمیٹی کے ذمہ داروں سے فون پر بات کرکے اور فیکس، وہاٹس ایپ یا ای میل کے ذریعے تحریر منگواکر اور اس کے بعد اسی شہر کے تین چار معتبر حضرات سے فون کے ذریعے اگر اس کی تصدیق حاصل کرلی جائے تو کیا اس صورت میں استفاضے کی شان پیدا ہوجاتی ہے؟
(۳) اگر استفاضے کی شان پیدا ہوجائے تو دوسرے ہجری مہینوں کے ساتھ ساتھ رمضان اور عید کا اعلان کیا جاسکتا ہے؟
(۴) اگر ہندوستان کے کسی بھی حصے میں وہاں کے ذمہ دار علمائے کرام یا رویت ہلال کمیٹی کے ذمہ داروں نے چاند ہونے یا نہ ہونے کا اعلان کردیا تو کتنے فاصلے تک عوام اس فیصلے پر عمل کریں گے؟
براہِ کرم درج بالا سوالات کے جوابات مع حوالوں کے مرحمت فرمائیں۔ نوازش ہوگی۔
المستفتی (خالد رشید فرنگی محلی) صدر مرکزی چاند کمیٹی فرنگی محل لکھنؤ یکم محرم ۱۴۴۰ھ/ ۱۲؍ستمبر ۲۰۱۸ء
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
حامدا ومصلیا ومسلما، الجواب وباللّٰہ التوفیق:
(۱) اکابر کے راجح قول کے مطابق ہندوستان کا مطلع چونکہ ایک ہے؛ اس لیے اگر ہندوستان کے کسی بھی حصے میں چاند نظر آئے اور شرعی طریقے پر رویت ہلال کا فیصلہ ہوجائے، تو دوسرے شہر کی ہلال کمیٹیاں اُس کی بنیاد پر فیصلہ کرسکتی ہیں بس شرط یہ ہے کہ یہ اطلاع بہ طریقِ موجب دوسری جگہ پہنچے اور طریق موجب کی فقہا نے درج ذیل شکلیں تحریر فرمائی ہیں :
(الف) شہادت علی الرویت: چاند دیکھنے والے دوسری جگہ بذات خود آکر شہادت دیں۔
(ب) شہادت علی الشہادت: یعنی اگر دیکھنے والے گواہ خود حاضر نہ ہوسکیں ، تو ہر ایک گواہی پر دو گواہ ہوں اور وہ گواہ دوسری جگہ شہادت دیں کہ ہمارے سامنے فلاں شخص نے بیان کیا ہے کہ میں نے فلاں رات میں فلاں مقام پر اپنی آنکھوں سے چاند دیکھا ہے۔
(ج) شہادت علی القضاء: دو ثقہ عادل آدمی آکر اس بات کی شہادت دیں کہ ہمارے سامنے فلاں شہر کی ہلال کمیٹی کے سامنے چاند کی شرعی شہادت پیش ہوئی جسے کمیٹی کے افراد نے قبول کرکے چاند کا فیصلہ کرکے اعلان کردیا۔
(د) کتاب القاضی الی القاضی: یعنی کسی جگہ ہلال کمیٹی شرعی ثبوت کی بنیاد پر چاند کا فیصلہ کردے، پھر اپنے فیصلے کو دو گواہوں کے سامنے کاغذ میں تحریر کرے اور سر بہ مہر کرکے دوسرے شہر کی کمیٹی یا قاضی کے پاس بھیج دے اور فرستادہ گواہان یہ تحریر اس شہادت کے ساتھ پیش کریں کہ فلاں مقام کے قاضی نے یہ تحریر ہمارے سامنے لکھی ہے۔
(ھ) استفاضہ: یعنی کسی جگہ سے چاند کی خبر یا قاضی کے فیصلے کی خبر دوسرے شہر تک اس کثرت سے پہنچے کہ کمیٹی کو چاند کے ثبوت کا ظن غالب ہوجائے۔
ثم إنما یلزم الصوم علی متأخري الرؤیۃ إذا ثبت عندہم رؤیۃ أولئک بطریق موجب حتی لو شہد جماعۃ أن أہل بلدۃ قد رأوا ہلال رمضان قبلکم بیوم فصاموا، وہذا الیوم ثلاثون بحسابہم، ولم یر ہؤلاء الہلال لا یباح فطر غد، ولا یترک التراویح في ہذہ اللیلۃ؛ لأنہم لم یشہدوا بالرؤیۃ، ولا علی شہادۃ غیرہم، وإنما حکوا رؤیۃ غیرہم، ولو شہدوا أن قاضي بلدۃ کذا شہد عندہ اثنان برؤیۃ الہلال في لیلۃ کذا وقضی بشہادتہما جاز لہذا القاضي أن یحکم بشہادتہما؛ لأن قضاء القاضي حجۃ وقد شہدوا بہ کذا في فتح القدیر۔ (الہندیۃ:۱/۱۹۹)
(۲) خبر مستفیض میں راجح قول کے مطابق کوئی تعداد شرط نہیں ہے؛ بلکہ اتنے لوگوں کا خبر دینا کافی ہے کہ ہلال کمیٹی کے اراکین کو اطمینان ہوجائے، مختلف اطراف سے چاند کی خبریں آئیں اور مختلف آدمی چاند کے دیکھنے کی خبر دیں یا کسی شہر کی ہلال کمیٹی کے فیصلے کی خبر اس کثرت سے لوگ دیں کہ یہ گمان نہ ہوسکے کہ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں ؛ استفاضہ کہلائے گا، تعداد کی کثرت کے سلسلے میں ہلال کمیٹی کے ذمہ داروں کے اعتماد پر مدار ہے، غیرمحقق خبروں اور افواہوں کا کوئی اعتبار نہیں۔
واضح رہے کہ ہلال کمیٹی کے اراکین کے لیے مقامی سطح پر انتیستاریخ کو چاند دیکھنا اور اس کی تحقیقات حاصل کرناواجب وضروری ہے اور دوسرے علاقے کی خبر اگر بہ طریق استفاضہ حاصل ہوجائے اور مجاز کمیٹی کو اس پر اطمینان ہوجائے تو اس کے مطابق فیصلہ کرنا ضروری ہے، ہلال کمیٹی کو چاہیے کہ تحقیقات کے لیے جدید ذرائع مواصلات کا بھی استعمال کرے اور شرعی ضوابط کے مطابق ان سے فائدہ اٹھائے؛ لیکن رابطہ کرکے تحقیقات کرنا وجوب کے درجہ کی چیز نہیں ہے، اصل حکم یہ ہے کہ جب چاند نظر آجائے یا اس کی خبر بہ طریقہ موجب پہنچے اُس کے مطابق عمل کیا جائے۔ امدادالفتاویٰ میں ہے: سوال: جس شہر میں بوجہ ابر وغبار یا مطلع صاف ہونے کی صورت میں ۲۹؍شعبان یا رمضان کو چاند نظر نہ آیا ہو، کیا وہ مکلف ہیں یا نہیں کہ کوشش کرکے دوسرے شہروں سے خبریں منگائی جاویں۔ الجواب: چونکہ کوئی حکم بلادلیل ثابت نہیں ہوتا اور اس کے وجوب کی کوئی دلیل نہیں ، لہٰذا یہ امر واجب نہیں۔ (امداد الفتاویٰ:۲/۱۲۹، ط: کراچی) امدادالاحکام میں حضرت مولانا مفتی عبدالکریم صاحب نے بھی دوسری جگہ سے تحقیق کے عدم وجوب کی تصریح فرمائی ہے اور علامہ ظفر احمد عثمانی نے مفتی صاحب کے جواب کی تصویب کرتے ہوئے عربی میں یہ عبارت تحریر فرمائی ہے: قلت: الالتماس ہو طلب الشيء بنفسہ لا التنقب من الغیر فقد ورد في لیلۃ القدر التمسوہ في العشر الأواخر أی اطلبوہ منفردین لا أن تسألو عن کل أحد۔ (امدادالاحکام:۲/۱۷۷، ط:زکریا، دیوبند)
قال ابن عابدین: (وہو مفوض إلی رأي الإمام من غیر تقدیر بعدد) علی المذہب وعن الإمام أنہ یکتفی بشاہدین۔ (ردالمحتار:۳/۳۵۶، ط:زکریا، دیوبند)
[تنبیہ] قال ابن نجیم: (قولہ: والأضحی کالفطر) أي ہلال ذي الحجۃ کہلال شوال فلا یثبت بالغیم إلا برجلین أو رجل و امرأتین، وأما حالۃ الصحو فالکل سواء لابد من زیادۃ العدد علی ما قدمناہ، وإنما کان کہلالہ دون رمضان؛ لأنہ تعلق بہ حق العباد، وہو التوسع بلحوم الأضاحی۔ (البحرالرائق: ۲/۴۷۰، ط: زکریا، دیوبند)
قال ابن عابدین: وإذا کانت الاستفاضۃ في حکم الثبوت لزم العمل بہا، ہذا ما ظہر لي، فتأملہ۔ ثم اعلم أن المراد بالاستفاضۃ تواتر الخبر من الواردین من بلدۃ الثبوت إلی البلدۃ التي لم یثبت بہا لامجرد الاستفاضۃ؛ لأنہا قد تکون مبنیۃ علی إخبار رجل واحد مثلا فیشیع الخبر عنہ، ولا شک أن ہذا لا یکفي بدلیل قولہم: إذا استفاض الخبر، وتحقق فإن التحقق لا یکون إلا بما ذکرن۔ (منحۃ الخالق: ۱/۴۷۲، ط: زکریا، دیوبند)
یجب أن یلتمس الناس الہلال في التاسع والعشرین من شعبان وقت الغروب فإن رأوہ صاموہ، وإن غم أکملوہ ثلاثین یوما کذا في الاختیار شرح المختار۔ وکذا ینبغي أن یلتمسوا ہلال شعبان أیضا في حق إتمام العدد (الفتاویٰ الہندیۃ: ۱/۱۹۷)
(۳) اوپر جو صورت استفاضہ کی تحریر کی گئی ہے، اگر یہ صورت پیدا ہوجائے، تو رمضان اور عید اور دوسرے تمام مہینوں کے چاند کا اعلان کرسکتے ہیں۔
(۴) جس شہر میں یہ فیصلہ ہوا ہے اس شہر میں ، اسی طرح اس کے مضافات میں تو یہ فیصلہ نافذالعمل ہے، یعنی کسی بھی طرح اس کی اطلاع مل جائے، اس دائرہ کے لوگوں پر اس کے مطابق عمل درآمد شرعاً ضروری ہے، شہر اور مضافات کے علاوہ دیگر مقامات میں یہ فیصلہ اسی وقت نافذالعمل ہوگا جب استفاضہ یا کسی اور طریق موجب سے یہ خبر پہنچے۔
فقہاء کی درج ذیل عبارات سے یہ مسئلہ واضح ہوجاتا ہے:
(الف) قال ابن عابدین: والظاہر أنہ یلزم أہل القری الصوم بسماع المدافع أو رؤیۃ القنادیل من المصر؛ لأنہ علامۃ ظاہرۃ تفید غلبۃ الظن وغلبۃ الظن حجۃ موجبۃ للعمل کما صرحوا بہ واحتمال کون ذلک لغیر رمضان بعید إذ لا یفعل مثل ذلک عادۃ في لیلۃ الشک إلا لثبوت رمضان الخ۔ (رد المحتار:۳/۳۵۴)
(تتمۃ) لم یذکروا عندنا العمل بالأمارات الظاہرۃ الدالۃ علی ثبوت الشہر کضرب المدافع في زماننا، والظاہر وجوب العمل بہا علی من سمعہا ممن کان غائبا عن المصر کأہل القری ونحوہا کما یجب العمل بہا علی أہل المصر الذین لم یروا الحاکم قبل شہادۃ الشہود، وقد ذکر ہذا الفرع الشافعیۃ فصرح ابن حجر في التحفۃ أنہ یثبت بالأمارۃ الظاہرۃ الدالۃ التي لا تتخلف عادۃ کرؤیۃ القنادیل المعلقۃ بالمنائر قال: ومخالفۃ جمع في ذلک غیر صحیحۃ اھـ (منحۃ الخالق: ۲/۴۷۴)
(ب) ثم إنما یلزم الصوم علی متأخري الرؤیۃ إذا ثبت عندہم رؤیۃ أولئک بطریق موجب الخ (الہندیۃ: ۱/۱۹۹) مکمل عبارت کے لیے جواب نمبر ۱ ملاحظہ کریں۔
الجواب صحیح محمدمصعب عفی عنہ،محمداسداللہ غفرلہ، فخرالاسلام مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند | فقط والله تعالى أعلم بالصواب کتبہ الاحقر زین الاسلام قاسمی الہ آبادی دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۱۷؍۴؍۱۴۴۰ھ |
——————————————-
دارالعلوم ، شمارہ : 5-6، جلد:103، رمضان – شوال 1440ھ مطابق مئی –جون 2019ء
* * *