جانشینِ حكیم الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی ؒ ۱۳۴۴ھ/۱۹۲۶ء-۱۴۳۹ھ/۲۰۱۸ء (۳)

بہ قلم:        مولانا نور عالم خلیل امینی

چیف ایڈیٹر ’’الداعی‘‘ عربی و استاذ ادبِ عربی

دارالعلوم دیوبند

            مولانا قاسمیؒ نے تدریس وتقریر كے میدان میں گہرباری كے ساتھ، لوح وقلم كی بھی پر ورش كی اور اس میدان میں بھی آپ كا اندازعالمانہ ، محققانہ ونكتہ ورانہ تھا۔ اسلوبِ نگارش میں بھی وہی روانی وسلاست تھی جو آپ كے خطیبانہ كلام كا امتیاز تھی؛ لیكن تدریسی وخطابتی كارہائے دراز اور اُن كے لیے مسلسل اسفار نے ، نیز ۱۹۸۲ء/ ۱۴۰۲ھ میں دارالعلوم وقف كے قیام كے بعد اُس كی انتظامی وتدریسی ذمے داریوں سے عہدہ برآہوتے رہنےكے بعد كارتحریر وتالیف كے لیے، جو خاصی تنہائی اور سنجدیدہ فرصت ِ عمل كا  متقاضی ہوتا ہے ، اُن كے پاس وقت نہیں رہ گیا تھا ، لیكن منظم زندگی گزارنے كی وجہ سے جو انھیں اپنے عظیم والد حضرت حكیم الاسلامؒ سے ورثے میں ملاتھا، رسائل اور خطبہ ہاے  صدارت  وكلمہ ہاے  افتتاح و مقدمہ ہاے كتب كی شكل میں اپنی  تحریرـوں كا جو اثاثہ چھوڑگئے ، وہ   خاصا گراں مایہ ہے، جو اُنھیں ایك شان دار قلم كار اور تجربہ كار انشا پردازكا رتبہ عطاكر نے كے لیےكافی ہے ، جس میں علم وفضل اور عقل ونقل كی قدم قدم پر وہی جلوہ گری ہے ؛ جو فكرِ قاسمی كی لاینفك شناخت ہے۔

            بہ ہر كیف جو كتابیں یا رسائل ، ان كی خامہ آرائی كے نتیجے میں سامنے آئے اُن میں  سے كچھ یہ ہیں:

            ۱ – ان كی ایك ادبی تخلیق ’’ مردانِ غازی ‘‘ كے عنوان سے ، افسانہ ہے ، جس میں اُنھوں نے یہ بتایا ہے كہ كبھی ہم مسلمان مشرق ومغرب پر حكم راں تھے، ہر جگہ اسلامی اقتدار قائم تھا اور ساری زمین پر خدائی قانون نافذ تھا۔ آج یہ حال ہے كہ ہم ہرجگہ محكوم ومظلوم ہیں، ہمیں زبان كھولنے كا بھی یارا نہیں ، ہم كس قدر ذلیل اور بے دست وپا ہیں

            یہ افسانہ انھوں نے پنچ شنبہ: ۱۶؍جنوری ۱۹۴۷ء (۲۳؍ربیع الاول ۱۳۶۶ھ) كو لكھا تھا اور ’’انجمن شمع ادب ‘‘ جالندھر كے جنرل سكریٹری جنا ب سعید الدین شیركوٹی نے، ۷؍فروری ۱۴۴۷ء (۱۴؍ربیع الآخر ۱۳۶۶ھ) كو اس پر اپنی تقریظ لكھی اور اپنی انجمن كی طرف سے ایك ہزار كی تعداد میں شائع كیا، اس وقت اس افسانے كے ایك نسے كی قیمت ۳آنے تھی ۔ یہ افسانہ بڑے سائز كے ۲۰صفحات پر پھیلا ہواہے ۔

            گویا انھوں نے یہ كتاب اپنی طالب علمی میں لكھی تھی جب وہ مشكاة شریف كے سال میں متعلمِ دارالعلوم دیوبند تھے۔ زبان وبیان كی سلاست ایك كہنہ مشق رائٹر كا پتہ دیتی ہے ۔

            ۲- ’’حقیقتِ معراج  ‘‘ یہ كتاب بڑے سائز كے ۵۰صفحات پر چھپی ہوئی ہے ، اسے اِدارہ نشرواشاعت دارالعلوم دیوبند نے شائع كیا تھا ۔ یہ ابوالاعلی مودودی كی كتاب ’’ معراج كی رات ‘‘ كے رد میں اور اس كے مشمولات كی علمی تنقید وگرفت كے موضوع پر ، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نوراللہ مرقدہ كی فرمایش پر لكھی گئی تھی۔ مولانا قاسمی ؒ نے اس كتا ب میں مودودی صاحب كی فاضلانہ گرفت كی ہے، جو كچھ لكھا ہے بڑی محنت اور عرق ریزی سے لكھا ہے ۔ یہ كتاب ہر عالم ومتعلّم كے پڑھنے كی چیز ہے ۔

            ۳- مبادئ تربیة الأطفال الاسلامیة:۲۳ صفحات پر مشتمل عربی كا رسالہ ہے جو دارالعلوم دیوبند نے ۱۳۹۷ھ/ ۱۹۷۷ء میں اپنے پریس سے شائع كیا تھا ، اس رسالے میں انھوں نے ثابت كیا ہے كہ بچوں كی تربیت مقدس انسانی فریضہ ہونے كے ساتھ، عقل انسانی كا اولین تقاضا بھی ہے ۔  اسلام نے اس پر جتنا زور دیا ہے ، كسی مذہب نے اور دنیا كی كسی تحریك وتنظیم نے اس منظم طریقے سے اس كا اہتمام نہیں كیا ہے۔  انھوں نے تربیتِ اطفال كے موضوع پر اسلامی اصولوں اور تعلیمات كو تفصیل سے ذكر كیا ہے اور یہ بتایاہے كہ اسلامی اصولِ تربیت اطفال نے غیر معمولی تدریجیت اور مرحلہ واریت كو پیش نظر ركھا ہے ، جس سے تربیت پانے والا بچہ نہ كوئی بوجھ محسوس كرتا ہے  نہ اپنے طبعی غرائز كے خلاف كسی دباؤ كا اسے كوئی احساس ہوتا ہے ۔

            ۴-  ’’ ایك عظیم تاریخی خدمت .. اكابر دارالعلوم دیوبند كی تمام چھوٹی بڑی كتب كا مكمل تعارف‘‘  یہ كتاب چہ چھوٹے سائز كے ۳۲ صفحات پر مشتمل ہے جس میں انھوں نے اپنے ذاتی ادارہ ’’تاج المعارف دیوبند‘‘ كے تحت اكابر دارالعلوم كے علمی كارناموں كے تعارف كے ایك عظیم الشان پروگرام كو تفصیل سے متعارف كرایا ہے  اور شاہ ولی اللہ دہلویؒ ، شاہ  عبدالعزیزؒسے لے كر دور حاضر كے علماے دیوبند ومشایخ دارالعلوم كو پانچ طبقوں میں تقسیم كركے ان كے نام طبقہ وار لكھے ہیں كہ ہمارے كام كی یہ ترتیب ہوگی كہ ہم پہلے طبقے كے اكابر كی تخلیقاتِ علمی كا تعارف كرائیںگے ، پھر بہ تدریج آگے كو بڑھیں گے۔جس كا طریقہ یہ ہوگا كہ حضرت شاہ ولی اللہ ؒ سے لے كر موجودہ دور تك كے بزرگانِ دیوبند میں سے جملہ مصنفین كی تمام چھوٹی بڑی ، علمی ، اصلاحی ، تاریخی ، ادبی ، سیاسی ، تصوفی اور اخلاقی تصانیف كا علاحدہ علاحدہ مكمل تعارف كتابی صورت میں مرتب كركے شفاے روحانی كا یہ ’’مجرب نسخہ ‘‘ عالم انسانی كے سامنے پیش كیا جائے گا۔

            دوسرا اقدام یہ ہوگا كہ اس كتاب كو پہلے اردو میں شائع كیاجائے گا پھر عربی اور انگریزی میں۔

            تیسرا اقدام یہ ہوگا كہ اكابرِ دیوبند كی بہترین اور منتخب كتابوں كا عربی اور انگریزی ترجمہ دور حاضر كے مذاق كے مطابق شائع كیا جائے گا۔

            چوتھا اقدام یہ ہوگا كہ اكابرِ دیوبند كی جو كتابیں مشكل ہیں اور جن میں الفاظ و عبارتیں پیچیدہ آگئی ہیں ، اُنھیں آسان عبارتوں میں  تشریحات كے ساتھ دوبارہ شائع كیاجائےگا۔

            مولانا محمد سالم قاسمی ؒ نے اس پروگرام كے گوشےگوشے كو بہت مرتب اور مفصل انداز میں بیان كیا ہے، اگر یہ پروگرام روبہ عملآگیا ہوتا، تو اس تاریخی كارنامے كی كوئی نظیر نہ ہوتی ، جس كے پورا ہونےكا سارا زمانہ منتظر ہے اور یہ كام قاسمی نسلِ نوكی گردن پر ایك واجب الادا قرض بھی ہے اور فرض بھی۔

            ۵  – سیرت كے موضوع پر اُن كا ایك گراں قدر رسالہ ’’ تاج دارِحرم كا پیغام‘‘ بھی ہے ، جو ہمیشہ اشاعت پذیر ہونے كا متقاضی ہے۔

            ۶- اُن كا ایك رسالہ ’’جائزہ تراجم قرآن ‘‘ ہے جو قیمتی علمی رسالہ ہے اور علما وطلبہ كے لیے بے حد مفید ہے ۔

            ۷- اُنھوں نے بہت سی مرتبہ سفر كے دوران ڈائری لكھنے كا بھی التزام كیا تھا،جو سفر ناموں كی شكل میں ترتیب كا متقاضی ہے ۔ ان میں سے ایك سفر نامہ بعنوان ’’ سفرنامہ ٔ  برما ‘‘ طبع ہوچكا ہے ۔

            ۸- اُن كے بہت سے خطبات ، مقدمات وتقریظاتِ كتب اور كلماتِ صدارت ، مختلف علمی موضوعات پر علمی تحقیق اور فكری استنتاج كا نادر نمونہ ہیں، جو انھوں نے بہت مطالعے اور گہری سوچ كے بعد لكھے ہیں ۔ انھیں بہ عجلت مطبوعہ شكل میں منظرِ عام پر لانے كی ضرورت ہے ۔

            ۹- شفوی تقریروں كا جو ریكارڈ دست یاب ہوسكے وہ بڑا علمی خزانہ ہوگا، اس كو بہ عجلت تمام شائع كركے محفوظ كرنے اور علمی حلقوں تك پہنچنے كو آسان بنانا بھی بہت ضروری ہے، جس سے اُن كے سپوت اخلاف غافل نہ ہوں گے ۔ ان شاء اللہ۔

            نثرنگاری كے ساتھ والد ماجد حضرت حكیم الاسلام ؒ ہی كی طرح شعر گوئی میں بھی حصہ لیا، چناں چہ كئی نظمیں اُن كی جولانی ِ طبع كی گواہی كے لیے اُن كے بیاض كے اوراق میں نیز مطبوعہ شكل میں بكھری ہوئی نظر آتی ہیں ۔ مولانا قاسمی ؒ شعر وسخن میں ندیمؔ تخلص كرتے تھے۔

             دوشنبہ: ۱۵؍ذی قعدہ ۱۳۶۷ھ مطابق  ۲۰؍ستمبر ۱۹۴۸ء تا جمعہ: ۱۵؍صفر ۱۳۶۸ھ مطابق ۱۷؍دسمبر ۱۹۴۸ء كی مدت میں حضرت حكیم الاسلام ؒ اور اُن كی اہلیہ محترمہ ؒ كاحج وزیارت كا سفر ہوا۔ مولانا قاسمیؒ نے اس مبارك موقع سے ’’ مقدس زائرین حرم سے ‘‘ كے عنوان سے ۲۶شعروں پر مشتمل جو قصیدہ كہا تھا ، اُس كے چند شعر یہ ہیں ۔ یادر ہے كہ اس وقت شاعر كی عمر كل ۲۲سال تھی:

حریم رحمةٌ للعالمین جانا مبارك تھا

زِسرتاپا سعادت بن كے آجانا مبارك ہو

سراپا شوق بن كر حاضری رحمت ہی رحمت تھی

تمناے مكرر لے كے آجانا مبارك ہو

زمانہ منتظرتھا بزم ایماں میں اُجالے كا

تمنائیںتھیں دل میں، شوق تھا كچھ فیض پانےكا

مثیل ’’قاسم ‘‘ و ’’محمود‘‘ شب بیدار آئے ہیں

وہ فخر دیوبند، زینت دہ گل زار آئے ہیں

میں بالكل بے بضاعت ہوں نہیں ذوقِ سلیم ایسا

كہ اُن كی شان میں لكھ دوں كوئی قول كریم ایسا

جو ماں كے رتبۂ  عالی كو بھی پورا عیا ںكردے

اور اس رفعت كے ہم         پلّہ ہی تہنیت بیاں كردے

ارادہ دل میں تہنیت كا باصدق وصفا آیا

زباں پر بے ارادہ قولِ ’’ربِّ ارحمہما‘‘ آیا

ندیمؔ الفاظ میں اِس مرتبہ ایسا اثر دیكھوں

كہ اپنے آپ كو اس قافلے كا ہم سفر دیكھوں

            ۴؍ذی قعدہ ۱۳۷۰ھ مطابق ۸؍اگست ۱۹۵۱ء تا ۲۶؍محرم ۱۳۷۱ھ مطابق ۲۹؍اكتوبر ۱۹۵۱ء، مولانا قاسمی ؒ كے والدین ؒ نے حج وزیارت كا سفر كیا، اُن كی واپسی پر اُنھوں نے ۷شعروں پر مشتمل ’’ ہدیۂ   عقیدت ‘‘ كے عنوان سے جو قصیدہ  موزوں كیا ، اس كے دو تین شعر اس طرح ہیں:

گل زارِ وطن میں ہر جانب پر كیف بہاریں رقصاہیں

شاداں ہے چمن كا ہر ذرّہ اُترے ہوے چہرے خنداں ہیں

وہ پاك نگاہیں نازاں ہیں جو روضۂ جنت دیكھ آئیں

فرخندہ جبینِ تاباںہیں جبریل كا مَہبط دیكھ آئیں

تبریك كا ہدیہ كیا لائیں بن آئے گا كیا ناشادوں سے

یہ جذب وكشش یہ عشقِ نبی بالا ہے مبارك یادوں سے

            اپنے برادر خرد مولانا محمد اسلم قاسمی ؒ كی شادی خانہ آبادی كے موقع سے مولانا قاسمی ؒنے ’’نغمہ ٔ  تہنیت ‘‘ كے عنوان سے ایك خوب صورت قصیدہ كہا تھا، جس كے كچھ اشعار یہ تھے، پورا قصیدہ دس شعروں پر مشتمل ہے:

حیاتِ نو كی یہ منزل مبارك

وفورِ شوق كا یہ حاصل مبارك

عزیز اسلم بایں یمن وسعادت

یہ نقد دل بہ نقدِ دل مبارك

طلوع مہر تابانِ محبت

عروجِ فكرو سامانِ محبت

نگاہیں ترجماں ہیں آج جس كی

مبارك ہو یہ عرفانِ محبت

            اپنی ہمشیرہ عزیزہ ’’حمیرہ ‘‘ كی شادی كے موقع سے رخصتی كی تقریب كے وقت ۲۴شعروں پر مشتمل ایك پر سوز وپر جذبات قصیدہ كہا تھا، جس كے چند اشعار ذیل میں درج كیے جارہے ہیں:

اے شریكِ شیرِ مادر ، اے محبت كی شعاع

آج اِن لرزاں لبوں پر آگیا لفظِ وداع

الوداع اے رونق بزمِ محبت الوداع

الوداع اے پیكرِ صدق و دیانت الوداع

الوداع اے مخزنِ اخلاص والفت الوداع

الوداع اے گلشن ِ طیبؔ كی نكہت الوداع

آگئے ہیںآج وہ لمحےكہ توجانے لگی

سینۂ  ماں باپ سے سُن كیا صدا آنے لگی

اِك نئے ماحول سے دوچار ہونا ہے تجھے

اجنبی نظروں میں دل كا پیار ہونا ہے تجھے

دیكھ اُس ماحول میں ركھنا بزرگوں كا خیال

عظمتِ اسلاف كےشیشےمیں آجائے نہ بال

قاسمِؔ نانوتوی كی روح تیرے ساتھ ہے

آبروے حلقۂ اسلاف تیرے ہاتھ ہے

            ۱۴شعروں پر مشتمل ایك قصیدہ ۱۶؍ذی الحجہ ۱۴۱۷ھ مطابق ۲۳؍اپریل ۱۹۹۷ء كو ’’ نذرِ حجاج بیت اللہ الحرام ‘‘ كے عنوان سے مولانا ؒ نے كہی تھی، اُس كے چند اشعار ذیل میں ثبت كیے جارہے ہیں۔ یہ قصیدہ حجاج كرام كی واپسی پر كہا گیا تھا، اس قصیدے میں ’’ارض حرم ‘‘ اور ’’ ارض وطن ‘‘ كا نمایا ں اور واقعی فرق بتایاگیا ہے ، جو بہت پر لطف ، صداقت ریز، حقیقت خیز اور درس انگیز ہے:

جہاں كل تھے، وہاں ہر نقش پانقش ہدایت تھا

جہاں اب ہو، ضلالت كا سبو لبریز ہے ساقی

جہاں كل تھے ، وہاں بوبكر وعثماں كی وفائیں تھیں

جہاں اب ہو، جفاؤں میں ہراك چنگیز ہے ساقی

جہاں كل تھے، وہاں تھی دین وایماں كی سرافرازی

جہاں اب ہو، دیانت داں سیاست ریز ہے ساقی

جہاں كل تھے، وہاں باطل شكن لہریں ہی لہریں تھی

جہاں اب ہو ، وہاں باطل بلا انگیز ہے ساقی

شفا كا نسخۂ  نایاب، مكہ سے ہوا حاصل

ادھر خاكِ مدینہ، جو شفا آمیز ہے ساقی

پیام حق رسانی ہوگئی پیدا، اگر دل میں

تو حج ’’مبرور‘‘ ہے اس كی، یہ دستاویز ہے ساقی

            ’’ترانۂ   مظلومین ‘‘ كے نام سے مولاناؒ نے بچوں كے لیےایك نظم كسی نفیسؔ شاعر كے شعر پر تضمین كرتے ہوے كہی تھی، یہ ترانہ، زبان وبیان ، تركیب كی صفائی ، خیال كی بلندی، طرزادا كی گل اَفشانی كے اعتبار سے خاصے كی چیز ہے۔ اِس مضمون كی تنگ دامانی كی وجہ سے صرف چند اشعار نذر قارئین كیے جارہے ہیں:

بحمد اللہ، حق كا بول بالاہونے والا ہے

سیاہی چھٹ رہی ہے ، اب اجالا ہونے والا ہے

خدا كے گھر كے دشمن ! سُن نداے غیب آتی ہے

كہ تو برباد اب تو ، لامحالہ ہونے والا ہے

دیارِ دل كے شیطاں كو، كوئی جاكر یہ بتلادے

تہ وبالا، تِرا اِیوانِ بالا ہونے والا ہے

تو كرلے ظلم ، تجھ سے مومنوں پر ہوسكے جتنا

ترا اے روسیہ! منھ اور كالا ہونے والا ہے

شہادت پانے والو! لو مبارك وقت آپہنچا

تمہارے زیبِ تن، خلدی دوشالہ ہونے والا ہے

مرا قرآن كہتا ہے، مرا ایمان كہتا ہے

ظہورِ نصرتِ باری تعالی ہونے والا ہے

            دین ودعوت اور تعلیم وتربیت كے میدان كی ہمہ گیر مشغولیت نے ، انھیں شعروشاعری كی طرف لائقِ ذكر توجہ دینے كی فرصت نہیں دی؛ ورنہ موزونیتِ طبع سے اندازہ ہوتا ہے كہ اگر وہ اس كوچے میں ذرا بھی طواف كرتے، تو ایك اچھے شاعر ہونے كی شناخت ركھتے۔

مناصب واعزازات

            حضرت مولانا قاسمیؒ نے جنوری ۱۹۴۹ ء (ربیع الآخر ۱۳۶۸ھ )میں اكابرِ دیوبند كی علمی وفكری تصنیفات كو معیاری طور پر شائع كرنے كے لیے ایك اشاعتی ادارہ  ’’ اِدارئہ تاج المعارف ‘‘ كے عنوان سے قائم فرمایا ، اُس  وقت كے میسر وسائل وامكانات كے بہ قدر، كئی سال تك یہ ادارہ بر سرعمل رہا اور متعددعلمی كتابیں اشاعت پذیر ہوكر اہلِ علم وطلبہ كے لیے سنجیدہ مطالعے كا ذریعہ بنیں۔

            ۱۹۶۶ء/۱۳۸۶ھ میں مراسلاتی طریقۂ تعلیم كی بنیاد پر ، عصری تعلیم گاہوں میں زیرتعلیم طلبہ وطالبات كے لیے، اسلامی علوم ومعارف كےحصول كو آسان بنانے كی غرض سے؛ جامعہ دینیات قائم فرمایا، جو سال ہا سال تك محوِ خدمت رہا۔

            اُن كی علمی عظمت كو متعدد اداروں اور تنظیموں نے سلام كیا، وہ مسلم پرسنل لا بورڈ كے تاحیات نائب صدر رہے ، جس كی تاسیس میں اپنے والد ماجد حكیم الاسلامؒ كے ہم دوش رہے ، مسلم مجلسِ مشاورت كے صدر رہے ، دارالعلوم ندوة العلما اور مظاہر علوم وقف سہارن پور كی شوری كے ركن ركین بھی رہے ۔اس كے علاوہ بھی متعدد تنظیموں اور ا داروں كی انھوں نے سرپرستی كی۔

            مصر كی وزارت ِ اوقاف ماہ ربیع الاول كے موقع سے منعقد كردہ اپنی سالانہ كانفرنسوں میں انھیں كئی سال تك مسلسل مدعوكرتی رہی، ایك كانفرنس میں اس نے انھیں ’’ نوط الامتیاز ‘‘ (نشانِ امتیازة یا تمغۂ  امتیاز) ایوارڈ سے نوازا۔  فروری ۲۰۱۴ءمطابق ربیع الآخر ۱۴۳۵ھ  میں جنوبی افریقہ كے ’’جو ہانسبرگ‘‘ شہر میں انھیں’’  حضرت امام قاسم نانوتوی ایوارڈ‘‘  سے نوازاگیا ۔ جب كہ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے ۳۱؍اگست ۲۰۱۵ ء مطابق ۱۵؍شوال ۱۴۳۶ھ كو اپنی پچاس سالہ گولڈن جوبلی كے موقع سے ، انھیں قومی یكجہتی، حقوقِ انسانی اور علمی خدمات كے اعتراف میں اپنے ایوارڈ سے نوازا۔

بیعت وخلافت

            ۱۹۴۸ء/ ۱۳۶۷ھ میں حضرت مولانا عبدالقادر اےپوری ؒ (تقریبًا ۱۲۹۰ھ/۱۸۷۳ء   – ۱۳۸۲ھ/۱۹۶۲ء) كی خدمت میں خانقاہ راےپور حاضر ہوكر اُن كے دست گرفتہ ہوے، كچھ دنوں وہاں مسلسل قیام فرمایا؛ لیكن تدریسی ذمے داریوں كی وجہ سے ایك ساتھ طویل المدت قیام ممكن نہ تھا؛  اس لیے دیوبند واپس آگئے اور حضرت راےپوریؒ كے بتائے ہوے   اصول وہدایت پر عمل كرتے رہے ؛ لیكن ہفتے میں ایك بار ہر جمعرات كو حاضر ہوكر جمعہ كو واپسی كا سال ہا سال تك اہتمام رہا،تا آں كہ ۱۴؍ربیع الآخر ۱۳۸۲ھ مطابق  ۱۶؍اگست ۱۹۶۲ء كو مولانا راےپوریؒ كی وفات ہوگئی ۔

            ۱۳۸۳ھ/۱۹۶۳ء میں مولانا قاسمی ؒ كا اپنے والد محترم حضرت حكیم الاسلامؒ كے ہم راہ جنوبی افریقہ كا سفرہوا ، اسی سفر كے دوران اُنھوں نے حضرت حكیم الاسلامؒ كے دستِ مبارك پر بیعت كی۔۱۳۸۷ھ/۱۹۶۷ء میں جب مولانا قاسمیؒ بنگلور میں مقیم تھے اور حضرت حكیم الاسلام بمبئی (موجودہ ممبئی)  میں قیام فرماتھے، حضرت حكیم الاسلامؒ نے بہ ذریعہ مكتوب گرامی فرزند ارجمند كو خلافت سے سرفراز فرمایا۔

            بہت ساری تدریسی وتقریری وانتظامی ودعوتی سرگرمیوں كے ساتھ ، اُن كا تزكیہ واحسان كا سفر جاری رہا اور اپنے اسلاف گرامی كی اس راہ پر بھی وہ كسی وقفے اور ناغے كے بغیرمسلسل محوِ سفر رہے۔ انھوں نے بیعت وارشاد كا عمل بھی جاری ركھا۔چناں چہ بہت سے لوگ ان كے حلقۂ  ارادت سے وابستہ ہوے اور بیعت وخلافت واجازت سے سرفراز ہوے، جن كی تعداد سو سے متجاوز بتائی جاتی ہے ۔

اولاد واحفاد

            مولانا محمد سالم قاسمی ؒ كی شادی دیوبند كے ایك ذی اثر خانداں میں جناب پیش كا ر محمداختر عثمانی صاحب كی دخترنیك اختر ’’اَمَتُ الاِكرام‘‘ صاحبہ سے ہوئی ، بہ غرض ملازمت یہ خاندان شہر سہارن پور میں آباد ہوگیا تھا۔ مولانا ؒ كا نكاح جمعہ: ۲۶؍مارچ ۱۹۴۸ء (۱۴؍جمادی الآخرة ۱۳۶۷ھ)كوہوا، رخصتی اُسی سال ۲۶؍دسمبر ۱۹۴۸ء (۲۳؍ربیع الاول ۱۳۶۸ھ)كو ہوئی ۔ مولانا قاسمی ؒ كی اولاد میں ۴لڑكے اور ۲ دولڑكیاں ہوئیں ، جن كی تفصیلات بہ لحاظ عمر درج ذیل ہے:  

            ۱ – محمد سلمان قاسمی، ولادت: ۱۳؍ستمبر ۱۹۵۰ء (۲۸؍ذی الحجہ ۱۳۶۹ھ) شرح جامی تك دارالعلوم دیوبند میںتعلیم حاصل كی ۔ اس كے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے بارہویں كی اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے بی اے اور ایم اے كیا۔ ان كا نكاح گنگوہ كے مشہور اجمیری خاندان میں حكیم سعید گنگوہیؒ كے پوتے حكیم سعد رشیدؒ كی صاحب زادی’’ طلعت فاطمہ‘‘ سے ہوا۔

            ۱۹۸۶ء/ ۱۴۰۶ھ میں پاكستان جابسے،ہنوزوہیں كے باسی ہیں۔ وہاں پیآئی اے میں برسرعمل رہے، اب ریٹائرڈ ہوگئے ہیں۔

            محمد سلمان قاسمی كی اولاد میں ایك لڑكا اور دولڑكیاں ہیں: محمد اسامہ قاسمی جو اس وقت ساؤتھ افریقہ میں مقیم ہیں۔

            مریم قاسمی صاحبہ: كراچی میں مقیم ہیں ۔ مشہور عالمِ دین ِ مولانا اسعد تھانوی كے فرزند حافظ محمد طلحہ كے نكاح میں ہیں۔

            ہبَہ قاسمی صاحبہ: یہ بھی كراچی كی باسی ہیں، اُن كے خاوند كانام محمد نعمان ہے۔

            ۲ – مولانا سفیان قاسمی زیدمجدہ: ولادت ۲۶؍ستمبر ۱۹۵۴ء (۲۷؍محرم ۱۳۷۴ھ) ۵سال كی عمرمیں دارالعلوم میں داخل ہوے۔۱۹۷۶ء(۱۳۹۶ھ) میں دارالعلوم سے فارغ ہوے۔ دارالعلوم سے فراغت كے فورًا بعد جامعة الازہر میں داخل ہوے ۱۹۷۹ء كے اواخر (۱۴۰۰ھ كے اوائل ) میں وہاں سے ماجستیر كی ڈگری كے ساتھ واپس آئے ۔ ۱۹۸۲ء/ ۱۴۰۲ھ میں آپ كا نكاح’’ پُرقاضی‘‘ كے حافظ سلطان احمد فاطمی كی صاحب زادی محترمہ’’ صفیہ‘‘ سے ہوا۔

            مولانا سفیان كے دوصاحب زادے ہوے:

            ۱ _- محمد صہیب قاسمی: تاریخ ولادت ۹؍مارچ ۱۹۸۴ء (۵؍رجب ۱۴۰۴ھ) ہے ۔ ابتدائی عصری تعلیم دیوبند میں حاصل كی، بمبئی سے گریجویشن كیا۔ اس وقت لندن میں برسرِ روز گار ہیں۔ ۲۰۰۹ء (۱۴۳۰ھ) میں نكاح ہوا۔

            ۲- مولانا محمد شكیب قاسمی: ولادت ۸؍مارچ ۱۹۸۸ء (۱۷؍شعبان ۱۴۰۸ھ) ابتدائی تعلیم عصری اسكول میں حاصل كی ، ۱۹۹۷ء (۱۴۰۱۷ھ) میں اسكول كی تعلیم كو چھوڑ درجۂ حفظ میں داخل ہوے، ۲۰۰۰( ۱۴۲۱ھ ) میں حفظ كی تكمیل كی ۔ اس كےبعد درس نظامی كے مطابق تعلیم كا آغاز ہوا۔ ۲۰۰۹ء (۱۴۳۰ھ)میں دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوے۔ ۲۰۱۰ء (۱۴۳۱ھ) میں جامعہ اسلامیہ عالمیہ ملیشیا میں داخل ہوكر ماجستیر اور ڈاكٹریٹ كی ڈگری حاصل كی۔۲۰۱۳ء (۱۴۳۴ھ) میں شادی خانۂ  آبادی ہوئی ۔ ان كے ایك بیٹی ہے جس كا نام’’ حفصہ‘‘ ہے۔

            ۳- ’’اسماء قاسمی‘‘: تاریخ پیدایش: ۲۶؍جنوری ۱۹۵۲ء (۲۸؍جمادی الاولی ۱۳۷۱ھ) ابتدائی تعلیم دیوبند میں حاصل كی، بعدہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے فاصلاتی كورس كے ذریعے گریجویشن كیا۔ ان كے تین بیٹے اور ایك بیٹی ہے۔ سارے بچے آسٹریلیا میں مقیم ہیں، جب كہ ایك فرزند حافظ احمد یاسر جاپان میں برسرِ روزگار ہیں۔

            ۴- محمد عدنان قاسمی: تاریخ پیدایش: ۱۱؍اپریل ۱۹۵۷ء (۱۰؍شوال ۱۳۷۶ھ) ابتدائی تعلیم دارالعلوم دیوبند میںحاصل كی، اس كے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ دیلی سے بارہویں كیا پھر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ایم اے تك كی تعلیم حاصل كی۔ ۱۹۸۶ء (۱۴۰۶ھ) میں مولانا مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی دیوبندی كی صاحب زادی محترمہ ’’رومہ‘‘ سے ان كا نكاح ہوا، جن سے ان كے ایك بیٹا اور ایك بیٹی ہے۔ بیٹی یسریٰ قاسمی اِس وقت اپنے خاوند اور دوبچوں كے ساتھ كنیڈا میں مقیم ہیں، جب كہ بیٹا یاسر قاسمی دہلی میں زیرتعلیم ہے۔

            ۵- عظمی ناہید: ولادت ۱۲؍دسمبر۱۹۶۰ء (۲۲؍رجب ۱۳۸۰ھ) ۱۹۷۷ء (۱۳۹۷ھ) میں ان كی شادی مولاناحامدالانصاری غازی كے فرزند جناب سلمان منصور غازی سے ہوئی، اُن كے ایك لڑكا اور ایك لڑكی ہوئی: محمد علی: ولادت:۱۹۸۲ء (۱۴۰۲ھ) اس وقت عمان میں برسرروزگار ہیں۔ ثناء غازی: ولادت: ۱۹۸۶ء (۱۴۰۶ھ) اس وقت جرمنی میں ایك مقامی یونیورسٹی میں پروفیسر كی خدمت پر مامور ہیں۔

            ۶- حافظ محمد عاصم قاسمی: ولادت: ۶؍جنوری ۱۹۶۷ء (۲۲؍سوال ۱۳۸۶ھ) بارہویں تك كی تعلیم جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں حاصل كی، امریكہ میں گریجویشن كی تكمیل كی، تاحال وہیں برسرروزگار ہیں۔ وہ دیوبند میں ’’طیب ٹرسٹ‘‘ كے نام سے ایك ادارہ بھی چلاتے ہیں۔ ان كے دو بیٹے ہیں: محمدطیب قاسمی اور محمد عمر قاسمی، دونوں زیرتعلیم ہیں۔

            (تحریر كردہ ۲بجے بہ وقت ظہر، سہ شنبہ:

                ۱۳؍رمضان المبارك ۱۴۳۹ھ مطابق ۲۹؍مئی ۲۰۱۸ء)

——————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 9،  جلد:102‏،  ذی الحجہ1439ھ- محرم 1440ھ مطابق ستمبر 2018ء

٭           ٭           ٭

Related Posts