اصلاحِ معاشرہ کی کوششیں ناکام اور بے اثر کیوں؟ (اسباب ووجوہات کا جائزہ) (۱/۲)

از: مفتی توقیر عالم قاسمی

مدرسہ اشرف العلوم بردوان مغربی بنگال

            اصلاح معاشرہ کے عنوان پر روزانہ کتنے ہی جلسے، کانفرنس اور اجتماعات ہو رہے ہیں اور کتنی انجمنیں اور تنظیمیں اس کام کے لیے قائم ہیںاور اصلاح معاشرہ مہم کے کتنے ہی علم بردار اپنی جدو جہد میں مصروف ہیں؛ لیکن اس سب کے باوجود نتائج اور ثمرات کو دیکھیے تو ساری کوششیں رائگاں جارہی ہیں ، معاشرے میں برائیاں اور عام رسومات جوں کے توں باقی ہیں، بلکہ ان میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے اور آئے دن ایک نئی برائی معاشرے میں جنم لے رہی ہے۔

            سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اصلاحِ حال کی کوئی جد وجہد کامیاب کیوں نہیں ہوتی؟ کیا معاذ اللہ قرآن کریم کا وعدہ جھوٹا ہو سکتا ہے کہ’’ جو لوگ ہماری راہ میں کوشش کریں گے ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے‘‘ ۔کیا اللہ تعالی نے یہ وعدہ نہیں فرمایا کہ’’ اللہ تعالی کے دین کی مدد کروگے تو ہم تمہاری مدد کریں گے‘‘۔

            ظاہر ہے کہ اللہ کے یہ وعدے غلط نہیں ہوسکتے، زمین وآسمان اپنی جگہ سے ٹل سکتے ہیں لیکن اللہ تعالی سے وعدہ خلافی کا صدور ممکن نہیں؛ لہٰذا اس صورت حال سے ایک نتیجہ نکل سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ’’ اصلاح معاشرہ کے نام پر کی جانے والی ان کوششوں کا رُخ صحیح نہیں ہے، ان کوششوں میں وہ صفات نہیں پائی جاتیں جو اللہ تعالی کی رحمت ونصرت کو متوجہ کرسکیں، اگر ہماری یہ کوششیں اخلاص کے ساتھ صحیح رخ پر اور درست سمت میں ہوتیں تو ممکن نہ تھا کہ اللہ تعالی کی مدد شاملِ حال نہ ہوتی اور ان کے بہترین نتائج نہ ہوتے۔(اصلاح معاشرہ،  از مولانا مفتی محمد تقی عثمانی ص: ۵۷)

            حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ العالی ایک جگہ فرماتے ہیں:

            اصلاحِ معاشرہ اور اصلاحِ حال کی نہ جانے کتنی کوششیں مختلف جہتوں اور مختلف گو شوں سے ہورہی ہیں، کتنی انجمنیں، کتنی جماعتیں، کتنی پارٹیاں، کتنے افراد، کتنے جلسے،جلوس، اور کتنے اجتماعات ہوتے ہیں اور سب کا مقصد بظاہر یہ ہے کہ معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کا سدّ باب کیا جائے، معاشرے کو سیدھے راستے پر لایا جائے، لیکن دوسری طرف معاشرے کی عمومی حالت کو بازاروں میں دیکھیں، دفتروں میں دیکھیں، جیتی جاگتی زندگی میں قریب سے دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ ساری کوششیں ایک طرف اور خرابی کا سیلاب ایک طرف،معاشرے پر ان اصلاح کا کوئی نمایاں اثر نظر نہیں آتا، بلکہ ایسا لگتا ہے کہ زندگی کا پہیہ اسی طرح غلط راستوں پر گھوم رہا ہے، اگر ترقی ہو رہی ہے تو برائی میں ہو رہی ہے، اچھائی میں نہیں ہو رہی ہے۔

            تو ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ یہ ساری کوششیں معاشرے کو بدلنے میں کیوں ناکام نظر آتی ہیں؟ اکا دکا مثالیں اپنی جگہ ہیں، بحیثیت مجموعی اگر دیکھا جائے تو کوئی بڑا فرق نظر نہیں آتا، اس کی کیا وجہ ہے؟۔ (اصلاحی خطبات:۳/۱۴۵)

             اس زیر نظر تحریر میں ان ناکامیوں کے اسباب ووجوہات کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

            کسی بھی اجلاس، اجتماع، کانفرنس اور پروگرام کے تین عناصر اور حصے ہیں:  (۱) منتظمین (۲)خطبا ومقررین (۳) اور سننے والے شرکا وسامعین۔

            لہٰذا غور کرنا ہوگا کہ ان مذکورہ عناصر اور افراد میں کہاں کہاں اور کس جہت سے کمی اور کوتاہی پائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے اصلاح کی مہم اور کوششوں میں ناکامی ہو رہی ہے۔ ہم قرآن وحدیث اور اکابر ومشائخ علمائے کرام کے کلام سے اپنے معروضات کو پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔

       سب سے پہلے اجلاس و کانفرنس منعقد کرانے والے منتظمین کے بارے میں:

            بلاشبہ سیرت طیبہ یا اصلاح معاشرہ کا اجلاس کرانا ایک عبادت اور کارِ ثواب ہے، لیکن بات دراصل یہ ہے کہ کام کتنا ہی اچھے سے اچھا کیوں نہ ہو، مگر جب تک کام کرنے والے کی نیت صحیح نہیں ہوگی، جب تک اس کے دل میں داعیہ اور جذبہ صحیح نہیں ہوگا اس وقت تک وہ کام بے کار ، بے فائدہ اور بے مصرف ہے، بلکہ بعض اوقات مضر، نقصان دہ اور باعثِ گناہ بن جاتا ہے، دیکھیے نماز کتنا اونچا اور اچھا عمل ہے اور اللہ تعالی کی عبادت ہے ، لیکن اگر کوئی شخص نماز اس لیے پڑھ رہاہے؛ تاکہ لوگ اسے نیک، متقی اور پارسا سمجھیں، تو ظاہر ہے کہ وہ ساری نمازیں اکارت اور بے فائدہ ہے، بلکہ ایسی نماز پڑھنے سے ثواب کے بجائے الٹا گناہ ہوگا، حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

            ’’مَنْ صَلَّی یُرَائِی فَقَدْ أَشْرَکَ‘‘ ۔  (مسند احمد حدیث نمبر: ۱۷۱۴۰، المعجم الکبیر للطبرانی حدیث: ۷۱۳۹)

              ’’ جو شخص لوگوں کو دکھانے کے لیے نماز پڑھے اس نے اللہ کے ساتھ دوسرے کو شریک ٹھہرایا‘‘۔

            اس لیے کہ وہ نماز اللہ کو راضی کرنے کے لیے نہیں پڑھ رہا ہے، بلکہ مخلوق کو راضی کرنے کے لیے اور مخلوق میں اپنا تقوی اور رعب جمانے کے لیے پڑھ رہا ہے۔ دیکھیے نماز اتنا اچھا کام تھا، لیکن صرف نیت کی خرابی کی وجہ سے بے کار ہو گیا اور الٹا باعثِ گناہ بن گیا۔ (اصلاحی خطبات: ۲/۱۳۵)

نیت درست نہیں

            چناں چہ سیرت طیبہ اور دینی اجلاس کرانے والے بعض مرتبہ اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کے لیے، اپنی شہرت کے لیے اور اپنا قد بڑھانے کے لیے اجلاس منعقد کراتے ہیں۔ کوئی تنظیم،یا جماعت، یا کسی گاؤں یا شہر کے باشندگان اور نوجوان طبقہ اس لیے جلسۂ سیرت النبی کراتے ہیں کہ اس جلسے کے ذریعے ہماری تعریف ہوگی کہ بڑا شاندار جلسہ کیا، بڑے اعلی درجے کے مقررین بلائے، بہت بڑے مجمع نے اس میں شرکت کی،اور مجمع نے اس کی بڑی تحسین کی۔ کہیں جلسے اس لیے منعقد ہو رہے ہیں کہ اپنی بات کہنے کا کوئی موقع تو نہیں ملتا، اس لیے سیرت النبی کا ایک جلسہ منعقد کرالیں۔ (اصلاحی خطبات: ۲/۱۳۶)

            اسی شہرت طلبی اور نفس پرستی کا نتیجہ ہے کہ جلسے کے اعلانات کے لیے جو اشتہارات چھپتے ہیں ان میں نام درج کرانے والوں کی ایک لمبی فہرست بن جاتی ہے اور قیادت، سیادت، صدارت، حمایت، عنایت ، نظامت ،سرپرستی جیسے اتنے عناوین ہوتے ہیں کہ اشتہار ایک کتابچہ ہی بن جاتا ہے، جب کہ اشتہار کا مقصد محض اعلان واطلاع ہے ، نہ کہ اپنی نام وری اور برتری کا ذریعہ۔

اپنے حال سے غافل اور دوسرے کی فکر

            اصلاح کی کوششوں کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہر شخص جب اصلاح کا جھنڈا لے کر کھڑا ہوتا ہے تو اس کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اصلاح کا آغاز دوسرا شخص اپنے آپ سے کرے، یہ دوسروں کو بلا رہا ہے، دوسروں کو دعوت دے رہا ہے، دوسروں کواصلاح کا پیغام دے رہا ہے، لیکن اپنے آپ سے اور اپنے حالات میں تبدیلی لانے سے غافل ہے، جب کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا عَلَیْکُمْ أَنْفُسَکُمْ لاَیَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اہْتَدَیْتُمْ، إِلَی اللَّہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعًا، فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۔ (سورۂ مائدہ: ۱۰۵)

            ’’اے ایمان والو! تم اپنی خبر لو(اپنے آپ کو درست کرنے کی فکر کرو) اگر تم راہ راست پر آگئے توجو لوگ گمراہی کے راستے پر جا رہے ہیں وہ  تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے، تمہیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے، اللہ ہی کی طرف تم سب کولوٹ کر جانا ہے، وہ تم کو اس وقت بتائے گا کہ دنیا میں کیا عمل کرتے تھے‘‘۔

            سب سے آسان کام اس بگڑے ہوئے معاشرے میں یہ ہے کہ دوسروں پر آدمی اعتراض کردے،دوسرے کے عیب بیان کردے، لیکن کبھی  اپنے گریبان میں منہ ڈال کر یہ دیکھنے کی توفیق نہیں ہوتی کہ خود میں کتنا بگڑ گیا ہوں ، خود میرے حالات کتنے خراب ہیں، خود میرا طرزِ عمل کتنا غلط ہے، خود میرے گھر میں دین کتنا قائم ہے اور کتنی دین داری ہے، بس دوسروں کی تنقید اور عیب جوئی جاری ہے۔

معاشرہ کیا ہے؟

            افرادکے مجموعے کا نام معاشرہ ہے، اگر ہر فرد اور ہر شخص کو اپنی اصلاح کی فکر ہو جائے تو سارا معاشرہ خود بخود سدھر جائے گا، لیکن اگر ہر شخص دوسرے کی فکر کرتا رہے اور اپنے کو چھوڑتا رہے تو سارا معاشرہ خراب ہی رہے گا۔

فرد کی اصلاح اجتماعیت پر مقدم ہے

            جو احکام اللہ تعالی نے فرد پر عائد فرمایاہے جب ان سے فکری یا عملی طور پر پہلو تہی اور غفلت شروع ہوتی ہے تواس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اصلاح کی اجتماعی تحریکیں بے سود ہو جاتی ہیںاور کامیاب نہیں ہوتی ہیں۔

            جو اسلامی تعلیمات فرد سے متعلق ہیں وہ تعلیمات انسان کو اس بات پر تیار کرتی ہیں کہ اس کی اجتماعی جد وجہد صاف ستھری ہو، فرد سے متعلق تعلیمات جس میں عبادات، اخلاقیات، قلبی کیفیات، سب چیزیں داخل ہیں، اگر انسان ان پر پوری طرح عمل پیرا نہ ہو اور ان تعلیمات میں اس کی تربیت ناقص ہو،پھر وہ اصلاح معاشرہ کا علم لے کر کھڑا ہوجائے تواس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی کوشش بار آور نہیں ہوتیں، اگر میں ذاتی طور پر اپنے اخلاق، کردار اور سیرت کے اعتبار سے اچھا انسان نہیں ہوںاور اس کے باوجود میں اصلاح معاشرہ کا علم لے کر کھڑا ہو جاؤں اور لوگوں کو دعوت دوں کہ اپنی اصلاح کروتو اس صورت میں میری بات میں کوئی وزن اور تاثیر نہیں ہوگی۔ (اصلاحی خطبات: ۶/۱۷۷)

            حاصل یہ ہے کہ اصلاح معاشرہ کے علم برداروں اور منتظمین کے دل میں اگرملت کا درد اور قوم کی فکر ہے، اگر واقعۃً ان کا دل مسلمانوں کی حالت زار پر تڑپتا ہے تو ان کا فریضہ یہ ہے کہ وہ آگے بڑھنے سے پہلے خود اپنے اور اپنے گھر کے حالات کا جائزہ لیں، ایک مرتبہ ہمت کرکے اپنے گھروں کو ان لعنتوں سے پاک کر ڈالیں جو ہمارے معاشرے کو گھن کی طرح چاٹ رہے ہیں، اس کے بعد وہ اصلاح کی مہم لے کر آگے بڑھیں تو نہ صرف یہ کہ ان کی بات میں اثر ہوگا بلکہ ان کا ایک ایک عمل اور ایک ایک انداز لوگوں پر اثر انداز ہوسکے گا، ورنہ یہ قوم زبانی وعظ اور بے روح اپیلیں مدت دراز سے سن رہی ہے، ان بے روح اپیلوں میں یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ وقت کے دھارے کو موڑ سکے۔ (اصلاح معاشرہ، از مولانا مفتی تقی عثمانی: ص: ۵۹)

مدارس کے متعارف جلسوں کے بعض شرعی منکرات ومفاسد

            اہلِ مدارس جو اجلاس فروغِ تعلیم، یا اصلاحِ معاشرہ ،یا اور کسی عنوان سے منعقد کراتے ہیں ، ان میں بھی بعض ایسے منکرات اور مفاسد  شامل ہو جاتے ہیں کہ جس کی وجہ سے اصل مقصد فوت ہوجاتا ہے، اور اجلاس کا اصل ہدف یعنی ’’عوام کی اصلاح‘‘ کما حقہ حاصل نہیں ہو پاتی ہے۔

            بعض مفاسد کی تفصیل حکیم الامت حضرت تھانویؒ کے کلام سے پیش کی جاتی ہے، فرماتے ہیں:

            جہاں تک غور کرکے اور تجربہ کی شہادت سے دیکھا جاتا ہے تو ان جلسوں کے انعقاد کی بڑی غرض دو معلوم ہوتی ہیں: فراہمئ چندہ، اور اپنی کارگذاری کی شہرت، یا یوں کہیے کہ مدرسہ کی وقعت ورفعت، جس کا حاصل حبِّ جاہ اور حبِّ مال نکلتا ہے۔جس سے نصوص کثیرہ میں نہی فرمائی گئی ہے۔بعض مفاسد درج ذیل ہیں:

            (۱) اپنے مدرسہ کی اصل حالت اکثر زیادہ ظاہر کیا جاتا ہے، تصریحاً وایہاماً، جس کا حاصل کذب وخداع ہے۔

            (۲) طلبہ ومحصلین (فارغین) کی تکثیرِ سواد (کثرتِ تعداد)  دکھلانے کے لیے نا اہلوں کو اہل دکھلایا جاتا ہے۔

            (۳)کارروائی میں کار گذاری کا اظہار، اپنی مدح، اپنے کام کی ترجیح، اپنے کام کی خوبی وکثرت دکھلانا اور اس کی وجہ سے تعلیم کی کمیت کا کیفیت سے زیادہ اہتمام کرنا۔ اورکتابیں بلا استعداد گھسیٹنا کہ کاروائی دکھلا سکیں، خواہ طالب علموں کو آئے ،یا نہ آئے، یہ سب حبِّ جاہ اور حبِّ مال کی علامتیں ہیں۔

            (۴) اگر کوئی مدرسہ مقابلہ میں ہو جائے گو اس کی حالت واقع میں اچھی ہو ، مگر ہمیشہ وہ مثلِ خوار نظر آتا ہے اور دل سے اس کے انعدام (نیست ونابود ہونے) کے متمنی رہتے ہیں، ورنہ خوش ہونے کی بات تھی کہ دین کا کام کئی جگہ ہو رہا ہے، لیکن محض اس وجہ سے کہ اس کی شہرت نہ ہوجائے، اور اس میں کمی نہ ہو جائے نا گواری ہوتی ہے۔

            (۵) اکثر ایسے جلسوں میں اسراف ہوتا ہے جن لوگوں کے بلانے کی کوئی ضرورت نہیں ان کے اور ان کے رفقاء وخدام کے کرایہ(اور ہدیہ) میں بہت سے روپے جاتے ہیں اور طعام وغیرہ کے اہتمام میں بھی تکلفات ہوتے ہیں۔

            (۶) چندہ کے حاصل کرنے میں قواعدِ شرعیہ کی رعایت نہیں کی جاتی؛ کیوں کہ حکم شرعی ہے ’’ لایحل مال امرأ مسلم إلا بطیب نفسہ‘‘ (کسی مسلمان شخص کا مال اس کی خوش دلی کے بغیر حلال نہیں ہے) چندہ میں سوچ سوچ کر وہ طریق اختیار کیے جاتے ہیںجس سے مخاطب کے قلب پر اثر پڑے ، گو وہ اثر دباؤ ، یا شرم کی وجہ سے کیوں نہ ہو ۔  (امداد الفتاوی: ۴/۶۶، بحوالہ العلم والعلماء: ۲۸۸-۲۹۰)

اجلاس و اجتماع کا دوسرا عنصرواعظ اور مقرر

            اجلاس و اجتماع کا دوسرا عنصر اور سب سے اہم فرد واعظ اور مقرر ہے، وعظ وتقریر، پند ونصائح، انذار وتحذیر اور ترغیب وترہیب نبوت ورسالت کے فرائض واعمال میں سے ہے، اللہ تبارک وتعالی نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں مخاطب کرکے فرمایا: وَذَکِّرْ فَإِنَّ الذِّکْرَی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ (الذاریات: ۵۵) یعنی آپ وعظ و نصیحت کیجیے، سمجھاتے رہیے، اس لیے کہ نصیحت اور سمجھانامومنوں کو نفع پہنچاتا ہے۔ اور نبی علیہ الصلاۃ والسلام کے توسط سے یہ علمائے کرام کا بھی وظیفہ ہے، قرآن کریم نے بڑے واضح انداز میں ان کے انذار وتحذیر کے منصب اور ذمہ داری کو ان الفاظ میں بیان فرمایا: ’’فَلَوْلاَ نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِنْہُمْ طَائِفَۃٌ لِیَتَفَقَّہُوْا فِی الدِّیْنِ، وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُوْا إِلَیْہِمْ، لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُوْنَ۔( التوبہ: ۲۲۲)

            سو کیوں نہ نکلا ہر فرقہ اور جماعت میں سے ان کا ایک حصہ اور گروہ ، تاکہ دین میں سمجھ پیدا کریں اور علم دین حاصل کریںاور اپنی قوم کو انذار وتحذیر کریں جب وہ لوٹ کر ان کے پاس جائیں؛ تاکہ وہ بچتے رہیں۔

            لہٰذا علمائے کرام کو چاہیے کہ اپنی خطابت اور وعظ و تقریر سے اپنی اسی ذمہ داری کو پوری کرنے کی نیت کرے اور وعظ وتقریر سے ہر آن رضائے الٰہی مد نظر رہے ، کوئی دنیاوی غرض ومقصد کار فرما نہ ہو، اپنی شہرت اور ریا ونمود مقصود نہ ہو، ورنہ ساری محنت اور کوشش اکارت جائے گی اور بجائے اجر و ثواب کے شدید ترین وعید کے مستحق ہوں گے۔ چناں چہ حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے اللہ تعالی کی بارگاہ میں جن تین آدموں کو پیش کیا جائے گا ان میں سے ایک عالم اور قاری ہوگا، اللہ تعالی اس سے پوچھے گا کہ تم نے علم پر کتنا عمل کیا؟ وہ کہے گا کہ میں نے علم حاصل کیا اور اس کو پھیلایا (وعظ ونصیحت کے ذریعہ بھی) اللہ تعالی فرمائے گاکہ تونے دنیا میں یہ اس لیے کیا تھا،تاکہ لوگ تجھے عالم، خطیب اور قاری کہیں، سو دنیا میں لوگوں نے تجھے یہ خطابات دیدئے ، اب تیرے لیے یہاں کوئی بدلہ اور اجر نہیں ہے،پھر اس کو چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ اللہم أعذنامنہ  (مسلم حدیث نمبر: ۱۵۲-۱۹۰۵)

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

            صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کا حال یہ تھا کہ ان کو ہر وقت اور ہر لمحہ یہ فکر رہتی تھی کہ میرا کوئی فعل، کوئی عمل اور کوئی ادا اللہ اور اس  کے رسول کے خلاف تو نہیں ہے اور جب یہ فکر لگی ہوئی ہے تو اب جب وہ دوسرے سے کوئی اصلاح کی بات کہتے ہیں تو وہ بات دل پر اثر انداز ہوتی ہے، اس سے زندگیاں بدلتی ہیں، اس سے انقلاب آتے ہیں اور انقلاب برپا کر کے دنیا کو بتلا بھی دیا۔ علامہ ابن الجوزیؒ ، جو بڑے مشہور واعظ تھے، ان کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کے ایک ایک وعظ میں نونو سو آدمیوں نے ان کے ہاتھ پر گناہوں سے توبہ کی ہے اور بات یہ نہیں تھی کہ ان کی تقریر بہت جوشیلی تھی، یا بڑی فصیح وبلیغ ہوتی تھی بلکہ بات دراصل یہ تھی کہ دل سے امڈتا ہوا جذبہ جب زبان سے باہر نکلتا ہے تو دوسرے کے دل پر اثر کرتا ہے۔ (اصلاحی خطبات: ۳/۱۵۱)

واعظ بے عمل کی بات میں اثر نہیں ہوتا

            جو شخص دوسرے کو وعظ ونصیحت کرے اس کو چاہیے کہ وہ اس نصیحت پر خود عمل کرے اور اس کو اپنے اوپر لاگو کرے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: أَتَأْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَکُمْ۔ (البقرۃ: ۴۴)

            یعنی کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم کرتے ہو اور بھولتے ہو اپنے آپ کو ، یعنی خود عمل نہیں کرتے۔          

            واقعہ مشہور ہے کہ ایک عورت اپنے ایک چھوٹے بچے کو لے کر کسی بزرگ کے پاس گئی اور عرض کیا: حضرت! میرا یہ بچہ گڑ بہت کھاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی صحت کو نقصان ہو رہا رہا ہے، آپ اس کو نصیحت کر دیجیے کہ گڑ زیادہ نہ کھائے، بزرگ صاحب نے فرمایا: تم کل اس کو لے کر آنا، میں اس کو نصیحت کر دوں گا، دوسرے دن جب وہ عورت اس بچے کو لے کر آئی تو بزرگ صاحب نے اس بچے کو اپنے قریب بلایا اور اس کو نصیحت کی: ’’بیٹے گڑ زیادہ مت کھایا کرو، اس سے نقصان ہوتا ہے‘‘  اس عورت نے کہا: حضرت!اتنی بات تو آپ کل بھی کہہ سکتے تھے ؟بزرگ صاحب نے فرمایا:در اصل بات یہ ہے کہ مجھے بھی گڑ زیادہ کھانے کی عادت تھی ، اگر میں کل اس کو گڑ کم کھانے کی نصیحت کرتا تو میری بات میں اثر نہ ہوتا، اس لیے کہ میں خوداس پر عامل نہیں تھا، اب کل سے آج تک میں نے گڑھ کھانا چھوڑ دیا ہے ، اب میں اس کو نصیحت کرتا ہوں؛ تاکہ میرے قول ونصیحت اور عمل میں توافق اور یکسانیت ہو۔

واعظین ومقررین کے لیے خطرناک بات

             ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا اور اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا، تو اس کی آنتیں باہر نکل آئیں گی اور وہ ان کو لے کر اس طرح گھومے گا اور چکر لگائے گا جس طرح گدھا چکی کو لے کر گھومتا ہے، اہل جہنم اس کے پاس جمع ہوجائیں گے اور اس سے کہیں گے، اے فلاں! تمہارا یہ کیا حال ہے؟ کیا تم (دنیا میں) ہم لوگوں کو نیک کاموں کا حکم نہیں کرتے تھے اور برے کاموں سے نہیں روکتے تھے؟ وہ شخص کہے گا: میں تمہیں نیکیوں کا حکم کرتا تھا لیکن خود وہ کام نہیں کرتا تھا، اور میں تمہیں برائیوں سے روکتا تھا اور خود ان کو کرتا تھا ( اس لیے آج یہ دن دیکھناپڑا)۔  (بخاری حدیث: ۳۲۶۷ ، مسلم حدیث: ۵۱-۲۹۸۹)

            اورایک حدیث میں ہے کہ جنت کے کچھ لوگ جہنم کے چند لوگوں کے پاس پہونچیں گے اور ان سے کہیں گے، تم لوگ آگ میں کس وجہ سے داخل ہوئے؟ خدا کی قسم ہم تو جنت میں انہی چیزوں کی وجہ سے (انہی چیزوں پر عمل کرکے) داخل ہوئے جو تم سے سیکھے تھے، وہ جہنمی جواب دیں گے: ہم صرف کہتے تھے اور خود کرتے نہ تھے۔ (العجم الکبیر للطبرانی حدیث نمبر :۴۰۵)

             رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کوئی بھی آدمی تقریر اور وعظ و نصیحت نہیں کرتا مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کے دن سوال کرے گا کہ تقریر کرنے سے ان کا مقصد اور ارادہ کیا تھا۔ حدیث کے راوی جعفرؒ کہتے ہیں کہ مالک بن دینار جب یہ حدیث بیان کرتے تھے تو روتے تھے اور اتنا روتے تھے کہ آپ کی آواز بند ہوجاتی تھی، پھر فرماتے تھے: تم لوگ سمجھتے ہوکہ تمہارے سامنے تقریر کرنے سے میری آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں، حالاں کہ میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالی قیامت کے دن مجھ سے پوچھے گا کہ تقریر سے تمہارا مقصد اور ارادہ کیا تھا۔ 

(رواہ البیہقی فی شعب الایمان مرسلا ًباسناد جید، حدیث نمبر: ۱۶۴۹،الزہد لأحمد بن حنبل حدیث: ۱۸۸۹)

وعظ وتقریر اللہ کے لیے ہو

            لہٰذا وعظ وتقریر کا مقصد اللہ کو راضی کرنا ہونا چاہیے، حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ کا ایک واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ دہلی کی جامع مسجد میں ڈیڑھ دو گھنٹے کا وعظ فرمایا، وعظ سے فارغ ہونے کے بعد آپ جامع مسجد کی سیڑھیوں سے نیچے اتر رہے تھے، اتنے میں ایک شخص بھاگتا ہوا مسجد کے اندر آیا اور آپ ہی سے پوچھا کہ کیا مولوی اسماعیل کا وعظ ختم ہو گیا ؟ آپ نے جواب دیا: ہاں، بھائی ختم ہوگیا، اس نے کہا: ہائے افسوس! میں تو بہت دور سے وعظ ہی سننے آیا تھا، آپ نے پوچھا: کہاں سے آئے تھے؟ اس نے جواب دیا: فلاں گاؤں سے آیا تھا، اور اس خیال سے آیا تھا کہ میں ان کا وعظ سنوں، افسوس کہ ان کا وعظ ختم ہو گیا،اور میرا آنا بے کار ہو گیا، حضرت مولانا نے فرمایا: تم پریشان مت ہو ، میرا ہی نام اسماعیل ہے، آؤ ! یہاں بیٹھ جاؤ، تمہیں دو بارہ سنا دیتا ہوں، جو کچھ میں نے وعظ میں کہا تھا۔چناں چہ سیڑھیوں پر بیٹھ کر سارا وعظ دو بارہ دہرادیا، بعد میں کسی شخص نے کہا کہ حضرت! آپ نے کمال کردیا، صرف ایک آدمی کی خاطر سارا وعظ دہرا دیا، جواب میں حضرت والا نے فرمایا: میں نے پہلے بھی ایک ہی کی خاطر وعظ کہا تھا، اور دوبارہ بھی ایک ہی کی خاطر، یہ مجمع کوئی حقیقت نہیں رکھتا، جس ایک اللہ کی خاطر پہلی بار کہا تھا، دوسری مرتبہ بھی اسی ایک اللہ کی خاطر کہہ دیا۔

            کانَ عامراً یقولُ: ما خَطَبَ خطیبٌ فی الدنیا إلاَّ سیعرِضُ اللّہ ُعلیہ خطبتَہُ ما ارادَ بِہا۔   (شعب الایمان للبیہقی حدیث :۴۶۱۵)

            ’’حضرت عامرؓ فرمایا کرتے تھے کہ جو مقرر بھی دنیا میں کوئی تقریر کرے گا ، عنقریب یعنی روز ِقیامت اللہ تعالی اس سے سوال کرے گاکہ تقریر سے اس کا ارادہ اور مقصدکیا تھا‘‘؟۔

بات کہنے کا طریقہ درست ہو ورنہ فائدہ نہ ہوگا

            شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ فرمایا کرتے تھے’’ حق بات ، حق طریقے سے، اور حق نیت سے جب بھی کہی جائے وہ کبھی نقصان دہ نہیں ہوگی، لہٰذا جب بھی تم دیکھو کہ حق بات کہنے کے نتیجے میں کہیں لڑائی جھگڑا ہو گیا ، یا نقصان ہو گیا، یا فساد ہو گیا تو سمجھ لو کہ ان باتوں میں سے ضرور کوئی بات ہوگی، یا تو بات حق نہیں تھی اور خواہ مخواہ اس کو حق سمجھ لیا گیا تھا، یابات حق تھی لیکن نیت درست نہیں تھی اور بات کہنے کا مقصد دوسرے کی اصلاح نہیں تھی، بلکہ اپنی بڑائی جتانا مقصود تھا، یا دوسرے کو ذلیل کرنا مقصود تھا ،جس کی وجہ سے بات کے اندر اثر نہیں تھا، یا بات بھی حق تھی، نیت بھی درست تھی، لیکن کہنے کا طریقہ حق نہیں تھا اور بات ایسے طریقے سے کہی جیسے لٹھ ماردیا‘‘۔

بات میں تأثیر کب پیدا ہوتی ہے

             لہٰذا جب کوئی بندہ اپنی نفسانیت کو فنا کرکے، اپنے آپ کو مٹاکر، اللہ کے لیے بات کرتا ہے اور اس وقت دنیا والوں کو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس کے سامنے اس کا کوئی اپنا مفاد نہیں ہے اور یہ جو کچھ کہہ رہا ہے اللہ کے لیے کہہ رہا ہے تو پھر اس کی بات میں اثر ہوتا ہے۔ چناں چہ حضرت اسماعیل شہیدؒ کے ایک وعظ میں ہزارہا افراد ان کے ہاتھوں پر توبہ کرتے تھے، اس لیے تین باتیں یاد رکھنی چاہیے، اول بات حق ہو، دوسرے نیت حق ہو،تیسرے طریقہ حق ہو، لہٰذا حق بات ، حق طریقے سے ،حق نیت سے کہی جائے تو وہ کبھی نقصان دہ نہیں ہوگی، بلکہ اس سے فائدہ پہنچے گا۔

بات میں تأثیر کیسے پیدا ہو؟

            جب انسان کے دل میں معاشرہ کی طرف سے بے چینی،گھٹن اور بے تابی پیدا ہو جاتی ہے تو پھر اللہ تعالی اس کی بات میں تأثیر بھی پیدا فرما دیتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت میں معاشرہ میں ہونے والے منکرات اور برائیوں کو دیکھ کر اس قدر بے چینی اور بے تابی ہو رہی تھی کہ قرآن نے اس کو اس طرح بیان فرمایا:   فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَفْسَکَ عَلَی آثَارِہِمْ إِنْ لَمْ یُؤْمِنُوْا بِہَذَا الْحَدِیْثِ أَسَفاً‘‘۔ (سورۂ کہف: ۶)

            ’’ تو کیا آپ ان کے پیچھے افسوس کرکے اپنی جان کو گھونٹ ڈالیں گے اور ہلاک کردیں کے، اگر وہ اس بات پر ایمان نہیں لائیں گے۔

            اورایک آیت میں ہے: شاید آپ اپنی جان کو گھونٹ ماریں گے اور ہلاک کردیں گے ، اگر وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ (الشعراء: ۳)

            جب انسان کے دل میں معاشرہ کی طرف سے بے چینی اور بیتابی پیدا ہوتی ہے تو پھر اللہ تعالی اس کی بات میں تاثیر بھی پیدا فرما دیتا ہے۔

جو بات دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

            جو شخص اپنی ذاتی زندگی ، سیرت، اور اپنے اخلاق وکردار کو مجلّیٰ ومصفی بنا چکا ہے اور اپنی اصلاح کر چکا ہے ، وہ دوسروں کو اصلاح کی دعوت دیتا ہے تو اس کی بات میں وزن بھی ہوتا ہے، پھر وہ بات صرف کان تک نہیں پہنچتی بلکہ دل پر جاکر اثر اندار ہوتی ہے، اس لیے جب ہم اپنے اخلاق کو سنوارے بغیر دوسروں کی اصلاح کی فکر لے کر نکل کھڑے ہوتے ہیںتو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب فتنوں کا سامنا ہوتا ہے اس وقت ہتھیار ڈال دیتے ہیںاور بلند اخلاق وکردار کا مظاہرہ نہیں کرتے، نتیجہ میں حبِّ مال، حبِّ جاہ کے فتنوں میں گرفتار ہو جاتے ہیں، پھر آگے چل کر اصل مقصد تو پیچھے رہ جاتا ہے اور کریڈٹ لینے کا شوق آگے آجاتا ہے، پھر ہماری ہر نقل وحرکت کے گرد یہ بات گھومتی ہے کہ کس کام کے کرنے سے مجھے کتنا کریڈٹ حاصل ہوگا؟ جس کے نتیجے میں کاموں کے چناؤ اور انتخاب میں ہمارے فیصلے غلط ہو جاتے ہیں اور ہم منزلِ مقصود تک نہیں پہنچ پاتے۔(اصلاحی خطبات: ۶/۱۷۷)

            غرض جو اجلاس ذاتی شہرت کے لیے، اپنا کریڈٹ حاصل کرنے کے لیے اور دنیاوی اغراض و مقاصد کو سامنے رکھ کر منعقد کرایا جائے اس کے نتیجے میں ہونے والی اصلاحی کوشش کا بے اثر اور ناکام ہونایقینی ہے، اللہ تعالی ہر عمل میں اخلاص پیدا فرمائے۔ آمین

(باقی  آئندہ)

————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 10،  جلد:102‏،  محرم الحرام – صفر المظفر 1440ھ مطابق اكتوبر 2018ء

٭           ٭           ٭

Related Posts