جانشینِ حكیم الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی ؒ ۱۳۴۴ھ/۱۹۲۶ء-۱۴۳۹ھ/۲۰۱۸ء (۲)

بہ قلم:        مولانا نور عالم خلیل امینی

چیف ایڈیٹر ’’الداعی‘‘ عربی و استاذ ادبِ عربی

دارالعلوم دیوبند

اُن كی زندگی كا انتہائی ناگوار واقعہ اور انتہائی خوش گوار واقعہ

            ۳-۵؍جمادی الاولیٰ ۱۴۰۰ھ مطابق ۲۱-۲۳؍مارچ ۱۹۸۰ء میں دارالعلوم نے تاریخ ساز صدسالہ اِجلاس منعقد كیا، جو مثالی طور پر كام یاب رہا اور جس میں مسلمانوں كے ان گنت جتھے نے بے نظیر حاضری درج كركے دارالعلوم كے ساتھ اپنی لاثانی او رلافانی محبت پر مہر تصدیق ثبت كی، جس سے پورے عالم كواچھی طرح اندازہ ہوگیا كہ كسی ادارے ، تعلیم گاہ اور دانش كدے سے، بر صغیر كے مسلمانوں كو ایسی حیرت ناك محبت وعقیدت ہوئی ہے اور نہ اسباب ومسبب كی اس دنیا میں ہونے كی كوئی علامت نظر آتی ہے ۔

            لیكن اس كے معاً بعد حكیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب نوراللہ مرقدہ كی انتظامیہ كے اہل كاروں كی طرف سے بعض انتظامی خامیوں وخرابیوںكی وجہ سے، مجلس شوری ( جو اصلاً دارالعلوم كے انتظام وانصرام اور بقاوحفاظت كے حوالے سے مسؤولِ مطلق اور ہیئتِ حاكمہ ہے) نے گرفت كی سوچی، تو زبردست انتشار اور رسہ كشی كا سلسلہ چل پڑا، جو بالآخر دارالعلوم كی ہیئتِ  حاكمہ كی طرف سے طلبہ اور اساتذہ وملازمین كی بڑی تعداد كے ذریعے، ۲۴ -۲۵مارچ ۱۹۸۲ء (مطابق ۲۵  – ۲۶؍جمادی الآخرة ۱۴۰۲ھ)كی رات میں ۲ بج كر ۴۵منٹ پر دارالعلوم كی عمارتوں بالخصوص دارجدید كی قلعہ بند عمارت پر كنٹرول قائم ہوجانے كے بعد بڑی حدتك ختم ہوگیا۔

            لیكن اِس كے بعد اختلاف كی آنچ دیگر سطحوں پر اور تیز ہوگئی دونوں فریقوں كے درمیان مقدمات كی دردسری كا طویل سلسلہ چل پڑااختلاف واضطراب كے ماحول میں جو كچھ ہوتا ہے ، وہ سب ہونے لگا: افواہیں،   الزام تراشیاں ، ایك دوسرے كے خلاف بدگمانی اور بدخواہی ، حتی كہ ایك دوسرے كو سلام وكلام سے پرہیز اور روبرو ہونے سے كترانے كی كوشش ۔

            یہ اختلاف اصلاً تو حكیم الاسلام كے لوگوں ، جن میں حضرت مولانا محمد سالم قاسمی ؒ سر فہرست تھے اور دارالعلوم كی ہیئتِ حاكمہ یعنی مجلسِ شوری كے درمیان تھا، لیكن مجلسِ شوری كی حاكمیت وطاقت كو برپاكر نے اور حقیقت كی زمین پر اس كو وقت كے تقاضے كے مطابق ، مؤثر بنانے كے وكیل كے طور پر حضرت مولانا سید اسعدمدنی رحمة اللہ علیہ (۱۳۴۶ھ /۱۹۲۸ء- ۱۴۲۷ھ/ ۲۰۰۶ء) صدرجمعیة علماے ہند میدانِ كار كے سپہ سالار بن گئے تھے؛ جن كے دست ِ راست حضرت الاستاذ مولانا وحیدالزماں كیرانوی رحمة اللہ علیہ(۱۳۴۹ھ/۱۹۳۰ء- ۱۴۱۵ھ/۱۹۹۵ء)  تھے؛ اِس وجہ سے یہ اختلاف ہر ایك كو حضرت حكیم الاسلام نوراللہ مرقدہ اور حضرت مولانا سید اسعد مدنی قدس سِرُّہ كے درمیان نظر آرہا تھا۔

            اسی اثنا میں ۶؍شوال ۱۴۰۳ھ مطابق ۲۷؍جولائی ۱۹۸۳ء كو حضرت حكیم الاسلام قدس سرہ اِس عالم فانی سے عالمِ جاودانی كو سِدھارگئے۔ اُس وقت ساری جماعت كو ناقابلِ بیان افسوس ہواكہ كاش یہ اختلاف وكش مكش اُن كی زندگی میں پیش نہ آئی ہوتی اور وہ دنیا سے رنجور وملول نہ جاتے؛ بل كہ خوش وخرم ہی مسافرِ آخرت ہوتے ؛ لیكن خدا كی مشیت وتقدیر كو كون ٹال سكتا ہے، چناں چہ جماعت كو بالآخر ایسے دن دیكھنے پڑے ، جو اس كے كسی خرد وكلاں كی مرضی تھی نہ اس كا تصور ۔ مَاشَاءَ اللہ كَان ومَالَمْ یَشَاْ لَمْ یَكُنْ۔

            ادھر۱۰؍رجب ۱۴۰۲ھ یعنی ۵؍مئی ۱۹۸۲ء كو حضرت مولانا محمد سالم صاحبؒ نے دارالعلوم وقف كے نام سے جامع مسجد دیوبند میں مستقل إدارہ قائم فرمایا جو چند سالوں بعد یعنی ۷؍نومبر ۱۹۹۴ء(۲؍رجب ۱۴۱۵ھ) كو عید گاہ دیوبند كے جنوب مغرب میں مستقل عمارت میں منتقل ہوگیا، اِس وقت وہ ملك كا ایك اہم ومعتبر ادارہ ہے،  وہاں اُنھوں نے بہت سے مفید شعبے قائم كیے جو علم وثقافت كے میدان میں خاصے سرگرم ہیں۔وہ اس كے  ۳۲سال مہتمم رہے ، ۲۰۱۴ء میں اپنی شیخوخت اور اِس  كے عوارض كی وجہ سے اہتمام كی ذمے داری اپنے صاحب زادےمولانا محمد سفیان قاسمی كے سپرد كردی ، اپنے ذمے صرف سرپرستی باقی ركھی۔

            مولانا محمد سالم  قاسمیؒ كی حددرجہ وسعت ِ ظرفی و سعادت مندی كے بات ہے كہ اُنھوں نے جماعت كے اختلاف كے ہمیشہ كے لیے بالكلیہ ختم ہوجانے كی راہ نكالی اور بالآخر سارے اختلافات اور اُن كے برُے اثرات داستانِ پارینہ بن گئے ۔ جس كی تقریب یہ ہوئی كہ ۱۴۲۵ھ /۲۰۵ء كے موسم حج میں حضرت مولانا سید اسعد مدنی ؒ حكومت ِ سعودی عرب كی دعوت پر غسلِ كعبہ كی معزز تقریب میں ، جس میں سعودی عرب ،دنیا كے چنیدہ لوگوں ہی كو دعوت دیا كرتا ہے، شركت كے لیے مكہ مكرمہ تشریف لے گئے، اس كے بعد حج كی ادایگی سے فارغ ہوكر مدینۂ  منورہ حاضری كی سعادت حاصل ہوئی، وہاں قیام كے دوران بیمار ہوگئے ، مدینۂ  منورہ كے كنگ فہد ہسپتال كے آئی سی یو (سخت نگہ داشت كے یونٹ )میں كئی دن زیرِ علاج رہے۔ جب یہ خبر عام ہوئی تو حضرت مولانا محمد سالم قاسمی رحمة اللہ علیہ نے ، فون كے ذریعے حضرت مولانا مدنی ؒ كی عیادت فرمائی اور مكمل صحت یابی كے لیے دعا دی ، جس سے حضرت مولانا مدنی ؒ كو بے حد خوشی ہوئی اور دونوں حضرات كے اہل تعلق كو بھی بڑی مسرت ہوئی اور دونوں حلقوں كے وابستہ گان نے حضرت مولانا قاسمی ؒ كے اِس اِقدام كو سراہا اور اس كو دور رس اثرات كا حامل قراردیا۔

            ۱۹؍ذی الحجہ ۱۴۲۵ھ مطابق ۳۰؍جنوری ۲۰۰۵ء كو حضرت مولانا مدنی ؒ كی ہندوستان واپسی ہوئی۔ اُنھوں نے اگلے روز ہی یعنی ۲۰؍ذی الحجہ = ۳۱؍جنوری كو حضرت مولانا قاسمی ؒ كی زبانی مزاج پرسی كا شكریہ دہلی جمعیة علما كے مركزی دفتر سے اُن كے نام تحریری مكتوب كی شكل میں ادا فرمایا ؛ جس میں اُن كی شكر گزاری كے ساتھ حلقۂ  دیوبند میں حضرت الامام مولانا محمدقاسم نانوتوی ؒ كے مقام وعظمت كا گراں قدر الفاظ میں تذكرہ فرمایا، نیز ماضی كی غلطیوں واختلافات سے صرفِ نظر كرتے ہوے ، ایك دوسرے كو معاف كردینے كی بات كہی۔ اُن كے اس آخر الذكر مُدَّعَا كے سلسلے میں اُن كے الفاظ یہ تھے؛ جن سے اُن كی (حضرت مولانا مدنی ؒ كی)  غیر معمولی بڑائی اور كشادہ نفسی كا اِظہار ہوتا ہے:

            ’’یہ حقیقت ہے كہ حضرت نانوتوی قدس سرّہ جماعت كی بنیادہیں ۔ ہم تو اُن كی خاكِ پاكے برابر بھی نہیں۔ ماضی میں جو اختلافات ہوے ، وہ بدنصیبی تھے اور ہیں ؛ اس لیے جو كہا ، كیا اور ہوا ، اُس كو معاف كرنا چاہیے اور آخرت كے لیے نہیں ركھنا چاہیے‘‘

            اس كے جواب میں حضرت مولانا قاسمی  ؒ  نے حضرت مولانا مدنیؒ كو جو كچھ تحریر فرمایا، ا س كے لفظ لفظ سے نہ صرف درد ٹپكتا ہے؛ بل كہ صاف ظاہر ہوتا ہے كہ وہ بھی نہ صرف اختلافات كو ختم كركے اتفاق وصلح وصفائی كے لیے مكمل طور پر تیار بیٹھےہیں ؛ بل كہ یہ اُن كی دیرینہ آرزو بھی رہی ہے۔ انھوں نے حضرت مدنی ؒ كو ۲۹؍ذی الحجہ ۱۴۲۵ھ مطابق ۹؍فروری ۲۰۰۵ء كو لكھا:

            ’’ جواباً مكتوبِ گرامی نے ممنون بھی فرمایا اور مسرور بھی۔ جماعت كی ایك اہم ترین ضرورت كو محسوس كرتے ہوے، آپ نے اختلافات كو ختم كرنے كے بارے میں تاییدی كلمات تحریرفرمائے اور احقر كی قدیم آرزو كی تكمیل كو مُتَوَقَّعْ بناكر مسرت كو المُضَاعَفْ فرمادیا ہے۔ جماعتی وقار اور مسلكِ روایاتِ  اكابر كی مجروحیت كا سدِّباب ، اختلاف كو یكسر ختم كردینے میں ہی مُضْمَر ہے ۔ احقر كے خیال میں عمر كے مراحلِ نہائی میں پہنچ جانے پر ، ہماری مشترك خواہش وكوشش یہی ہے اور یہی ہونی چاہیےكہ ہم اپنی آیندہ آنے والی نسل كو ، اختلافات كی یہ نا مبارك وراثت دے كر نہ جائیں؛ بل كہ حسبِ روایاتِ اسلاف ِ كرام ، ہم اتحاد واتفاق ، فكری وعملی وحدت اور مخلصانہ  مشترك جذباتِ خدمتِ علم ودین دے كر بہ توفیقِ اِلٰہی ایك اہم ترین جماعتی فریضے سے سبك دوش ہوكر ، بارگاہ ربُّ العزّت میں حاضر ہوں‘‘ 

            حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ نےتقریبًا اسی مضمون كا خط، دارالعلوم دیوبند كے سابق مہتمم حضرت مولانا مرغوب الرحمن  رحمة اللہ علیہ ( ۱۳۳۲ھ/۱۹۱۴ء – ۱۴۳۲ھ/۲۰۱۰ء ) كو بھی تحریر فرمایاجس میں  حضرت مولانا قاسمیؒ نے بینك میں حضرت حكیم الاسلامؒ كے زمانے سے منجمد رقم سے دارالعلوم دیوبند كے حق میں تنازل فرمانے اور اختلافات ومقدمات كو ختم كردیے جانے كے عندیے كا اظہار فرمایا اور جس كے جواب میں حضرت مہتمم صاحبؒ نے حضرت قاسمیؒ كو جو مكتوب (سوموار: ۱۹؍صفر ۱۴۲۶ھ مطابق ۲۰؍مارچ ۲۰۰۶ء ) كو ارسال فرمایا ، اس میں بے انتہا خوشی كے اظہار كے ساتھ یہ بھی فرمایا كہ آپ كے ان جذبات كی خدام ِدارالعلوم دیوبند واركانِ شوری بے حد قدركرتے ہیں اور یہ سب كچھ درحقیقت آپ كے خاندانی وراثتی جذبات وایثار كا آئینہ دار ہے۔ حضرت مہتمم صاحبؒ كے خط كا بڑا حصہ اس طرح تھا:

            ’’… نامۂ گرامی شرفِ صدور لایا ، جناب كے بے تكلف اور بہ راہ راست خطاب وكتاب سے بے حد مسرت ہوئی۔خدام دارالعلوم دیوبند اور مُعَزَّزْ اركانِ مجلس شوری، ان جذبات میں قدم بہ قدم جناب كے ہم آہنگ ہیں كہ دونوں اِداروں كے درمیان پرخلوص یگانگت اور ہم آہنگیِ فكر كی بنیاد پر ، مقدمات كو ختم كرنے كے سلسلے میں جو اقدامات اب تك ہوے ہیں ، اُن میں مزید پیش رفت ہو اور یہ تعاون وتفاہم دونوں اداروں كے ذمّے داران اور ساتھ ہی ساتھ ملك وبیرون ملك میں پھیلے ہوے لاكھوں وابستہ گانِ جماعت كے لیے سكونِ قلب اور قرة العین كا ذریعہ بنے۔

            جناب نے پنجاب نیشنل بینك میں موجود كل رقم مع جملہ حقوق ِ ملكیت بہ حساب دارالعلوم دیوبند جمع كرائے جانے كی جو پیش كش فرمائی ہے،  اركانِ عاملہ دارالعلوم دیوبند نے اس كو انتہائی مُسْتَحْسَنْ قدم قرار دیتے ہوے اس پیش كش كو منظوری دی ہے اورمجلس نے محسوس كیا كہ جناب كا یہ اقدام، جناب كی خاندانی علمی وفكری وراثت اور جذباتِ ایثار كا آئینہ دار ہے اور اِس اقدام كے لیے، جناب والا بجا طور پر مستحقِ شكریہ وتحسین ہیں ‘‘

            اس دوران دونوں حضرات كے درمیان ملاقاتوں اور مودت واخوت كی فضا میں مصالحت ومفاہمت كی باتوں كا سلسلہ بھی جاری رہا ،جن میں سے ایك ملاقات میں حضرت مولاناسید محمد انظر شاہ كشمیری رحمة اللہ علیہ(۱۳۴۷ھ/۱۹۲۸ء – ۱۴۲۹ھ/۲۰۰۸ء) نے حضرت مولانا سید اسعد مدنی ؒ كو مُخاطب كرتے ہوے ارشاد فرمایاتھا: ’’  حضرت ! اب سارے معاملات آپ كے سپرد ہیں ‘‘یہی نہیں ؛ بل كہ صدر ِجمعیت ِعلما حضرت مولانا مدنی ؒ نے دونوں فریقوں كے اہم ذمے داروں، اساتذہ واركان شوری دارالعلوم دیوبند اور دیوبند شہر كی چنیدہ شخصیات كی دعوت ِ طعام كی پیش رفت بھی كی، جس كے بعد بالترتیب حضرت مولانا قاسمی ؒ اور حضرت مولانا سید انظر شاہ كشمیری ؒ  شیخ الحدیث دارالعلوم وقف دیوبند وذمے داراعلی جامعہ امام محمد انور نے بھی اپنے اپنے دولت كدے پر دونوں طرف كے ذمے داروں اور بڑے اساتذہ كی دعوت كا اہتمام كیا، جس سے اتحاد واخوت كے جذبات پر مزید سان چڑھی اور اپنائیت كی  فضا خوب خوب پروان چڑھی۔آج نہ كوئی مخاصمت ہے ، نہ محاذ آرائی ، نہ كوئی كسی سے ملنے میں حجاب محسوس كرتا ہے ، نہ كوئی كسی كا معاند فریق ؛ بل كہ ہر ایك دوسرے كا حلیف اور ہم نوا ہے ، جیسے دونوں فریقوں كے لوگ  ۱۹۸۰ء/ ۱۴۰۰ھ سے پہلے تھے؛ بل كہ اُس سے بھی بہتر حالت میں ۔

            اِن دعوتوں میںسے ایك ، یعنی حضرت مولانا محمد سالم قاسمی ؒ كی طرف سے كی جانے والی دعوت میں اس راقم كو بھی شركت كا شرف حاصل ہوا؛ كیوں كہ نہ صرف حضرت مولاناؒ كی طرف سے مكتوبہ دعوت نامہ اس راقم كے نام موصول ہوا ؛ بل كہ جس رات میں دعوت ہونی تھی یعنی سوموار  – منگل: ۲۱ – ۲۲؍ شعبان ۱۴۲۶ھ مطابق ۲۶ -۲۷؍ ستمبر ۲۰۰۵ء كی درمیانی شب ، سے پہلے والے دن میں صبح كو برادر مكرم مولانا محمد سفیان قاسمی نے فون كے ذریعے ازراہ محبت یاد دہانی بھی كرادی تھی كہ آپ كو اس دعوت میں ضرور شركت كرنی ہے، تحریری دعوت نامہ تو مل ہی گیا ہوگا، اب زبانی بھی یاد دہانی كررہا ہوں كہ آپ ہمارے ہاں ضرور تشریف لائیں۔

            تاریخی تسجیل كے لیے اس دعوت نامے كی عبارت درجِ ذیل كی جارہی ہے:

            ’’      محترم ومكرم جناب مولانا نورعالم صاحب خلیل الامینی ! زیدت مكارمكم

            استاذ ادب عربی دارالعلوم دیوبند

            السلام علیكم ورحمة اللہ وبر كاتہ۔ امید ہے كہ مزاج گرامی بہ عافیت ہوںگے۔ آں محترم سے مُلْتَمِس ہوں كہ مؤرخہ ۲۱؍شعبان المعظم ۱۴۲۶ھ = ۲۶؍ستمبر ۲۰۰۵ء بہ روز پیر بعد نماز عشا ،جملہ اراكینِ مجلس شوری دارالعلوم دیوبند كے ساتھ ، آں محترم غریب خانے پر قدم رنجہ فرماكر ، دعوت ِ ماحضر قبول فرمائیں ۔ آں محترم كی تشریف آوری ، باعثِ عزّت ومَسَرَّتْ ہوگی ۔ گر قبول افتد زہے عزّ وشرف۔

والسلام مع الاحترام

محمد سالم قاسمی

مہتمم دارالعلوم وقف دیوبند

۱۲؍شعبان المعظم ۱۴۲۶ھ

۱۷؍ستمبر ۲۰۰۵ء

            بہركیف اس صلح سے جو حضرت مولانا محمد سالم  قاسمی اور حضرت مولانا سید اسعد مدنی رحمة اللہ علیہما كی مخلصانہ مشتركہ خواہشوں اور كوششوں كی وجہ سے روبہ عمل آئی بہت بڑا، اہم اور تاریخی كارنامہ روبہ عمل آیا ، جس سے اَن گنت الجھنیں ، اورپریشانیاںدور ہوئیں اور بے شمار مسائل حل ہوے ۔ اس سے بڑھ كر یہ كہ دارالعلوم كے قضیۂ  نامرضیہ سے نہ صرف علما كی شبیہ كو لگا ہوا داغ دور ہوا؛ بل كہ تاریخِ دارالعلوم كو لگ جانے والا دھبہ باكلیہ صاف ہوگیا اور تاریخ كو یہ ریكارڈ كرنے كا موقع ملا كہ بڑے پایے كے انسان اور اللہ كے واقعی نیك بندے انتہائی اختلاف كے بعد بھی مكمل طور پر اپنی زندگی ہی میں قضا كی دامن گیری سے پہلے، اتفاق كركے نسلِ حاضر ومستقبل كو یہ پیغام دے جاتے ہیں كہ دنیا كی اس زندگی میں انسای معاشرے میں اختلاف كوئی اچنبھے كی بات نہیں؛ لیكن اُس كو موت كے بعد تك كے لیے ممتد ہونے دینا اور اس كے نتائجِ بد كا سامنا كرنے كی جرات دكھانا ، یہ بڑی حیرت كی بات ہے ۔ اللہ تعالی ان دونوں حضرات اور اُن كے معاونین كو اپنی رحمتوں سے نوازے اور حلقۂ دیوبند كے سارے افراد كی زبانیں اُن كے لیے دعا كرنے كو ہمیشہ بے تاب رہیں۔

            اِس راقم كو ماضی قریب میں وفات یافتہ كئی بزرگوں كی طرح ؛ حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ كے سلسلے میں بھی یہ تجربہ ہواكہ وہ بڑے فراخ دل انسان تھے۔ اپنے خردوں كے كاموں كو بہت سراہتے اور وقیع الفاظ میں اُن كی تقریظ وتعریف كرتے، بہت سے ’’بڑوں ‘‘ كی طرح سراہناكرتے وقت  ’’محتاط رویہ‘‘ اور ’’بخالت ریز‘‘ تعبیر سے كام نہ لیتے۔

            راقم نے ۱۴۲۲ھ مطابق ۲۰۰۱ء میں حضرت حكیم الاسلامؒ پر عربی زبان میں ’’العالم الہھندي الفرید.. الشیخ المقرئ محمدطیب‘‘ لكھی جو اُن پر كسی بھی زبان میں پہلی سوانحی كاوش تھی، نیز اُسی سال حضرت حكیم الاسلامؒ كی انتہائی اہم كتاب’’علماے دیوبند كا مسلكی رخ ودینی مزاج‘‘كا عربی ترجمہ ’’علماء دیوبند … اتجاھھ ہہم الدیني ومزاجھہم المذہھبي‘‘ كے نام سے تحقیق وتدقیق كے ساتھ تیار كركے شائع كیا، تو دونوں كتابوں كا ایك ایك نسخہ حضرت مولانا محمدسالم قاسمیؒ كو ہدیہ بھیجوایا؛ كہ حق بہ حق دار رسید كا كوئی كام تو اس خاك سار سے ہوسكے۔ حضرت مولانا ؒ نے دونوں كتابوں پر جستہ جستہ نظر ڈالی اور فون پر راقم كو بہت دعائیں دیں اور فرمایاكہ یہ انتہائی منفرد اور عظیم الشان كام آپ نے انجام دیا ہے، تاریخِ دارالعلوم دیوبند آپ كی احسان مندرہے گی اور علمی دنیا آب كو ہمیشہ یاد ركھے گی۔

            كئی مرتبہ جی چاہا كہ حضرت قاسمیؒ   كو،  حاضرِخدمت ہوكر یا كسی كے ذریعے،  یہ زحمت دوں كہ وہ یہی الفاظ یا باقاعدہ تقریظ دونوں كتابوں پر تحریراً عنایت فرمادیں تو یہ ہمارے لیے ’’وثیقۂ تكریم وتشجیع‘‘ رہے گا؛ لیكن اُن كی كم زوری وپیرانہ سالی كو دیكھتے ہوے ہمت نہ كرسكا؛ ورنہ بہت سے لوگ بزرگوں كو ہرطرح كی اذیت پہنچاكر ، ہرحال میں اُن سے اپنے مقصد كا كام كروالیتے ہیں، جس كے تصور سے بھی یہ راقم كانپ اٹھتا ہے۔

سوانحی خاکہ

            حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒكی ولادت بہ وقتِ فجر بہ روز جمعہ: ۲۲؍جمادی الاُخری ۱۳۴۴ھ = مطابق۸؍جنوری ۱۹۲۶ء دیوبند میں ہوئی ۔ عمر كے چھٹے سال كے آغاز میں ۱۳۵۱ھ / ۱۹۳۲ءمیں،  دارالعلوم كے دفتر اہتمام میں آپ كی بسم اللہ حضرت مولانا سید اصغر حسین میاں دیوبندیؒ ( ۱۲۹۴ھ/ ۱۸۷۷ء – ۱۳۶۴ھ /۱۹۴۴ء)نے كرائی ، اس مجلس میں حضرت علامہ سید محمد انور شاہ كشمیریؒ (۱۲۹۲/۱۸۷۵ء –  ۱۳۵۲ھ /۱۹۳۳ء) علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ (۱۳۰۴ھ/۱۸۸۶ء –   ۱۳۸۷ھ/ ۱۹۶۷ء)شیخ الادب حضرت مولانا محمد اعزاز علی امروہویؒ (۱۳۰۰ھ/۱۸۸۲ء –   ۱۳۷۴ھ/ ۱۹۵۴ء)حضرت مولانا محمد یاسین دیوبندیؒ (متوفی ۱۳۵۵ھ/ ۱۹۳۶ء) والد ماجد حضرت مولانامفتی محمد شفیع دیوبندی ثم الپاكستانی الكراچویؒ(۱۳۱۴ھ/ ۱۸۹۶ء  –  ۱۳۹۶ھ/ ۱۹۷۶ء) حضرت مولانا عبدالسمیع دیوبندیؒ (۱۲۹۵ھ/ ۱۸۷۸ء –  ۱۳۶۶ھ/ ۱۹۴۷ء)وغیرہ اكابر ومشایخ ِدارالعلوم دیوبند موجود تھے،  جنھوں نے اس نونہال كو اپنی مستجاب دعاؤں سے نوازا۔

            ناظرہ اور حفظِ قرآن كی تكمیل دارالعلوم دیوبند میں پیر جی شریف احمد گنگوہی سے كی جو دارالعلوم میں درجۂ حفظ كے مدرس تھے ، اسی كے ساتھ حضرت قاری حفظ الرحمن ؒ( ۱۳۱۷ھ/ ۱۸۹۹ء –     ۱۳۸۸ھ/۱۹۶۸ء) كے یہاں درجۂ قراءت میں شركت كی جو اُس وقت دارالعلوم كے صدرالقرا تھے۔  ۱۳۵۴ھ/۱۹۳۵ء میں تكمیلِ حفظ كیا، دور كا مرحلہ دہلی میں مدرسہ صولتیہ مكہ مكرمہ كی شاخ میں ۱۳۵۵ھ/ ۱۹۳۶ء میں مكمل كیا۔ دوركے بعد ۱۳۵۶ تا ۱۳۶۰ھ مطابق ۱۹۳۷تا ۱۹۴۱ء فارسی واردو وغیرہ كا چار سالہ نصاب خلیفہ عاقل دیوبندی، مولانا ظہیر دیوبندی ،مولانا سید حسن دیوبندی، مولانا رحم الٰہی دیوبندیؒ اور ماسٹر كَلَّنْ وغیرہ كے پاس مكمل كیا۔ یہ سب حضرات  دالعلوم كے درجۂ فارسی كے مدرسین تھے۔\۴؍ذی قعدہ ۱۳۶۰ھ مطابق ۲۶؍اكتوبر ۱۹۴۱ء كو جب آپ كی عمر سنۂ  ہجری كے اعتبار سے۱۶سال اور سنہء عیسوی كے لحاظ سے ۱۵سال تھی دارالعلوم دیوبند میں درجۂ عربی اول میں داخل ہوے، اس وقت دارالعلوم میں درجہ بندی نہ تھی ؛ بل كہ كتابوں كے ناموں سے درجے كانام لیا جاتا تھا، آپ نے دارالعلوم میں عربی درجات میں داخلے كے لیے میزان ، منشعب اور شرح مائة عامل وغیرہ كتابوں كا امتحان دیا اور ان سے آگے كی كتابیں پڑھیں۔۱۳۵۹ھ /۱۹۴۰ء میں حكیم الامت حضرت تھانوی نوراللہ مرقدہ (۱۲۸۰ھ/۱۸۶۳ء -۱۳۶۲ھ/۱۹۴۳ء) سے تھانہ بھون حاضر خدمت ہوكر پندرہ روزہ قیام كے دوران،  تبرك كے طورپر میزان الصرف كے ابتدائی حصے پڑھے، اس طرح نہ صرف حضرت كی صحبت كی سعادت حاصل ہوئی ؛ بل كہ اُن كے تلمیذ رشید ہونے كا اعزاز بھی ملا كہ وہ اپنی وفات كے وقت حضرت تھانوی ؒ قدس سِرُّہ كے واحد شاگرد اور صحبت یافتہ تھے۔ اس نوعمری میں حضرتؒ كے جو اثرات وبركات اُن پر مُرَتَّبْ ہوے ہوںگے اُن كی زندگی كے سارے مرحلوں میں  اُن كی نتیجہ خیزی سے كس كو انكار ہوسكتا ہے؟

            دارالعلوم دیوبند میں عربی درجات میں جو كچھ پڑھا ، وہ نقشہ ذیل سے ظاہر ہے ؛ لیكن شروع كے دوسالوں كے ریكارڈ دارالعلوم كے دفترِ تعلیمات میں تلاشِ بسیار كے بعد بھی نہیں مل سكے:

            ۱۳۶۳ھ/۱۹۴۴ء:كنز الدقائق، قطبی، اصول الشاشی،كافیہ،نورالایمان، ورزش۔ ۱۳۶۴ھ/ ۱۹۴۵ء:  مقامات حریری ، سلم العلوم، شرح جامی بحث اسم،ہدایہ اولین۔\۱۳۶۵ھ/۱۹۴۶ء: مختصر المعانی، ملاحسن، میبذی، ترجمہ اول، تلخیص المفتاح۔ ۱۳۶۶ھ / ۱۹۴۷ء:  جلالین ، مشكوة،شرح عقائد نسفی،نخبة الفكر،الفوز الكبیر۔ ۱۳۶۷ھ/۱۹۴۸ء: مسلم شریف،ترمذی شریف، ابوداود شریف، بخاری شریف، ابن ماجہ شریف، نسائی شریف،طحاوی شریف، شمائل ترمذی، موطا امام مالك، موطا امام محمد۔

            انھوں نے دورئہ حدیث میں جن اساتذئہ كرام سے جو كتابیں پڑھیں اور سالانہ امتحان میں ہر كتاب میں جو نمبرات حاصل كیے، اُن كی تفصیل حسبِ ذیل ہے:

            بخاری شریف ( ۴۲ )ازحضرت شیخ الاسلام مولاناسید حسین احمد مدنی ؒ (۱۲۹۵ھ/ ۱۸۷۹ء-   ۱۳۷۷ھ/۱۹۵۷ء)ترمذی شریف (۴۶) از حضرت شیخ الاسلامؒ ۔ مسلم شریف(۴۰)وطحاوی شریف (۵۰)ازحضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ ۔ ابواداود شریف (۵۰) وشمائل ترمذی (۴۵) از شیخ الادب حضرت مولانا محمد اعزاز علی امروہویؒ ۔ ابن ماجہ شریف (۵۰) از حكیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ   ۔ نسائی شریف (۴۵) وموطا امام مالك (۵۱) از حضرت مولانا فخر الحسن صاحب مراد آبادیؒ (۱۳۲۳ھ/ ۱۹۰۵ء -۱۴۰۰ھ/ ۱۹۸۰ء) موطا امام محمدؒ( ۴۵) از حضرت مولانا محمد ادریس كاندھلویؒ (۱۳۱۷ھ /۱۸۹۸ء-  ۱۳۹۴ھ/ ۱۹۸۲ء)۔

            ان كے باقاعدہ ساتھیوں اور رفقاے درس میں حضرت مولانا محمد منظور نعمانی ؒ (۱۳۲۳ھ /۱۹۰۵ء- ۱۴۱۷ھ/۱۹۹۷ء) كے صاحب زادئہ  كلاں مولانا عتیق الرحمن سنبھلی مدظلہ العالی ہیں جو میدان ادب وصحافت  وقلم كاری كے ممتاز شہ سوار ہیں، جن كی كئی كتابیں علم وادب كےحسین امتزاج كےحوالے سے مثالی حیثیت  ركھتی ہیں۔ مشہور عالم ومفكر وداعی حضرت مولاناسید ابوالحسن ندوی ؒ (۱۳۳۳ھ/۱۹۱۴ء- ۱۴۲۰ھ/۱۹۹۹ء) كے منجھلے بھانجے مشہور عالم دین ومسلم پرسنل لا بورڈ كے صدر وناظم ندوة العلماء حضرت مولاناسید محمد رابع حسنی ندوی زیدت مراتبہم، تفسیر جلالین وہدایہ میں اُن كے رفیقِ درس رہے تھے؛ لیكن انھوں نے دارالعلوم دیوبند میں سماعت كی تھی ، دارالعلوم كے رسمی طالب علم نہ تھے۔

            دارالعلوم سے فراغت كے فورًا بعد ۲۹؍صفر ۱۳۶۹ھ مطابق ۲۳؍نومبر ۱۹۴۹ءسے دارالعلوم میں عربی درجات میں اعزازی طور پر تدریسی خدمت انجام دینی شروع كی۔ ۹شوال ۱۳۷۱ھ مطابق ۱۵؍جون ۱۹۵۲ء كو دارالعلوم میں مستقل مدرس متعین ہوے۔۱۴۰۲ھ- ۱۹۸۲ءتك  درجۂ  زیریں سے درجۂ بالا تك علوم وفنون كی اكثر كتابیں اُن كے زیر تدریس رہیں۔ دارالعلوم میں دوسری انتظامیہ كے قیام كے بعد ۱۵؍رمضان ۱۴۰۲ھ مطابق ۸؍جون ۱۹۸۲ء كو دارالعلوم میں اُن كا تدریسی سلسلہ موقوف ہوگیا۔ ۱۳۶۹ھ/ ۱۹۴۹ء سے ۱۴۰۲ھ/ ۱۹۸۲ء تك ۳۳سال كے عرصے میں دارالعلوم میں جو كتابیں اُن كے زیرِ تدریس رہیں وہ نقشہ ٔ  ذیل سے ظاہر ہیں:

            ۱۳۶۹ھ ۱۹۴۹ء: نورالایضاح،  قدوری، ہدایة النحو، مفید الطالبین،  نفحة الیمن۔ \۱۳۷۰ھ / ۱۹۴۹ء:  قدوری،  نفحة الیمن۔ ۱۳۷۱ھ /۱۹۵۱  ء     :      قدوری،اصول الشاشی، مرقات، شرح تہذیب۔ ۱۳۷۲ھ/۱۹۵۳ء: شرح وقایہ، اصول الشاشی، قدوری، نفحةالعرب۔۱۳۷۳ھ /۱۹۵۴ ء:  شرح وقایہ، نفحة الیمن ، نفحة العرب، نحومیر،شرح مائة عامل،مفید الطالبین۔۱۳۷۴ھ/۱۹۵۵ء:  شرح وقایہ، مرقات،شرح تہذیب، نورالانوار،شرح مائتہ عامل، ہدایة النحو۔ \۱۳۷۵ھ/۱۹۵۶ء: ہدایہ اولین، نورالانوار۔ \۱۳۷۶ھ/۱۹۵۷ء:نورالانوار،شرح وقایہ،ہدایہ اولین۔ ۱۳۷۷ھ/۱۹۵۸ء: نورالانوار، شرح وقایہ، ہدایہ اولین۔ ۱۳۷۸ھ/۱۹۵۹ء: قطبی، ہدایہ اولین، الصف العربی، الانشاء ، ترجمتین۔ ۱۳۷۹ھ/۱۹۶۰ء:   الصف العربی، ترجمہ نصف اول،ہدایہ اولین ۔   ۱۳۸۰ھ /۱۹۶۱ء:  ترجمہ ثانی،قطبی تصدیقات،قطبی تصورات،ہدایہ اولین۔ \۱۳۸۱ھ/۱۹۶۲ء:   نورالانوار،ترجمہ ثانی،شرح عقائد نسفی،  ہدیہ سعیدیہ۔ ۱۳۸۲ھ/۱۹۶۳ء:  ہدیہ سعیدیہ،ترجمہ قرآن نصف ثانی،شرح عقائد نسفی،ہدایہ اولین۔۱۳۸۳ھ/۱۹۶۴ء: نورالانوار،شرح عقائد نسفی،نفحة العرب۔ ۱۳۸۴ھ / ۱۹۶۵ء:   شرح عقائد۔ ۱۳۸۵ھ/۱۹۶۶ء:   جلالین شریف مع الفوزالكبیر۔  ۱۳۸۶ھ/۱۹۶۷ء: جلالین شریف مع الفوزالكبیر۔  ۱۳۸۸ھ/۱۹۶۸ء: جلالین شریف مع الفوزالكبیر،شرح عقائد،مشكوة شریف، نخبة الفكر۔۱۳۸۹ھ/۱۹۶۹ء: مشكوة شریف مع نخبة الفكر،شرح عقائد،اصول الشاشی، جلالین شریف مع الفوزالكبیر۔۱۳۹۰ھ/۱۹۷۰ء:  شرح عقائد، مشكوة شریف نصف اول،جلالین شریف نصف اول۔۱۳۹۱ھ/۱۹۷۱ء: شرح عقائد،عقیدة الطحاوی،جلالین شریف نصف ثانی، الفوزالكبیر،مشكوة شریف نصف ثانی،نخبة الفكر۔ ۱۳۹۲ھ/۱۹۷۲ء: حجة اللہ البالغہ،مشكوة شریف اول مع نخبة الفكر،شرح عقائد مع عقیدة الطحاوی،موطاامام محمد۔۱۳۹۳ھ/۱۹۷۳ء: رشیدیہ، شرح عقائد مع عقیدة الطحاوی،مشكوة شریف نصف ثانی مع نحبة الفكر،ابن ماجہ شریف\۔۱۳۹۴ھ/۱۹۷۴ء: رشیدیہ،مشكوة شریف اول مع نخبة الفكر،شرح عقائد مع عقیدة الطحاوی،ابن ماجہ شریف۔ ۱۳۹۵ھ/۱۹۷۵ء: ابن ماجہ شریف،شرح عقائد، عقیدة الطحاوی،حجة اللہ البالغہ،تفسیر مظہری۔ ۱۳۹۶ھ/۱۹۷۶ء: مشكوة شریف مع نخبة الفكر،شرح عقائد،ابن ماجہ۔۱۳۹۷ھ/۱۹۷۷ء: مشكوة ثانی،تفسیر مدرك،ابوداود ثانی۔ ۱۳۹۸ھ/۱۹۷۸ء: شرح عقائد، ابوداود جلدثانی،بخاری شریف جلدثانی۔ ۱۳۹۹ھ/۱۹۷۹ء: ابوداود  جلداول،بخاری جلدثانی۔۱۴۰۰ھ/۱۹۸۰ء:     ابوداوداول ، بخاری ثانی۔  ۱۴۰۱ھ / ۱۹۸۱ء:    شرح عقائد،ابوداود،بخاری شریف جلد ثانی۔ ۱۴۰۲ھ/۱۹۸۲ء:  شرح عقائد،نسائی شریف،بخاری شریف ثانی۔

            ۱۰؍رجب ۱۴۰۲ھ مطابق ۵؍مئی۱۹۸۲ء كودارالعلوم وقف كے قیام كے بعد یہا ںمنصبِ اہتمام كو زینت بخشنے كے ساتھ بخاری شریف كی تدریس كی سعادت بھی حاصل رہی۔ملكۂ  خطابت وقوتِ تفہیم كی وجہ سے اُن كا درس خاصا مقبول ہوتا تھا۔ دارالعلوم دیوبند میں ہماری طالب علمی كے زمانے میں وہ قدرے فربہ اور دوہرے بدن كے تھے؛ اِس لیے اُن كے قدموں كی چاپ دور سے سنی جاتی تھی، چناں چہ طلبہ درجے میں اُن كی آمد سے قبل ہی مرتب ہوكر اپنی اپنی كتابیں كھول كر سنبھل كر با ادب بیٹھ جاتے تھے۔درازیِ عمر كے ساتھ وہ نحیف اور خاصے خفیف الجسم ہوگئے تھے۔

            اپنے والد حضرت حكیم الاسلام ؒ كے بعد خطابت كے اسٹیج كو اُن كی عالمانہ ، مؤثر ، حكمت قاسمی سے لبریز تقریروں سے جو زنیت ملی، اس كی ایك واضح دلیل یہ ہے كہ ان كا لقب ہی لوگوں كی زبانوں نے ’’خطیب الاسلام‘‘ ركھ دیاتھا، جو ان كی منفرد مقررانہ شخصیت پر بہت موزوں تھا۔ اُنھوں نے برصغیر كے چپےچپے میں ان گنت جلسوں اور اجتماعات اور نجی مجلسوں میں اپنی یكتا موتی ریز خطابت كا جادو جگایا، اِس كے علاوہ دنیا كے دیگر ۳۵ –    ۳۶ ملكوں كے سیكڑوں اجتماعات كو اُن كی بلبل نوائی اور علمی حقائق كی گرہ كشائی سے لطف اندوزی وعلم اندوختگی كا بھر پور موقع ملا۔ ان میں سے بہت سے علمی ودعوتی اسفار والد ماجد حكیم الاسلامؒ كی حیات میں اور ان كی معیت میں ہوے ، جن تقریبات میں دونوں آفتاب وماہ تاب جمع ہوجاتے، وہ علمی حقائق وشرعی احكام كی حكمت بیانیوں كی بے پناہ روشنیوں سے جگ مگا اٹھتی تھیں ، جن كا منظر دیدنی، شنیدنی اور گفتنی ہوتا تھا۔

            ۱۳۸۱ھ/ ۱۹۶۱ء میں اِس راقم كو دربھنگہ ، بہار كے مشہور وتاریخی مدرسہ امدادیہ (بناكردہ بہ دست یكے ازخلفاے حاجی امداداللہ مہاجر مكیؒ: الحاج شیخ منور علی ؒ) كے اجلاس میں مولانا قاسمی ؒ كو اپنے والد ماجد حكیم الاسلام ؒ كے بغل میں اسٹیج پرمذكور الصدر طور پر ہی بیٹھا ہوا دیكھنے كی سعادت حاصل ہوئی تھی، اس وقت اُن كی عمر ۳۵سال تھی اور اُن كے گورے چٹے وجود پر جوانی كا جَوْ بَنْ برس رہاتھا ۔ سارے علما وطلبہ بالخصوص اور عوام بالعموم دونوں حضرات كو ایك نظر دیكھ لینے كے لیے ٹوٹے پڑرہے تھے۔ حقیقت یہ ہے كہ ہم چھوٹی عمر كے بچوں نے اِس سے قبل كبھی اتنے خوب صورت اور اتنے بڑے عالموں كو اور اتنے بڑے مدرسے سے نسبت ركھنے والے ایسے مقرروں كو نہیں دیكھا تھا؛ اس لیے ہماری آنكھیں خیرہ رہ گئیں ۔ پہلے حضرت مولانا محمد سالم ؒ نے تقریر فرمائی ۔ لوگ ان كی روانی ِگفتار اور علمی نكات كی گل افشانی سے ششدر ہورہے تھے ۔ جب حكیم الاسلامؒ نے اپنی تقریر شروع كی تو ایسا لگا كہ كوئی معصوم فرشتہ انسانوں كی مجلس كو خطاب كررہا ہے،جس كے چہرے پر انوار وتجلیات كی  بے طرح بارش ہورہی ہے۔ انھوں نے علم وفضل كے جوموتی اُگلنے شروع  كیے تو سامعین كے دامن اپنی تنگی كی شكایت كرنے لگے۔یہ منظر میری آنكھوں میں آج تك اس طرح بساہوا ہے كہ محسوس ہوتا ہے كہ ابھی كل كی بات ہے۔

            اُن كی تقریریں،علمی بصیرت، منطقیانہ استنباط، فلسفیانہ نتیجہ خیزی، حكیمانہ نكتہ سنجی اور فقیہانہ وعالمانہ وواعظانہ درس انگیزی ومسائل آموزی كا بہترین مركب ہوتی تھیں۔ گفتگومیں حددرجہ روانی اور بہاؤ ہوتا تھا۔ وہ كسی خیال كی ترتیب یا تعبیر كی تشكیل كے لیے كسی وقفے كے دریوزہ گرہوتے ، نہ الفاظ وجملے كے نیازمند، كیوں كہ یہ دونوں چیزیں یعنی افكاروخیالات اور الفاظ وتعبیرات گویا اُن كے گھر كی لونڈی تھیں۔ بات سے بات پیدا كرنا اور كسی موضوع كو شاخ درشاخ كرنے كا ہنر خاندانِ قاسمی كی گھٹی میں پڑا ہوا اور خمیر میں گندھا ہواہے ۔ایك ہی آیت یا حدیث سے كئی طرح كے اُصول اخذ كرنا اور دسیوں طرح كے مضمون باندھنا؛ قاسمی علمی گھرانے كا امتیاز رہا ہے ۔ حكیم الاسلامؒ اور خطیب الاسلامؒ دونوں كے یہاں یہ صنعت گری كمال كو پہنچی ہوئی تھی۔ قرآن پاك كی اُسی آیت سےجس سے سابقہ كسی تقریر میں كسی اور موضوع پر لعل وگہر لٹاتے ہوے آپ نے دیكھا ہوگا ،یاگنجینۂ  احادیث كی كسی ایك حدیث كے خزانے سے جو موتیاں برساتے ہوے مشاہدہ كیا ہوگا،  اُسی آیت اور اُسی حدیث كو كسی اور تقریب میں سنیے تو اب دوسرے موضوع كے لیے وہ دونوں خوب سے خوب تر اور انتہائی چست معلوم ہوں گی۔ وعظ و تقریر كا فن اسی لیے نہ صرف حكیم الاسلامؒ ؛ بل كہ ان كے صاحب زادگان گرامی مولانا سالم ومولانا اسلم پربھی بہت نازاں رہا۔ ان كی تقریریں بلاشبہہ پرمغز ہوتی تھیں ، علم وفكر كالا متناہی دریا رواں ہوتا تھا ، معلومات كا كبھی نہ ختم ہونے والا خزانہ ابلتا ہوا نظر آتا تھا ، سامعین كو محسوس ہوتا تھا كہ وہ بحرزخار كے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔

            مولانا محمد سالم قاسمی ؒ نے شہر ’’برہان پور ‘‘ میں سترہویں فقہی سمینار منعقدہ  ۶ – ۷؍اپریل ۲۰۰۸ء  (۲۹ –   ۳۰ ؍ربیع الاول ۱۴۲۹ھ) میں فقہ اكیڈمی كے سرپرست كے طور پر جو دراز نفس ومفصل تقریر ’’دین اور فقہی مذاہب ومسالك ‘‘ كے موضوع پر فرمائی تھی، اس كا ایك ٹكڑا نذر قارئین ہے ، جس سے اُن كی عالمانہ تفكیر وبصیرت مندانہ تقریر كے انداز كا ذرا بہت اندازہ كیا جاسكتا ہے:

            ’’إِنَّ اللَّہ عَزَّ وَجَلَّ يَبْعَثُ لِہذِہ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةٍ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَہا دِينَہا‘‘(ابو داود: ۴۲۹۱؛ مشكاة المصابیح: ۲۴۷)(اللہ تعالی ہر صدی كے آغاز مین مجددین كو بھیجتا رہے گا، جو یكے بعد دیگرے حالات كے اعتبار سے، دین كو صحیح شكل میں پیش كرتے رہیں گے)

            اس طریقے كی ضرورت اس لیے ہے كہ انسانی فطرت ، تجدید كی حامل ہے۔ ایك نسل كی جدت پسندی، اُس كی تہذیب میں ، تمدن میں، كلچر میں، معاشرت میں، معیشت میں اور اجتماعیت كے پرداز وغیرہ میں رچی بسی ہوئی ہے۔  دوسری نسل آتی ہے، وہ اُس سے آگے بڑھنا چاہتی ہے ۔ ظاہر ہے كہ ایك صدی كے اندر تین یا چار نسلیں گزرتی ہیں ۔ یہ جدت آگے بڑھتی چلی جاتی ہے، یہاں تك كہ نئی صدی میں جو نسل آتی ہے ، وہ پچھلی صدی كی چاروں نسلوں سے آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ اِس كا نتیجہ یہ ہوتا ہے كہ جدّت پسندی كی ذوقی ترقی سے یہ احتمال بھی ہوسكتا ہے كہ دین بھی جدت پسندی كی  زد میں آجائے ، یعنی وہ نسل، دین میں بھی جدت پیدا كرنے پر مائل ہوجائے۔ مثلاً طاعات وعبادات كے مشروع طور پر ، طرزِ طریق میں بھی تبدیلیاں پیداكردی جائیں، ایسے ہی دیگر احكام میں بھی جدتیں سامنے آسكتی ہیں ؛ اِس لیے اِس تجددپسندی كا علاج كرنے كے لیے اللہ تعالی نے مجددین كا سلسلہ قائم فرمایا ، جو آنے كے بعد دینِ قدیم كو بہ دلائل جدید پیش كرتے ہیں ۔ دلائل كی جدت سے نئی نسل كی جدت پسندی كی رعایت بھی ہوجاتی ہے اور دین كی قدامت بھی بحال وبرقرار رہتی ہے۔

            حضرات مجددین كے ان كارناموں پر تاریخ اسلام كی پندرہ صدیوں كو بلاتكلف شاہدِ عدل بناكر پیش كیا جاسكتا ہے، دوسرے یہ كہ ہردور میں نئے شبہات ، نئے سوالات ،  نئے اعتراضات اور نئی تلبیسات سامنے آتی رہی ہیں؛ لیكن حضرات ِ مجددین اُن سب كو ختم كركے ، دین حق اور دین ِ صحیح كو دنیا كے سامنے پیش كرتے رہے ۔ آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گا۔پھر یہ كہ مجددین ہمیشہ كے لیے نہیں آتے ؛ بل كہ كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ   كے تحت، تكمیلِ عمر پر اٹھالیے جاتے ہیں ، ارشاد نبوی ہے كہ

 يَحْمِلُ ہذَا الْعِلْمَ مِنْ كُلِّ خَلَفٍ عُدُولُہ يَنْفُونَ عَنْہ تَحْرِيفَ الْغَالِينَ وَانْتِحَالَ الْمُبْطِلِينَ وَتَأْوِيلَ الْجَاہلين. (مشكاة المصابیح: ۲۴۸)

            ظاہر ہے كہ ایسے لوگ اپنے بڑوں سے اور اپنے اسلاف سے علم حاصل كریں  گے اور اُنھی كے نقشِ قدم پر تبلیغًا جب دین كو دنیا كے سامنے پیش كریں گے ، تو اُن كو اُن لوگوں سے مقابلہ كرنا پڑے گا، جو دین میں اپنی خواہشات كے مطابق ترمیمات اور اپنی تاویلات فاسدہ كے ذریعے؛ دین كی روح كو مجروح كردینا چاہتے ہیں۔ اُن كا علاج كرنے كے لیے حق تعالی ہردور میں ایسے افراد پیدا كرتے رہیں گے، جو دین حق كو صحت كے ساتھ پیش فرماتے رہیں گے ۔ ایك طبقہ آتا ہے ، اُٹھ جاتا ہے اور اُن كے اخلاف اُن كے قائم مقام بن كر پھر وہی كام شروع كردیتے ہیں۔ یہ سلسلہ بحمد اللہ جاری ہے اور قیامت تك جاری رہے گا۔

            سلسلۂ   كلام كو جاری ركھتے ہوے ، مفكرانہ انداز میں آگے ارشاد فرماتے ہیں:

            تحفظ ِ دین كے موضوع سے قبل اولین اہم موضوع یہ ہے كہ بقاے عالم كی بنیاد كیا ہے؛  اگر جو ابًا یہ كہا جائے كہ اس كی بقا انسان كی مادی ترقیات ہیں ، یا وقت ومسافت كو غیر اہم بنادینے والی ایجادات ہیں ، یا اہل فكر ونظر كے افكار ونظریات ہیں۔ اگر ان ہی پر كائنات كا مدارِبقا ہوتا ، تو یہ تمام چیزیں خود باقی رہنے والی نہیں ہیں؛ اِس لیے ان كو عالم كا مدارِ بقا قراردینا كسی معقولیت پر مبنی نہیں ہوسكتا ۔ بقاے عالم كی اصل علَّت وحقیقت ، نظام ربانی كی برقراری ہے ؛ اس لیے كہ نبی كریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّیٰ یُقَالُ فِی الْأرْضِ: اللہ اللہ ‘‘ قیامت اُس وقت تك قائم نہیں ہوگی جب تك زمین میں  اللہ اللہ كا ذكر كیا جاتا رہے گا ۔

            توبقاے عالم كی بنیاد قدرتی نظام كے اتباع كے ذریعے ہی ممكن ہے اور اس كی برقراری یہ ہے كہ اس كے بقاكے لوازم میں سے ظلم كا سدّباب اور خواہشات كی تكمیل كے لیے پیغمبرانہ ہدایات پر عمل ہو ، اُن كی خلاف ورزی سے اُن كے سدّباب كے احكام بڑھ جائیں گے؛ لہٰذا ایك باضابطہ نظام اور بہ صورت فرماں برداری اس میں من جانب اللہ مدد واعانت كے قدرتی نتائج میں عالمی امن وسلام ہے، جس سے انسانی ارتقا اور صحیح معنی میں انسانیت كا تحفظ بھی ہوگا اور ان كا ترك ؛انسانیت پر نا قابل ِ تلافی ظلم ہوگا۔

(باقی آئندہ)

—————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ : 8،  جلد:102‏،  ذیقعدہ- ذی الحجہ 1439ھ مطابق اگست 2018ء

٭           ٭           ٭

Related Posts