از:  حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی دامت برکاتہم

استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند

            اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب کوئی معصوم نہیں ہے اور کوئی فرد یا جماعت کسی غیررسول کی عصمت کا مدعی ہے تو وہ اپنے دعویٰ میں کاذب اور جھوٹا ہے۔ اس لیے جماعتِ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے علاوہ ہرانسان سے صواب وخطا اور خیروشر کا صدور ہوسکتا ہے؛ البتہ بعض خدا کے ایسے سعید بندے ہوتے ہیں کہ ان کی زندگی پر خیروصلاح کا غلبہ ہوتا ہے، اسی غلبۂ خیرکی بناپر انھیں نیک، صالح، ولی وغیرہ محترم ناموں سے یاد کیا جاتا ہے، جس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ یہ زلّات وسیئات سے بالکلیہ پاک ہیں۔

            اس کے بالمقابل کچھ نابکار ایسے بھی ہیں جومجموعۂ شرور ومعاصی اور خزینۂ فسق وفساد ہوتے ہیں، ان کے فسق وفساد کی یہ کثرت انھیں ظالمین ومفسدین کے زمرے میں پہنچادیتی ہے، بایں ہمہ ان کا بھی دامنِ حیات خیروصلاح سے یکسر خالی نہیںہوتا۔

            صلحائے امت کی حیات وسوانح پر بحث وتحقیق کے وقت ان کی بعض لغزشوں اور بشری کمزوریوں کے پیش نظر ان کے جملہ محاسن ومزایا پر خطِ تنسیخ کھینچ دینا اور ان کے سارے حسنات وخیرات کا انکار کرکے انھیں ظالمین ومفسدین کی صف میں کھڑا کردینا علم ودیانت کے سراسر منافی ہے۔ ٹھیک اسی طرح ظالمین ومفسدین کے چند گنے چنے اچھے کاموں کو سامنے رکھ کر ان کی زندگی کے سارے سیاہ کارناموں سے آنکھیں بند کرکے انھیں صلحاء واولیاء کی جماعت میں شامل کردینا کسی طرح بھی درست نہیں ہوگا؛ بلکہ ہر ایک کے ساتھ اس کے اعمال خیر وشر کی قلت وکثرت کے اعتبار سے معاملہ کیا جائے گا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں  أمَرَنا رسولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن نُنْزِلَ الناسَ مَنازِلَہم آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمیں حکم تھا کہ ہم لوگوں کو ان کے درجات ومراتب میں رکھیں۔

گر فرق مراتب نہ کنی زندیقی

            بحث ونظر اور تحقیق و تبصرہ کا یہ ایسا لازمی اصول ہے جس سے غفلت اور بے اعتباری ایک محقق ومبصر کو دائرہ بحث وتحقیق سے نکال کر افراط وتفریط اور تنقیص وتضلیل کی صف میںپہنچادیتی ہے، جس سے خود اس کی ذات مجروح اور علمی کاوشیں بے سود ہوکر رہ جاتی ہیں۔

            پر ایک محقق کی علمی دیانت کا بھی یہ تقاضا ہے کہ کسی شخصیت پر بحث کرنے کے لیے اس سے متعلق جو درست، صالح، معتبر اور مستند مواد ہیں انھیں کو کام میں لائے، خود تراشیدہ، غیرمقبول اور گری پڑی باتوں کو بنیاد بناکر اس کے بارے میںکوئی رائے قائم کرنا نہ صرف اس شخصیت پر ظلم ہے؛ بلکہ خود علم وتحقیق کے ساتھ مذاق کرنا ہے، محقق کا یہ رویہ بھی اسے پایۂ اعتبار سے ساقط اور علمی خیانت سے متہم کردیتا ہے، باری تعالیٰ عز اسمہ کا ارشاد ہے  یا أیہا الذین آمنوا إنْ جائکم فاسِقٌ بِنَبَائٍ فَتَبَیَّنُوا  جب غلط کار دروغ گو کوئی خبر دے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو۔ ایک دوسری آیت میں ہے  إذا ضَرَبْتُمْ فی الأرض فَتَبَیَّنُوا،  اس لیے صحیح، سقیم، قوی، ضعیف کی اچھی طرح چھان بین کے بعد ہی کوئی فیصلہ درست سمجھا جائے گا۔

            عام اسلامی شخصیات سے ہٹ کر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات اور ان کے مقام ومرتبہ پر بحث وکلام کے لیے محض تاریخی روایات پر انحصار واعتماد بھی ایک محقق کو راہِ اعتدال اور راہِ صواب سے دور کردیتا ہے؛ کیونکہ تاریخ کو ہرگز یہ حیثیت حاصل نہیں ہے کہ اس کی شہادت سے کتاب وسنت کے مسلمات کے خلاف استدلال فراہم کیاجائے؛ البتہ خدا اور عام امت کے درمیان دین خالص کے صحیح تصور کے لیے اگر کوئی قابلِ اعتماد واسطہ ہے تو وہ صحابۂ کرام کی برگزیدہ اور مقدس جماعت ہے۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے یہ ساتھی ہی آپ کے پیغام اور آپ کی تعلیمات کو پورے عالم میں پہنچانے والے ہیں، صحابۂ کرام کی اس داعیانہ حیثیت کا اعلان خود خدائے علیم وخبیر نے اپنے رسول … کی زبانی یوں فرمایا ہے  قُلْ ہٰذِہٖ سَبِیْلِیْ اَدْعُوْا إِلَی اللّٰہِ عَلیٰ بَصِیْرَۃٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ الآیۃ آپؐ اعلان کردیں کہ یہ میرا راستہ ہے بلاتا ہوں اللہ کی طرف، سمجھ بوجھ کر میں اور میرے ساتھی۔ مطلب یہ ہے کہ کسی اندھی تقلید کی بنیاد پر نہیں؛ بلکہ حجت وبرہان اور بصیرت ووجدان کی روشنی میں، میں اور میرے اصحاب دینِ توحید کی دعوت دے رہے ہیں، اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو نورِ بصیرت عطا فرمایا تھا، آپ کے فیض صحبت سے ہر صحابی کا دل ودماغ اس نور سے روشن ہوگیا تھا اور دعوت الی اللہ علی وجہ البصیرۃ میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست وبازو اور رفیقِ کار بن گئے تھے، حدیث پاک  ’’ما أنا علیہ وأصحابی‘‘  میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صحابۂ کرام کے اسی مرتبۂ بلند کو بیان فرمایا ہے، اس لیے صحابہ کی سیرت درحقیقت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا جز ہے، عام شخصیات ورجال کی طرح انھیں صرف کتب تاریخ کی روشنی میں نہیں؛ بلکہ قرآن وحدیث اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آئینہ میں دیکھاجائے گا۔

            قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

            ومن توقیرہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم توقیر اصحابہ وبرہم معرفۃ حقہم والقتداء بہم وحسن الثناء علیہم والاستغفار لہم والإمساک عما شجر بینہم ومعاداۃ من عاداہم والاضراب عن أخبار المؤرخین وجہلۃ الرواۃ۔ (الاسالیب البدیعۃ ص۸)

            ترجمہ: آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم وتوقیر میں سے ہے صحابہؓ کی تعظیم کرنا، ان سے حسن سلوک کرنا، ان کے حق کو پہچاننا، ان کی پیروی کرنا، ان کی مدح وستائش کرنا، ان کے واسطے استغفار کرنا، ان کے باہمی اختاف کے ذکر سے (زبان وقلم کو) روکے رکھنا، ان کے دشمنوں سے دشمنی رکھنا مورخین اور جاہل راویوں کی (ان کی خلاف شان) روایتوں کے نقل وبیان سے باز رہنا۔

            حضرت شیخ الاسلام مولانا مدنی قدس سرہٗ اپنے ایک مکتوب میں رقم طراز ہیں:

            ’’صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میںجو آیات وارد ہیں وہ قطعی ہیں، جو احادیث صحیحہ ان کے متعلق وارد ہیں وہ اگرچہ ظنی ہیں؛ مگر ان کی اسانید اس قدر قوی ہیں کہ تواریخ کی روایات ان کے سامنے ہیچ ہیں؛ اس لیے اگر کسی تاریخی روایت میںاور آیات واحادیث صحیحہ میں تعارض واقع ہوگاتو تواریخ کو غلط کہنا ضروری ہوگا‘‘۔ (مکتوبات شیخ الاسلام، ج۱، ص۲۴۲ مکتوب ۸۸)

            حضرات صحابہ کا یہ تقدس وامتیاز کسی انسانی شخصیت وجماعت کا عطاکردہ نہیں ہے؛ بلکہ انھیں یہ رتبۂ بلند خود مالک کائنات وخالقِ دوجہاں کے دربار سے مرحمت ہوا ہے، ذیل میں چند آیات ملاحظہ فرمائیں آپ پر یہ حقیقت روز روشن کی طرح آشکارا ہوجائے گی:

            (۱) کنتم خیر أمۃٍ أخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنہون عن المنکر وتؤمنون باللّٰہ۔ (آل عمران:۱۱۰)

            ترجمہ: تم لوگ بہترین جماعت ہو جو لوگوں کی نفع رسانی کے لیے پیدا کی گئی ہے، تم نیک کاموں کو کرتے اور بری باتوں سے منع کرتے ہو، اللہ پر ایمان لاتے ہو۔

            حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تلاوت کے بعد فرمایا: ’’اگر اللہ تعالیٰ چاہتے تو  انتم  فرماتے اس وقت خطاب کی وسعت میں پوری امت مرحومہ براہ راست داخل ہوجاتی؛مگر اللہ تعالیٰ نے  کنتم فرمایا اور صحابہ کی تخصیص فرمادی، اب رہے امت کے باقی لوگ تو وہ جیسے اعمال کریںگے وہ بھی ان کے تابع ہوکر اس خیریت وافضلیت کے مصداق ہوجائیںگے۔ (اخرجہ ابنجریر وابوحاتم عن السدّی)

            حضرت فاروق اعظمؓ نے آیت پاک کا مصداقِ اولین صحابۂ کرامؓ کو قرار دیا ہے اور امت کے دیگر وہ افراد جو آیت پاک میں مذکورہ صفات کے حامل ہوںگے انھیں ثانوی درجہ میں شامل کیا ہے اور عربی زبان کے قواعد کی رو سے یہ بات اس طرح سمجھائی ہے کہ  أنتم خیر أمۃ جملہ اسمیہ ہے جو ثبوت نسبت کو بتاتا ہے، تو أنتم  سے خطاب عام ہوگا جس کے عموم و وسعت میں موجود وغیرموجود سب داخل ہوجائیںگے؛ لیکن جب ضمیر  ’’أنتم‘‘  پر  ’’کان‘‘  فعل ماضی داخل کردیاجائے تو وقوع وحدوث کا معنی پیدا ہوجائے گا، اس صورت میں  کنتم  کے مخاطب صرف موجودین ہوںگے، یعنی نزول آیت کے وقت جو امت موجود ہے وہی اس کی مصداق اولین ہوگی، یہ آیت صاف طورپر بتارہی ہے کہ اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بلا تخصیص جماعتِ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے بعد سب سے افضل ہیں، علامہ سفارینی نے شرح عقیدۃ الدرۃ المضیئہ میں اسے جمہور امت کا مسلک قرار دیا ہے کہ انبیاء کے بعد صحابۂ کرامؓ افضل الخلائق ہیں، ابراہیم بن سعید جوہری کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوامامہؓ سے دریافت کیا کہ حضرت معاویہ اور عمر بن عبدالعزیز میںکون  افضل ہے توانھوں نے فرمایا  لا نعدل بأصحابہ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم أحدًا (الروضۃ الندیۃ شرح العقیدۃ الواسطیۃ ابن تیمیہ ص۴۰۵)

            امام ابن حزم اپنی مشہور کتاب الفصل میں لکھتے ہیں  ولا سبیل الیٰ أن یلحق أقلہ درجۃ أحد من أہلِ الأرض  کوئی شکل نہیں ہے کہ صحابۂ کرامؓ میں سے کم رتبہ کے درجہ کو بھی کوئی (غیرصحابی) فرد بشر پہونچ سکے۔

            اب اگر کسی تاریخی روایت سے صحابۂ کرامؓ کی تنقیص لازم آتی ہو تو وہ اس نص قطعی کے معارض ہونے کی بنا پر لازمی طور پر مردود ہوگی۔

            (۱) لا یستوی منکم من انفق من قبل الفتح وقاتل اولٰئک اعظم درجۃ من الذین انفقوا من بعد وقاتلوا وکلا وعد اللّٰہ الحسنٰی۔(الحدید:۱۰)

            ترجمہ: برابر نہیں تم میں جس نے خرچ کیا فتح مکہ (یا صلح حدیبیہ) سے پہلے اور جنگ کی ان لوگوں کا درجہ بڑا ہے، ان لوگوں سے جنھوں نے خرچ کیا اس کے بعد اور جنگ کی اور سب سے وعدہ کیا اللہ نے خوبی کا۔

            سورئہ انتیاء میں  الحسنی  کے متعلق ارشاد ہے : إِنَّ الَّذِینَ سَبَقَتْ لَہُم مِّنَّا الْحُسْنٰی أُوْلَئِکَ عَنْہَا مُبْعَدُونَ جن لوگوں کے واسطے ہماری طرف سے حسنیٰ کا وعدہ ہوچکا ہے وہ جہنم سے دور رکھے جائیںگے۔ اس آیت پاک سے معلوم ہوا کہ فرق مراتب کے باوجود سارے صحابہ جنتی ہیں یہی بات سورئہ توبہ میں ان الفاظ میں بیان فرمائی گئی ہے۔

            (۲) وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِینَ اتَّبَعُوہُم بِإِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُواْ عَنْہُ وَأَعَدَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِی تَحْتَہَا الأَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا أَبَدًا ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ (آیت: ۱۰۰)

            ترجمہ: اور جو لوگ قدیم ہیں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے اور مدد کرنے والے اور جو لوگ ان کے پیرو ہیں نیکی کے ساتھ اللہ راضی ہوا ان سے اور وہ راضی ہوئے اس سے تیار کررکھے  ہیں واسطے ان کے باغ کہ بہتی ہیں نیچے ان کے نہریں، رہا کریں انھی میں ہمیشہ یہی ہے تیری کامیابی۔

            آیت میں صحابۂ کرامؓ کو دو طبقوں میں تقسیم کیاگیا ہے: ایک اولین سابقین کا اور دوسراان کے بعد والوں کا اور دونوں طبقوں کے متعلق یہ اعلان کردیاگیا ہے کہ اللہ ان سب سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ہیںاور ان کے لیے جنت کا مقامِ دوام ہے۔

            حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی قدس سرہ لکھتے ہیں: ’’جو شخص قرآن پر ایمان رکھتا ہے جب اس کے علم میں یہ بات آگئی کہ اللہ تعالیٰ نے بعض بندوں کو دوامی طور پر جنتی فرمایاہے تو اب ان کے حق میں جتنے بھی اعتراضات ہیں سب ساقط ہوگئے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ فلاں بندہ سے فلاں وقت میںنیکی اور فلاں وقت میں گناہ صادر ہوگا اس کے باوجود جب وہ اطلاع دے رہے ہیں کہ میں نے اسے جنتی بنادیا تو اسی کے ضمن میں اس بات کا اشارہ ہوگیا کہ اس کی تمام لغزشیں معاف کردی گئی ہیں، لہٰذا اب کسی کا ان مغفور بندوں کے حق میں لعن وطعن اور برا بھلا کہنا حق تعالیٰ پر اعتراض کے مرادف ہوگا؛ اس لیے کہ ان پر اعتراض اور زبان طعن دراز کرنے والا گویا یہ کہہ رہا ہے کہ پھر اللہ نے اسے جنتی کیسے بنادیا‘‘ الخ (فضائل صحابہ واہل بیت، مجموعہ رسائل ص۲۰۶، مطبوعہ انجمن حمایت الاسلام لاہور ۱۹۶۷ء)

            اور علامہ ابن تیمیہ نے الصارم المسلول میں قاضی ابو یعلی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ رضا اللہ تعالیٰ کی ایک صفتِ قدیمہ ہے کہ وہ اپنی رضا کا اعلان صرف انھیں کے لیے فرماتا ہے جن کے متعلق وہ جانتا ہے کہ ان کی وفات موجباتِ رضا پر ہوگی۔ (معارف القرآن، ص۱۰۶، ج۸) لہٰذا اگر کوئی تاریخی روایت اس نص قطعی کے خلاف ہوگی تو وہ لائق اعتناء نہ ہوگی۔

            ہُوَ الَّذِیَ أَیَّدَکَ بِنَصْرِہِ وَبِالْمُؤْمِنِینَ وَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِہِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِی الأَرْضِ جَمِیعًا مَّا أَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوبِہِمْ وَلٰـکِنَّ اللّہَ أَلَّفَ بَیْنَہُمْ إِنَّہُ عَزِیزٌ حَکِیمٌ۔ (الأنفال:۶۲-۶۳)

            ترجمہ: اللہ ہی نے تجھ کو زور دیا اپنی مدد کا اورمسلمانوں کا اورالفت ڈال دی ان کے دلوں کے درمیان اگر تو خرچ کردیتا جو کچھ زمین میںہے سارا نہ الفت ڈال سکتا ان کے دلوں میں؛ لیکن اللہ نے الفت پیداکردی ان کے درمیان بیشک وہ زور آور، حکمت والا ہے۔

            اسلام سے پہلے عرب میںجدال وقتال کا جو بازار گرم تھا اس سے کون ناواقف ہے، ادنیٰ ادنیٰ باتوں پر قبائل عرب باہم ٹکراتے رہتے تھے اور بسا اوقات ان کی قبائلی جنگوں کا سلسلہ صدیوں تک جاری رہتا، باہمی عداوت اور شقاق وعناد کے اس دور میں رحمۃ للعالمین توحید و معرفت اور اتحاد واخوت کا عالم گیر پیغام لے کرمبعوث ہوئے کیا دنیا کی کوئی طاقت تھی جو ان درندہ صفت، جہالت پسند لوگوں میںمعرفت الٰہی اور حبِ نبوی کی روح پھونک کر سب کو ایک دم باہمی اخوت والفت کی زنجیر میں جکڑ دیتی، بلاشبہ روئے زمین کے سارے خزانے خرچ کرکے بھی یہ مقصد حاصل نہیں کیاجاسکتا تھا، یہ خدائی طاقت وحکمت کا کرشمہ ہے کہ کل تک جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے اور عزت وآبرو کے بھوکے تھے ان کے درمیان اس طرح سے برادرانہ اتحاد واتفاق پیدا کردیا کہ حقیقی بھائیوں سے زیادہ ایک دوسرے سے محبت والفت کرنے لگے صحابۂ کرامؓ کی اس باہمی الفت ومحبت کا ذکر سورئہ آل عمران میں اس طرح کیاگیا ہے:

            وَاذْکُرُواْ نِعْمَتَ اللّہِ عَلَیْکُمْ إِذْ کُنتُمْ أَعْدَآئً فَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِہِ إِخْوَاناً۔ ( آل عمران: ۱۰۳)

            ترجمہ: یادکرو اللہ کا احسان اپنے اوپر جب کہ تھے تم آپس میں دشمن پھر اللہ نے الفت پیدا کردی تمہارے دلوں میں۔

            آیت پاک  محمد رسول اللّٰہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینہم (الفتح) (محمدؐ اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت اور آپس میں رحیم ومہربان ہیں) بھی حضرات صحابہ کی باہمی رحمت والفت کی خبر دے رہی ہے۔

            امام قرطبی اور عامۂ مفسرین لکھتے ہیں  ’’والذین معہ‘‘ میں بلا تخصیص تمام صحابۂ کرامؓ داخل ہیں، اس آیت پاک میں تمام صحابہؓ کو آپس میں رحیم اور مہربان اور فضل خداوندی کا طالب بتایا گیا ہے۔

            ان نصوص قطعیہ کے برخلاف اگر تاریخی روایتیں یہ شہادت دیں کہ صحابہ آپس میں ذاتی پرخاش اور بغض وعناد رکھتے تھے تو یہ شہادتِ زور ہوگی جو کسی عدالت میں بھی قابل قبول نہیں ہے، رہا معاملہ صحابہ کے باہمی مشاجرات اور ا ٓپسی لڑائیوں کا تواس کا منشاء بغض وعداوت اور شقاق وعناد قطعی نہیں تھا؛ بلکہ اس میں ہر فریق اپنے نقطئہ نظر اور اجتہاد کے مطابق مسلمانوں کی مصالح اور راہ حق ورضائے الٰہی کے حصول میں کوشاں تھا، یہ الگ بات ہے کہ ایک فریق  اپنے اجتہاد میں چوک گیاجس پر وہ قابلِ گرفت نہیں؛ بلکہ مستحق اجر ہے، چنانچہ علامہ سفارینی لکھتے ہیں:

            التخاصم والنزاع والتقاتل والدفاع الذی جری بینہم کان عن اجتہاد قد صدر من کل واحد من رؤس الفریقین ومقصد سائغ لکل فرقۃ من الطَّائفتین وان کان المصیب فی ذلک للصواب واحدہما۔۔۔۔۔ غیر ان للمخطی فی الاجتہاد اجرًا وثوابًا۔ (مقام صحابہ، ص۱۰۴)

جو نزاع وجدال اور دفاع وقتال صحابہ کے درمیان پیش آیا وہ اس اجتہاد کی بنا پر تھا جو فریقین کے سرداروں نے کیاتھا اور فریقین میں سے ہر ایک کا مقصد اچھا تھا اگرچہ اس اجتہاد میں ایک ہی فریق صواب پر ہے۔۔۔۔ مگر اپنے اجتہاد میں خطا کرجانے والے کے لیے بھی اجر وثواب ہے۔

            (۴) لَا تَجِدُ قَوْماً یُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ یُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللّٰہَ وَرَسُولَہٗ وَلَوْ کَانُوا آبَائَہُمْ أَوْ أَبْنَائَہُمْ أَوْ إِخْوَانَہُمْ أَوْ عَشِیرَتَہُمْ أُوْلَئِکَ کَتَبَ فِی قُلُوبِہِمُ الإِیمَانَ وَأَیَّدَہُم بِرُوحٍ مِّنْہُ (المجادلۃ:۲۲)

            ترجمہ: تو نہیں پائے گا کسی قوم کو جو اللہ پر اور قیامت کے دن پرایمان رکھتے ہیں کہ وہ دوستی رکھیں ان جیسے لوگوں سے جو اللہ اور رسول اللہ کے مخالف ہیں خواہ وہ ان کے باپ، بیٹے، بھائی یا اپنے گھرانے ہی کے کیوں نہ ہوں ان لوگوں کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کردیا ہے اور ان کواپنے فیض غیبی سے مدد کی ہے۔

            حضرت شاہ عبدالقادر مفسر دہلویؒ اس آیت کے ذیل میںلکھتے ہیں، یعنی جو دوستی نہیں رکھتے اللہ کے مخالف سے اگرچہ باپ بیٹے (وغیرہ) ہوں وہ ہی سچے ایمان والے ہیں، ان کے  ۔۔۔۔ (جنت ورضوان الٰہی) ملتے ہیں، صحابہ رضی اللہ عنہم کی شان یہی تھی کہ اللہ ورسول کے معاملہ میں کسی چیز اور کسی شخص کی پروا نہیں کی۔ الحاصل حضرات صحابہ اسی آیت پاک کے مصداق اولین ہیں؛ چنانچہ امام قرطبی، زمخشری، حافظ ابن کثیر وغیرہ ائمہ تفسیر نے اس آیت کے تحت حضرت ابوعبیدہ، حضرت ابوبکر صدیق، حضرت مصعب بن عمیر، حضرت عمر فاروق وغیرہ رضوان اللہ علیہم کے بے لوث مخلصانہ واقعات بیان کیے ہیں۔

            اب اس قرآنی اطلاع کے برعکس تاریخ کی روایتیں یہ خبر دیں کہ صحابہ خدا اور رسولِ خدا کے مقابلے میں اپنے بیٹے عزیز واقارب اور قبیلے وگھرانے کو اولیت دیتے تھے تو یہ روایتیں ساقط الاعتبار ہوںگی انھیں کسی طرح بھی تسلیم نہیں کیاجاسکتا۔

            (۵) وَلَکِنَّ اللَّہَ حَبَّبَ إِلَیْکُمُ الْإِیمَانَ وَزَیَّنَہُ فِی قُلُوبِکُمْ وَکَرَّہَ إِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْیَانَ أُوْلَئِکَ ہُمُ الرَّاشِدُونَ فَضْلاً مِّنَ اللَّہِ وَنِعْمَۃً وَاللَّہُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ (الحجرات:۷-۸)

            ترجمہ:  لیکن اللہ نے محبوب بنادیا تمہارے لیے ایمان کو اوراس کو مزین کردیا تمہارے دلوں میں اور نفرت ڈال دی تمہارے دلوں میںکفر، گناہ اور نافرمانی کی ایسے ہی لوگ نیک راہ پر ہیں اللہ کے فضل واحسان سے اور اللہ جاننے والا، حکمت والا ہے، یعنی اللہ سب کی استعداد وصلاحیت کو جانتا ہے اوراپنی حکمت سے ہر ایک کو وہ مقام ومرتبہ مرحمت فرماتا ہے جو اس کی استعداد کے مناسب ہو۔

            یہ آیت ناطق ہے کہ بلا استثناء تمام صحابہؓ کے دلوں میں ایمان کی محبت اور کفر، گناہ اور نافرمانی سے نفرت و کراہیت من جانب اللہ راسخ کردی گئی تھی اور  ’’الیکم‘‘  میں حرف  ’’الٰی‘‘ سے مستفاد ہوتا کہ یہ ایمان کی محبت اورکفر وفسق سے نفرت انتہا درجے کو پہنچی ہوئی تھی؛ کیونکہ ’’الیٰ‘‘ عربی میں انتہا وغایت کے معنی بیان کرنے کے لیے وضع کیاگیا ہے، نیز آیت پاک سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ صحابۂ کرامؓ سے جو لغزشیں صادر ہوتی ہیں اس کی بنیاد ضعفِ ایمان اور فسق وعصین کا (نعوذ باللہ) استحسان نہیں؛ بلکہ بہ تقاضائے بشریت ان کا صدور ہوگیا ہے، جس سے ان کے رشد پر کوئی حرف نہیں آسکتا؛ اس لیے ان کی معدودے چند لغزشوں کی بنا پر انھیں تنقید وتنقیص کا نشانہ بنانا کسی طرح بھی درست نہیں ہے؛ چنانچہ علامہ ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں:

            ما ذکر عن الصحابۃ من السیئات کثیر منہ کذب وکثیر منہ کانوا مجتہدین فیہ لٰکن لا یعرف کثیر من الناس وجہ اجتہادہم ما قدِّر انہ کان فیہ ذنب من الذنوب لہم فہو مغفور لہم، امام بتوبۃ واما بحسنات ماحیۃ، و اما بمصائب مکفرۃ واما بغیر ذلک، فانہ قد قام الدلیل الذی یجب القول بموجبہ انہم من اہل الجنۃ، فامتنع ان یفعلوا ما یوجب النار لا محالۃ وإذا لم یمت احدہم علی موجب النار لم یقدح ذلک فی استحقاقہم للجنۃ (المنتقیٰ ص ۲۱۹-۲۲۰)

             بعض صحابہ کی طرف جو برائیاں منسوب کی گئی ہیںان میں بیشتر خودساختہ ہیں اور ان میں بہت سی ایسی ہیں جن کو انھوں نے اپنے اجتہاد (سے حکم شرعی سمجھ کر) کیا؛ مگر لوگوں کو ان کے اجتہاد کی وجہ معلوم نہ ہوسکی اورجن کو گناہ ہی مان لیا جائے توان کا وہ گناہ معاف ہوگیا، یہ عفو ومغفرت یاتو توبہ کی بنا پر ہے یا ان کی (کثرت) حسنات نے ان گناہوں کو مٹادیا، یا دنیاوی مصائب ان کے لیے کفارہ بن گئیں، علاوہ ازیں دیگر اسباب مغفرت بھی ہوسکتے ہیں؛ کیونکہ قرآن وسنت سے ان کا جنتی ہونا ثابت ہوچکا ہے؛ اس لیے یہ ناممکن ہے کہ کوئی ایسا عمل ان کے نامۂ اعمال میں باقی رہے جو جہنم کی سزا کا سبب بنے، تو جب حضرات صحابہ میں سے کوئی ایسی حالت میں وفات نہیں پائے گا جو دخول جہنم کا ذریعہ ہے تو اب کوئی چیز ان کے استحقاق جنت میںمانع نہیںہوسکتی۔

            صحابہ کے ایمان واخلاص، دیانت وعدالت پر اس قرآنی شہادت کے بعد کسی تاریخی مفروضہ کی بنیاد پر صحابۂ کرام کے اسلام کو استسلام سے تعبیر کرنا ایمان بالقرآن سے میل کھاتا ہے؟ پرستارانِ تاریخ و دلدادگان سید قطب وطہٰ حسین کو سوچنا چاہیے کہ وہ کس سے رشتہ توڑرہے ہیں اور کس سے ناطہ جوڑ رہے ہیں

بقول دشمن پیمانِ دوست بشکستی

ببیں از کہ بریدی و باکہ پیوستی

            قرآن مقدس کی مندرجہ بالا آیات بصراحت ناطق ہیں کہ

            (۱)        بغیر کسی استثناء کے تمام صحابہؓ جنتی ہیں۔

            (۲)       سارے صحابہؓ کو اللہ تعالیٰ کی دائمی رضا وخوشنودی حاصل ہے۔

            (۳)      جملہ اصحابِ رسول آپس میں برادرانہ الفت واخوت رکھتے تھے۔

            (۴)      سبھی حضرات صحابہ اللہ ورسول کے معاملے میں نسبی وقبائلی عصبیت سے بالکل پاک تھے۔

            (۵)      ہر ایک صحابی کا دل ایمان واخلاص کی محبت سے مزین اور کفر، فسق اورنافرمانیوں سے متنفر تھا۔

صحابہ کا مقام حدیث کی نظر میں

            کتاب الٰہی کی ان واضح تصریحات کے ساتھ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بھی پیش نظررکھیں تاکہ بات بالکل منقح ہوجائے اورکسی تاویل باطل سے آپ شکوک وشبہات میں گرفتار نہ ہوں۔

            آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک ارشاد ہے:

            (۱) خیرالناس قرنی ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم، فلا ادری ذکر قرنین او ثلاثۃ الخ۔ (السنۃ الامالکا جمع الفوائد، ص۲۰۱، ج۲ طبع الہند)

            ترجمہ: سب سے بہترمیرا زمانہ ہے پھر انکا جو اس سے متصل ہیں، پھر ان کا جو اس سے متصل ہیں،راویِ حدیث کہتے ہیں مجھے یاد نہیں رہا کہ ’’ثم الذین یلونہم‘‘ آں حضرتؐ نے دو مرتبہ فرمایا یا تین مرتبہ۔

            اس حدیث پاک سے متعین طور پر معلوم ہوگیا کہ عہد نبوی کے بعد سب سے بہتر زمانہ صحابۂ کرام کا ہے ’’اصابہ‘‘ کے مقدمہ میں مشہور شارح حدیث حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں۔  وتواتر عنہ صلی اللّٰ علیہ وسلم خیر الناس قرنی ثم الذین یلونہم الخ  جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث محدثین کے نزدیک متواتر ہے جس سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے۔

            (۲) عن جابر قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان اللّٰہ اختار اصحابی علی الثقلین سوی النبیین والمرسلین، رواہ البزار بسند رجالہ موثقون۔

            ترجمہ: آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے میرے اصحاب کو انبیاء ومرسلین کے علاوہ تمام انسانوں پر فضیلت دی ہے۔

            یہ حدیث پاک اس بات پر نص ہے کہ تمام حضرات صحابہ اللہ تعالیٰ کے منتخب وبرگزیدہ ہیں، جماعت انبیاء کے بعد گروہ جن وانس میں سے کوئی بھی ان کے مقام ومرتبہ کو نہیں پاسکتا، شرف صحابیت ایک ایسا شرف ہے جس کے مقابلے میں ساری فضیلتیں ہیچ در ہیچ ہیں؛ اسی لیے حضرت سعید بن زید (یکے از عشرئہ مبشرہ) قسم کھاکر فرماتے ہیں:

            واللّٰہ لشہد رجل منہم مع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یغبر فیہ وجہہ خیر من عمل احدکم ولو عمّر عمر نوح (جمع الفوائد، ص۲۰۲، ج۲)

            ترجمہ: خدا کی قسم صحابہ میں سے کسی کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کسی جہاد میں شرکت جس سے اس کا (صرف) چہرہ غبار آلود ہوجائے غیرصحابی میں سے ہر فرد کی عمر بھر کی عبادت وعمل صالح سے بہتر ہے اگرچہ اس کو عمر نوحؑ مل جائے۔

            صحابی رسول آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

            (۳) اللّٰہ اللّٰہ فی اصحابی لا تتخذوہم غرضا من بعدی فمن احبہم فبحبی احبہم ومن ابغضہم فببغضی ابغضہم ومن اذاہم فقد اذانی ومن اذانی فقد اذی اللّٰہ فیوشک ان یاخذہ (للترمذی جمع الفوائد، ص۲۰۱، ج۲)

            ترجمہ: اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو میرے صحابہ کے معاملہ میں میرے بعد ان کو (طعن وتشنیع) کا نشانہ نہ بنائو؛ کیونکہ جس نے ان سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اورجس نے ان سے بغض رکھا تو مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اورجس نے ان کو ایذا پہنچائی اس نے مجھے ایذا پہنچائی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا پہنچائی اور جواللہ کوایذا پہونچانا چاہے تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو عذاب میں پکڑ لے۔

            آیت کریمہ  فِیْ بُیُوتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ الخ  کی تفسیر میں امام قرطبی نے آںحضرت … کی درج ذیل حدیث ذکر کی ہے جس سے حدیث بالا کی تائید ہوتی ہے۔

            (۴) من احب اللّٰہ عز وجل فلیحبنی ومن احبنی فلیحب اصحابی ومن أحب أصحابی فلیحب القرآن ومن احب القرآن فلیحب المساجد الخ (الجامع لاحکام القرآن ج۲۱ ص ۲۶۶)

            ترجمہ: جو اللہ سے محبت رکھتا ہے اسے چاہیے کہ مجھ سے محبت رکھے اورجومجھ سے محبت رکھے اسے چاہیے کہ میرے اصحاب سے محبت رکھے اور جو صحابہ سے محبت رکھے اسے چاہیے کہ قرآن سے محبت رکھے اور جو قرآن سے محبت رکھے اسے چاہیے کہ مساجد سے محبت رکھے۔

            کوئی انتہا ہے حضراتِ صحابہؓ کی رفعت مقام کا کہ سید المرسلین، محبوب رب العالمین، خلاصۂ کائنات، فخرموجودات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابۂ کرامؓ کی محبت کو اپنی محبت بتارہے ہیں اور ان سے بغض وعناد کو اپنے ساتھ بغض وعناد قرار دیتے ہیں، جس کے دل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ادنیٰ درجہ کی محبت بھی ہوگی وہ اصحابِ رسول کی شان میں لب کشائی کی جرأت کرسکتا ہے؟ اورجب کہ آپؐ نے صاف فرمادیا ہو کہ دیکھو میرے بعد میرے صحابہ کے معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہنا اور انھیں اپنے اعتراضات کا ہدف نہ بنانا۔

            ایک حدیث میں آپ … کا ارشاد ہے  لا تسبوا اصحابی فمن سبہم فعلیہ لعنۃ اللّٰہ والملائکۃ والناس اجمعین لاتقبل اللّٰہ منہ صرفا ولا عدلا (شرح الشفاء للملا علی قاری، ص۷۵۵، ج۲)

            ایک دوسری حدیث میں یہ الفاظ ہیں:  اذا رائیتم الذین یسبون اصحابی فقولوا لعنۃ اللّٰہ علی شرکم (الترمذی جمع الفوائد، ص۲۰۱، ج۲)

            ان حادیث پاک پر بطور خاص ان لوگوں کو غور کرنا چاہیے جو مؤرخین کی گری پڑی روایتوں اور ان کے طبع زاد مفروضوں کو بنیاد بناکر صحابۂ کرامؓ کے اخلاق واعمال کی ایسی تصویر پیش کرتے ہیں جسے وہ خود اپنے یا اپنے بڑے بوڑھوں کے بارے میں قطعاً گوارہ نہیں کرسکتے تو کیا (نعوذ باللہ) صحابۂ کرام میں فروتر اور پست تھے؟ (العیاذ باللہ)

            (۵) عن انس قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مثل اصحابی فی امتی کالملح فی الطعام لا یصلح الطعام الا بالملح (مشکوۃ شریف بحوالہ شرح السنۃ، ص۵۵۴)

            ترجمہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت میں میرے اصحاب کی وہی حیثیت ہے جو نمک کی کھانے میں ہے کہ بغیر نمک کا کھانا پسندیدہ نہیں ہوتا۔

            مطلب یہ ہے کہ جس طرح عمدہ سے عمدہ تر کھانا بے نمک کے پھیکا اور بے مزہ ہوتا ہے بعینہٖ یہی حال امت کا ہے کہ اس کی ساری صلاح وفلاح اوراس کا تمام تر شرف ومجد صحابہ کی مقدس جماعت کا مرہون احسان ہے اگر اس جماعت کو درمیان سے الگ کردیاجائے توامت کے سارے محاسن وفضائل بے حیثیت اور غیرمعتبر ہوجائیںگے۔

            الحاصل اس حدیث میں واضح اشارہ ہے کہ امت مسلمہ کے دین کی صحت ودرستگی کے لیے حضرات صحابہؓ کے اقوال واعمال حجت وسند اورمعیار کا درجہ رکھتے ہیں۔

            ان حادیث سے معلوم ہوا کہ

            (۱)       عہد نبوی کے بعد صحابہ کا دور سارے زمانہ سے بہتر ہے۔

            (۲)       حضرات صحابہؓ اللہ کے منتخب وبرگزیدہ ہیں، جماعت انبیاء کے علاوہ جن وبشر کاکوئی بھی فرد ان کے مقام ومرتبہ تک نہیں پہنچ سکتا۔

            (۳)      صحابہؓ کی محبت محبت رسول کی علامت اور ان سے بغض وعناد رسول اللہ … سے بغض وعناد کی نشانی ہے، صحابہؓ کو ایذا پہونچانا خود نبی پاکؐ کو اذیت پہنچانے کے مرادف ہے۔

            (۴)      حضرات صحابہؓ کو تنقیدوتنقیص کا ہدف بنانا ناجائز وحرام ہے۔

            (۵)      امت کا سارا شرف ومجد صحابہؓ کے ساتھ وابستگی پر موقوف ہے اور ان کا قول وعمل امت کے لیے حجت ہے۔

            آیات قرآنی اور احادیث نبوی کے نصوص سے ثابت شدہ صحابہؓ کے اسی امتیازی مقام ومرتبہ کو ایک دو گمراہ فرقوں کے علاوہ ساری امت ہمیشہ سے مانتی چلی آرہی ہے، ان کے حق میں طعن و تشنیع، سب وشتم اور اس کی عیب جوئی اور اہانت کو اکبر کبائر میں شمار کیاجاتا رہا ہے۔

            چنانچہ امام نوویؒ لکھتے ہیں:

            (۱) واعلم ان سب الصحابۃ حرام من فواحش المحرمات سواء لابس الفتنۃ منہم او غیرہ۔ (شرح مسلم، ص۳۱۰، ج۲)

            ترجمہ: اچھی طرح سمجھ لو کہ صحابہ کا نازیبا الفاظ سے ذکر کرنا حرام ہے اور بڑے حراموں میں سے خواہ وہ صحابی باہمی جنگ کے فتنہ میں مبتلا ہوئے ہوں یا اس سے بری ہوں۔

            حضرت امام مالکؒ کا قول مشہور شارح حدیث ملا علی قاریؒ ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں:

            (۲) من شتم احدا من اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ابابکر او عمر او عثمان او علیا او معاویۃ او عمرو بن العاص فان قال شاتمہم کانوا علی ضلال او کفر قتل وان شتم بغیر ہذا نکل نکالا شدیدا (شرح الشفاء، ص۷۵۵، ج۲)

            ترجمہ: جس نے اصحاب رسول میں سے کسی کو،مثلاً ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ، معاویہؓ، عمرو بن عاصؓ کو گالی دی اگرانھیں گالی دینے والا یہ کہتا ہے کہ وہ کفر وضلالت پر تھے تو اسے قتل کیا جائے گا اور اگر اس کے علاوہ کچھ اور کہتا ہے تو اسے سخت عبرتناک سزا دی جائے گی۔

            عظیم المرتبت محدث امام ابوزرعہ الرازیؒ فرماتے ہیں:

            (۳) اذا رأیت الرجل ینتقص احدا من اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فاعلم انہ زندیق وذٰلک ان الرسول حق، والقرآن حق وما جاء بہ حق وانما روی الینا ذٰلک کلہ الصحابۃ وہؤلاء یریدون ان یجرحوا شہودنا لیبطلوا الکتاب والسنۃ والجروح بہم اولیٰ وہم زنادقۃ۔ (الاصابۃ، ص۱۱، ج۱)

            ترجمہ: جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ صحابہ میں سے کسی کی تنقیص کررہا ہے تو سمجھ لو کہ یہ زندیق ہے اوریہ اس لیے ہے کہ رسول حق ہیں، قرآن حق ہے، قرآن نے جو کچھ بیان کیا ہے حق ہے اور ان سب کو ہم تک پہنچانے والے صحابہؓ ہیں تو یہ عیب جویان صحابہؓ چاہتے ہیں کہ ہمارے گواہوں اور واسطہ کو مجروح کردیں؛ تاکہ وہ کتاب وسنت کو باطل اور بے اصل ٹھہرادیں، لہٰذا یہی بدگومجروح ہونے کے زیادہ مستحق ہیں یہ لوگ تو زندیق ہیں۔

            امام ذہبیؒ اپنی مشہور کتاب ’’الکبائر‘‘ میںلکھتے ہیں:

            (۴) من ذم اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بشيء وتتبع عثراتہم وذکر عیبا واضافہ الیہم کان منافقا الخ۔ (ص۲۳۹)

            ترجمہ: جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کی کسی نوع کی مذمت کی اور ان کی عیب جوئی اور لغزشوں کی تلاش کے پیچھے لگا رہا یاکسی عیب کا ذکر کرکے اس کی نسبت صحابہ کی جانب کردی تو وہ منافق ہے۔

            امام احمد بن حنبلؒ کا قول ان کے تلمیذ المیمونی ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں۔

            (۵) سمعت احمد یقول مالہم ولمعاویۃ نسأل اللّٰہ العافیۃ وقال لی یا ابا الحسن اذا رأیت احدا یذکر اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بسوء فاتہمہ علی الاسلام۔ (مقام صحابہ، ص۷۷)

            ترجمہ: میں نے امام احمد سے فرماتے ہوئے سنا لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ حضرت معاویہؓ کی برائی کرتے ہیں ہم اللہ سے عافیت کے طلب گار ہیں پھر مجھ سے فرمایا کہ جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ صحابہؓ کا ذکر برائی سے کررہا ہے تو اس کے اسلام کو مشکوک سمجھو۔

            حضرات ائمہ ومحدثین کے ان اقوال کا حاصل یہی ہے کہ حضرات صحابہؓ کی اہانت، برائی اور ان کے اوپر طعن وتشنیع عظیم تر گناہ کبیرہ ہے، کسی مخلص سچے مومن کی یہ شان نہیں ہے کہ رسول خدا کے مخلص و جاں نثار ساتھیوں کو ہدف ملامت اورنشانۂ مذمت بنائے ایسی شنیع جسارت کوئی زندیق، منافق اور مشکوک الاسلام ہی کرسکتا ہے۔ (نعوذ باللہ منہ)

            محقق ابن ہمامؒ اسلامی عقائد پر اپنی جامع کتاب مسایرہ میںلکھتے ہیں:

            واعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ تزکیۃ جمیع الصحابۃ وجوبا باثبات العدالۃ لکل منہم والکف عن الطعن منہم والثناء علیہم (ص۱۳۲)

            ترجمہ: اور اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ یہ ہے کہ ہر صحابی کے لیے عدالت ثابت کرتے ہوئے تمام صحابہؓ کا تزکیہ کیا جائے، ان پر طعن سے باز رہا جائے اور ان کی تعریف کی جائے۔

            علامہ ابن تیمیہؒ نے شرح عقیدئہ واسطیہ میںاس عقیدہ کی تصریح ان الفاظ میںکی ہے:

            عن اصول اہل السنۃ سلامۃ قلوبہم والسنتہم لاصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (ص۴۰۳)

            ترجمہ: اہل سنت کے اصول عقائد میںسے ہے کہ اپنے دلوں اور زبانوں کو صحابہؓ کے معاملے میں صاف رکھتے ہیں۔

            عقائد کی معروف کتاب شرح مواقف میں سید شریف جرجانی رقم طراز ہیں۔

            المقصد السابع انہ یجب تعظیم الصحابۃ کلہم والکف عن القدح فیہم لان اللّٰہ عظیم واثنیٰ علیہم فی غیر موضع فی کتابہم (عقیدہ سے متعلق یہ تینوں حوالے ’’مقام صحابہ‘‘ از مفتی محمد شفیعؒ سے ماخوذ ہیں)

            ترجمہ: ساتواں مقصد اس بیان میں ہے کہ تمام صحابہ کی تعظیم اوران پر طعنہ زنی سے رکنا واجب ہے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ عظیم ہے اور اس نے اپنی کتاب میں ان حضرات کی بہت سے مقامات میں تعریف بیان کی ہے۔

——————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 12-11،  جلد:102‏،  صفر المظفر –ربيع الثانی 1440ھ مطابق نومبر –دسمبر2018 ء

۞     ۞     ۞

Related Posts