از:    حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی زیدمجدہٗ

مہتمم دارالعلوم دیوبند

            یوں تو علوم وفنون، تہذیب وتمدن، صنعت وحرفت اور وہ تمام چیزیں جن کی انسانی زندگی میں ضرورت پیش آتی ہے ان کی تحصیل وتکمیل فرائض میں داخل ہے؛ لیکن ان تمام فرائض میں نفوس انسانی کی تہذیب وتکمیل سب سے اہم اور ضروری فرض ہے؛ اسی لیے دنیا میںانسان اوّل حضرت آدم علیہ السلام ہی اس ذمہ داری سے گراں بار ہوکر تشریف لائے، پھر یہ سلسلہ ترقی کرتا ہوا خلاصۂ کائنات نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس تک پہنچ کر ابد الآباد تک کے لیے مکمل ہوگیا۔  اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ۔۔

            اب اگر یہ پوچھاجائے کہ اس تہذیب وتمدن اوراخلاقِ فاضلہ کے آخری علم بردار نے نفوس انسانی کی تہذیب میں کون سا کمال کردکھایا؟ تو جواباً صحابۂ کرام کی ان مقدس شخصیات کو پیش کردیا جائے گا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق واعمال کے مظہراتم، آپ کی تعلیم و تربیت کی واضح مثال، آپ کے ارشاد وہدایت کے مخاطب اوّل اور آپ کے فیض صحبت سے شب وروز بہرہ اندوز تھے، یہ مقدس جماعت، رسولِ خدا اور خلق خدا کے درمیان خدا تعالیٰ کا ہی عطا کیاہوا وہ واسطہ ہے جس کے بغیر نہ اللہ کا نازل کردہ قرآن ہاتھ آسکتا ہے، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان کردہ بیان قرآن    لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْہِمْ۔

            یہ مقدس جماعت دینِ مستقیم کی امین ومحافظ، سنت نبوی کی پاسبان اور اسوئہ رسالت کا مجسم نمونہ تھی اوراس کی سیرت، سیرت النبی کا پرتَو ہے، اس قدسی صفات جماعت نے تعلیماتِ نبوی کو اپنے زن وفرزند اور اپنی جان ومال سے زیادہ عزیز رکھتے ہوئے اپنا سب کچھ قربان کرکے دنیا کے گوشے گوشے میںمِنْ وعَنْ وبلاکم وکاست پہنچایا ہے، اس مقدس جماعت کی تنقیص وتنقید نہ صرف یہ کہ ان کی شان میں گستاخی ہے؛ بلکہ اصولِ دین سے اعتماد ختم کرنے اور قرآن وسنت کو – نعوذ باللہ- ناقابل اعتبار قرار دینے کے مترادف ہے؛ جب صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم کی ذات پر اعتماد نہیںہوگا تو پھر ان کے واسطے سے پہنچنے والا قرآن کریم اور ان سے مروی احادیث رسول کا ذخیرہ کیوںکر معتبر ٹھہرے گا؟ اَللّٰہُمَّ احْفَظْنَا منہ۔

صحابۂ کرام اور علماء دیوبند

            جماعت علماء دیوبند نہ کوئی نیافرقہ ہے اورنہ ہی وقت وحالات کی پیدا کردہ نئے عقائد وخیالات کی حامل کوئی جماعت؛بلکہ یہ اہل السنۃ والجماعۃ ہی ہیں جن کا مرکز تعلیم ’’دیوبند‘‘ ہے، بہ قول حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب قدس سرہٗ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند:

            ’’ان کاواحد نصب العین کتاب وسنت کی روشنی میں امت کو اسی مزاج پر برقرار رکھنا ہے جو مزاج نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فیضانِ صحبت وارشاد سے حضراتِ صحابۂ کرامؓ میں اور صحابہؓ نے تابعین میں اور انھوں نے اپنے ما بعد کے طبقات میں سلسلہ بہ سلسلہ، زمان بہ زمان، مکان بہ مکان پیدا فرمایا تھا۔‘‘

            اس لیے صحابۂ کرامؓ کی شخصیات کے بارے میں علماء دیوبند کا موقف ہی کیا، ان کے کسی بھی عقیدے اور نظریے کو جاننے کے لیے اہل السنۃ والجماعۃ کی کوئی بھی مستند و معتبر اور جامع کتاب دیکھ لی جائے اس میںاہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد، حنفی فقہ واصولِ فقہ، احسان و تصوف اور تزکیۂ اخلاق کے حوالے سے جو کچھ درج ہوگا، وہی علماء دیوبند کے عقائد ومسائل ہوںگے اور احسان و تصوف ہوگا، انبیاء کرامؑ، حضرات صحابہ وتابعینؒ اور امت کے جن جن اولیاء عظامؒ کی علمی قدر ومنزلت پر جمہور ِامت کا اتفاق ہے وہی شخصیات علماء دیوبند کے لیے مثال اورنمونہ ہیں۔

            اس لیے ان سطور میں صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہ کے حوالے سے جو کچھ عرض کیا جارہا ہے اس کی حیثیت ’’قندِ مکرر‘‘ کی ہے اور یہ مشک ہے جو مکرر رگڑا جارہا ہے؛ تاکہ امت اس خوشبو سے معطر ہو اور نجومِ ہدایت پر اہلِ زیغ وضلالت کے اٹھائے ہوئے غبار کو چھانٹا جارہا ہے؛ تاکہ گم گشتہ گان راہ اپنی منزل مقصود کا پتہ لگاسکیں، أصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ بِأیِّہِمْ اقْتَدَیْتُمُ اہْتَدَیْتُمْ۔

صحابۂ کرام، تاریخی روایات اور علماء دیوبند

            احوالِ زمانہ سے عبرت حاصل کرنا، انقلاباتِ جہاں سے دنیا کی بے ثباتی کا سبق لے کر فکرِ آخرت کو مقدم رکھنا، اللہ تعالیٰ کے انعامات واحسانات کا استحضار، انبیاء وصلحاء امت کے احوال سے قلوب کو منور کرنا اور کفار وفجار کے انجام بد سے نصیحت حاصل کرنا وغیرہ فن تاریخ کے فوائد ہیں جو واقعات نگاری اور احوال ماضیہ کو بیان کرنے کا نام ہے؛ اس لیے اسلام میں اس کی بڑی اہمیت ہے، اس کی اہمیت کے لیے تو یہی کافی ہے کہ قصص وتاریخ، قرآنِ کریم کے پانچ علوم میں سے ایک ہے اوراس کا وہ حصہ جس پر حدیثِ نبوی کے صحت وسقم کو پہچاننے کا مدار ہے، اس اہمیت کے باوجود تاریخ کا یہ مقام نہیں ہے کہ اس سے عقائد کے باب میں استدلال کیا جائے، یا حلال وحرام کی تعیین میں حجت قرار دیا جائے، یا قرآن وسنت اور اجماع امت سے ثابت شدہ مسائل میں تاریخی روایات کی بنا پر شکوک و شبہات پیدا کیے جائیں؛ اس لیے صحابۂ کرامؓ اور تاریخی روایات کے باب میں علماء دیوبند کا موقف جمہور امت کے مطابق یہ ہے کہ:

            (۱) چوںکہ صحابۂ کرامؓ عام افرادِ امت کی طرح نہیں ہیں؛ بلکہ یہ حضرات، رسولِ خدا اور خلقِ خدا کے درمیان خدا تعالیٰ کا ہی عطا کیاہوا ایک واسطہ ہیں، یہ ازروئے قرآن وحدیث ایک خاص مقام رکھتے ہیں؛ اس لیے ان کے مقام کی تعیین تاریخ سے نہیں، قرآن وسنت سے کی جائے گی۔

            (۲) چوںکہ قرآنِ کریم کی دسیوں آیات میں صحابۂ کرامؓ کے حالات مصرح مذکور ہیں؛ اس لیے تاریخی روایات ان کے معارض قطعاً نہیں ہوسکتیں۔

            (۳) یہ ان احادیثِ صحیحہ ثابتہ کے بھی معارض نہیں ہوسکتیں جن کے جمع وتدوین میں وہ احتیاط برتی گئی ہے جو احتیاط تاریخ میں نہیں کی گئی، اصول حدیث کے معروف امام ابن صلاح لکھتے ہیں:

            ’’وَغَالِبٌ علی الأخبارِیِّیْنَ الْإکْثَارُ وَالتَخْلِیْطُ فِی مَا یَرْوُوْنَہٗ‘‘ (علوم الحدیث، ص:۲۶۳)

’’مؤرخین میں یہ بات غالب ہے کہ روایاتِ کثیرہ جمع کرتے ہیں جن میں صحیح وسقیم ہر طرح کی روایات خلط ملط ہوتی ہیں۔‘‘

            (۴) پھر یہ مسئلہ عقائدِ اسلامیہ سے متعلق ہے اورجمہور امت نے کتب عقائد میں اپنے اپنے ذوق کے مطابق مفصل یا مجمل اس کا ذکر کیا ہے؛ اس لیے اس کا مدار قرآن وسنت پر ہی رکھاجاسکتا ہے نہ کہ تاریخ کی خلط ملط روایات پر۔

عدالتِ صحابہ اور علماء دیوبند

            عدالت اور عدل کے معنی کی فقہاء ومحدثین نے مختلف تعبیریں کی ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ عادل وہ شخص ہے جو مسلمان عاقل بالغ ہو، کبائر سے مجتنب ہو، صغائر پر اصرار نہ کرتا ہو، نیز صغائر کا عادی بھی نہ ہو، حافظ ابن حجر عسقلانیؒ شرح النخبہ میںفرماتے ہیں:

            وَالمرادُ بِالْعَدْلِ مَنْ لَہٗ مَلَکَۃٌ تُحَمِّلُہٗ علی ملازمۃِ التقوی والمروۃِ والمرادُ بالتقوی اجتنابُ الأعمالِ السیئۃِ من شرکٍ، أو فسقٍ، أو بدعۃٍ‘‘ (شرح النخبہ، ص:۲۴-۲۵ طبع دیوبند)

عدل سے مراد وہ شخص ہے جسے ایسا ملکہ حاصل ہو جو اسے تقویٰ اور مروت کی پابندی پر برانگیختہ کرے اور تقویٰ سے مراد شرک، فسق اور بدعت جیسے اعمالِ بد سے اجتناب ہے۔

            عدالتِ صحابہؓ کے حوالے سے جمہور اہل السنۃ والجماعۃ کے شانہ بہ شانہ علماء دیوبند کا موقف یہی ہے کہ:

        ’’اَلصَّحَابَۃُ کُلُّہُمْ عَدُوْلٌ مَنْ لَابَسَ الْفِتَنَ وَغَیْرُہُم‘‘

صحابہ سب کے سب عادل ہیں جو اختلافات کے فتنے میں مبتلا ہوئے وہ بھی اور دوسرے بھی۔

            علماء دیوبند صحابۂ کرامؓ کی عظمت و جلالت میں کسی تفریق کے بھی قائل نہیں کہ کسی کو لائقِ محبت سمجھیں اور کسی کو -معاذ اللہ- لائقِ عداوت، کسی کی مدح میں رطبُ اللسان رہیں اور کسی کے حق میں تبرائی بن جائیں، ان کے نزدیک تمام صحابہ شرفِ صحبت میں یکساں ہیں؛ البتہ باہم فرقِ مراتب ہے اور یہی جمہور کا قول معتبر ہے۔

            والقولُ بِالتَّعْمِیْمِ ہو الذي صَرَّحَ بہ الجُمْہُورُ وہو المعتبر۔ (تدریب الراوی، ص:۴۰۰)

            پھر علماء دیوبند ان میں سے کسی کی شان میں گستاخی تو بہت دور کی بات رہی کسی ادنیٰ سی ایسی بات کو بھی روا نہیں رکھتے جو ان کے منصب وعظمت کے شایانِ شان نہ ہو؛ اس لیے اگر کوئی صحابہؓ کے سلسلے میں یوں ہرزہ سرائی کرتا ہے کہ

’’کچھ صحابہ فاسق ہیں جیسا کے ولید (بن عقبہ) اور اسی کے مثل کہا جائے گا معاویہ، عمرو، مغیرہ اور شعبہ کے حق میں‘‘۔ (کہ معاذ اللہ وہ بھی فاسق ہیں) (نزل الابرار:۲/۹۴)

            یا کوئی اپنے قلب کا ضلال یوں ظاہر کرتا ہے:

’’عائشہ حضرت علیؓ سے لڑکر مرتد ہوئی اگر بے توبہ مری تو کافر مری (العیاذ باللہ) اور صحابہ کو پانچ پانچ حدیثیں یاد تھیں ہم کو سب کی حدیثیں یاد ہیں، صحابہ سے ہمارا علم بڑا ہے صحابہ کو علم کم تھا۔‘‘ (کشف الحجاب، ص:۲۱)

            یاکوئی یوں زبان تنقیص دراز کرتا ہے:

’’ان میںایسے لوگ بھی ہوسکتے تھے اور فی الواقع تھے جن کے اندر تزکیۂ نفس کی اس بہترین تربیت کے باوجود کسی نہ کسی پہلو  میں کوئی کمزوری باقی رہ گئی تھی، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا اوریہ صحابۂ کرامؓ کے ادب کا کوئی لازمی تقاضہ بھی نہیں ہے کہ اس کا انکار کیاجائے۔‘‘ (خلافت وملوکیت، ص:۲۸۳)

            یا کسی کی ہفوات کا ظہور یوں ہوتاہے:

’’عثمان، معاویہ اور یزید، سب ایک ہی درجے کے ظالم و مجرم تھے، بقیہ صحابہ یاتو شیخین کے گروپ کے تھے اور اقتدار تک پہنچنے کے ان کے مقصد کی تکمیل میں شریک بن گئے تھے، یا وہ شیخین اور ان کے حامیوں سے خائف تھے، شیخین کے خلاف کوئی بات زبان پر لانے کی کسی میں ہمت نہ تھی۔‘‘ (مزید دیکھیے، خمینی، کشف الاسرار، ص:۱۱۲-۱۲۰)

            تو اس قسم کی تمام تر ہرزہ سرائیوں سے علماء دیوبند؛ بلکہ تمام اہل السنۃ والجماعۃ نہ صرف یہ کہ اظہارِ برأت اور ان کی مذمت کرتے ؛ بلکہ اس طرح کے خیالات رکھنے والوں کے اسلام کو مشکوک مانتے اور اس ہرزہ سرائی کو زندقہ گردانتے ہیں اور فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:

            ’’إذَا رَأَیْتُمُ الذینَ یَسُبُّوْنَ أَصْحَابِیْ فَقُوْلُوْا لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلٰی شَرِّکُمْ‘‘ (جمع الفوائد: ۲/۴۹۱)

جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہؓ کو برا کہتے ہیں تو تم کہہ دو کہ خدا کی لعنت ہو اس پر جو تم میں بدتر ہے۔

            کی روشنی میں ایسے لوگوں کو مستحقِ لعنت شمار کرتے ہیں، امام مسلمؒ کے استاذ امام ابوزرعہ عراقی فرماتے ہیں:

’’جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ کسی صحابی کی تنقیص کررہاہے تو سمجھ لو کہ وہ زندیق ہے؛ اس لیے کہ ہمارے نزدیک رسول اللہ …حق ہیں، قرآن حق ہے، قرآن وسنت ہم تک پہنچانے والے یہی صحابۂ کرامؓ ہیں، یہ تنقیص کرنے والے، ہمارے گواہوں کو مجروح کرنا چاہتے ہیں؛ تاکہ کتاب وسنت کو باطل کریں؛ لہٰذا خود ان کو مجروح کرنا زیادہ مناسب ہے، یہ زندیق ہیں‘‘۔ (الکفایہ، خطیب بغدادی، ص:۴۹ حیدرآباد، دکن)

            الغرض علماء دیوبند اور تمام اہل السنۃ والجماعۃ کے نزدیک عدالتِ صحابہ کے مسئلہ پرامت کا اجماع ہے، اس میں کسی شک وشبہ کی قطعاً کوئی راہ نہیں، پھر یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ لفظ ’’سب‘‘ عربی زبان کے اعتبار سے صرف فحش کلامی اور گالی گلوچ کو ہی نہیں کہتے؛ بلکہ ہر ایسا کلام جس سے کسی کی تنقیص وتوہین یا دل آزاری ہوتی ہے وہ لفظ ’’سبّ‘‘ میں داخل ہے۔

صحابۂ کرام معصوم نہیں!

            عدالتِ صحابہؓ کے مسئلے میں مذکورہ بالا وسعت اور عموم کے باوجود ہم ان کو معصوم نہیں کہتے؛ البتہ انھیں محفوظ من اللہ مانتے ہیں جو ولایت کا انتہائی مقام ہے جس میں بشاشتِ ایمان، جوہرِ نفس بن جاتی ہے اور تقویٰ باطن ہمہ وقت مذکِّر رہتا ہے، اس میں امکان معصیت رہتا ہے اور معصیت کا صدور ہوا بھی ہے؛ لیکن اس میں تقاضائے بشری اور بیرونی عوارض کار فرمارہے، دواعیٔ قلب کا دخل نہ رہا تھا اوراس صدورِ معصیت سے ان کی باطنی بزرگی اور باطنی تقویٰ کو جس کی اللہ تعالیٰ نے شہادت دی ہے متہم نہیں کیا جاسکتا  وَألْزَمَہُمْ کَلِمَۃَ التقویٰ وکلانوا أحقَّ بہا وأہْلَہا۔

ایک شبہ کا ازالہ

            البتہ یہاں ایک خلجان دل میں پیدا ہوسکتا ہے، وہ یہ کہ جب صحابۂ کرامؓ چھوٹے بڑے سب کے سب صرف روایت حدیث میں نہیں؛ بلکہ زندگی کے تمام معاملات میں عادل ہیں اور عدالت کے مفہوم میں کبائر شرک و فسق اور بدعت وغیرہ سے اجتناب شامل ہے اور صحابہؓ معصوم بھی نہیں، ان سے صدور معصیت ہوا ہے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدود بھی جاری فرمائی ہیں، تو پھر ان صحابۂ کرام پر عدالت کا مفہوم کیوں کر صادق آسکتاہے؟

            اس سلسلے میں علماء دیوبند اوراہل السنۃ والجماعۃ کا واضح جواب یہ ہے کہ یہ صحیح ہے کہ بعض صحابہ سے معصیت کا صدور ہوا؛ لیکن معصیت، عدالت کے لیے نقصان دہ اس وقت ہے؛ جب کہ اس سے توبہ نہ کی گئی ہو یا اللہ تعالیٰ نے از خود معاف نہ کردیا ہو اور امت کے عام افراد کے حق میں یہ معلوم نہیں ہوپاتا کہ ان کے گناہ کی معافی ہوئی یا نہیں؛ اس لیے جب تک وہ توبہ نہ کرلیں اور توبہ پر ثابت قدمی ظاہر نہ ہوجائے ان کو ساقط العدالت ہی مانا جائے گا؛ مگر صحابۂ کرامؓ کا معاملہ ایسا نہیں ہے، کیوںکہ:

            (۱) صحابۂ کرامؓ کے قلوب میں جو خوف وخشیت اورمعاصی سے تنفر راسخ ہے، اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم یہ گمان رکھیں کہ انھوں نے ضرور توبہ کرلی ہوگی اور بعض کا توبہ کرنا قطعی دلائل سے معلوم بھی ہے ان کا حال یہ ہے کہ وہ صرف زبانی توبہ پر اکتفا نہیں کرتے؛ بلکہ کوئی اپنے آپ کو رجم جیسی سخت ترین سزا کے لیے پیش کردیتا ہے، کوئی اپنے آپ کو مسجد کے ستون سے باندھ دیتا ہے اور جب تک قبول توبہ کا اطمینان نہیں ہوجاتا اس کو صبر نہیں آتا۔

            (۲) ہمارا خیال ہے کہ ان کے حسنات، دینِ متین کے تئیں ان کی قربانیاں اور ان کی رسول اللہ سے محبت ونصرت اتنی عظیم اور بھاری ہے کہ عمر بھر کا ایک آدھ گناہ وعدئہ الٰہی کے مطابق معاف ہوہی گیا ہوگا۔ إنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّئَاتِ۔

            (۳) یہ ہمارا محض خیال نہیں ہے یہ قرآن کریم کی ایک سے زائد آیات سے مؤید اور تصدیق شدہ ہے؛ کہیں صحابۂ کرام کی کسی خاص جماعت کے لیے خاص اور کہیں سابقین وآخرین تمام صحابۂ کرامؓ کے لیے عام اعلان ہے کہ اللہ ان سے راضی ہے، بیعتِ حدیبیہ میں شریک تقریباً ڈیڑھ ہزار صحابۂ کرامؓ کے بارے میں قرآنِ کریم کا یہ واضح اعلان ہے:

’’لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤمِنینَ إذ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ‘‘

اللہ تعالیٰ مومنوں سے راضی ہوگیا جب کہ وہ درخت کے نیچے آپ کے ہاتھ پر بیعت کررہے تھے۔

            سابقین وآخرین تمام صحابۂ کرامؓ کے بارے میں اعلان کیاگیا:

            وَالسّابقونَ الأولونَ مِنَ المُہَاجِرِیْنَ والأنصارِ وَالذین اتَّبَعُوْہُمْ بِإحْسَانٍ، رضی اللّٰہ عنہم ورضوا عنہ۔

اورمہاجرین اور انصار میں سے جو سب سے پہلے سبقت کرنے والے ہیں اورجنھوں نے نیکی کے ساتھ ان کی اتباع کی اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے۔

            سورۃ ’’الحدید‘‘ میں ارشادِ باری ہے:

’’وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الحُسنٰی‘‘

            اللہ نے ان میں سے ہر ایک سے حسنیٰ کا وعدہ کرلیا ہے پھر سورئہ ’’انبیاء‘‘ میں حسنیٰ کے متعلق یہ ارشاد ہے:

’’اِنَّ الّذینَ سَبَقَتْ لَہُمْ مِنَّا الحُسنٰی أولئکَ عَنہا مُبْعَدُوْن‘‘

جن کے لیے ہماری طرف سے حسنیٰ مقدر کردی گئی وہ جہنم سے دور کیے جائیںگے۔

            جب ان آیاتِ قرآنیہ سے صحابۂ کرامؓ کی لغزشوں کی معافی واضح طور پر معلوم ہوگئی تو ان کوکسی وقت بھی کسی معاملے میں ساقط العدالت یا فاسق نہیں کہاجاسکتا۔

            صحابۂ کرامؓ کے غیر معصوم ہونے اور ان کے عادل ہونے میںجو ایک ظاہری شبہ ہوا کرتاہے اس کا جواب جمہورِامت کے نزدیک یہی ہے جو بالکل واضح اور صاف ہے۔

مشاجراتِ صحابہ اور علماء دیوبند

            صحابۂ کرامؓ کے مابین جو اخلافات رونما ہوئے اور خون ریز جنگوں تک کی نوبت آگئی ان اختلافات کو علمائِ امت، صحابۂ کرامؓ کے ادب واحترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’’مشاجرات‘‘ کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں، جنگ وجدال کی تعبیر سے گریز کرتے ہیں کہ اس میں یک گونہ ان کے تئیںسوء ادب ہے، ’’مشاجرہ‘‘ کے معنی از روئے لغت ایک درخت کی شاخوں کا دوسرے میں داخل ہونا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ درختوں کے لیے باعث زینت ہے نہ کہ عیب، اس طرح علماء امت اس اختلاف کی تعبیر سے ہی یہ اشارہ دینا چاہتے ہیں کہ صحابۂ کرامؓ کے وہ اختلافات جو اپنی انتہاء کو پہنچ گئے تھے اور جس میں وہ باہم برسرِپیکار بھی ہوگئے، وہ اختلافات بھی کوئی نقص وعیب نہیں؛ بلکہ زینت وکمال ہیں۔

            مشاجراتِ صحابہؓ میں باعثِ تشویش یہ ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق، جب تمام صحابۂ کرامؓ واجب الاحترام اور لائق تعظیم ہیںاور کسی ایک کے حق میں بھی ادنیٰ سے ادنیٰ سوء ادب کی گنجائش نہیں تو پھر اختلاف کے موقع پر یہ احترام کیسے قائم رہ سکتا ہے؛ کیوںکہ ان اختلافات میں ایک فریق کا حق پر اور دوسرے فریق کا خطا پر ہونا بدیہی ہے؛ بلکہ ایمان وعقیدے کے لیے اہلِ حق اور اربابِ خطا کی تعیین ضروری بھی ہے تو جو خطا پر ہیں ان کی تنقیص ایک لازمی امر ہے۔

            مشاجراتِ صحابہؓ کے اس شبہ کے سلسلے میں علماء امت اور علماء دیوبند کا دوٹوک موقف یہ ے کہ باجماعِ امت تمام صحابۂ کرامؓ واجب التعظیم ہیں، اسی طرح اس بات پر بھی اجماع ہے کہ جنگ جمل  وجنگ صفین میں حضرت علی – کرم اللہ وجہ- حق پر تھے اور ان سے مقابلہ کرنے والے حضرت معاویہؓ وغیرہ خطا پر؛ لیکن ان کی خطا اجتہادی تھی جو شرعاً گناہ نہیں کہ جس پر وہ اللہ تعالیٰ کے عتاب کے مستحق قرار پائیں؛ بلکہ معاملہ یہ ہے کہ جب انھوں نے اصولِ اجتہاد کی رعایت کرتے ہوئے اپنی وسعت بھر تمام تر کوشش کی پھر بھی خطاہوگئی تو وہ ایک اجر کے حق دار ہوںگے، اس طرح خطا وصواب بھی واضح ہوگیا اور صحابۂ کرامؓ کے مقام ومرتبے پرکوئی آنچ بھی نہیں آئی، ہمارے خیال میں مشاجراتِ صحابہ کے حوالے سے ’’امام قرطبی‘‘ نے اپنی تفسیر میں سورۃ الحجرات کی آیت  ’’وَإنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤمنین اقْتَتَلُوا‘‘  کے ذیل میںاہل السنۃ والجماعۃ کے مسلک کی بہترین تحقیق فرمائی ہے، اس کا مطالعہ کرلینا ہی چاہیے، یہ سطور اس تفصیل کی متحمل نہیں۔

            تاہم مفسر موصوف کے ایک استدلال کا خلاصہ نقل کردینا مناسب ہوگا جو – انشاء اللہ – بیمار دلوں کے لیے سامان شفاء ہوگا۔

            مفسر موصوفؒ نے اس نظریے کو مدلل کرتے ہوئے کہ دونوں فریقوں میں سے کوئی بھی گناہ اور فسق وفجور کا مرتکب نہیں تھا، حضرت طلحہؓ حضرت زبیرؓ  اور حضرت عمارؓ سے متعلق ارشاداتِ نبوی بیان فرمائے ہیں، جس کا ماحصل یہ ہے :

            نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت طلحہؓ کے بارے میں فرمایا ہے: ’’طلحہ روئے زمین  پر چلنے والے شہید ہیں‘‘ اور حضرت زبیرؓ کے بارے میں خود حضرت علیؓ سے یہ حدیث مروی ہے: ’’زبیر کا قاتل جہنم میںہے‘‘ حضرت علیؓ یہ بھی فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ’’صفیہ کے بیٹے کے قاتل کو جہنم کی خبردے دو‘‘ اور یہ دونوں حضرات ان عشرئہ مبشرہ میں ہیں جن کے نام لے کر جنتی ہونے کی خبر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے، پھر یہ بھی معلوم ہے کہ ان دونوں حضرات نے حضرت عثمانؓ کے قصاص کا مطالبہ کیاتھا، حضرت علیؓ سے مقابلہ کیا اوراسی دوران شہیدہوئے۔

            دوسری طرف حضرت عمار بن یاسر – رضی اللہ عنہ – ہیں، حضرت علیؓ کے طرف دار ہیں، آپ کے مخالفین سے پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کیا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شہادت کی بھی پیشین گوئی فرمائی ہے۔

            جب حال یہ ہے کہ حضرت علیؓ کے طرف دار بھی شہیداور مخالفین بھی شہید، تو پھر کیسے کسی فریق کو گناہ گار یا فاسق کہا جاسکتا ہے؟ ہرگز نہیں! بلکہ ان تمام حضرات کے پیش نظر رضاء الٰہی کے حصول کے سوا کچھ نہ تھا، دونوں کا اختلاف کسی دنیوی غرض سے نہ تھا؛ بلکہ اجتہاد ورائے کی بنا پر تھا جس پرکسی بھی فریق کو مجروح ومطعون نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح جو صحابہؓ کنارہ کش رہے وہ بھی اجتہاد کی بنا پر؛ اس لیے وہ بھی نقص وعیب سے مبرا اور واجبُ التعظیم ہیں۔

            پھر علماء دیوبند کے نزدیک سب سے اہم سکوت اور کفِّ لسان ہے اور حضرت حسن بصریؒ کا یہ قول ان کے لیے اسوئہ ہے جس میں وہ فرماتے ہیں:

’’یہ ایسی لڑائی تھی جس میں صحابہ موجود تھے اور ہم غائب، وہ پورے حالات کو جانتے تھے، ہم نہیں جانتے، جس معاملے پر تمام صحابہؓ کا اتفاق ہے، ہم اس میں ان کی پیروی کرتے ہیں اورجس معاملے میںان کے درمیان اختلاف ہے اس میں سکوت اختیار کرتے ہیں۔‘‘ (قرطبی سورئہ حجرات)

خلاصۂ کلام

            الغرض! صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کتاب وسنت کی روشنی میں اس امت کے افضل ترین اور مقدس ترین افراد ہیں، ان کے قلوب صاف اور وہ عند اللہ راضی ومرضی ہیں، وہ سب کے سب عادل، متقن اور پاک باطن ہیں، امت کا کوئی بڑے سے بڑا ولی ان میں سے ادنیٰ کے مقام کو نہیں پہنچ سکتا، وہ حق وباطل کی کسوٹی ہیں اورتنقید سے بالاتر؛ ان کی محبت، اللہ اور رسول اللہ کی محبت ہے اور ان سے بغض اللہ اور اللہ کے رسول سے بغض، ان کی عیب جوئی اوران کے مشاجرات کو اُچھالنا زیغِ باطن کی علامت اور زندقہ ہے، ان کے اختلافات حق وباطل کے نہیں، اجتہادی خطا وصواب کے ہیں؛اس لیے ان پر معصیت کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔

            ان سطور کو سرخیلِ جماعت دیوبند شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن قدس سرہ کے تلمیذِ رشید، استاذِمحترم حضرت مولانا فخرالدین  علیہ الرحمہ سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کے ایک قول پر ختم کیاجاتا ہے، حضرت فرمایا کرتے تھے:

’’صحابۂ کرامؓ فارق بین الحق والباطل ہیں؛ چناںچہ قرونِ اولیٰ میں روافض وخوارج کے ضلال کی ایک وجہ یہی تنقیصِ صحابہ تھی اور دورِ حاضر میں ’’غیرمقلدین‘‘ و ’’مودودیین‘‘ کے ضلال کا بھی ایک سبب یہی ہے۔‘‘

—————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 12-11،  جلد:102‏،  صفر المظفر –ربيع الثانی 1440ھ مطابق نومبر –دسمبر2018 ء

۞     ۞     ۞

Related Posts