از: مولانا اخترامام عادل قاسمی

بانی ومہتمم جامعہ ربانی منورواشریف بہار

امام  ابویوسفؒ کے قول کی تشریح

            یہ تشریح جدید میرے علم کے مطابق پہلی مرتبہ مذکورہ بالا دونوں اکابر (خوارزمیؒ وتمرتاشی) کے حوالے سے امام حافظ الدین محمدبن محمدبن شہاب المعروف بابن البزازالکردری  الحنفی ؒ (م ۸۲۷ھ) کی مشہورزمانہ کتاب ’’فتاویٰ بزازیہ‘‘میں منقول ہوئی:

            ’’والتعزیر بأخذ المال أن المصلحۃ فیہ جائزۃ، قال مولانا خاتمۃ المجتہدین رکن الدین أبویحییٰ الخوارزمی: معناہ أن نأخذ مالہ ونودعہ فإذا تاب نردہ علیہ کما عرف فی خیول البغاۃ وسلاحہم وصوبہ الإمام ظہیر الدین التمرتاشی الخوارزمی قالوا ومن جملتہ من لایحضر الجماعۃ یجوز تعزیرہ باخذالمال(۲۰)۔

            اس کے بعد بزازیہ ہی کے حوالے سے یہ تشریح تمام کتب متاخرہ میں نقل ہوتی چلی گئی،علامہ ابن نجیم کی شہرۂ آفاق کتاب ’’البحرالرائق‘‘ میں جہاں یہ بحث آئی ہے، وہاں ابن نجیم ؒ نے پہلے یہ لکھا (جوتمام کتب متقدمہ میں بھی موجودہے)کہ امام محمدؒ نے اپنی کسی کتاب میں تعزیربالمال کاذکر نہیں کیاہے،پھرامام ابویوسف ؒ کاقول جوازنقل کیا،اوراس رائے کوفتاویٰ ظہیریہ اورالخلاصہ کے حوالوں سے مدلل کرنے کے بعداس کی ایک مثال پیش کی کہ جوشخص تارک جماعت ہواس سے مالی جرمانہ لیناجائزہے،اس کے بعدبزازیہ کے حوالے سے قول امام ابی یوسفؒ کی تشریح نقل فرمائی؛البتہ ابن نجیم ؒنے المجتبیٰ کے حوالے سے اس تاویل کے ساتھ ایک اورتاویل کوہم رشتہ کیاکہ اگرمجرم کے توبہ کی امیدنہ ہوتوحاکم جہاں مناسب سمجھے خرچ کرسکتاہے،اس طرح بات پھروہیں مالی جرمانہ کے سابقہ تصورکی طرف لوٹ کرچلی آئی اورگوکہ اصل مذہب عدم جوازہے؛لیکن ابن نجیم کی تشریح درتشریح نے عدم جوازکی شدت کوکم کردیاہے:

          وَأَفَادَفی الْبَزَّازِیَّۃِ أَنَّ مَعْنَی التَّعْزِیرِ بِأَخْذِ الْمَالِ علی الْقَوْلِ بِہِ إمْسَاکُ شَیْئٍ من مَالِہِ عندہٗ مُدَّۃً لِیَنْزَجِرَ ثُمَّ یُعِیدُہُ الْحَاکِمُ إلَیْہِ لَا أَنْ یَأْخُذَہُ الْحَاکِمُ لِنَفْسِہِ أو لِبَیْتِ الْمَالِ کما یَتَوَہَّمُہُ الظَّلَمَۃُ إذْ لَا یَجُوزُ لِأَحَدٍ من الْمُسْلِمِینَ أَخْذُ مَالِ أَحَدٍ بِغَیْرِ سَبَبٍ شَرْعِیٍّ وفی الْمُجْتَبَی لم یذکر کَیْفِیَّۃَ الْأَخْذِ وَأَرَی أَنْ یَأْخُذَہَا فَیُمْسِکَہَا فَإِنْ أَیِسَ من تَوْبَتِہِ یَصْرِفُہَا إلَی ما یَرَی وفی شَرْحِ الآثَارِ التَّعْزِیرُ بِالْمَالِ کان فی ابْتِدَائِ الإِسْلَامِ ثُمَّ نُسِخَ اہ  وَالْحَاصِلُ أَنَّ الْمَذْہَبَ عَدَمُ التَّعْزِیرِ بِأَخْذِ الْمَالِ(۲۱)۔

            واضح رہے کہ المجتبیٰ کے مصنف علامہ نجم الدین الزاہدی (متوفیٰ ۶۵۸ھ)،ابن البزاز الکردری،  امام رکن الدین الخوارزمی،اورامام ظہیرالدین التمرتاشی ؒسب سے متقدم ہیں ۔

            اس کے بعدشامی،عالمگیری،مجمع الانہراورمجلۃ الاحکام وغیرہ متعدد کتابوں میں البحرالرائق ہی کے حوالے سے یہ بات نقل کی گئی،جس میں بزازی کی تشریح اورصاحب المجتبیٰ علامہ زاہدیؒ کی درتشریح بھی شامل تھی،مثلاً:

          ٭مطلب فی التعزیر بأخذ المال قولہ (لا بأخذ مال فی المذہب) قال فی الفتح وعن أبی یوسف یجوز التعزیر للسلطان بأخذ المال وعندہما وباقی الأئمۃ لا یجوز اہ  ومثلہ فی المعراج وظاہرہ أن ذلک روایۃ ضعیفۃ عن أبی یوسف  قال فی الشرنبلالیۃ ولا یفتی بہذا لما فیہ من تسلیط الظلمۃ علی أخذ مال الناس فیأکلونہ اہ  ومثلہ فی شرح الوہبانیۃ عن ابن وہبان  قولہ (وفیہ الخ) أی فی البحر حیث قال وأفاد فی البزازیۃ أن معنی التعزیر بأخذ المال علی القول بہ إمساک شیء من مالہ عند مدۃ لینزجر ثم یعیدہ الحاکم إلیہ لا أن یأخذہ الحاکم لنفسہ أو لبیت المال کما یتوہمہ الظلمۃ إذ لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعی وفی المجتبی لم یذکر کیفیۃ الأخذ ورأی أن یأخذہا فیمسکہا فإن أیس من توبتہ یصرفہا إلی ما یری وفی شرح الآثار التعزیر بالمال کان فی ابتداء الإسلام ثم نسخ اہ والحاصل أن المذہب عدم التعزیر بأخذ المال(۲۲)۔

          ٭ وَبَقِیَ التَّعْزِیرُ بِالشَّتْمِ وَأَخْذِ الْمَالِ فَأَمَّا التَّعْزِیرُ بِالشَّتْمِ فَہُوَ مَشْرُوعٌ بَعْدَ أَنْ لَا یَکُونَ قَذْفًا کَمَا فِی الْبَحْرِ عَنْ الْمُجْتَبَی وَأَمَّا بِالْمَالِ فَصِفَتُہُ أَنْ یَحْبِسَہُ عَنْ صَاحِبِہِ مُدَّۃً لِیَنْزَجِرَ ثُمَّ یُعِیدُہُ إلَیْہِ کَمَا فِی الْبَحْرِ عَنْ الْبَزَّازِیَّۃِ اہـ وَلَا یُفْتَی بِہَذَا لِمَا فِیہِ مِنْ تَسْلِیطِ الظَّلَمَۃِ عَلَی أَخْذِ مَالِ النَّاسِ فَیَأْکُلُونَہُ(۲۳)۔

المجتبیٰ کے تفردکامسئلہ

            عصرحاضر کے مشہورفقیہ حضرت مولانامفتی رشیداحمد لدھیانوی ؒ(صاحب احسن الفتاویٰ) نے المجتبیٰ کے اضافہ کویہ کہہ کرمستردکرنے کی کوشش کی ہے کہ علامہ زاہدی معتزلی ہیں ،اوران کاتفردفقہی روایات میں معتبرنہیں ،چہ جائے کہ ان کی اپنی رائے ہو(۲۴)؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ صاحب المجتبیٰ نے یہ اضافہ کرکے اس مسئلہ کوامام ابویوسف ؒ کے اصل مسلک کی طرف پھیرنے کی کوشش ہے،انھوں نے کوئی نئی چیزپیش نہیں کی ہے کہ اس کوان کاتفرد قراردے کرمستردکردیاجائے؛اس لیے صاحب مجمع الانہرعلامہ شیخی زادہ (م ۱۰۷۸ھ)نے جب یہ مسئلہ  البحرالرائق سے نقل کیاتو بلاکسی نکیرکے اورالمجتبیٰ کاذکرکیے بغیرپورے اعتماداوریقین کے ساتھ یہ پوری تشریح نقل کی:

          وفی البحر ولا یکون التعزیر بأخذ المال من الجانی فی المذہب لکن فی الخلاصۃ سمعت عن ثقۃ أن التعزیر بأخذ المال إن رأی القاضی ذلک أو الوالی جاز ومن جملۃ ذلک رجل لا یحضر الجماعۃ یجوز تعزیرہ بأخذ المال ولم یذکر کیفیۃ الأخذ وأری أن یؤخذ فیمسک مدۃ للزجر ثم یعیدہ لا أن یأخذہ لنفسہ أو لبیت المال فإن آیس من توبتہ یصرف إلی ما یری(۲۵)۔

            یہاں غورطلب بات یہ ہے کہ فتاویٰ بزازیہ کی تصنیف ۸۱۲ھ میں مکمل ہوئی،اس سے قبل کی جو فقہی کتابیں ہمارے پاس موجودہیں ،جن میں تعزیربالمال کاذکرہے،ان میں سے کسی میں بھی امام ابویوسف کے قول کی وہ تشریح موجودنہیں ہے جوعلامہ بزازیؒ نے اپنے پیش رواکابرعلامہ رکن الدین خوارزمی اورامام ظہیرالدین تمُرتاشی کے حوالے سے نقل کی ہے،متقدم کتابوں میں حنفیہ کے معروف مسلک عدم جوازکے بالمقابل امام ابویوسف کا قول جواز نقل کیاگیا ہے،اوران میں کہیں مذکورہ بالاتاویل کاذکرنہیں ہے،بہ طورمثال چندکتابوں کی عبارتیں پیش ہیں :

            ٭ہمارے پاس قدیم ترین کتابوں میں علامہ ابن ہمام (متوفیٰ ۶۸۱ھ)کی فتح القدیرشرح ہدایہ ہے،جوساتویں صدی ہجری کے وسط میں لکھی گئی،اس میں یہ مسئلہ مذکورہ تشریح سے ماوراء مذکورہے اورخاص بات یہ ہے کہ امام ابویوسف کے قول جوازکواصالۃًذکرکیاگیاہے اورعدم جواز کا قول اس کے بالمقابل دوسرے نمبر پر،اس سے خودابن ہمامؒ کے ذاتی رجحان پربھی روشنی پڑتی ہے:

          وعن أبی یوسف یجوز التعزیر للسلطان بأخذ المال وعندہما وباقی الأئمۃ الثلاثۃ لا یجوز وما فی الخلاصۃ سمعت من ثقۃ أن التعزیر بأخذ المال إن رأی القاضی ذلک أو الوالی جاز ومن جملۃ ذلک رجل لا یحضر الجماعۃ یجوز تعزیرہ بأخذ المال مبنی علی اختیار من قال بذلک من المشایخ کقول أبی یوسف(۲۶)۔

            ٭ہدایہ ہی کی دوسری شرح ’’العنایہ‘‘جوعلامہ بابرتی ؒ (متوفیٰ ۷۸۶ھ)کی تصنیف ہے، اور آٹھویں صدی ہجری میں لکھی گئی ہے،اس میں بھی امام ابویوسف کے قول جواز ہی کا اصالۃً ذکرہے، عدم جوازکاکوئی قول نقل نہیں کیاگیاہے اورامام محمدؒکے بارے میں بتایاگیاہے کہ انہوں نے اپنی کسی کتاب میں اس مسئلہ کاذکر نہیں فرمایاہے۔ 

          وَلَمْ یَذْکُرْ مُحَمَّدٌ التَّعْزِیرَ بِأَخْذِ الْمَالِ، وَقَدْ قِیلَ رُوِیَ عَنْ أَبِی یُوسُفَ أَنَّ التَّعْزِیرَ مِنْ السُّلْطَانِ بِأَخْذِ الْمَالِ جَائِزٌ، وَذَکَرَ الإِمَامُ التُّمُرْتَاشِیُّ أَنَّ التَّعْزِیرَ الَّذِی یَجِبُ حَقًّا لِلَّہِ تَعَالَی یَلِی إقَامَتَہُ کُلُّ أَحَدٍ بِعِلَّۃِ النِّیَابَۃِ عَنْ اللَّہِ تَعَالَی(۲۷)۔

            ٭ علامہ زیلعی (متوفیٰ ۷۴۳ھ)کی شہرۂ آفاق کتاب ’’تبیین الحقائق‘‘بھی بزازیہ سے بہت پہلے لکھی گئی ہے،اس میں بھی امام ابویوسفؒ کے قول جوازکے ساتھ وہ تاویل جڑی ہوئی نہیں ہے جوبزازیہ کے بعدکی تصانیف میں ملتی ہے۔

          (قَوْلُہُ وَعَنْ أَبِی یُوسُفَ أَنَّ التَّعْزِیرَ بِأَخْذِ الْأَمْوَالِ جَائِزٌ لِلإِمَامِ) وَعِنْدَہُمَا وَالشَّافِعِیُّ وَمَالِکٌ وَأَحْمَدُ لَا یَجُوزُ بِأَخْذِ الْمَالِ۔ ا ہـ۔ کَاکِیٌّ وَفَتْحٌ وَمَا فِی الْخُلَاصَۃِ سَمِعْت مِنْ ثِقَۃٍ أَنَّ التَّعْزِیرَ بِأَخْذِ الْمَالِ إنْ رَأَی الْقَاضِی ذَلِکَ أَوْ الْوَالِی جَازَ مِنْ جُمْلَۃِ ذَلِکَ رَجُلٌ لَا یَحْضُرُ الْجَمَاعَۃَ یَجُوزُ تَعْزِیرُہُ بِأَخْذِ الْمَالِ مَبْنِیٌّ عَلَی اخْتِیَارِ مَنْ قَالَ بِذَلِکَ مِنْ الْمَشَایِخِ لِقَوْلِ أَبِی یُوسُفَ۔ اہـ۔ فَتْحٌ(۲۸)

            ٭ ہندوستان میں امام فریدالدین دہلوی (متوفیٰ۷۸۶ھ)کی فتاویٰ تاتارخانیہ بھی بزازیہ سے قبل کی تصنیف ہے،انہوں نے بھی بہت سادہ اندازمیں صرف امام ابویوسف کے قول جوازکے نقل پراکتفاکیاہے اورعدم جوازکاذکرہی نہیں کیاہے،امام محمدؒکے بارے میں لکھاہے کہ ان کی کتابوں میں تعزیربالمال کاتذکرہ نہیں ہے۔

          ولم یذکر محمد فی شیء من الکتب التعزیر بأخذ المال وقیل روی عن أبی یوسف أن التعزیر والزجر من السلطان بأخذ المال جائز وفی الفتاویٰ الخلاصۃ التعزیر بأخذ المال إن رای القاضی والوالی جاز ومن جملۃ ذلک الرجل لایحضر الجماعۃ یجوز تعزیرہ بأخذ المال(۲۹)۔

            صاحب تاتارخانیہ نے امام ابویوسف کاقول گوکہ قیل کے ذریعہ نقل کیاہے؛ لیکن چونکہ اس باب میں یہی ایک واحدقول ہے؛ اس لیے یہی معمول بہ اورمفتیٰ بہ قرارپاسکتاہے؛چنانچہ فتاویٰ الخلاصۃ کے حوالہ سے انہوں نے اس کومؤیدکیاہے،یہ خودصاحب تاتارخانیہ کے ذہنی رجحان کی بھی عکاسی کرتاہے۔

            اس تفصیل سے ظاہرہوتاہے کہ قدیم مراجع میں امام ابویوسف کاقول جوازنہ ضعیف ہے اورنہ مؤول،یہ تاویل بعد میں داخل ہوئی اورہماری اکثرکتب فقہیہ میں مروج ہوگئی،علامہ ابن نجیمؒ  کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے امام خوارزمی ؒکی تاویل میں علامہ زاہدی ؒکی درتاویل شامل کرکے مسئلہ کواس کی اصل حالت کی طرف لوٹانے کی کوشش کی؛اس لیے المجتبیٰ کی تاویل کے لیے شواہدکامطالبہ کرناشایدزیادتی ہوگی۔

علامہ زاہدیؒ کے اعتزال کامسئلہ

            ٭علاوہ مسلک حنفی کے انتہائی مستندتذکرہ نگارعلامہ قاسم بن قطلوبغا(متوفیٰ۸۷۹ھ) نے علامہ زاہدیؒ پراعتزال کاالزام عائدنہیں کیاہے اورنہ ان کی تصانیف کوغیرمعتبرقراردیاہے؛بلکہ اپنی مشہورکتاب ’’تاج التراجم فی طبقات الحنفیۃ‘‘ میں بڑے احترام کے ساتھ ان کا ذکر کیاہے، اس میں ان کی کتاب المجتبیٰ کابھی ذکرموجودہے:       

          مختار بن محمود بن محمد الزاہدی الغرمینی نجم الدین أبو الرجاء شرح مختصر القدوری ولہ کتاب الغنیۃ ولہ رسالۃ سماہا الناصریۃ صنفہا لبرکۃ خان توفی سنۃ ثمان وخمسین وستمائۃ قلت الغزمینی بالمعجمتین نسبۃ إلی قصبۃ من قصبات خوارزم تفقہ المذکور علی سدید الخیاطی وبرہان الأئمۃ وغیرہما وقرأ الکلام علی أبی یوسف السکاکی وقرأ الحروف والروایات علی الشیخ رشید الدین القندی وأخذ الأدب عن شرف الأفاضل ولہ من التصانیف غیر ما ذکر کتاب الأئمۃ وکتاب المجتبی فی الأصول والجامع فی الحیض والفرائض(۳۰)۔

عدم جوازکی روایت کی حقیقت

            ٭ اس جائزہ سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ عدم جوازکوجوحنفیہ کااصل مذہب کہاجاتاہے وہ بھی ائمۂ مجتہدین سے صراحتاًثابت نہیں ہے؛ بلکہ صرف اس بنیادپراس کواصل مذہب قراردیاگیاہے کہ امام محمدکی کتابیں (جومسلک حنفی کی اصل بنیادہیں ) تعزیربالمال کے ذکرسے خالی ہیں ،اس سے قیاس کیاگیاہے کہ اگریہ بھی اسلامی تعزیرات کاحصہ ہوتی توامام محمدؒضروراس کاتذکرہ فرماتے،گویا یہ استدلال بیانی نہیں سکوتی ہے اورچونکہ صدیوں سیاس استدلال کومعتبرتسلیم کیاگیاہے؛ اس لیے ہم بھی اسے تسلیم کرتے ہیں ۔

(باقی آئندہ)

٭        ٭        ٭

حواشی

(۲۰)        فتاویٰ بزازیۃ علی الہندیۃ ج ۶ ص ۴۲۷ المطبعۃ الکبری الامیریۃ بولاق مصر ۱۳۱۰ھـ۔

(۲۱)         البحر الرائق شرح کنز الدقائق ج ۵ ص ۴۴ زین الدین ابن نجیم الحنفی سنۃ الولادۃ ۹۲۶ہـ؍ سنۃ الوفاۃ ۹۷۰ہـ الناشر دار المعرفۃ، مکان النشر بیروت۔

(۲۲)        حاشیۃ رد المختار علی الدر المختار شرح تنویر الأبصار فقہ أبو حنیفۃ ج ۴ ص ۶۲ ابن عابدین.الناشر دار الفکر للطباعۃ والنشر. سنۃ النشر ۱۴۲۱ہـ -۲۰۰۰م. مکان النشر بیروت. عدد الأجزاء ۸۔ کذا فی العالمگیریۃ، فصل فی التعزیر ۲/۱۶۷، ط: ماجدیہ کوئٹہ۔

(۲۳)        درر الحکام شرح غرر الاحکام لملا خسرو، ۲/۷۵، ط: دار احیاء الکتب العربیۃ۔

(۲۴)        واضح رہے کہ حضرت مولانامفتی رشیداحمدلدھیانوی صاحب ؒ نے یہ بات حضرت مولانا عبدالحئی فرنگی محلیؒکی مشہورکتاب ’’الفوائد  البہیۃ فی تراجم الحنفیہ‘‘ ص ۲۱۳ کے حوالے سے لکھی ہے(احسن الفتاویٰ ج  ۵ ص ۵۵۸) لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ خودحضرت مولاناعبدالحئی فرنگی محلیؒ تعزیر بالمال کے جوازکے قائل ہیں (مجموعی الفتاویٰ، ج ۳ ص ۴۸-جیساکہ آگے آئے گا) اس لیے قرین قیاس یہ ہے کہ اگریہ زاہدی کاتفردہوتاتومولاناعبدالحئی صاحب اپنی تحقیق کے مطابق اسے قبول نہ فرماتے۔

(۲۵)        مجمع الأنہر فی شرح ملتقی الأبحرج ۲ ص ۳۷۲ عبد الرحمن بن محمد بن سلیمان الکلیبولی المدعو بشیخی زادہ سنۃ الولادۃ ؍ سنۃ الوفاۃ ۱۰۷۸ہـ تحقیق خرح آیاتہ أحادیثہ خلیل عمران المنصور، الناشر دار الکتب العلمیۃ سنۃ النشر۱۴۱۹ہـ -۱۹۹۸م، مکان النشر لبنان؍ بیروت عدد الأجزاء ۴۔

(۲۶)        فتح القدیر ج ۵ ص ۳۴۵ کمال الدین محمد بن عبد الواحد السیواسی سنۃ الولادۃ ؍ سنۃ الوفاۃ ۶۸۱ہـ الناشر دار الفکرمکان النشر بیروت۔

(۲۷)        العنایۃ شرح الہدایۃ ج ۷ ص ۳۰۲ المؤلف: محمد بن محمد البابرتی (المتوفی:۷۸۶ہـ) مصدر الکتاب: موقع الإسلام۔

(۲۸)        تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق وحاشیۃ الشِّلْبِیِّ ج ۳ ص ۲۰۸ المؤلف: عثمان بن علی بن محجن البارعی، فخر الدین الزیلعی الحنفی (المتوفی: ۷۴۳ہـ) الحاشیۃ: شہاب الدین أحمد بن محمد بن أحمد بن یونس بن إسماعیل بن یونس الشِّلْبِیُّ (المتوفی:۱۰۲۱ہـ) الناشر: المطبعۃ الکبری الأمیریۃ – بولاق، القاہرۃ، الطبعۃ: الأولی ۱۳۱۳ہـ۔

(۲۹)        الفتاویٰ التتارخانیۃ ج ۶ ص  ۴۰۱-۴۰۲ ترتیب وتخریج مفتی شبیر احمد قاسمی مرادآباد، مطبوعہ مکتبہ زکریادیوبند۔

(۳۰)        تاج التراجم فی طبقات الحنفیۃ ج ۱ ص ۲۵ المؤلف:  زین الدین أبو العدل قاسم بن قطلوبغا السودونی الحنفی (المتوفی:۸۷۹ہـ) مصدر الکتاب: موقع الوراق۔

————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 4،  جلد:103‏،  رجب المرجب – شعبان1440ھ مطابق اپریل 2019ء

٭           ٭           ٭

Related Posts