از:   مولانا عبداللطیف قاسمی

استاذ جامعہ غیث الہدی بنگلو ر

            اسلامی عقائدمیں ایک اہم اوربنیادی عقیدہ’’ عقیدہٴ ختم نبوت ‘‘ہے ،جس کا حاصل یہ ہے کہ جن وانس کی رشدوہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کاعظیم الشان سلسلہ جاری فرمایا، اس سلسلہ کو سیدالمرسلین خاتم النّبیین حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر مکمل فرمایا ،اب قیامت تک کسی کونبی بنایانہیں جائے گا ،اللہ تعالیٰ کی وحدانیت میں جس طرح شرکت ممکن نہیں ،اسی طرح حضر ت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت میں بھی شرکت ممکن نہیں ،جس طرح نبی صادق کو نہ ماننااوران کی تکذیب کرنا کفرہے ،اسی طرح جھوٹے مدعیِ نبوت کوماننااوراس کی تصدیق کرنا بھی کفرہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب کچھ ماننے کے باوجوداگرکوئی بدنصیب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختمِ نبوت کا یقین نہیں رکھتایاختمِ نبوت میں کسی بھی طرح کی تاویل کرے، تووہ کافرہے اور ایمان سے قطعاًمحروم۔

            اللہ جلَّ جلالُہ نے جب ایک طرف عالم کی بنیادرکھی ،تو اسی کے ساتھ دوسری طرف قصرِنبوت کی پہلی اینٹ بھی رکھ دی ،یعنی عالم میں جس کو اپنا خلیفہ بنایاتھا، اسی کوقصرنبوت کی خشتِ اول قرار دیا، اِدھر عالم بتدریج پھیلتارہا،اُدھر قصرِنبوت کی تعمیرہوتی رہی ،آخرکار عالم کے لیے جس عروج پرپہنچنا مقدرتھا،پہنچ گیا،ادھرقصرِنبوت بھی اپنے جملہ محاسن اورخوبیوں کے ساتھ مکمل ہوگیا اور اس لیے ضروری ہوا کہ جس طرح عالم کی ابتداء میں رسولوں کی بعثت کی اطلاع دی تھی، اس کے انتہاء پررسولوں کے خاتمہ کا بھی اعلان کردیاجائے؛ تاکہ قدیم سنت کے مطابق آئندہ اب کسی رسول کی آمدکا انتظارنہ رہے ۔

        ’’یَا بَنِی آدَمَ إِمَّا یَأْتِیَنَّکُمْ رُسُلٌ مِنْکُمْ یَقُصُّونَ عَلَیْکُمْ آیَاتِی‘‘ (الاعراف:۳۵)

            اے آدم کی اولاد! تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول آئیں گے جومیری آیتیں تمہیں پڑھ کر سنائیں گے ۔

            اس اعلان کے مطابق زمین پربہت سے رسول آئے؛ مگر کسی نے یہ دعوی نہیں کیا کہ وہ خاتم النّبیین ہے ؛بلکہ ہررسول نے اپنے آنے والے رسول کی بشارت سنائی اوران کی علامات کو ذکر فرمایا؛ تاکہ آنے والے نبی کو پہچان لیں حتی کہ وہ زمانہ بھی آگیا؛جب کہ اسرائیلی سلسلہ کے آخری رسول نے ایسے رسول کی بشارت دے دی جس کا اسم مبارک ’’احمد‘‘صلی اللہ علیہ و سلم ہے۔

        (وَمُبَشِّرًا بِرَسولٍ یَّأتِیْ مِنْ بَعْدِی اسْمُہٗ أحمدُ۔(الصف : ۶)

            عالم کے اس منتظر اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس مبشررسول نے دنیا میں آکر ایک نیااعلان کیا اورہ یہ تھا کہ میں اب آخری رسول ہوں ،عالم کا زمانہ بھی آخرہے اورہاتھ کی دوانگلیوں کی طرف اشارہ کرکے فرمایاکہ میں اورقیامت اس طرح قریب قریب ہیں ،عالم اپنے عروج کو پہنچ چکاہے، قصر ِنبوت میں ایک ہی اینٹ کی کسرباقی تھی، وہ میری آمدسے پوری ہوگئی ہے ،دونوں تعمیریں مکمل ہوگئیں ہیں ،قرآن کریم میں آپ کی ختم نبوت کا اعلان ان الفاظ میں کیاگیا۔

        ’’مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِکُمْ وَلَکِنْ رَسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ وَکَانَ اللَّہُ بِکُلِّ شَیْء ٍ عَلِیمًا‘‘ (الاحزاب:۴۰)

            یعنی حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے نسبی باپ نہیں ہیں ؛بلکہ روحانی باپ ہیں ،دیگرانبیاء علیہم السلام کی طرح آپ علیہ السلام کو کسی بالغ مرد کا باپ نہیں بنایاگیا جس سے یہ خیال پیداہوکہ آپ کی اولاد میں نبوت کا سلسلہ جاری رہ سکتاہے؛ کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے اِجرا کے لیے نہیں آئے؛ بلکہ سلسلۂ نبوت کے ختم کرنے کو تشریف لے آئے ہیں ، اب قیامت تک نہ کسی قسم کا کوئی رسول آئے گا نہ نبی۔

             ختم نبوت کا عقیدہ تقریباً سو قرآنی آیات سے صراحتاًواشارۃً ثابت ہے ،دوسوسے زاید احادیث اوراجماع امت سے ثابت ہے ۔

            علماء محققین لکھتے ہیں کہ ختم نبوت کے اعلان میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ دنیامتنبہ ہوجائے کہ اب یہ پیغمبر آخری ہیں اوریہ دین آخری ہے ،اب نہ کوئی رسول آئے گا، نہ نبی،نہ تشریعی نہ غیرتشریعی، نہ ظلی نہ بروزی؛ اس لیے کہ اب منصبِ نبوت کوختم کردیاگیاہے ۔

            اب تک جتنے رسول آئے، وہ صرف رسول اللہ تھے ،آپ رسول اللہ ہونے ساتھ خاتم النّبیین بھی ہیں ،اس بنا پر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تصورکے لیے دوباتوں کا تصورضروری ہے پہلی بات آپ رسول اللہ ہیں ، دوسری بات خاتم النّبیین بھی ہیں ،آپ سے متعلق صرف رسول اللہ کا تصور ادھورا اورناتمام تصور ہے ؛بلکہ ان دونوں تصوروں میں امتیازی تصور خاتم النّبیین ہی ہے ،یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ختم نبوت کا اعلان فرمایا۔

ختم نبوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امتیازی شان

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:

        ’’ان مثلی ومثل الانبیاء من قبلی کمثل رجل بنی بیتا، فأحسنہ، وأجملہ إلاموضع لبنۃ من زاویۃ، فجعل الناس یطوفون بہ، ویتعجبون لہ، ویقولون: ھلا وضعت ھذہ اللبنۃ؟ قال: فأنا: اللبنۃ، وأنا خاتم النّبیین۔ (رواہ جماعۃ و رواہ البخاری عن ابی ھریرۃ: ۳۵۳۵،۱؍۵۰۱)

            میری اورمجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے بہت ہی حسین وجمیل محل بنایا؛ مگراس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی ،لوگ اس کے اردگردگھومنے اوراس پر عش عش کرنے لگے اوریہ کہنے لگے کہ ایک اینٹ بھی کیوں نہ لگادی گئی ؟(اگرلگادی جائے توکیاہی بہترہوتا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں وہی کونے کی آخری اینٹ ہوں اورمیں نبیوں کے آخرمیں آنے والا ہوں ۔

            حضرت  ابوہریرۃ ؓ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:

        ’’فُضِّلْتُ علی الانبیاء بست: أعطیت جوامع الکلم، ونصرت بالرعب، واحلت لی الغنائم، وجعلت لی الارض طھورا ومسجدا، وارسلت الی الخلق کافۃ، وختم بی النبییون‘‘ (رواہ مسلم : ۵۲۳،۱؍۱۹۹)

            مجھے تمام انبیاء پرچھ باتوں میں فضیلت دی گئی ہے (۱)مجھے جوامع الکلم عطاکے گئے ہیں (۲)رعب وجلال ( ہیبت ودبدبہ) سے میری مددکی گئی ہے (۳)میرے لیے مال غنیمت حلال کردیاگیا ہے (سابقہ امتوں کے لیے مال غنیمت حلال نہ تھا)(۴) زمین کی مٹی کو میرے لیے طہارت کا ذریعہ بنایاگیاہے اورمیرے لیے تمام زمین نماز پڑھنے کی جگہ بنائی گئی ہے (۵)مجھے تمام مخلوق کی طرف نبی بناکربھیجاگیاہے( برخلاف انبیاء سابقین کے کہ وہ خاص خاص قوموں کی طرف کسی خاص علاقہ میں ایک محدود زمانہ تک لیے مبعوث ہوتے تھے) (۶)مجھ پرانبیاء علیہم السلام کے سلسلہ کوختم کردیاگیا (اب کسی کو نبی بنایانہیں جائے گا ) ۔

            مذکوہ بالا حدیث سے معلوم ہواکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت تک کے تمام انسان وجنات کے لیے نبی بنایاجانا اور آپ علیہ السلام پر سلسلۂ نبوت کو ختم کرنا یہ آپ کی امتیازی شان ہے ۔

ختم نبوت تکمیل ِانعام

        ’’الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الإسْلامَ دِینًا‘‘ (المائدۃ : ۳)

            ترجمہ: آج میں نے تمہارادین مکمل کردیا ،اپنی نعمت تم پرتمام کردی اورتمہارے لیے دین اسلام کو پسند کیا۔

            عربی زبان میں کمال اورتمام دونوں لفظ نقصان (کمی ) کے مقابل میں استعما ل ہوتے ہیں ،ان میں فرق یہ ہے خارجی اوصاف کے نقصان(کمی بیشی) کی تکمیل کو کمال کہاجاتاہے اور اجزاء کے اعتبار سے نقصان اورکمی کی تکمیل کو تمام کہاجاتاہے ۔

            اس آیت میں دنوں لفظ جمع کردیے گئے ہیں اوربتایاگیا کہ دین اسلام اب ہرپہلوسے کامل ومکمل ہوچکا ہے ،اللہ کی نعمت پور ی ہوچکی ہے،دین اسلام نہ اجزاء کے اعتبارسے ناقص ہے نہ اوصاف کے اعتبارسے ناقص ہے ۔

            یہ آیت کریمہ اس امت کی اس عظیم الشان خصوصی فضیلت کو بیا ن کررہی ہے جوباقراراہل کتاب اس امت سے پہلے کسی کونہیں ملی ،یعنی اللہ تعالی نے اپنا دینِ مقبول اس امت لیے ایساکامل فرمادیاکہ قیامت تک اس میں ترمیم کی ضرور ت نہیں رہی، عقائد،عبادات، معاملات، معاشرت، اخلاق ، سیاست وحکومت شخصی واجتماعی آداب، مستحبات ومکروہات ،واجبات وفرائض اورحلال وحرام کے جملہ قوانین اورقیامت تک لیے تمام معاش ومعاد کے ضروری وبنیادی اصول خواہ وہ زندگی کے کسی بھی شعبہ سے متعلق ہوں ؛ امت کے لیے اس طرح واضح کردئے گئے ہیں کہ اب یہ امت تاقیام قیامت کسی نئے دین یانئے نبی کی شریعت کی محتاج نہیں رہی ،اس خیرامت کے نبی اس دنیا سے رخصت ہوئے تو اپنی امت کے لیے یک ایسی صاف وسیدہی اورروشن شاہراہ تیارفرماکرگئے کہ جس پر چلنے والے کو دن ورات میں کوئی خطرہ مانع نہیں ۔

        ’’قدترکتکم علی البیضاء لیلھا کنھارھا‘‘ (ابن ماجہ: رقم۴۳ص:۵)

            میں نے تمہیں ایک ایسے صاف روشن اورسیدھے راستے پرچھوڑ اہے کہ جس کا رات ودن برابر ہے ،(حق وباطل واضح رہیں گے) لہٰذایہ امت کسی نئے دین اورنئے نبی کی محتاج نہیں ہے۔

            حافظ ابن کثیر ؒ اس آیت کی تفسیرکرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں :

        ’’ھذہ أکبر نعم اللّٰہ عزّوجلّ علی ھذہ الأمۃ، حیث أکمل تعالیٰ لھم دینھم، فلا یحتاجون إلی دین غیرہ، ولا إلی نبی غیرنبیھم – صلوات اللّٰہ وسلامہ علیہ- ولذا جعلہ اللہ تعالیٰ خاتم الأنبیاء، وبعثہ إلی الجن والإنس الخ۔ (تفسیر ابن کثیر المائدۃ : ۳)

            اللہ تعالیٰ کا اس امت پر یہ بہت بڑاانعام ہے کہ اس نے امت کا دین کامل کردیا ہے کہ اب اسے نہ کسی اوردین کی ضرورت رہی، نہ کسی اورنبی کی؛ اس لیے کہ آپ کو خاتم النّبیین بنایا ہے اور انسان وجنات سب کے لیے رسول بناکر بھیجاہے،آپ آخری نبی اورآپ کی امت آخری امت ہے۔

            معلوم ہواکہ ختم نبوت دینی ارتقا اوردین محمدی کا عظیم الشان کمال ہے کہ اس سے بڑااورکوئی کمال اورا س امت کے لیے اس سے بڑاانعام اورکوئی نہیں ہوسکتا۔

            ایک حدیث میں آپ نے فرمایا :

         ’’أنا آخر الانبیاء وأنتم آخرالأمم۔ (رواہ ابن ماجہ عن نواس بن سمعان فی حدیث طویل، فتنۃ الدجال: ۴۰۷۷، ص:۲۹۷) میں آخری نبی ہوں اورتم آخری امت ہو ۔

            امام فخرالدین رازی ؒمذکورہ آیت تفسیرمیں تحریرفرماتے ہیں :

        ’’ان الدین ما کان ناقصا البتۃ؛ بل کان أبدا کاملا، یعنی کانت الشرائع النازلۃ من عند اللّٰہ تعالیٰ کافیۃ فی ذلک الوقت إلا أنہ تعالی کان عالما فی أول وقت المبعث بأن ما ھوکامل فی ھذا الیوم لیس بکامل فی الغد، ولاصلاح فیہ، فلا جرم کان ینسخ بعد الثبوت، وکان یزید بعد العدم، و أما فی آخر زمان المبعث، فأنزل اللّٰہ تعالی شریعۃ کاملۃ، وحکم ببقائھا إلی یوم القیامۃ، فالشرع أبدا، کان کاملا إلا أن الأول کمال إلی وقت مخصوص، والثانی کمال إلی یوم القیامۃ، فلأجل ھذا المعنی قال: ’’اَلْیَوْمَ أکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنکُم‘‘ (التفسیر الکبیر، المائدۃ: ۳،۱۱؍۱۰۹زکریا)

            دین الٰہی کبھی ناقص نہیں تھا ؛بلکہ ہمیشہ سے کامل تھا اورتمام شرائع الٰہیہ اپنے اپنے وقت کے لحاظ سے بالکل مکمل اورکافی تھیں ؛مگراللہ تعالیٰ پہلے ہی سے جانتاتھا کہ وہ شریعت جوآج کامل ہے، کل کے لیے کافی نہ ہوگی؛ اس لیے اس کووقت مقررہ پر پہنچ کر منسوخ کردیاجاتاتھا ؛لیکن آخرزمانِ بعثت میں اللہ تعالیٰ نے ایسی شریعت کاملہ بھیجی جوہرزمانہ کے اعتبارسے کامل ہے اور اس شریعت کے تاقیامِ قیامت باقی رہنے کا فیصلہ فرمایا ،خلاصہ یہ کہ پہلی شریعتیں بھی کامل تھیں ؛ مگر ایک مخصوص وقت تک کے لیے اوریہ شریعت قیامت تک کے لیے کافی اورکامل اوراسی معنی کے بنا پر الیوم أکملت لکم دینکم فرمایا ہے۔

            غرض یہ کہ سابقہ انبیاء علیہم ا لصلوۃ والسلام مخصو ص قوم کے لیے مبعوث ہوتے تھے اوران کی شریعتیں بھی مخصوص وقت کے لیے ہوتی تھیں ،ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک کے لیے تمام انس وجن کے لیے مبعوث ہوئے ،تو آپ کی شریعت بھی کامل ہے اورقیامت تک لیے کافی ہوگی ،یہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی شرافت اورآخرالامم کی مخصو ص فضیلت ہے ۔(مستفاد : ختم نبوت :  ۱۳۳تا ۱۳۸، ترجمان السنۃ)

جھوٹے مدعیان نبوت سے متعلق پیشین گوئی

            اللہ تعالیٰ عالم الغیب والشہادہ ہیں ،اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ قیامت تک کیسے خوفناک فتنے امت میں پیش آئیں گے اوران فتنوں کے سربراہ کون لوگ ہوں گے ،اللہ تعالیٰ نے جس قدر مناسب وضروری سمجھا فتن وحوادث کی کچھ تفصیلات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائیں ان میں  عقیدہٴ ختم نبوت میں  رخنہ پیداکرنے والے جھوٹے مدعیان نبوت کی تفصیلات یا ان سے متعلق اشارات بھی شامل ہیں  ۔

            حضرت ثوبان ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے ارشادفرمایا:

        ’’إنہ سیکون فی أمتی کذابون ثلثون کلھم یزعم أنہ نبی، وأنا خاتم النّبیین، لانبی بعدی‘‘۔ (ترمذی: ۲۲۱۹،۲؍۴۵)

            قیامت اس وقت تک قائم نہیں  ہوگی جب تک کہ بہت سے دجال اورجھوٹے مدعیان نبوت اٹھائے جائیں گے جن میں  سے ہرایک یہ کہے گا وہ نبی ہے ؛حالانکہ میں  خاتم النّبیین ہوں ،میرے بعد کسی کو نبی بنایانہیں جائے گا۔

مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی

            حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری ایام ہی میں  دوجھوٹے نبی پیداہوگئے ،جن میں  ایک اسود عنسی ہے جس کا نام عبلہ بن کعب تھا ،عنسی لقب تھا،صنعاء یمن میں تقریبًا تین ماہ نبوت کا دعو ی کیا، اس علاقہ کے چندلوگوں نے اس کی اتباع بھی کرلی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے تین دن قبل حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ نے اس کوجہنم رسید کیا ،آپ علیہ السلام نے حضرات صحابہ کو  اس کی خوش خبری سنائی۔

            دوسرا شخص مسیلمہ بن ثمامہ بن حبیب ہے جوقبیلہ بنوحنیفہ کا آدمی تھا ، مسیلمہ کذاب کے نام سے مشہور ہوا،   ۹ ھ میں  قبیلہ بنوحنیفہ کے ساتھ مدینہ منورہ حاضرہوا،تقریباً تیرہ افراد کا قافلہ تھاجن میں یمن کے مشہور صحابیٔ رسول طلق بن علی ؓ تھے ،رملہ بنت حارث کے مہان بنائے گئے ، صبح شام گوشت، روٹی، گوشت دودھ اورگوشت گھی سے ان کی میزبانی کی گئی ، دوسرے دن یہ حضرات مسجد نبوی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور اسلام قبول کرلیا؛ لیکن مسیلمہ کذاب خیمہ میں  ٹہرا رہا ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ اوقیہ چاندی ان حضرات کو بہ طورہدیہ عطایا فرمائی،مسیلمہ کا حصہ بھی دیا اور فرمایا:  مسیلمہ تم سے کم درجہ کا آدمی نہیں  ہے (چونکہ وہ تمہارے سامان کی حفاظت کررہاہے؛ اس لیے تمہارے برابروہ بھی ہدیہ کا مستحق ہے )یہ حضرات اپنے خیمہ میں  پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ وسلم کی بات اور ہدیہ کا تذکرہ کیا ،تواس نے کہا انھوں نے یہ بات اس لیے کہی ہے کہ ان کے بعد مجھے منصب ملنے والا ہے ،پھریمامہ جاکر نبوت کا دعوی کردیا ، مسیلمہ کذاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرنہیں  ہوا؛ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ثابت بن قیس بن شماس کے ساتھ بنوحنیفہ کے وفد کی خاطرداری اور مسیلمہ کی اسلام کی امیدیا اتمامِ حجت کے لیے خود اس کے پاس تشریف لیے گئے، توکہنے لگا ،اگرمحمد امر(سلطنت وغیرہ)کا میرے لیے فیصلہ کردیں ،تو میں ان کی اتباع کروں گا، آپ کے ہاتھ میں  کھجورکی ایک چھڑی تھی ،آپ اس کے پاس کھڑے ہوئے اورارشادفرمایا : اگریہ شخص مجھ سے یہ چھڑی مانگے، تو وہ بھی میں اس کو نہیں دونگا ،اورفرمایا : تو اللہ کے امر (عذاب) سے بچ نہیں سکتا ،پھرفرمایا : اگرتویہاں سے (صحیح سالم)چلابھی گیا،تو اللہ تجھ کو ہلاک وبربا دکردیگا اور مجھے خواب میں تیرے متعلق بتایاگیا ہے ،اورحضرت ثابت بن قیس کی طرف اشارہ فرماکر کہا یہ تجھ کو بتائیں گے۔(بخاری ۱؍۵۱۱،باب علامات النبوۃ۳۶۲۰عمدۃ القاری۱۱؍۳۵۵)

            حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں مجھے حضرت ابوھریرۃ ؓنے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دکھایاگیا کہ آپ کے ہاتھ میں سونے کے دوکنگن ہیں ،ان کی وجہ سے مجھے بہت پریشانی (شدید فکر لاحق )ہوئی ،تومیرے پاس وحی آئی کہ ان پرپھونک مارو؛چنانچہ میں نے پھونک ماری،تو وہ اڑگئے، میں اس خواب کی تعبیر دوجھوٹے شخصوں سے لی جومیری نبوت کے بعد نبوت کا دعوی کریں گے ، ایک اسودعنسی ہے اور دسرا شخص صاحب یمامہ مسیلمہ کذاب ہے ۔(بخاری ،باب علامات النبوۃ: ۳۶۲۱،عمدۃ القاری ۱۱؍۳۵۶) 

 عقیدہٴ ختم نبوت پر حضرات صحابہ کا اجماع

            حضرات صحابۂ کرامؓ جوخاتم النّبیین وسیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کے سب سے پہلے مخاطب تھے، انھوں نے قرآنی آیات اور احادیث رسول اللہ کا صاف صاف مطلب یہی سمجھاکہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام پرنبوت کوختم کردیا گیاہے،آ پ کے بعدکوئی نبوت کا دعوی کرے، توجھوٹا ہے، یہی وجہ ہے کہ عہدنبوت وعہدخلفاء راشدین میں جوجھوٹے پیداہوئے ان کا مقابلہ کیاگیا ۔ 

            حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں مسیلمہ کذاب نے نبوت کادعوی کیا اورایک بڑی جماعت جو اذان ونماز ،روزہ کی قائل تھی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اورقرآن کے منکر نہیں تھی،مسیلمہ کے ساتھ ہوگئی ،تمام مہاجر وانصار صحابۂ کرامؓ( جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت وصحبت یافتہ تھے)نے مسیلمہ کذاب کو دعوی نبوت اور اس کی جماعت کو اس کی تصدیق کی بناپر کافر اورواجب القتل سمجھا ،حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ نے منکرینِ ختم نبوت کے خلاف اعلان جنگ کیا اورتمام منکرینِ ختم نبوت کو کیفرکردار تک پہنچایا ،صحابہ میں سے کسی نے بھی اس پر انکارنہیں کیااورکسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ یہ لوگ اہل قبلہ ،کلمہ گوہیں ،قرآن پڑھتے ہیں ،نماز ،روزہ، حج  اورزکوۃ اداکرتے ہیں ،ان کو کیسے کافرسمجھ لیاجائے ؟حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کاابتداء اً اختلاف کرنا ،شرح صدر کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی موافقت کرنے کی جوتفصیلات کتبِ احادیث میں منقول ہیں ، وہ منکرین زکوۃ سے متعلق ہیں نہ کہ منکرین ختم نبوت سے ۔

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوچکی ہے ،بے شمار قبائل مرتد ہوچکے ہیں ،بعض نے زکوۃ دینے سے انکار کردیا ہے ،اس کے علاوہ مسلمان اندرونی وبیرونی دشمنوں کے خطرات میں گھرے ہوئے ہیں ،مسلمان بے سروسامانی کی عالم میں ہیں :ان تمام حالات کی پرواہ کیے بغیر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید ؓ کی امارت میں ایک لشکر یمامہ کی جانب مسیلمہ کذاب کی سرکوبی کے لیے روانہ فرمایا،مسیلمہ کذاب چالیس ہزار کے لشکر کے ساتھ مسلمانوں کے ساتھ مقابلہ کیا جن میں سے تقریبا اٹھائیس ہزار قتل ہوئے اورمسیلمہ کذاب کو حضرت وحشی ؓ نے جہنم رسید کیا اور وہ فخرکرتے تھے کہ میں زمانۂ کفر میں سیدالشہداء کو قتل کیا اورزمانہ ء اسلام میں ایک بدترین شخص کو جہنم رسیدکیا اور اس معرکہ میں تقریبا بارہ سو صحابہؓ نے تحفظ ختم نبوت کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیاجن میں سات سو قراء صحابہؓ بھی تھے ۔(مستفاد از ختم نبوت :مفتی محمدشفیع دیوبندیؒ :۳۰۲)

تابعین وسلف صالحین کا عمل

            خلیفہ عبدالملک بن مروان کے عہدِخلافت میں حارث نامی شخص نے نبوت کا دعوی کا ،خلیفہ عبدالملک نے حضرات صحابہ وتابعین کے متفقہ فتوی وفیصلہ سے اس کو قتل کرکے سولی پر… چڑھادیا۔

            امام طحاوی ؒ  اپنی تصنیف ’’عقیدۃ الطحاوی ‘‘میں تحریرفرماتے ہیں :

        ’’کل دعوۃ نبوۃ بعد نبوتہ فغی، وھوی، وھوالمبعوث الی عامۃ الجن، وکافۃ الوری بالحق والھدی‘‘ (عقیدۃ الطحاوی:۴۸)

            ہردعویٔ نبوت آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے بعدگمراہی وضلالت ہے ؛بلکہ اسلام سے خروج وبغاوت ہے ؟آپ کو تمام جن وانس کے جانب حق اورہدایت کے ساتھ مبعوث کیاگیاہے۔

            قاضی عیاض ؒ ’’شفاء‘‘ میں مذکورہ تحریرفرماتے ہیں :

        ’’وفعل ذلک غیر واحد من الخلفاء، والملوک بأشباھمم، وأجمع علماء وقتھم علی صواب فعلھم، والمخالف فی ذلک من کفرھم کافر‘‘۔ (الشفاء بتعریف حقوق المصطفی۲؍۶۳۲)

        أخبر صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ خاتم النّبیین، لانبی بعدہ، وأخبر عن اللّٰہ تعالیٰ أنۃ خاتم النّبیین، وأنہ أرسل کافۃ للناس وأجمعت الأمۃ حمل ھذا الکلام علی ظاھر وان مفہومہ المراد بہ دون تأویل، وتخصیص، فلا شک فیکفر ھؤلاء الطوائف کلھا قطعا إجماعا وسمعا۔ (بحوالہ ختم نبوت:۳۰۸)

            الغرض قرآن ،حدیث ،صحابہ وتابعین ،ائمہ مجتہدین اورعلماء وسلف کا متفقہ فصیلہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النّبیین ہیں ،ختم نبوت آپ کی شان ہے ،امت کے لیے انعام ہے، جواس کا منکرہے وہ کافرہے ،جوشخص محمدرسول اللہ کو خاتم النّبیین نہ سمجھے، وہ بھی کافرہے اورجو جھوٹے نبی کی تصدیق کرے ،وہ بھی کافرہے ،لہٰذاعہدنبوت ہی میں دعوی کرنے والے جھوٹے مدعیان نبوت مسیلمہ کذاب ،اسودعنسی ،طلیحہ ،سجاح سے لے کر مرزاغلام احمدقادیانی اورشکیل بن حنیف تک سب کا فرہیں اوران کی تصدیق کرنے والے بھی کافرہیں ،قیامت تک جو بھی شخص قیامت تک نبوت کا دعوی کرے، وہ بھی کافرہے ،حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام قرب قیامت میں دنیامیں محمدرسول اللہ خاتم النّبیین کے خلیفہ کی حیثیت سے تشریف لے آئیں گے نہ کہ بحیثیت نبی ۔

ختم نبوت اورہماری ذمہ داری

٭        ناموس رسالت کی پاسبانی اورختم نبوت کا تحفظ ہرمسلمان کا اولین فرض ، دینی غیرت کا تقاضا اورعشق رسول کی پکارہے ۔

٭        عقیدہ ختم نبو ت دین کے بنیادی اوربدیہی عقائدمیں سے ہے ،اس کی حقیقت ،حیثیت وحکم اوراس سے متعلقہ تفصیلات کا جاننا پہلی ذمہ داری ہے اور عامۃ المسلمین کو اس اہم عقیدہ سے متعلق آگاہ کرنا؛تاکہ امت اپنے بنیادی عقیدہ کوجانے اور کسی بھی جھوٹے مدعیِ نبوت کے دجل وفریب کا شکارنہ ہو۔

٭        ختمِ نبوت عقیدہ بھی اورعقیدت بھی ،ختمِ نبوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امتیازی شان اورآپ کے لیے خصوصی انعام ہے ،اب کوئی نبوت کا دعوی کرے تو وہ آپ کا گستاخ اور اس کی تصدیق کرنے والے بھی گستاخ رسول ہیں ،لہٰذاناموسِ رسالت کی حفاظت کے لیے اس طرح کے مدعیان نبوت کی خبرلینااور امت کے بھولے بھالے مسلمان جوان کا شکارہوگئے ہیں ، ان مکاروں کے چنگل سے نکالنا اور اس طرح کے کذابوں سے امت کی حفاظت کرنا۔

٭        علماء ،خطباء ،ائمہ حضرات کاختم نبوت پرمشتمل آیات واحادیث کی تشریح کے موقع پر اپنے خطبات،مواعظ ودروس میں بہ طور خاص روشنی ڈالنا، نیز سیرۃ النبی کے عنوان پر منعقدہونے والا جلسوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس امتیازی شان کو ممتاز بناکربھی پیش کیا جاسکتاہے ۔

 ٭        عام فہم اور آسان انداز میں عقیدہٴ ختم نبوت سے متعلق اردو،مقامی اوردیگرعلاقائی زبانوں میں چھوٹے چھوٹے رسائل کی اشاعت اور انھیں عامۃ المسلمین تک پہنچانے کاانتظام و ا ہتمام کرنا۔

٭        جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام گرامی لیاجائے تو’’سیدالمرسلین وخاتم النّبیین ‘‘کی تعبیر اختیارکی جائے؛ تاکہ آپ کی ختم نبوت کا باربارتذکرہ کو عوام وخواص کے ذھن میں یہ عقیدہ راسخ ہوجائے۔

            علامہ قسطلانی شارح بخاری تحریرفرماتے ہیں :

            آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ پر حاضری دینے والوں کے لیے صلوۃ وسلام کے بہترین تعبیر السلام علیک یا سید المرسلین وخاتم النّبیین ہے (المواھب اللدنیہ ۳؍۵۹۶ )

            ناموسِ رسالت کی حفاظت اورجھوٹے مدعیان نبوت کے دجل وفریب سے امت کو بچانے کے لیے حضرت سیدابوبکر صدیقؓ ،حضرت خالدبن ولیدؓاوردیگرصحابہ نے تحفظ رسالت اور امت کی حفاظت کے لیے جس طرح کی قربانیاں پیش کیں ، محدث عصر علامہ سیدانورشاہ کشمیری ؒ اور آپ  کے تلامذہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی اورحضرت مولانا مرتضی حسن چاندپوری اور مولانا یوسف بنوری وغیرہ اکابردارلعلوم نے جس طرح غلام احمدقادیانی کا مقابلہ کیا، اس کے شروروفتن سے امت کو آگاہ کیا اور اس کے لیے جانی ومالی قربانیاں پیش کیں ،اگر ہم مقدروبھرکوشش نہیں کریں گے توہم اللہ کے پاس کیاجواب دیں گے اور میدان محشرمیں حوض کوثر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربارمیں کیا منہ لے کرجائیں گے،علامہ انورشاہ کشمیری ؒ کا وہ تاریخی جملہ بھی ہمیں یادرکھنا چاہئے ’’اگرہم تحفظ ختم نبوت نہ کرسکیں ، تو گلی کا کتابھی ہم سے بہترہے ‘‘ ۔

            بروز جمعہ ۲۶ ؍اگست ۱۹۳۲ء جامع مسجدالصادق بہارولپور میں علامہ سیدانورشاہ کشمیریؒ کو نماز جمعہ اداکرنی تھی،مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی تھی، قرب وجوارکے گلی کوچے نمازیوں سے بھرے ہوئے تھے ،نماز کے بعد علامہ انورشاہ کشمیری ؒ نے اپنی تقریرکا آغاز کرتے ہوئے ارشادفرمایا: میں خونی بواسیرکے مرض کے غلبہ سے نیم جان تھا ،ڈابھیل کے لیے سفر کے لیے پابرکاب تھاکہ اچانکہ شیخ الجامعہ (بھاول پور)کامکتوب مجھے ملا ،جس میں بہاول پہنچ کر مقدمہ کی شہادت (ختم نبوت اور قادیانی کے کافرہونے کی ) دینے کے لیے لکھاگیا تھا ،میں نے سوچاکہ میرے پاس کوئی زادراہ ہے نہیں ؟شاید یہی چیز ذریعۂ نجات بن جائے کہ میں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے دین کا جانب دار بن کر یہاں آیاہوں ،یہ جملہ سن کر مجمع بے قرارہوگیا ،آپ کے ایک شاگر مولانا عبدالحنان ہزاری آہ وبکا کرتے ہوئے کھڑے ہوئے اورمجمع سے بولے کہ اگر حضرت کو بھی اپنی نجات کا یقین نہیں ،پھراس دنیا میں کس کی مغفرت متوقع ہوگی ؟اس کے علاوہ مزید چندتوصیفی کلمات عرض کیے،جب وہ صاحب بیٹھ گئے تو حضرت شاہ صاحب نے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہا : ان صاحب نے ہماری تعریف میں مبالغہ کیاہے؛ حالانکہ ہم پر یہ بات کھل گئی کہ

             ’’گلی کا کتا بھی ہم سے بہتر ہے، اگرہم تحفظ ختم نبوت نہ کرسکیں ‘‘

            حضرت شاہ صاحب اس مقدمہ سے فارغ ہوکر ڈابھیل تشریف لے گئے؛ لیکن چند ہی دن میں اس مرض نے مزید شدت اختیارکرلی دوبارہ آپ دیوبند تشریف لے آئے اور آخرت کے سفرپر روانہ ہوگئے ۔(مستفاد : کمالات انوری ،احتساب قادیانیت۳؍۳۶ )  

—————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ : 3،  جلد:103‏،  جمادی الثانیہ – رجب المرجب 1440 مطابق مارچ 2019ء

٭           ٭           ٭

Related Posts