نام کتاب : عصر حاضر کے نوجوان،مسائل ومشکلات،تجزیہ اور حل
مصنف : مولانا عارف جمیل صاحب مبارکپوری
استاد تفسیروادب دارالعلوم دیوبند،معاون ایڈیٹر ماہنامہ ’’الداعی‘‘ عربی
ضخامت : ۱۶۰؍صفحات قیمت:درج نہیں
اشاعت : ۱۴۴۰ھ/۲۰۱۸ء
ناشر : مکتبہ علمیہ دیوبند
تبصرہ نگار : مولانامفتی عمران اللہ صاحب قاسمی
====================
خلیفۂ خالق، حضرتِ انسان کی زندگی کوتین مرحلوں پر تقسیم کیاجاتاہے،بچپن،جوانی اور بڑھاپا۔ اول مرحلہ میں وہ موم کی طرح نرم،کونپل کی طرح صاف وشفاف،پھول کی طرح نازک وہلکاکہ ذرا سے جھونکے سے متاثر ہوجائے،والدین کی محبوبیت کامرکز،ناسمجھ،کم فہم،سبھی کے نزدیک درگزرکیے جانے کا مستحق،حتی کے شریعت نے بھی غیر مکلف ٹھہرایا۔آخری مرحلہ میں مجرب وپختہ کار، مگر ضعف واعذار کا ساتھ، قویٰ بہ زوال، ماحول ومعاشرے کی رخصتوں سے استفادہ میں مشغول، خواہشات وتمنائیں بسیارمگر احتیاط واعذار دامن گیر،بس صبروتحمل اچھے رفیق۔رہا درمیانی مرحلہ وہ جوانی کا ہے جس میں نئے نئے شوق اور تمناؤں کا ورود،جسم واعضاء پختہ،قوی مضبوط،جوش وجذبہ بھرپور،جرأت وشجاعت کامل، زندگی کا مرحلہ کافی اہمیت کا حامل ہے۔
نوجوانی کا یہ مرحلہ سب سے اچھا اورعمدہ تصورکیا گیا کیوں کہ نوجوانی عمر انسانی کا نہایت زرخیز، سرگرم اورعزم وحوصلہ کا مرحلہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے فطری طور پرنوجوانوں کے اندر وہ قوت وطاقت رکھی جس کی وجہ سے نوجوان ہرطرح کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے اورمشکلات سے لوہا لے کرملک وملت کے ناموس کی حفاظت کا ضامن بن جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ نوجوان کسی بھی قوم کا دھڑکتا ہوا دل،مستقبل کا آئینہ اور دست وبازو ہوتے ہیں ۔یہ مرحلہ جہاں مثبت پہلووں کا حامل ہوتا ہے،وہیں بگاڑ کے امکانات، فساد میں مبتلا ہونے کے خدشات بھی منڈلاتے رہتے ہیں ،کیوں کہ جوانی کی امنگیں ، جذبات وخواہشات کی کثرت،لہوولعب کی رغبت قدموں کو ڈگمگا سکتی ہے،اور بے پناہ اقدامی قوت ہرقیدوبند سے آزادی کی طرف لے جاتی ہے؛اس لیے اس درمیانی مرحلہ میں نگہ داشت ونگرانی ازحد ضروری ہوجاتی ہے،ورنہ قوم کا مستقبل تاریک اور ذلت آمیز ہوجاتا ہے، اسی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرات علماء کرام وہمدردان قوم نے نوجوانوں کی اصلاح وتربیت پر مجالس ومعاہد کے قیام اور تحریر وتقریر کے ذریعہ خصوصی توجہ صرف کی ہے۔جس کے مفید نتائج ظاہر ہوئے۔زیر نظر کتاب ’’عصر حاضر کے نوجوان،مسائل ومشکلات،تجزیہ اور حل‘‘اسی ہمدردی اور فکرو تڑپ کا نتیجہ ہے۔مرتب موصوف حضرت مولانا عارف جمیل صاحب قاسمی مبارکپوری،دارالعلوم دیوبند کے کامیاب وبافیض مدرس ہیں ،بفضل خداوندی عربی واردودونوں زبانوں پر یکساں قدرت رکھتے ہیں ،ان کے سیال قلم سے دونوں زبانوں میں اب تک تقریبا۲۴؍کتابیں مرتب ہوچکی ہیں ،اورتمام کی تمام اپنے عنوان کے لحاظ سے اہمیت کی حامل ہیں ،کتاب مذکور بھی اپنے موضوع پر بے حد مفید اور اہم ہے،جس میں جوانی کے مرحلے کوعنوان بنانے کی وجہ پر روشنی ڈالتے ہوئے انسانی زندگی کے مراحل پر قرآن کریم اور احادیث شریفہ کی روشنی میں تفصیلی بحث ہے،نوجوانی سے قبل زمانہ مراہقت کے متعلق اسلامی تعلیمات پھر نوجوانوں کے ایمان افروز واقعات کے ضمن میں سیدنا حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام، حضرات اصحاب کہف اور اصحاب اخدودکا ذکر کرکے ان کے عزم واستقلال اور ایثار وصبر کے ذریعہ نوجوانوں کی دینی حمیت وغیرت بیدار کرنے کی کامیاب سعی کی گئی ہے،اسی طرح عمر جوانی کوغنیمت سمجھنے ،عبادت گذاری کی عادت بنانے،جوانی میں عبادت کے فضائل،تندرستی کوغنیمت جاننے کی تلقین کے ساتھ قیامت کے دن جوانی کا حساب دینے کی ترہیب بھی ہے۔مذہب اسلام کی اشاعت میں نوجوان طبقے کا والہانہ کردار بیان کرتے ہوئے عظیم القدر نوجوان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ناموں کا تذکرہ زمانہ حاضر کے جوانوں میں جذبہ وشوق کی بیداری میں مہمیزکے مترادف ہے۔کتاب کی خوبی یہ ہے کہ نوجوانوں کو عمدہ عادات واخلاق سے آراستہ ہونے کی دعوت دیتے ہوئے رذائل اور بری عادات کی قباحت کا تفصیلی ذکر ،فحش گوئی ،زنا،لواطت،ان کے جسمانی معاشرتی اور نفسیاتی نقصانات،اور نشہ آور اشیاء کا استعمال،غیر قوموں کی اندھی تقلید،ذرائع ابلاغ اور اس کی تباہ کاریاں ،زمانہ حاضر کے معاشرہ میں برائیوں کوفروغ دینے والے اسباب وسائل انٹرنیٹ وموبائل کے تباہ کن اثرات کا تفصیلی ومدلل جائزہ پیش کرتی ہے؛تاکہ نوجوان نسل ان سے بچ سکے اور والدین بطور خاص اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کے دوران،ان چیزوں پر خصوصی نظر رکھ سکیں ۔
کتاب کا انداز بیان سادہ، عام فہم ہے۔سلیس عبارت میں ہربات مدلل ومنقح ہے،قرآن کریم، احادیث شریفہ،تفاسیر اور فقہ وفتاوی کی مطولات کے ساتھ عربی مآخد سے بھی استفادہ کیا گیا ہے، جس سے کتاب کا حسن دوبالا ہوگیا ہے۔آج کل کے نوجوانوں کو مسائل سے دوچارہونے کے ساتھ ان کے حل کے سلسلہ میں مشکلات کا بھی سامناہے؛اس لیے ضرورت تھی کہ مشکلات کی نشاندہی، ان کے اسباب وعوامل کا تجزیہ کرکے شریعت مطہرہ کی روشنی میں مناسب حل پیش کیا جائے، جس کی رعایت سے نیک طینت،اسلامی شعار کے حامل،نوجوانوں کا صالح معاشرہ وجود پذیر ہو۔ احقر کی نظر میں یہ کتاب اس ضرورت کوپورا کرتی ہے۔لہٰذا عصر حاضر کے نوجوانوں کو کتاب مذکور کا مطالعہ کرنا چاہیے؛تاکہ اس سے استفادہ کرکے اپنے احوال کا جائزہ لیں ، اپنی قدر جانیں پھر ایک صالح،پرعزم معاشرے کی تشکیل ہوسکے۔
——————————————
دارالعلوم ، شمارہ : 4، جلد:103، رجب المرجب – شعبان1440ھ مطابق اپریل 2019ء
٭ ٭ ٭