ثبت است برجریدئہ عالم دوامِ ما حضرت مولاناڈاکٹرمحمدمصطفیٰ اعظمیؒ

از: اخترامام عادل قاسمی

مہتمم جامعہ ربانی منورواشریف

            حضرت شیخ ڈاکٹرمحمدمصطفیٰ اعظمی قاسمیؒ عصر حاضر کے ان ممتاز علماء میں تھے جنہوں نے اپنے علم اور قلم سے جریدئہ عالم پر نقشِ دوام ثبت کیا،جن کو نہ لوحِ تاریخ سے محو کیا جاسکتاہے اورنہ دلوں کی دنیاسے فراموش کرنا ممکن ہے،جب تک علم کی دنیاآباد ہے ،وہ ملت اسلامیہ کی روشن پیشانی پر چمکتے رہیں گے ،ان کی فکروفہم قدرت کے مخصوص سانچہ کی تراشیدہ تھی ،ان کے ذہن ودماغ کے تمام دریچے کھلے ہوئے تھے،وسیع علم اور ذہن رساکے ساتھ بلیغ قلم کی نعمت بھی انھیں میسر تھی، کئی زبانوںپر ان کواہلِ زبان جیسی قدرت حاصل تھی،انھوں نے کیمبرج یونیورسیٹی سے فن حدیث پر انگریزی زبان میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی،عربی اورانگریزی میں ایک درجن سے زائد کتابیں لکھیں،حدیث وسیر کے کئی اہم ترین مجموعوں کواپنی گراں قدر تحقیقات وتعلیقات سے مزین کیا۔ 

قرآنی خدمات

            ٭انگریزی زبان میں ان کاگراں قدر کارنامہ تدوین قرآن کریم پرمستشرقین کے اعتراضات کادنداں شکن جواب ہے،اس کا پس منظر یہ ہے کہ نائن الیون سے قبل ایک مشہورانگریزی میگزین ’’اٹلانٹک منتھلی‘‘  (Atlantic Monthly)میں ’’ٹوبی لسٹر‘‘کاایک مضمون شائع ہوا،’’واٹ ازدَ قرآن‘‘ (قرآن کیاہے؟)،جس میں اس نے یمن کے بعض قرآنی مخطوطوںمیں الف کی کتابت پر اعتراضات کیے تھے،اور اس کامقصد حفاظتِ قرآن کے تعلق سے مسلمانوںمیں شکوک وشبہات پیداکرناتھا،  ڈاکٹرصاحب نے اس کے جواب میں یہ کتاب لکھی:

"The history of the Quranic Text, from Revelation to Compelation: A comparative study with the Old and New Testaments "

            اس کتاب میں آپ نے قرآن کریم کی تدوین کی مدلل تاریخ بیان کی اور اس کے متن کی دائمیت پر سیرحاصل گفتگو کی ، نیز صحابی رسول ؐ حضرت زیدبن ثابت ؓ کے ذریعہ قرآن کریم  جمع کرنے کی تاریخی تفصیل بھی رقم کی،آپ نے اس کتاب میں مغربی ممالک کے محققین کازوردارتعاقب کیا اورقرآن کریم کی تحریف سے متعلق ان کے دعووں اورعزائم کی پول کھول کررکھ دی ۔

            بعد میں آپ نے خودہی اس کتاب کاعربی ترجمہ: ’’تاریخ النص القرآنی  من الوحی الی التدوین دراسۃً مقارنۃً مع العہد القدیم والعہدالجدید‘‘کے نام سے کیا،یہ کتاب لندن کی اسلامک اکیڈمی سے۲۰۰۳ءمیں پہلی مرتبہ شائع ہوئی،اس کے بعد کناڈا،امارات ، سعودی عرب ،اور کویت  سے اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے،ترکی ،ملیشیائی اور دیگر کئی زبانوں میں اس کے ترجمے بھی شائع ہوئے ۔اردو میں غالباً اس کاترجمہ شائع نہیں ہوسکا ہے۔

            ٭قرآن کریم کے موضوع پر آپ کی ایک اور کتاب ’’تاریخ تدوین القرآن الکریم التحدی القرآنی‘‘ بہت اہم ہے۔

            ٭زندگی کی آخری کتاب  بھی قرآن کریم ہی کے موضوع پر ہے:

            ’’Ageless Qur’an – Timeless Text  (صفحات۲۵۰)

            یعنی النص القرآنی الخالد عبرالعصور‘‘ یہ کتاب دراصل مستشرقین کی جانب سے قرآن کریم کے متعدد نسخوں پر کیے جانے والے اعتراضات کامدلل جواب ہے،اس کتاب کی تیاری میں  ڈاکٹر صاحب نے اپنی عمر عزیزکے پورے پندرہ(۱۵)سال خرچ کیے، اس کے لیے مختلف ممالک کے اسفاربھی کیے ،دنیامیں موجودقرآن کریم  کے مشہورومعروف انیس (۱۹)مخطوطوں کاموازنہ کرکے اس کتاب میں آپ نے یہ ثابت کیا ہے کہ ڈیڑھ ہزار (۱۵۰۰)سال کے اندرقرآن کریم کے الفاظ میں کوئی تغیروتبدل پیش نہیں آیا، ایک سوپچاس(۱۵۰)صفحات والی اس کتاب میں مذکورہ مخطوطوںکے درمیان موازنہ کے علاوہ پچاس پچاس (۵۰)صفحات پرعربی اورانگریزی میں ایک مفصل مقدمہ بھی شامل ہے،یہ کتاب ترکی سے شائع ہوچکی ہے۔

فقہی خدمات

            ٭فقہ اسلامی پربھی عہد قدیم سے ہی مستشرقین کے اعتراضات ہوتے رہے ہیں  اور علماء نے ان کے جوابات بھی دیئے ہیں،اس موضوع پر عصر حاضر میں سب سے اہم ترین کام ڈاکٹرمحمدحمیداللہ حیدرآبادی ؒ کاہے،یہ حقیربھی اپنی کتابوں اور مضامین میں ان کاخوشہ چیں رہاہے؛لیکن اس میدان میں اگر کوئی دوسرابڑانام پیش کیاجاسکتاہے تو وہ ڈاکٹرمصطفیٰ اعظمی ؒ کاہے،خاص بات یہ ہے کہ آپ کا کام انگریزی زبان میں ہے اور مستشرقین کوان کی زبان میں جواب دیاگیاہے،آپ کی کتاب "On Schacht’s Origins of Muhammadan Jurisprudence” (صفحات:۲۴۳) کو اس موضوع پرکافی شہرت حاصل ہوئی، اس میں فقہ اسلامی کے تعلق سے مشہورمستشرق ’’شاخت‘‘ کے اعتراضات کاتنقیدی جائزہ لیاگیاہے، اس کاپہلاایڈیشن ۱۹۸۵ءمیں نیویارک سے اوردوسرا ایڈیشن ۱۹۹۶ء میں انگلینڈ سے شائع ہوا،ترکی زبان میں اس کاترجمہ۱۹۹۶ءمیں شائع ہوا۔

حدیث کے میدان میں بے مثال خدمات

            علم حدیث ڈاکٹر صاحبؒ کااصل میدان تھا،آپ نے اس فن کو نئی تکنکوں اور نئے امکانات سے آشناکیا اورعمر عزیز کابڑاحصہ اس فن شریف کی خدمت میں صرف کیا، آپ کی حدیثی خدمات  کو دوحصوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے:تحقیقی خدمات اور دفاعی خدمات:

تحقیقی خدمات

            (۱)تحقیقی خدمات میں کئی چیزیں آپ کی اولیات  میں سے بھی ہیں،مثلاً:

            ٭دنیامیں پہلی بار آپ نے احادیث مبارکہ کی عربی عبارتوں کوکمپیوٹرائزڈ کیا،جس سے اہلِ علم کو احادیث کی تحقیق وتلاش میں کافی سہولت حاصل ہوگئی ،یہ اتنابڑاصدقہ جاریہ ہے کہ اگر ڈاکٹر صاحب نے ساری زندگی میں تنہایہی کام کیاہوتاتوبھی ان کی عظمت وانفرادیت کے لیے کافی ہوتا، چہ جائے کہ اس کے علاوہ اوربھی بہت سے تحقیقی کارنامے آپ  نے انجام دئیے۔ 

            ٭امریکہ کی ہارورڈ یونیورسیٹی میں آپ حدیث کے پہلے استاذ ہوئے۔

            ٭ حدیث کے کئی اہم مجموعے آپ کی تحقیقات وتعلیقات سے مزین ہوکرشائع ہوئے،صحیح ابن خزیمہ کے بارے میں پہلے عام خیال یہ تھاکہ یہ نایاب ہے ، ڈاکٹر صاحب نے اس نایاب کتاب کو دریافت کیا،اورتحقیق وتعلیق کے بعدچار(۴)جلدوں میں شائع فرمایا،اس کاپہلااورتیسراایڈیشن بالترتیب۱۹۷۰ء اور۱۹۹۳ء میں بیروت سے شائع ہوا،دوسرا ایڈیشن ۱۹۹۲ءمیں ریاض سے شائع ہوا،اور بھی کئی ایڈیشن نکلے(۱)۔

            ٭اسی طرح سنن ابن ماجہ کو بھی آپ نے تحقیق کرکے چارجلدوں میں ۱۹۸۳ء میں شائع کیا۔

            ٭حدیث پاک کے قدیم ترین مجموعہ’’موطا امام مالکؒ‘‘کوبھی آپ نے تحقیق وتخریج کے بعد آٹھ (۸)جلدوں میں شائع کیا، موطاکے رُوات پر بھی کام کیا۔

            ٭العلل لعلی ابن عبداللہ المدینیؒ:آپ کی تحقیق وتعلیق کے بعداس کاپہلاایڈیشن ۱۹۷۲ء میں اور دوسراایڈیشن ۱۹۷۴ء میں شائع ہوا۔

            ٭سنن کبریٰ للنسائی: ۱۹۶۰ء میں آپ نے اس کامخطوطہ حاصل کیا اور تحقیق وتخریج کے بعد اس کی اشاعت کرائی ۔

            ٭مغازی رسول اللہ ﷺ لعروۃ بن زبیربروایۃ ابی الاسود:یہ مشہورتابعی حضرت عروہ بن زبیرؓ کاتحریرکردہ اولین مجموعۂ مغازی ہے،اس پرآپ نے تحقیق کی اوراس کاپہلا ایڈیشن ۱۹۸۱ء میں ریاض سے شائع ہوا۔

            یہ کتاب واضح طورپرعہداول ہی سے سیرت نگاری کے تسلسل کوثابت کرتی ہے۔

دفاعی خدمات

            ڈاکٹرصاحب کاعلمی جوہر دفاعی میدان میں زیادہ کھلاہے،سطر سطرمعلومات اور حقائق سے لبریز ہے،وہ تاریخ اور اسماء الرجال پر بڑی گہری نظر رکھتے اور صحیح مواقع استعمال  جانتے تھے،اس باب میں ان کووہ امتیازی حیثیت حاصل تھی کہ شایدوباید،مجھے ان کی کئی کتابیں دیکھنے کاشرف حاصل ہواہے ،مطالعہ سے محسوس ہواکہ اگر میں نے یہ کتابیں نہ پڑھی ہوتیں تو علم کے بڑے باب سے محروم رہ جاتا،احادیث کی پرکھ اور کتابوںپر نظر کے معاملے میں وہ اپنے بہت سے ہم عصروں پر فوقیت رکھتے تھے ؛بلکہ محدث کبیر حضرت علامہ مولاناحبیب الرحمن الاعظمی ؒ کے بعد شاید ہی کوئی اور نام ان کے مقابلے میں پیش کیاجاسکے۔

            حدیث کی دفاعی خدمات کے باب میں ڈاکٹر صاحب کی کئی کتابیں شاہکار حیثیت رکھتی ہیں:

منہج النقدعندالمحدثین مع کتاب التمییز-ایک عظیم کارنامہ

            ٭اس کاایک بڑانمونہ  امام مسلم کی کتاب’’التمییز‘‘ پر ان کاتحقیقی کام ہے ،امام مسلم ؒ کی یہ کتاب بنیادی طورپرتواصول حدیث کے موضوع پر ہے؛ لیکن اس میں بحث کابڑاحصہ حدیث کی تدوین وتحفظ کے لے متقدمین کی بے مثال جدوجہد،اور محتاط طریقۂ عمل کے بارے میں بھی ہے، امام مسلمؒ نے اپنی اس کتاب میں ثابت کیاہے کہ محدثین نے احادیث کی حفاظت اور ان کے ردوقبول کاجومعیار اختیارکیا،اس سے بہتر معیار کاتصور آج بھی ممکن نہیں۔

            ڈاکٹر صاحب مرحوم نے امام مسلمؒ کی اس کتاب پر تحقیق کی،اورایک مبسوط مقدمہ ’’منہج النقد عندالمحدثین‘‘ کے نام سے تحریر فرمایا،اس کتاب پر کام کرنے کابہ ظاہرمحرک یہ بناکہ جامعہ اسکندریہ سے ڈاکٹرعثمان موافی کی کتاب’’منہج النقد التاریخی عند المسلمین والمنہج الأوروبی‘‘ شائع ہوئی، جوغالباً ان کی ڈاکٹریٹ کامقالہ تھا،اسی موضوع پر ان کے پیشرودکتور نورالدین عتر کی کتاب ’’منہج النقد فی علوم الحدیث‘‘ بھی شائع ہوچکی تھی،ان دونوں کتابوں میں قدر مشترک طور پر یہ دعویٰ کیاگیاتھاکہ:

            ’’مسلمانوں میں سلسلۂ سند کاآغاز بعض اسباب وحوادث کے تحت  ۴۰ھ کے بعد ہوا،ورنہ اسلام کے ابتدائی دورمیں نقل و روایت کا وہی سادہ طریقہ رائج تھاجوعہد جاہلیت سے عربوں میں چلاآرہاتھا،وغیرہ‘‘۔

            گوکہ ان مصنّفین کامبلغ علمِ حدیث کی مبادیات سے آگے نہ تھا؛لیکن عام لوگوں کی تشویش واضطراب  کے پیش نظر شیخ اعظمی ؒ نے اس قدیم ترین مجموعہ کوسامنے لانے کافیصلہ کیااورمضبوط دلائل سے ثابت کیاکہ حدیث پاک کی کتابت وتدوین کااہتمام خود عہدِ نبوت سے شروع ہوچکاتھا ،اور ۴۰ھ  سے بہت قبل ہی متعدد صحابۂ کرام کے قلمی مجموعے سامنے آگئے تھے(۲)۔

            علاوہ اسلام میں تبلیغ اور تعلیم کاجوتصور پیش کیاگیاہے اورنقل وروایت میں کذب بلکہ شائبہ کذب  سے بھی احتیاط کرنے کی جوتاکیدآئی ہے ،وہ بھی اس کامتقاضی ہے کہ صحابہ نے اس ہم فریضہ کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں برتی ہوگی، ڈاکٹر صاحب ؒنے متعدد روایات  واحادیث سے اس موقف کوثابت کیاہے(۳) ۔    

            بلکہ بقول ڈاکٹر صاحب روایت کی نقد وتحقیق کی شروعات بھی عہدنبوت میں ہی ہوگئی تھی ،گوکہ اس تحقیق کامقصد ازالۂ شک نہیں؛بلکہ محض اطمینان قلب ہوتاتھا،خدانہ خواستہ صحابہ میں ایک دوسرے کی طرف سے کوئی بے اعتمادی ہرگزنہیں پائی جاتی تھی؛لیکن جس طرح  پیغمبرخداحضرت ابراہیم خلیل اللہ ؑکے سوال کامقصد محض اطمینانِ قلب تھا (لیطمئن قلبی(۴))اسی طرح صحابۂ کرام بھی محض اطمینان  قلب کے لیے بعض مواقع پر روایات کی تحقیق کرتے تھے ۔

             ٭اس کادوسرابڑامقصد یہ بھی تھاکہ روایت بالواسطہ کے بجائے بلاواسطہ ہوجائے ،یاواسطے کم ہوجائیں ۔

            ٭نیز اس کابڑافائدہ یہ تھاکہ نقد وتحقیق کایہ رجحان آئندہ نسلوں تک منتقل ہو،اور تحفظ دین  کے باب میں امت کسی بڑے فتنے میں پڑنے سے محفوظ رہے،مثلاً:

            ٭ ’’دیہات سے ایک شخص(بعض روایات میں ان کانام ضمام بن ثعلبہؓ ذکر کیاگیاہے) خدمتِ رسالت مآب … میں حاضر ہوا اور عرض کیا:

یا محمد! أتانا رسولُک فأخبرنا: أنک تزعُم: أن اللّٰہ أرسلک، قال: صدق۔

آپ کے نمائندہ نے ہمیں خبردی ہے کہ آپ گمان کرتے ہیں کہ اللہ نے آپ کورسول بناکر بھیجاہے،حضور… نے جواب میں اس کی تصدیق فرمائی،الحدیث(۵) ۔

            ٭حضرت علی ؓ نے یمن سے واپسی پر اپنی اہلیہ حضرت فاطمہ ؓ کے بارے میں رسول اللہ… سے دریافت کیا، وہ کہتی ہیں کہ رنگین کپڑے پہننے اورسرمہ لگانے کاحکم آپ نے ان کودیاہے، تورسول اللہ…نے تصدیق فرمائی کہ ہاں! میں نے حکم دیاہے، الحدیث (۶)۔

            ڈاکٹر صاحب نے اس کی چھ(۶) مثالیں ذکرکی ہیں اور معتبر حوالوں سے ثابت کیاہے کہ یہ تسلسل نسبتاًزیادہ قوت کے ساتھ عہد صحابہ کے بعدبھی جاری رہااور یہی چیز احادیث کے تحفظ وتدوین کی  ضمانت بن گئی(۷) ۔

            ٭اس کتاب کاچھٹاباب ایک بہت ہی حساس اصولی مسئلہ ’’عدالتِ صحابہ‘‘سے متعلق ہے، محدثین اورجمہورامت نے تمام صحابہ کوبلاتفریق عادل وثقہ قراردیاہے ،ڈاکٹر صاحب نے علمی اور تاریخی حوالوں سے اس موضوع کاحق اداکیاہے ،اور تمام منطقی بنیادیں اور چھوٹی بڑی تفصیلات صفحۂ قرطاس پر جمع کردی  ہیں ،تقریباً کتاب کے تیئس(۲۳)صفحات میں یہ بحث پھیلی ہوئی ہے اور اس ایک کتاب نے بہت سی کتابوں سے آدمی کوبے نیازکردیاہے،اہلِ علم کواس کامطالعہ ضرور کرنا چاہیے، اتنی مرتب اور جامع گفتگو کم دیکھنے کوملے گی(۸)۔

            غرض پوری کتاب(جو صفحات ۲۳۴پرمشتمل ہے ) اہم مباحث سے لبریز ہے اور منکرین ومستشرقین کے تمام بنیادی شبہات کے تشفی بخش جوابات اس میں موجود ہیں ۔

دراسات فی الحدیث النبوی وتاریخ تدوینہ- متعلقات حدیث کا انسائیکلوپیڈیا

            ٭ڈاکٹر صاحبؒ کاسب سے بڑاکارنامہ جوان کی عالمی شہرت کاسبب بنااور جس سے  ان کی آئیڈیل شخصیت تیارہوئی، وہ ہے ان کی مشہور تصنیف ’’دراسات فی الحدیث النبوی وتاریخ تدوینہ‘‘ تقریباً سات سوبارہ (۷۱۲)صفحات میں اپنے موضوع پر اب تک کی سب سے جامع اورمبسوط کتاب ہے،جس میں حدیث کی شرعی واستدلالی حیثیت، اصطلاحاتِ حدیث،تدوین حدیث،  حدیث کے قدیم ترین مجموعے،احادیث کی صحت و اعتباریت پرمستشرقین کے اعتراضات، قرونِ خیرکے نظامِ تعلیم وتدریس،عہدسلف کے کاتبین ومصنّفین حدیث کاتعارف جیسے اہم ترین مسائل ومباحث کااحاطہ کیاگیاہے،یہ کتاب مصنف کے علم وفن کانقطئہ ارتقاہے،جس میں بے شمار چشمے اور ندی نالے سمٹ آئے ہیں ۔

            اکابر دیوبندمیں حضرت علامہ مولانامناظراحسن گیلانیؒکی تصنیف لطیف ’’تدوین حدیث‘‘ اردوزبان میں اس موضوع پر سب سے معتبر اور مبسوط کتاب مانی جاتی ہے ،جس نے مسئلہ کی بیشتر تفصیلات اپنے دامن میں سمیٹ لی ہیں ،ڈاکٹر مصطفیٰ اعظمی صاحبؒ نے بھی اس کتاب سے استفادہ کیاہے اور اس کے حوالے بھی دئیے ہیں(۹)؛ لیکن ڈاکٹر صاحب نے اس موضوع کو مزیدوسعتوں اور امکانات سے روشناس کیا،ان کے پاس مواقع ووسائل بھی زیادہ میسر تھے ، جن کاانہوں نے صحیح استعمال کیا، ان کی یہ کتاب اس موضوع پر ایک موسوعہ کی حیثیت رکھتی ہے ،آج حدیث کے ہرطالب علم اور محقق کواس سے استفادہ کرناچاہیے،تنہایہ ایک کتاب بہت سی کتابوں کی طرف سے کافی ہے۔

کتاب پرایک نظر 

            ڈاکٹر صاحب کی یہ کتاب نو(۹)ابواب اورکئی فصلوں پرمشتمل ہے:

            ٭باب اول:پہلے باب میں سنت کے لغوی واصطلاحی مفہوم ،قرآن وحدیث میں نیز محدثین واصولیین اور فقہاء کے یہاں اس کے استعمالات،اورمستشرقین کی تعبیرات وتصورات سے بحث کی گئی ہے،حدیث کی استدلالی حیثیت (یعنی ماخذشریعت ہونے کی حیثیت) کونمایاں کیاگیاہے اور متعدد صحابۂ کرامؓ کے حوالوں سے ثابت کیاگیاہے کہ صحابہؓ روزاول ہی سے احادیث کوایک مصدرقانون کی حیثیت سے تسلیم کرتے تھے،جن میں حضرت ابوبکرصدیقؓ، حضرت عمر بن الخطابؓ،حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ، حضرت زیدبن ثابت ؓ،حضرت عبدللہ بن عباس ؓ،حضرت عبداللہ بن عمرؓ ،اورحضرت معاویہ ؓجیسے بڑے نام شامل ہیں ۔

            اسی باب میں اس تاریخی حقیقت کوبھی واشگاف کیاگیاہے کہ فتنۂ انکارحدیث کے جراثیم عہدِ صحابہ میں ہی پیداہونے لگے تھے؛مگر صحابہ نے سختی کے ساتھ ان کااستیصال کیا اور اس فتنہ کوروکنے کی کوشش کی،اس کی ایک مثال یہ ہے کہ:

’’صحابیِ رسول حضرت عمران بن حصینؓ ایک مجلس میں احادیث  رسول … بیان فرمارہے تھے کہ ایک شخص نے لقمہ دیاکہ اے ابونجید!آپ ہمیں قرآن کی تعلیم دیجیے،حضرت عمرانؓنے حکمت کے ساتھ اس شخص کوسمجھایاکہ قرآن میں نمازاور زکوٰۃ جیسے فرائض کا حکم آیاہے؛ مگر ان کی تفصیلات قرآن میں کہاں ہیں؟یہ چیزیں رسول اللہ…کے قول وعمل سے لی گئی ہیں،اس شخص کوبات سمجھ میں آگئی اور اس نے اپنااعتراض واپس لے لیا، حضرت حسن بصری ؒ اس شخص کانام ظاہر کیے بغیرفرماتے تھے کہ بعد میں وہ شخص مسلمانوں کے فقہاء میں شمار کیاگیا(۱۰)۔

            کئی صحابہ سے اس طرح کے واقعات منقول ہیں،صحابہ نے اس قسم کے تصورات کورد فرمادیا تھا؛ لیکن زمانہ مابعد میں یہ ایک فتنہ کی صورت میں ابھرا،اور عرب سے لے کر برصغیر تک کواپنی زد میں لے لیا، ہر دور کے علماء اہل سنت نے اس فتنہ کامقابلہ کیا،ڈاکٹر صاحب نے بھی اس باب میں منکرین حدیث کے دلائل وشبہات کابالاستیعاب اورمدلل جائزہ لیاہے اور جدید وقدیم تمام بحثوں کوبڑی خوب صورتی کے ساتھ سمیٹاہے ۔

            ٭باب دوم میں عرب جاہلیت کی تہذیبی وتعلیمی صورتِ حال، اسلام کی آمد کے بعد کی تبدیلیاں، تعلیم وکتابت کے لیے رسول اللہ… کی مساعی جمیلہ،مکی اور مدنی زندگی کی تفصیلات وغیرہ پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے،ظاہر ہے کہ جس معاشرہ کی سرشت میں لکھنے پڑھنے کاذوق شامل ہو، اس کے بارے میں یہ خیال کس قدر احمقانہ ہے کہ اس نے رسول اللہ…کی احادیث کی حفاظت کااہتمام نہیں کیا؟

            ٭باب سوم میں کتابتِ حدیث سے متعلق بعض روایات ،یابعض صحابہ کے طرزِ عمل کی تشریح وتوجیہ پیش کی گئی ہے اوربتایاگیاہے کہ اس کامقصد حدیث کی کتابت وتدوین سے روکنانہیں؛بلکہ قرآن وحدیث کے درمیان خطِ امتیازکھینچنااور ان کے حدود کاتحفظ کرناتھا، کئی مثالوں سے اس کی وضاحت کی گئی ہے۔

            ٭باب چہارم میں حفظِ حدیث اور کتابتِ حدیث کے سلسلے میں عہد نبوی سے دوسری صدی ہجری تک کی مساعی جمیلہ پر روشنی ڈالی گئی ہے اور تقریباًپچاس (۵۰) صحابہؓ کا ذکرنام بنام کیاگیاہے جنہوں نے حضور…کی احادیث لکھ کر محفوظ کی تھیں اور کئی حضرات نے کتابی مجموعے اور صحیفے بھی تیارکیے تھے ۔

            اور یہی تسلسل عہد تابعین اور تبع تابعین تک پہونچا،ڈاکٹر صاحبؒ نے معتبر حوالوں کے ساتھ تقریباچار سو (۴۰۰)تابعین اور کچھ تبع تابعین کا تفصیلی تذکرہ کیاہے،جنہوں نے تدوین حدیث کے باب میں تاریخ کے صفحات پراپنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔تقریباً ڈھائی سو (۲۵۰)صفحات میں یہ بحث پھیلی ہوئی ہے،مصنف نے ان صفحات میں ہزاروں صفحات کاعطر نچوڑ کر رکھ دیاہے اور میں سمجھتاہوں کہ اتنی تفصیل اور استناد کے ساتھ شاید کسی اورجگہ یہ مباحث نہ مل سکیں گے۔

            ٭باب پنجم قرن اول ودوم میں حدیث کی تدریس ومذاکرہ سے متعلق ہے، صحابۂ کرامؓ اور تابعین میں درس حدیث کے تعلق سے جو گرمجوشی پائی جاتی تھی،اس دور میں حدیث کی تدریس و کتابت کے جومختلف طریقے وجود میں آئے اورمدارس قائم ہوئے،اس دور کے مدارس میں طلبۂ حدیث کی تعداد  اورعمریں کیا تھیں ؟وغیرہ یہ تمام چیزیں تحقیق اور تفصیل کے ساتھ اس باب میں موجود ہیں۔

            ٭ باب ششم میں حدیث کے موضوع پرقرونِ اولیٰ میں جوتصنیفی کام ہوئے ان کا تفصیلی ذکر ہے  اور اس ضمن میں بہت سی دیگرقیمتی معلومات بھی جمع ہوگئی ہیں ۔

            ٭ باب ہفتم میں سلسلۂ سند کی ابتدا اور اس پر وارد ہونے والے اعتراضات وجوابات اور دیگرمتعلقات سے بحث کی گئی ہے۔

            ٭ باب ہشتم میں احادیث کی صحت وتدوین پرمستشرقین بالخصوص پروفیسر شاخت کے اعتراضات کے جوابات دئیے گئے ہیں اور پوری دقت نظر اورتحقیق کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے۔

            ٭ باب نہم میں دوسری صدی کے بارہ (۱۲)قدیم ترین حدیثی مجموعوں کاذکر ہے،جن میں ایک ہزار(۱۰۰۰)سے زائد حدیثیں موجود تھیں ،غالباًان کی فوٹو کاپیاں بھی مصنف کے پاس موجود تھیں، ان میں سے ایک نسخہ ’’نسخۃ سہیل بن أبي صالحؒ (۱۳۸ھ)عن ابیہ عن ابی ہریرۃؓ‘‘ تحقیق کے بعدشامل کتاب ہے۔ کتاب کے آخرمیں دوضمیمے بھی ہیں، جن میں طریقِ روایت ’’اخبرنا‘‘ یا ’’حدثنا‘‘ وغیرہ کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے اور بعض کتب احادیث میں حدیثوں کی تعداد وغیرہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

            غرض شیخ نے زندگی کاایک ایک لمحہ علمِ دین اور علمِ حدیث کے لیے نچوڑکر رکھ دیا؛لیکن ان تمام فضائل وکمالات کے باوجود وہ سراپاانکسار تھے،ہمیشہ اپنی زمین سے پیوستہ رہے،عین اس مجلس میں بھی جس میں آپ کو ’’کنگ فیصل ایوارڈ‘‘سے سرفراز کیا گیا، اپنی مادرعلمی دارالعلوم دیوبند یادارالعلوم مئو کاذکرکرنانہ بھولے ، اپنی تقریر میں ان دونوں اداروں کوفرزندانہ خراجِ عقیدت پیش کیا،وہ اس حقیقت کو پاچکے تھے کہ:

ع          پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ

            ان کی ولادت ۱۳۵۰ھ مطابق ۱۹۳۰ء کو مئو میں ہوئی، دارالعلوم دیوبندسے ۱۳۷۲ھ مطابق ۱۹۵۲ءمیں فارغ ہوئے،۱۹۸۰ءمیں کنگ فیصل ایوارڈ ملا،۱۹۸۱ءمیں سعودی شہریت حاصل ہوئی اورعمر عزیزکی ستاسی (۸۷)بہاریں دیکھنے کے بعدبروزبدھ ۲۰؍دسمبر۲۰۱۷ءکوصحبت یار آخرشد إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔

ع            خدارحمت کندایں عاشقانِ پاک طینت را           

٭        ٭        ٭

حواشی

(۱)       ڈاکٹر صاحب مرحوم نے اپنے اس احساس کا اظہار کتاب التمییز للامام مسلمؒ کے مقدمہ میں بھی کیا ہے: بسا اوقات ہم کسی مخطوطہ کوگم شدہ تصور کرلیتے ہیں؛ جب کہ وہ بعد والوں کی محنت سے دریافت ہوجاتا ہے، اسی طرح کبھی بزرگوں کے مقابلے میں جوانوں کی محنت زیادہ وقیع ثابت ہوتی ہے اور کسی مخصوص میدان میں بعد کے لوگ سابقین پر سبقت لے جاتے ہیں:

ومن جہۃ أخری تکتشف مخطوطات جدیدۃ کان یظن انہا مفقودۃ فاصبحت مکتبۃ السنۃ النبویۃ بکثیر مما کانت علیہ قبل قرن او قرنین من الزمان واصبح الاعتناص بہا افضل مما کان من قبل۔۔۔ فی ہذہ النہضۃ قد ساہم ویساہم الشباب والشیوخ۔۔۔۔ (مقدمۃ کتاب التمییز، ص۵، طبع اوّل ۱۳۹۵ھ)

(۲)    مقدمۃ کتاب التمییز ص۵ تا ۷ طبع اوّل ۱۳۹۵ھ

(۳)    منہج النقد عند المحدثین للاعظمی ، ص۳-۵۔

(۴)    البقرۃ: ۲۶۰۔

(۵)    الجامع الصحیح المسمی صحیح مسلم ج ۱ ص ۱۳۲ حدیث نمبر: ۱۱۱ المؤلف: أبو الحسین مسلم فن الحجاج بن مسلم القشیري النیسابوري المحقق: الناشر: دارالجیل بیروت، دارالأفاق الجدیدۃ۔ بیروت الطبعۃ: حطط الأجزاء: ثمانیۃ اجزاء في أربع مجلدات۔ سنن النسائي الکبری ج۳ ص ۴۳۷ المؤلف: أحمد بن شعیب أبو عبدالرحمن النساي، الناشر: دارالکتب العلمیۃ – بیروت الطبعۃ الأولی ۱۴۱۱-۱۹۹۱ تحقیق: د۔ عبدالغفار سلیمان البنداری، سید کسروي حسن عدد الأجزاء:۶۔

(۶)    الجامع الصحیح المسلمی صحیح مسلم ج ۴ ص ۳۹ حدیث نمبر: ۳۰۰۹ المؤلف: أبوالحسین مسلم بن الحجاج بن مسلم القشیري النیسابوري المحقق: الناشر: دارالجیل بیروت۔ داالأفاق الجدیدۃ۔ بیروت الطبعۃ: عدد الأجزاء: ثمانیۃ اْزاء في أربع مجلدات۔

(۷)    منہج النقد عند المحدثین للاعظمیؒ ص ۷-۱۰۔

(۸)    منہج النقد عند المحدثین للاعظمیؒ ص ۱۰۳-۱۲۶۔

(۹)       دیکھئے: دراسات في الحدیث النبوي و تاریخ تدوینہ للاعظمی ص ۵۹۸ وغیرہ۔

(۱۰)     دراسات فی الحدیث النبوی  ص ۲۱ بحوالہ المستدرک ج ۱ ص ۱۰۹، ۱۱۰۔

———————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 9،  جلد:102‏،  ذی الحجہ1439ھ- محرم 1440ھ مطابق ستمبر 2018ء

٭           ٭           ٭

Related Posts