از:  شایان احمد صدیقی

متعلّم تخصص فی علوم الحدیث، بنوری ٹائون کراچی

            آثار السنن کا اسلوب اور اس کی خصوصیات: ’’آثار السنن‘‘ کا اسلوب مجد الدین ابن تیمیہ کی ’’المنتقی‘‘، حافظ ابن حجر کی ’’بلوغ المرام‘‘ اور خطیب تبریزی کی ’’مشکوۃ المصابیح‘‘ جیسا ہے؛ لیکن نقد روات حدیث اور جرح وتعدیل کی بحث میں اس کتاب کا ایک اپنا مقام ہے جو اس کو ان کتابوں کے ساتھ ساتھ علامہ زیلعیؒ کی ’’نصب الرایۃ‘‘، علامہ زبیدی بلگرامیؒ کی ’’عقود الجواہر المنیفۃ‘‘ اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی کی ’’فتح المنان‘‘ سے بھی ممتاز کرتی ہے؛ لیکن ان تمام کتابوں میں ’’آثار السنن‘‘ کا اسلوب ’’بلوغ المرام‘‘ سے زیادہ قریب ہے۔علامہ نیمویؒ نے اپنی اس کتاب میں ’’بلوغ المرام‘‘ سے خوب استفادہ کیا ہے۔پچاس (۵۰) سے زیادہ ایسی احادیث ’’آثار السنن‘‘ میں جمع کی ہیں جو ’’بلوغ المرام‘‘ کے متعلقہ ابواب میں درج ہیں۔

            (۱)علامہ نیمویؒ  نے اس کتاب پر خود’’ التعلیق الحسن اورتعلیق التعلیق‘‘ کے نام سے دو حواشی تحریر فرمائے جیساکہ آئندہ شروح و حواشی کے ذیل میں اس کا تذکرہ آئے گا ، اور اس میں نقد روات ،جرح وتعدیل اور علل حدیث کی ایسے کئی مباحث ملتے ہیں جن میں کئی ائمہ فن سے محققانہ اختلاف کیا ہے، جس کی مثال درج ذیل ہے:

            حافظ ابن حجرؒ نے ’’باب سترۃ المصلی‘‘ میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ’’فلیخط خطا، ثم لا یضرہ من مر بین یدیہ‘‘(۱۸)  کو نقل کرنے کے بعد یہ حکم لگایا ہے:

            ’’أخرجہ أحمد وابن ماجہ وصححہ ابن حبان، ولم یصب من زعم أنہ مضطرب، بل ہو حسن‘‘۔

            ’’احمد اور ابن ماجہ نے اس کی تخریج کی ہے اور ابن حبان نے اس کی تصحیح کی ہے،اور ان لوگوں کا خیال درست نہیں ہے جنہوں نے اسے مضطرب قرار دیا ہے، بلکہ وہ حسن ہے‘‘۔

            علامہ نیمویؒ نے اس حدیث پر کلام کرتے ہوئے حافظؒ سے اختلاف کرتے ہیں اور لکھتے ہیں:

            ’’والعجب من الحافظ ابن حجر حیث قال فی بلوغ المرام: صححہ ابن حبان، ولم یصب من زعم أنہ مضطرب، بل ہو حسن۔ قلت: فی سندہ أبو عمرو بن محمد بن حریث، قال الذہبی: لا یعرف، وقال فی التقریب: مجہول۔ قلت: فجہالتہ تکفی لضعف ہذا الحدیث‘‘۔

            ’’اور حافظ ابن حجر پر تعجب ہے کہ انھوں نے بلوغ المرام میں یہ فرمایا ہے: صححہ ابن حبان۔۔۔۔۔۔ میں کہتا ہوں کہ اس سند میں ابو عمرو بن محمد بن حریث ہیں جن کے بارے میں ذہبی لا یعرف کہتے ہیں اور تقریب میں ان کو مجہول لکھا ہے۔ اس حدیث کو ضعیف قرار دینے کے لیے راوی کا مجہول ہونا کافی ہے‘‘۔

            اس کے بعد علامہ نیمویؒ نے اس حدیث کے اضطراب پر ایک طویل بحث کی ہے اور خلاصہ کے طور پر یہ لکھا:

            ’’فالحاصل أن حدیث الخط لا یصح وإن ذہب ابن حبان إلی تصحیحہ، والحافظ إلی تحسینہ‘‘

            ’’خلاصہ یہ ہے کہ حدیث خط صحیح نہیں ہے اگرچہ ابن حبان نے اس کی تصحیح کی ہے اور حافظ نے اس کی تحسین کی ہے‘‘۔

            (۲) دیگر کتب حدیث کی طرح علامہ نیمویؒ نے بھی کتابوں کے حوالہ دینے کے لیے علامات کا استعمال کیا ہے اور اس سلسلے میں ’’بلوغ المرام‘‘ ہی کی مقرر کردہ علامتوں کے انداز کوکچھ تغیر کے ساتھ اپنایا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:

’’لکنی اقتصرت فی کثیر من المواضع علی العلامۃ، فالشیخان للبخاری ومسلم، والثلاثۃ لأبی داؤد والنسائی والترمذی، والأربعۃ للثلاثۃ مع ابن ماجہ، والخمسۃ للأربعۃ مع أحمد، والستۃ للأربعۃ مع الشیخین، والجماعۃ لأصحاب الکتب الستۃ معہ، وکثیر مالا أذکر مع الشیخین غیرہما من مخرجی الحدیث، وربما أقول بعد ذکر بعض المخرجین: وآخرون، فالمراد بہ غیرہ من أصحاب التخریج سواء کانوا من الجماعۃ وغیرہم، کالامام مالک والشافعی والدارمی وابن حبان والطحاوی والطبرانی والدارقطنی والحاکم والبیہقی وأمثالہم‘‘۔

            (۳) علامہ نیمویؒ نے اس کتاب کو فقہی ابواب پر مرتب کیا ہے، جس سے استفادہ نہایت آسان ہو گیا ہے۔ آپ نے اس کی ابتداء کتاب الطہارۃ سے کی اور اس کے ضمن میں ۴۶ باب ذکر کیے، کتاب الطہارۃ کے بعد کتاب الصلوۃ کا عنوان باندھا اور اس کے ضمن میں ۲۲۸ باب ذکر کیے۔

            (۴) حدیث کا متن عموما انھیں کتب سے نقل کرتے ہیں جس کی خود علامہ نے تصریح کی ہے، اگر کہیں ان کتب میں سے کسی کا حوالہ موجود ہو اور محولہ کتاب میں بعینہٖ وہ الفاظ نہ پائے جائیں تو مختلف ایسی جگہوں کے تتبع سے معلوم ہوا کہ ایسے مواقع پر مصنف کا اعتماد’’ نصب الرایہ ، المنتقی ، بلوغ المرام ، اور مجمع الزوائد‘‘ اور اس جیسی معتمد ثانوی کتب پر ہوتا ہے ۔ جس کی مثال درج ذیل ہے:

            ’’آثار السنن‘‘، ص: ۱۲۱ میں علامہ نیمویؒ نے ایک روایت کے حوالہ میں ’’رواہ ابو دائود فی المراسیل‘‘ کا ذکر کیا ہے، جبکہ مراسیل ابو دائود میں یہ الفاظ بعینہ موجود نہیں ہیں۔ حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒنے ’’الاتحاف(حاشیہ آثار السنن)‘‘میں مصنف کے اس طرز عمل کی یوں وضاحت کی ہے :

’’فکأنہ تبع فی عزو اللفظ للمراسیل للزیلعی‘‘۔

            ’’گویا کہ انھوں نے مراسیل کی طرف الفاظ حدیث کی نسبت میںامام زیلعی کی اتباع کی ہے‘‘۔

            (۵) ’’آثار السنن‘‘ کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ علامہ نیمویؒ نے روایت کے حکم کو بیان کیا ہے، خصوصاً ان احادیث کے حکم کے بیان کا التزام کیا ہے جو صحیحین میں موجود نہیں ہیں۔

            (۶) موافق اور مخالف احادیث کا استخراج اس کتاب کی اہم خصوصیت ہے۔ علامہ نیمویؒ نے صرف ان احادیث کے ذکر پر اکتفاء نہیں کیا جو مسلک حنفی کی مؤید ہیں بلکہ انھوں نے باضابطہ دونوں قسم کی احادیث کے لیے الگ الگ ابواب قائم کیے، اور اس کے ذیل میں دونوں قسم کی احادیث جمع کر کے انتہائی نادر تحقیق کی ہیں، علامہ نیمویؒ کی یہ تحقیق کبھی ایسے نوادرات پر مشتمل ہوتی ہیں کہ جن کے ذکر سے متقدمین کی کتابیں بھی خالی ہیں، آپ لکھتے ہیں:

’’وقد بینت ضعفہ بأدلۃ قویۃ لم یسبق إلی بعضہا ذہن أحد من المتقدمین فضلا عن المتأخرین‘‘

            ’’میں نے اس کے ضعف کو ایسے قوی دلائل سے مبرہن کیا ہے جس کی طرف متقدمین کا ذہن بھی نہیں گیا چہ جائے کہ متأخرین‘‘۔

            (۷) علامہ نیمویؒ نے اس کتاب میں اپنی مخصوص آراء کو ’’قال النیموی‘‘ سے ذکر کیا ہے، جو کبھی مسلک حنفی کی ترجیح میں ہوتی ہے، کبھی حدیث کی صحت اور ضعف کے بیان میں اور کبھی احادیث کے ما بین تطبیق کی صورت میں ہوتی ہے۔ پوری کتاب میں علامہؒ کی یہ قیمتی آراء تقریبا اکیاون (۱۵) مقامات پر مشتمل ہیں جو ان کی بلوغ فکر اور تعمق نظر کا آئینہ دار ہے۔

            تکملہ کی ضرورت: ’’آثار السنن‘‘ نے اپنی گوناں گوں خصوصیات کی بنا پر مشاہیر اہل علم کی توجہ اپنی طرف مبذول کرالی تھی اور علماء وقت کو اس کام کی اہمیت کا احساس ہو گیا تھا۔ علامہ نیمویؒ کی وفات کے بعد کئی ایک علماء نے اس کے تکملہ کی طرف توجہ دی؛ لیکن یہ عظیم الشان کسی کے بس کا نہ تھا۔ اس لیے کوئی اس کا م کی تکمیل نہ کر سکا۔ خود حضرت تھانویؒ نے’’احیاء السنن‘‘ کی تالیف کا کام اسی انداز پر شروع کیا تھا لیکن اس کی ترتیب علیحدہ ہو گئی اور یہ ایک مستقل کام کی حیثیت اختیار کرگیا۔

            آثار السنن کے مستفیدین:’’آثار السنن‘‘ مذہب حنفی کے پیروکاروں کے لیے بالعموم اور علمائے احناف کے لیے بالخصوص ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ تھی اور ابتداء ہی سے ہند وپاک کے نصاب تعلیم کا جز لا ینفک رہی ہے اور خدائے لم یزل نے جو پذیرائی اس کتاب کو عطا فرمائی وہ ہر کتاب کے نصیب میں کہاں؟علامہ نیمویؒ کی یہ کتاب اس لائق تھی کہ علماء اس سے اعتنا کرتے اور اپنی تصنیفات میں اس سے استفادہ کرتے ۔ ذیل میں چند محققین کے نام ذکر کیے جاتے ہیں جنہوں نے اپنی تصانیف میں اس کتاب سے استفادہ کیا۔

            محدث کبیر شیخ خلیل احمد سہارنپوریؒ: شیخ خلیل احمد سہارنپوریؒ (۱۳۴۶ھ) شیخ نیمویؒ کی شخصیت سے بے حد متاثر تھے اور خصوصا علامہ کی اس تصنیف لطیف اور اس کی نادر تحقیقات کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ آپ نے اپنی مایہ ناز تصنیف ’’ بذل المجہود فی حل ابی داود‘‘ میں متعدد جگہوں میں علامہ کی تحقیقات کو قول فیصل بنایا ہے۔

            شیخ سہارنپوریؒ نے ابتدا میں جہاں مصادر ومراجع کا ذکر فرمایا ہے وہیں آپ نے احادیث کی بلند پایہ کتب کی صف میں علامہ نیموی کی کتاب’’ آثار السنن‘‘ اور اس کے حواشی ’’التعلیق الحسن‘‘ اور ’’تعلیق التعلیق‘‘ کو بھی جگہ دی ہے۔

            علامہ شبیر احمد عثمانیؒ: علامہ شبیر احمد عثمانیؒ (۱۹۴۹ء) ’’آثار السنن‘‘ کی تحقیقات سے بہت متاثر تھے۔ آپ نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف ’’فتح الملہم‘‘ میں کئی اختلافی مسائل میں علامہ نیمویؒ کے قول کو ہی اختیار فرمایا ہے۔ خصوصا نقد رجال میں تو جا بجا علامہ نیمویؒ کی عبارت سے استدلال کیا ہے۔

            علامہ انور شاہ کشمیریؒ: علامہ انور شاہ کشمیریؒ (۱۳۵۲ھ) باوجودیکہ ہر فن میں مجتہدانہ رائے رکھتے تھے، علامہ نیمویؒ کے تبحر علمی کے قائل تھے۔ علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے اپنی کتاب ’’نیل الفرقدین‘‘ میں علامہ نیمویؒ کی تحقیقات سے استفادہ کیا ہے۔

            حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ ’’ آثار السنن کے متعلق لکھتے ہیں‘‘:

’’وقد نقلت فیہ شیئا من التعلیق الحسن للشیخ النیموي مع ما زدت علیہ وکان الشیخ المرحوم حین تالیفہ ذلک الکتاب یرسل إلي قطعۃ قطعۃ، إني کنت مرافعا فیہ ‘‘۔

            ’’ میں نے (اس کتاب ’’نیل الفرقدین‘‘) میں شیخ نیموی کی کتاب ’’التعلیق الحسن‘‘ کا کچھ حصہ نقل کیا ہے۔ شیخ مرحوم اس (کتاب) کی تصنیف کے زمانہ میں اس کے حصے مجھے بھیجتے رہے ہیں۔ میں ان کی تحقیقات سے متفق ہوں‘‘۔

            شروحات وتعلیقات ’’آثار السنن‘‘: علامہ نیمویؒ نے ’’آثار السنن‘‘ کو ایسی جامعیت سے مرتب فرمایا ہے اور ایسے سہل انداز میں تالیف کی ہے کہ یہ متن بغیر کسی شرح وتعلیق کے بھی قابل استفادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیور طبع سے آراستہ ہونے کے بعد سے اب تک مدارس دینیہ کے نصاب میں داخل ہے؛ مگر باوجود اس کے علامہ نیمویؒ نے اس کے فقہی عنوانات پر فقہا کی رائے کا تقابلی جائزہ اور متن میں موجود روایات کے متعلقہ مباحث پر دو تعلیقات تحریر فرمائیں۔

            التعلیق الحسن: ’’التعلیق الحسن‘‘ ’’آثار السنن‘‘ میں موجود احادیث وآثار کے متعلقہ مباحث پر مشتمل ہے۔ مثلا کسی روایت سے متعلق محدثین کی رائے پر بحث کی ہے یا کسی روایت کی سند اور دوسرے طرق کی نشاندہی کی ہے، یا کسی راوی کے متعلق جرح وتعدیل کے مباحث ہیں۔

            تعلیق التعلیق: یہ ’’آثار السنن‘‘ کے حاشیہ ’’التعلیق الحسن‘‘ کا حاشیہ ہے۔ اس میں علامہ نیمویؒ نے ’’التعلیق الحسن ‘‘ میں مذکور بعض مباحث کی محدثانہ انداز میں وضاحت فرمائی ہے۔ یہ دونوں حواشی ’’آثار السنن‘‘ کے ساتھ ہی طبع ہوتے ہیں۔

            الاتحاف لمذہب الاحناف:  علامہ کشمیریؒ دوران مطالعہ’’آثار السنن‘‘ پر مختصر فوائد بھی لکھتے تھے۔ یہ فوائد کبھی متن سے اختلاف کی صورت میں، کبھی مزید فوائد کی صورت میں اور کبھی مزید ماخذ کی نشاندہی کی صورت میں ہوتے ہیں۔یہ حواشی ’’ الاتحاف لمذہب الاحناف‘‘ کے نام سے معنون ہیںجو علامہ محمد یوسف بنوریؒ کے مقدمہ اور مولانا بدر عالم میرٹھیؒکی نظر ثانی کے بعد فوٹو کاپی کی شکل میں محفوظ کردیئے گئے ہیں۔ حضرت کشمیریؒ نے اس پر حاشیہ اور بین السطور میں اتنا علمی ذخیرہ جمع کردیا ہے کہ بسا اوقات پڑھنا بھی دشوار ہو جاتا ہے۔

            علامہ یوسف بنوریؒ مقدمہ اتحاف میں لکھتے ہیں:

’’حتی اصبحت صفحۃ الکتاب کالوشی الدقیق‘‘۔

            ’’ کتاب کا صفحہ باریک منقش کپڑے کی طرح ہو گیا ہے‘‘۔

            حضرت علامہ کشمیریؒ کے یہ حواشی مکمل متن پر جا بجا مقامات پر ہیں۔ اگر اس کتاب کو جدید انداز میں ایڈیٹ کردیا جائے اور ان حواشی کی تخریج کردی جائے تو مستدلات احناف کا ایک دائرۃ المعارف تیار ہو سکتا ہے۔ حضرت علامہ کشمیریؒ کے حواشی کی تخریج کا کام حضرت علامہ بنوریؒ نے شروع فرمایا تھا مگر افسوس کہ مکمل نہ ہو سکا اوروقت اجل آپہنچا۔

            علامہ بنوریؒ نے ان حواشی کی اہمیت کو یوں اجاگر کیا ہے:

            ’’ اور میں بھی کچھ زمانہ حضرت (علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ)کے ارشاد پر ان حوالوں اور عبارات کی تخریج میں مشغول رہا، تو کتاب کے ایک صفحہ کی تخریج نے کئی اوراق بھر دیے۔ حضرت کی خواہش تھی کہ اگر یہ تخریجات طبع ہو گئے تو اہل علم کو بہت فائدہ ہوگا‘‘۔

            فرزند بنوری اور جاں نشین علم وعمل حضرت مولانا سید سلیمان یوسف بنوری مد ظلہ کی خواہش اور ایما پر حضرت ڈاکٹر مولانا عبد الحلیم چشتی مد ظلہ (رئیس قسم التخصص فی علوم الحدیث بنوری ٹاؤن کراچی) کے زیر نگرانی ’’مجلس الدعوۃ والتحقیق الاسلامی‘‘میں ان حواشی کی تحقیق وتخریج کا کام جاری ہے۔ اگرچہ یہ دقت طلب کام حضرت بنوری ہی کا خاصہ تھا (کہ علامہ کشمیریؒ کے حواشی کی تخریج وہی کر سکتا ہے جو علامہ کشمیریؒ کے مذاق علمی سے آشنا ہو) لیکن قسام ازل کو یہی منظور تھا کہ حضرت بنوریؒ کے فیض یافتہ اس سعادت سے بہرہ مند ہوںاور ان کے فرزند ان کے ہاتھوں اس کام کی تکمیل ہو۔اللہ جل شانہ سے دعا ہے کہ وہ اس کام کو بحسن وخوبی پایۂ تکمیل تک پہنچائے۔ آمین

            قارئین اور اہل علم حضرات سے بھی دعاؤں کی درخواست ہے کہ اللہ جل شانہ حضرت کشمیریؒ کے اس بحر ذخار کو تکمیل کے مراحل میں پہنچادے۔

            توضیح السنن: مولانا عبد القیوم حقانی صاحب زید مجدہم نے تین جلدوں میں ’’آثار السنن ‘‘کی ضخیم شرح بزبان اردو لکھی ہے۔ ابتدا میں علامہ نیمویؒ کے مختصر حالات ہیں اور پھر متن کی شرح ہے۔ شرح میں مؤلف کا طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے متن کا ترجمہ ذکر کرتے ہیں، پھر عنوان کا تعارف اور فقہا کے اختلاف اور ان کے مستدلات کو کہیں تفصیل اور کہیں اختصار سے لکھتے ہیں۔ پھر احناف کی وجہ ترجیح ذکر کرتے ہیں۔

            آثار السنن مترجم: ’’آثار السنن‘‘ کا اردو ترجمہ مولانا محمد اشرف زید مجدہ نے کیا ہے۔ یہ ترجمہ نہایت سلیس ہے۔

            تنقیدات بر ’’آثار السنن‘‘:فقہی عنوانات پر احادیث کی ترتیب وتخریج اور اقوال فقہا کے مستدلات کے طور پر حدیث کا بیان مباحث ومناقشات کا ایک میدان ہے۔ متقدمین ومتاخرین کا اس پر اتنا بڑا علمی ذخیرہ موجود ہے کہ اس کا احصا مشکل ہے۔ علامی نیمویؒ کا مقصد بھی ’’آثار السنن‘‘ کے ذریعہ فقہ حنفی کے مزاج ومذاق کو بیان کرنا ہے؛ اس لیے ’’آثار السنن‘‘ بھی معرض بحث بنی۔ذیل میں ’’آثار السنن‘‘ کے رد میں لکھی جانے والی کتابوں کا مختصر تذکرہ کیا جاتا ہے۔

            ابکار المنن: مولانا عبد الرحمن مبارک پوریؒ نے ’’آثار السنن‘‘ کے پہلے حصہ کا رد بنام ’’ابکار المنن‘‘ لکھا۔ اس کتاب میں مولانا مبارک پوریؒ نے علامہ نیمویؒ پر کچھ فنی اور کچھ غیر فنی اعتراضات کیے ہیں، اور کئی مقامات پر ذاتیات پر بھی اتر آئے ہیں۔ اس کتاب میں مولانا کا انداز یہ ہے کہ ’’قال‘‘ کہہ کر علامہ نیمویؒ کی عبارت نقل کرتے ہیں اور ’’قلت‘‘ سے اس کا رد کرتے ہیں۔ مباحث عمدہ انداز میں مرتب ہیں بادی النظر میں تحقیقات عمدہ معلوم ہوتی ہیں۔

            ’’ابکار المنن‘‘ کی پہلی اشاعت ۱۹۱۹ء میں ہوئی؛ جب کہ دوسری طباعت پچاس سال بعد ۱۹۶۸ء میں ہوئی۔ ابھی حال ہی میں اس کا ایک اور ایڈیشن نظروں سے گزرا جو ۲۰۰۹ء میں طبع ہوا۔ اس کے باوجود یہ کتاب خال خال ہی کہیں ملتی ہے۔ ’’ابکار المنن‘‘ کے مصنف اس کی تالیف کے بعد پندرہ سال تک زندہ رہے مگر انھوں نے ’’آثار السنن‘‘ کے دوسرے حصے کا جواب نہیں لکھا۔

            علامہ نیمویؒ کے صاحبزادہ مولانا عبد الرشید فوقانیؒ نے ’’ابکار المنن‘‘ کا جواب بنام ’’القول الحسن‘‘ لکھا۔ کتاب کے ساتھ علامہ نیمویؒ کے مختصر حالات اور سندوغیرہ بھی ہیں۔ مولانا عبد الرشید فوقانیؒ نے اس کا مسودہ مکمل کرنے کے بعد مولانا مبارک پوریؒ کوبھیجا کہ وہ اپنے اعتراضات کے جواب خود دیکھ لیں اور اگر اس کا جواب لکھنا چاہتے ہیں تو ابھی سے لکھ دیں۔ مولانا مبارک پوریؒ نے جواب لکھنے کا عندیہ بھی دیا؛ مگر اس کے دس ماہ بعد ان کا انتقال ہوگیا۔

            ’’القول الحسن‘‘ نہایت محققانہ جواب ہے۔ مولانا فوقانی ؒ’’قال صاحب الابکار‘‘ سے مولانا مبارک پوریؒ کا اعتراض نقل کیا اور پھر ’’قال ابن النیموی‘‘ کے عنوان سے جواب لکھا۔ آپ کے جوابات مناظرانہ اور ترکی بہ ترکی ہیں۔ اس سے آپ کی علمی صلاحیت اور گرفت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

             اعتراضات حافظ زبیر علی زئی: حافظ زبیر علی زئی مرحوم غیر مقلد نے اپنے زیر ادارت ماہنامہ ’’الحدیث‘‘ میں ’’نیموی صاحب کی کتاب آثار السنن پر ایک نظر‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جس میں انھوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ علامہ نیمویؒ کے ’’آثار السنن‘‘ میں تناقضات ہیں، ضعیف روایات کا سہارا لیا ہے اور صحیح احادیث پر حملہ کیا ہے۔ علامہ نیمویؒ خود اتنے ماہر عالم نہ تھے۔

            مولانا ظہور احمد الحسینی مد ظلہ نے ’’التحقیق الحسن‘‘ کے نام سے اس کا مسکت اور مدلل جواب لکھا ہے۔ مولانا ظہور احمد صاحب کے کام میں یہ خصوصیت ہے کہ انھوں نے علامی نیموی اور ان کے مستدلات کا دفاع حدیث اور رجال کی بنیادی کتابوں سے کیا ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے معترض کی جہالت کی خوب قلعی کھولی ہے۔ اس کتاب کے ابتدا میں علامہ نیمویؒ کے حالات پر ایک گرانقدر مضمون بھی شامل ہے جس سے اس کتاب کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

            متداول نسخے اور ان کا معیار صحت:بر صغیر پاک وہندمیں کتابوں کی طباعت وتصحیح کا معیار ہمیشہ سے بلند نہیںرہاہے اور یہاں کتابوں کے ناشرین ان کی صحت کا خاص خیال نہیں رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ’’آثار السنن‘‘ کی طباعت کے ساتھ بھی انصاف نہیں ہوا؛ چوںکہ یہ کتاب پاک وہند کے اکثر مدارس میں بلکہ مصر کے کچھ اداروں میں بھی شامل نصاب ہے ، اس لیے متعدد ناشرین نے اس کی طباعت کی طرف توجہ دی اور اپنے اپنے معیار کے مطابق اس کتاب کو شائع کیا۔ وہ ناشرین جن کا مقصد فقط حصول زر ہوتا ہے اور صحت کا التزام ان کے پیش نظر نہیں ہوتا، ایسے مطابع سے چھپنے والی کتابوں کا جو حال ہو گا وہ ظاہر ہے۔ یہی حال ’’آثار السنن‘‘ کا بھی ہے کہ جن ناشرین نے حصول زر کی خاطر اس کتاب کی طباعت کی ، انھوں نے اس کتاب کی صحت کا خیال نہیں رکھا اور متن وشرح میں ایسی فحش غلطیاں کیں کہ جس کی یہ کتاب متحمل نہیں۔ ذیل میں ’’آثار السنن‘‘ کے ان متداولہ نسخوں پر تبصرہ ہے جوہمارے پیش نظر ہیں اور پاک وہند میں مروجہ ہیں۔

            آثار السنن مطبوعہ احسن المطابع عظیم آباد:آثار السنن کا یہ نسخہ دو جلدوں پر مشتمل ہے، جسے اس مکتبہ کے مالک مولوی محمد عبد القادر نے اپنے اہتمام سے شائع کیا ہے۔ جلد اول کتاب الطہارۃ تا باب فی الصلوۃ بحضرۃ الطعام پر مشتمل ہے، اور جلد دوم باب ما علی الامام سے آخر کتاب الصلوۃ تک ہے۔ یہ مصنف کی زندگی میں ہی زیور طبع سے آراستہ ہو گیا تھا۔جلد اول اور دوم کے آخر میں مصنف نے اغلاط کی فہرست کا اضافہ کیا ہے،اوراسی طرح جلد دوم کے آخر میں علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ کا قصیدہ بھی مطبوعہ ہے۔ یہ نسخہ شاندار جلی کتابت میں ہے اور صحت میں دیگر تمام نسخوں سے ممتاز ہے۔ اس نسخہ کو حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے اپنے مطالعہ میں رکھا اور دوران مطالعہ اس پر حواشی بھی لکھے جو ’’الاتحاف لمذہب الاحناف‘‘ سے موسوم ہے۔ 

            آثار السنن مطبوعہ دار الاشاعت الاسلامیہ کلکتہ:آثار السنن کا یہ نسخہ بھی دو جلدوں میں ہے۔ جو دارالاشاعت الاسلامیہ کولوٹولہ اسٹریٹ کلکتہ سے شائع ہوا۔ جلد اول کے آخر میں علامہ کشمیریؒ کا قصیدہ مطبوعہ ہے اور غلط نامہ کی فہرست بھی ہے، جبکہ جلد دوم کے آخر میں صاحبزادہ نیموی مولانا عبدالرشید فوقانیؒ کے قلم سے علامہ نیمویؒ کا مختصر ترجمہ ہے اور علامہ انور شاہ کشمیریؒ کا شاہکار قصیدہ مع فارسی ترجمہ بھی طبع شدہ ہے۔ اس کے علاوہ جلد دوم کے آخر میں علامہ نیمویؒ کا رسالہ ’’عمدۃ العناقید فی حدائق بعض الاسانید‘‘ بھی لگا ہوا ہے۔ یہ نسخہ بھی صحت کی تمام تر خوبیوں کو اپنی دامن میں لیے ہوئے ہے ۔

            آثار السنن مطبوعہ مکتبہ حقانیہ:محقق العصر مولانا فیض احمد ملتانیؒ نے اپنی تحقیق وتخریج کے ساتھ ایک جلد میں کامل اپنے مکتبہ حقانیہ سے شائع کیا ہے۔ مولانا فیض احمد ملتانیؒ صاحب حدیث کے باب میں ید طولی رکھتے تھے۔ آپ نے آثار السنن کے حواشی میں ذکر کردہ حوالوں کی تخریج فرمائی، نہایت عمدہ تحقیق ہے ۔ متن کی صحت کا معیار ہندوستان کی مطبوعہ کتب سے کم ہے۔ علامہ نیمویؒ کے حواشی اس طور سے ملا کر لکھے ہیں کہ معلوم نہیں ہوتا کہ ایک حاشیہ کہاں ختم ہو رہا ہے اور دوسرا کہاں سے شروع ہو رہا ہے۔

            آثار السنن مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ: مکتبہ رحمانیہ لاہور سے مطبوعہ آثار السنن بھی ایک جلد میں کامل ہے۔ مولانا ذوالفقار علی صاحب کی تصحیح وتحقیق کے ساتھ شائع ہوا ہے۔ سر ورق پر آثار السنن کے ساتھ ’’التعلیق الحسن اور تعلیق التعلیق‘‘ کا بھی نام لکھا ہے لیکن کتاب میں ’’تعلیق التعلیق‘‘ معدوم ہے۔ اگر کہیں ہے بھی تو محقق نے اپنے لفظوں میں اس کا خلاصہ پیش کیا ہے۔ متن کی صحت کا خاص خیال نہیں رکھا گیا ہے؛ البتہ محقق کی تعلیقات نہایت عمدہ اور گرانقدر ہیں۔

            آثار السنن مطبوعہ مکتبہ البشری: مکتبہ البشری کراچی اپنی اعلی اور دیدہ زیب طباعت کی وجہ سے تمام ناشرین میں اعلی مقام رکھتا ہے۔اہل مکتبہ نے اس کتاب کو دیدہ زیب طباعت سے آراستہ کیا ہے۔ آثار السنن کا یہ نسخہ ایک جلد میں مکمل ہے اور طباعت کی ظاہری خوبیوں سے آراستہ ہے۔ مگر کاش کہ کتاب کی صحت کا بھی ناشرین کو کچھ خیال ہوتا، درحقیقت آثار السنن کا یہ نسخہ صحت کے اعتبار سے تمام نسخوں میں کمتر ہے۔ اس نسخے میں بیسیوں ایسی غلطیاں ہیں جو دیگر نسخوں میں نہیں ہیں۔ تتبع سے معلوم ہوا کہ صرف کتاب الطہارۃ میں متن کی (۱۷) غلطیاں اور کتاب الصلاۃ میں ابواب الجمعۃ تا ابواب الجنائز (۱۸) ایسی غلطیاں موجود ہیں جو دوسرے نسخوں میںمعدوم ہیں۔ یہ غلطیاں مختلف صورتوں میں ہے کہیں عبارت ہی محذوف ہے، کہیں اپنی طرف سے عبارت میں ایسی زیادتی ہے جو نہ اصل ماخذ میں ہے اور نہ دیگر تمام نسخوں میں، گویا معلوم ہوتا ہے کہ محققین یا کاتب کا سہو ہے۔ مثلا:

            (۱) کتاب الطہارۃ، باب صفۃ الغسل، ص: ۳۶، حدیث: ۹۸ میں عبارت یوں ہے: بلغ عائشۃؓ أن عبد اللّٰہ بن عمرؓ یأمر النساء ۔۔۔۔ جبکہ کتاب کے دیگر تمام نسخوں اور صحیح مسلم میں صحابی عبد اللہ بن عمرو ہیں نہ کہ عبد اللہ بن عمر۔

            (۲) کتاب الطہارۃ، باب التیمم، ص: ۵۴، حدیث: ۱۸۷ میں عبارت یوں ہے: التیمم ضربتان، ضربۃ للوجہ۔۔۔۔ جبکہ اس روایت کے الفاظ یوں ہیں: التیمم ضربۃ للوجہ۔۔۔۔۔ اس روایت میں ضربتان کا اضافہ ہے جو کہ کتاب کے دیگر تمام نسخوں اورمحولہ کتب  میں کہیں موجود نہیں ہے۔ 

            (۳) کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ العیدین بست تکبیرات زوائد، ص: ۳۱۰، حدیث: ۹۹۷ کی روایت میں علامہ نیمویؒ نے طبرانی کا حوالہ دیا ہے اور روایت کے الفاظ نقل کرنے میں علامہ نیمویؒ کا اعتماد حافظ ہیثمیؒ کی مجمع الزوائد پر ہے؛ لیکن اس کتاب کے محققین نے بجائے اس کے کہ علامہ نیمویؒ کے الفاظ نقل کرتے،یہ روایت طبرانی سے بعینہٖ نقل کر دی اور اس کا نقصان یہ ہوا کہ اس روایت کے الفاظ میں پوری ایک سطرزائدہے جو کہ علامہ ہیثمیؒ کی مجمع الزوائد پر اضافہ ہے۔ اختصار کے پیش نظر زائد عبارت درج ذیل ہے:

            ’’ثم یکبر ویرکع فتلک خمس، ثم یقوم فیقرأ بفاتحۃ الکتاب وسورۃ من المفصل‘‘

            اس کے علاوہ علامہ نیمویؒ کے حواشی ’’التعلیق الحسن اور تعلیق التعلیق‘‘ کے ساتھ بھی انصاف نہیں برتا گیا۔ جابجا مصنف کی عبارتوں میں قطع وبرید کی ہے۔ مصنفؒ پیش کردہ نصوص کے آخر میں انتہی یا انتہی کلامہ لکھتے ہیں، اس نسخے میں اس لفظ کو بالکل ساقط کر دیا گیا ہے جو کہ کسی طرح موزوں نہیںہے۔ اسی طرح موصوفؒ حواشی میں قولہ کے بعدمتن کی جو عبارت لکھتے ہیں اہل مکتبہ اس میں بھی قطع وبرید کرتے ہیں اور اسے مختصر کر کے کہیں الخ لکھ دیتے ہیں اور کہیں الخ لکھنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ علامہ نیمویؒ حاشیہ میں اگر کسی کتاب کا حوالہ دیتے ہیں تو محققین اپنی جانب سے بعض عبارتوں کی بغیر کسی تنبیہ کے قوسین میں تخریج کر دیتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہ تخریج مصنف ہی کی ہے۔ ہاں یہ بات اس وقت درست ہوتی جب کہ ابتداء میں اس اضافہ کا ذکر کردیا جاتااور حواشی میں موجود تمام عبارتوں کی تخریج کرتے، بعض عبارتوں کی تخریج کرنا اور بعض کی نہ کرنا اور اس پر تنبیہ نہ کرنا قابل گرفت عمل ہے۔

            ناشرین کتب کو ہمیشہ کتاب کی صحت کا خاص خیال رکھنا چاہیے خصوصا متون حدیث کی صحت کا تو غیر معمولی التزم ضروری ہے؛ تا کہ قارئین کو بھی مطالعہ میں سہولت رہے اور معترضین کو اعتراض کا موقعہ نہ مل سکے۔ آثار السنن جیسی شاہکار( جو برصغیر کے نصاب تعلیم میں شامل ہے) کتاب کو اس کے شایانِ شان ظاہری اور باطنی خوبیوں سے آراستہ ہونا چاہیے اور ہم امید کرتے ہیں کہ ناشرین اس کی صحت کی طرف خاص توجہ فرمائیں گے اور آئندہ ایڈیشن اغلاط سے پاک اور صحت کے اعلی معیار پر فائز ہوگا۔ 

٭        ٭        ٭

حواشی

(۱۸)        بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام، باب سترۃ المصلی، ص: ۷۰، رقم: ۲۳۷۔

——————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ : 10،  جلد:102‏،  محرم الحرام – صفر المظفر 1440ھ مطابق اكتوبر 2018ء

Related Posts