اردو کلاسیکی شعروادب اور مشاہیر دیوبند

از: ڈاکٹر ابرار احمد اجراوی

مقام و پوسٹ اجرا، وایا ریام فیکٹری، ضلع مدھوبنی بہار

            ایشیا کی عظیم اسلامی درس گاہ، ازہر ہند دار العلوم دیوبند کا اردوزبان و ادب کے کلاسیکی سرمایے کے تحفظ، اس کی توسیع و ترویج اور تشریح و تعبیرکے میدان میں قابل فخر رول رہا ہے۔اپنے مخصوص متصوفانہ اور عالمانہ مزاج و منہاج کی وجہ سے علمائے دیوبند کا جدید شاعری سے نہیں، بلکہ کلاسیکی اردو شعری و نثری سرمایہ کے ساتھ لگاؤزیادہ رہا ہے، انھوں نے اسی کلاسیکیت پسندی کی وجہ سے مختلف تحریکات و نظریات کے عنوان سے جنم لینے والی کسی فیشن پرستی کا اثر بھی قبول نہیں کیا۔ علمائے دیوبند نے نہ صرف یہ کہ زبان و ادب کی مختلف نثری و شعری اصناف میں طبع آزمائی کی ، بلکہ اردوکے کلاسیکی متون کی تشریح و توضیح اور اس کی سادہ ادبی زبان میں افہام و تفہیم میںبھی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ انھوں نے میرو غالب کے ناقابل فہم کلاسیکی اشعار کی ایسی عمدہ اور لاجواب تشریح کی ہے، جس پر اپنے وقت کے نامور ناقدین و شارحین اشعار کاحلقہ بھی انگشت بدنداں ہے۔ مولانامحمد قاسم نانوتوی، مولانا محمود حسن دیوبندی،مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا مناظر احسن گیلانی،مولانا حسین احمد مدنی،مولانا تاجور نجیب آبادی،ناطق گلاوٹھی، قاری محمدطیب،مولانا سعید احمد اکبر آبادی، مولانا انظر شاہ کشمیری،مفتی کفیل الرحمن نشاط عثمانی، ایم آر قاسمی، ابو الکلام قاسمی ،مفتی نسیم فریدی ، مولانا ریاست علی ظفر بجنوری، مولانا اعجاز احمد اعظمی، مولانا اسیر ادروی اور مولانا نور عالم خلیل امینی، پروفیسرابو الکلام قاسمی،حقانی القاسمی وغیرہ کی کلاسیکی ادبیات کے ساتھ دل چسپی کو نظر انداز کرنا،اردو کے پورے سرمایۂ شعر و ادب کے ساتھ نا انصافی کے مترادف ہوگا۔علمائے دیوبند نے میرؔ و غالبؔ، ذوقؔ و دردؔ، ناسخ و آتش،اور اقبال و فیض کے شعری اور فکری سرمایے کی ترسیل و تفہیم میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ علمائے دیوبند کسی تحریک یا کسی ازم سے تو رسمی طور پروابستہ نہیں رہے کہ مشروط وابستگی فکر و فن کے سوتوں کو خشک کردیتی ہے، مگر وہ شعر و نثر سے متعلق کلاسیکی ادبی و تخلیقی اقدار کی ترجمانی اور صحیح ادبی نظریات کی نشر و اشاعت میں کسی ادارہ یا جامعہ سے پیچھے نہیں رہے ہیں۔ عصر حاضر میں بھی دیوبند کے دامن فیض سے وابستہ افراد و رجال زبان و ادب کے میدان میں اپنی صلاحیت و قابلیت کا جوہر دکھا رہے ہیں۔ اور اردو کے کلاسیکی سرمایہ کے تحفظ و اشاعت کے باب میں جی توڑ کوشش کر رہے ہیں، وہی کلاسیکی شعر و ادب جس کے سمجھنے والے اس دور میں عنقا ہوتے جارہے ہیں۔ہندستان میںاردو زبان و ادب کے ماضی اور حال کی جو بھی تاریخ لکھی جائے گی، وہ دیوبند اور فضلائے دیوبندکی تحقیقی و تخلیقی خدمات کے تذکرے کے بغیر نا قابل اعتبار ٹھہرے گی۔

            المیہ یہ ہے کہ دار العلوم دیوبندکی بیش بہا قومی،دینی وملی خدمات اور ملک کی جنگ آزادی میں اس کے عظیم کردار کوجیسے تیسے خراج عقیدت پیش کیا گیا اور اس کا اعتراف کیا جاتا ہے، مگر دار العلوم دیوبند کا روشن ادبی تخلیقی کردار اب بھی گوشۂ تاریکی میں ہے۔ نہ ماضی میں اور نہ ہی حال کے عرصے میں،ادبی دنیا میں دار العلوم دیوبند کو وہ پذیرائی اور توجہ ملی، جس کا وہ مستحق تھا اور جس کی وجہ سے ایشیا کے اس عالمی شہرت یافتہ ادارے دار العلوم دیوبند کی وہ تصویر نہیں ابھرتی، جس سے وہ ادبی اور تنقیدی دنیا میں اپنا وجود ثابت کرسکے۔

            مشاہیر علمائے دیوبند کی شعری و ادبی خدمات کے جائزے اور تبصرے پر سرسری مضامین ضرور لکھے گئے ہیں، لیکن ان کا محاکمہ و محاسبہ اور کلاسیکی ادبی اقدار کے فروغ اور کلاسیکی شعرا کی فکری اور فنی تحقیق و ترسیل پر مبنی کوئی مستقل کام نہیں ہوا ہے۔ اردو رسائل و جرائد میں دار العلوم دیوبند کے فیض یافتہ شعرا پر مضامین بکھرے پڑے ہیں، مگر افسوس ہے کہ یہ مضامین بھی ادبیت اور تحقیقی لمس سے محروم ہیں ، ان میں ادیبانہ رس نہیں،وہ روایتی مدحیہ کلمات کی نذر ہوگئے ہیں۔ حقانی القاسمی کی مختصر کتاب ’’دار العلوم دیوبند :ادبی شناخت نامہ ‘‘ اس موضوع پر اکلوتی کتاب ہے جس میں منتخب مشاہیر دیوبند کی ادبی شعری اور تخلیقی و تنقیدی خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے۔نواز دیوبندی صاحب نے دار العلوم کی صحافتی خدمات پر جو مقالہ لکھا تھا، وہ اب تک طباعت و اشاعت کی راہ تک رہا ہے۔حال کے عرصے میں نئے فاضل دیوبند نایاب حسن قاسمی نے بھی دار العلوم دیوبند کے صحافتی منظرنامہ پر ضخیم کتاب لکھی ہے، مگر شعر و ادب اور کلاسیکی شعری اقدار میں علمائے دیوبند کے کردار سے انھوں نے مباحثہ نہیں کیا ہے۔ علمائے دیوبند کی شعری اور ادبی خدمات پر کئی اہم مضامین لکھے گئے ہیں۔ مگر ان میں سے بیش ترکلاسیکی شعرو ادب کی مذہبی و متصوفانہ تشریح و توضیح تک محدود ہیں۔ دیوبند اور کلاسیکی شعر و ادب کے تحفظ اور اس کی تفہیم و ترسیل کے حوالے سے کوئی مبسوط تحقیقی کام تودور کی بات ہے، کوئی ایسا مضمون بھی نہیں لکھا گیا ہے، جو تمام ادب نواز علمائے دیوبند کی کلاسیکی شعری وادبی خدمات اور اس کی تشریح و توضیح میں ان کے کردار کو کلی طور پر محیط ہو۔

            اردو ادب میںتعصب و تنگ نظری کی بہتیری مثالیں ملتی ہیں۔ کبھی مذہبیت کی آڑ میں تنگ نظری کا یہ کھیل کھیلا گیا تو کبھی قدامت اور جدت کے خول میں یہ ڈرامہ رچا گیا ہے۔ مدارس کے فضلا اور علمائے ہند خصوصا علمائے دیوبند کو اسی مذہب پرستی کی وجہ سے اردو زبان وا دب کی تاریخ میں نظر انداز کیا جارہا ہے اور انھیں ادب و نقد کے مرکزی دھارے سے دور رکھنے کی کوشش ہوتی رہی ہے۔ اسی تعصب اور تنگ نظری کی چادر کو چاک کرنے کے لیے وہاب اشرفی نے اردو ادب کی جامع تعریف لکھی تھی، جس میں اپنے بہت سے معاصرین کو بھی انھوں نے مناسب جگہ دی ہے۔ تاریخ ادب اردو کے آغاز میں ہی لکھتے ہیں:

            ’’ایک اور مسئلہ جو ادبی مؤرخ کے سامنے ہوتا ہے وہ فنکاروں کے رد و انتخاب سے متعلق ہے، ہزاروں لکھنے والے کتابوں اور رسالوں کے اوراق کی زینت ہیں۔ ایک سلسلہ تو ان اہم ناموں اور شاعروں اور ادیبوں کا ہے جو زمانے کی گرد سے پرے ہوچکے ہیں اور اپنے اپنے دور میں اپنے مخصوص تیور اور انداز کی وجہ سے ادبی تاریخ کا اٹوٹ حصہ ہے، لیکن مسئلہ کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ بعضوں پر سے اچانک گرد و غبار جھڑ جاتے ہیں اور کسی محقق، ادیب، دانشور یا نقاد کی نکتہ رس نگاہیں انہیں نئی زندگی دیتی ہیں اور وہ بھی تاریخ کا ورق بننے کا جواز بن جاتے ہیں۔ مورخ کو ایسے فراموش شدہ ناموں کی تجدید سے خائف نہیں ہونا چاہئے؛ بلکہ انہیں اپنے وژن پر پرکھنا چاہیے کہ کہاں تک یہ تازہ بہ کار تحقیق واقعتا اس لائق ہے کہ اس پر توجہ کی جائے۔‘‘(تاریخ ادب اردو، ج:۱، ص:۱۹، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، ۲۰۰۵ء)

            علاقائی تعصب و تنگ نظری پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں اورادبی دنیا کے تعصبات کے ذخیرے سے مثالیں بھی دیتے جاتے ہیں:

            ’’ادبی مورخ کی اپنی پسند یا نا پسند اپنی جگہ، لیکن علاقائی تعصب بھی کسی کے یہاں گلے کی پھانس رہا ہے۔ اپنے علاقے کے ہر کہہ و مہہ کو استنادبخشنا، انہیں بانس پر چڑھانا اور دوسرے علاقوں کے ممتاز فنکاروں کے بارے میں بے مروت ہونا عام سی بات ہے۔بہار سے دو مثالیں دیتا ہوں۔ امداد اما م اثر کی ’’کاشف الحقائق‘‘ حالی کی’’مقدمہ شعر و شاعری ‘‘ کے آس پاس شائع ہوئی۔ ’’کاشف الحقائق‘‘ کاکینوس بڑا تھا، اس میں بعض عالمی ادیبوں اور شاعروں سے بھی روشناس کرانے کی سعی ملتی ہے، شعر و شاعری کے مباحث اپنی جگہ پر لیکن کیا کیجیے کہ ایک عرصے تک یہ کتاب سردخانے میں پڑی رہی، کچھ لوگوں نے توجہ بھی کی تو غایت درجہ سرسری، حد تو یہ ہے کہ عظیم آباد ہی کے کلیم الدین احمد نے ’’اردو تنقید پر ایک نظر‘‘ میں امداد امام اثر کا نام تک نہیں لیا، یہاں تو علاقائی تعصب کا سوال نہیں تھا پھر بھی ایسا ہوا۔دوسری جگہوں کے لکھنے والوں نے امداد امام اثر کے ساتھ زیادتی کی بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ اردو تنقید کے ساتھ ظلم کیا۔‘‘(تاریخ ادب اردو، ج:۱، ص:۲۰)

            علمائے دیوبندبھی اسی تعصب و تنگ نظری کے مارے ہوئے ہیں، انھیں احباب و اغیار ہر کسی نے نظر انداز کیا ہے۔ علمائے دیوبندکسی مخصوص نظریہ یا ادبی گروہ سے وابستہ نہیں تھے، ان کا اپنا ایک جہان تھا، انھوں نے اپنی شاعری اور تخلیقی شغف میں دلی کی داخلیت اور تصوف کا دامن ضرور تھاما، صاف ستھری زبان استعمال کی،اظہار ما فی الضمیر پر ارتکاز کیا، داخلیت کو ترجیح دی، مگر انھوں نے مضامین میں تو نہیں، لیکن الفاظ کی سطح پر لکھنو کی لطافت کو بھی اپنانے اور برتنے کی سعی کی۔ ان کے یہاں خالص حسن پرستی، عشق مجازی اور نسائی برتاؤ تو نہیں، مگر لکھنوی حسن کو بھی انھوں نے لفظوں میں نگینہ کی طرح جڑ دیا ہے۔

            قرآن و حدیث کی زبان سمجھنے والوں اور عربی فارسی پر درک اور دینی علوم پر نظر رکھنے والوں کی ادبی سرگرمیوں کو کمتر یا کہتر سمجھنا بہت بڑی نا انصافی ہے۔ ہمارے کلاسیکی عہد میں عربی فارسی زبانوں اور انھی مشرقی علوم و فنون کا بول بالا تھا اور تمام شعرا و ادبا اسی مشرقی روایت کے پروردہ تھے۔عہد میر و مرزا کے ایک بڑے شاعر خواجہ میر درد نہ صرف صوفی صافی انسان تھے، بلکہ قرآنی اور حدیثی علوم پر بھی ماہرانہ گرفت رکھتے تھے۔ وہاب اشرفی لکھتے ہیں:

            ’’عربی، اردو، فارسی زبانوں پر قدرت رکھتے ہیں۔ قرآن، حدیث، فقہ، تفسیر پر گہری نظر تھی۔ تصوف میں بیحد اہم بزرگ سمجھے جاتے تھے۔‘‘(تاریخ ادب اردو، ج:۱، ص:۲۲۱)

            دیوبند کے علما و فضلا نے کلاسیکیت کے اسرور مورز کو سمجھنے کے ساتھ کلاسیکیت سے وابستہ الفاظ و مصطلحات اور استعارات و تلمیحات کی اتنی عمدہ اور بہتر تشریح کی ہے، جس سے بہتر کا امکان نہیں۔لیلیٰ مجنوں اردو شاعری کا ایک زبردست اور مقبول و مشہور استعارہ ہے، تلمیح کا نقطئہ عروج ہے، اس کی تشریح و تفسیر میں دفتر کے دفتر سیاہ کیے گئے ہیں، مگر دیوبندی حلقے کے ایک نام ور عالم دین مولانا اشرف علی تھانوی نے اس کی اسلام و ادب کے دائرے میں کتنی مفصل تشریح کی ہے۔ اور فارسی اشعار سے کتنا عمدہ استدلال و استشہاد کیا ہے۔دیکھیے:

            ’’مجنوں کا قصہ ہے کہ اسکو کسی نے جنگل میں ریت کے اوپر انگلی سے کچھ لکھتے ہوئے دیکھا اور یہ سوال و جواب ہوا۔

دید مجنوں را یکے صحرا نورد

در بیاباں غمش بہ نشستہ فرد

            مجنوں کو کسی نے جنگل بیابان میں دیکھا کہ اکیلا ہی بیٹھا ہے۔

ریگ کاغذ بود و انگشتان قلم

مے نویسی بہر کس نامہ رقم

            ریت اس کا کاغذ ہے اور انگلیاں قلم ہیں اورانگلیوں سے ریت پر لکھ رہا ہے۔

گفت اے مجنونِ شیدا چیست ایں

مے نویسی نامہ بہر کیست ایں

            اس نے کہا لیلیٰ لکھ رہا ہوں اور اپنے دل کو تسلی دے رہا ہوں۔

            کہ لیلیٰ کے نام کی مشق کر رہا ہوں۔ حالانکہ مجنوں کی یہ کیفیت تھی کہ لیلیٰ اس کے دل میں رچی ہوئی تھی حتی کہ ایک بار لیلیٰ اسکے سامنے آئی اور کہا اے مجنوں میںلیلیٰ ہوں اس نے جواب دیا الیک عنی فان حبک قد شغلنی عنک کہ بس جاؤ اب مجھے ضرورت نہیں تیری محبت نے مجھے تجھ سے بھی مستغنی کردیاتو جس کے دل میں محبوب اس قدر رچا ہوا ہو اسکو مشق نام کی کیا ضرورت تھی؟ بس ضرورت یہ تھی کہ اس نے]سے[ عشق کو رسوخ ہوجاتا ہے۔ ترک ذکر سے کچھ دنوں میں عشق زائل ہوجاتا ہے اور مجنوں کو زیادت عشق مطلوب تھی۔ اس لیے لیلیٰ کے نام زباں پر بھی لیتا اور انگلیوں سے بھی لکھتا تھا ایک دفعہ مجنوں کا باپ اس کو حج کے واسطے لے گیا اور خانہ کعبہ کے پاس لے جاکر کہا کہ غلاف کعبہ ہاتھ میں لے کر دعا کر اللہم اسلبنی حب لیلیٰ کہ اللہ میرے دل سے لیلیٰ کی محبت نکال دے مجنوں غلاف کعبہ پکڑ کر کہنے لگا۔ اللہم زدنی حب لیلیٰ اے اللہ مجھے لیلیٰ کی محبت اور بڑھا دے۔ یہ کہہ کر رونے لگا۔

الٰہی تبت عن کل المعاصی

ولکن حب لیلیٰ لا اتوب

            اے اللہ میں ہر گناہ سے توبہ کرتا ہوں لیکن لیلیٰ کی محبت سے توبہ نہیں کرتا۔

            مجنوں نیک مسلمان تھا اسکو لیلیٰ سے سچی محبت تھی آج کل کے فساق جیسی محبت نہ تھی مگر باوجود اتنی محبت کے بھی وہ ذکر لیلیٰ کو ترک نہ کرتا تھا۔ تاکہ محبت اور زیادہ ہو اسی وجہ سے نماز میں زبان]سے[ اللہ اکبر کہاجاتا ہے۔ تاکہ بار بار تکبیر سے دل پر چوٹ لگے اور ہر تکبیر کے ساتھ دل عظمت حق سے بھر جائے اس وقت معلوم ہوگا کہ یہ قول

وقت ذبح اللہ اکبر می کنی

ہمچنیں در ذبح نفس کشتنی

            ذبح کے وقت اللہ اکبر کرتے ہو اسی طرح نفس کے قتل کرنے کے وقت کہتے رہو۔ حقیقت ہے شاعری محض نہیں ہے۔(خطبات حکیم الامت(حدود و قیود)ص:۵۷-۵۸مکتبہ اشرفیہ ممبئی)

            انہیں کی طرح مولاناالطاف حسین حالی نے بھی بعض وجوہ کو نظر میں رکھ کر کلاسیکی شاعری کو رد کیا ہے۔لکھتے ہیں:

            ’’رہا وہ کلام جس میں نہ سادگی، نہ اصلیت نہ جوش، تینوں چیزیں نہ پائی جائیں، سو ایسے کلام سے ہمارے شعرا کے دیوان بھرے پڑے ہیں۔ کیوں کہ ہماری شاعری زیادہ تر اب دو قسم کے مضامین میں منحصر ہے، عشقیہ یا مدحیہ۔ عشقیہ مضامین اکثر غزل، مثنوی، اور قصائد کی تشبیب میں باندھے جاتے ہیں۔ اور مدحیہ مضامین زیادہ تر قصائد میں۔ سو ان تینوں صنفوں میں شاعر کا کام یہ سمجھاجاتا ہے کہ جو مضامین قدیم سے بندھتے چلے آئے ہیں اور بندھتے بندھتے بمنزلہ اصول مسلمہ ہوگئے ہیں، انہیں کو ہمیشہ بہ ادنی تغیر باندھتا رہے اور ان سے سر مو تجاوز نہ کرے۔ مثلا غزل میں ہمیشہ معشوق کو بے وفا، بے مروت، بے رحم، ظالم بتائے۔۔۔اور اپنے تئیں غمزدہ، مصیبت زدہ، فلک زدہ، ضعیف، بیمار، بد بخت(ثابت کرے)غرض یہ کہ ایک عشق اور وفاداری کے سوا ان تمام صفات سے متصف کرنا جو عموما انسان کے لیے قابل افسوس خیال کی جاتی ہیں۔‘‘

            غالب کے اشعار کی سبھی نے تشریح کی ہے، ضخیم و مبسوط شرحیںلکھی گئی ہیں۔حالی سے لے کر فاروقی تک تشریحات غالب کا انبار لگا ہوا ہے۔ رئیس القلم مولانا مناظر احسن گیلانی نے دیوان غالب کی کوئی شرح تو نہیں لکھی، مگر ان کے اشعار کو معانی و مفاہیم کے جن جہانوں سے اپنی نثری کتابوں میں آشنا کرایا ہے، وہ انھی کا حصہ ہے۔ انھوں نے بانی دار العلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی کی شخصیت کا سراپا بیان کرتے ہوئے اس وقت کے حالات و واقعات کو اس طرح سمیٹ لیا ہے کہ وہ غیر متعلق ہوتے ہوئے بھی ان کی آپ بیتی کا حصہ بن گئے ہیں۔سوانح قاسمی کا ایک اقتباس حاضر ہے ۔ انھوں نے غالب کے اشعار کی کتنی بامعنی اور حسب حال تشریح کی ہے اور اس کے معانی کا رشتہ کہاں کہاں سے تک پھیلا دیا ہے۔

            ’’اسی دلی میں جہاں مسلمانوں کا لال قلعہ اور جامع مسجد ہے، اسی کے متعلق غالب اپنے ایک خط مورخہ ۵؍دسمبر ۱۸۵۷ء میں اپنے اس احساس اور اندیشہ کو قلم بند کرتا ہے’’دیکھا چاہئے مسلمانوں کو آبادی کا حکم ہوتا ہے یا نہیں‘‘ ان ہی خطوط میں دلی کے اسی شہر آشوب کے متعلق غالب نے اپنی ایک ماتمی نظم کے چند اشعار کا بھی تذکرہ کیا ہے:

بس کہ فعال مایرید ہے آج

ہر سلحشور انگلستان کا

گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے

زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا

چوک جس کو کہیںوہ مقتل ہے

گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا

شہر دہلی کا ذرہ ذرہ خاک

تشنۂ خوں ہے ہر مسلماں کا

            غالب نے جو کچھ دیکھا تھا، دلی ہی میں دیکھا تھا۔ ورنہ واقعہ یہ ہے کہ ان اشعار میں در حقیقت ملک کے اکثر حصوں کی تصویرکھینچ آئی ہے۔ دلی اور دلی والوں پر جو کچھ گزر رہی تھی تقریبا سارے ماؤف آسیب رسیدہ علاقوں کا حال یہی تھا۔ اس برپا ہونے والی قیامت کے ہنگاموں سے بچ نکلنے کی ایک مختصر راہ تو وہی تھی جو حافظ شہید کو میسر آئی۔ بندوق کی گولی۔ صرف ایک گولی نے سارے قصوں کو صرف ختم ہی نہیں کردیا بلکہ محمد رسول اللہ… اور ان کی وحی قرآنی سے علمی ربط قائم کرلینے کے بعد جو کچھ دکھایا جاتا ہے اور دیکھنے والے جو کچھ دیکھتے ہیں ان کی نگاہو ں کے سامنے سے اس جاں نواز نظارے کو کون ہٹا سکتا ہے کہ مغلوں کی حکومت ہو یا پٹھانوں کی، خلجیوں کی ہو یا غوریوں کی، الغرض کوئی بھی حکومت مشرقی ہو یا مغربی، جباری ہو یا جمہوری، فرعونی یا اشتراکی جسے مہیا نہیں کرسکی بلکہ مہیا کرنے کا خیال بھی نہیں کرسکی۔ حافظ شہید امن و عافیت کی ان ہی لازوال راحتوں سکھ اور چین کی ان ہی نہ ختم ہونے والی لذتوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔اب کیا ہوگا؟ کے حل نہ ہونے والے سوال کا یہ قلندری جواب تھا، جسے حافظ شہید نے اپنے مقدس اور پاک خون سے لکھ کر پوچھنے والوں کو دیا تھا۔ جسم کو چھید کر اور ہڈیوں کو توڑ کر نکل جانے والی گولیوں کی دشواریوں کو اپنے لیے حافظ شہید کی طرح جو بھی آسان بنا لے گا، اس کے لیے یہ قلندری راہ ہمیشہ کے لیے کھلی ہوئی ہے۔‘‘(سوانح قاسمی، ج:۲، ص:۱۶۵-۱۶۶، دار العلوم دیوبند،یوپی)

             علمائے دیوبند کی کلاسیکیت کو آشکار کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس وقت کلاسیکیت کو سمجھنے والے ہی بہت کم لوگ بچے ہیں اور جوتجدد پسندلوگ ہیں، وہ بھی کلاسیکیت کو بے معنی قرار دے رہے ہیں، اردو ادیبوں کی یہ حالت دیکھ کربڑی حیرت ہوتی ہے۔اس لیے ان کلاسیکیت پسند علما کی تلاش کرنا، خواہ ان کا تعلق کسی بھی مسلک و موقف سے ہو اور ان کے شاعرانہ افکار کو متعارف کرانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ شمس الرحمن فاروقی کلاسیکیت سے اس افسوس ناک انحراف کا نوحہ کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں:

            ’’اوراس وقت یہ عالم ہے کہ وہ شعریات ہی ہم سے کھو گئی جس کی رو سے کلاسیکی زمانے کے لوگ اپنے شعر بناتے تھے۔ لہذا کلاسیکی شاعری کا بڑاحصہ ہمارے لیے بے معنی ہے اور جو حصہ معنی خیز ہے وہ بھی اس لیے بامعنی ہے کہ غیر تہذیب کے تصورات کو ہم کھینچ تان کر اس پر منطبق کرسکتے ہیں۔‘‘ (شعر شعور انگیز، ج:۳)

            علمائے دیوبندکی کلاسکیت پسندی کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ انھوں نے اردو شاعری سے وفاداری نبھائی، نیرنگیِ زمانہ کے باوجود اپنی مشرقی شاعری یا اردو شعری سرمایہ سے کبھی انحراف نہیں کیا اور نہ اس کی نارسائی کا شکوہ کیا، جب کہ بڑے بڑے شعرا ایک زمانے میںاردو شعر و نظم کی نارسائی اور اس کی بے معنویت کا طنز کس چکے تھے۔انھوں نے غزل کی روایتی شاعری کے محل کو ہی قابل انہدام سمجھ لیا۔آب حیات والے مولانا محمد حسین آزاد نے ہی سب سے پہلے کرنل ہالرائڈ کے خیالات سے متاثر ہوکراپنی تقریر بعنوان’’کچھ نظم اور کلام موزوں کے باب میں خیالات‘‘ میں یہ کہا تھا کہ:

            ’’تمہارے بزرگ اور تم ہمیشہ سے نئے مضامین اور نئے انداز کے موجد رہے مگر نئے انداز کے خلعت و زیور جو آج کے مناسب حال ہیں وہ انگریزی صندوقوں میں بند ہیںبکہ ہمارے پہلو میں دھرے ہیں اور ہمیں خبر بھی نہیں۔ ہاں صندوقوں کی کنجی ہمارے ہم وطن انگریزی دانوں کے پاس ہے۔‘‘

            اور انگریزی نظموں کی تقلید اوران کے مطالب و مضامین کی ستائش میں یہاں تک کہہ دیا کہ:

            ’’جب میں انگریزی زبان دیکھتاہوں کہ ہر قسم کے مطالب و مضامین کو نثر سے زیادہ خوبصورتی کے ساتھ نظم کرتے ہیں کہ کلام میں جان ڈال دیتے ہیں اور مضمون کی جان پراحسان کرتے ہیں ۔ لیکن ہم کیا ، سن کر ترسیں، اپنے تئیں دیکھ کر شرمائیں۔ کاش ہم جو ٹوٹی پھوٹی نثر لکھتے ہیں، اتنی قدرت نظم پر بھی ہوجائے جس کے اعلی درجے کے نمونے انگریزی میں موجود ہیں۔‘‘

            جہاں تک علمائے دیوبندکا تعلق ہے تو انھوںنے کبھی اپنے سرمایہ شعر و ادب کا شکوہ نہیں کیا اور مغرب کے صندقچوں میں بند مضامین و موضوعات کا رونا نہیں رویا۔انھوں نے نئے مفاہیم و مضامین کی تلاش میں کسی زبان سے بیر تو نہیں رکھا کہ زبانیں باہمی اکتساب و استفادہ کی راہ پر چل کر ہی ترقی کے راستے طے کرتی ہیں۔ مگر اپنی مشرقیت اور مشرقی اقدار پر ہمیشہ فخریہ اظہار مسرت و طمانیت کرتے رہے۔

            خلاصہ تحریر یہ کہ علمائے دیوبندنے اپنی کلاسیکیت پسندی میں حد درجہ بیدار مغزی کا ثبوت دیا ہے۔ کلاسیکی اشعار کی تشریح اور کلاسیکیت کے فروغ و ارتقا میں اپنا خون پسینہ ایک کیا ہے،انھی وجوہ کے پیش نظر ہم نے اس موضوع کا انتخاب کیا، علمائے دیوبند کی کلاسیکیت پسندی کو مثالوں کے ذریعہ واضح کیا اور یہ مضمون لکھا کہ علمائے دیوبند کی کلاسیکیت پسندی کو مبرہن و مدلل انداز میں قارئین کے سامنے پیش کیا جاسکے۔ اور شعر و ادب کی دنیا میں ان کا مقام و مرتبہ متعین کیا جاسکے۔ہم نے اس موضوع پر ایک پروجیکٹ کے تحت کتابی شکل میں کام بھی کیا ہے،جس میں مشاہیر علمائے دیوبندکی نثری تحریروں میں کلاسیکی اشعار و اقدارکو نشان زد کیا گیا ہے۔یہ مختصر سا مضمون اس طویل مقالہ کے لیے تعارف اور اشتہار کی حیثیت رکھتا ہے۔

—————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 10،  جلد:102‏،  محرم الحرام – صفر المظفر 1440ھ مطابق اكتوبر 2018ء

٭           ٭           ٭

Related Posts