از: مفتی امانت علی قاسمی
استاذ دارالعلوم حیدرآباد
حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒکی شخصیت ہندستان میں خاص طور پر دینی مدارس میںمحتاج تعارف نہیں ہے،آپ نے انگریز عہد حکومت میں اسلام اور مسلمانوں کی کثیر جہات خدمات انجام دی ہیں،ملک و قوم کے لیے آپ کی جد و جہدآبِ زر سے لکھے جانے کے لائق ہے ،آپ تقوی و طہارت میں آفتاب تاباںاور ، سادگی و وضع داری میں ماہ درخشاں تھے، آپ ایک انقلابی ہستی ہیں جنہوں نے ہندوستان میں دینی تعلیم کا ایک نیا، انوکھا ،پائدار ، مفید اور غیر معمولی مؤثر نظام تعلیم رائج کیا۔
مولانا نانوتویؒ کی پیدائش رمضان ۱۲۴۸ھ مطابق ۱۸۳۲ء میں ہوئی ، تاریخی نام خورشید حسن ہے، والد کا نام اسد علی ہے ، آپ کا تعلق حضرت ابوبکر صدیق کے خاندان سے ہے، ۴۴ویں واسطے سے آپ کا شجرئہ نسب قاسم بن ابی بکر سے ملتا ہے ، آپ کی والدہ سہارن پور کے وکیل شیخ وجیہ الدین کی صاحب زادی ہیں ، ہندوستان میں آپ کے مورث اعلی مولوی ہاشم ہیں ،جو شا ہ جہاں کے عہد میں ہندوستان آئے اور نانوتہ کو اپنا وطن بنایا ، حضرت نانوتوی ان کی ساتویں پشت میں آتے ہیں۔
مکتبی تعلیم آپ نے دیوبند اور سہارن پو رمیں حاصل کی، دیوبند میں آپ کے استاذ شیخ مہتاب علی تھے اور سہارن پور میں مولوی نواز، باقی علوم و فنون کی کتابیں آپ نے اپنے خاص استاذ مولانا مملوک علی سے حاصل کی ،مولانا مملوک علی دہلی کالج میںاستاذ تھے ،جو انگریزوں کے غلبے کے بعد انگریزوں کے صرفے سے چل رہا تھا ،مولانا نانوتوی ؒنے زیادہ تر تعلیم یہیں حاصل کی؛ لیکن حدیث کی تعلیم آپ نے شیخ عبد الغنیؒ مجددی سے حاصل کی ،یہ شیخ ابوسعید مجددی کے بیٹے اور شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانیؒ کے خاندان سے ہیں ،شاہ عبد الغنیؒ نے حدیث کی تعلیم اپنے والد شیخ ابوسعید مجددیؒ اور شاہ عبد العزیزؒکے شاگرد شاہ اسحاقؒ سے حاصل کی تھی ،اس کے علاوہ آپ کے اساتذہ میں ایک ممتاز نام شیخ احمد علی سہارن پوریؒ کا ہے ،جن سے آپ نے حدیث کی تعلیم پائی،۱۷ سال کی عمر میں علوم و فنون کی تکمیل کرلی ۔
تعلیم کی تکمیل کے بعد مولانا نانوتو یؒ گھر تشریف لے آئے ، جس طرح آج عصر ی درس گاہوں میں تعلیم پاکر نوکری حاصل کی جاتی ہے، اسی طرح اُس وقت عربی تعلیم حاصل کرکے نوکری ملتی تھی؛ لیکن حضرت نانوتوی ؒکا رجحان ملازمت کی طرف بالکل نہیں تھا، جس کی وجہ سے ان کے والد شیخ اسد علی کو تھوڑی فکر دامن گیر رہا کرتی تھی کہ اسی دوران مولانا احمد علی سہارن پوری حجاز سے صحاح ستہ لے کر آئے اور مطبع قائم کیا تو مولانا نانوتویؒ نے اس مطبع میں تصحیح کتب میں مصروف ہوگئے، اس طرح حاشیۂ بخاری کا عظیم الشان کارنامہ آپ کے ذریعہ وجود میں آیا ۔
پس منظر
مولانانانوتوی ؒ کے نظریۂ تعلیم کو سمجھنے کے لیے اس زمانے کے حالات کو سامنے رکھنا ضروری ہوگا، ۱۸۴۹ء میں حضرت نانوتوی ؒکی رسمی تعلیم سے فراغت ہوئی ، یہ وہ زمانہ ہے جس میں مغلیہ سلطنت کا چراغ ٹمٹا رہا تھا ، انگریز صوبہ درصوبہ فتح کرتے ہوئے دہلی پہنچ چکے تھے اور دہلی میں بہادر شاہ ظفر کی حکومت لال قلعہ میں محصور ہوکر رہ گئی تھی ، انگریز ایک چالاک قوم تھی انھوں نے جب ملک پر قبضہ کیا تو ان کے پاس بہت سی پلا ننگ تھیں، وہ ہر اعتبار سے اپنی حکومت کو مضبوط و مستحکم کرنا چاہتے تھے اور اس استحکام میں جو بھی رکاوٹیں تھیں،وہ ان تمام کو دور کرنا چاہتے تھے ، بہادر شاہ کو ملک بدر کردیا گیا، لال قلعے سے ہندوستانی پرچم اتارکر انگریزی پر چم لہرادیا گیا ، اور ملک مکمل طور پر غلام بن گیا ، اس کا زیادہ احسا س مسلمانوں کو تھا؛اس لیے کہ حکومت مسلمانوں سے چھینی گئی تھی ؛اس لیے مسلمان ہر طرح کی قربانی دے کر ملک کو آزاد کرانا چاہتے تھے ، انگریز بھی اس سے ناواقف نہیں تھے، انھیں بھی اس کا احساس تھا کہ مسلمان کسی قیمت بیٹھنے والے نہیں ہیں؛ اس لیے وہ مسلمانوں سے روحِ اسلام ختم کرنا ضرور ی سمجھتے تھے۔ اقبال نے ’’ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام ‘‘میں کہا ہے :
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز ویمن سے نکال دو
(کلیات اقبال ص: ۵۱۰)
مسلمانوں سے روح محمدی کو ختم کرنے لے لیے ضروری تھا کہ مسلمانوں کی مذہبی تعلیم کے مراکز کو تاراج کیا جائے اور اس کی ہر ممکن کوشش کی گئی ،دہلی ،آگرہ ، ملتان ،خیرآباد ،بنگال اور بہار کے مدارس جو ہندوستانی سلاطین و امراء کی وقف کردہ جائدادوں سے چل رہے تھے، ۱۸۸۳ء میں حکومت نے تمام اوقاف کی جائداد کو اپنے قبضے میں لے لیا (ہمارے ہندوستانی مسلمان ص:۲۰۰) اس زمانے میں مسلمانوں کی تعلیمی حالت کا اندازہ گاندھی جی اس تقریر سے بھی لگایا جاسکتا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ برٹش گورنمٹ سے پہلے ملک میں ۳۰ہزار ادارے تھے جن میں دو لاکھ طلبہ تعلیم پاتے تھے آج حکومت دفتری بہ مشکل چھ ہزار مدرسوں کا حوالہ دے سکتی ہے (اخبار مسافر آگرہ ۳؍دسمبر ۱۹۲۰ء )۔
انگریزوں نے لارڈ میکالے کو ہندوستان بلایا تاکہ وہ تعلیمی ہتھیار کو استعمال کرکے عیسائی مشن کو کامیاب بنائے ۔لارڈمیکالے ہندوستان آیا اس نے تعلیمی فارمولہ پیش کیا:
ہمیں ایک ایسی جماعت بنانی چاہیے ،جو خون اور رنگ کے اعتبارسے تو ہندوستانی ہوں، مگر رجحان ،رائے، الفاظ اور سمجھ کے اعتبار سے انگریزہوں(اخبار مدینہ بجنور ۲۸؍فروری ۱۹۲۷ء) ۔
یہی میکالے ۱۲؍اکتوبر ۱۸۳۶ء کو اپنی والدہ کے نام خط لکھتا ہے :
اگر میرے تعلیمی منصوبے پر پوری طرح عمل کیا گیا تو مجھے یقین ہے کہ زیادہ سے زیادہ تیس سال کے بعد یہاں ایک بھی بت پرست غیر عیسائی نہیں رہے گا (وہ جو بیچتے تھے دوائے دل ص :۳۵)۔
مولانا نانوتوی کا نظریۂ تعلیم
مولانا نانوتوی ؒکا نظریہ یہ تھا کہ عصری تعلیم کے لیے حکومت ادارے قائم کررہی ہے، اس کی سرپرستی کررہی ہے اور دینی تعلیم جس کے ذریعہ مسلمانوں کے ایمان وعقیدہ ، تہذیب و تمدن اور اسلامی تشخص کی حفاظت ہوگی ،اس کو ختم کرنے اور انگریزی کلچر کے فرو غ کی مکمل سعی و کوشش ہورہی ہے ایسے حالات میں دینی مدارس کا قائم کرنا بہت ضروری ہے ،اور اسے حکومتی امداد سے آزاد رکھنا بھی ضروری ہے؛ تاکہ آئندہ اس پر کسی قسم کا کوئی خطرہ درپیش نہ ہو ’’اصول ہشت گانہ‘‘ میں حضرت نانوتویؒ نے اس کی صراحت کی کہ دارالعلوم کو سرکاری امداد سے محفوظ رکھا جائے ۔
مولانا نانوتوی کا بنیادی نقطئہ نظر یہ تھا کہ دینی تعلیم کے فروغ پر خاص توجہ دی جائے اور اسے عوامی چندہ پر قائم کیا جائے؛ تاکہ عوام اور علماء کے درمیان رابطہ کی شکل پیدا ہو اور کسی کی اس نظام پر اجارہ داری نہ ہو ،حکومت کی دخل اندازی سے نظامِ تعلیم کو کوئی نقصان نہ پہنچے ،حضرت نے جو نظام پیش کیا اس کا زیادہ ترحصہ دینی علوم پر مرکوز تھا؛ اس لیے کہ عصری تعلیم حکومت دے رہی تھی، اگر مسلمان بھی عوامی چندوں سے عصری ادارے قائم کرتے تو تحصیل حاصل لازم آتا ، اور عوام کو کہنے کا موقع ملتا کہ جو تعلیم حکومت دے رہی ہے، اسے عوامی چندے سے قائم کرنے کی کیا ضرورت ہے ، پھراس وقت سب سے اہم مسئلہ دینی تعلیم کے تحفظ کا تھا؛ اس لیے بھی اس پر بہت زیادہ زور دیا گیا ۔
نصاب تعلیم اور مولانا نانوتوی
حضرت نانوتوی ؒ کے نظریۂ تعلیم کو سمجھنے کے لیے اُس وقت کے نصاب ِتعلیم پر نظر کرنا بھی ضروری ہے،اُس زمانے میں خیرآباد کا مدرسہ ، ٹونک کا مدرسہ ، لکھنو میں فرنگی محل کا مدرسہ ، رام پور کا مدرسہ عالیہ؛ یہ سب زیادہ تر منطق و فلسفہ کی تعلیم و تدریس میں مشغول و مشہور تھے، لکھنو کے فرنگی محل میں کسی حد تک فقہ کی تعلیم بھی جاری تھی ، دوسری طرف شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی اور ان کے خانوادے نے دہلی اور اس کے اطراف میں علم حدیث و تفسیر کی خدمات کا سلسلہ شروع کیا تھا؛ لیکن یہ سلسلہ اب موقوف ہوتا جارہا تھا ،آپ کے خاندان کے باقی ماندہ لوگ حجاج مقدس کا سفر کر چکے تھے ، حضرت نانوتوی ؒکے ذہن میں وسعت و آفاقیت تھی ، فکر میں اعتدال کے ساتھ تصلب تھا، آپ نے دارالعلوم کے نصاب میں منطق و فلسفہ کا زور کم کیا ، اور شاہ ولی اللہ صاحب کے رائج کردہ حدیث و تفسیر کی کتابوں او راس نہج کو بھی نصاب کا حصہ قرار دیا، ساتھ میں آپ نے فقہ اور دیگرعلوم آلیہ کو مناسب انداز میں شامل کیا ،اس طرح حضرت نانوتوی کا تیار کردہ نصاب بالکل منفر د اور ممتازہو گیا،یہ درس نظامی نہیں ہے، جیسا کہ یہ لفظ متعارف اور مشہور ہے؛ بلکہ اس وقت رائج تمام نصابوں کا جامع تھا ، اس سے حضرت نانوتوی کی فکری آفاقیت اور تعلیمی نقطئہ نظرکو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے ۔
عصری تعلیم اور مولانانانوتوی
مولانا نانوتویؒ ایک بہترین ماہرتعلیم تھے، انھوں نے دارالعلوم کے نصاب میں جہاں عربی ، فارسی ، قرآن و حدیث ،فقہ وغیرہ کو اولین ترجیح دی ،وہیں ریاضی ، ہندسہ، طب، سائنس اور علم ہیئت کو بھی نصاب میں شامل کیا۔مولانا گیلانی جن کو فکرِ قاسمی کا شارح و ترجمان کہا جاتا ہے ،وہ حضرت نانوتوی اور عصر ی علوم کے تعلق سے فرماتے ہیں :
ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس نصاب کو پڑھ کر فارغ ہونے والوں میں علوم جدیدہ حاصل کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے گویا علومِ جدیدہ کی تعلیم کا مقدمہ بھی دارالعلوم دیوبند کا تعلیمی نصاب بن سکتا ہے اور چاہا جائے تو اس سے یہ کام بھی لیا جا سکتا ہے (سوانح قاسمی ۲/۲۸۰)
حضرت نانوتوی ؒکے اجمال اور مولانا گیلانی ؒکی تفصیل سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ آپ عصری تعلیم کے مخالف نہیں تھے؛ لیکن ایک سوال جو اس وقت بڑے زور و شور سے کیا جاتا ہے کہ نصاب میں تبدیلی ہونی چاہیے اور عصری مضامین کو بھی نصاب کا حصہ بنانا چاہیے ، حضرت نانوتویؒ اس سوال سے بھی غافل نہیں تھے ،ان کی دور رس نگاہیں اس سوال سے واقف تھیں؛ اس لیے حضرت نے اس سوال کابہت ہی واضح جواب دیا تھا، جسے مولانا اسیر ادروی نے نقل کیا ہے :
ہم آدھا تیتر آدھابٹیر نہیں بنا سکتے ، دونوں طرح کے علوم کی مخلوط تعلیم کا نتیجہ یہ ہوگا کہ طالب علم کسی بھی علم و فن میں درجۂ کمال حاصل نہیں کرسکتا، نہ اسے جدید علوم حاصل ہوں گے نہ قدیم علوم(مولانا محمد قاسم نانوتوی- حیات اور کارنامے ص:۱۶۲)
مولانا گیلانی نے حضرت نانوتوی کا قول نقل کیا ہے :
زمانۂ واحد میں علوم کثیرہ کی تحصیل سب علوم کے حق میں باعثِ نقصانِ استعداد رہتی ہے۔ (سوانح قاسمی ۲/۲۸۳)
فلسفۂ قدیم و جدید
ایک مسلمان کے لیے دینی تعلیم از حد ضروری ہے؛اس لیے کہ اس پر آخرت کا مدار ہے ، کامیابی کی شاہ کلید ہے ، اخروی سرخ روئی کا زینہ ہے؛ لیکن عصری تعلیم بھی وقت کی ضرورت ہے، اس سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ہے ، ہمارے مدارس کی قدیم تاریخ یہ ہے، اس میں دینی علوم بھی پڑھائے جاتے تھے اور عصری اور سائنسی علوم بھی پڑھائے جاتے تھے ،یہی وجہ ہے تاریخ میںجو مسلم سائنس داں ، اطباء ، جغرافیہ کے ماہر ،اور ایجادات کے ماہرین کا تذکرہ ملتا ہے وہ سب مدارس کے تعلیم یافتہ تھے ، امام غزالی ہوں یا ابن رشد ، بوعلی سینا ہوں یا فارابی یا ابن ہیثم سب مدارس کے فارغ تھے ،سب کا لباس اور رہن سہن کا طریقہ ایک تھا، اگرچہ ان سب کے میدان الگ الگ تھے ۔ پہلے عصری اور دینی علوم کے نام سے الگ الگ ادارے نہیںہوا کرتے تھے ، ہندوستان میں بھی انگریزوں کی آمدسے پہلے کی یہی صورت حال تھی اور مدارس سے فارغ طلبہ سرکاری نوکریوں پر فائز ہوا کرتے تھے؛ لیکن انگریزوں کے ہندوستان آمد کے بعد صورت حال میں تبدیلی پیدا ہوئی اور انگریزوں نے مسلمانوں کا رشتہ قرآن سے کاٹنے کے لیے دینی تعلیم کی جگہ عصری تعلیم کو رائج کر دیا اور دینی تعلیم سے مسلمانوں کو دور کرنے کی کوشش کی ،اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے حضرت نانوتویؒ نے دینی تعلیم کی اشاعت و حفاظت کے لیے دارالعلوم کی بنیاد ڈالی ۔اس وقت دینی تعلیم کی حفاظت کا مسئلہ بڑی اہمیت کا حامل تھا؛اس لیے پوری توجہ دینی تعلیم پر دی گئی اور جس درجہ کے ماہرین کی ضرورت تھی، اس کے لیے ضروری تھا کہ یکسو ہو کردینی تعلیم حاصل کی جائے؛ اس لیے آپ نے دارالعلوم کے نصاب میں چند عصری کتابوںپر اکتفا؛ لیکن حضرت نانوتوی عصری تعلیم کے بالکل خلاف نہیں تھے؛ بلکہ آپ نے سرسید کے قائم کردہ ادارہ کی حتی الامکان تعریف و توصیف کی مولانا اسیر ادروی نے لکھا ہے :
حضرت نانوتوی نے انگریزی تعلیم کے لیے اسکولوں کے قائم کرنے پر ناپسندیدگی کا اظہار نہیں فرمایا؛بلکہ مسلمانوں میں سب سے پہلے سرسید نے کوشش کی تو ان کی جد و جہد اور جفا کشی کی تعریف ہی کی (مولانا محمد قاسم نانوتوی- حیات اور کارنامے ص:۲۱۹)
حضرت نانوتوی نے اگرچہ دینی و عصری علو م کو مخلوط نہیں کیا؛ لیکن اس کی اہمیت سے آپ نے کبھی انکار نہیں کیا؛ بلکہ آپ کا نظریہ یہ تھا کہ جن لوگو ں کو عصری علوم پڑھنا ہو مدارس کے نصاب کی تکمیل کے بعد وہ عصری علوم حاصل کریں، آپ نے اس کی حوصلہ افزائی فرمائی ۔ مولانا گیلانی نے مولانا نانوتوی کے نظریۂ تعلیم پر بڑی اچھی بحث کی ہے، اس میں انھوں نے حضرت نانوتوی کا جملہ نقل کیا ہے:
اس کے بعد (یعنی دارالعلوم دیوبند کے تعلیمی نصاب سے فارغ ہو نے کے بعد )اگر طلبہ مدرسہ ہذا ، مدارسِ سرکاری میں جا کر علومِ جدید ہ حاصل کریں تو ان کے کمال میں بات زیادہ مؤید ثابت ہوگی (سوانح قاسمی ۲/۲۸۱)
مولانا گیلانی اس کی تشریح و تفصیل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
سیدنا الامام الکبیر نے اپنے اس تعلیمی نظریہ کو پیش کیا ہے کہ پہلے دینی و اسلامی علوم کا نصاب دانش مندی کے فنون کے ساتھ ختم کر لیا جائے، جن کے بغیر خالص اسلامی علوم ، تفسیر ، شروح احادیث ، و فقہ وغیرہ کتابوں کے نہ مطالعہ ہی کی صحیح قدرت پیدا ہوسکتی ہے اور جیسا کہ چاہیے ان کتابوں سے استفادہ بھی بآسانی ممکن نہیں ، اس کے بعد جیسا کہ آپ دیکھ چکے صاف اور واضح لفظوں میں اپنی تجویز پیش کی ہے کہ علوم جدید ہ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے سرکاری مدارس میں مسلمان بچوں کو داخل کیا جائے (سوانح قاسمی ۲/۲۸۵)
زبان کے تعلق سے مولانا نانوتوی کا نظریہ
موضوع پر بات ختم کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ لسانیات کے تعلق سے بھی حضرت کا نظریہ سامنے آجائے تاکہ تعلیمی تجاویز طے کرنے میں سہولت ہو ، اس سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ حضرت نانوتوی کی زندگی کا زیادہ تر حصہ دفاع عن الدین (فرق باطلہ سے مقابلے) میں صرف ہوا ہے ،آپ کی پوری زندگی دفاعِ دین اور اشاعتِ دین سے عبارت ہے ،آپ نے آریہ سماجوں ،پنڈتوں اورعیسائی پادریوں سے مناظرے کیے اور خوب کیے اور مخالفین کے چھکے چھڑادئے۔ کسی بھی قوم اورزبان کے جاننے والوں سے مناظرہ کے لیے ضروری ہے کہ اس کے لیٹریچر کا مطالعہ کیا جائے اس لیے کہنا پڑے گا کہ حضرت نانوتوی فریق مخالف کے لیٹریچر سے کسی حد تک واقف تھے، اگر چہ ہمارے پاس اس سلسلے میں کوئی ایسی شہادت نہیں ہے جو اس جگہ پیش کی جا سکے؛ البتہ زبان کی اہمیت حضرت کے نزدیک کس درجہ مسلم تھی اس کا اندازہ ایک واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے جو مولانا گیلانی نے نقل کی ہے :
اس سلسلے میں ایک دلچسپ بات وہ ہے جسے براہ راست اس فقیر نے مولانا حافظ محمداحمد صاحب مرحوم سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند سے سنی تھی ، اپنے والد مرحوم حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ بانی دارالعلوم دیوبند کے متعلق یہ قصہ بیان کرتے تھے کہ آخری حج میں جارہے تھے تو کپتان جو غالبا کوئی اٹالین (اٹلی کا باشندہ)تھا ، عام مسلمانوں کے اس رجحان کو جسے مولانا کے ساتھ عموما وہ دیکھ رہا تھا کہ یہ کون صاحب ہیں؟ حجاج میں کوئی انگریزی جاننے والے مسلمان بھی تھے انھوں نے کپتان سے مولانا کے احوال بیان کیے ، اس نے ملنے کی خواہش ظاہر کی، مولانابہ خوشی کپتان سے ملے ، کپتان نے اجازت چاہی کہ کیا مذہبی مسائل پر گفتگو کر سکتا ہوں، مولانا نے اسے بھی منظور فرمالیا ، وہی انگریزی داں صاحب ترجمان بنے ، کپتان پوچھتا تھا اور مولانا جواب دیتے تھے ، تھوڑی دیر کے بعد مولانا کے خیالات سن کر وہ کچھ مبہوت سا ہوگیا اور مولانا کے ساتھ اس کی گرویدگی اتنی بڑھی کہ قریب تھا کہ اسلام کا اعلان کر دے ، اس نے شاید وعدہ بھی کرلیا کہ وہ ہندوستان حضرت سے ملنے کے لیے حاضر بھی ہوگا ۔ اس واقعہ کا مولانا ؒ پر اتنا اثر پڑا کہ آپ نے جہاز ہی پر عزم فرما لیا کہ واپس ہونے کے بعد میں انگریزی زبان خود سیکھوں گا؛ کیوں کہ مولانا کو محسوس ہو رہا تھا کہ جتنا اثر کپتان پر براہ راست گفتگوسے پڑ سکتا تھا ترجمان کے ذریعہ وہ بات نہیں حاصل ہو رہی ہے ( الامام محمد قاسم نانوتویؒ- حیات، افکار ،خدمات ص:۲۸۴)
اس جگہ ضروری معلوم ہوتا ہے مولانا گیلانی کا وہ اقتباس بھی نقل کردیا جائے جس میں انھوں نے دارالعلوم دیوبند میں مطالعۂ ادیان کرانے پر زور دیا ہے ، جس کی موجودہ ماحول میں بڑی شدت سے ضرورت محسوس کی جارہی ہے؛اس لیے کہ تمام مذاہب کی بنیادی باتوں کو پڑھنا اور برادران وطن کے ساتھ اس سلسلے میں گفت و شنید کرنا وقت کا بہت اہم تقاضہ ہے۔ مولانا گیلانی لکھتے ہیں :
جاننے والے جانتے ہیں کہ دارالعلوم دیوبند میں جب کبھی موقع ہمدست ہو ا، ہندو دھرم کی علمی زبان سنسکرت کے سکھانے کا بھی نظم کیا گیا ، یا وظیفہ دے کر طلبہ کو ان زبانوں کے سیکھنے کے لیے بھیجا گیااور آج بھی ضرورت ہے کہ کچھ نہیں تو کم از کم ہندوستان کے مروجہ مذاہب و ادیان کے متعلق صحیح معلوما ت سے دارالعلوم کے طلبہ کو روشناس کرانے کی ممکنہ صورتیں اختیار کی جائیں؛ بلکہ ہندی زبان دیوناگری خط کے ساتھ جب اس ملک کی دفتری زبان مانی جاچکی ہے تو قدرتاً اس کی وجہ سے اس زبان کی تعلیم کا انتظام زیادہ آسان ہوچکا ہے ۔ میرا خیال تو یہ ہے کہ اسلامیات کا جو ذخیرہ اردو زبان میں پایا جاتا ہے ، اس سے بھی زیادہ سرمایہ اسلامی تعلیمات کا ہندی میں منتقل کر دیا جائے ، یہ ہمارا ایک تبلیغی فرض ہے ، انشاء اللہ یہ خواب پورا ہوکر رہے گا ( سوانح قاسمی ۲/۴۷۹)
مولانا نانوتوی کی فکر اور ان کی عملی زندگی اور مولانا گیلانی کی تحریر سے انگریزی ،ہندی اور علاقائی زبان کے ساتھ ساتھ مذاہب ادیان کے مطالعہ کی اہمیت بھی اجاگر ہوجاتی ہے ، یہ وہ حقیقت ہے جس کی طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
حضرت نانوتوی ؒکے نظریۂ تعلیم کی روشنی میں تعلیمی تجاویز
حضرت نانوتوی کے تعلیمی نظریہ کے مطالعہ کے بعد چند باتیں کھل کر سامنے آتی ہیں، جنہیں تعلیمی ہدف میں شامل کیا جاسکتا ہے ۔
٭دینی تعلیم ہر شخص کے لیے لازمی ہونی چاہیے؛ اس لیے کہ دین سے اگر ہمارا رشتہ کٹ جائے گا تو ہمارا وجود ، ہمارا ایمان اور ہماری تہذیب سب کچھ خطرے میں پڑ سکتی ہے اور مسلمان اس علم سے محروم ہونے کے بعد مسلمان نہیں رہ سکتا ہے؛ اس لیے سب سے پہلے بچوں کو دینی تعلیم ملنی چاہیے ،علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے :
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرۂ تکبیر بھی فتنہ
٭سر سید نے عصری علوم کا ادارہ قائم کیا تو مولانا نانوتوی ؒنے اس کی تعریف فرمائی جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ عصری ادارے قائم ہونے چاہیے اور اس کی حوصلہ افزائی بھی ہونی چاہیے لیکن مسلمانوں کے اپنے عصری اداروں میں دینیات کی تعلیم کا بھی معقول نظم ہونا چاہیے؛ تاکہ طلبہ دینی تعلیم سے بے بہرہ نہ رہ جائیں ، یہ ہماری بہت بڑی کمزوری ہے، اس جانب خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
٭ایسا بھی نہیں کیا جا سکتا ہے کہ پہلے عصری تعلیم دے دی جائے پھر دینی تعلیم دی جائے اس لیے کہ بچپن میں جو تعلیم دی جائے گی اس کا نقش دل میں اس طرح بیٹھ جائے گا کہ بعد میں وہ دینی تعلیم کی طرف مائل ہی نہیں ہوگا ۔ایسا بہت ہوتا ہے کہ بچوں کو عصری تعلیم دلاکر کسی عالم یا حافظ کو گھر میں رکھ کر قرآن او رضروری بنیادی تعلیم دلادی جاتی ہے؛ لیکن اس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا ہے اور بچوں میں اس طرح اسلامی رجحان پیدا نہیں ہوسکتا ہے ۔
٭دینی تعلیم سے رسمی فراغت کے بعد طلبہ عصری علوم کی تحصیل کے لیے یونیورسٹی اور کالج جاسکتے ہیں اسی طرح عصری علوم پڑھنے کے بعد طلبہ کو مدارس میں آنا چاہیے،جہاں وہ اپنی تعلیم کے اثرو رسوخ کو بھی قائم کریں گے اور ان کی صلاحیت میں مزید پختگی بھی پیدا ہوگی وہ دین و شریعت کے عالم ہونے کے ساتھ ساتھ زمانے کے تقاضوں اور چیلنجوں کوبھی قبول کرسکتے ہیں ۔
٭مولانا گیلانی نے حضرت نانوتوی کے حوالے سے لکھاہے کہ انھیں عصری تعلیم کا مقدمہ پڑھا دیا گیا ہے ،اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے دینی مدارس کے نصاب میں چند ایسی کتابیں شامل کی جاسکتی ہیں جن سے عصری تعلیم کی تمہید بچوں کو معلوم ہو سکیںاگر وہ عصری مدارس میں جائیں تو آسانی سے کامیابی کا زینہ طے کر سکیں ، اور اگر وہ عصری اسکول میں نہ بھی جائیں تو زندگی میں یہ تعلیم اس کی بنیادی ضرورت کو پورا کرسکے؛ لیکن یہ شمولیت اسی حد تک ہونی چاہیے کہ دینی علوم کی پختگی میں کسی قسم کا رخنہ نہ پڑے ،مثلا ابتداء کی چند کلاسوں میں انگریزی کی ابتدائی چند کتابیں پڑھا دی جائیں؛ تاکہ طلبہ اس زبان سے کسی حد تک واقفیت حاصل کرکے اپنی دنیوی ضرورت کو کسی حد تک پوری کرسکیں ۔
٭ہمارے مدارس کے نصاب میں انگریزی زبان بھی شامل ہونی چاہیے؛ اس لیے کہ یہ اس وقت عالمی زبان ہے جس کی ہر وقت اور ہر سطح پر ضروت پڑتی ہے۔
٭مطالعۂ مذاہب ادیان بھی ہمارے نصاب کا حصہ ہونا چاہیے ،موجودہ حالات میں اس کی شدت سے ضرورت محسوس کی جارہی ہے ایک سوامی اور پنڈت ہمارے پروگراموں میں آتا ہے اور اسلام کی بنیادی باتیں بتا کر چلاجاتا ہے؛ لیکن ہم ان کے پروگرام میں جا کر ان کے مذہب کی ابتدائی باتیں نہیں کر سکتے ہیں ، آج اس کی ضرورت ہے اگرہم باضابطہ اس کو نصاب میں شامل نہیں کر سکتے ہیںتو کم از کم خارجی مطالعہ میں ہی اس کو شامل کیا جا سکتا ہے ۔
——————————————-
دارالعلوم ، شمارہ : 8، جلد:102، ذیقعدہ- ذی الحجہ 1439ھ مطابق اگست 2018ء
٭ ٭ ٭