حق طلاق سے دستبرداری اور تفویض طلاق
سوال: بعد آداب و احترام ہردلعزیز ادارہ دارالعلوم کے مفتیان عظام سے یہ دریافت کرنا ہے کہ؛
(۱) اگر کوئی حق طلاق سے دستبردار ہونا چاہے تو کیا وہ دستبردار ہو سکتا ہے اور اس کی کیا صورت ہوگی؟ مزید دستبرداری کے باوجود اگر طلاق دے دے تو اس کا کیا حکم ہوگا؟
(۲) اسی طرح طلاق کے حق کو اگر کوئی امارت شریعہ یا کسی انجمن اسلامیہ کے حوالے کرنا چاہے تو اس کی کیا صورت اور احکام ہوں گے ؟
(۳) اگر کسی نے ایک طلاق کا حق تو اپنے پاس رکھا، دو کسی کو تفویض کردیا اس صورت میں اگر وہ اپنی بیوی کو تین طلاق دے دے تو تین طلاق پڑے گی یا صرف ایک؟ جزاکم اللہ خیراً وأبعدکم من کل شر (آمین)
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
حامدًا ومصلیا ومسلّما، الجواب وباللّٰہ التوفیق والعصمۃ:
(۱) ’’طلاق‘‘ شوہر کا ایک ’’بنیادی حق‘‘ہے، حدیث میں ہے ’’إنما الطلاق لمن أخذ بالساق‘‘ (ابن ماجہ) یہ حق کبھی ختم نہیں ہوتا، یہاں تک کہ اکر شوہر اپنی بیوی یا کسی اور فرد کو طلاق واقع کرنے کا اختیار سپرد (تفویض) کردے پھر بھی شوہر کا اپنا یہ حق برقرار رہے گا یعنی اگر تفویض کے بعد شوہر از خود پہلے ہی طلاق دیدے تو اس کی طلاق واقع ہوجائے گی، حاصل یہ ہے کہ شوہر کے لیے حقِ طلاق سے کلی طور پر دستبردار ہونے کی کوئی شکل شرعاً متصور نہیں ہے۔
(۲) ’’امارتِ شرعیہ‘‘ یا کسی انجمن کو حقِ طلاق سپرد کرنے کی یہ صورت ہوسکتی ہے کہ شوہر بعد نکاح زبانی یا تحریری طور پر یہ کہہ دے (مثلاً) میری طرف سے فلاں فلاں خلاف ورزی پائی جانے کی صورت میں امارتِ شرعیہ یا فلاں انجمن کو یہ حق ہوگا کہ میری بیوی پر ایک ؍ دو ؍ تین طلاق واقع کردے، ایسی صورت میں شوہر کی شرط کے مطابق امارت ؍ انجمن اس کی بیوی پر ایک طلاق واقع کردے تو شرعاً طلاق واقع ہوجائے گی؛ لیکن اس تفویض کے بعد بھی شوہر کا اپنا حق ختم نہ ہوگا۔ تفویض طلاق کی مختلف صورتیں ’’الحیلۃ الناجزہ‘‘ (حضرت تھانوی رحمہ اللہ) میں مذکور ہے، اسے ملاحظہ فرمالیں۔
(۳) تینوں طلاق پڑجائے گی؛ کیونکہ طلاق کے سلسلے میں شوہر کے حق کو نہ ختم کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کم کیا جاسکتا ہے۔
فقط واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
محمد اسد اللہ غفرلہ
دارالافتاء دارالعلوم دیوبند
۲۴؍۱۱؍۱۴۳۸ھ =۱۸؍۸؍۲۰۱۷ء پنجشنبہ
الجواب صحیح:
زین الاسلام قاسمی الٰہ آبادی، محمد نعمان سیتاپوری غفرلہ
مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
====================
سوال:آج کل کے دور میں ہر طرف کسمپرسی اور خود غرضی اور اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ … کے احکامات کے خلاف اعلانیہ جنگ جاری ہے۔ اس دور میں جہاں اور بہت سے خلافِ شریعت کام ہورہے ہیں وہاں والدین کی جائیداد میں غیرمنصفانہ تقسیم بھی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ ہورہی ہے۔ اس ناانصافی کی وجہ سے معاشرہ انحطاط کا شکار ہے حتیٰ کہ سیکڑوں قتل بھی ہوچکے ہیں۔ بعض والدین اپنی زندگی ہی میں اپنی جائیداد بیٹوں کے نام کردیتے ہیں؛ تاکہ اُن کے مرنے کے بعد ان کی بیٹیاں جائیداد کی حصہ دار نہ بن جائیں۔ میری سات بہنیں اور دوبھائی ہیں، (میرے والد محترم گائوں کے نمبردار ہیں اور دس ایکڑ زمین جو کہ انھیں ان کے والد مرحوم کی وراثت سے ملی تھی کے مالک ہیں)۔ میرے والد محترم نے اپنی زندگی میں ہی اپنی ملکیتی دس ایکڑ میں سے تین ایکڑ دو کنال ہر بیٹے کے نام منتقل کردی ہے، باقی تین ایکڑ چار کنال رہتی؛ لیکن آٹھوں بیٹیوں میں سے کسی کو بھی زمین میں سے حصہ دینے سے انکاری ہیں۔ اس حوالے سے میں نے علمائے دین ومفتیان کرام سے چند سوالات کیے ہیں قرآن مجید و سنت نبوی … سے باحوالہ درکار ہیں امید ہے میری صحیح رہنمائی فرمائی جائے گی۔
سوال ۱: وراثت کسے کہتے ہیں اوراس کا اجراء کب لاگو ہوتا ہے؟
سوال ۲: وراثت میں بیٹی اور بیٹے کاکتنا حصہ ہے؟
سوال ۳: اگر والدین اپنی زندگی میں ہی اس کی تقسیم کرنا چاہیں تو پھر بیٹی اور بیٹے کو کتنا حصہ ملے گا؟ اور اس کی نوعیت کیا ہوگی؟
سوال ۴: والدین کی کون کونسی جائیداد بیٹی اور بیٹے میں تقسیم کی جائے گی؟
سوال ۵: اگر والدین جائیداد سے بیٹیوں کو محروم کردیں تو کیا بیٹی اپنے شرعی حصہ کا مطالبہ کرسکتی ہے؟ اوراگر مطالبہ کرنے کے باوجود بھی والدین اس کو حصہ نہ دیں تو کیا وہ عزیز واحباب اور عدالت کے پاس جاسکتی ہے؟
اس میں والدین کی گستاخی تو نہیںہوگی؟
سوال ۶: جووالدین اپنی بیٹیوں کو حصہ نہیں دیتے، کیا وہ گنہگار ہیں؟ (جب کہ ان کی وہ بیٹیاں نیک، صالحہ، پابند صوم وصلوٰۃ ہوں اور والدین کا احترام بھی ملحوظ خاطر رکھنے والی ہوں) اور ایسے والدین سے قبر اور مرنے کے بعدان کے ساتھ کیسا سلوک ہوگا؟
سوال ۷: اگر والدین بیٹیوں کا حصہ بیٹوں کو دے دیں تو کیا بیٹوں کا یہ وصول کردہ مال حرام ہوگا یا حلال؟ اور ان کے گھر سے دوسروں کا کھانا کیسا ہوگا؟
سوال ۸: اگر والدین یہ کہہ دیں کہ ہم نے اس بیٹی یا بیٹے کو عاق کردیا ہے۔ کیا عاق کیاگیا بیٹا یا بیٹی جائیداد سے مستقل محروم ہوجائیںگے؟ جب کہ ان بچوں میں کوئی غیرشرعی اور غیراخلاقی قباحت بھی نہ ہو۔
سوال ۹: اور میری والدہ محترمہ کا وراثتی حصہ جو اس کے ماں باپ کی طرف سے اُنھیں ملا ہو، اس کی وراثتی تقسیم کس طرح ہوگی؟ کیا وہ کسی ایک بیٹا یا بیٹی کو اپنا حصہ دے سکتی ہے؟
(مستفتیہ: زوجہ محمد ارشد)
فیصل آباد- پاکستان
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
حامدًا ومصلیا ومسلّما، الجواب وباللّٰہ التوفیق والعصمۃ:
(۱) کسی کے انتقال پر اس کے متروکہ مال میں ورثاء (بیوی، اولاد، والدین وغیرہ) کا جو حق وحصہ ہوتا ہے اسے ’’حقِ وراثت‘‘ کہتے ہیں، اس کا اجراء مورث کے انتقال کے بعد ہوتا ہے۔
(۲) اصحابِ فروض مثلاً ماں، بیوی وغیرہ کو حصہ دینے کے بعد جو کچھ بچے وہ سارا کا سارا بیٹے بیٹیوں کے درمیان للذکر مثل حظّ الانثیین یعنی بیٹے کو بیٹی کا دوگنا کے اصول کے مطابق تقسیم ہوگا۔
(۳،۴،۵،۶،۷) باپ کے انتقال پران کی ملکیت میں جو کچھ بھی مال (مثلاً مکان، دوکان، پیسہ، زمین اور اثاثہ وغیرہ) ہوگا سب میں وراثت جاری ہوگی، بیٹے بیٹیاں نیز دیگر ورثا (اگر ہوں) سب کا اس میں حق ہوگا؛ البتہ زندگی میں باپ اپنے مال کا مالک ہوتا ہے، وہ اس میں حسب منشا تصرف کرسکتا ہے، اولاد کواس میں اعتراض کا کوئی حق شرعاً نہیں ہے؛ کیونکہ اولاد کا حق باپ کے مال میں، وفات کے بعد متعلق ہوتا ہے؛ ہاں اگر باپ چاہیں تو زندگی میں بھی اپنی جائیداد اولاد کے درمیان تقسیم کرسکتے ہیں، ایسی صورت میں میراث کے ضابطے کے مطابق بھی تقسیم کرسکتے ہیں؛ لیکن افضل یہ ہے کہ بیٹے اور بیٹیاں سب کو برابر دیں؛ باقی بچوں کی ضرورت یا ان کی خدمت وغیرہ کے پیش نظر کم وزیادہ بھی کرسکتے ہیں؛ لیکن اولاد میں سے بعض مثلاً بیٹوں کودینا اور بیٹیوں کو بالکلیہ محروم کردینا جائز نہیں، مکروہ ہے، ایسا کرنے پر باپ گنہگار ہوگا؛ لیکن باپ اگر اس مکروہ کا ارتکاب کرلے اور صرف بیٹوں کے درمیان جائیداد تقسیم کردے اور ہر ایک کو اس کے حصے پر قبضہ دخل بھی دیدے تو بیٹے اس کے مالک ہوجائیںگے اور بیٹوں کے حق میں باپ کا دیا ہوا مال ’’حلال‘‘ ہوگا، باپ کا یہ عمل گو باعث گناہ ہو؛ لیکن چونکہ وہ اپنے مملوکہ مال میں حسب منشاء تصرف کرنے کا شرعاً مجازہے؛ اس لیے اس صورت میں بیٹیوں کے لیے باپ کے خلاف عدالتی کارروائی کرنا یا باپ کے ساتھ بے احترامی کا معاملہ کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔
(۸) ’’عاق‘‘ کرنا شرعاً معتبر نہیں ہے، اگر باپ کاغذی کارروائی وغیرہ کے ذریعے کسی بیٹے یا بیٹی کو عاق کردیں تب بھی وہ باپ کی وفات پر شرعاً وارث ہوںگے۔
(۹) جب تک والدہ باحیات ہیں وہ حصہ ان کا مملوک رہے گا، ان کی وفات کے بعد نمبر۱ کے تحت ذکر کردہ اصول کے مطابق تقسیم ہوگا، اگر والدہ زندگی ہی میں تقسیم کرنا چاہیں تو انھیں اس کا بھی اختیار ہے؛ البتہ ایسی صورت میں انھیں چاہیے کہ تمام بیٹے بیٹیوں کو دیں، بعض کو دینا اور بعض کو بالکلیہ محروم کردینا مکروہ اور گناہ ہے؛ لیکن اگر وہ ایسا کرلیں تو شرعاً ان کا تصرف نافذ ہوجائے گا۔
فقط واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
محمد اسد اللہ غفرلہ
دارالافتاء دارالعلوم دیوبند
۱۰؍۲؍۱۴۳۹ھ =۳۱؍۱۰؍۲۰۱۷ء پنجشنبہ
الجواب صحیح:
زین الاسلام قاسمی الٰہ آبادی، محمد نعمان سیتاپوری غفرلہ
مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
——————————————
دارالعلوم ، شمارہ : 8، جلد:102، ذیقعدہ- ذی الحجہ 1439ھ مطابق اگست 2018ء
٭ ٭ ٭