اسلام میں صحابہؓ کا مقام متعین ہے‏، اس سے چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے

حرف آغاز

محمد سلمان بجنوری

دو مہینے کا یہ مشترکہ شمارہ حضرات صحابۂ کرامؓ سے متعلق مضامین پر مشتمل ہے، جس کا مقصد اس موضوع پر اہل السنۃ والجماعۃ کا موقف اختصار وجامعیت کے ساتھ پیش کرنا ہے۔ اس کی ضرورت یوں پیش آئی کہ ایک معروف ادارے کے ایک قدیم استاذ اورمعروف عالم دین نے مشاجرات صحابہؓ پر گفتگو کرتے ہوئے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے بارے میں ایسے خیالات کااظہار کیا جو ہمارے تمام اکابرو اسلاف اہل السنۃ والجماعۃ کے موقف سے متصادم ہیں۔ اس سے اہل حق کے حلقوں میں بے چینی پیداہوئی اور خود اُن کے اپنے ادارے نے بجا طور پر اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ان خیالات سے براء ت کا اظہار کیا، اگرچہ عام طور پر ذمہ دار شخصیات اور اداروں نے سکوت اختیار کرنا مفید سمجھا؛ مگر بعض اہل علم کی جانب سے تحریری یا زبانی تردید کے جواب میں مولانا موصوف کی جانب سے اپنے خیالات پر اصرار جاری رہا؛ بلکہ مزید شدت کے ساتھ بعض غلط باتیں پیش کی گئیں، ایسی صورت حال میں خطرہ یہ ہے کہ چوںکہ یہ خیالات کسی غیرسنی شخص کی جانب سے نہیں؛ بلکہ اہل سنت کے ایک ذمہ دار ادارے کے ایک استاذ کی جانب سے سامنے آئے ہیں تو کہیں ہمارے اپنے لوگوں میں جو ناپختہ ذہن ہیں وہ گمراہی کا شکار نہ ہوجائیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس بارے میں اہل حق کا موقف واضح کردیا جائے۔ اس مقصد کے لیے چند اہم مضامین اور یہ سطور پیش خدمت ہیں۔

واضح رہے کہ اس چیز کا تعلق کسی خاص ادارے یا شخصیت سے نہیں ہے؛ بلکہ یہ اہل سنت کے تمام اداروں اور شخصیات کا متفقہ معاملہ ہے، صحابۂ کرامؓ کے بارے میں ایسے خیالات کسی کی جانب سے بھی آئیںگے تو ان کی تردید کرنا ہمارا ایمانی فریضہ ہوگا؛ اس لیے اس کو تعصب اور تنگ نظری کی عینک سے دیکھنے کے بجائے حق پسندی کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ اللہ رب العزت ہم سب کو صراط مستقیم پر گامزن رکھے، آمین!

            حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں چند صفحات میں کوئی مفصل بات کرنا تو ممکن نہیں، پھر اس شمارے میں شامل، اکابر علماء کے مضامین اس مقصد کے لیے کافی ہیں، اس لیے ان سطور میں چند باتیں نہایت اختصار کے ساتھ نمبروار عرض کی جاتی ہیں۔

            (۱) سب سے پہلی اور بنیادی بات یہ ہے کہ اسلام میں صحابۂ کرام کا مقام، قرآن وحدیث کی روشنی میں متعین ہوچکا ہے، اس سے چھیڑ چھاڑ کی کوئی گنجائش نہیں ہے، قرآن کریم کی بہت ساری آیات مبارکہ میں اللہ رب العزت نے صحابۂ کرام سے اپنے راضی ہونے کا اعلان فرمایا۔ ان کی خصوصیات و اوصاف کو بیان کیا اور اُن کی مغفرت کا وعدہ کیا، اسی طرح احادیث شریفہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف انداز سے صحابہؓ کی اہمیت، فضیلت اور بلندیِ رتبہ کو واضح فرمایا اور اپنے ارشادات مبارکہ کے ذریعہ صحابہؓ کی شخصیات کے گرد ایک حفاظتی حصار کھینچ دیا۔ قرآن وحدیث کی نصوص سے طے پانے والے اس مقدس مقام کو پامال کرنے کی کوشش انسان کو راہ ہدایت سے یقینی طور پر بھٹکا دیتی ہے۔

            (۲) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کی فضیلت ہی بیان نہیں فرمائی؛ بلکہ اپنے بعد راہ ہدایت کی نشان دہی کے لیے اپنی سنت کے ساتھ صحابۂ کرامؓ کے طریقہ کو معیار بنایا اوران کے راستے پر چلنے کی امت کو ہدایت فرمائی۔

            (۳) قرآن وحدیث کی ان ہی ہدایات کی روشنی میں صحابہؓ کے بعد خیرالقرون کے دونوں طبقات تابعین اور تبع تابعین نے مقام صحابہ متعین کیا۔ اس بارے میں سب کی ترجمانی، حضرت عبداللہ بن مبارکؒ کے اس ارشاد سے ہوجاتی ہے جس میں انھوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ناک میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کے دوران آنے والے غبار کو، حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ جیسی مقدس شخصیت سے افضل قرار دیا۔ حضرت عبداللہ بن مبارک نے اپنے اس ارشاد کے ذریعہ مقام صحابہؓ سے چھیڑ چھاڑ کرنے والے طبقہ کو لگام دیتے ہوئے یہ واضح کردیا تھا کہ مقام صحابہؓ پر گفتگو کی اب کوئی گنجائش نہیں ہے۔

            (۴)مقام صحابہؓ کے بارے میں تابعین وتبع تابعین کے بعدہر دور کے تمام بڑے علماء، ائمہ، فقہاء ومحدثین اور رہنمایانِ امت نے یہی موقف اپنایا کہ حضرات صحابہؓ اس امت کے رہنما ہیں اور ان کے آپسی معاملات یا مشاجرات کو موضوع بحث بنانے کا شوق آدمی کی گمراہی کے لیے کافی ہے۔

            (۵) حضرات صحابہؓ کے بارے میں اس مضبوط موقف کی بنیاد دراصل یہ بات ہے کہ امت کو سارادین صحابۂ کرامؓ کے ذریعہ ہی ملا ہے، قرآن کریم، احادیث نبویہ اور تمام تعلیمات نبوی کی تفصیلات، امت تک صحابہ کرام ہی کے واسطے سے پہنچی ہیں، ایسے میں اگر حضرات صحابہؓ کی شخصیات مجروح ہوںگی تو پورا دین مجروح اور ناقابل اعتماد قرار پائے گا۔

            (۶) صحابۂ کرامؓ کے سلسلے میں زبان کھولنے والوں کو اس حقیقت پر بھی نظر رکھنی چاہیے کہ اُن کی اس فکر کی زد خود خاتم الانبیاء رحمۃ للعالمین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر پڑتی ہے؛ کیوںکہ آپ کو اللہ رب العزت نے انسانوں کے تزکیہ وتربیت کی ذمہ داری دی تھی اوراس کو آپ کے فرائض میں بڑی اہمیت کے ساتھ بیان فرمایاتھا اور آپ کی تربیت و تزکیہ سے براہ راست مستفید ہونے والی جماعت صحابۂ کرامؓ ہی ہیں جیساکہ  ویزکیکم  کا لفظ بھی اس کی طرف اشارہ کررہا ہے تو اگر یہ سمجھا جائے کہ بعض صحابۂ کرامؓ کی شخصیات میں کوئی کسر رہ گئی تھی یا اُن کی اعلیٰ اخلاقی تربیت پورے طور پر نہیں ہوپائی تھی، تو غور فرمائیں، اس کوتاہی کی نسبت کہاں پہنچ جائے گی؟ اور پھر ہمارے ایمان کا کیا ہوگا؟

            (۷) ایک بہت اہم بات جس پر توجہ کی ضرورت ہے یہ ہے کہ حضرات صحابہؓ کی شخصیات اور اُن کے کردار کو موضوع بحث بنانے کا سلسلہ جس طبقہ نے اور جن مقاصد کے لیے شروع کیا تھا اور اُس کا جو پس منظر تھا وہ ایسی چیز ہے کہ اُس کو محسوس کرنے کے بعد کوئی بھی صاحب ایمان اس میدان میں قدم رکھنے سے ہزار بار پناہ مانگے گا۔ بات یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد سب سے پہلے جس طبقہ کو آپ کی تصدیق کرنی چاہیے تھی وہ اہل کتاب (یہود ونصاریٰ) تھے؛ کیوںکہ وہ آپ کو قرآن کے بیان کے مطابق اپنے بیٹوں کی طرح پہچانتے تھے؛ لیکن اُن کی طبیعت میں آپ سے حسد پیداہوگیا اور انھوں نے اور خاص طور پر ان میں سے یہودیوں نے آپ کی مخالفت کو اپنا مشن بنالیا اور اس کے لیے ہر ہتھکنڈا استعمال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد انھوں نے اسلام کو مٹانے کے راستے تلاش کرنے شروع کیے، اس مقصد کے لیے انھوں نے دین کو بے اعتبار بنانے کا پلان بنایا اور اس کے لیے جماعت صحابہؓ کو نشانہ بنایااور اپنے منصوبہ کو کامیاب بنانے کے لیے بڑی چالاکی کے ساتھ محبت اہل بیت کا سہار لیا اس طرح سے شیعہ مذہب وجود میں آیا۔ بعد کی تمام تفصیلات اسی کا شاخسانہ ہیں، مشاجرات صحابہ کو بھڑکانے، جلتی پر تیل ڈالنے اور فریقین کو دھوکا دینے کا کام اسی طبقہ نے کیا، چند جملوں میں یہ خلاصہ ہے اس مذہب کی بنیاد اور مشن کا۔ آج کوئی عام شیعہ چاہے ان مذموم مقاصد کو جانتا بھی نہ ہو؛ لیکن اس کے مذہب کی بنیاد یہی ہے۔ اب اگر کوئی شخص حضرات صحابہؓ کی شخصیات کو موضوع بحث بناتا ہے تو وہ غور کرلے کہ اس کا فائدہ کس کو پہنچ رہا ہے۔

            (۸) مولانا موصوف نے صحابی کی تعریف سمیت جتنے مسائل چھیڑے ہیں، وہ سب پہلے ہی طے پاچکے ہیں۔ علماء امت نے اُن پر مفصل بحث کرکے حق کو واضح کردیا ہے۔ ان مسائل میں اہل باطل کے افکار کو اپناکر اہل حق کے سامنے سوال کھڑے کرنا، کسی باخبر سنی عالم کو زیب نہیںدیتا۔ خاص طورپر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ان کا لہجہ نہایت غلط ہے اور اس سے بھی خطرناک بات انھوں نے یہ کی کہ لشکر اسامہؓ کے حوالے سے گفتگو کرکے خود خلافت صدیقی پر سوالات کھڑے کردیے ہیں، جو خالص شیعیت کی ترجمانی ہے، کاش انھوں نے اس موضوع پر زیادہ نہیں صرف حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی تحریرات خاص طور پر ازالۃ الخفاء کو سامنے رکھا ہوتا تو یہ سنگین غلطی اُن سے سرزد نہ ہوتی۔

            (۹)جہاں تک رجوع کی بات ہے یا اتحاد امت کی دُہائی ہے تو اس بارے میں عرض ہے کہ اس سے اس نقصان کا ازالہ نہیں ہوسکتا جو اصل بیانات سے ہورہا ہے، خاص طور پر جب کہ رجوع اور وضاحت میں اپنے اُن افکار کی صحت پر اصرار شامل ہو۔ اتحاد امت کی فکر ہے تو ایسے نازک مسائل پر اہل حق کے موقف سے بالکل متضاد ومتصادم خیالات ظاہر کرنے کا کیا مطلب ہے؟

            (۱۰) آخر میں تمام اہل علم سے نہایت ادب اور دل سوزی کے ساتھ عرض ہے کہ خدارا موجودہ حالات کی نزاکت کو سمجھیں اور اسلاف امت کی راہ پر مضبوطی کے ساتھ گامزن رہ کر امت کو بھی اسی راستہ پر چلانے کے لیے سرگرم عمل ہوجائیں۔ نئے نئے افکار وخیالات سے اجتناب کریں، احقاقِ حق اور ابطال باطل کو اپنا فریضہ جانتے ہوئے، مشترکہ ملی معاملات میںاتحاد کی صلاحیت کا بھی ثبوت دیں۔

——————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 12-11،  جلد:102‏،  صفر المظفر –ربيع الثانی 1440ھ مطابق نومبر –دسمبر2018 ء

۞     ۞     ۞

Related Posts