از:  مدثر جمال تونسوی

استاذ العقیدۃ والحدیث جامعۃ الصابر، بھاولپور

امام ماتریدی کی زندگی کے عمومی نقوش

            امام ماتریدی کے زمانے میں ماوراء النہر کے علاقے میں جو گمراہ فرقے تھوڑی یا زیادہ تعداد میں موجود تھے، ان میں سے تین قابل ذکر ہیں: معتزلہ، شیعہ اور کرامیہ، جب کہ غیر مسلموں میں سے فلاسفہ کی کتب کے عربی تراجم ہونے کی وجہ سے ان کا نام بھی عالم اسلام میں کافی گونج رہاتھا؛ چنانچہ امام ماتریدی نے ان سب کے خلاف اہل سنت کی ترجمانی اور دفاع کا محاذ سنبھالا اور اسی لیے ’’امام الہدی‘‘ ان کا لقب قرار پایا۔

            اسی لیے تفسیر ماترید ی کا مطالعہ کرنے والا جابجا اس حقیقت کا مشاہدہ کرتا ہے کہ امام ماتریدی  بڑی وضاحت و صراحت اور قوت کے ساتھ ان گمراہ فرقوں کی تردید کرتے ہیںاور شاید ہی کوئی ایسا مقام ہو جہاں ان فرقوں کی تردید کی نوبت آئے اور امام ماتریدی خاموشی سے گزر جائیں۔ امام ماتریدی کی تفسیر گویا اس حوالے سے منفرد حیثیت رکھتی ہے کہ آپ نے آیات قرآنیہ کی تفسیر و تاویل میں اہل سنت کے نظریے کو بھی بیان کیا ہے اور ساتھ ساتھ گمراہ فرقوں کے نظریات اور ان کی تردید کو بھی سامنے رکھا ہے ، اس طرح یہ عظیم کتاب ’’تقابلی مطالعے‘‘ کا ایک بہترین اور شاہکار نمونہ قرار پاتی ہے اورجو لوگ سمجھتے ہیں کہ تقابلی مطالعے کی روایت عصر حاضر میں پڑی ہے اور متقدمین اہل علم اس ضروری پہلو سے ناواقف تھے، ان کی غلط فہمی بھی اس کے بعد دور ہوجانی چاہیے۔

تالیفات

            (۱)تاویلات اہل السنۃ: جو تفسیر ماتریدی کے نام سے بھی مشہور ہے۔ اس تفسیر میں امام ماتریدی کے طرز تفسیر کو درج ذیل نکات میں دیکھاجاسکتا ہے:

            تفسیر القرآن بالقرآن۔  امام ماتریدی کے ہاں اس کا خاص اہتمام نظر آتا ہے کہ آپ جہاں ایک آیت کی تفسیر دوسری آیت میں دیکھتے ہیں یا دونوں کے مقاصد کو یکجا دیکھتے ہیں تو اس کی طرف ضرور رہنمائی فرمادیتے ہیں۔

            تفسیر القرآن بالسنۃ النبویۃ: امام ماتریدی کی زندگی میں اگرچہ علم حدیث سے بہت زیادہ لگاؤ کا سراغ نہیں ملتا کیوں کہ آپ کے حالات زندگی بہت ہی کم دستیاب ہیں مگر تفسیر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے پاس احادیث و آثار کا بھی کافی ذخیرہ موجود تھا؛ چنانچہ راقم السطور نے دیکھا تو کم وبیش ہرصفحے دو صفحے بعد متعدد احادیث و آثار ملے۔

            تفسیر القرآن باللغۃ العربیۃ: متعدد مقامات پر نہایت اہتمام کے ساتھ عتبی اور عوسج کے حوالے سے لغات کا بھی ذکرکرتے ہیں اور کئی مقامات پر اس مقصد کے لیے باقاعدہ عربی اشعار بھی بہ طور حوالہ پیش کرتے ہیں۔

            فقہی اختلافات کا بیان: اگرچہ امام ماتریدی نے اس موضوع کا زیادہ اہتمام نہیں کیا؛ مگر پھر بھی جہاں ضرورت محسوس ہوئی کہ فقہ حنفی کا استدلال واضح کیاجائے وہاں فقہ حنفی کے استدلال اور اس کی ترجیح کو بڑی خوبی سے بیان کیا ہے اور کئی مقامات پر بعض ایسے فقہی استدلالات پیش کیے ہیں جو دیگر متداول کتب میں کم ہی نظر آتے ہیں۔

            گمراہ فرقوں کی تردید: یہ تو امام ماتریدی کا خاص موضوع ہے؛ چنانچہ کسی بھی آیت سے اگر معتزلہ نے، یا کرامیہ نے، یا باطنیہ نے، یا فلاسفہ نے، یا روافض نے کوئی استدلال کیا ہے تو امام ماتریدی ان کے استدلال کے غلط ہونے کو واضح کرتے ہیں اور پھر جن جن قرآنی آیات سے ان کے نظریات کا باطل ہونا معلوم ہوتا ہے وہاں بھی اس پر پوری پوری تنبیہ کرتے چلے جاتے ہیں۔

            تفسیر کا مجموعی انداز قدرے دقیق ہے مگر تسلسل سے مطالعہ کیا جائے تو انداز و اسلوب سمجھ آجانے کے بعد استفادہ کافی آسان ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ تفسیر متعدد محققین کی تحقیق سے شائع ہوچکی ہے۔ راقم السطور کے پاس اس کا وہ نسخہ ہے جو پانچ جلدوں میں ہے اور محترمہ فاطمہ یوسف الخیمی کی تحقیق سے شائع ہوا ہے۔

            اس تفسیر کے بارے میں علامہ عبدالقادر القرشی نے الجواہر المضیئۃ میں جو تبصرہ کیا ہے وہ قابل ذکر ہے اور اس کتاب کی اہمیت پر پورا پورا شاہد ہے۔

بانہ کتاب لایوازیہ فیہ کتاب بل لایدانیہ شیء من تصانیف من سبقہ فی ذلک الفن۔ (الجواہر المضیئۃ،ج۲، ص۱۳۰)

            یہ ایسی کتاب ہے کہ کوئی اور کتاب اس کی ہم پلہ نہیں بلکہ سابقین کی کوئی کتاب اس کے قریب بھی نہیں پہنچ پاتی۔

            جب کہ علامہ محمد زاہد بن حسن الکوثری کا تبصرہ یہ ہے:

کتاب لانظیرلہ فی بابہ۔ (مقدمۃ اشارات المرام، ص۷)

            اس باب میں اس کتاب کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔

            (۲)کتاب الجدل

            (۳)ماخذ الشرائع

            یہ دونوں کتابیں اصول فقہ پر ہیں، اور بعض اہل علم کے مطابق چھٹی صدی ہجری تک علمائے احناف کے ہاں یہ کتابیں مروج رہیں، بعد میں جب پانچویں صدی ہجری میں ابوزید عمر الدبوسی کی تقویم الادلۃ، فخر الاسلام بزدوی کی کنزالاصول فی معرفۃ الاصول، اور شمس الائمۃ سرخسی کی کتاب الاصول سامنے آئیں تو تسہیل و ترتیب جدید وغیرہ کے پیش نظر یہ کتابیں مقبول ہوگئیں اور دقت وپیچیدگی کی وجہ سے امام ماتریدی کی کتابیں پردۂ خفا میں چلی گئیں۔ (کشف الظنون للحاجی خلیفہ۔ج۱۔ص۱۱۰)

            چنانچہ اب بھی علمائے حنفیہ کی اصولی کتب میں اور پھر خود امام ماتریدی کی تفسیر میں کئی مقامات پر اصول فقہ کے مباحث موجود ملتے ہیں جو اس بات کی دلیل ہیں کہ امام صاحب فقط علم کلام اور علم عقائد کے ہی ماہر نہ تھے بلکہ اصول فقہ میں بھی ان کا اپنا خاص اور منفرد مقام تھا اور بعض مستقل آرا تھیں۔

          (۴)کتاب التوحید

            امام ماتریدی نے عقائد کے باب میں خصوصا الٰہیات کے باب میں یہ کتاب تحریر کی ہے اور اس کا نام کتاب التوحید رکھ کر یہ واضح کیا ہے کہ دین اسلام کا اساسی پیغام توحید ہے اور دین اسلام سے باہر کے فرقے ہوں مثلا فلاسفہ و ثنویہ اور مانویہ وغیرہ یا اسلام کے اندر موجود گمراہ فرقے ہوں وہ سب کے سب ابتدائی طور پر جو ٹھوکر کھاتے ہیں وہ اسی توحید کے کسی نہ کسی پہلوسے متعلق ہوتی ہے۔

            اسی لیے اس کتاب میں مصنف نے صرف اسلام کے نظریہ توحید کو بیان کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ پوری تفصیل کے ساتھ دیگر ادیان اور گمراہ کے فرقوں کے مقالات کی تردید کو پیش نظر رکھا ہے، اسی لیے اس کتاب میں ان فرقوں کے مقالات بھی کافی مقدار میں سامنے آجاتے ہیں؛ چنانچہ حافظ ابن عساکر تبیین کذب المفتری میں لکھتے ہیں:

ان مقالات تلک الفرق مبسوطۃ فی کتب الاشعری و الماتریدی و الاسفرائینی (ص۲۰)

            ان فرقوں کے اَقوال ، امام اشعری، امام ماتریدی اور امام اسفرائینی کی کتابوں میں تفصیل سے موجود ہیں۔

            اس کتاب میں امام ماتریدی نے جو مباحث ذکر کیے ہیں وہ درج ذیل ہیں :

            نظریہ معرفت کی وضاحت

            عقیدہ الوہیت کی اہمیت اور اس کے دلائل

            دھریہ کا رد

            سمنیہ کا رد

            سوفسطائی کا رد

            ثنویہ کا رد

            دیصانیہ کا رد

            مرقونیۃ کا رد

            مسئلہ قضاء وقدر کی بحث

            مسئلہ ایمان کی بحث

            مسئلہ شفاعت اور مسئلہ ارجاء کی بحث

            ایمان اور اسلام کی بحث

            اس کتاب کے بارے میں امام ابوالیسر البزدوی کا یہ تبصرہ قابل توجہ ہے:

            ان بہ قلیل انغلاق و تطویلا و فی ترتیبہ نوع تعسیر و انہ لولا ذلک لاکتفینا بہ

            اس کتاب میں قدرے پیچیدگی، طوالت اور ترتیب بھی کچھ مشکل ہے ، اگر یہ باتیں نہ ہوتی تو ہم اسی کتاب کو کافی سمجھتے (اور خود سے اس موضوع پر کوئی کتاب تحریر نہ کرتے)۔(اصول الدین لابی الیسر البزدوی)

            امام ماتریدی کی اس کتاب اور اس موضوع سے متعلق آرا و افکار کی اہمیت کا اس سے بھی اندازہ لگائیے کہ علامہ ابن الہمام کی المسایرۃ، عقیدہ نسفیہ اور اس کی شروحات، علامہ بیاضی حنفی کی اشارات المرام، علامہ ابوالیسر بزدوی کی اصول الدین، حافظ ابوالبرکات نسفی صاحب کنزالدقائق کی کتاب العقیدہ، وغیرہ میں امام ماتریدی کے اسلوب کی پیروی کی گئی ہے اور ان کی آرا کو اہتمام کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔

            یہ کتاب عصرحاضر میں ترکی کے ایک محقق کی کاوش سے شائع ہو کر عرب و عجم میں اہل علم کی توجہ کا مرکز بن چکی ہے۔ الحمد للہ

            (۵)شرح الفقہ الاکبر۔ اس نام سے چونکہ امام ماتریدی کی طرف کتاب منسوب ہو کر شائع ہوئی ہے؛ اس لیے اس کا ذکر کردیا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب امام ماتریدی کی تالیف نہیں ہے اور کہیں بھی سیرت نگاروں نے اس نام کی کتاب ان کی طرف منسوب نہیں کی۔ عصر حاضر میں جس ادارے نے بھی اسے شائع کیا ہے انھیں یقینا اس بارے میں کوئی سہواور غلط فہمی ہوئی ہے؛ بلکہ حقیقت میں یہ کتاب امام ابواللیث سمرقندی(متوفیٰ۳۷۳ھ) کی تالیف ہے۔ امام زاہد الکوثری اور امام محمد ابوزہرہ کی یہی تحقیق ہے؛ اس لیے اہل علم اس نکتے پر متنبہ رہیں۔

             (۶)مقالات الماتریدی۔ اس کتاب میں بھی امام صاحب نے مختلف فرقوں کے نظریات کا جائزہ پیش کیا ہے۔ علامہ طاش کبری زادہ،علامہ بغدادی، علامہ عبدالقادر القرشی ، علامہ مرتضی زبیدی اور علامہ عبدالحئی لکھنوی نے امام ماتریدی کی تالیفات میں اس کتاب کا ذکر کیا ہے۔

            (۷) الدرر فی اصول الدین۔کشف الظنون اور ھدیۃ العارفین میں اس کا ذکر ملتا ہے۔

            (۸) العقیدۃ الماتریدیۃ۔ ھدیۃ العارفین میں اس کا ذکر ملتا ہے؛ مگر علماء کی رائے یہ ہے کہ یہ عقیدہ ان کی طرف منسوب کردیا گیا ہے، ان کی تالیف ہے نہیں۔

            (۹) بیان وہم المعتزلۃ۔ کشف الظنون، مفتاح السادۃ، ھدیۃ العارفین اور الجواہر المضیئۃ وغیرہ میں اس کا ذکر ملتا ہے؛ مگرغالب گمان یہ ہے کہ یہ کتاب بھی اب مفقود ہے۔

            (۱۰) رد تہذیب الجدل۔ علامہ طاش کبری زادہ، حاجی خلیفہ، اور اسماعیل باشا نے اس کا ذکر کیا ہے۔ ابوالقاسم الکعبی المعتزلی(متوفیٰ۳۱۹ھ) نے تہذیب الجدل کے نام سے کتاب لکھی تھی،یہ اسی کتاب کا ر د ہے۔ اور اب یہ کتاب بھی مفقود ہے۔

            (۱۱) رد وعید الفساق۔ یہ کتاب بھی ابوالقاسم الکعبی المعتزلی کی کتاب ’’وعید الفساق‘‘ کا ردّ ہے۔ یہ کتاب بھی مفقود ہے۔

            (۱۲) رداوائل الادلۃ۔ یہ کتاب بھی ابوالقاسم الکعبی المعتزلی کی کتاب ’’اوائل الادلۃ‘‘ کا ردّ ہے، اور اب مفقود ہے۔

            (۱۳) ردّالاصول الخمسۃ۔ الاصول الخمسۃ ابو محمد الباہلی(متوفیٰ۳۰۰ھ) کی کتاب تھی، جس کا امام ماتریدی نے رد لکھا۔

            (۱۴) الردّ علیٰ القرامطۃ۔

            (۱۵) الردّ علی فروع القرامطۃ۔

            (۱۶) ردّالامامۃ ۔ یہ کسی رافضی کی کتاب ’’الامامۃ‘‘ کا رد ہے۔

            (۱۷) وصایا و مناجاۃ ۔ فارسی زبان میں۔

            (۱۸) رسالۃ فیما لایجوز الوقوف علیہ فی القرآن۔

            یہ آخری سب کتابیں بھی مفقود ہیں۔

اختتامیہ

            امام ماتریدی کی حیات و خدمات کا تقاضا یہ ہے کہ اس پر مستقل اور مفصل کام ہو، اور دوسروں کو تو چھوڑئیے ہم خود اور ہمارے اکابر جن کی طرف اپنی نسبت فخر سے فرمایا کرتے تھے تو ان کا حق بنتا ہے کہ ہم ان کے علوم و فیوض سے خود بھی مستفید ہوں اور دیگر طالبانِ علم کے سامنے بھی ان کے علوم وفیوض کا خوان پیش کریں۔ یہ بات اگرچہ کسی حد تک بجا ہے کہ اب تک امام ماتریدی کے اصل علمی خزائن مخطوطات کی شکل میں محدود تھے اور ان سے استفادہ آسان نہ تھا مگر اب جب کہ آپ کی دو اہم ترین کتابیں: تفسیر اور کتاب التوحید شائع ہوچکی ہیں، تو ان سے بھرپور استفادہ کیاجائے اور امام ماتریدی کی علمی آراء اور نظریاتی تحقیقات کو سامنے لایاجائے۔

            امام ماتریدی کی فکر کے اعتدال اور جامعیت کا نمونہ دیکھنے کے لیے کتاب التوحید میں ذکر کردہ ان کا یہ ضابطہ دیکھ لیاجائے جو ان کی فکر میں اساس کی حیثیت رکھتا ہے۔ فرماتے ہیں:

            اصل ما یعرف بہ الدین وجہان: احدھما السمع والآخر العقل (کتاب التوحید، ص:۴)

            دین جن طریقوں سے پہچاناجاتا ہے اس کی اصل دو چیزیں ہیں: (۱)نقل (۲)عقل

            اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ بندہ ناچیزکے یہ سطور اپنی بارگاہ میں قبول فرمائیں۔

—————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ : 8،  جلد:102‏،  ذیقعدہ- ذی الحجہ 1439ھ مطابق اگست 2018ء

٭           ٭           ٭

Related Posts