از:  شایان احمد صدیقی                                      

متعلّم تخصص فی علوم الحدیث، بنوری ٹائون کراچی 

            برصغیر پاک وہند کے مطلع پر جب اسلام کا آفتاب طلوع ہوا تو اس کی روشنی نے یہاں کے افراد کی علمی وعملی صلاحیت کو جلا بخشی، جس کی بدولت اقوام برصغیر نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیے کہ وہ علمائے دہر کی اولین صفوں میں شامل ہوگئے۔ یہاں کی مٹی سے ان نفوس قدسیہ نے جنم لیا جو دنیائے علم وادب کے لیے باعث صد افتخار ہیں۔ شیخ علی متقی ؒ(۹۷۵ھ) صاحب ’’کنز العمال‘‘، علامہ طاہر پٹنیؒ (۹۸۶ھ) صاحب ’’مجمع بحار الانوار‘‘ اور خانوادۂ ولی اللہؒ سے لے کرکاروان علمائے دیوبند اس کا شاہد عدل ہیں۔ تیرھویں صدی ہجری میں اس عظیم قافلے کے ایک فردعلامہ ظہیر احسن شوقؔ نیمویؒ نے اس دنیائے رنگ وبو میں آنکھ کھولی اور اپنی تصانیف سے ایک عالم کو سیراب کیا۔ آپ کی تصنیف ’’آثارالسنن‘‘  کو شہرت دوام حاصل ہے۔ ذیل میں علامہ نیمویؒ کے حالات کا ذکر اور ان کی کتاب کا مفصل تعارف پیش کیا جاتا ہے۔

            ولادت باسعادت: علامہ نیمویؒ ۱۲۷۸ھ؍۱۸۶۱ء کو اپنی خالہ کے گھر موضع صالح پور میں پیدا ہوئے۔

            نام ونسب: آپ کا نام محمد ظہیر احسن، کنیت ابو الخیر اوردنیائے شعر وادب کا تخلص’’ شوق‘‘ ہے، جب کہ مادۂ تاریخ ولادت سے تاریخی نام ’’ظہیر الاسلام‘‘ بعدد ۱۲۷۸ھ ہے۔ موضع نیمی(۱) ضلع پٹنہ آپ کا وطن مالوف ہے۔ اور اسی نسبت سے نیموی مشہور ہیں۔ انتالیس(۳۹) واسطوں سے آپ کا نسب سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ سے ملتا ہے۔علامہ نیمویؒ اپنے نام، کنیت اور تخلص کو منظوم بیان کرتے ہوئے ایک رباعی میں فرماتے ہیں:

شوق است تخلصم ظہیر احسن نام

در قریہ دلنواز نیمی از مقام

شد از پئے کنیتم ابو الخیر الہام

تاریخ تولدم ظہیر الاسلام

            آپ کے والد شیخ سبحان علی صدیقی موضع نیمی کے معزز اور صاحب علم آدمی تھے۔ آپ کے والد ماجد نے دو نکاح کیے تھے اورعلامہ نیموی ؒدوسری بیوی کے بطن سے تھے۔

            تعلیم وتربیت: علامہ نیمویؒ کی عمر جب چھ سال کی ہوئی تو مکتب میں تعلیم کے لیے بٹھا دیے گئے جہاں آپ نے شیخ عبد الوہاب المعروف شاہ دیدار علی (متوفی ۱۲۹۲ھ) سے فارسی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ عربی کی تعلیم اپنے والد شیخ سبحان علی صدیقی (۱۲۹۶ھ) اور دیگر اساتذئہ فن سے حاصل کی۔

            علامہ نیمویؒ کی فطرت میں باری تعالی نے بچپن ہی سے ذہانت وفطانت ودیعت رکھی تھی۔ اس لیے اساتذہ کے محبوب رہے۔ آپ کے والد چونکہ علم دوست آدمی تھے اور ان کی خواہش تھی کہ ان کا یہ ہونہار سپوت اچھی استعداد کا عالم بنے؛ اس لیے ایک مرتبہ مدرسہ میں تاخیر ہوجانے کی وجہ سے والد صاحب نے تنبیہ فرمائی۔ اس تادیبی کاروائی کو اللہ جل شانہ نے بارآور کر دکھایا اور علامہ نیموی کی صورت میں ایک عظیم محدث جلوہ نما ہوا۔

            ابتدائی تعلیم کے بعد عظیم آباد (پٹنہ) گئے اور وہاں عربی کے مشہور عالم مولانا محمد سعید حسرت عظیم آبادی (۱۳۰۴ھ) کی خدمت میں رہ کر عربی زبان وادب کی تکمیل کی۔

            ۱۲۹۶ھ میں مدرسہ چشمۂ رحمت غازی پور گئے اور مفتی محمد فرنگی محلّی کے پاس ٹھہرے، پھر آپ میرنور علی استانوی کے گھر میں قیام پذیر ہوئے اور اسی مدرسہ میں رہ کر مفتی محمد، شیخ عبد اللہ اور دیگر مشاہیر فن سے کسب فیض کیا۔علامہ نیمویؒ غازی پور میں تقریبا چار برس قیام پذیر رہے اور اس دوران کتب متوسطہ متداولہ کی تکمیل کی۔

            اس وقت شمال مشرقی ہندوستان میں علمائے فرنگی محل کے فضل اور تفقہ کا آفتاب اپنی آب وتاب کے ساتھ جلوہ نما تھا اور دور دور تک ان کے فضل وکمال کا شہرہ تھا۔ اطراف عالم سے طالبان علوم نبوت اپنی تشنگی دور کرنے کے لیے وہاں کا رخ کرتے تھے۔ فرنگی محل کے مسند درس پر علامہ عصرعلامہ عبد الحئی لکھنوی (۱۳۰۴ھ) متمکن تھے؛ اس لیے آپ نے لکھنؤ جا کر ان سے کسبِ فیض کیا اور تفسیر، حدیث، فقہ اور اصول فقہ کی کئی کتابیں پڑھیں۔ ان کی صحبت میں رہ کر علامہ نیمویؒ نے علم حدیث میں خاص ملکہ پیدا کیا جس کا ظہور بعد میں’’آثار السنن‘‘ کی صورت میں جلوہ گرہوا۔

            اس دوران آپ کی بلند ہمت طبیعت نے اسی پر بس نہیں کیا؛ بلکہ ان علوم کے ساتھ ساتھ آپ فن طب کی طرف بھی متوجہ ہوئے اور حکیم باقر حسین سے فن طب میں اکتساب فیض کیااور اس میں مہارت تامہ پیدا کی۔

            لکھنؤ میں آپ کے قیام کا زمانہ پانچ برس کا ہے۔ اس دوران آپ نے علوم تفسیر، حدیث، اصول، فقہ اور طب کی منتہی کتابیں پڑھیں اور رسمی تعلیم سے فراغت حاصل کی اور وطن واپس ہوئے۔

            حضرت مولانا فضل رحمن گنج مراد آبادی ؒکے آستانہ پر: علامہ نیمویؒ اپنی تمام تر علمی، ادبی اور سفری مشاغل کے باوجود کبھی یاد خدا سے غافل نہ رہے۔ ہر دم ذکر الٰہی میں لگے رہتے۔ ایک مرتبہ کسی شیخ کے دست حق پرست پر بیعت ہونے کا داعیہ قلب میں پیدا ہوا تو حضرت مولانا فضل رحمن گنج مرادآبادیؒ (۱۳۱۲ھ) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیعت کے ساتھ ساتھ تمام کتب حدیث کی سند عموماً اور مسلسلات کی سند خصوصا ان سے حاصل کی؛ چنانچہ موصوف کا بیان ہے :

’’لما حضرت عندہ بعدما فرغتُ عن تحصیل الکتب الدرسیہ من المعقولات والمنقولات، حدثنی بحدیث الرحمۃ المسلسل بالأولیۃ وہو أول حدیث سمعتہ منہ۔۔۔۔۔ ثم قرائت علیہ عدۃ أحادیث من الجامع الصحیح للإمام البخاري رحمہ اللّٰہ علیہ الباری، ثم أجازني بجمیع مرویات من الأحادیث وببعض من الأوارد التي ہي لَخیر الدارین‘‘(۲)۔

            ’’جب میں علوم متداولہ سے فراغت کے بعد ان کے پاس پہنچا تو انھوں نے سب سے پہلے مجھے حدیثِ رحمت سنائی، اس کے بعد میں نے آپ سے بخاری شریف کی چند احادیث پڑھیں، تو آپ نے مجھے تمام مروی احادیث اور بعض ان اوراد ووظائف کی بھی اجازت دی جو دونوں جہاں کی فلاح کے لیے ہیں‘‘۔

            شیخ عبد الحق مہاجر مکیؒ سے روایت حدیث کی اجازت: حضرت مولانا فضل رحمن گنج مراد آبادیؒ کے علاوہ علامہ نیمویؒ کو شیخ عبد الحق مہاجر مکیؒ سے بھی روایت حدیث کی اجازت حاصل ہے۔ شیخ عبد الحق نے علامہ کو یہ اجازت ایک خط کے جواب میں دی تھی۔ شیخ نے لکھا:

’’قد اجزت الہمام المذکور بجمیع ما یجوز لی روایتہ من کتب الحدیث ومن کتب التفسیر وبجمیع الأوراد والأذکار، وغیرھا إجازۃ عامۃ تامۃ‘‘(۳)۔

            ’’میں اس عالی ہمت شخص کو تمام کتب حدیث وتفسیر اور ان تمام اوراد واذکار کی روایت کی اجازت دیتا ہوں جن کی مجھے اجازت حاصل ہے‘‘۔

            اساتذئہ فن: آپ نے علوم عربیہ اور تفسیر وحدیث شمس العلماء مولانا محمد سعید حسرت عظیم آبادیؒ، مولانا محمد عبد الاحد شمشاد لکھنویؒ، مولانا محمد عبد الحی محدث لکھنویؒ، مولانا محمد عبد اللہ غازی پوریؒ سے حاصل کیے۔علم طب حکیم باقر حسین لکھنوی سے حاصل کیا۔علم سلوک وطریقت حضرت مولانا فضل رحمن گنج مراد آبادیؒ سے حاصل کیے اور علم عَروض ونظم امیر اللہ تسلیمؔ لکھنویؒ سے حاصل کیا۔

            علامہ نیمویؒ کے اساتذہ میں مولانا عبد اللہ غازی پوری غیر مقلد تھے اور علم طب کے استاد حکیم باقر حسین لکھنوی شیعہ تھے۔

            علامہ نیمویؒ کو تفسیر، حدیث، فقہ اور دوسرے علوم وفنون کی اجازت حضرت شاہ محمد عبد الحق مہاجر مکیؒ اور شاہ فضل رحمن گنج مراد آبادیؒ سے حاصل ہے۔

            ذوق شعروادب: اللہ تعالی نے بچپن سے ہی علامہ نیمویؒ کو شعر وادب کا پاکیزہ ذوق عطا فرمایا تھا۔ اس ذوق کو شیخ سعدیؒ کی ’’گلستان‘‘ نے جلا بخشی اور آپ نے ابتدائی کتب کی تعلیم کے دوران ہی شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ آپ کے والد محترم نے ابتدائی تعلیم کے زمانے میں آپ کواساتذہ فن کے بہت سے اشعار یاد کروادیئے تھے۔ علامہ نیمویؒ اور ان کے ہم عصر آپس میں بیت بازی کا مقابلہ کرتے اور علامہ اس مجلس میں ہمیشہ اپنے ہم عصروں پر سبقت لے جاتے۔علامہ نیمویؒ جب کبھی ایسی مجالس میں شعر کا کوئی ایک مصرعہ بھول جاتے تو فورا ہی اس کے وزن پر دوسرا مصرعہ اپنی طرف سے کہہ دیا کرتے اور کسی کو اس کا شائبہ بھی نہ ہوتا تھا کہ یہ شیخ کی اپنی اختراع ہے۔

            علامہ نیمویؒ کے تخلص اختیار کرنے کا واقعہ یوں ہے کہ ایک مرتبہ استاد میر ذاکر حسین غازی پوری نے شعراء کو اس بحر میں شعر کہنے کی دعوت دی۔؎

جامۂ ہستی میرے تن پر بہت بوسیدہ ہے

            علامہ نیمویؒ کے ایک بے تکلف دوست اور ہم سبق سید محمد شفیع جو ’’موج‘‘ تخلص کرتے تھے، انھوں نے اس بحر میں شعر کہا اور اپنے دوست علامہ نیموی سے اصرار کیا کہ وہ بھی اس بحر میں اشعار کہیں۔ علامہ نیمویؒ کے فطری ذوق نے موج مارا اور آپ نے اس بحر میں ایک طویل نظم کہی اور اپنا تخلص ’’شوق‘‘ اختیار کیا۔ یہ آپ کی پہلی باقاعدہ نظم تھی جو آپ نے غازی پور میں کہی:

کارگر کیا مرہم کافور ہوا اے چارہ گر

زخم دل شوق محبت سے نمک پاریدہ ہے

کر دیا آتش فرقت نے کس کس کو کباب

چشم ہے گریاں تو بریاں یہ دل آزردہ ہے

مثل سنبل ایک الجھن میں پڑا رہتا ہوں میں

جب سے میرا دل اسیر کاکل ژولیدہ ہے

موسم گل ہے اکڑتے ہیں جوانان چمن

آہ محبوس قفس ایک بلبل شوریدہ ہے

کر تجسس گوہر مقصود مل جائیں گے شوق

دل کے ویرانے میں گنج معرفت پوشیدہ ہے

            اس کے بعد علامہ نیمویؒ اپنے اسی بے تکلف دوست کے ہمراہ استاد محمد شمشاد لکھنوی کی خدمت میں گئے اور ان سے استفادہ کیا اور اپنی مذکورہ نظم ان کی خدمت میں بغرض اصلاح پیش کی۔ استاد لکھنوی اس نو آموز بچے کی کاوش سے بہت خوش ہوئے اور خوب داد تحسین دی اور ضروری اصلاحات کیں۔اس ملاقات سے آپ کی ہمت بندھی اور شوق میں اضافہ ہوا۔ اس کے بعد آپ مسلسل استاد لکھنوی سے اصلاح لیتے رہے۔

            انھیں دنوں میں علامہ نیمویؒ نے کہنہ مشق استاد تسلیمؔ لکھنوی کی مثنوی ’’شامِ غریباں‘‘ کا مطالعہ کیا اور ان کی شاعری سے بہت متاثر ہوئے۔ اس کے بعد ان کی کلیات حاصل کی اور اس کا مطالعہ کیاتو گویا آپ استاد تسلیمؔ لکھنوی کے اسلوب کے عاشق زار ہو گئے۔ علامہ نیموی نے اپنے اشعار استاد لکھنوی کی خدمت میں ارسال کیے اور ان سے بھی اصلاح لی۔علامہ نیمویؒ نے دوران تعلیم اور بعد فراغت ہمیشہ کتب بلاغت، نقد، فارسی اور اردو اشعار کو اپنے مطالعہ میں رکھا یہاں تک کہ آپ نے اس فن میں مہارت پیدا کر لی۔

            علامہ نیمویؒ فارسی اردو کے اچھے شاعر تھے۔ شعری محاسن کے ساتھ آپ ایک مشہور نقاد اور ایک ماہر فن استاد بھی تھے۔ اردو، فارسی تراکیب کی اصلاح اور ضروری تنبیہات پر مشتمل آپ کی کتاب ’’ازاحۃ الاغلاط‘‘ آپ کی ادبی، فنی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آپ کے ہم عصر ادبا نے آپ کی صلاحیتوں کو داد تحسین دی ہے۔ اردو شاعری کے مشہور استاد داغؔ اور امیرؔ مینائی آپ کے قریبی دوست اور مداح تھے۔ استاد داغؔ نے جب علامہ نیموی سے ان کا شعر:

ستم وجور کی فریاد سے ہم درگزر رہے

ایسے گھبرائے ہوئے تم سر شتر کیوں ہو

سنا تو بے اختیار کہنے لگے: مولانا! آپ نے تو بے چین کردیا۔

            علامہ نیموی کی مشہور مثنوی’’ مثنوی سوز وگداز‘‘ کی تاریخ استاد داغ نے اس طرح رقم فرمائی:

مثنوی جس کا نام سوز وگداز

اس سے بہترین فسانۂ شوق

حضرت شوق کی ہے یہ تصنیف

باعث رونق زمانۂ شوق

تو بھی لکھ داغ مصرعۂ تاریخ

سنو دل سے یہ سب ترانۂ شوق

            امیرؔ مینائی لکھنوی نے علامہ نیموی کی مثنوی’’ نغمہ راز‘‘ پر لکھا:

امیرؔ اس کی تاریخ میں نے یہ لکھی

فصاحت کی جاں آج یہ مثنوی ہے (۴)

            اردو کے کئی نامور شعراء نے آپ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا ہے۔ شاہان مغلیہ کی اولاد میں سے مشہور شاعر شاہ زادہ مرزا محمد رئیس بخت المعروف شاہ زادہ مرزا زبیر الدین زبیرؔ مشہور صاحبِ دیوان آپ کے شاگرد ہیں۔ ان کے علاوہ مولانا شفق عماد پوری، علی رضا ضیاء اور مولانا ابو الکلام آزادؔ بھی آپ کے شاگردوں میں ہیں(۵)۔

            مولانا ابو الکلام آزادؔ علامہ نیمویؒ سے اپنے اشعار کی اصلاح لیا کرتے تھے اور وہ آپ کی کتابوں سے خوب استفادہ کرتے تھے۔ مولانا آزاد نے اس تاثر کے بارے میں اپنی کتاب ’’آزاد کی کہانی خود آزاد کی زبانی‘‘ میں یوں لکھا ہے:

            ’’اس زمانے میں ایسا ہوا کہ شاعری کے متعلق کتابوںکی جستجو میں رسالہ ’’اصلاح‘‘ اور ’’ ازاحۃ الاغلاط‘‘ لکھنؤ سے منگوایا۔ یہ دونوں رسالے مولوی (ظہیر) احسن شوقؔ نیموی کے تھے اور متعلقہ شعر گوئی اور مبحث متروکات وتصحیح الفاظ میں بہت مفید ہیں۔ ان رسالوں سے ان کی دیگر تصنیفات کا علم ہوا اور پھر پٹنہ سے براہ راست انھیں لکھ کر تمام کتابیں منگوائیں، ان میں ’’سرمۂ تحقیق‘‘ اور ’’یادگار وطن‘‘ بھی تھیں۔ علی الخصوص یہ اثر ہوا کہ شعر گوئی کے ساتھ قواعد واصول اور زبان کے مباحث پر مولانا شوقؔ نیموی کو ایسا عبور ہے کہ ایک پوربی دیہاتی ہو کر جلالؔ مرحوم جیسے صاحب دعوی کو شکست فاش دے دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میں نے ان سے خط وکتابت کی اور اصلاح لینا شروع کردیا‘‘(۶)۔

            تصانیف: علامہ نیمویؒ نے تمام شعبوں کی طرح تصانیف میں بھی اپنا نام پیدا کیا اور بیش بہا علمی وادبی تصانیف چھوڑیںجو کہ تا دم قیامت ان کی یادگار ہیں۔

رہتا قلم سے نام قیامت تلک ہے ذوق               اولاد سے تو یہی ہے دو پشت چار پشت

            آپ کی تمام تصانیف کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

            (۱) مذہبی تصانیف (۲) ادبی تصانیف

             مذہبی تصانیف: مذہبی کتابوں میں علامہ نیمویؒ کی بارہ(۱۲) کتابوں کا پتہ ملتا ہے، جن میں سے گیارہ کتابیں حنفی مسلک کی تائید میں اور ’’آثار السنن‘‘ کے علاوہ بقیہ دس کتب مناظرانہ اسلوب میں ہیں۔صرف ایک (۱) کتاب ’’وسیلۃ العقبی‘‘ موت، مرض اور متعدی امراض سے متعلق ہے۔ جس میں قرآن واحادیث کی روشنی میں مختلف ابواب کے تحت مرض وموت کے متعلقہ مسائل پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ انداز بیان عمدہ اور اثر انگیز ہے۔

            (۲) تبیان التحقیق: صرف نو صفحات پر مشتمل یہ رسالہ علامہ نیمویؒ کی ان نادر تحقیقات پر مشتمل ہے ، جن کی طرف بیشتر محدثین کی نگاہ نہیں پہنچی اور جنہیں علمی دنیا میں علامہ نیمویؒہی کی تحقیق کہا جاسکتا ہے۔ گو یہ رسالہ اب نایاب ہے؛ لیکن اس کے اکثر مندرجات کو تھوڑے بہت تغیر وتبدل کے ساتھ آثار السنن میں دیکھا جا سکتا ہے۔

            (۳) الدرۃ الغرۃ فی وضع الیدین علی الصدر وتحت السرۃ: گیارہ صفحات کا مختصر رسالہ ہے جسے قومی پریس لکھنؤ نے طبع کیا تھا۔ اس میں علامہ نیمویؒ نے شوافع کی موید آٹھ روایتوں کو ذکر کر کے ان پر کلام کیا ہے بعد میں احناف کی موید چھ روایتوں سے اس کی تردید کی ہے۔ اس کی زبان اردو اور انداز مناظرانہ ہے۔

            (۴) مقالہ کاملہ: ۷۲ صفحات پر مشتمل یہ رسالہ محمد علی اعظمی کی کتاب ’’الاجوبہ الفاخرۃ الفاضلۃ‘‘ کے جواب میں لکھا گیا ہے۔ حکیم محمد علی نے حضرت مولانا فضل رحمن گنج مراد آبادی اور امام ابو حنیفہ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ علامہ نیمویؒ نے اس رسالہ میں ان اعتراضات کا شافی جواب دیااور تصوف سے متعلق بہت ساری باتوں پر عالمانہ انداز میں گفتگو کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ حق حضرت مولانا فضل رحمن گنج مراد آبادیؒ اور امام ابو حنیفہؒ کے ساتھ ہے۔

            (۵) جامع الآثار فی اختصاص الجمعۃ بالامصار: شہر اور بڑے قصبات میں جمعہ کے وجوب اور دیہات میں عدم وجوب کے سلسلہ میں مجتہدانہ شان اور محققانہ انداز میں بحث کر کے علامہ نیمویؒ نے نہایت قوی اور مستحکم دلائل سے احناف کے مسلک کو واضح اور مبرہن کیا ہے۔ رسالہ ۱۶ صفحات پر مشتمل ہے اور اس کے اکثر مندرجات آثار السنن میں ’’باب لا جمعۃ الا فی مصر‘‘ کے تحت شامل ہے۔

            (۶) جلاء العین فی رفع الیدین:اس رسالہ میں رفع یدین سے متعلق احادیث پر سیر حاصل بحث کرنے کے بعد یہ ثابت کیا ہے کہ روایت صحیحہ سے خلفاء اربعہ کا رفع یدین کرنا ثابت نہیں ہے۔ ۱۶ صفحات پر مشتمل یہ رسالہ قومی پریس لکھنؤ سے طبع ہوا تھا۔

            (۷) حبل المتین: آمین بالجہر وبالسر پر ایک مختصر مگر نہایت مفید اور معلوماتی رسالہ ہے جس میں احادیث صحیحہ ، آثار صحابہ اور علماء کے اقوال وافعال سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ آمین آہستہ کہنا راجح مسلک ہے۔

            (۸) رد السکین: حبل المتین پر مولانا محمد سعید بنارسی کے اعتراضات کے مجموعہ سکین کا رد ہے۔ اس میں علامہ نیمویؒ نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ مولانا موصوف کے زیادہ تر اعتراضات کم فہمی اور لا علمی پر مبنی ہیں۔ ۱۸ صفحات پر مشتمل نہایت وقیع رسالہ ہے، اسلوب مناظرانہ اور زبان اردو ہے۔

            (۹) اوشحۃ الجید فی اثبات التقلید: یہ کتاب ۱۱۰ صفحات پر مشتمل فقہ اسلامی کی مختصر مگر جامع تاریخ ہے۔ جس میں تقلید اور عدم تقلید کی بحثوں کے ساتھ ائمہ مجتہدین خصوصا امام ابو حنیفہؒ کے حالات زندگی اور ان کی علمی عظمت وعبقریت کو تفصیل سے لکھا ہے۔ پہلی بار قومی پریس لکھنؤ سے طبع ہوئی تھی۔

            (۱۰) تبصرۃ الانظار فی رد تنویر الابصار: تنویر الابصار کے رد میں تین صفحات پر مشتمل ایک مختصر رسالہ ہے۔ جس میں مولف تنویر الابصار کے غلط حوالے اور اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لیے کی گئی غلط تاویلات کی قلعی کھولی گئی ہے۔یہ سیر بنگال کے ساتھ مصنف کی زندگی ہی میں شائع ہوا تھا۔

            (۱۱) آثار السنن: علامہ نیمویؒ کا شاہکار اور ان کی وجہ شہرت یہ کتاب ہے، جس کا مفصل تذکرہ آئندہ صفحات میں آئے گا۔

            (۱۲) علامہ نیمویؒ کے صاحبزادے مولانا عبد الرشید فوقانیؒ نے ان کتابوں کے علاوہ تین اور کتاب ’’لامع الانوار فی نظر المختار‘‘،’’ تذئیل ‘‘اور’’ المجلی فی رد قول المحلی‘‘ کاتذکرہ کیا ہے۔ آخر الذکر کتاب خدا بخش لائبریری پٹنہ میں موجود ہے۔ محلی کے بعض اقوال کی اس میں تردید کی گئی ہے۔

            ادبی تصانیف: ادبی تصانیف میں اب تک علامہ کی جن کتابوں کا پتہ چل سکا ہے ان کی تعداد آٹھ(۸) ہے۔

            (۱)دیوان شوق: ایک سو اٹھایئس صفحات پر مشتمل علامہ نیمویؒ کا یہ شعری مجموعہ ۱۳۲۶ھ میں مطبع سیدی پٹنہ سے محمد نور الہدی نیموی نے مرتب کر کے شائع کیا تھا۔ اس میں ۸ قصائد، ۳۸ رباعیات اور ۲۲ قطعات ہیں۔ اخیر میں میکشؔ حیدر آبادی، شمشادؔ لکھنوی، ازلؔ لکھنوی کے تاریخی قطعات بھی درج ہیں، جو ان حضرات نے دیوان کی طباعت پر کہے تھے۔

            (۲-۳) نغمۂ راز اور سوز وگداز: دونوں اردو زبان میں علامہ نیموی کی معرکۃ الآراء مثنوی ہے۔ نغمۂ راز ۳۸ صفحات پر مشتمل ہے اور پہلی بار قومی پریس لکھنؤ میں چھپی تھی، جب کہ سوز وگداز کے صفحات کی تعداد ۴۶ ہے اور یہ نظامی پریس پٹنہ میں طبع ہوئی۔

            (۴) ازاحۃ الاغلاط: فارسی زبان میں بڑے سائز کے ۳۹ صفحات پر مشتمل یہ رسالہ عربی وفارسی کے ایسے الفاظ کی تحقیق پر مشتمل ہے جو عوام میں غلط مستعمل ہیں۔ پہلی بار ۱۸۹۳ء میں قومی پریس لکھنؤ میں طبع ہوا تھا۔ بعد میں مولانا حسرؔت موہانی نے اردو پریس علی گڑھ سے بھی شائع کیا تھا۔

            (۵) سرمۂ تحقیق: علامہ نیمویؒ نے ازاحۃ الاغلاط میں جلالؔ لکھنوی کی تنقیح اللغات سے بعض تحقیقی امور میں اختلاف کیا تھا۔ جب جلالؔ لکھنوی کو اس کی خبر ہوئی تو انھوں نے اس کے جواب میں رد تردید نامی رسالہ لکھا۔ سرمہ تحقیق دراصل اسی رد تردید کا جواب ہے۔ جو اردو زبان میں ۵۶ صفحات پر مشتمل ہے۔

            (۶) اصلاح: اردو زبان کے نو آموز شعراء کو زبان وبیان کی خامیوں سے محفوظ رکھنے اور متروکہ الفاظ سے باخبر رکھنے کے لیے ۳۱ صفحات پر مشتمل یہ رسالہ ۱۸۸۷ء میں پہلی بار چھپا۔ بعد میں ایضاح نامی مصنف کے حاشیہ کے ساتھ اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔

            (۷) یادگار وطن: اردو زبان میں ۱۵۸ صفحات پر مشتمل یہ کتاب نیمی کے حالات اور خود علامہ نیموی کے آبا واجداد اور ان کی حالات زندگی پر خود نوشت سوانح ہے۔ علامہ کی دیگر کتابوں کی طرح یہ بھی قومی پریس لکھنؤ سے طبع ہوئی تھی۔

            (۸) سیر بنگال: علامہ نیمویؒ کا سفر نامہ ہے جو انھوں نے غیر منقسم بنگال کے سفر سے واپسی کے بعد بڑے دلکش انداز میں تحریر فرمایا تھا۔ یہ ۲۶ صفحات پر مشتمل ہے۔

(باقی آئندہ)

حواشی

(۱)        موضع نیمی(نون کے زیر کے ساتھ) ضلع پٹنہ عظیم آباد کی بستی ہے۔ اس بستی کو علم اور علماء سے نسبت خاص حاصل رہی ہے۔ علامہ نیمویؒ نے اپنی مایہ ناز تصنیف یادگار وطن میں اس قریہ کے متعلق ایک طویل قصیدہ سپرد قرطاس کیا ہے، جس کے چند اشعار یہ ہیں:

بہار اس کی کیوں نہ بھائے کہ ہے میرا وطن نیمی

بنا میں خوش نوا بلبل بنی صحن چمن نیمی

جو کوئی شام غربت کا تھکا ماندہ پہنچتا ہے

دکھاتی ہے بہار جلوہ صبح وطن نیمی

ہوا جوہر عیاں جس دم کھنچا دل ایک عالم کا

ہوئی مشہور بنگالے سے تا دکن نیمی

دل ہندوستاں بیشک عظیم آباد پٹنہ ہے

مقرر ہے سویدا اس کا اے اہل سخن نیمی

یہی اے شوق میری التجا ہے حضرت حق میں

رہے آباد محشر تک مرا پیارا وطن نیمی

(۲)       عمدۃ العناقید من حدائق بعض الاسانید للنیموی۔

(۳)      عمدۃ العناقید من حدائق بعض الاسانید للنیموی۔

(۴)       القول الحسن، ص: ۱۶۶، ۱۶۷۔

(۵)       التحقیق الحسن، ص: ۱۳۔

(۶)        آزاد کی کہانی خود آزاد کی زبانی، ص: ۱۳۰۔

—————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ : 8،  جلد:102‏،  ذیقعدہ- ذی الحجہ 1439ھ مطابق اگست 2018ء

٭           ٭           ٭

Related Posts